نذر صابری کی نعتیہ شاعری کاایک لسانی و اسلوبیاتی جائزہ
نذر صابری کی نعتیہ شاعری کاایک لسانی و اسلوبیاتی جائزہ
A Linguistics and Stylistics Review of “Na’atia”
Poetry of Nazr Sabiri
شوکت محمود شوکت
ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی، اسلام آباد
gcb.chhab@gmail.com
ABSTRCT
Nazr Sabiri (1923-2013) was a renowned poet and prose writer. He was also the founder of three educational and literary organizations. He has also compiled more than twenty Books/Booklets. In this articles, a linguistics and stylistics review of his “Na’atia” poetry has been taken, which is included in his famous poetry Book , titled as “Wamandigi-e-Shauq”.
Key words: Naat,verse,nazr sabiri,prosody, linguistics,stylistics and
consonants.
کلیدی الفاظ: نعت،شعر،نذر صابری،عروض،لسانیات،اسلوبیات اور مصوتے۔
——————-
نذر صابری،یکم نومبر، ۱۹۲۳ء کو مولوی علی بخش کے ہاں ملتان میں پیدا ہوئے۔ آپ کی ولادت کے ٹھیک ایک سال بعد ،آپ کا خاندان اپنے آبائی وطن، جالندھر( بھارت) کی طرف لوٹا،بایں وجہ، آپ کے تعلیم وتربیت کے تمام مراحل،جالندھر ہی میں طے پائے۔ آپ کے معروف و مشہور اساتذہ میں سے ، سید دل محمد فضا،مولانا عزیزالدین عظامی، پروفیسر نند کشور،پروفیسر حاجی محمد یعقوب، سید فیض الحسن فیضی اورڈاکٹر سید صفدر حسین کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ آپ کا یہ اعزاز ہے کہ آپ اسلامیہ کالج، جالندھر سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کے پہلے بیج میں شامل تھے، تعلیم کے دوران ہی میں آپ کو شعر و شاعری سے حد درجہ شغف پیدا ہو گیا تھا،شاعری کا آغاز ، غزل سے کیالیکن، تمام عمر میں تقریباً تیس سے زائد
غزلیات نہیں کہیں،کیوں کہ آپ کا زیادہ ذوق و شوق اور راغب رجحان نعت گوئی کی طرف تھا۔
قیامِ پاکستان کے بعد آپ کا خاندان لاہور ہجرت کر آیا۔لاہور میں چند مہینے گزارنے کے بعد، اٹک تشریف لائے اور اٹک ہی کو اپنی علمی و ادبی خدمات کے مستنیر کیا۔ آپ کی نعتیہ شاعری کا مجموعہ’’ وَا ماندگی ٔ شوق‘‘کے نام سے پہلی بار ۱۹۹۳ع میں ، محفلِ شعر و ادب،اٹک کے زیرِ اہتمام شایع ہوا،اس مجموعۂ نعت میں ، کل چالیس نعوت شامل ہیں ، بقول ڈاکٹر سعد اللہ کلیم کہ عدد چالیس[۴۰] قابل غور ہے(۱)، یہ نعتیں ۱۹۴۴ع سے لے کر ،اپریل ، ۱۹۹۲ع کے درمیانی عرصے میں
لکھی گئی ہیں۔ ’’واماندگی ٔ شوق‘‘ کی ترکیب ، اسداللہ خان غالبؔ کے درج ذیل شعر سے ماخوذ ہے:۔
؎ دیر و حرم آئینۂ تکرارِ تمنا
واماندگیٔ شوق ، تراشے ہے پناہیں
(۲)
آپ کی یہ نعتیں نہ صرف عروضی، فنی، تکنیکی اور فکری نعتیہ شاعری کے معیار پر پورا اترتی ہیں،بلکہ آپ نے مذکورہ مجموعۂ نعت میں یہ التزام بھی برتا ہے کہ ہر نعت کے اختتام پر اس کی تخلیق کا ماہ و سال تحریر کیا ہے۔ جب کہ جالندھر میں
کہی گئی، نعتوں کے اختتام پر ماہ و سال کے علاوہ، جالندھر بھی مرقوم ہے۔ واماندگیٔ شوق میں شامل ، پہلی نعت زبانِ فارسی
میں ہے۔ جس کے درج ذیل شعر میں ،تلمیحات کا استعمال ملاحظہ ہو:۔
؎ موسیؑ را بے کار کردہ نور بیضا و عصای
بر فراز طور سینا حسن جادوی کسی
(۳)
اس شعر میں ،موسی ؑ ، نور بیضا( یدِ بیضا)، عصا اور طور سینا ،ساری تلمیحات ہیں۔اگلی ایک نعت کا مطلع ملاحظہ کیجیے:۔
؎ کلی کلی کی زباں پر یہ نام کس کا ہے؟
نسیم صبح بتا! ذکر عام کس کا ہے؟
(۴)
مذکورہ نعتیہ شعر میں’’کلی کلی‘‘ کے الفاظ میں صنعتِ تکرار ِ لفظی کا استعمال ہواہے اور شعر ہذا میں استفہامیہ لہجہ اختیار کیا گیا ہے،اس کے علاوہ،آٹھ بار مصوتے’’کاف‘‘ کا خوبصورت استعمال ، صوتی رمزیت اور موسیقیت کی نشان دہی کرتا ہے ، حال آں کہ اس مصوتے کا تعلق،بے صدا مصوتوں کے گروہ سے ہے تاہم،اس مصوتے کی وجہ سے شعرِ مذکورہ میں غنائیت اور آہنگ بہ درجہ اتم موجود ہے۔نیز، اس شعر میں’’ نام‘‘ اور ’’ عام‘‘ قوافی ہیں، جب کہ ’’ کس کا ہے‘‘ کے الفاظ ردیف
کے طور پر استعمال ہوئے ہیں،اسی نعت کا ایک اور شعر دیکھیے:۔
؎ زمانہ گسیو و رخ ان کے دیکھ کر بولا
یہ شام کس کی،یہ ماہ تمام کس کا ہے؟
(۵)
درج بالا نعتیہ شعر کے پہلے مصرعے میں’’ گیسو و رخ‘‘کے الفاظ کا استعمال ہوا ہے ،جب کہ ان ہی کی مناسبت سے سے مصرع ثانی میں ’’ شام‘‘اور’’ ماہ تمام‘‘ کے الفاظ آئے ہیں،یعنی صنعتِ لفِ و نشر کا خوبصورت استعمال کیا گیا ہے، ’’ گیسو ‘‘ کو شام اور ’’ رخ‘‘ کو ماہ ِ تمام کہا گیا ہے،اس شعر کا لہجہ بھی استفہامیہ ہے،جب کہ اس میں مصوتے’’کاف‘‘ کاسات بار خوب صورت استعمال بھی موجود ہے۔ نیز، اس شعر میں لفظ ’’ یہ‘‘کا دو بار استعمال، اشارۂ قریب کے لیے ہے۔اسی نعت کا ایک اور شعر ملاحظہ ہو:۔
؎ نہ خا کیوں کو خبر ہے نہ قدسیوں کو پتا
کمند وہم سے بالا مقام کس کا ہے؟
(۶)
مذکورہ شعر میں ’’ خاکیوں‘‘ اور ’’ قدسیوں‘‘ کے الفاظ کے درمیان،صنعتِ تضاد کا استعمال ہوا ہے،جب کہ اس میں مصوتے’’ کاف‘‘ کا چھے بار استعمال موجود ہے ،نیز اس شعر کا لہجہ بھی استفہامیہ ہے جب کہ ’’مقام‘‘ اور ’’ کس کا ہے‘‘ کے الفاظ بالترتیب،قافیہ اور ردیف کے طور پر استعمال ہوئے ہیں ، آپ کی ایک اور نعت کا مطلع ملاحظہ کیجیے:۔
؎ جان ایماں آ گئے ، ایمان ایماں آ گئے
شان یزداں آ گئے ، شایان یزداں آ گئے
(۷)
آپ کی نعت کا مذکورہ مطلع موسیقیت اور غنائیت سے مملو ہے،اس شعر میں صنعتِ اسلوبِ خبرکا استعمال ہوا ہے،نیز ’’ جانِ ایماں‘‘ ،’’ ایمان ایماں‘‘،’’ شان یزداں‘‘ اور’’ شایان یزداں‘‘کی تراکیب نے شعرِ ہذا کو ،وہ صوتی آہنگ عطا کیا ہے جو بہت کم اردو نعتیہ شاعری میں نظر آتا ہے ، اس کے علاوہ، اس شعر میں مصوتے’’ گاف‘‘ اور مصوتے’’نون/نون غنہ‘‘ کا بالترتیب چار اور آٹھ بار استعمال موجود ہے، جب کہ اس میں ’’ ایماں‘‘ اور ’’ یزداں‘‘ قوافی ہیں اور ’’ آ گئے‘‘ کے الفاظ بہ طور
ردیف استعمال ہوئے ہیں۔اسلوبِ خبر کے حوالے سے آ پ کے تین اور نعتیہ شعر دیکھیے:۔
؎ سیر احوال و مقامات ہے معراج کی رات
نقطۂ اوجِ کمالات ہے معراج کی رات
(۸)
؎ اس قدر نور کی برسات ہے معراج کی رات
چاک ہر پردہ ظلمات ہے معراج کی رات
(۹)
؎؎ ہر گھڑی آپ کا رہوار ہے مائل بہ عروج
آپ کے واسطے ہر رات ہے معراج کی رات
(۱۰)
جب کہ اسی نعت کا اگلا شعر ملاحظہ ہو:۔
؎ قطرہ دریا ہے ، کلی باغ، ستارہ خورشید
کس قدر رافع درجات ہے معراج کی رات
(۱۱)
شعرِ مذکورہ میں صنعتِ مجاز مرسل کا خوب صورت استعمال ہوا ہے ، ’’ قطرے‘‘ کو’’ دریا‘‘ کہنا، ’’ کلی‘‘ کو ’’ باغ ‘‘ کہنا اور ’’ ستارے‘‘ کو ’’ خورشید‘‘ کہنا ، صنعتِ مجاز مرسل کی مثالیں ہیںپھر ایک مصرعے ہی میں ،تین مختلف اشیا کو تین دیگر اشیا قرار دینا کمالِ فن ہے نیز، اس شعر کے مصرع ِ ثانی میں لفظ ’’ کس‘‘یہاں بہ طور استفہامیہ استعمال نہیں ہوا، بل کہ اس جگہ، اس لفظ سے مراد’’کتنا/کتنی‘‘ ہے، یعنی یہ لفظ یہاں مقدار کو ظاہر کر رہا ہے۔آپ کی ایک اور نعت کا شعر ملاحظہ کیجیے:۔
؎ جس کی فتح مبین کا سن کر
دم بخود ہے اسور بانی پال (اشور بنی پال)
(۱۲)
اس شعر کے پہلے مصرعے میں صنعتِ موصل یا صنعتِ متصل الحروف کا خوب صورت استعمال موجود ہے جب کہ دوسرے مصرے میں اشوریہ کے بادشاہ، اشور بنی پال بہ طور تلمیح استعمال ہوئی ہے، اشور بنی پال،اشوریہ کے دارالحکومت نینو میں پیدا ہوئے تھے، جو فلسطین، جنوب مغربی ایران، مصر اور شام کے فاتح تھے۔لیکن،( ۶۵۰ ق م)، مقبوضہ مصر ان کے قبضے سے نکل گیا تھا، انھوں نے نینوا میں ایک عظیم کتب خانے کی بنیاد بھی رکھی تھی،ان کا دورِ حکومت(۶۶۸ ق م۔۶۲۶ ق م) میں کتب خانوں کے علاوہ، دیگر ترقیاتی کام بھی ہوئے، ان کو سخت جابر اور ظالم بادشاہ کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔ان
کی وفات ،۶۳۱ق م، ہوئی تھی۔ آپ کی ایک اور نعت کا شعر ملاحظہ ہو:۔
؎ ہر گدا جس کے فیض سے سلطاں
ہر غنی جس کے بغض سے کنگال
(۱۳)
شعرِ ہذا کے مصرعِ اولیٰ میں ’’ گدا‘‘ اور ’’ سلطاں‘‘جب کہ مصرعِ ثانی میں’’ غنی ‘‘ اور ’’ کنگال‘ ‘ کے الفاظ کے درمیان صنعتِ تضاد کا استعمال ہوا ہے۔ مزید برآں، شعرِ مرجز کی بہترین مثال ہے۔ آپ کا ایک اور نعتیہ شعر ملاحظہ کیجیے
جس میں استعارے کا عمدہ استعمال کیا گیا ہے:۔
؎ حرا کا چاند پہنچا ہے فلک پر
عرب کی سرزمیں اونچی ہوئی ہے
(۱۴)
مذکورہ شعر کے مصرع ِ اولیٰ میں، حضور اکرم ؐ کے لیے ’’ حرا کا چاند‘‘ کے الفاظ استعارے کے طور پر استعمال ہوئے ہیں، جب کہ مصرعِ ثانی ’’ عرب کی سر زمیں اونچی ہوئی ہے‘‘ ، سہلِ ممتنع کے عمدہ مثال ہے۔ آپ کی نعتیہ کتاب ’’ واماندگیٔ شوق‘‘ میں مشمولہ تقریباً تمام نعوت میں جہاں تلمیحات و استعارات ، علمِ بیان اور صنائع بدائع کا خوب صورت استعمال موجود ہے وہاں ،آپ نے اپنی اُردو نعت میں کہیں کہیں علاقائی زبانوں نیز فارسی و عربی زبانوں کے الفاظ کا پیوند بھی لگایا گیا ہے۔ اسی طرح اُردو نعت میں یہاں کے مختلف لہجوں اور بولیوں کے الفاظ، تراکیب ، روزمرہ اور محاورے بھی استعمال ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جن میں پنجابی زبان کے الفاظ کا استعمال ہوا ہے:۔
سیر چشمی جسے نہیں دیتے
اس کو ہر شے کی ’’تھوڑ‘‘ دیتے ہیں
(۱۵)
یہ بھی ان کے کرم کی صورت ہے
جتنی ہوتی ہے ’’لوڑ‘‘ دیتے ہیں
(۱۶)
وہ تو ان کے بھی نا خدا ہیں نذرؔ
بیڑیاں ہی جو ’’روہڑ‘‘ دیتے ہیں
(۱۷)
مذکورہ بالا نعتیہ اشعار میں ’’تھوڑ‘‘، ’’لوڑ‘‘ اور ’’روہڑ‘‘ پنجابی زبان کے الفاظ ہیں، جب کہ سادگی ، قطعیت، اختصار، متانت، تقدس، شوکتِ الفاظ، جدتِ ادا،اجتنابِ مبالغہ اور عشق و عقیدت بھی آپ کی اُردو نعت کے نمایاں پہلو ہیں۔
الغرض! جہاں آپ کی نعتیہ شاعری کے مذکورہ مختلف نمایاں اور ممتاز پہلو ہیں وہاں، آپ کی شخصیت میں،ِ حال و قال،معرفت اوروجد وجذب کے پہلوؤں سمیت ، ’’جلالی‘‘ پہلو زیادہ ممتاز اور نمایاں ہے ، آپ ایک صاحبِ جلال بزرگ
بھی تھے،اس حوالے سے ابو مظہر علی اصغر چشتی صابری جالندھری یوں رقم طراز ہیں۔
’’ حضرت نذر صابری مد ظلہ العالی کا علمی، ادبی اور روحانی رعب و بدبہ اس قدر ہے کہ ان سے مل کر آدمی کو اپنی بے بضاعتی کا احساس ہوتا ہے ۔ وہ مخاطب کے حواس پر چھا جانے کی اہلیت رکھتے ہیں اور اسے پوری طرح اپنی پذیری کی گرفت میں لے لیتی ہیں اور غائبانہ رعب اور دبدبہ کا یہ عالم ہے کہ قلم کانپ رہا ہے دل میں ایک خوف ہے کہ شاید میں
ان کی سیرت لکھنے کا حق ادا نہ کر سکوں۔‘‘(۱۸)
یہ نعت گو شاعر،محقق،ادیب اور صاحبِ جلال بزرگ ۱۱ دسمبر،۲۰۱۳ع کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے ، آپ کو اٹک شہر کے عید گاہ کے قریب بڑے قبرستان میں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں دفن کر دیا گیا۔آپ کی تاریخِ وفات بھی ،شاعرانہ انداز کی حامل ہے یعنی،گیارہ، بارہ، تیرہ(۲۰۱۳۔۱۲۔۱۱)۔اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔(آمین)
٭٭٭٭٭٭
حواشی و حوالہ جات
۱۔ سعد اللہ کلیم ، ڈاکٹر، واماندگیٔ شوق ایک سرسری جائزہ، ماہ نامہ ریا ض العلم، اٹک ، جلد ۳ ، نومبر ۲۰۰۳،ص۲۱[مذہبی روایت میں ۴۰ کے عدد کی بڑی اہمیت ہے۔حضرت موسیٰ ؑ سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا گیا تھا۔[البقرہ ۲:۵۱]۔ نبی اکرم ﷺ کو چالیس برس کے بعد نبوت عطا ہوئی ۔ چالیس سال کی عمر کو پختگیٔ عمر کاآغاز کہا گیاہے۔غالباً اسی نقطۂ نظر سے مرحوم سعد اللہ کلیم نے یہ بات کہی تھی ، تاہم’’واماندگیٔ شوق‘‘ کی اشاعتِ ثانی[۲۰۰۸ء] کے ناشر جناب ابوالحسن واحد رضوی کا کہنا ہے:’’زیرِ نظر ایڈیشن میں مزیددس نعتیہ غزلیات کااضافہ بھی کیا گیا ہے۔ ان غزلیات کی تخلیق بھی اسی عرصے کے دوران میںہوئی تھی، تاہم پہلے ایڈیشن میں سہواً شامل ہونے سے رہ گئی تھیں‘‘۔ [عرض ِ ناشر ص:۳]
۲۔ غیرمتداول کلامِ غالب، مرتبہ: جمال عبدالواحد، نیو دہلی،غالب اکیڈمی،س: ۲۰۱۶ع،ص:۷۴۔
۳۔ نذر صابری،واماندگیٔ شوق، اٹک، محفلِ شعر و ادب،بار: اول، س: ۱۹۹۳ع،ص: ۱۱۔
۴۔ ایضاً،ص۔۱۲۔ ۵۔ ایضاً ۶۔ایضاً ۷۔ایضاً، ص:۱۷۔
۸۔ ایضاً، ص:۱۸۔ ۹۔ایضاً ۱۰۔ایضاً ۱۱۔ایضاً
۱۲۔ ایضاً۔ص:۲۰۔ ۱۳۔ایضاً ۱۴۔ایضاً۔ص:۵۵۔ ۱۵۔ایضاً،ص:۵۹
۱۶۔ ایضاً،ص:۶۰ ۱۷۔ایضاً۔
۱۸۔ شمیمِ جالندھر( المعروف بہ تذکرہ اولیائے جالندھر)،ابو مظہر علی اصغر چشتی صابری جالندھری، لاہور، اراکین بزمِ چشتیہ غنویہ، س:۱۹۹۹ع،ص:۲۷۳۔٭٭٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!