مقالاتِ شبلی میں دینی فکر اور سماجی مسائل
ڈاکٹر ارشاد نیازی
اسسٹنٹ پروفیسر،شعبۂ اردو ، دہلی یونیورسٹی ، دہلی7-
Mob.No: 9650467303
Email:niaziirshad@yahoo.com
سب جانتے ہیں کہ شبلی میں بے پناہ تحقیقی ، تنقیدی ، تخلیقی اور تصنیفی صلاحیت موجود تھی ، جس کا اظہار مختلف اصناف میں ہوا ہے ۔ جیسے شاعری ، تنقید ، تاریخ ، سیرت و سوانح ، سفر نامہ ، علم کلام ، خطوط ، مضامین و مقالات اور بہت کچھ ۔ مثلاً معارف کی ادارت ، دارالمصنفین کی قیادت وغیرہ وغیرہ ۔ فی الحال میرا سروکار شبلی کے مقالات سے ہے ۔ اس لئے اپنی کائنات کو سمیٹ کر مقالات کی دنیا میں چلتے ہیں۔ لیکن ایک بات میرے ذہن میں آ رہی ہے کہ ’’ مقالہ ‘‘ کیا ہے ؟ اس لئے کہ مقالہ کا تصّور جب تک ذہن و فکر میں صاف اور واضح نہیں ہوگاتب تک شاید ہم شبلی کے مقالات کے ساتھ انصاف نہیں کر سکیں گے ۔
مقالہ اردو نثر کی ایک معروف صنف ہے ۔ اردو میں اس کی روایت نہایت تابناک اور شاندار رہی ہے ، جس کا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے ۔ اپنے موضوع اور ہیئت کے اعتبار سے یہ مضمون سے سب سے زیادہ قریب ہے ۔ اس کے باوجود مقالہ عالمانہ اورمفکرانہ دانش کا پَر تو ہے کیونکہ اس کے درون میں علم و ادب ، فکر و فلسفہ اور حکمت و منطق کی ایک بڑی دنیا آباد ہوتی ہے۔ علمیت اس کی روح اور تحقیق و تدقیق اس کا جسم ہوتا ہے ۔ سنجیدگی ، بُردباری اور اعتدال اس کی سا نسیں ہیں۔اسلوب مقالہ کا دل ہوتا ہے ، جسے مقالہ نگار پُرشکوہ الفاظ اور پُر وقار عبارت سے ممتاز اور مہتمم بالشان بناتا ہے ۔اس لئے مقالہ نگار کے لئے صاحبِ اسلوب ہونا ضروری ہے ۔ وہ اس لئے کہ اسلوب کا عمل، رہنما اصولوں کا عمل ہے جو قاری کو گمراہ ہونے اور بھٹکنے سے روکتا ہے ۔یہی وہ عمل ہے جس سے موضوع کا ہر گوشہ سَجل ، سَجگ اور منوّر و روشن ہوتا ہے اور قاری کی معلومات میں خاطر خواہ اضافہ بھی۔ اس لئے مقالہ لکھنے کے لئے موضوع کا عالم ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبِ اسلوب ہونا بھی شرط ہے ، جو عبارت ہے ، پُر شکوہ الفاظ اور منفرد عبارات سے ۔ایسے میں مقالہ نگاری کے لئے دانشوری کے ساتھ ہُشیاری اور تجربہ لازم آتا ہے ۔
ایسا نہیں ہے کہ مقالہ میں بالکل انوکھی اور نئی بات پیش کی جاتی ہے ۔ البتہ تلاش شدہ یا موجودہ حقیقتوں کو مقالہ ایک نئی شکل فراہم کرتا ہے ۔ اس نئی شکل کی یافت اور دریافت میں مقالہ نگار علم ، تحقیق ، استدلال ، ثبوت اور شواہد کا استعمال کرتا ہے ، جس سے مقالہ میں عرفان و آگہی کی ایک نئی دنیا تعمیر ہوتی ہے۔بس یہ جانئے کہ مقالہ میں کوئی بات بغیر تحقیق اور ٹھوس ثبوت کے پیش کرنا ممنوع ہے۔ یعنی معتبر شواہد کے ساتھ مستند حوالے اور دلائل کا ہونا نہایت ضروری ہے، جس کے جِلو میں تحقیق اپنا کام کرتی ہے ۔
دیکھنا یہ ہے کہ ان معیارات پر شبلی ؔ کے مقالات کھرے اترتے ہیں کہ نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ شبلی کے مقالات موضوعات کے اعتبار سے آٹھ جلدوں پر مشتمل ہیں۔ پہلا مذہبی ، دوسرا ادبی ، تیسرا تعلیمی ، چوتھا تنقیدی ، پانچواں اور چھٹّا تاریخی ، ساتواں فلسفیانہ ، آٹھواں سیاسی ، معاشرتی اور اصلاحی ۔ ہمیں ان آٹھ جلدوں میں سے پہلی جِلد کا مطالعہ کرنا ہے، جس کا موضوع مذہبی ہے ۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ شبلی کے سامنے ہر کام ، عمل اور کتاب کے لکھنے کے وقت کچھ مقاصدہوتے تھے۔یہی مقاصد مقالات لکھنے کے درون میں بھی کارفرما رہے ہیں۔ جیسے:
• ان مقالات کا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ جو شبلی کی کتابوں کا مطالعہ اپنی مصروفیت کی وجہ سے نہ کر سکیںوہ کم سے کم ان مقالات کا ہی مطالعہ کریں جس میں اصلاحی تفاعل اور جذبۂ اسلامی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
• ۱۸۵۷ کے بعد مسلمانوں میں جو ناامیدی اور مایوسی پیدا ہوئی ہے اسے دور کیا جائے ۔
•شاندار ماضی کے نقوش جو علوم و فنون میں درجۂ کمال پر تھے ۔ان کی یافت اور تحقیقات کی جائے تاکہ مسلمان اپنے اسلاف کے علمی کارناموں سے واقف ہو سکیں۔
•مغربی اقتدار ایک طرف مسلمانوں کے دنیاوی فتوحات کے قدم میدانِ جنگ میں روک رہے تھے تو دوسری طرف مغربی اہلِ قلم نے علمی دنیا کو بھی اسلام اور اس کے ایمان و عقیدے سے بدظن اور گمراہ کرنے کی مہم شروع کر رکھی تھی ۔
•مغرب کے مذہبی علماء نے محمدؐ کی زندگی کو مسخ اور سیرت کو توڑمروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ سیرتِ نبویؐ اور اخلاقِ نبویؐ سے دنیا بدگمان ہو جائے ۔
• اسلام کو ایک جابر و ظالم اور اسلامی تاریخ کو وحشت و بربریت کی تاریخ ثابت کرنے میں مغربی دانشور اپنے قلم کی تمام قوتیںصَرف کر رہے تھے ۔ اس لئے کہ خود مسلمانوں کی نظر میں اسلام کی وقعت اور اہمیت کم ہو جائے یا شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جائیں ۔
• مسلمان نوجوان یعنی انگریزی خواں طبقہ جو مغربی تہذیب و تمدن کی چمک دمک میں کھوئے جا رہے ہیں۔انہیں اپنے روشن ماضی سے روشناس کیا جائے۔
•ہم وطنوں نے بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ ہندو پر چارک اسلامی تعلیمات کو مسخ کرکے پیش کرتے تھے۔ اسلام پر نکتہ چینی کرتے اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔
•’’ہندوستانی خیرخواہیٔ سرکار کی آڑ میں مسلمانوں سے دل کھول کر بدلہ لے رہے تھے اور اگلے پچھلے بغض نکال رہے تھے۔‘‘
شبلی نے اس صورتِ حال کا بخوبی جائزہ لیا اور یوروپین مصنفین کے الزامات کے جواب لکھنے کا سلسلہ شروع کیا ۔اسلامی علوم ، اس کے فیوض و برکات ، اساطین اسلام کے کارناموں اور مسلمانوں کے تہذیب و تمدن کو اپنے مقالات کا موضوع بنایا تاکہ لوگوں کے شکوک و شبہات دور ہو سکیںاور ناصاف ذہنوں کو پاک صاف کرنے میں یہ مقالات معاون ہوں۔
مقالاتِ شبلی جلد اوّل کے پہلے مقالہ کا عنوان ’’ تاریخ ترتیب قرآن ۔ قرآن مجید کا نزول اور جمع و ترتیب ‘‘ ہے ۔محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر جیسے جیسے بڑھتی جاتی تھی ،آپؐ کا جی دنیاوی معاملات سے ہٹتا جاتا تھا۔آپؐ جستجوئے حق کی تلاش میں پہاڑ۔صحرا میں پھرنے لگے اور مکّہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک غار تھا، ’’غارِ حرا ‘‘ ۔ اس میں ’’ مراقبہ و مجاہدہ ‘‘ کو اپنا معمول بنا لیا ۔ کھانا ساتھ لے جاتے ، کئی کئی دن عبادت میں گذارتے، جب کھانا ختم ہوتا تو گھر واپس آ جاتے ۔ یہ سلسلہ در سلسلہ چلتا رہا کہ ایک فرشتۂ یزدانی نظر آیا ، اس وقت آپ کی عمر ۴۰ سال کے قریب تھی ۔اس نے پڑھنے کے لئے کہا ، آپؐ نے کہا ، پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔ اس نے زور سے اپنے بغل میں بھینچا اور کہا کہ پڑھ ، آپ نے پھر کہا ، مجھے پڑھنا نہیں آتا ہے اور تیسری دفعہ اس نے یہ آیتیں پڑھنے کی فرمائش کی اقراء باسم ربّک الّذی خَلَقَ۔‘‘ اس واقعہ کے بعد گھر واپس آئے اور حضرت خدیجہ سے سارا واقعہ بیان کیا ، خوف کا احساس ابھی بھی باقی تھا ۔حضرت خدیجہ نے تسلی دی اور اپنے چچا ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ آپؐ نے ورقہ سے سارا ماجرا بیان کیا جسے سُن کر سب سے پہلے اس نے آپ کے نبی ہونے کی خبر دی اور یہ بھی کہا کہ کاش میں جوان ہوتا اور جب آپ کی قوم مکہ سے آپ کو نکالنا چاہتی تو میں آپ کے کام آ سکتا۔
اس کے بعد تین سال تک آپ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی ۔ ایک دن آپؐ نے آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی ، جب نظر آسمان کی طرف کی تو وہی فرشتہ آسمان اور زمین کے بیچ ایک کرسی پر بیٹھا نظر آیا ۔ آپؐ پر اس کا رعب طاری ہوا ، گھر واپس آئے اور حضرت خدیجہ سے کہا کہ مجھے کچھ اوڑھا دو ۔ اس وقت یہ آیتیں نازل ہوئیں’’ اے کپڑوں میں لپٹے ہوئے اٹھ لوگوں کو ڈرا ، خدا کی بڑائی کر ، کپڑے پاک کر ڈال اور ناپاکی سے الگ ہو جا ۔( المدثر ۷۴:۱- ۵)
اس کے بعد وحی کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ جب کوئی آیت اترتی آپؐ کسی پڑھے لکھے صحابی کو بلا کر وہ آیت لکھوا دیتے تھے۔ اس زمانہ میں جن چیزوں سے کاغذکا کام لیا جاتا تھا حسب ذیل تھیں: کھجور کی شاخ ، پتھر کی پتلی تختیاں ، اونٹ یا بکری کی چوڑی ہڈّی اور چمڑا وغیرہ
قرآن مجید کی جمع و ترتیب کے متعلق جو روایتیں منقول ہیں۔ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے تک قرآن مجید کی سورتیں اور آیتیں ایک مجموعہ کی شکل میں مدوّن ہو چکی تھیںلیکن کوئی ترتیب نہ تھی۔ یہ سلسلہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے زمانہ میں حضرت عمرؓ کی تحریک سے شروع ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ خلافت کا پہلا سال تھا۔یمامہ کی لڑائی میں بیشتر حفاظِ قرآن شہید ہوئے ۔ حضرت عمرؓ نے خلیفۂ اول ابو بکرؓ سے کہا کہ اگر حفاظ اسی طرح شہید ہوتے رہے تو قرآن کا بہت سا حصہ جاتا رہیگا۔شروع میں تو حضرت ابو بکرؓ تیار نہ تھے لیکن حضرت عمرؓ کی دلیل کو مان گئے۔ انہوں نے کاتِب وحی زیدبن ثابت کو بلا کر اس کام پر مامور کیا۔
حضرت عمرؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں قرآن مجید کے حفظ و اشاعت کا نہایت اہتمام کیا۔ تمام ممالکِ مفتوحہ میں قرآن مجید کا درس جاری کیا اور معلّموں اور قاریوں کی تنخواہیں مقرر کیں۔ خانہ بدوش بدویوں میں قرآن کی جبری تعلیم جاری کی ۔ قرآن سیکھنے والوں کے وظیفے مقرر کئے۔ اشاعتِ قرآن کی اور بھی بہت سی تدبیریں اختیار کیں۔
حضرت عثمان غنیؓ سے قبل قرآن مختلف قرأتوں سے پڑھا جاتا تھا۔حضرت عثمان نے یہ کیا کہ ابوبکرؓ کے نسخہ کی چند نقلیں کرائیں اور مختلف صوبوں میں بھیج دیں کہ ان کے موافق پڑھا جائے ۔ یعنی حضرت عثمانؓ نے یہ کیا کہ لوگوں کو ایک خاص قرأت پر مجبور کیا۔ باقی قرأتوں کے جہاں کہیں جو اجزاء ملے انہیں چاک کر دئیے یا جلا ڈالے۔ لیکن فتح الباری جلد ۹ صفحہ ۱۶ کے مطابق قرآن کے غیر مرتب نسخے خرقہ کی طرح لپیٹ کر رکھ دئیے گئے تاکہ اب ان سے کام نہ لیا جائے ۔
حضرت عثمان غنیؓ نے اگرچہ چند نقلیں قرآن مجید کی شائع کیںلیکن اس وقت تک قرآن میں اعراب ( زیر ۔ زبر ۔ پیش ) نہیں ہوتے تھے ۔عربوں کو تو اس کی کچھ ضرورت نہیں تھی ، ان کی زبان تھی ۔ وہ ہر حال میں صحیح پڑھ سکتے تھے اور پڑھتے تھے۔ لیکن جیسے جیسے اسلام پھیلتا جاتا تھا اور نئی نئی قومیں اسلام میں داخل ہوتی جاتی تھیں۔ الفاظ کے اعراب ، تلفظ اور قرأت میں اختلاف ہوتا گیا اور یہ اختلاف بڑھتا گیا ۔ یہاں تک لوگوں نے حضرت عثمانؓ سے شکایت کی کہ قرآن کی خبر لیجئے ورنہ اس کی حالت بھی توریت اور انجیل والی ہو جائیگی ۔ یہ کام حجاج بن یوسف نے اپنے کاتبوں نصر بن عامر یا یحیٰ بن یعمر سے کروایا۔
قرآن کا معجزہ کیا ہے ؟ ۱۴ سو سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا۔ ان برسوں بلکہ صدیوں میں یہ آواز گونجتی رہی ہے کہ قرآن کا جواب نہیں ہو سکتا ۔ بات بالکل صحیح ہے ، اس بات پر سب کا اتفاق بھی ہے لیکن جب یہ سوال کیا جائے کہ اس کا جواب کیوں نہیں ہو سکتا یا قرآن کے اعجاز کی بنیاد کیا ہے ؟ تو جواب میں اختلاف ابھر کر سامنے آنے لگتا ہے ۔ کوئی کہتا ہے یہ انسانی کلام نہیں ہے یا اس میں پیشن گوئیاں کی گئی ہیںیا قرآن لوگوں کے مخفی رازوں کا حال بتا دیتا ہے ۔ کچھ لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ جب کوئی قرآن کا جواب لکھنا چاہتا ہے تو خدا اس کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے۔ ان سب میں یہ رائے سب پر بھاری ہے کہ قرآن چونکہ فصاحت و بلاغت میں بے نظیر اور انشاء پردازی کے ساتھ تحریر کے زور میں بے مثال ہے ۔اس لئے کلامِ الٰہی ہے اور اس کا جواب نہیں ہو سکتا اور یہی قرآن کا معجزہ اور اعجاز ہے۔’’اعجاز قران ‘‘ میںشبلی ان تمام آرا سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قرآن کا معجزہ کیا ہے؟ کیوں نہ اس کا جواب قرآن سے پوچھا جائے ۔ وہ اس لئے بھی کہ قرآن نے خود دعویٰ کیا ہے کہ ’’ تمام عالم اس کی نظیر نہیں لا سکتا ۔‘‘
خدا نے قرآن کی نسبت نہایت کثرت سے مختلف اوصاف خود بیان کئے ہیں:
۱۔قسم ہے قرآن کی جوکہ حکیم ہے اور قرآن جو کہ ناصح ہے ۔(سورۂ یٰسین )
۲۔ایسی کتاب جو سچ بولتی ہے (مومنون )
۳۔ رہنمائی کے لئے دلائل ہیں۔ (بقرہ )
۴۔روشن کتاب ہے ۔(نمل) ۔
۵۔خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا ہے ۔(بقرہ)
۶۔ڈرنے والے کے لئے نصیحت ہے۔ (طہٰ)
۷۔ پرہیزگاروں کی رہنما ہے۔ (بقرہ)
۸۔اس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیںجو اپنے خدا سے ڈرتے ہیں۔
شبلی کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی فضیلت کے بیان میں اس کو ناصح ، رہنما ، بشیر ، نذیر ، نور، حکیم ، واضح سب کہا گیا لیکن فصاحت و بلاغت کا کہیں نام تک نہیں آیا اورغور کرو تو وہی چیز چھوڑ دی گئی جو (لوگوں کے نزدیک) مدارِ اعجاز ہے ۔ کیا ہدایت اور حکمت کے لحاظ سے کوئی کتاب قرآن کا جواب ہو سکتی ؟ نہیں ہو سکتی ہے تو یہ اوصاف کیوں معجزہ نہ ہو اور وہ وصف معجزہ ہو ، جس کا ذکر تک قرآن میں نہیں آیا ہے ۔ اس کے بعد شبلی کہتے ہیں کہ بے شک فصاحت و بلاغت میں بھی قرآن کا جواب نہیں ہو سکتا لیکن قرآن کا رہنمائے عالم ہونا معجزہ تو ہو سکتا ہے نہ کہ نثّاری اور انشاء پردازی ۔اس کے بعد معجزہ کی دو قسمیں بتائی ہیںاور اسے آسان اور سہل زبان میں سمجھایا ہے۔جیسے ایک شخص کہتا ہے کہ میں فارسی زبان جانتا ہوںاور دلیل یہ پیش کرتا ہے کہ میں ایرانی ہوں۔ اس کے مقابلہ میں ایک دوسرا شخص یہی دعویٰ کرتا ہے لیکن دعویٰ کو فارسی ہی زبان میں ادا کرتا ہے کہ ’’ من فارسی را خیلے خوب می دانم ‘‘ یہ دعویٰ ، دعویٰ بھی ہے اور دلیل بھی ۔مطلب یہ کہ قرآن مجید کو فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے اگر معجزہ قرار دیا جائے تو یہ ایسا معجزہ ہے جو نبّوت کا خاصّہ نہیں کیونکہ انشاء پردازی لازمۂ نبوت نہیں ہے لیکن قرآن مجید کو تزکیۂ نفس اور حکمت کے لحاظ سے معجزہ کہا جائے تو یہ معجزہ بھی ہوگا اور خاصۂ نبوت بھی ۔
مسلمانوں میں کئی فرقے ہیں۔ ان فرقوں میں بھی کئی گروہ ہیں۔ حیرت یہ ہوتی ہے کہ سب فرقے ایک دوسرے کو گمراہ اور بددین سمجھتے اور کہتے ہیں۔ اسی سمجھ کی وجہ سے دنیا میں مسلمانوں پر آفت ، مصیبت اور زوال آیا ہوا ہے۔ ایسی نااتفاقیوں اور اختلافات کے ساتھ بھلا کیسے کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے ۔اس موضوع کو مقالہ ’’اختلاف و مسامحت ‘‘ میں تاریخی حوالے سے منطقی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ آج ہندوستان میں مسلمانوں کی جو حالت اور دُرگت ہے اس کے درون میں یہی اسباب ہیں۔ اچھا ،اچھی بات یہ بھی ہے کہ بیشتر مسلمان اس حالت کی وجہ کو سمجھتے ہیں۔ اس کے باوجود اتحاد کی کوئی مضبوط کوشش نظر نہیں آتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ’’ کیا سلف میں اختلاف تھا ؟ یا ’’ اختلاف کے ساتھ اتحاد ممکن ہے ؟ یا نہیں؟ ‘‘ پہلے سوال کا جواب شبلی کے لفظوں میں :
’’ جب آفتابِ اسلام کی دوپہر تھی ، جب ایک طرف تیغ و سنان نے اسپین اور سندھ کے ڈانڈے ملا دئیے تھے اور دوسری طرف صریر قلم نے مصر و یونان کے خفتہ علوم و فنون کو جگا دیا تھا ، اس وقت قدری ، جبری ، معتزلی ، جہمی وغیرہ وغیرہ اس قدر بے شمار فرقے تھے کہ بہ مشکل ان کو ۷۳ کے عدد میں محصور کیا گیا ، ان فرقوں میں جو اختلاف تھا ، اس کی یہ کیفیت ہے کہ ایک دوسرے کو کافر بلکہ کافر سے بدتر کہتا تھا اور گمراہ و مرتد و زندیق کہنا معمولی بات تھی ۔‘‘ ( اختلاف و مسامحت۔ ص۔۳۳۔۲۳۲)
اس بات کی تائید و شہادت کے لئے شبلیؔ امام بیہقی کی کتاب ’’ کتاب الاسماء والصفات ‘‘ کے حوالے کے ساتھ ساتھ امام بزدوی ، علامہ ذہبی ، علامہ ابن البر وغیرہ کی کتابوں سے شواہد پیش کئے ہیں اور بتایا ہے کہ عروج اسلام کے زمانے میں اختلافِ عقائد کی کیا حالت تھی لیکن اس وقت اس بات کو سمجھتے تھے لوگ کہ اختلاف کے ساتھ بھی مشترکہ اغراض میں اتحاد ممکن ہے جس کی طرف قرآن نے خود اشارہ کیاہے :
’’ اگر وہ دونوں (ماں باپ ) یہ کوشش کریں کہ تو ہمارا شریک اس چیز کو بنائے ، جس کا تجھ کو علم نہیں تو ، تو ان کا کہا نہ مان لیکن دنیا میں تو ان سے اچھی طرح پیش آ۔ ‘‘ ( لقمان ۳۱: ۱۵) اختلاف مسامحت ص ۲۳۶ )
قرآن کی اس آیت کو شبلی نے اپنے طور پر اس طرح سمجھایا کہ ایک شخص مسلمان ہے اور اس کے ماں باپ مشرک اور کافر ہیں ،وہ چاہتے ہیں کہ اپنے بیٹے کو بھی مشرک اور کافر بنا لیں ، اس حالت میں خدا حکم دیتا ہے کہ کفر اورشرک میں ان کا کہنا نہیں تسلیم کرنا چاہئے لیکن اس سے ان کے حقوقِ پدری زائل نہیں ہو جاتے۔اس لئے دنیاوی معاملات میں ان کا ادب و لحاظ اسی طرح ملحوظ رکھنا چاہئے جو عموماً والدین کا حق ہے۔ ‘‘
اس آیت اور اس کے مفہوم نے بتا دیا کہ اختلاف اور اتفاق کے حدود الگ الگ ہیں۔ ممکن ہے کہ مذہب کے معاملے میں اختلاف ہو لیکن دوسرے معاملات میں اتحادی اصول پر عمل کیا جائے گا ۔ قرآن کا یہ اصول مسلمانوں کے لئے ہر ملک ، ہر معاشرے اور ہر زمانے کے لئے یکساں سود مند ہے ۔ اسے مزید سمجھانے کے لئے شبلیؔ نے کئی مثالیں پیش کی ہیںاور بتایا ہے کہ قرونِ اولیٰ اسی اصول پر کاربند رہا ۔ مثلاً محدثین قدریہ ، جبریہ ، معتزلہ اور شیعہ وغیرہ کو گمراہ اور اہل بدعت کہتے تھے لیکن حدیث کا روایت کرناان سے جائز سمجھتے تھے ۔ اسی اصول کا نتیجہ تھا کہ نصابِ تعلیم میں مخالف فرقہ کے لوگوں کی مذہبی کتابیں بھی شامل تھیں ، وہ اس لئے کہ علمائے سنّت کو یقین تھا کہ ادب ،معانی و بلاغت اور عربیت کے لحا ظ سے یہ کتابیں لاجواب ہیں۔ اس کی ایک اچھی مثال زفخشری کی ’’ تفسیر کشاف ‘‘ ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ زفخشری معتزلی تھا۔ یہ بھی سچ ہے کہ قرآن شریف کی جو تفسیر اس نے لکھی ہے اس میں اپنے عقائد شعوری اور لاشعورطور پر شامل کئے ہیں۔ اس کے باوجود یہ کتاب ابتدا تا حال ہمارے علماء کے درس و مطالعہ میں رہی ہے۔
فارابی ، بوعلی سینا ، محقق طوسی، جاحظ ،عبدالقادر جُرجانی اور رضی وغیرہ علوم عقلیہ کے امام فن سمجھے جاتے ہیں۔ یہ سب کے سب شیعہ اور معتزلی ہیںلیکن تمام اہل سنّت انہیںکی کتابوں کوپڑھتے پڑھاتے اور اپنا مآخذ و مرجع قرار دیتے ہیں ۔ اور بقول شبلی’’ سنّی علماء ان مصنفوں کے نام کے بجائے ان کو شیخ ، محقق،معلم ثانی اور امام کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔‘‘ مقالہ ’’ اختلاف اور مسامحت ‘‘ کا بنیادی مقصد شبلی کے نزدیک اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ مسلمان اختلاف اور اتفاق کے حدود کو الگ رکھیں ۔ مذہبی اور معاشرتی سطح پر کشادہ ذہنی کا ثبوت فراہم کریں ۔ عقیدہ اور عقیدت کی گرفت سے بلند ہو کر ہم آہنگی قائم کریں ۔ علم و تعلیم کو مسلمان حرزِ جاں بنائیں وغیرہ وغیرہ ۔
ایسے بہت سے الفاظ ہیں جن کی حیثیت مسلمانوں کے نزدیک مذہبی ہے ۔ انہیں لفظوں میں ایک لفظ ’’ خلافت ‘‘ بھی ہے ۔ لیکن یہ لفظ سیاست سے بھی متعلق ہے جس کی وجہ سے اس کے معنی و مفہوم میں اشتباہ کے ساتھ عوام میں غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ اس اشتباہ کو دور کرنے کے لئے شبلی ؔ مقالہ ’’خلافت ‘‘ میں سب سے پہلے مذہب کی رو سے منصبِ خلافت کی کیا حقیقت اور حیثیت ہے، اس کی وضاحت و صراحت پیش کرتے ہیں۔اس کے بعد اسلام کے ابتدائی زمانے سے لے کر آج تک یہ لفظ کن معنوں اور لوگوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہیں ۔ان باتوں یا تمام روایات کا قدر مشترک یہ ہے کہ خلافت کے لئے قریش ہونا ضروری ہے اور جو شخص قریش کے خاندان سے نہ ہو وہ کسی بھی طرح سے تمام مسلمانوں کے اعتقاد کے مطابق خلیفہ نہیں بن سکتا۔اسی کے ساتھ یہ بھی شرط ہے جو حدیث میں مذکور ہے کہ ’’خلافت صرف تیس برس رہے گی پھر سلطنت ہو جائے گی۔‘‘ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تیس برس کے بعد جو فرماں روا ہوئے وہ باوجود قریش ہونے کے خلیفہ نہ تھے بلکہ بادشاہ تھے ۔ شاید اسی لئے دنیا میں بڑے بڑے مسلمان بادشاہ ہوئے لیکن کبھی کسی نے ’’ خلافت ‘‘ کا دعویٰ نہیں کیا اور سب عباسی خلیفہ کے آگے سر جھکاتے رہے ۔ اگر وہ خلافت کا دعویٰ کرتے تو مسلمانوں میں سے ایک شخص بھی ان کے دعویٰ کو تسلیم نہیں کرتا۔عضدادالدولہ، محمود غزنوی، ملک شاہ سلجوقی دنیا کے عظیم الشان شہنشاہ گذرے ہیںلیکن یہ سب کے سب بغداد کے دربار سے لقب اور خطاب حاصل کرتے تھے اور اس پر فخر و ناز بھی کرتے ۔ ’’ ہندوستان کے مشہور بادشاہ تغلق نے اسی خاندان کی سلطنت کا فرمان منگوایا تھا اور اس پر اس قدر خوشی کا اظہار کیا تھا کہ تمام شہر کی آئنہ بندی کرائی اور شعراء نے مبارک باد دی ۔‘‘ ( ص۱۸۴)
غرض یہ کہ ۳۱۳ برس تک کسی نے بھی خلافت کا دعویٰ نہیں کیا جو خاندانِ قریش سے نہ ہو ۔ شبلی نے یہ سوال قائم کیا ہے کہ’’ترکی خاندان کو کیوں خلافت کا دعویٰ ہے جبکہ ترکی خاندان قریش سے بھی نہیں ہیں ۔ سلطان با یزید ثانی تک جو اس خاندان کا آٹھواں بادشاہ تھا ۔اس سے قبل ٹرکی کے کسی حکمراں نے خلافت کا لقب اختیار نہیں کیا۔ سلطان سلیم اوّل وہ پہلا ترکی بادشاہ ہے جس نے خلافت کا لقب اختیار کیا ۔ سلطان سلیم نے جب مصر فتح کیا تو وہاں عباسی خاندان کا ایک برائے نام خلیفہ موجود تھا جس کا نام المتوکل تھا ۔ اس کو سلطان جبراً قسطنطنیہ لایا اور مجبور کیا کہ خلافت کے لقب سے دست بردار ہو جائے ۔ متوکّل اس پر راضی نہ تھا لیکن مرتا کیا نہیں کرتا ۔ چنانچہ ’’ مسجد ابا صوفیہ میں جا کر اس نے اس بات کا اعلان کیا اور یہ پہلا دن ہے کہ ٹرکی کے خاندان کے ساتھ یہ فرضی لقب اضافہ کیا گیا۔‘‘
’’غیر قوموں کی مشابہت ‘‘ میںشبلی مسلمانوں کے علم و تعلیم، تہذیب و معاشرت اور فنون و شائستگی میں پیچھے رہ جانے کی بنیادی وجہ غیر قوموں کی تقلید و تائید اور تتبع و تشبہ کو شرعاً ناجائز سمجھنابتایا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قوم کے لوگ آج بھی نئے علوم و فنون ، مغربی تہذیب و تمدن اور طرزِ معاشرت سے پرہیز کرتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے دوسری قوموں کی مشابہت سے منع فرمایا ہے لیکن اس منع فرمانے کی جو وجہ سمجھ میں آتی ہے وہ ایسی علامتوں کا قائم کرناتھا جو اس کے پیروئوں اور عام لوگوں میں امتیازات اور شناخت کا ذریعہ ہوںلیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ دوسری قوموں اور مذاہب والوں کی ہر بات سے پرہیز کیا جائے مناسب نہیں ہے ۔ اس نامناسب عمل سے قوم صدیوں پیچھے چل کر دنیا کے حاشئے پر کھڑی ہوگئی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ شبلی کے مطابق ’’ قدیم تعلیم میں تاریخ کا حصّہ شامل نہ ہونا ہے ۔ ‘‘ اس کی وجہ سے بیشتر مسلمان آنحضرتؐ اور خلفائے راشدین اور صحابہ کرام ؓ کے طرزِ معاشرت کے تفصیلی حالات سے بالکل آشنا نہیں ہیں۔ اسلاف کی تاریخ کا جن لوگوں نے سرسری نگاہ سے بھی مطالعہ کیا ہے ، وہ جانتے ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفائے راشدین نے تمدن اور معاشرت کے متعلق غیر قوموں کی بہت سی باتیں پسند فرمائیں ہیں ۔ البتہ اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ جو بات مناسب اور معقول معلوم ہوتی اسے اپنایا جاتا اور جو غیر مناسب ہوتی اسے چھوڑ دیا جاتا یا ان کی اصلاح کر دیتے تھے ۔ شاہ ولی اللہ ؒ کی کتاب حجتہ البالغہ کے حوالے سے شبلی نے لکھا ہے کہ دیت ، خمس اور قسامہ وغیرہ زمانۂ جاہلیت میں جاری تھے محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی طرح رہنے دیا ۔ حضرت عمر ؓ نے خراج و جزیہ میں نوشیرواں کے قاعدے قانون کی اقتداء اور پیروی کی ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ نوشیرواں مذہباً مجوسی اور قوم کے لحاظ سے ایرانی تھا ۔ ایسے میں جب حضرت عمر ؓ کو تمدن اور امور ملکی کے متعلق ایک مجوسی اور ایرانی اقتدا سے عار نہ تھا ، تو آج ہم لوگوں کو یوروپ کی عمدہ باتوں کو اختیار کرنے میں کیا مضائقہ ہو سکتا ہے۔
• اسی طرح سے غزوۂ احزاب میں ایرانی دستور کے مطابق خندق کھود کر دشمنوں سے مقابلہ کیا گیا ۔
• یونان و فارس کے تتبع میں منجیق اور دبابہ کا استعمال ایک رومی نژاد صحابی کے اشارے سے طائف کے محاصرہ میں ہوا ۔
• ملکی نظم و نسق اور جنگی طریقۂ کار فارس اور یونان کے طرز پر قائم ہوا ۔
• خزانہ کا نظام رومیوں کے طرز پر مرتب ہوا۔
• عدالت ، پولس محکمہ ، ڈاک کا نظام ، صوبہ جات ، اضلاع کی تقسیم اور پبلک ورک عجم و یونان کے موافق بنایا گیا ۔
• یونانی علوم و فنون کی تقلید اور اتباع کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوگا کہ یونانی طب کو ہم مسلمانی طب سمجھتے ہیں ۔
•روم و فارس کی فتوحات کے ساتھ عیسائیوں اور یہودیوں کے یہاں شادیوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ نتیجے کے طور پر ان کی معاشرت اور رہن سہن کے طریقے مسلمانوں میں پھیل گئے ۔ اس سے کچھ نقصان بھی ہوا،لیکن غیر قوموں میں اسلام کے پھیلنے کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا ۔
اس کے بعد شبلی نے تمدن و معاشرت میں کیا کیا باتیں غیر قوموں سے کب اور کس وقت اختیار کی گئیں اس کو بیان کیا ہے ۔ جیسے پاجامہ ، برنس ٹوپی ، تابوت وغیرہ اسلامی کیا عربی بھی نہیں ہیں۔
شبلی کہتے ہیں کہ ایک طرف تو یہ بے تعصبی اور آزاد خیالی ہے اور دوسری طرف تعصّب اور ضد کی انتہا یہ کہ یوروپ کی کسی بات پر عمل نہ کیا جائے ۔ مسلمانوں نے جہاں تک فراخ دلی ، کشادہ ذہنی ، بے تعصبی اور آزاد خیالی کی راہ کو ہموار کیا ۔ تعلیم ، ترقی ، تہذیب اور معاشرت میں پیش پیش رہے بلکہ رہنمائی کی ہے ، لیکن جہاں مسلمانوں نے ہٹ دھرمی ، ضد اور غیر ضروری تشخّص ، شناخت اور امتیازات کی لکیریں بلند کیں وہاں تمام معاملاتِ شائستگی ، تہذیب و معاشرت اور زوال و پستی کو مقدر بنالیا ہے ۔ اگر یہ عمل اب بھی جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب مسلمانوں سے چھوا چھوت کا عمل دوہرایا جائے اور کوئی انہیں ملیچھ کہنے میں عار محسوس نہیں کرے گا۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!