’’ اُردو لُغات ، اُصول اور تنقید‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ

(An analytical study of ”Urdu Dictionaries:Principles and Criticism”)

پروفیسرڈاکٹرمہر محمد اعجاز صابر

وائس پرنسپل اور صدرشعبۂ اُردو،بلوچستان ریزیڈنشیل کالج، خضدار۔

 0333-3547407

mmejazabir@gmail.com

Abstact:

                The role of dictionaries is very  important for the best understanding of the languages. It is a technical work which need hard work and can be done only ,if one understands the methodology and principles of lexigraphay as well as has firsthand knowledge of critics about already done works. keeping in view,these facts, Dr Rauf Parekh collected works of well known researchers, scholars ,critics and his own published in various journals and books regarding Urdu dictionaries and presented in a book as “Urdu lughaat : Asool aur Tanqeed”(Urdu

Dictionaries:Principles and Criticism).In this article, work collected and presented has been evaluated.

زبان کوئی بھی ہواور اُسے بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد کچھ بھی ہو، اُس کی تفہیم و تشریح کے لیے ہمیشہ لُغت کی ضرورت رہتی ہے اور جیسے جیسے اس زبان کے ذخیرے اوراس کے بولنے والوں میں اضافہ ہوتا ہے ،اس کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اس پر سب اہل علم و ادب متفق ہیں کہ لُغت نویسی ایک مشکل اور پیچیدہ کا م ہے ،کیوںکہ کسی بھی زبان کی لُغت مرتّب کرنے میں اس زبان کے آغاز سے دورِ حاضر تک کے تمام الفاظ، تراکیب ،محاورات ، ضرب الامثال، متروکات اور نئے داخل الفاظ کا جمع کرنا ، ان میں سے ہر لفظ کے بارے میں بتانا کہ وہ کب، کیسے اور کس شکل میں اُس زبان میں داخل ہوااور پھر ان کی تشریح ضروری ہوتی ہے۔لُغت نویسی کے محرکات اور اس کی ضرورت کے بارے میں ڈاکٹر رؤف پاریکھ کی یہ رائے صائب ہے کہ:

’’ لُغت نویسی کی ضرورت بالعموم دوصورتوں میں ہوتی ہے ۔پہلی صورت یہ ہے کہ دو مختلف زبانیں بولنے والے افراد یا اقوام جب باہم ملتی ہیں اور ان میں سماجی ، سیاسی ، تجارتی اور مذہبی روابط قائم ہوتے ہیں تو کوشش کی جاتی ہے کہ اجنبی زبان کے الفاظ سیکھے جائیں اور جیسے جیسے یہ روابط گہرے ہوتے جاتے ہیں ویسے ویسے دوسری زبان کا ذخیرۂ الفاظ بڑھتا جاتا ہے اور اس کے الفاظ و معنی کی فہرست یا فرہنگ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک قوم کا ادب ارتقاکے مراحل طے کرتا رہتا ہے۔ اس قوم کی زبان ارتقا کے ساتھ ساتھ تغیر و تبدل سے بھی آشنا ہوتی رہتی ہے اور رفتہ رفتہ اس کا ذخیرۂ الفاظ پرانے ادبی سرمائے سے خاصا مختلف ہو جاتا ہے جسے سمجھنے کے لیے قدیم الفاظ کے معنی جاننے کی ضرورت پڑتی ہے ۔اسی طرح الفاظ و محاورات کے صحیح معنی اور درست محلِ استعمال کے دریافت کی ضرورت پیش آتی ہے اور اہلِ قلم اپنی زبان کے مستند ہونے کا بھی دعویٰ کرتے ہیں ۔ایسی صورتوں میں کوئی مستند اور معتبر لُغت ہی وہ ذریعہ ہوتا ہے جو صحیح رہنمائی کرسکتا ہے ۔‘‘   ۱؎

اُردو لُغت نویسی کے حوالے سے مولوی عبدالحق نے ،جن اُصولوں کی نشان دہی کی ہے،اُن کے بارے میں ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے سیر حاصل بحث کی ہے ۔ ان اُصولوں کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ :

’’ مولوی صاحب قبلہ نے اپنے مقدمے میں ان اصولوں کی نشان دہی کی ہے جن پر ایک کامل لُغت مرتب کرنا چاہیے ۔ظاہر ہے شرط اول یہ ہوگی کہ اس زبان کا ہر لفظ ، ترکیب، محاورہ جو اس زبان کا جزو ہے ، خواہ آج بولا جاتا یا متروک ہو چکا ہے ،یا ابھی ابھی نیا نیا زبان میں داخل ہوا ہے ،خواہ وہ روز مرہ کی بول چال کا ہو یا کوئی علمی یا فنی اصطلاح ،اسے لُغت میں شامل کرنا چاہیے۔اصطلاحات کے معاملے میں البتہ انتخاب کرنا ہوگا۔ایسی علمی اصطلاحات جو کسی خاص علم و فن میں صرف ماہرین اور مختصصین استعمال کرتے ہیں ان کی جگہ ان علوم کی اصطلاحات کی الگ الگ لُغات ہیں ۔لیکن جدید علوم و فنون کی جو اصطلاحیں اب عام ہوچکی ہیں یا ہورہی ہیں ان کو اس عام لُغت میں شامل کرنا چاہیے۔ ‘‘  ۲؎

 اس بارے میں مزید لکھتے ہیں کہ :

’’ مولوی صاحب دوسری شرط یہ بتاتے ہیں کہ ہر لفظ کے متعلق کے متعلق یہ بتانا ضروری ہوگا کہ وہ کب ، کس طرح اور کس شکل میں اُردو زبان میں آیااور اس وقت تاحال اس کی شکل و صورت اور معانی میں کیا کیا تغیر ہوئے ۔۔۔۔۔۔اس کے بعد ایک اہم مرحلہ تشریح نگاری ہے ،جو لُغت کا اصل مقصد ہے ۔۔۔۔۔اشتقاق کا مسئلہ ٹیڑھا مسئلہ ہے ۔اُردو زبان کی لُغات میں سنسکرت ، پراکرت ، عربی ،فارسی ، پر تگالی ، انگریزی وغیرہ کے علاوہ برصغیر کی غیر آریائی زبانوں اور مقامی بولیوں کے الفاظ بھی شامل ہیں ۔ان سب کی اصل کی تلاش کے لیے ان زبانوں سے محض سرسری واقفیت کافی نہیں کیوں کہ اشتقاق لکھنے میں دھوکا کھانے کا خطرہ ہر قدم پر رہتا ہے۔‘‘  ۳؎

                اُردو زبان کی ترویج و ترقی کے ساتھ ساتھ اس زبان کے الفاظ کی تشریح و تفہیم کی ضرورت بھی محسوس ہوئی اور کسی نہ کسی طریقے سے اس زبان میں استعمال ہونے والے مختلف الفاظ کے معنی بھی دیے جانے لگے ۔اُردو لُغت نویسی کے حوالے سے باقاعدہ ابتدائی کام مستشرقین کے ہاتھوں ہوا۔اگر چہ اُن سے پہلے امیر خسرو کے زمانے سے اس کی روایت کے آثار ملتے ہیں ۔ سرسیّد احمد خاں اُردو لُغت کی باقاعدہ تدوین کی خواہش رکھتے تھے اور اُنھوں نے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں اُردو لُغت کے نمونے کے طور پر چند صفحات شائع بھی کروا دیے تھے ،لیکن اپنی دوسری علمی و ادبی اور قومی نوعیت کی مصروفیات کی بنا ء پر اُردو لُغت کی جامع تدوین و تالیف کے منصوبے کو عملی جامہ نہ پہنا سکے ۔  ۴؎   بابائے اُردو مولوی عبدالحق کو بھی اُردو لُغت کی تدوین کا پورا احساس تھا اور اُنھوں نے اس کی تدوین کا آغازبھی کیاتھا، لیکن تقسیم ہندوستان کے موقع پر ہونے والے فسادات کی زد میں انجمن ترقی ٔاُردو ، دہلی کے دفتر کے آنے کی وجہ سے اُردو لُغت کا مسودہ بھی تلف ہو گیااور اس طرح یہ منصوبہ بابائے اُردو کی خواہش کے مطابق پورا نہ ہوسکا۔  ۵؎

ممتاز محقق ، نقاد اور ماہر علم اللغات ڈاکٹر رؤف پاریکھ کا مجموعہ انتخاب و تعارف ’’ اُردو لُغات: اُصول اور تنقید‘‘ کا مطالعہ اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ اس مجموعے میں اُردو لُغات کے اُصول ، قواعد اور ان سے متعلق تحقیقی و تنقیدی آراء، خیالات اور مباحث کو یک جا کر کے پیش کیا گیا ہے۔ ان میں سے بیش تر مضامین مختلف رسائل و جرائد اور کُتب میں شائع ہوئے اور اس طرح بکھری ہوئی شکل میں موجود تھے ، جنھیں ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے تلاش و بسیار کے بعد شامل مجموعہ کیا ہے ۔اُردو لُغت نویسی کی تنقید و تحقیق کے حوالے سے کمزور روایت کو ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے مضبوط بنانے کی پوری کوشش کی ہے۔ اس مجموعۂ مضامین میں موضوع کے حوالے سے مضامین کا انتخاب ڈاکٹر پاریکھ کی موضوع سے دل چسپی اور دسترس کی مثال ہے۔یہ مجموعہ علمی و ادبی ، تحقیقی اور نصابی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور اس سے اُردو زبان و ادب کے قارئین، محقق اور طلباء یکساں فیض حاصل کرتے ہیں۔

 زیر مطالعہ مجموعۂ مضامین و مقالات ’’ اُردو لُغات: اُصول اور تنقید‘‘ دو حصّوں بہ عنوان ’’اُصول لُغت ‘‘ اور ’’تنقید لُغت ‘‘ میں منقسم ہے۔اس کے پہلے حصّے میں پانچ اور دوسرے حصّے میں نو مضامین شامل ہیں ۔ پہلے حصّے میں مضامین بہ عنوان ’’ اُصول لُغت ‘‘ میں ’’ علم اللغات اور لفظ اصلیات‘‘ (ڈاکٹر گیان چند)، ’’لُغت‘‘ (حامد حسین ندوی) ، ’’ اُردو لُغت نویسی کے مسائل ‘‘ ( سیّد خواجہ حسینی )، ’’ اُردو لُغت کی جدید تدوین‘‘ (علی جواد زیدی)اور ’’ امیر مینائی کی لُغت نویسی اور اُصول ِ لُغت نویسی‘‘ ( ڈاکٹر رؤف پاریکھ) شامل ہیں، جب کہ دوسرے حصّے میں مضامین بہ عنوان  ’’ تنقید لُغت ‘‘ میں مضامین ’’ نمونۂ لُغات اُردو‘‘(مشفق خواجہ)، ’’امیرؔ مینائی کی لُغت نویسی‘‘ (ابو محمد سحر)، ’’ امیرؔ بحیثیت لُغت نگار‘‘ ( کریم الدین احمد)،’’لُغت کبیر کی تسامحات‘‘ (جابر علی سیّد) ،مولوی عبدالحق کی لُغت نگاری‘‘ (سیّد قدرت نقوی)، ’’بابائے اُردو مولوی عبدالحق کی لُغت نویسی‘‘ (شہاب الدین ثاقب)، ’’مہذب اللغات(قسط اوّل)پر ایک سرسری نظر‘‘(ایک واقف کار)، ’’ لُغات روز مرہ۔چند معروضات‘‘(ڈاکٹر عبدالرشید) اور ’’متن اساس فرہنگیں‘‘(ڈاکٹر عبدالرشید) شامل ہیں۔

مجموعے کا آغاز ڈاکٹر رؤف پاریکھ کے مقدمے سے ہوتا ہے ،جس سے اُن کی لُغات اور علم لُغت نویسی سے دل چسپی عیاں ہوتی ہے۔اُن کا کہنا ہے کہ لُغات اور لُغت نویسی سے متعلق اہم مقالات ، مضامین اور مختلف کتابوں میں، جو مواد اُن کی نظروں سے گزرا ،اُس میں سے بعض کو اُنھوں نے اپنی مرتبہ کتاب ’’ اُردو لُغت نویسی : تاریخ،مسائل اور مباحث ‘‘ میں سمیٹنے کی کوشش کی تھی، لیکن طوالت کے باعث ،جو اہم تحریریں اُس میں شامل ہونے سے رہ گئی تھیں ،اُن تحریروں کو اُنھوں نے اپنے اس مجموعے میں شامل کیا ہے اور باقی رہ جانے والی تحریروں کو وہ مزید ایک ،دو جلدوں میں پیش کریںگے۔  ۶؎

ڈاکٹر گیان چند کے مضمون ’’ علم اللغات اور لفظ اصلیات ‘‘ میں لُغت ، لُغت نگاری ،ذخیرہ الفاظ ،  ذخیرہ ٔ الفاظ کے تعین اور اس میں درپیش مسائل ، لفظوں کی ترتیب ، املا، تلفظ کی صراحت ، لفظ کے قواعدی گروہ ، مفہوم کی صراحت ، لُغات کی اقسام اور لفظ اصلیات، اس کا مفہوم ، اس کو جاننے کے طریق کار ، قدیم لفظوں کی اصلیت میں پیش آنے والی دشواریوں اور عوامی لفظ اصل پر مستند حوالوں اور دلائل و استدلال کے ساتھ ماہرانہ بحث کی گئی ہے ۔ مضمون میں لُغت اور لُغت نویسی کے اُصول و قواعد کے حوالے سے بہت سے پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ روسی عالم شیربا کی ذکر کی گئی لُغات کی نو اقسام حوالہ (Reference)لُغت، علمی (Academic) لُغت ، مخزن(Thesaurus) ، صراحتی(Explanatory)، دو زبانی( (Bilingual، تصوراتی(Ideology)، ہم عصری(Synchronic) اور عصریاتی Diachronic)) لُغت کو زیر بحث لایا گیا ہے

حامد حسین ندوی نے اپنے مضمون ’’لُغت ‘‘ میں لُغت کی بنیادی خصوصیات کا جائزہ لیا ہے ۔مضمون کے شروع میں برٹانیکا اور آکسفورڈ انگلش ڈکشنری سے حوالے دیتے ہوئے لُغت کی تعریف اور اس کی ترتیب میں پیش نظر رکھے جانے والے اصولوں پر بحث کی گئی ہے۔ لفظ کے اصل ،اس کے تلفظ ، محل استعمال اور قواعد کی رُو سے اس کی حیثیت جاننے کے سلسلے میں لُغت کے کردار اور اہمیت پر روشنی دالی گئی ہے ۔ مضمون میں لُغت نویسی کے حوالے سے لکھنوی ادباء کی خدمات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

مجموعے میں شامل خواجہ حسینی کا مضمون ’’ اُردو لُغت نویسی کے مسائل ‘‘، ۱۹۶۷ء میں ’’ اُردو ادب ‘‘ ،دہلی کے شمارے میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں تالیفِ لُغت کے سلسلے میں پیش آنے والے مسائل کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے ۔ سیّد خواجہ حسینی کا کہنا ہے کہ لُغت نویس کو تالیف لُغت کے معاملے میں جن مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے ،اُن میں دو قسم کے مسائل خاص طور پر ہوتے ہیں ۔ اوّل ،ان مسائل کا تعلق فنِ لُغت نویسی کے اصولوں سے ہوتا ہے ۔ دوم کا تعلق زبان کی خصوصیات سے ہوتا ہے ۔  ۷؎  اُردو لُغت نویسی میں پیش آنے والے ان دونوں مسائل پر بحث کی گئی ہے۔ الفاظ جمع کرنے کی بنیاد، غیر زبانوں کے مروّج الفاظ کی شمولیت، الفاظ کی ترتیب کے طریق کار،الفاظ کے معنی اور تعریفوں کے اندراج کا طریقہ، اہل زبان کے الفاظ ، الفاظ کے عمومی معنی، اصطلاحی معنی ، معنوں کی صراحت، لفظ کا مآخذ، تلفظ، قواعد کے لحاظ سے الفاظ کی صراحت پر بحث کی گئی ہے اور لُغات کی اقسام بیان کی گئی ہیں۔

علی جواد زیدی کا مضمون ’’ اُردو لُغت کی جدید تدوین ‘‘، ہماری زبان دہلی کی ۲۲؍اپریل ۱۹۶۰ء کی اشاعت میں شائع ہوا ۔ اُصولِ لغت کے حوالے سے یہ مضمون انجمن ترقی اُردو پاکستان ،کراچی کے زیرِ اہتمام ایک جامع لُغت کی تیاری کے فیصلے کے موقع پر تحریر کیا گیا ۔ اس مضمون میں لُغت مرتّب کرنے والوں کی توجہ لُغت کی جدید تدوین کے بارے میں چند بنیادی نُکات کی طرف مبذول کرائی گئی ۔ جو آرا ء دی گئیں ،اُن میں سے چند ملاحظہ ہوں:۔(۱)۔ مخلوط حروف جیسے بھ، پھ، تھ،دھ،ٹھ، ڈھ، کھ، گھ، کو الگ حروف تسلیم کر کے ان کے الگ ابواب قائم کیے جائیں ۔ (۲)۔ عربی اور فارسی لُغات کے ڈھانچے پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ سنسکرت ، برج بھاشا ، کھڑی بولی اور ہندی لُغات کی مدد بھی لینی چاہیے ۔ (۳)۔ فارسی یا عربی لُغت سے بے اعتنائی برتے بغیر اُردو لُغت کو اُردو لُغت ہونا چاہیے ،یعنی اس میں اُردو کے مستعملہ و مسلمہ معانی کو افضلیت و اوّلیّت ہونی چاہیے۔ (۴)۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ سنسکرت ، فارسی ،عربی سے الگ اُردو بھی ایک مستقل زبان ہے ۔یہ صرف مختلف زبانوں کا مجموعہ نہیں ہے۔ اس لیے اس کا اپنا ایک لُغت بھی ہے ،جو ان تمام الفاظ پر حاوی ہے ،جو دوسری زبانوں سے لیے گئے ہیں ۔ (۵)۔ دُنیا کی تقریباً تمام زبانوں نے دوسری زبانوں سے الفاظ کا ذخیرہ عاریتاً لے کر اپنے طریقے پر اُن کو مادہ مان کر اُن سے مشتقات بنائے ہیں اور اسی طرح محاورات بھی مستعار لیے ہیں اور پھر اُن کو اپنا لیا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔زندہ زبان ہونے کے وجہ سے یہ سب رُوپ زبان ہی کے ہیں اور تسلیم کیے جاتے ہیں۔کہیں بھی یہ مطالبہ نہیں ہوتا کہ اصلی لُغت سے مطابقت کی جائے ۔اُردو میں بھی یہی اُصول علی الاعلان تسلیم کر لیا جاننا چاہیے۔  ۸؎

ڈاکٹر رؤف پاریکھ کا مقالہ ’’ امیر مینائی کی لُغت نویسی اور اُصول ِ لُغت نویسی ‘‘ سندھ یونیورسٹی کے شعبۂ اُردو کے ادبی مجلّے ’’تحقیق‘‘ کے شمارہ جنوری۔ جُون ۲۰۱۰ء میں شائع ہوا ۔ اس مقالے میں ڈاکٹر پاریکھ نے امیر مینائی کی لُغت نویسی کو موضوع ِ بحث بنایا ہے ۔ بقول ڈاکٹر رؤف پاریکھ ، امیرؔ مینائی کو لُغات اور لفظیات سے بہت دل چسپی تھی اور ۱۸۵۷ء سے قبل ہی اُن کے ذہن میں تھا کہ اُردو کی ایک جامع لُغت ترتیب دی جائے ،لیکن ۱۸۵۷ء کے انقلاب اور اُس کے بعد کے نامساعد حالات نے اُنھیں اس کی تکمیل کی اجازت نہ دی ۔  ۹؎   ڈاکٹرپاریکھ کے مطابق ۱۸۵۷ء سے قبل بھی امیر مینائی نے ایک لُغت ترتیب دی تھی ، لیکن اس کے کچھ مسودات ۱۸۵۷ء کے ہنگاموں کی نذر ہوگئے اور کچھ ۱۸۹۵ء میں مکان میں آگ لگ جانے کے باعث تلف ہو گئے۔  ۱۰؎  ڈاکٹر پاریکھ کو امیرؔ کے کچھ قلمی مسودات دیکھنے کا موقع ملا ۔ اُنھوں نے امیرؔ کی مرتب کردہ غیر مطبوعہ فرہنگوں اور لُغات کا جائزہ پیش کیا ہے اور ’’ امیر اللغات ‘‘ کو پیش نظر رکھتے ہوئے امیرؔ کی لُغت نویسی پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ امیر اللغات کی نمایاں خصوصیات اور اُصول لُغت نویسی کے حوالے سے اندراجات اور ان کے اُصول ، ترتیب ِ اندراجات، تلفظ ، معنی کی وضاحت ، اسناد، قواعدی حیثیت ، لسانی مآخذ ، اشتقاق اور املا کے ذیلی عنوانات کے تحت لُغت کے ان اُصولوں پر بحث کی گئی ہے ۔ وہ ڈاکٹر سیّد جاوید اقبال کی ان آراء سے اتفاق کرتے ہیں کہ ۱۸۹۵؍۱۸۹۴ء تک امیر اللغات کی صرف تین جلدیں مکمل ہو سکی تھیں اور یہ کہ امیر مینائی نے اُردو کی تاریخ میں پہلی بار سائنٹیفک انداز کی لُغت نویسی کی بنیاد رکھی۔  ۱۱؎

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالے؍حواشی:

 ۱۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ : ’’ اُردو کی ابتدائی لُغات اور نصاب نامے ‘‘ مشمولہ ’’ اُردو لُغت (یاد گاری مضامین )‘‘، مرتبہ ، ابو الحسنات ، کراچی ، خواجہ پرنٹرز اینڈ پبلشرز،۲۰۱۰ء ص: ۱۴۱۔

۲۔ڈاکٹرابو اللیث صدیقی ، مقدمہ ۔ اُردو لُغت ، مشمولہ ’’ اُردو لُغت (یاد گاری مضامین )‘‘ ، ص:۵۶۔

۳۔ایضاً، ص:۵۷۔۵۶۔

۴۔ڈاکٹر سیّد عبداللہ ، سرسیّد احمد خاں اور اُن کے نامور رفقاء کی اُردو نثر کا فنی وفکری جائزہ‘‘ ، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز ،  ص: ۳۷۔

۵۔ شہاب الدین ثاقب ـ: ’’ بابائے اُردو مولوی عبدالحق ، حیات و خدمات ‘‘ ، کراچی ، انجمن ترقی ٔ اُردو پاکستان ، ۱۹۸۵ء ، ص: ۷۱۔

۶۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ: ’’ اُردو لُغات :اُصول اور تنقید‘‘ ،کراچی ، فضلی سننز(پرائیویٹ) لمیٹڈ، ۲۰۱۴ء، ص:۹۔

۷۔ ایضاً، ص:۴۳۔                                    ۸۔ ایضاً،ص: ۶۷۔۶۰

۹۔ایضاً، ص: ۶۹۔                                    ۱۰۔ایضاً،ص:۷۰۔

 ۱۱۔ایضاً،ص:۹۸۔                                  ۱۲۔ایضاً،ص:۱۱۷۔

Leave a Reply

1 Comment on "’’ اُردو لُغات ، اُصول اور تنقید‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
Muhammad Shahid
Guest
بہت اچھی تحریر پڑھنے کو ملی۔
بہت شکریہ قابل احترام۔
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.