رخسانہ نازنین کی افسانہ نگاری
کوثر جہاں
ریسرچ اسکالر ، شعبہٴ اردو، ممبئی یونیورسٹی
9970927092
اس مرد اساس معاشرے میںجہاں خواتین کی لب کشائی ، رائے زنی ،اعتراضات اور حقوق کی بازیابی کو احتجاج اوربغاوت سے تعبیر کیا جاتا ہو وہاں کسی خاتون قلمکار کا اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لئے قلم اٹھانا قرار واقعی جراٴت آمیزو بےباکی کا عمل ہوگا ۔ شاید یہی سبب ہے کہ نسوانی آوازیں ادب کے گلیاروں میں کم کم ہی سنائی دیتی ہیں تاہم تحریر و تقریر میں اعتدال و انصاف شرط ہے ۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی جنوبی ہند میری مراد کرناٹک کی متوطن محترمہ رخسانہ نازنین صاحبہ ہیں ۔
ہندوستان کی ریاست کرناٹک کے شہر بیدر کی ایک معروف شخصیت رخسانہ نازنین کا شمار اردو ادب کی ان افسانہ نگار خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو ادب میں بالخصوص افسانوی ادب میںحقیقت نگاری کی روایت کو قائم رکھا۔ ان کے افسانوں کی فضا حقیقی واقعات و سانحات پر مبنی ہوتی ہیں لہذا راست دل پر اثر کرتی ہے۔ ان کے افسانےعصرِی حسیت کا آئینہ ہیں۔ وہ اپنے افسانوں میں سماج و معاشرے میں میں درپیش چھوٹے بڑے قصے، کہانیوں اور واقعات کو بڑے تخلیقی انداز اور احسن اسلوب میںپیش کرتی ہیں جس سےان کی فنی صلاحیت اور مشاہدات ، محسوسات اورمرتب زدہ اثرات کی گہرائی و گیرائی کا علم بخوبی ہوجاتا ہے۔ ان کے افسانے کے موضوعات کے اعتبار سےہمارے اطراف و اکناف میں وقوع پذیرواقعات ،حادثات اور سانحات پر مبنی ہوتے ہیں ۔ اپنے اطراف کی زندگی کے موضوعات کو وہ اپنے قلم کے ذریعے اس طرح افسانوی قالب میں سمودیتی ہیں ۔ گویا ہم اس واقعے کے حقیقی شاہد ہوں اور وہ تمام کردار و واقعہ ہماری چشم تصور کی نگاہوں کے پردے پر گردش کررہاہو ﺍ ۔عصری حسیت کے حوالے سے انہوں نے زندگی کی تلخ حقائق، زمانے کی بے اعتدالیوں، نارسائیوںاور عدم انصاف و حقوق جیسے حساس موضوعات سے ہمیں اپنے منفرد و ممتاز انداز میں روشناس کرایا ہے۔ ان کے اکثر و بیشتر افسانے نسوانی پیچیدگیوں، خواتین کےجملہ عائلی،سماجی ،سیاسی ،تہذیبی و تمدنی و نفسیاتی مسائل کا احاطہ کرتے ہیںتادم تحریر موصوفہ کی تین افسانوی مجموعے زیور طباعت سے آراستہ ہوکر شائع ہو چکے ہیں۔مزید برآں موصوفہ نے اپنے مضامین کا مجموعہ بھی سپرد قلم کیا ہے ۔تفصیل ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔
ان کا اولین افسانوی مجموعہ ‘طوبیٰ ‘کے عنوان تلے ۲۰۱۰ میں، دوم افسانوی مجموعہ ‘ضیاء ۲۰۱۲ میں اور سوم افسانوی مجموعہ ‘پسِ دیوار ۲۰۱۹ میں شائع ہوا۔۔۔ ایک مضامین کا مجموعہ ‘دستک ۲۰۱۳ میں شائع ہو چکا ہے۔۔۔۔ بالخصوص جنوبی ہند کی خاتون افسانہ نگاروں میں موصوفہ کو افسانوی ادب میں انھیں ایک خاص مقام حاصل ہے۔۔ وہ دور جدید کی اہم خاتون افسانہ نگار ہیں۔
موصوفہ نے اپنے افسانے ‘ریت کے گھروندے ‘میں دولت کے بل بوتے پر عارضی اور کھوکھلی خوشی حاصل کرنے والوں کی ناکام کوشش کو اجاگر کیا ہے۔ مصنفہ نے مغرب سے مستعار بے حیائی اور عریانیت کے منہ زور طوفان اورعصر حاضر میں رائج لڑکیوں کی کم لباسی اور تنگ لباسی کو نشانہ بنایا، حیا ، عصمت اور نسوانیت سوز رجحانات و میلانات کی طرف بھی انگشت نمائی کی ہے۔ ان کا ایک افسانہ دخترِمشرق اپنی عریانیت پر نازاں اسی خیال کو پیش کرتا ہے کہ دور حاضر کی خاتون انجام سے بے خبر محض اپنے حسن کی تعریف کروانا اپنا حق سمجھتی ہے۔
خواتین کو مشیت ایذدی نے وفا و حیابطور فطری جذبہ عطا فرمائی ہیں ۔ اگر خواتین کواپنے گھر اور معاشرے میں محبت و تحفظ میسر آئے تو وہ مزید سنور اور نکھرجاتی ہے ورنہ ان کی محرومی و نارسائی پر وہ ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے، وقت سے پہلے ضعیفی ،بیزاری اور بوریت کا شکار ہوجاتی ہے کیونکہ کہ خدا نے اسےفطرتاً بطور صنف نازک تخلیق کیا ہے جو نہایت حساس اور صابر بھی ہے ۔ مصنفہ کا اس موضوع پر ایک افسانہ ‘ ٹوٹی کہاں کمندہے جس میں مرد غالب معاشرہ میں انہوں نے اپنے سماج کا دوہرا روپ افسانوی انداز میں پیش کیاہے۔
عیار طبع ، حریص ، اور شاطر مردوں کےدام فریب کو سمجھنے سے قاصر دور حاضر کی خواتین اپنی تنگ لباسی، جسمانی اعضاء کی نمائش بنام بے ہودہ فیشن، ونیم عریاں لباس کو حسن کا معیارسمجھ بیٹھی ہیں ۔اپنی مشرقی اقدار، تہذیب و تمدن ،پردہ کی اہمیت اور مذہبی عقائد کو بالائے طاق رکھ کر اپنی نسوانی اساس فراموش کر بیٹھی ہیں۔ فیشن کے پس پردہ نیم عریاں لباس زیب تن کرکے مقابلہ آرائی اور دید حرص و ہوس کا نشانہ بنی ہوئی ہیں۔ فی زمانہ مرد و زن کے آزادانہ اختلاط کے رواج کے سبب وہ محفلوں ، تقاریب اور پارٹیوں میں تمام شرکاء کی مرکز نگاہ بننا پسند کرتی ہیں گویا یہی کامیابی و کامرانی اور جدت اور نئے زمانے سے ہم آہنگی کا ثبوت ہو ورنہ سماج انہیں قدامت پرستی اور دقیانوسی ہونےکے طعنے دے گا در پردہ یاسر پر آنچل اورحجاب میں رہنا گویا دقیانوسیت اور پھوہڑپن خیال کیا جاتا ہو۔۔۔۔
موصوفہ کے متعدد افسانوں میں کہیں محبت، پیار و وفا ، مہر و خلوص ہے تو کہیں نفرت، انتطار اور جدائی۔ان کے بہترین و نمایاں افسانوں میں ٹوٹی کہاں کمند، ایک لمحے کی خطا، رسموں کے شکنجے میں، ٹوٹے پتوار، سہارے، ثبوت اور احساس کے نشتر وغیرہ شامل ہیں۔۔۔۔ ‘ایک لمحے کی خطا اس افسانے میں فرسودہ رسم و رواج کی بنا پر والدین کی ذلت اور رسوائی کو پیش کیاگیا ہے۔ افسانہ ‘انتظار میں ایک نوجوان کی کہانی ہے جس میں اس معصوم نوجوان ناکردہ گناہ کو سزا ملتی ہے اور اس کےاہل خانہ اس کے منتظر ہوتے ہیں اور بالاخر انتظار کرتے ہی رہ جاتے ہیں۔۔ اس طرح مصنفہ نے اپنے افسانوں کے ذریعے اپنے خیالات کو قارئین تک ترسیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں نیکی، بدی، اچھائی اور برائی کو من و عن پیش کرنے کا ہنر بخوبی جانتی ہیں اور اسے اپنی قلم کی خوبصورتی سے سماجی برائیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کا اصل مقصد سماج کی اصلاح ہوتا ہے۔ وہ دورِ حاضر کے سماجی، تہذیبی ،تمدنی اور معاشی ماحول کی عکاسی کرتی ہیں ان کے ہر افسانے میں نسوانی کردار ضرورموجود ہے جس کے لئے ان کے دل میں ہمدردی کا جذبہ موجزن و متلاطم ہے۔ کہیں جہیز کا سنگین مسئلہ آکھڑاہوتا ہے تو کہیں غلط رسم و رواج، کہیں پولیس کی نا انصافی تو کہیں مغربی تہذیب کی اندھی تقلید اور اخلاقی بگاڑ۔ کیٔ افسانوں میں انھوں نے نہ صرف مسئلے مسائل کی نشاندہی کی ہیں بلکہ ان کا مناسب اور موزوں حل بھی تجویز کیا ہے۔۔۔ رخسانہ نازنین ایک غیر معمولی طور پر ذہین اور ذکی الحس افسانہ نگار ہیں وہ ایک ہمدرد اور منکسر مزاج خاتون ہیں ۔خواتین پر ہونے والے ظلم اور خانگی مسائل ان کے افسانوں میں جا بجا نظر آتے ہیں۔ ان کے افسانے اور مضامین وطن عزیز کےموٴقر رسالوں اور جریدوں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہتے ہیں مثلاً مشرقی آنچل ، مشرقی دلہن،شاعر، نئی دہلی، روزنامہ ، اردو ٹائمز وغیرہ ہیں۔ ‘پسِ دیوار ان کا افسانوی مجموعہ ہے جو ‘کرناٹک اردو اکیڈمی، بنگلورو کی جانب سے منظر عام پر آ چکا ہے ۔
رخسانہ نازنین ایک عمدہ فنکارہ اور دردمند خاتون ہیں جو کہانی کے فن پر پورا عبور رکھتی ہیں۔ ان کی زبان سادہ اور عام فہم ہے جو قارئین کے لئے زود فہم ہیں۔ ان کی تحریر اتنی دلکش ہوتی ہے کہ قاری اسی میں کھو جاتا ہے ۔ ان کا اسلوب سخن بڑا سلیس اوررواں دواں ہوتا ہے ۔ ان کی کردار نگاری نہایت خالص اور غیر معمولی ہوتی ہے جنھیں وہ بڑی فنکارانہ مہارت سے پیش کرتی ہیں۔ ان کے افسانے غور و فکر کی دعوت غور و فکر دیتے ہیں اور قاری کے ذہن میں کئی سوال پیدا کرتے ہیں۔ وہ اپنے افسانوں میں خواتین کو ہی درس دیتی ہیں کہ عورت کا اصل مقام گھر ہی ہے۔ انہوں نے مشرقی روایات کے تحفظ، بقاء اور فروغ پر زور دیا ہے۔ ان کے افسانوں کے مطالعہ علم ہوتا ہے کہ انہیں افسانہ نگاری پرکتنی گرفت مضبوط ہے ۔ ان کے افسانے انسانی رشتوں سے وابستہ ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے فن سے سماج کی گندگیوں، برائیوں کواپنے قلم کے نشتر سے دور کر کے خوبصورت معاشرہ ترتیب دینے کی قائل ہیں۔ ان کے افسانے اردو ادب میں ایک بیش بہا اضافےسے کم نہیں۔ عصر حاضر میں تحریر شدہ ہر قسم کی کہانی پر انھوں نے طبع آزمائی کی ہے ۔ لہذا وہ آج کی معروف اور کامیاب افسانہ نگار تسلیم کی جاتی ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں کئی ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا ہے۔
دوسرے افسانوی مجموعے ‘ضیاء کو ‘بہار اردو اکیڈمی نے 2012 میں دوسرے انعام کیلئے منتخب کیا۔ 2019 میں عالمی یوم خواتین کے موقع پر ‘بھارتی ایجوکیشن اینڈ رورل ڈیولپمنٹ سوسائٹی نے بطور ‘اردو قلمکار ایوارڈ سے نوازا۔ ضلع بیدر کے ہمہ لسانی قلمکاروں کو تفویض کئےجانے والا ‘کارنجہ رتن ایوارڈ بطور اردو قلم کار 2020 میں تفویض کیاگیا۔۔۔
٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!