ما بعد جدید اردو افسانہ
شاہجہاں خان
ریسرچ اسکالرشعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی
Mob. 9621676065
sonamursheed@gmail.com
ادبی تاریخ میں تحریکات اور رجحانات کے عمل اور ردعمل کا سلسلہ روز اول ہی سے چلا آرہا ہے۔ تمام تحریکات اور رجحانات اپنے عہد کی معاشرتی زندگی میں واقع ہونے والی تبدیلیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں جنھیں ہر دور کا تخلیق کار کچھ شعوری اور کچھ لاشعوری طور پر قبول کرتا ہے۔ اس سلسلے میں جب ہم افسانہ نگاری کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ پریم چند نے جس زمانے میں افسانہ نگاری کی شروعات کی وہ ہندوستان کی تاریخ کا پر آشوب زمانہ تھا اور پریم چند انسان دوستی اور وطن پرستی کے جذبات سے سرشار تھے۔ لہذا انھوں نے اپنے عہد میں پرورش پارہی مریضانہ صورت حال کو منظر عام پر لاکر اس کی اصلاح کے لئے حقیقت نگاری کی راہ اختیار کی اوراس کے بعد ۱۹۳۶ء میں ترقی پسند تحریک کا قیام عمل میں آیا، جس تحریک نے قدیم تصورات و عقائد کو توڑ کر ادب کی تخلیق کرنے کے جو اصول ونظریات وضع کئے اس میں’ ادب برائے زندگی‘ کو خصوصی اہمیت حاصل ہوئی اور اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ اردو افسانے پر ترقی پسند تریک کے بہت گہرے اور دیر پا اثرات مرتب ہوئے۔ ترقی پسندتر یک کا اردو افسانے پر یہ احسان بھی ضروری ہے کہ اس تحریک نے اردو افسانے کو بیش بہا موضوعات دیئے لیکن ملک کو آزادی دلانے اور ساری، خارجی مسائل کے تمام امکانات کو اپنے دامن میں سمیٹنے کے بعدجدت سے محروم ہوکر ترقی پسندتر یک یکسانیت کا شکار ہوگئی تو جدید آگہی کے نئے افسانہ نگاروں نے اپنی انفرادیت قائم کرنے کے لئے ردعمل کے طور پر اس کے خلاف آواز اٹھائی اور خارجی مسائل کی جگہ داخلی جذبات کو اپنا محرک بنایا اور۱۹۶۰ء تک آتے آتے ترقی پسندتحریک کے مروجہ اصول نظریات سے مزید ا نحراف کے نتیجے میں اردو افسانے کے افق پر جدید یدیت کا رجحان طلوع ہوا۔ اس رجحان کے حامی افسانہ نگاروں نے ماقبل ترقی پسند روایت سے جدا نظر آنے کی شعوری کوشش کی۔ اس کوشش کو انجام دینے کے لئے افسانہ نگاروں نے ادب کا ایک نیا منظر نامہ مرتب کیا، جس کے تحت افسانے کے مواد، ہئیت، اسلوب اور تکنیک میںبڑے پیا نے پر تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ اگر دیکھا جائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ترقی پسند تحریک کے بعد اردو افسانے پر جس رجحان نے سب سے زیادہ نقوش ثبت کیے، ان میں جدیدیت کا نام سب سے نمایاں ہے۔ جدیدیت کے تحت علامتی اور تجریدی افسانے لکھنے والوں کی تعداد کافی طویل ہے، جن میں بلراج مین را سریندرپرکاش، انتظار حسین، ‘ جوگیندر پال ،انورسجاد،خالدہ اصغر ،غیاث احمد گدی‘‘ بلراج کومل ،دیوندر اسر،’کمار پاشا،انورعظیم،اکرام باگ، حمید سہروری،’ظفر اوگانوی، کنور سین، شفیع مشہدی‘‘’انور خان، رضوان احمد‘‘انو قمر اور قمراحسن وغیرہ شامل ہیں۔ سردست یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ جدیدیت کے دور میں جہاں ایک طرف افسانہ نگار علامات و تجرید کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور فیشن زدگی کے چکر میں مہملیت، تجریدیت اور غیر ادبی عناصر کو ہوا دے رہے تھے۔ وہیں دوسرے افسانہ نگار بھی موجود تھے جو ترقی پسند روایت کی توسیع میں پیش پیش تھے۔ ایسے فنکاروں کی فہرست میںرتن سنگھ، جوگیندر پال، عابد سہیل، قاضی عبدل الستار اور اقبال مجید کافی اہمیت کے حامل تھے۔
اس طرح جدید یت کے دور میں بہت سے افسانہ نگارا بھر کر سامنے آئے لیکن ایک وقفے کے بعد بالکل منظر عام سے غائب ہو گئے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ انہوں نے ایسے دبیز علامات کا استعمال کیا جن کی تفہیم عام قاری کی سمجھ سے بالاترتھی۔ کچھ فنکاروں نے تجریدیت کو اس طرح اختیار کیا کہ جیومیٹری وغیرہ کے تجر بات کرنا شروع کر دیے۔ قارئین نے آگے چل کر انہیں فن کاروں کو اس قدرفراموش کیا کہ صرف تاریخ کے صفات میں ان کا نام کندہ ہو سکا ہے۔ جن افسانہ نگاروں نے حالات کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا، ان کو زمانے نے فراموش کر دیا، جن میں، اکرام باگ، حمید سہروردی، مظہر الزماں خاں، یوسف عارفی، قمراحسن، اختر یوسف اور انیس رفیع وغیرہ ایسے فن کار ہیں جو جدیدیت کی ڈگر سے نہیں ہے اور ناقدین نے ان کی تخلیقات کو اور ادبی خدمات کو فراموش کر دیا۔
اس طرح دیکھا جائے تو ستر کی دہائی تک اردو افسانہ رومانیت، حقیقت نگاری،ترقی پسندی اور جدیدیت کا سفر طے کرتے ہوئے مابعد جدیدیت (Post Modernism) کی دہلیز پر قدم رکھ چکا تھا اور اسی تک آتے آتے پورا منظر نامہ تبدیل ہو گیا تھا، یہاں تک کہ موضوع کی سطح پر بھی اور ہیئت کی سطح پر بھی بہت نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ دراصل مابعد جدید بیت کوئی تحریک یا ردعمل نہیں بلکہ کشادہ ذہنی رویہ ہے۔ جو ثقافت پر زیادہ زور دیتی ہے۔ کیوں کہ ثقافت کی ملک وقوم کے عادات واطوار، رسوم وانداز کی بنیادیں ہیں۔ اگر چہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مابعد جدیدیت، جدیدیت کی ضد ہے یا اس کے اصول وضوابط کی نفی کرتا ہے جو بالکل بے بنیاد ہے۔ کیوں کہ مابعد جدید فن کاروں نے ترقی پسند اور جدید یدیت دونوں کے کچھ اصول اخذ بھی کیے ہیں اور کچھ مستر بھی کیا ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ مابعد جدیدیت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’مابعد جدیدیت ایک وجدانی نظریے کا نام نہیں بلکہ مابعد جدیدیت کی اصطلاح کا احاطہ کرتی ہے مختلف بصیرتوں اور ذہنی رویوں کا جس کی تہہ میں بنیادی بات تخلیق کی آزادی اور معنی پر بٹھائے ہوئے پہرے یا اندورنی اور بیرونی دی ہوئی لیک کو رد کرنا ہے۔ یہ نئے ذہنی رویے،نئی ثقافتی اور تاریخی صورت حال سے پیدا ہوئے ہیں اور نئے فلسفیانہ قضایا پر بھی مبنی ہیں گویا مابعد جدیدیت ایک نئی صورت حال بھی ہے یعنی جدیدیت کے بعد کا دور مابعد جدیدیت کہلائے گا لیکن اس میں جدیدیت سے انحراف بھی شامل ہے جو ادبی بھی ہے اور آئیڈیا لوجیکل بھی۔ آئیڈیا لوجی سے مراد یہاں کوئی فارمولہ یا کسی سیاسی پارٹی کا کوئی منصوبہ بند پروگرام نہیں بلکہ ہر طرح کی فارمولائی ادعائیت سے گر یز یا تخلیقی آزادی پر اصرار یا اپنے تشخص پراصرار بھی ایک آئیڈیالوجی ہے۔‘‘(۱)
وہاب اشرفی نے مابعد جدیدیت کی تعریف اس طرح کی ہے:
’’مابعد جدیدیت ایک Complex صورت ہے جس نے روشن خیالی، آزادی جنس بل کی زندگی کے بیشتر گوشوں کو نئے اور متنوع ڈسکورس سے ہم کنار کر دیا ہے۔‘‘(۲)
مابعد جدیدیت، جدیدیت کی ضد نہیں البتہ الگ ضرور ہے اور اس کے بنیادی عناصرمنحرف بھی ہیں۔ مابعد جدیدیت ان بنیادوں کو کالعدم کرتی ہے جن پر جدیدیت کا انحصار ہے۔ یعنی بیگانگی، شکست ذات، حد سے بڑھی ہوئی داخلیت، لایعنییت اور غیر ضروری ہئیت پرستی، جوابہام، اشکال اور رعایت لفظی سے آگے نہیں سے بڑھتی۔ مابعد جدید افسانے میں اسلوب، زبان بیان اور تکنیک کی سطح پر تبدیلیاں ہوئیں اور یہ وہ اوصاف ہیں جو مابعد جدید افسانے، جدید اور ترقی پسندی سے مختلف ہے۔ شوکت حیات مابعد جدید افسانے کے بارے میں ہوںقمطراز ہیں:
’’مابعد جدید افسانے نے کرداروں کو ان کے چہرے واپس کئے ہیں۔ ان کے ہاتھوں اور پیروں میں پڑی ہوئی بیڑیوں کو توڑا ہے، انہیں زندگی کی آزاد فضا میں از خودنقل و حرکت کا موقع فراہم کیا ہے، ان کے چہروں کے طبقاتی اور ثقافتی بیک وقت دونوں تشخص کے نشانات کو فوکس کیا ہے۔ مابعد جدید افسانہ دائرے سے کہیں کچھ چھوٹتا نہیں اور جو کچھ چھوٹتا ہے وہ از کارفتہ اورتخلیقی طور پر غیرآمد ہوتا ہے۔‘‘(۳)
اگر دیکھا جائیں تو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ افسانوی ادب میں بھی کئی آواز یں ایسی ابھری ہیں جو مابعد جدیدیت کے نقط نظر سے خاصی اہم بن جاتی ہیں۔ جدیدیت سے انحراف اور اپنی آواز خود پیدا کرنے نیز ان کی شناخت کرانے کا حوصلہ نے افسانہ نگاروں کے یہاں ایک روشن لکیر ہے جس کا رشتہ کسی ازم سے قائم نہیں ہوتا۔ مابعد جدید افسانہ نگاروں میں ایسے افسانہ نگار بھی شامل ہیں جنہوں نے جدیدیت کے دور میں افسانہ نویسی کی ابتدا کی اور اس طرز کے چند افسانے بھی لکھے لیکن جب انہیں احساس ہو چلا کہ ایسے افسانوں کا مستقبل تاب ناک نہیں ہے تو انہوں نے افسانوی سمت کو نیا رخ دیا اور کہانی کے جوہر کی طرف واپس پلٹ کر آئے۔ ساتھ ہی علامت نئی معنویت عطا کی۔ اس ضمن میں سلام بن رزاق، شوکت حیات، حسین الحق اور انیس رفیع وغیرہ شامل ہیں۔ بعض افسانہ نگار ایسے بھی ہیں جنہوں نے دبیز علامات سے ہمیشہ گریز کیا تھا ان میں نیر مسعود، سید محمد اشرف، ذکیہ مشہدی، طارق چھتاری، شموئل احمد، فیاض رفعت، محسن خان عبدالصمد، شفع جاوید اور ساجد رشید وغیرہ خاصے اہم ہے۔ بعض ایسے بھی ہیں جن کے افسانے قاری کی صلاحیت کا زبردست امتحان لیتے ہیں اور قاری، افسانوں کی قرأت کے بعد بھی انہیں کرداروں کو گرفتار پاتا ہے۔ احمد یوسف اور مظہر الزماں خان ایسے ہی تخلیق کار ہے۔ سردست چند مابعد جدید افسانگاروں کا ذکر مندرجہ ذیل ہے:
اس ضمن میں سب سے پہلا نام نیر مسعود کا آتا ہے۔ ابتدا میں وہ بچوں کے لئے کہانیاں لکھتے تھے، بعد میں شمس الرحمان فاروقی کی ایما پر افسانے لکھنے شروع کیے جو مختلف رسائل خاص کر شب خون میں شائع ہوئے۔ انہوں افسانہ نگاری کا باقاعدہ آغاز اسی کی دہائی سے شروع کیا۔ اگر ان کے پورے افسانوی زندگی کا محاسبہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ انہوں نے انسان کی شخصی اور اجتماعی زندگی کے کسی بھی پہلو کونظرانداز نہیں کیاہے۔ ان کے شعور کا محور انسان کی اجتماعی ماضی نہیں اس کا اجتماعی حال اور زوال ہے۔ ان کے نمائندہ افسانوں میں ’ سلطان منظر کا واقعہ نویس ‘ ’ طاوس چمن کی مینا‘ ’ بڑا کوڑا گھر‘ اور’ مراسلہ‘ شامل ہے۔ اس ضمن میں’ سلطان مظفرکا واقعہ نویس‘ کافی دلچسپ، طویل اور نئے موضوع کی جانب اشاریہ ہے۔ مذکورہ افسانے کا راوی، واحد متکلم،سلطان مظفر کے مقبرے کی تعمیر کاحال لکھنے پر مامور ہے افسانے کی ابتدا میں افسانہ نگار یوں لکھتا ہے؛
’’اب جب کہ سلطان مظفر کے مقبرے کو اس کی زندگی میں ہی شہرت حاصل ہوگئی ہے کہ دور دور سے لوگ اس سے دیکھنے آتے ہیں۔ مجھ کو حکم ہوا ہے اس کی تعمیر کا واقعہ لکھوں۔ اس حکم کے ساتھ میری خانہ نشینی کا زمانہ ختم ہوتاہے۔‘‘(۴)
شوکت حیات ایک معروف افسانہ نگار ہیں۔ ان کی نگاہیں سیاسی احوال وکوائف کے باب میں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں۔ نتیجے میں وہ ان تمام ناہمواریوں کی خبر رکھتے ہیں جن سے انسان کی زندگی عبارت ہے۔ لیکن ایسی ناہمواریوں کا سبب بھی انسان ہے، کوئی ماورائی صورت نہیں۔ چونکہ مابعد جدیت ایسے تمام نا گفتہ مظاہر کونشانہ بناتے ہوئے خوشگوار اور متوازن زندگی کی جویا ہے اس لئے شوکت حیات کی اکثر تخلیقات جدید تر رویہ کی نشاندہی کرتے ہوئے مثبت زندگی کا اشارہ بن جاتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں’ بکسوں سے د با آدمی‘’ سیاہ چادریں اور انسانی ڈھانچہ‘، اور’ تین مینڈک‘ بہترین علامتی افسانے ہیں لیکن انہوں نے افسانہ’ بانگ‘ میں تخلیق روایت سے انحراف کیا۔ ان کا افسانہ’ فرشتے‘ مابعد جدید کا نمائندہ افسانہ ہے جس میں افسانہ نگار نے یہ دیکھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح نحیف شخص حالات سے مسلسل ٹکرا رہا ہے۔ بگڑے ہوئے حالات کے آگے سپرنہیں ڈال دیتا۔ ان کی اصلاح کے لئے دانشوری کی راہ اپناتا ہے۔ افسانہ نگار لکھتا ہے:
’’وہ تینوں فرشتوں کی طرح معصوم دکھائی دیتے تھے۔ ان میں سے ایک کافی دبلا پتلا تھا۔ ایک ذراکم اور ایک فربہ۔ ان میں سے ایک زندگی کے تجربے اور سماجی وابستگی کا قائل تھا۔ مسائل پر سوچتے سوچتے وہ عملی زندگی میں تقریبا ایک ناکارہ سی شئے میں تبدیل ہوتا جارہا تھا۔ ہر وقت تفکر میں غلطاں پیچاں۔ جسمانی طور پر گھلتے ہوئے وہ تنکا پہلوان کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ اس کا تدراک وہ اپنے افسانوں میں کرنے کی کوشش کرتا تھا۔‘‘(۵)
ان کا ایک اور افسانہ’ شکنجہ‘ ہے جس میں ایک غریب مزدور کا بچہ تعلیم حاصل نہیں کر پاتا ہے بلکہ اس کا باپ اس قدر لا چار ہے کہ اس سے آخر مزدور بنادیتا ہے ظلم وستم کے استحصال کے علاوہ شوکت حیات نے فرقہ وارانہ فسادات پربھی بہت سے افسانے لکھے ہیں۔ اس ضمن میں ’بھائی‘ ’تفتیش ‘’سانپوں سے نہ ڈرنے والا بچہ‘ ’گنبد کے کبوتر‘ وغیرہ خاص طور سے اہم ہیں۔
افسانہ نگاروں میں سلام بن رزاق ایک حقیقت پسند افسانہ نگار ہیں، جن کے یہاں رومان نہیں ملتا۔ ظاہر ہے وہ زندگی کی تلخیوں کو نظرانداز نہیں کرتے۔ انھوں نے سنجیدہ مسائل پر قلم اٹھایا اور ان مسائل کو بخوبی حسن و پیکر میں ڈھال دیا۔ انھوں نے ابتدائی دور میں علامتی کہانیاں لکھیں۔ بعد میں جب تجریدیت اور علامت نے اپنارخ بدلا تو سلام بن رزاق نے بھی کہانی پن میں نئے دریچے کھولے۔ ان کے افسانوں کے موضوعات عموما انسانی رشتے سیاسی جبر یت کی جکڑ بندیوں میں انسان کی بے بسی اور اس سے نکلنے کی جدوجہد ہے۔ ان کے پسندیدہ موضوعات میں سیاسی اتھل پتھل اور معاشی بحران میں ڈوبتی ابھرتی زندگی اور انتشار ہے۔ وہ متوسط طبقے کی نمائندگی فنی مہارت کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں ’ ننگی دو پہر کا سپاہی‘ ’معبر ‘ ’ شکستہ بتوںکے درمیان‘ اور ’ زندگی افسانہ نہیں‘ شامل ہے۔ ان کے افسانوں میں ’ آواز گر یہ ‘ ’آندھی میں چراغ ‘ اور ’ باہم ‘وغیرہ قابل ذکر ہے۔ باہم افسانے میں وہ یوں لکھتے ہیں؛
’’ارے کم سے کم اس لاش کو ڈھانکنے کے لئے کوئی کپڑا تو پھینکو تم لوگوں میں کچھ انسانیت ہے انہیں تھوڑی دیر تک چاروں طرف ایک تکلیف دہ سناٹا چھایا رہا۔ پھر سامنے کی بلڈنگ کے فرسٹ فلور کی ایک کھڑکی کھلی اور ایک بوڑھے شخص نے اپنا آدھا دھڑ کھڑکی سے باہر نکال کر سڑک کی طرف ایک سفید چادر اچھال دی۔ پھر ایک اور کھڑکی لی۔ ایک عورت نے سرباہر نکالا اور اس کی تہہ کی ہوئی سفید چادر سٹرک کی طرف پھینکی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے کھڑکیاں کھلتی گئیں اور تین منٹ کے اندر سات سفید دودھ چادریں سڑک پر اچھال دی گئیں۔ انسپکٹر چلایا۔ بس بس اب بس کرو بہت پنیہ ہو گیا۔ دو کانسٹبل آگے بڑھے، انہوں نے ایک چادر اٹھائی، اس کی گھڑی کھولی اور اس کے چاروں کونے کو پکڑ کر لاش کو ڈھک دیا۔ وہ کھڑکی بندکر کے اپنے بستر پر آ کر بیٹھ گیا۔ اچانک اس نے محسوس کیا کہ اس کے ذہن میں اٹھتے خوف کے بگولوں کا زوراب دھیرے دھیرے کم ہونے لگا ہے۔‘‘(۶)
مختصر موضوع کی مناسبت کے سبب تمام افسانہ نگاروں کے فن کا احاطہ ممکن نہیں۔ لہذا اجمالی طور پراس کے علاوہ جن افسانہ نگاروں کے یہاں مابعد جدید بیت کی عکاسی پائی جاتی ہے ان میں احمد یوسف کا افسانہ ’عبدالرحیم ٹی اسٹال‘، رتن سنگھ کا ’پناہ گاہ ‘ شفیع جاوید کا اپی ٹاپ، شفع مشہدی کا شونا ر ہزین،انیس رفیع کا’ سات گھڑے پانیوں والی عورت ‘ پیامبر، ریڑھ کہ ہڈی، ساتواں بوڑھا، ذکیہ مشہدی کے افعی، اجن ماموں کابیٹھکہ ۔ محمد مظہر الزماں خان کا’ گلدار‘ ’سوانح حیات‘ ’ دستاویز‘۔ طارق چھتاری کا ’ باغ کا دروازہ‘ ،’منیم پلیٹ‘ ’ پہیہ‘۔ سید محمد اشرف کا ’آدمی‘ ’ وہ ایک لمحہ‘ ’ڈار سے بچھڑے‘۔ساجد رشید کا ’ زندہ درگور ‘ ’نخلستان میں کھلنے والی لڑکی‘۔ خالد جاوید کا ’ کو بڑ‘ ’پیٹ کی طرف مڑے ہوئے گھٹنے‘۔ مشرف عالم ذوقی ’ احمد آباد۲۰۲ میل‘ ’ پانی‘ ’ اندر اندر گھاس‘۔ اور نورالحسنین کا ’ نجات‘۔ انجم عثمانی کا’ جنگل‘ ’ ڈھلواں چٹان پر لیٹا ہوا آدمی‘ دومنہ والا سانپ۔‘ پیغام آفاقی اور عبد الصمد وغیرہ کے افسانے شامل ہیں۔ ان کے علاوہ حسین الحق مظہرالاسلام، محمد حمید، محمد حامد سراج، آصف فرخی، طاہرہ اقبال، دیپک بدکی، ترنم ریاض، قمر جمائی، بیگ احساس فریدہ زین، غزال ضخیم،صادقہ نواب سحر، شائستہ فاخری، شاہد اختر، احمد صغیر، نگارعظیم ، صغیر رحمانی، اختر آزار کہکشاں پروین وغیر ہ کے علاوہ دیگر افسانہ نگاروں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے جو صنف افسانے کی آبیاری کررہے ہیں جن میں غضنفر، ابن کنول، غیاث الرمان مشتاق احمد نوری، اقبال حسین آزاد، معین الدین عثمانی،اسلم جمشید پوری، نورشاہ، مقصود اظہر ،محسن خان وغیرہ ایسے نام ہے جن کا قلم تخلیق کی بہترین فضا مرتب کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے افسانہ کے میں یہ بات خوش آئند ہے کہ اس کا مستقبل تاب ناک ہے اور اس طرح اکیسویں صدی تک آتے آتے افسانے نے حقیقت نگاری کا روپ اختیار کر لیا ہے یا یوں کہیں کہ افسانہ علامت نگاری سے حقیقت نگاری کی طرف گامزن ہے۔
حوالہ جات
۱۔پروفیسر گوپی چند نارنگ:اردو مابعد جدیدیت پر مکالمہ؛اردو کادمی دہلی،۲۰۰۴ء ص ۷
۲۔وہاب اشرفی؛مابعد جدیدیت؛مضمرات و ممکنات؛ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی،۲۰۰۴ء ، ص۱۴۳
۳۔بحوالہ؛وہاب اشرفی؛مابعد جدیدیت؛مضمرات و ممکنات؛ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی؛۲۰۰۴ء ، ص۲۹۰
۴۔نیر مسعود ؛عطر کافور؛سٹی بک شاپ کراچی ؛۱۹۹۹ء؛ص،۴۳
۵۔شوکت حیات؛گنبد کے کبوتر(افسانوی مجموعہ)؛ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس؛۲۰۱۰ء ص ۲۳۱
۶۔بحوالہ؛وہاب اشرفی؛ص،۳۰۳
****
Leave a Reply
Be the First to Comment!