آزادی کے بعد اردو فکشن تنقید
مصنف: ڈاکٹر محمد سلمان بلرامپوری
مبصر: عزیر اسرائیل
صفحات: 266
قیمت : 300
ناشر: عرشیہ پبلی کیشنز، نئی دہلی
مصنف سے رابطہ کا نمبر:9897908383
کلیم الدین احمد نے اردو تنقید کے وجود پر سوالیہ نشان لگایا تھا لیکن اردو میں تنقید ان کے زمانے میں بھی لکھی جاتی تھی اوربعد میں بھی۔ بلکہ یہ سلسلہ آج بھی قائم ودائم ہے۔ اردو تنقید کی عمر جو بھی رہی ہو اگر اس پر نظر ڈالیں تو زیادہ تر ناقدین نے شاعری ہی کو اپنی تنقید کا محور بنایا۔ ناول اور افسانے پر بہت بعد میں توجہ دی گئی۔ ایک زمانے تک ادب کا مطلب ہی شاعری سمجھا جاتا رہا۔ بعد میں ناولوں اور افسانوں پر بھی تنقیدیں لکھی گئیں۔ وارث علوی، ممتاز شیریں، شمس الرحمن فاروقی اور عابد سہیل جیسے لوگوں میں اس جانب بھی توجہ کی ۔ آج حالت یہ ہے کہ یونی ورسٹیوں میں زیادہ تر تحقیقی کام فکشن کے حوالے سے ہورہے ہیں۔ یقینی سی بات ہے کہ جب ادب کاایک معتد بہ حصہ کسی صنف میں جمع ہو جاتا ہے تو پھر اس پر بھی تنقید لکھنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ پہلے تخلیقی ادب پر تنقید ہوتی تھی ادب تنقید پر بھی تنقید ہورہی ہے۔ ہمارے بہت سے ادب نواز اس بات کو لطیفہ کے طور پر بھی پیش کرتے ہیں کہ تنقید پر بھی تنقید چہ معنی دارد۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ تنقید کا مقصد ہی اچھے برے کی پرکھ کرنا ہے۔ ایسے میں تنقید کے نام پر جو ادبی سرمایہ جمع ہوا ہے اس کے کھرے کھوٹے ہونے کا پتہ بھی تو اسی تنقید کو لگانا ہے۔ چنانچہ سلیمان اطہر جاویدکی کتاب غالب کےچند نقاد، جاوید رحمانی کی کتاب غالب تنقید اسی طرح اقبال کے ناقدین پر بھی کتابیں لکھی گئیں۔ اسی طرح اہم ناقدین کی ادبی خدمات پر بھی کتابیں لکھی جارہی ہیں۔
اتنی لمبی چوڑی تمہید کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ ہمارے دوست اور ہم وطن ڈاکٹر محمد سلمان بلرامپوری نے اگر “آزادی کے بعد اردو فکشن تنقید” پر کتاب لکھی ہے تو کوئی لغو کام نہیں کیا ہے۔ان جیسا سنجیدہ شخص لغو کام کربھی نہیں سکتا۔ سلمان بلرام پوری ادب کا گہرا ذوق رکھتے ہیں۔ ان کے کئی مضامین اردو کے اہم رسالوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ اردو ریسرچ جرنل کے قارئین کے لئے ان کا نام محتاج تعارف نہیں ہے۔ ان کی یہ کتاب دراصل ان کے ڈاکٹریٹ کا مقالہ ہے جو انہوں نے اردو کے اہم ناقد پروفیسر ابوالکلام قاسمی کی نگرانی میں لکھا تھا۔ اس مقالے کے ممتحن پروفیسر علی احمد فاطمی تھے۔ اردو تنقید کی اتنی اہم شخصیات کی نسبت اس کتاب کو وقار بخشنے کے لیے کافی ہے۔ اس پر مستزاد سلمان بلرامپوری کا نپا تلا قلم ہے جو فکشن تنقید کے ہر اہم ناقد کا بے باک تجزیہ کرتا ہے۔
سلمان بلرامپوری نے اس کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے باب میں انہوں نے “فکشن تنقید کے بنیادی مسائل” پر گفتگو کی ہے۔ تقریبا پچاس صفحات پر مشتمل یہ باب ایک مکمل کتاب کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس باب میں پہلے انہوں نے فکشن تنقید کی اہم کتابوں کا تعارف کرایا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے پریم چند کے متفرق مضامین سے لے کر موجودہ دور کی کی اہم کتابوں کا مختصر جائزہ لیاہے۔ فکشن تنقید کے حوالے سے انہوں نے ناول اور افسانے کے موضوع اور تکنیک سامنے رکھتے ہوئے ایک اہم اور کار آمد بحث کی ہے۔ یہ سبھی موضوعات فکشن کے بنیادی مباحث ہیں جس کے بارے میں فکشن کے ہر قاری کو علم ہونا چاہئے۔
دوسرے باب “ترقی پسند تنقید اور اردو فکشن کے مطالعے” میں پہلے ترقی پسند تحریک کے مبادیات پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کے بعد میں انہوں نے بتایا ہے کہ اس تحریک نے ادب کے سبھی گوشوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ فکشن کے حوالے ترقی پسند تحریک اہم ناقدین اور ان کی ترجیحات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔
نئی تنقید اور اردو فکشن کے مطالعے میں جدید دور کے ناقدین کا جائزہ لیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے وارث علوی کی کتاب”فکشن تنقید کا المیہ ” اور شمس الرحمن فاروقی کی مشہور زمانہ کتاب افسانے کی حمایت میں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ ان دونوں کے علاوہ انہوں نے عابد سہیل، ممتاز شیریں وغیرہ کے فکشن تنقید پر بھی اپنی انتقادی گفتگو کی ہے۔
آزادی کے بعد اردو فکشن کا تجزیاتی مطالعہ نامی باب میں انہوں اردو فکشن کے تجزیاتی مطالعہ پر لکھی گئی اہم کتابوں کا جائزہ لیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے خالد اشرف، عابد سہیل،گوپی چند نارنگ اور صغیر افراہیم وغیرہ کی کتابوں پر روشنی ڈالی ہے۔
آخری باب میں انہوں نے آزادی کے بعد کے اہم ناقدین کا تعارف کرایا ہے۔ اس باب میں جن شخصیات کی فکشن تنقید کا خصوصی طور پر انہوں نے ذکر کیا ہے وہ ہیں: شمس الرحمان فاروقی، وارث علوی، گوپی چند نارنگ، عابد سہیل، مہدی جعفر، وہاب اشرفی اور علی احمد فاطمی وغیرہ۔
ڈاکٹر محمد سلمان کی تحریر کی خاص بات یہ ہے کہ جب وہ کسی شخصیت یا کتاب کا جائزہ لیتے ہیں تو سرسری طور پر بات کرکے گزر نہیں جاتے۔ وہ ٹھہر کر اس کے ہر پہلو پر غور کرتے ہیں۔ اس کے محاسن و معائب کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔ یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اس موضوع پر یہ ایک عمدہ کتاب ہے۔ عمدہ طباعت، بہترین کاغذ کے ساتھ اس مجلد کتاب کی قیمت 300 روپئے ہے۔ جو ایک واجبی قیمت ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ اہل ادب اس کتاب کی قدر وقیمت کو سمجھتے ہوئے اس کی طرف ضرور متوجہ ہوں گے۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!