رشید حسن خان کی غالب شناسی

مصنف: ابراہیم افسر                        مبصر: عزیر اسرائیل

صفحات:             336      قیمت:     250

ملنے کا پتہ: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، علی گڑھ۔ مؤلف سے رابطہ کا نمبر:9897012528

اردو کے نئے لکھاریوں میں ابراہیم افسر اپنی پہچان بنانے  کے لیے کوشاں ہیں ۔ ان کے تحقیقی و تنقیدی مضامین ملک کے معروف ادبی رسالوں کی زینت بن رہے ہیں۔ حال ہی میں ان کی دو کتابیں منظر عام پر آئی ہیں۔ “رشید حسن خان کی غالب شناسی” اور رشید حسن خاں کے تبصرے اور تجزیے” (جلد اول)۔ یہ دونوں کتابیں مرتب نے بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کی ہیں۔ سب سے پہلے بات “رشید حسن خاں کی غالب شناسی” سے شروع کرتا ہوں۔ یہ کتاب 400 صفحات پر مشتمل ہے۔ بنیادی طور پر کتاب کے دو حصے ہیں پہلے حصے میں مرتب نے رشید حسن خاں کی غالب شناسی پر مضامین کو شامل کیا ہے جبکہ دوسرے حصے میں رشید حسن خان کے ان مضامین کو شامل کیا ہے جو انہوں نے غالب کی زندگی، شاعری یا ان کی نثر پر لکھا ہے۔ رشید حسن خاں نے غالب کی فارسی کتاب دستنبو کا اردو ترجمہ کیا تھا۔ مرتب نے اس کو بھی کتاب میں شامل کرلیا ہے۔ رشید حسن خاں کے خطوط کے مجموعےسے ان خطوط کو بھی ابراہیم افسر نے اس کتاب میں شامل کردیا ہے جس میں انہوں کے غالب کے بارے میں کسی مسئلہ پر اظہار خیال کیا ہے۔

کتاب کے شروع میں مرتب نے مشفق خواجہ کے ایک خط کو نقل کیا ہے جو انہوں نے رشید حسن خاں کو لکھا تھا۔ اس خط میں انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ غالب پر انہوں نے جتنے مقالے لکھے ہیں انہیں ایک مجموعے کی شکل میں شائع کردیا جائے اور اس میں دستنبو کے اردو ترجمہ کو بھی شامل کردیا جائے۔ مشفق خواجہ کی اس فرمائش کا جواب رشید حسن خاں نے کیا دیا معلوم نہیں ، لیکن یہ بات معلوم ہے کہ رشید حسن خاں کی زندگی میں ان مضامین کے مجموعے کو شائع نہیں کیا گیا۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس خط کو پڑھ کر ابراہیم افسر کے دل میں اس کام کو انجام دینے کی خواہش پیدا ہوئی ہوگی۔

کتاب کے پہلے حصے میں مرتب کا مقدمہ تقریبا پچاس صفحات پر محیط ہے۔ یہ مقدمہ اس کتاب کا ماحصل ہے۔ اس میں فاضل مرتب نے رشید حسن خاں کی غالب دوستی کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے رشید حسن خان کی غالب پر لکھی گئی ہر دستیاب تحریر کا جائزہ لیا ہے۔ رشید حسن خاں کی ادبی تحریروں میں ایک بڑی تعداد تبصروں کی ہے۔ انہوں نے غالب پر لکھی گئی کئی اہم کتابوں کا جائزہ لیا اور ان کے اندر پائی جانے والی خامیوں کی نشاندہی کی۔ وہ کتابوں پر تبصرہ کرتے وقت قلم کو جراح کے نشتر کی استعمال کرتے تھے۔ رشید حسن خاں کو جاننے والے واقف ہوں گے کہ انہوں نے علی گڑھ تاریخ ادب اردو کی خامیوں کواس طرح طشت از بام کیا تھا کہ وہ کتاب ہی مارکیٹ ہے ہٹانی پڑی تھی۔ ابراہیم افسر نے رشید حسن خاں کے خطوط کے علاوہ ان کے تبصروں کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی غالب شناسی کا جائزہ لیا ہے۔ ان خطوط کے حوالے سے انہوں نے رشید حسن خاں کی کئی کتابوں کے بارے غلط فہمی بھی دور کی ہے۔ مثلا دہلی یونی ورسٹی سے شائع کتاب اشاریہ کام غالب، جس کے مرتبین میں ان کا بھی نام ہے، اسی طرح ایک پاکستان سے شائع شدہ ایک کتاب غالب فکروفن ۔ ان دونوں کتابوں سے انہوں نے اپنے خطوط میں براء ت کا اظہار کیا ہے۔ اول الذکر کو کسی نے تجارتی مقصد سے استعمال کیا تھا اوردوسری کتاب کو خواجہ احمد فاروقی نے شائع کرتے وقت مرتبین کے نام میں ان کا نام شامل کردیا تھا۔

مقدمہ کے بعد رشید حسن خاں کی کتاب گنجینہ معنی کا طلسم جو کہ در اصل دیوان غالب کا اشاریہ ہے پر دو مضامین ہیں ایک پروفیسر ظفر احمد صدیقی اور دوسرا خود مرتب کا لکھا ہوا۔ ظفر احمد صدیقی نے لکھا ہے کہ ” غالب کا کلام اگر گنجینہ معنی کا طلسم ہے تو رشید حسن خاں کا یہ اشاریہ طلسم کشا ہے۔”ظفر احمد صدیقی نے اپنے مضمون میں زیادہ تر کتاب کے ادبی مباحث سے سروکار رکھا ہے جبکہ ابراہیم افسر نے رشید حسن خاں کے خطوط کے حوالے سے اس کتاب کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی ہے۔

کتاب کے دوسرے حصے میں رشید حسن خاں کی وضاحتی تحریر جو انہوں نے غالب فکروفن نامی کتاب کی براءت سے متعلق ہماری زبان میں لکھی تھی شامل ہے۔ اس کے بعد دستنبو کا اردو ترجمہ، دیوان غالب-صدی ایڈیشن پر تحقیقی مضمون جس میں انہوں نے مالک رام کے ذریعہ شائع دیوان غالب کے اس نسخہ کو ساقط الاعتبار ٹھہرا ہے جس کے بارے میں مالک رام کا دعوی تھا کہ یہ حیدرآباد کی آصفیہ لائبریری میں محفوظ ہے۔ اس کے بارے میں یہ بھی دعوی کیا گیا تھا کہ اس کی تصحیح غالب نے خود اپنے قلم سے کی تھی۔ غالب کے سلسلے میں تحقیق کے نئے امکانات میں رشید حسن خان نے غالبیات کے ان گوشوں پر روشنی ڈالی ہے جو ان کی نظر میں تشنہ تھے یا جن پر کام کرنے کی گنجائش ہے۔ انہوں نے خاص طور غالب کے املا پر کام کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ اس بات کے بھی داعی ہیں کہ غالب پر کام کرنے والے ادارے کسی ایک املا پر متفق ہوں جن کی پاسداری سبھی کتابوں میں کی جائے۔ غالب کے سوسالہ جشن کے موقع پر رشید حسن خاں نے غالب سے متعلق کچھ مطبوعات کے عنوان کے ایک اہم مضمون لکھا تھا جس میں انہوں نے زیادہ تر  غالب سے متعلق متون یا متعلقات متون کتابوں سے سروکار رکھا ہے۔اس کے علاوہ اس حصے میں شامل مضامین اس طرح ہیں: بہ سلسلہ تدوین کلام غالب، غالب کے خطوں میں قواعد زبان، تلفظ اور املا کے مسائل، یاد گار غالب، قابل اعتماد متن کی تلاش، غالب (مختصر حالات اور انتخاب کلام مع شرح) از کالی داس گپتا رضا پر تبصرہ، تبصرہ :انشائے غالب کا خطی نسخہ، تبصرہ: غالب اور صفیر بلگرامی از مشفق خواجہ، تبصرہ: تحقیق غالب از سید معین الرحمن، تبصرہ : حیات غالب کا ایک باب از ڈاکٹر حسن اختر، غالب اور انقلاب ستاون از ڈاکٹر معین الرحمن کا پیش لفظ،  انشائے غالب (عرض مرتب)،  املائے غالب(ابتدائیہ)،  شرح طباطبائی، توضیحی اشاریہ غالب نامہ از فاروق انصاری کا پیش لفظ۔

ان مضامین میں سے کچھ رشید حسن خاں کی کتابوں سے لیے گئے ہیں اور زیادہ تر ادبی رسالوں سے حاصل کیے گیے ہیں۔ ادبی رسالوں کی پرانی فائلوں سے مضامین تلاش کرنا کافی مشکل کام ہوتا ہے جس کے لیے ابراہیم افسر کو واقعی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ غالب کے حوالے سے لکھے گئے رشید حسن خان کے سبھی مضامین، خطوط، تبصرے، دیباچےاور کتابوں کے پیش لفظ کتابی صورت میں شائع ہوجانے سے محققین کو رشید حسن خاں کی غالب شناسی کو جاننا اور سمجھنا آسان ہوگا۔ ساتھ ہی ان مضامین کی روشنی میں غالب فہمی کے بارے میں قارئین کی واقفیت میں بھی اضافہ ہوگا۔

مرتب نے کتاب کو کافی اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے۔ سرورق دیدہ زیب اور عمدہ ہے۔ کاغذہ بھی اچھی کوالٹی کا استعمال ہوا ہے۔ کتاب کے معیار کو سامنے رکھتے ہوئے 250 روپئے کی قیمت واجبی معلوم ہوتی ہے۔  امید کی جاتی ہے کہ رشید حسن خاں اور غالب سے دلچسپی رکھنے والے اس کتاب میں دلچسپی دکھائیں گے۔ کتاب کی اشاعت کے لیےابراہیم افسر کو ڈھیروں مبارکباد۔

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.