اردو میں حج کے سفرنامہ کا آغاز و ارتقاء
صلاح الدین خان
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو ، ممبئی یونیورسٹی
salahuddin.khan990@gmail.com
9322859269
سفرنامہ کی دو بڑی قسمیں ہیں ۔ ایک عام سفرنامہ ،اس میں مذہبی سفرناموں کے علاوہ تمام سفرنامے شامل ہیں اور دوسری قسم مذہبی سفرناموں کی ہے ،مذہبی سفرناموں کی ایک قسم حج کے سفرناموں کی ہے ۔ حج کا سفر مذہبی سفر ہوتا ہے ۔ اس میں ایک مسلمان حج جیسےاہم فریضہ کو ادا کرنے کے لئے مکہ کا سفر کرتا ہے اور واپسی پر اپنے مشاہدات و تاثرات اور وہاں پیش آنے والے واقعات کو قلمبند کرتاہے ،اسی کو حج کا سفرنامہ کہا جاتا ہے۔
حج کے سفرنامے مختلف مقاصد کے تحت لکھے جاتے ہیں ۔ ایک مسلمان جب حج کرکے واپس آتا ہے تو اس کے دوست واحباب اور اس کے گھر والے اس بات کےشدید مشتاق رہتے ہیں کہ اس نے کیسے حج کیا ،اس سفر کے دوران اس نے کیا دیکھا ، مکہ ومدینہ میں واقع مقدس مقامات کو دیکھ کر ،خاص طور سے خانۂ کعبہ کو پہلی بار دیکھ کر اور روضۂ رسول پر پہنچ کر آپ ﷺ پر درود وسلام کے وقت اس کے اوپر کیا کیفیت طاری ہوئی ،ان چیزوں کو دیکھ کو اس کے اند ر کون سے احساسات و جذبات پیدا ہوئے ، ان سب چیزوں کو حاجی ان سے بیان کرے ۔ ان مقاصد کی تکمیل کے لئے حاجی اپنے سفر کی روداد کو صفحۂ قرطاس پر بیان کرتا ہے ۔ حج کے سفرناموں کے لکھنے کا ایک دوسرا مقصد دوسرے عازمین حج کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے ۔ ایسے سفرنامے جو اس مقصد کے تحت لکھے جاتے ہیں ان کی حیثیت ایک گائیڈ بک کی ہوتی ہے ۔ کبھی کبھی حاجی اپنے شوق اور خواہش کی تکمیل کے لئے اپنے حج کے سفر کی روداد کو تحریر کرتا ہے ۔ مقصد یہ ہوتاہے کہ دوسرے لوگ اس سفرنامہ کو پڑھ کر حج کے لئے آمادہ ہوں ۔
اردو میں حج کے سفرنامہ کا آغازتو انیسویں صدی کے وسط میں ہوا ۔ لیکن اس سے پہلے اردو میں حج کے سفرنامہ نگاروں کے سامنے فارسی و عربی میں سفرنامۂ حج کی مستحکم روایت تھی اور ان کے سامنے عربی وفارسی میں لکھے گئے بہترین حج کے سفرنامے موجود تھے ۔ عربی اور فارسی میں لکھے گئے حج کے ان سفرناموں کا اردو میں حج کے سفرناموں کے آغاز وا رتقا میں اہم کردار رہا ۔حج کے سفرناموں کے ابتدائی نقوش انھیں عربی وفارسی کے سفرناموں میں ملتے ہیں۔ اس لئے اس مضمون میں سب سے پہلے عربی و فارسی کے ان اہم حج کے سفرناموں کا تعارف وتجزیہ پیش کیا جارہا ہےجن کا اردو میں حج کے سفرنامہ کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار رہاہے ۔
’’ سفرنامہ حکیم ناصر خسرو‘‘ یہ سفرنامۂ حج حکیم ناصر خسرو کا لکھا ہوا ہے ۔ یہ سفرنامۂ حج انھوں نے فارسی زبان میں تحریر کیا تھا ۔ حکیم ناصر خسرو نے ۱۰۴۷ء میں یہ سفر شروع کیا اور پانچ سال بعد ۱۰۵۲ء میں ایران ،آذربائیجان ،شام مصر ،عرب اور عراق کی سیر کے بعد واپس ہوئے تھے ۔یہ سفرنامۂ حج انہی ممالک کے سفر کی روداد پر مشتمل ہے ۔ یہ فارسی کا قدیم ترین سفرنامۂ حج ہے جو آج سے تقریباً ہزار سال پہلے لکھا گیا تھا ۔’’ رحلۃ ابن جبیر ‘‘ یہ ابن جبیر اندلسی کا تحریر کردہ سفرنامۂ حج ہے ۔ یہ سفرنامہ عربی زبان میں لکھا گیا تھا ۔ ابن جبیر نے ۱۱۸۳ء میں یہ سفر شروع کیا اور ۱۱۸۵ء میں واپس ہوئے ۔انھوں نے اس سفر میں حجاز کے علاوہ مصر ، عراق ، شام کی بھی سیاحت کی ۔ اس سفرنامہ میں ان تمام ممالک کے سفرکی روداد کو انھوں نے بڑے دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے ۔عربی زبان کا ایک اور سفرنامۂ حج ’’ سفرنامہ ابن بطوطہ ‘‘ ہے ۔ اس سفرنامۂ حج کے مصنف مشہور سیاح ابن بطوطہ ہیں۔ ابن بطوطہ نے مسلسل پچیس سال تک سفر کیا ، اس دوران اس نے چار حج کئے ۔ اس سفرنامۂ حج میں اس نے مکہ ، مدینہ ، خانۂ کعبہ اور مسجد نبوی سے متعلق اپنے مشاہدات اور قلبی تعلق کو بیان کیا ہے۔ عربی زبان کا ایک اور سفرنامۂ حج ’’ فیوض الحرمین ‘‘ ہے ۔ اس کے مصنف شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہیں ۔ شاہ ولی اللہ نے ۱۷۳۰ء میں حج کی سعادت حاصل کی ،یہ سفرنامہ اسی سفرِحج کی روداد پر مشتمل ہے ۔ فارسی زبان کا ایک قدیم سفرنامۂ حج عبد الحق محدث دہلوی کا ’’ جذب القلوب الیٰ دیار المحبوب ‘‘ ہے ۔ عبدالحق محدث دہلوی نے ۱۵۹۰ء میں حج کی سعادت حاصل کی اور اس کے تین سال بعد ۱۵۹۳ء میں اس سفرنامۂ حج کو لکھ کرشائع کیا ۔ اردو کے مشہور ومعروف شاعر و تذکرہ نگار نواب محمد مصطفیٰ خان شیفتہ نے بھی ۱۸۳۹ء میں حجاز کا سفر کیا اور دوسال چھ دن کی مدت میں واپس ہوئے ۔ انھوں نے اپنے اس سفرِ حج کی روداد کو سفرنامہ کی شکل میں پیش کیا۔ ان کے سفرنامۂ حج کا نام ’’ برہِ آورد ‘‘ ہے جو فارسی زبان میں لکھا گیا ہے ۔فارسی وعربی میں لکھے گئے یہ چند قدیم حج کے سفرنامے ہیں جن کا اردو میں حج کے سفرنامہ کی بنیاد کو مضبوط کرنے میں اہم کردار رہا ہے ۔
۱۸۵۷ءکی بغاوت کی ناکامی کے بعد ہندوستان سےمغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور انگریزوں کا پورے ملک پر قبضہ ہوجاتا ہے ۔ اس وقت ملک میں سیاسی تبدیلی کے ساتھ لسانی تبدیلی بھی رونما ہوتی ہے ،فارسی کی جگہ اردو لے لیتی ہے ۔ اس لسانی تبدیلی کا اثر دیگر اصناف ادب کی طرح سفرنامہ پر بھی پڑا ۔ اور عربی و فارسی کی جگہ اردو میں سفرنامہ لکھنے کا رواج ہوا ۔ ۱۸۴۷ء میں یوسف خان کمبل پوش کا لکھا ہوا اردو کا پہلا سفرنامہ ’’ تاریخ یوسفی ‘‘ جب شائع ہوا تو ٹھیک اسی زمانے میں اردو میں حج کے سفرناموں کے لکھنے کا بھی رواج ہوا ۔ سید شاہ عطا حسین فانی گیاوی نے ’’ دید مغرب المعروف بہ ہدایت المسافرین‘‘ کے نام سے ۱۸۶۴ء میں اپنے حج کا سفرنامہ تحریر کیا ۔اسی دور میں نواب سکندر بیگم نے ’’ یاد داشت تاریخ وقائع حج ‘‘کے نام سے ۱۸۶۴ء میں اپنا سفرنامۂ حج لکھا ۔ لیکن یہ دونوں سفرنامۂ حج مخطوطہ کی شکل میں ہی ہیں، ابھی تک شائع نہ ہوسکے ۔
اردو کا پہلا طبع زاد سفرنامۂ حج جو طبع ہوکر منظر عام پر آیا وہ ’’ ماہ مغرب المعروف بہ کعبہ نما ‘‘ ہے اس کے مصنف حاجی منصب علی خان ہیں ۔ یہ سفرنامۂ حج ’’ تاریخ یوسفی ‘‘ کے ۲۴ سال بعد۱۸۷۱ء میں مطبع کشور ہند میرٹھ سے شائع ہواتھا ۔ اسی ابتدائی دور کا ایک سفرنامۂ حج ’’ سراج الحرمین ‘‘ ہے ۔ اس کے مصنف بریلی کے رہنے والے تجمل حسین ہیں ۔ انھوں نے ۱۲۸۷ھ میں حج کا سفر کیا اور ۱۲۸۹ھ میں حج سے واپس ہوئے۔ واپسی کے ایک سال بعد ۱۲۹۰ ھ میں اس سفرنامۂ حج کو مطبع صدیقی بریلی سے شائع کیا ۔یہ سفرنامۂ حج انھوں نے حاجیوں کی رہنمائی کے لئے تحریر کیا تھا ۔ اس سفرنامہ میں ریل کے کرایہ سے لے کر حج کی تمام ہدایتوں اور ضرورتوں کا ذکر موجود ہے ۔ ’’ سفرنامہ حرمین ‘‘ بھی اسی دور کا ایک سفرنامۂ حج ہے ۔یہ حاجی محمد زردار خان کا تحریر کردہ ہے ۔ یہ سفرنامہ انھوں نے ۱۸۷۳ء میں مطبع نول کشور سے شائع کیا تھا ۔ انیسویں صدی کے آخری دہے میں کئی حج کے سفرنامے لکھے گئے تھے ۔ ان میں علیم الدین کا ’’ رسالہ حج ‘‘ محمد حفیظ اللہ کا ’’ سفرنامہ عرب‘‘ اور نواب محمد عمر علی خان کا ’’ زاد غریب المعروف بہ ماہ مغرب ‘‘ قابل ذکر ہیں ۔ ان سفرناموں کا حج کے سفرناموں کے ارتقا میں اہم کردار رہا ہے ۔ انیسویں صدی کے اکثر حج کے سفرنامے عازمین حج کی رہنمائی کی غرض سے لکھے گئے تھے ۔ ان میں ریل کے سفر ،اسٹیشنوں کے نام جدہ بندرگاہ و جہاز کے حالات و مسائل کا تفصیلاً ذکر کیا گیا ہے ۔ کسی کسی سفرنامۂ حج میں حجاز کی تاریخ وجغرافیہ اور وہاں کی تہذیبی وثقافتی زندگی کو بھی پیش کیا گیا ہے ۔ اس دور کے حج کے سفرناموں میں فنی اور ادبی اعتبار سے ایک کمی بھی پائی جاتی ہےکہ اس عہد کے سفرنامہ نگاراپنے داخلی جذبات و مشاہدات کو اپنے سفرناموں میں پیش کرنے سے قاصر رہے ۔ان کا اسلوب نگارش بھی قدیم تھا ۔کسی کسی لفظ کے املا میں بھی قدیم طرز کو اختیار کیا گیا۔
بیسویں صدی حج کے سفرنامہ کے لئے بڑی خوش گوار ثابت ہوئی اس صدی میں حج کے سفرنامے ارتقائی منازل کو طے کرتے ہوئے تکمیل کے منازل تک پہونچے ۔ اس دور میں حج کے سفرنامہ نگاروں نے پرانی روایت سے انحراف کرتے ہوئے فنی وادبی اعتبار سے حج کےسفرناموں کو معیار ی بنانے کی کوشش کی ۔ اس مضمون میں بیسویں صدی کے ان سفرناموں کا مختصر تعارف وتجزیہ پیش کیا گیا ہے جن کا حج کے سفرنامہ کے ارتقا میں اہم کردار رہا ہے ۔ اور بیسویں صدی کے حج کےسفرناموں کو دو زمروں میں تقسیم کردیا گیا ہے ۔ ایک آزادی سے پہلے کا زمرہ دوسرا آزادی کے بعد کا زمرہ ۔ کیونکہ آزادی کے بعد حج کے سفرناموں میںکچھ زیادہ تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ۔ آزادی سے پہلے کے سفرناموں میں تاریخ وجغرافیہ پر زیادہ زور دیا جاتا تھا ،داخلی واردات و قلبی تاثرات کم پائے جاتے تھے ،لیکن آزادی کے بعد حج کے سفرناموں میں قلبی تاثرات اور داخلی واردات پر زیادہ زور دیا جانے لگا ۔ آزادی کے بعد حج کے سفرنامہ نگار کے لئے سفرنامہ میں کیا ہے ؟اس سے زیادہ یہ اہم تھا کہ سفرنامہ کس انداز میں تحریر کیا گیا ہے ۔
’’ سفر نامہ حجاز ومصر ‘‘ یہ بیسویں صدی کے بالکل ابتدائی دور کا سفرنامۂ حج ہے ۔اس کے مصنف نواب احمد حسین خان ہیں ۔ ان کایہ سفرنامہ۱۹۰۴ء میں شائع ہوا ۔ اس میں انھوں نے سفرِحج کے ساتھ مصر کے سفر کی روداد کو بھی بیان کیا ہے ۔ اسی دور کا ایک سفرنامۂ حج ’’ رفیق الحجاج ‘‘ ہے ،یہ ڈاکٹر نور حسین صابر کا لکھا ہوا ہے ۔ ڈاکٹر نور حسین نے ۱۹۰۵ء میں حج کی سعادت حاصل کی ۔انھوں نے حج سے واپسی پر ۱۹۰۷ء میں اس سفرنامہ ٔ حج کو کتابی شکل میں شائع کیا ۔’’ الفوز العظیم ‘‘ یہ مولانا حبیب الرحمٰن شیروانی کا تحریر کردہ سفرنامۂ حج ہے۔ مولانا نے ۱۹۲۶ء میں حج کی سعادت حاصل کی ۔ وہاں وہ روزنامچہ کی شکل میں اپنے سفرِحج کی روداد کو لکھتے رہے ۔ کافی عرصہ بعد ۱۹۶۷ء میں انھوں نے اپنے اس سفرنامۂ حج کو شائع کرایا ۔ اسی عہد کا ایک اہم سفرنامۂ حج ’’ حج امجد ‘‘ ہے ۔ اس سفرنامہ کے مصنف مولوی سید احمد حسین صاحب ہیں ۔انھوں نے ۱۳۴۶ھ میں حج کی سعادت حاصل کی ۔ حج کے سفر سے واپسی کے بعد انھوں نے اپنے حج کے سفرنامہ کو حج امجد کے نام سے شائع کیا ۔ مولانا سید امجد حسین ایک اچھے شاعر بھی تھے ،اس لئے انھوں نے اس سفرنامۂ میں جگہ جگہ اشعار کے پیرائے میں اپنے جذبات وکیفیات کا اظہار کیا ہے ۔ اس سفرنامۂ حج میں مصنف نے اہم ومتبرک مقامات کی تصویریں بھی شائع کی ہیں ۔ اسی دور کا ایک اہم سفرنامۂ حج ’’ سفرنامۂ حجاز ‘‘ ہے ۔ یہ ہندوستان کے مشہور عالم دین مولانا ثناء اللہ امرتسری کے سفرِ حج کی روداد ہے ۔ مولانا نے ۱۹۲۶ء میں یہ حج کیا تھا۔ مولانا کا یہ سفرنامۂ حج مکتوبات کی شکل میں ہے ۔ دوران سفرپیش آنے والے واقعات کو ہر ہفتہ ڈاک کے ذریعہ ارسال کرتے رہے ۔یہ سفرنامہ ’’مسافر حجاز کا مکتوب ‘‘کے عنوان سے ’’اہل حدیث‘‘ اخبار میں شائع ہوا ۔
آزادی سے پہلے کا ایک اہم سفرنامۂ حج ’’ سفرِحجاز ‘‘ ہے ۔یہ سفرنامہ مولانا عبد الماجد دریابادی کا تحریر کردہ ہے ۔ مولانا نے ۱۹۲۹ء میں حج کی ادائیگی کے لئے حجاز کا سفر کیا تھا ۔ یہ سفرنامہ اسی حج کی روداد ہے۔ یہ آزادی سے پہلے کا بہت اہم سفرنامۂ حج ہے ۔حج کے سفرنامہ کی روایت کے استحکام میں اس کا خاص کردار رہا ہے ۔ اسی عہد کا ایک اہم سفرنامۂ حج ’’ سفرنامۂ حجاز ‘‘ ہے ۔اس سفرنامہ کے مصنف مشہور محقق و مورخ مولانا غلام رسول مہر ہیں ۔ مولانا نے۱۹۳۰ء میں حج کی سعادت حاصل کی ۔ یہ سفرنامہ اسی سفرِحج کی روداد ہے ۔ فنی وادبی اعتبار سے اردو کا بڑا اہم سفرنامۂ حج ہے ،اس سفرنامہ ٔحج کا بھی حج کے سفرناموں کے ارتقا میں اہم رول رہا ہے ۔
آزادی کے بعدسفر کے ذرائع ووسائل میں آسانیاں ہوگئیں ۔ پہلے لوگ بحری جہاز کے ذریعہ حج پہ جایا کرتے تھے ۔ اس میں پندرہ بیس دن لگ جایا کرتے تھے اور سفر میں کافی صعوبتیں برداشت کرنی پڑتی تھیں ۔ بعد میں ہوائی جہاز کی ایجاد سے سفر میں بہت آسانیاں ہوگئیں ۔ مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہونے لگا۔ سفر بھی آرام دہ ہوگیا ۔ ان آسانیوں کی وجہ سے حج کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ۔ حاجیوں کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ حج کا سفرنامہ لکھنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ۔ اس دور میں زبان و ادب کے اعتبار سے معیاری حج کے سفرنامے لکھے گئے ۔ ان حج کے سفرنامہ نگاروں نے حج کے سفرنامہ کے فن کوبام عروج تک پہونچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔
’’ اپنے گھر سے بیت اللہ تک ‘‘ حج کا یہ سفرنامہ مشہور عالم دین مولانا سید ابو الحسن ندوی کا تحریر کیا ہوا ہے ۔ مولانا نے ۱۹۴۷ ء میں حج کی سعادت حاصل کی تھی ۔ حج سے واپسی کے دو سال بعد ۱۹۴۹ء میں یہ سفرنامۂ حج ’’ الفرقان ‘‘ لکھنؤ کے حج نمبر میں شائع ہوا ۔ اسی سال مجلس نشریات اسلام کراچی سے بھی شائع ہوا۔ آزادی کے بعد کے ابتدائی دور کا یہ ایک اہم سفرنامۂ حج ہے ۔اس کا حج کے سفرناموں کے ارتقا میں اہم کردار رہا ہے ۔ ’’ چند دن حجاز میں ‘‘ یہ محمد زبیر کا سفرنامۂ حج ہے ۔ محمد زبیر نے ۱۹۵۰ء میں حج کیا تھا ،یہ سفرنامہ اسی سفرِحج کی روداد ہے ۔ اس سفرنامہ میں انھوںنے آسان و عام فہم زبان میںاپنے واقعات ومشاہدات کو بیان کیا ہے ۔
’’ کاروان ِ حجاز ‘‘ اس سفرنامۂ حج کے مصنف مشہور شاعر ماہر القادری ہیں ۔ ماہر القادری نے ۱۹۵۴ ء میں حج کیا تھا ۔ اپنے حج کی روداد کو انھوں نے اس سفرنامہ میں پیش کیا ہے ۔ یہ سفرنامہ ادیبانہ انداز میں لکھا گیا ہے ۔ یہ اپنے دور کے حج کے ممتاز سفرناموں میں سے ایک ہے ۔ حج کے سفرنامہ کے ارتقا میں اس کا بہت اہم کردار رہا ہے ۔ ’’ سفرنامہ ارض القرآن ‘‘ یہ سفرنامہ برصغیر کے مشہور عالم دین ، مفسر قرآن اور اردو ادب کے مایہ ناز ادیب مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کے سفر کی روداد ہے ۔ اس سفر میں مولانا مودودی نے بحرین ، اردن ، فلسطین ، شام و مصر اور کویت اور سعودیہ کے مختلف شہروں کی زیارت کی ۔ اس سفرنامہ کو مولانا کے ہم سفر محمد عاصم الحداد نے مرتب کیا ہے ۔ مولانا مودودی نے یہ سفر ۱۹۵۹ء میں کیا تھا ۔ مولانا کے سفر کا مقصد اسلامی آثار جن کا قرآن وحدیث اور سیرت کے کتابوں میں ذکر ہے ،ان مقامات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا تھا ۔ تاکہ قرآن و حدیث میں مذکور آثار کو اچھی طرح سمجھا جاسکے ۔
’’ میاں کی اٹریا تلے ‘‘ آزادی کے بعد کا یہ ایک اہم سفرنامۂ حج ہے ،جواپنے اچھوتے انداز وبیان کی وجہ سے دوسرے سفرناموں سے ممتاز ہے ۔ اس سفر نامہ ٔ حج کے مصنف پاکستان کے شہر کراچی کے رہنے والے محمد ذاکر علی خان ہیں ۔ ان کا یہ سفرنامہ ٔ حج منفرد انداز اورنادر اسلوب میں لکھا گیا ہے ۔ مصنف نے اس سفرنامہ میں کچھ مخصوص الفاظ کو مخصوص معانی میں استعمال کیا ہے ۔ جیسے اٹریا ، ڈیوڑھی ، دولہا ، بارات ، کویا ، پیا وغیرہ ۔پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے معروف و مشہور فکشن نگار ممتاز مفتی نے ۱۹۶۸ ء میںحج کی ادائیگی کے لئے سفر کیا اور پنے اس سفر کی روداد کو انھوں نے ’’ لبیک ‘‘ کے نام سے سفرنامۂ حج کی شکل میں پیش کیا ۔ ممتاز مفتی نے اس سفرنامۂ حج میں اپنے دلی کیفیات اور داخلی جذبات کو افسانوی انداز میں بیان کیا ہے ۔ آزادی کے بعد کا یہ بڑا اہم سفرنامۂ حج ہے جو اپنے منفرد اسلوب ِ نگارش کی وجہ دوسرے حج کے سفرناموں سے ممتاز ہے ۔
’’ خیموں کے شہر میں ‘‘ اس سفرنامۂ حج کی مصنفہ ڈاکٹر صادقہ ذکی ہیں ۔ صادقہ ذکی نے ۱۹۹۷ء میں حج کی سعادت حاصل کی تھی ۔ اس سفر کے دوران پیش آنے والے واقعات ومشاہدات کو انھوں نے اس سفرنامہ میں پیش کیا ہے ۔ یہ سفرنامۂ حج یہ ثابت کرتا ہے کہ حج کے سفرناموں کے ارتقا میں مرد وں کے ساتھ خواتین سفرنامہ نگاروں کا بھی اہم کردار رہا ہے ۔ ’’ دیدار کعبہ ‘‘ پاکستان کے جسٹس خواجہ محمد شریف کا تحریر کیا ہوا سفرنامۂ حج ہے ۔خواجہ محمد شریف نے دو حج کئے ۔ پہلا حج ۱۹۹۸ء میں اور دوسرا حج ۲۰۰۶ء میں کیا تھا ۔ یہ سفرنامہ ان کے دوسرے حج کی روداد ہے ۔’’ بلاوا ‘‘ یہ سفرنامۂ حج بھی پاکستان کے ایک مصنف سید طارق جاوید مشہدی کا لکھا ہوا ہے ۔ یہ سفرِ حج انھوں نے اکتوبر ۲۰۱۱ء میں کیا تھا ۔ اس سفرنامہ میں انھوں نے مکہ اور مدینہ میں پیش آنے واقعات کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ ان پاکستانی مصنفین نے بھی حج کے سفرناموں کے ارتقا میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ’’ ارض حجاز میں چند روز ‘‘ یہ الطاف حسین اعظمی کا سفرنامۂ حج ہے ۔ انھوں نے ۲۰۱۳ء میں حج کی سعادت حاصل کی ۔ اس سفرنامہ میں انھوں نے سفر کے دوران پیش آنے واقعات ومشاہدات کو آسان اور سادہ زبان میں بیان کیا ہے ۔ ’’ بطواف کعبہ رفتم ‘‘ یہ مولانا اعجاز احمد اعظمی کا سفرنامۂ حج ہے ۔ مولانا نے کل نو حج کئے ،اس سفرنامہ میں ان کے تمام حج کی تفصیلات موجود ہیں ۔ سب سے آخری حج مولانا نے ۲۰۱۱ء میں کیا تھا۔ اس سفرنامہ کا بھی حج کے سفرناموں کے ارتقا میں اہم کردار رہا ہے ۔
حج کے سفرناموں کے تحقیقی و تنقیدی مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حج کے سفرناموں میں اگرچہ مناظر و موضوعات میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔جدہ ، مکہ ، مدینہ ، خانۂ کعبہ ،صفا مروہ ،منیٰ ، میدان عرفہ، مزدلفہ ، روضۂ نبوی ، مسجد نبوی،بقیع قبرستان وغیرہ ایسے مقامات اور مناظر ہیں جن سے ہر حاجی کو سابقہ پڑتا ہےاور حج کا ہر سفرنامہ نگار اپنے سفرنامہ میں ان چیزوں کو جگہ دیتا ہے لیکن اس کے باوجود حج کے ان سفرناموں میں جذبات نگاری اور منظر کشی میں تنوع پایا جاتا ہے ۔ ہر سفرنامہ نگار کا اظہار تاثر مختلف ہوتا ہے ۔ہر ایک اپنی ذاتی کیفیات اور قلبی تاثرات کو دوسروں سے مختلف پیرائے میں پیش کرتا ہے ۔ خاص طور سے آزادی کے بعد جو حج کے سفرنامے لکھے گئے ہیں وہ بہت معیاری اور اعلیٰ درجے کے ہیںکیونکہ آزادی کے بعد حج کے سفرنامہ نگاروں نے بھی دوسرے سفرنامہ نگاروںکی طرح پرانی روایت سے انحراف کیا اور اپنی راہ الگ متعین کی ۔ آزادی کے بعد کے سفرنامہ نگاروں نے تاریخ وجغرافیہ کو چھوڑ کو اپنے داخلی جذبات وکیفیات کو بیان کرنے پر زور دیا ۔ اور سفرنامہ میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے مزاحیہ عنصر کو بھی شامل کیا جیسے ممتاز مفتی کا سفرنامہ’’لبیک‘‘اور محمد ذاکر کا سفرنامۂ حج ’’میاں کی اٹریا تلے‘‘ ۔
٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!