زندگی بدل ڈالو : ایک جائزہ

محمد عابد حسن

ریسرچ اسکالر،شعبہ اردو، بردوان یونی ورسٹی، کولکتا، مغربی بنگال

مغربی بنگال کی ادبی فضا کافی خوشگوار ہے۔ یہاں کے ادیبوں نے ادب کے دوسرے اصناف سخن کی طرح طنز و مزاح میں بھی اپنی تخلیقی جوہر دکھاتے ہیں۔ طنز و مزاح کے اس کھیپ میں سالک لکھنوی، قیوم بدر، ڈاکٹر سید حسین احمدزاہدی، پرویز انجم، ایم سعید اعظمی، حلیم صابر، سیف الاسلام سیف، جاوید نہال حشمی اور ایس – ایم آرزو کا نام نمایاں ہیں۔ انہوں نے مضمون ’ریز گاری کی قلت ‘ کے ذریعہ ادبی دنیا میں قدم رکھا۔ یہ مضمون دسمبر ۱۹۸۳ء کے ماہنامہ ’شگوفہ‘ میں شائع ہوا تھا۔ ان کے مختلف مضامین معیاری ادبی رسالوں اور اخباروں کی زینت بن چکے ہیں۔ ان کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کے پانچ مجموعے شائع ہو کر منصہ شہود پر آچکے ہیں۔ لوگوں نے اسے ہاتھوںہاتھ لیا اور اپنے داد و تحسین سے نوازا۔’ وہ آئے شہر میں میرے ‘ (۲۰۱۲ء) ، ’مہمان تم کب آؤ گے‘ ( ۲۰۱۶ء) ، ’میاں کلن کا ریٹائر منٹ‘ (۲۰۱۷ء) اور ’زندگی بدل ڈالو‘ (۲۰۱۹ء) اور پانچواں مجموعہ (۲۰۲۰ء) یہاں ان کی کتاب ’زندگی بدل ڈالو‘ کا ذکر مقصود ہے۔ اس کتاب میں ۲۸ طنز یہ و مزاحیہ مضامین شامل ہیں۔ ان کے موضات مختلف ہیں۔

ایس – ایم آرزو ایک منکسر المزاج شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کا سماجی، سیاسی اور معاشی شعور بالیدہ ہے۔ وہ حساس انسان ہیں۔ وہ اپنے سماج میں ہونے والے واردات پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ وہ اپنے ارد گرد سے اپنے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں۔ وہ پرانے موضوعات کو نئے اور دل کش انداز میں پیش کرتے ہیں۔ وہ بات سے بات پیدا کرنا جانتے ہیں۔ اس لیے چھوٹے چھوٹے موضوعات میں بھی لطف پیداکر دیتے ہیں۔ وہ اپنے طنز یہ و مزاحیہ مضامین کے ذریعہ سماج کی اصلاح کرتے ہیں۔ ان کا انداز شوگر کوٹیڈ ہے۔ وہ مزاح کے چادر میں لپیٹ کر اس طرح طنز کرتے ہیں کہ چہرے پہ مسکراہٹ آجاتی ہے اور ذہن و دماغ اس سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ جن سے ایس – ایم آرزو قاری کو روشناس کروانا چاہتے ہیں۔ وہ صالح ، سماجی، معاشرتی نظام کے معترف نظرآتے ہیں۔ وہ دوسروں پر ہی طنز نہیںکرتے ہیں۔ خود کا بھی مضحکہ اڑانے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔ یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے :

’’شام کو تھکے ہارے گھر پہنچا تو بیگم مجھے دیکھتے ہی بھڑک اٹھیں۔ ارے اس عمر میں آپ نے ایسی کون سی حرکت کرد ی ہے۔ کہ کس نے آپ کا منہ نوچ ڈالا۔ ارے نہیں بیگم وہ بات نہیں ہے۔ جو آپ سمجھ رہی ہیں؟ بلکہ بات دراصل یہ ہے کہ دو بیگ برادروں نے میرا یہ حلیہ بنایا ہے۔ ارے رہنے دیجیے بیس سال سے آپ طرح طرح کے بہانے بناتے آرہے ہیں۔ اب اور کتنے بہانے بنائیں گے؟ چھی اب تو آپ کو شرم آنی چاہیے۔ ایسی ویسی حرکت کرتے۔ ارے اب بچے بڑے ہو رہے ہیں کم از کم ان کا لحاظ کیجیے۔‘‘ [اسکول بیگ کی مار]

پانسہ اس وقت الٹا پڑ گیا جب میںنے اپنی بیگم کی قریبی دوست کو پٹانے کے لیے یہ کہہ دیا کہ اگر تم نہ ہوتے تو میرا وجود ہی نہ ہوتا اور یہ جملہ اس نے ہوبہو بیگم سے کہہ دیا اُس کے بعد کیا ہوا…… جسے لکھا نہیں جا سکتا کیوں کہ شریف آدمی کی پگڑی اچھال کر کوئی فائدہ نہیں …… ‘‘

                                                [اگر تم نہ ہوتے]

معمولی معمولی باتوں سے مزاح پیدا کرنا ایس – ایم آرزوؔ کا کمال فن ہے۔ لفظوں کے انتخاب کا ہنر ان کے مضامین میں سلاست ۔ روانی اور شگفتگی کو برقرار رکھتا ہے۔ اس کی مثال ان کا مضمون ’’عمر‘‘ میں ملتی ہے۔ وہ انسانی نفسیات سے واقف اور اس بات سے آگاہ ہیں کہ عمر چھپانا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ یہ صفت مردوں کے مقابلے عورتوں میں زیادہ ہیں۔ کبھی کبھی یہ سنگین مسئلہ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ایس – ایم آرزو نے نہایت ہی خوبصورتی سے اس مسئلہ کو طنز و مزاح کی چاشنی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ قاری اس سے لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

’’ایک خاتون کو آپریشن سے قبل ڈاکٹر نے کہا آپ کی عمر کیا ہے۔

محترمہ:۲۷ سال

ڈاکٹر: میں آپ سے آپ کی عمر جاننا چاہتا ہوں آپ کے لڑکے کی نہیں۔

محترمہ: ۳۰ سال

ڈاکٹر: میڈم در اصل عمر کے لحاظ سے بیہوشی کی دوا دی جاتی ہے اس لیے صحیح عمر بتائیے تاکہ صحیح مقدار میں دوا دی جا سکے۔

محترمہ: ۳۵ سال

ڈاکٹر: اچھی طرح سوچ لیجیے آگر بیہوشی کی دوا کم دی گئی تو آپریشن کے درمیان مریض ہوش میں آجاتا ہے۔ اور تب اسے کافی پریشانی درد اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کبھی کبھی تو یہ درد برداشت سے باہر ہو جاتا ہے اور جس کی وجہ سے مریض comaمیں چلا جاتا ہے۔

محترمہ: ۴۰ سال

ڈاکٹر : عمر کی کمی بیشی سے کبھی کبھی بیہوشی کی دوا کا اثر سیدھے گردے پر پڑتا ہے اورجس کی وجہ سے گردہ فیل ہوجاتا ہے لہٰذا آپ صحیح عمر بتائیں تاکہ صحیح مقدار میں دوا دی جا سکے۔

محترمہ: بہت بیزار ہوکر چلاتے ہوئے ۴۹ سال اس سے ایک دن بھی آگے نہیں بڑھائوںگی۔ چاہے آپریشن تھیٹر سے میرا مردہ جسم ہی باہر نکلے یا میری kidneyفیل ہو جائے اب آپ کو جو سمجھ میں آئے کیجیے۔‘‘

اس موضوع پر کسی شاعر نے خوب کہا ہے :

بولے گی جھوٹ کیسے اب کے وہ برتھ ڈے پر

مشکل یہ آ پڑی ہے عورت کی زندگی میں

جو بیسویں صدی میں تھی بیس کی مسلسل

اکیس کی تو ہوگی اکیسویں صدی میں

ایس – ایم آرزو سماجی انسان ہیں۔ وہ سماج میں رہنے والوں کی زندگی اور ان کی تکالیف کو محسوس کرتے ہیں۔ نوکری کرنے والے کے لیے پہلی تاریخ کی خوشی، دھوبی، مودی، دودھ والے اور دوسرے دکانداروں کی پہلی تاریخ میں payment ملنے کی امید ، Middle class انسان کی جلد سے جلد پیسہ کماکرامیر بننے کی خواہش کا فائدہ اٹھا کر مختلف chain system companies جیسے Oriflame, MLM, RCM اور دوسری Fraud companiesان کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کمپنیوں سے چند کو فائدہ بھی ہوتا ہے۔ یہ فائدہ اس چارہ کی مانند ہے جس کا استعمال مچھلی پکڑنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس کا تفصیل سے ذکر ان کا مضمون ’زندگی بدل ڈالو‘ میں ملتا ہے۔ بینک کے آئے دن بدلتے ہوئے اصول و ضوابط سے عام انسان کو کتنی پریشانی ہوتی ہے اس کا تذکرہ ایس – ایم – آرزو اپنے مضمون ’بیلنس کا چکر‘ میں اس طرح کرتے ہیں ـ:

’’دنیا بھر میں ہر جرم کے لیے سزا ایک بار ملتی ہے لیکن اگر بینک اکاؤنٹ میں آپ کا بیلنس گر گیا یا کم از کم بیلنس کو برقرار رکھنے میں آپ نا کام ہوئے تو اس کی سزا آپ کو لا تعداد بار ملے گی۔ سب سے پہلے آپ کے اکاؤنٹ سے آپ کو بغیر بتائے ایک خاص رقم کاٹ لی جائے گی پھر فون کر کے یا message دے کر آپ کی کم مائیگی کا مذاق اڑایا جائے گا اور اگر آپ اس دوران بینک گئے تو سب کے سامنے یہ اعلان کیا جائے گا کہ آپ کا بیلنس کم ہوگیا ہے؟ اب آپ خود ہی شمار کریں کہ ایک غلطی کی کتنی بار سزا ملی؟‘‘

                                                 [بیلنس کا چکر]

میاں بیوی کا رشتہ دنیا کا وہ واحد رشتہ ہے جس میں ایک ہی انسان سے کئی بار نفرت اور بار بار محبت ہو سکتی ہے۔ ہر طنزو مزاح نگار اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ بیوی کی نفرت اور غصہ بھی اس کی محبت کا ایک جز ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ طنزیہ مزاحیہ ادب کا ہر سپاہی اپنی بیوی پر طنز کرنا اس کا مضحکہ اڑانا اپنا حق یا یوں کہا جائے اپنا بنیادی حق سمجھتا ہے۔ ایس – ایم آرزو اس دوڑ میں کیسے پیچھے رہتے۔ انہوں نے پورے وثوق کے ساتھ اپنے حق کا استعمال کیا ہے۔ انہوں نے بیوی کے عنوان سے ایک مضمون ہی قلم بند کر دیا۔ اس میں بیوی کے بارے میں تفصیل سے ذکر کیا۔ آج کل وہ باورچی خانہ سے نکل کر Restaurant, Theatres اور Shopping Mall میں دیکھی جاتی ہے۔ پہلے اس لککا چہرہ چاند سا ہوتا تھا۔ آج اس پر کریم کی پرت چڑھی ہوتی ہے۔ اس کی خاص خوراک شوہر کا دماغ ہے۔ انہوں نے اس کی مختلف خصوصیت کے ساتھ اس کی مختلف قسموں کا بھی ذکر کیا ہے۔ جیسے سمجھ دار بیوی ، حملہ آور بیوی، جھگڑالو بیوی، نخرے والے بیوی، طنز کرنے والی بیوی، شکی بیوی، موٹی بیوی، کالی بیوی، گوری بیوی اور مذہبی بیوی وغیرہ۔ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد قاری کا دل و دماغ ایک قسم کے سرور و انبساط سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس مضمون کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے اور آپ بھی تھوڑا مسکرائیے ـ:

’’بیوی نامی شئے بھارت کے علاوہ پوری دنیا میں بہتات سے پائی جاتی ہے۔ پچھلے زمانے میں یہ باورچی خانے میں پائی جاتی تھی لیکن موجودہ زمانے میں انہیں Theatres, Shopping Mall اور ریستوراں یا اُس کے قرب و جوار میں سجے سنورے دیکھا جا سکتا ہے۔

پہلے اس شئے کے سر کے بال لانبے اور گھنے ہوتے تھے اور چاند ساچمکتا ہوا نورانی چہرہ ہوتا تھا اب اس کے چھوٹے بال اور طرح طرح کے کریم سے بھرے چہروں کو دیکھا جاتا ہے۔

ان کی خاص غذا شوہر کا دماغ ہے۔ بھارت میں انہیںدھرم پتنی، بھاگوتی، اردھانگنی، شریک حیات ، بیگم صاحبہ کہا جاتا ہے۔

ان کی خاصیت زیادہ بولنا، بے وجہ جھگڑنا اور زیادہ خرچ کرنا ہے اور اس شئے پر پوری طرح بھروسہ کرنا ناممکن ہے لیکن پھر بھی اُن پر بھروسہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ۔ اس شئے کے مختلف اقسام ہیں۔‘‘ [بیوی]

ایس – ایم آرزو کی اہلیہ اگر اس مضمون کو پڑھ لیں تو شاید ان کو دن بھر چائے نصیب نہ ہو۔ یا پھر اپنے حق کا استعمال کرتے ہوئے ان کی اہلیہ یہ پوچھ بیٹھیں میری خاوند میری سر تاج کیا یہ بتانے کی زحمت گوارہ کریں گے میں کس قسم کی بیوی ہوں۔ مجھے یقین کامل ہے وہ اپنی ذہانت اور حاضر جوابی سے کام لیں گے ۔ اپنی اہلیہ کو پیار سے اپنے پاس بیٹھا کر مسکراتے ہوئے کہیں گے۔ میری شریک سفر تم تو میری پیاری اور وفا شعار بیوی ہو۔ جو مجھ سے بے پناہ محبت کرتی ہے۔ ان کا یہ جواب سن کر ان کی اہلیہ دلکش مسکراہٹ کے ساتھ شرماتے ہوئے فرمائیں گی۔ اُف او، آپ بھی نا ! آپ بیٹھیں میں ابھی آپ کے لیے چائے لے کر آتی ہوں۔

موجودہ دور بڑا پُر آشوب ہے۔ ہر انسان پریشان ہے۔ ہر انسان کی پریشانی کی نوعیت الگ الگ ہے۔ کچھ پریشانی کا حل تلاش کرتے ہیں، کچھ پریشانی میں ساتھ نبھاتے ہیں۔ اور کچھ مشورہ دے کر اپنی ذمہ داری سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ ان میں کچھ مشورے عمل کے لائق ہیں تو کچھ گراں گزرتے ہیں۔ ہندوستان میں مشورہ دینے والوں کی بہتات ہے۔ اس وقت حکومت کے خیر خراہوں میں چند ایسے مشورہ دینے والے ہیں۔ جو الٹی سیدھی مشورہ دینے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔ کسی قوم کی خوراک کیسی ہوگی؟ اس کا لباس کیسا ہوگا؟ اس کی سماجی زندگی کیسی ہوگی؟ اس کی تعلیم کا نظام کیسا ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ ۔ ایس – ایم آرزو ایسے نام نہاد مشورہ نوازوں پر بے باک طنز کرتے ہوئے اپنے مضمون میں ایک جگہ رقم طراز ہیں :

’’یہ Incredible India ہے یہاں مشورے دینے والوں کی بہتات ہے ، چاہے انفرادی یا اجتماعی۔ ایسی ایک جماعت ہے جس کے میرکارواں اس غم میں دبلے ہوتے جا رہے ہیں کہ فلاں قوم کے لوگوں کو فلاں چیز کھانی چاہیے، فلاں کپڑے پہننے چاہئیں ، فلاں طریقے سے رہن سہن اختیار کرنا چاہیے ، فلاں فلاں چیز کا استعمال اُن کو موت کے گھاٹ اتار دے گا۔ صرف اتنے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ کتنے بچے پیدا کرنا چاہئیں اُس کی بھی وضاحت کر دی گئی ہے صرف ایک چیز غائب ہے کہ اُس قوم کے لوگوں کو بیوی سے کتنی بار مباشرت کرنی چاہیے یا مباشرت کا طریقہ کیا ہو؟سنتے ہیں اس کے لیے جلد ہی وہ ایک نیا قانون لانے والے ہیں۔‘‘ [ مشورہ]

ایس – ایم آرزو کا سیاسی شعور بالیدہ ہے۔ وہ موجودہ حکومت کی پالیسی کو سمجھتے ہیں۔ اس سے واقفیت رکھتے ہیں۔ یہ جمہوریت کو بالائے طاق رکھ کر ایک خاص طبقہ کے ساتھ سو یتلا رویہ اپناتی ہے۔ یہ اکثریت اور انتہا پسندوں کو خوش کرنے کے لیے ایسی پالیسی بناتی ہے جو چند امیروں کے لیے سودمند اور عام مزدور طبقہ کے لیے نقصان دہ ہو۔ اس حکومت نے ہندوستان کی یکجہتی، رنگا رنگی، آپسی محبت ، بھائی چارگی، کوختم کر دیا۔ فرقہ پرستی کو بڑھاوا دیا۔ آج ہندوستان مذہب، ذات پات، علاقے، زبان، تہذیب کے نام پر نفرت کا شکار ہوگیا ہے۔ یہحکومت ایک خاص طبقہ کو پریشان اور اذیت پہنچانے کے لیے کوئی نیا بل، نیا قانون یا نئی پالیسی نافذ کرتی ہے۔ اس کے کچھ نمائندے اپنے زہر آلودہ بیان اشتعال انگیز بیان، شر اور نفرت کو بڑھاوا دینے والے کاموں سے فرقہ پرستی اور نفت کو فروغ دیتے ہیں۔ لوجہاد، موبلینچنگ، گاؤ کشی کے نام پر قتل اور مذہب کے نام پر فساد عام ہوگیا ہے۔ ایس- ایم آرزو نے انداز اپنا اپنا، گائے ، بولنا منع ہے، میں دیش دروہی ہوں، ہاتھ ، وکاس اور آؤ پکوڑا بنائیں جیسے مضامین میں ہندوستان کی موجودہ سرکار پر کھل کر بے باک انداز میں طنز کیا ہے۔ اس طنز میں مزاح کی مٹھاس بھی ہے۔ جو قاری کو گدگدانے کے ساتھ ساتھ غور و خوض کرنے کی دعوت بھی دیتی ہے۔ یہاں دو اقتباس پیش کرتا ہوں :

’’کل کارخانے بند ہو رہے ہیں اور مزدور خود کشی کر رہے ہیں اور کچھ کشکول لے کر بھیک مانگ رہے ہیں جب کہ Trade Union نیتا اپنے گھر کے باورچی خانے میں اٹالین ٹائیل لگا رہے ہیںاور لوگ پریشانی سے جوج رہے ہیں۔ مہنگائی زہریلے ناگ کی طرح سر اٹھائے ہوئے ہے، فرقہ پرستی عروج پر ہے اور ایم – پی اور ایم -ایل – اے friendly match کھیل رہے ہیں کبھی کرکٹ تو کبھی فٹ بال۔ یہ سب دیکھ کر آپ کا دل بولنا چاہے گا اور آپ زبان کھولیں گے لیکن نہیں کیوں کہ بولنا منع ہے اور اگر بولے تو پھنسے کیوں کہ لال کہے گا یہ سبز کا دلال ہے اور سبز کہے گا یہ لال کا دلال ہے بہت ممکن ہے کہ کوئی آپ کو دیش دروہی بھی کہے اور آپ کا حقہ پانی تک بند ہوجائے۔‘‘  [بولنا منع ہے]

ماسٹر     : سلیم تم بتاؤ کیوں نہیں لکھ رہے ہو؟

سلیم       : سر ڈر لگ رہا ہے۔

ماسٹر     : شیر پر مضمون نہیں لکھنا ہے ،گائے پر لکھنا ہے پھر کیسا ڈر؟

سلیم       : سر ابھی اگر یہاں شیر آبھی جائے تو اتنا ڈر نہیں لگے گا جتنا گائے کے میرے پاس سے گزرنے سے لگتا ہے۔

ماسٹر     : کلیم تم بتاؤ۔

کلیم        : سر ہم لوگوں نے بنکاک کے چڑیا گھر میں شیر کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا اُس کے پنجے اٹھائے اُس کی دُم سے کھیلا لیکن پتہ نہیں سر گائے کا نام آتے ہی ہم لوگ سہم کیوں جاتے ہیں؟ [بیوی]

موجودہ دور میں مسلمانوں کو دیش دور ہی ثابت کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا ہے۔ حکومت نے اس طرح کا ماحول تیار کر دیا ہے کہ سر پر ٹوپی۔ چہرے پر داڑھی، لنگی اور کرتا زیب تن کرنے والا انسان گویا دیش دروہی ہے۔ نفرت کے اس ماحول میںدیش دروہی کی پہچان اس کا عمل نہیں حلیہ بن چکا ہے۔ دیش دروہی کا کوئی مذہب نہیں ہے بلکہ وہ صرف دیش دو رہی ہوتے ہیں۔ اس حقیقت سے ایس۔ایم آرزو نے اپنے مضمون ’’ـمیںدیش دروہی ہوں‘‘میںبڑی چابک دستی سے پردہ اٹھایا ہے۔ اس کے مطالعہ کے بعد قاری کے لب پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے اور ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کیا یہی جمہوریت ہے؟

سپاہی     : سر یہ تواردو کتاب ہے اور اردو تو مجھے آتی نہیں۔

افسر       : ارے بیوقوف Title page دیکھو۔ اُس میں انگریزی میں کتاب کا نام اور مصنف کا نام درج رہتا ہے۔

سپاہی     : (کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے) سر مل گیا۔ مصنف کا نام ہے۔ ایس-ایم- آرزو

افسر       ـ: (مجھ سے) ایس – ایم – آرزو کون ہے؟

میں        : جی میں!

افسر       : (سپاہی سے مخاطب ہو کر) کتاب کا نام کیا ہے؟

سپاہی     : سنگھاسن کی چوری۔

افسر       : ( سپاہی سے مخاطب ہو کر) اسے cease کر لو۔ (اور پھر میری گردن پکڑ کر) ’’میں تو تجھے دیکھتے ہی پہچان گیا تھا کہ تو دیش دروہی ہے۔

میں        : ارے بھائی میں دیش دروہی نہیں ہوں۔

افسر       : تب پھر سنگھاسن کیوں چوری کر رہا ہے؟

میں        : میں سنگھاسن چوری نہیں کر رہا ہوں…

افسر       : خاموش ( پھر سپاہی سے مخاطب ہو کر) بڑے صاحب کو فون لگا۔ (سپاہی افسر سے مخاطب ہو کر) سر بڑے صاحب فون پر ہیں۔

افسر       : سر خوش خبری ہے سر دیش دروہی ثبوت کے ساتھ پکڑا گیا۔ اسے تو دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ یہ دیش دروہی ہے۔ ایک تو لنگی میں ملبوس ، داڑھی اور سر پر ٹوپی یہ …

اے سی پی: بات کاٹتے ہوئے حلیہ تو دیش دروہی کا ہے لیکن ثبوت کیا ہے؟

افسر       : سر ثبوت ہے نا یہ سنگھاسن چوری کرنا چاہتا ہے اور چوری کرنے کے پورے پلان کو اردو میں لکھ کر رکھا ہے۔

                                    [میں دیش دروہی ہوں]

ہمارے وزیر اعظم شری نریندر مودی صاحب اور منفرد اور دلچسپی تقریر کی وجہ سے کافی شہرت رکھتے ہیں اور تنقید کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔ وہ اپنی سحر انگیزتقریر سے بڑی آسانی سے لوگوں کو متاثر کرلیتے ہیں۔ بیرونی ملک سے کالا دھن واپس لانا، ہندوستان کے ہر شہری کو 15 لاکھ روپئے ، اس کے اکاؤنٹ میں دینا،اقتدار میں آنے کے بعد ایک کروڑ نوکری دینا۔ GDP کو ترقی دینا، سب کا ساتھ سب کا وکاس، اچھے دن آئیں گے۔ ہر گاؤں ہر گلی میں بجلی، بھائیوں اور بہنوں میں آپ سے 60 مہینے چوکیدار بننے کے لیے مانگ رہا ہوں تاکہ corruption کو ختم کر سکوں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد کچھ وعدے پورے ہوئے بیشتر ادھور ے رہ گئے۔ نہ نوکری ملی نہ 15 لاکھ روپئے۔ وکاس اور اچھے دن بھی ندارد۔ تاہم جملے بازی میں کمی نہیں آئی۔ جیسے آفس کے باہر پکوڑا بیچنے کو روز گار کہنا، تھالی برتن بجانا، دیا جلانا اور غریبی دور کرنا وغیرہ۔

ہندوستان کی شہری پر اپنے وزیر اعظم کی عزت و احترام لازم ہے۔ لیکن ان سے سوال پوچھنے کا حق بھی حاصل ہے۔ افسوس انہوں نے سوال پوچھنے کا حق بھی ہندوستان کی شہری سے چھین لیا ہے۔ ہر حساس اور ذی ہوش انسان نے ان کے وعدے ، جملے بازی اور نااہلی پر تنقید کی ۔ ایسے میں ایس – ایم آرزو جیسا بے باک اور زندہ انسان کیسے خاموش رہ سکتا تھا۔ انہوں نے قلم کی گردن پکڑی اور ’وکاس‘، ’بولنا منع ہے ‘اور ’آؤ پکوڑا بنائیں‘ جیسے مضامین لکھ کر ان پر طنز کا وار کیا۔ اس میں تعظیم کے ساتھ طنز و مزاح کا رنگ بھی۔ یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے :

’’بہت ممکن ہے آپ کے ووٹ لینے کے لیے کوئی نیتا آپ سے وعدہ کرے کہ اس کے اقتدار میں آتے ہی آپ کے بینک کھاتے میں ۱۵ ؍ لاکھ روپے آجائیں گے، لیکن تین سال کے بعد جب وہی نیتا یا اس کی جماعت یہ کہے کہ یہ تو اُن کی تقریر کرنے کا انداز تھا تب ایک بار پھر آپ بولنا چاہیں گے لیکن بولتے ہی آپ دیش دروہی بن جائیں گے اس لیے بولنا منع ہے۔‘‘ [بولنا منع ہے]

ایس – ایم آرزو کے مضامین میں خیالات کے مقابلے لفظیات کا رنگ پھیکا نظر آتا ہے۔ ان کے یہاں مشکل اور ثقیل الفاظ، تشبیہ و استعارکنایہ کی بھر مار نہیں ملتی ہیں۔ وہ خیالات کو عام فہم ، سلیس اور سادہ روز مرہ کی زبان میں قاری تک پہنچاتے ہیں۔ تاہم اسلوب میں تخلیت کا رنگ نمایاں ہے۔ وہ عربی وفارسی الفاظ کے استعمال سے گریز اور انگریزی الفاظ کا بے دھڑک استعمال کرتے ہیں۔ جیسے Fundamental Right Busy, Messages Confidence, Friendly Match, Promotion, Tour, Please, Divorce, Comment, Formalities, Normal, Property, Trend اور Impress وغیرہ۔

ایس – ایم آرزو سرکاری ملازم ہیں اور ایک اعلیٰ عہد پر فائز ہیں۔ اس لیے وقت کی قلت دامن گیر ہے۔ ان کو مطالعہ کے لیے وقت بہت مشکل سے میسر ہوتا ہے۔ جو ملتا ہے اس سے وہ فیض اٹھاتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں ان کے کم مطالعے کا احساس ہوتا ہے۔ وہ عدیم الفرصت کے باوجود لکھتے پڑھتے رہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ وہ مضامین عجلت میں لکھتے ہیں۔ کبھی کبھی ٹرین میں بیٹھ کر سفر کے دوران ہی لکھ ڈالتے ہیں۔ خامی اور خوبی ہر ادیب میں ہوتی ہے۔ تاہم مجھے امید ہے انشاء اﷲ بہت جلد بحیثیت طنز و مزاح نگار وہ پورے مغربی بنگال کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔

*********

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.