ڈاکٹر سلیم اختر کی نظر میں ادبی تاریخ نگاری کے اصول و نظریات
ہادی احمد بیگ
ریسرچ اسکالر ،شعبہ اردو ، سنٹرل یو نیورسٹی آف کشمیر
hadiahmad9797@gmail.com
+916005635043
ادبی تاریخ نگاری فن تاریخ یا علم التاریخ میں انتہائی مشکل و پیچیدہ نوعیت کا موضوع سمجھا جاتا ہے ۔عام تاریخ نگاری میں صرف سنین اور حوادث کا حساب و کتاب یا زیادہ سے زیادہ ایام شماری ہی بنیادی چیز ہوتی ہے اس کے برعکس ادبی تاریخ نگاری میں ان چیزوں کے علاوہ ایک وسیع تر تناظر کو سامنے رکھنا پڑتا ہے ۔سلیم اختر ادبی تاریخ نگاری کو اسی وسیع ترتناظر میں دیکھتے ہیں۔ان کی نظر میںجغرافیائی ،لسانی ،روحانی ،تمدنی ،تہذیبی ،معاشرتی ،سیاسی اور معاشی عوامل کے عمل اور رد عمل میں پنپنے والا ادبی و تخلیقی منظر نامہ ادبی تاریخ کا اساسی عنصر ہوتا ہے ۔بقول ان کے :
’’تاریخ ادب کیا ہے ؟ادبی مورخ کا کردار کیا ہوتا ہے ؟سوال آسان مگر جواب مشکل !تاریخ ادب کی تعریف ان الفاظ میں کی جاسکتی ہے :کسی زبان کی جغرافیائی حدود سے مخصوص لسانی ،روحانی ،تہذیبی ،تمدنی ،سماجی ،سیاسی اور اقتصادی عوامل و محرکات کے عمل اور رد عمل سے تشکیل پانے والے ذہنی تناظر میں وقوع پذیر ہونے والی تخلیقات کی معیار بندی ،لسانی مضمرات اور تخلیقی شخصیات کا مطالعہ تاریخ نگاری اور ان ہی کا مطالعہ ،تجزیہ و تحلیل اور تشریح ادبی مورخ کا بنیادی فریضہ ‘‘۔ ۱؎
سلیم اختر وقت کو تاریخی حوادث ،تہذیبی عمل اور تمدنی تغییر کا بنیادی عامل مانتاہے ۔ان کی نظر میں وقت ایک بے رحم واقعیت کے ساتھ ایک اٹل حقیقت بھی ہے جو انسان کو اپنی غارت گریوں سے مقابلہ کرنے پر طرح طرح سے ابھارتا ہے ۔انسان وقت کے تہاجم کے مد مقابل جو مزاحمتی اقدامات یا فعالیت سر انجام دیتا ہے ان میں اس کے تخلیق و تولید کے متنوع معرکے رنگ لاتے ہیں ۔کیوں کہ یہ تہذیبی و تمدنی تنوع اور زرخیزی کا بنیادی ذریعہ ثابت ہوتے ہیں ۔تہذیبی و تمدنی غنا وقت کی دھار پر اپنے انمٹ نقوش ثبت کر کے انسان اور اس کے تخلیقی کرشموں کو ہمیشہ کے لئے ثبت کر کے جاودانی فراہم کرتے ہیں ۔سلیم اختر کی نظر میں ادبی تاریخ تخلیق و تولید کے مذکورہ سلسلہ اعمال کو دیکھنے کا سنجیدہ اقدام ہے :
’’تاریخ کیا ہے؟مہ و سال کی ایام شماری!حوادث کی ریاضی ؟یا ان کے علاوہ بھی کچھ اور ؟اب تک ماضی کی جن شخصیات ،ان کے کارناموں اور فکر و فن کی خوشبو امر ثابت ہوئی ،جن حوادث نے چراغوں کی لو سرد کی ،جن انقلابات کوگردوں مثال گردانا گیا اور جن تہذیبوں کا ڈوبے تاروں کی مانند ماتم کیا گیا ۔یہ سب وقت کی عظیم جست کے رزمیہ میں محض فٹ نوٹس ہیں۔بنیادی طور پر وقت تخریب کار ہے اور سب سے بڑا غارت گر ،تباہی پسند یدہ کھیل اور بربادی مرغوب مشغلہ ،بچہ ناداں کی طرح کھلونے بناتا ،بگاڑتا اور توڑتا جاتا ہے ۔کمزور انسان جاہل اور خسارہ میں رہنے والا سہی مگر وہ تخریب پسند وقت کے جبر سے آزاد ہونے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہا ۔چنانچہ تولید سے لے کر تخلیق تک وقت کے خلاف نبرد آزمائی میں انسان نے جو جو انداز اپنائے ان کا تنوع تہذیب و تمدن کی اساس مہیاکرتا ہے ‘‘۔ ۲؎
تخلیق کی بدولت انسان زمانے کی دست برد سے بچ گیا ۔جاوداں بننے کے اس معاملے میں دو جہتیںنمایاں ہوتی ہیں ۔ان میں پہلی جہت یا بعد خارجی ہے جو لفظ کی صورت گری سے معرض وجود میں آتا ہے اور دوسرا بعد داخلی سطح پر لفظ کو معنی و مفہوم ودیعت کرنے والی شخصیت ہوتی ہے جو اپنی موجودیت کا خوش کن ثبوت اس عمل سے بہم پہنچا تی ہے ۔صورت و معنی یا سلیم اختر کی نظر میں تخلیق و تخلیقی شخصیت کے رشتے ،تعلق ،ملاپ اور پیچیدہ سنگم کو دریافت کرنے کا عمل ادبی تاریخ کے اصلی مقاصد میں ہے ۔اور یہی خصوصیت اسے روایتی تاریخ سے انفرادیت بخشتی ہے ۔وہ رقمطراز ہے :
’’یادگار کارناموں کو الفاظ میں مقید کر کے انسان مطمئن ہوگیا تو تخلیق کو لفظ کی مہک دے کر امر ہو گیا ۔تاریخ ادب لفظ اور تخلیق کی اس مہک کی طرف توجہ دلانے کے فن کا نام ہے ۔اس لئے لفظ ’’تاریخ ‘‘کے اشتراک کے باوجود کسی ملک کی تاریخ اور اس کے ادب کی تاریخ میں خاصہ فرق ہوتا ہے ۔ملک کی تاریخ بنیادی طور پر سیاسی نظام میں تغیر ات اور ان کے محرکات کا ریکارڈ…ادب کی تاریخ کا معاملہ عام تاریخ کے مقابلے میں خاصا نازک اور پیچیدہ ہے ،اس لئے کہ یہ تاریخ کے مروج تصور کے مطابق ایام شماری نہیں اور نہ ہی معلومات و کوائف مرتب کرنا ہے ۔اگرچہ تاریخ میں یہ سب کچھ بھی شامل ہے لیکن بنیادی طور پر یہ تخلیق اور تخلیق کاروں کا مطالعہ ہے ۔اگر ایک طرف تاریخ ادب سے تخلیق کی معیار بندی ہوتی ہے تو دوسری طرف تخلیق کاروں کی انسانی اور تخلیقی شخصیت کا مطالعہ بھی کیا جاتا ہے ‘‘۔ ۳؎
تخلیق اور تخلیقی شخصیات کا ہدف مند اور معروضی مطالعہ کسی قاعدے اور نظریے کی عدم موجودگی میں دشوار لگتا ہے ۔ولی دکنی ،حاتم ،آبروو ناسخ،مصحفی یا انشا وغیرہ کا مطالعہ اگر ترقی پسند تنقید کے قالب میں کیا جائے تو یقینا جو نتیجہ بر آمد ہوگا وہ گمراہ کن ہونے کے ساتھ لا یعنی بھی ہوگا۔کیو ں کہ ترقی پسند تنقید جس نقطئہ نگاہ اور ڈسکورس کو اپنا مطمح نظر سمجھتی ہے وہ مذکورہ بالا شعرا کی فنی و معنوی شعریات میں عنقا ہے ۔اس لئے ولی و حاتم وغیرہ پر ترقی پسندانہ تنقید کی تطبیق اور اطلاق کوئی منطقی اقدام نہیں ہوگا اسی طرح ترقی پسند اور جدید و ما بعد جدید ادب کو خالص کلاسیکی شعریات کے پیمانوں سے ناپنا بھی غیر منطقی ہوگا ۔
سلیم اختر اسی خاطر تخلیق اور تخلیق کاروں کے معروضی و سنجیدہ اور عمیق مطالعہ کی غرض سے کسی خاص تنقیدی دبستان اور اصولی طریقے کو اختیار کرنے پر خاص زور دیتے ہیں۔کیوں کہ اس طرح ادبی فن پاروں اور شخصیات کا مطالعہ نہایت سود مند ثابت ہونے کے علاوہ فن پاروں کی وقعت و معیار بھی بہ آسانی واضح ہوسکتا ہے ۔ادبی تاریخ میں ایک خاص طریقہ کار اور انداز نظر بروے کار لانے کے فوائد اور ممکنہ نقائص و تنگ دامانیوں کے پیش نظر سلیم اختر رقمطراز ہے:
’’تاریخ ادب کی تحریر ،تدوین بلکہ مطالعہ تک کا کوئی اصول ہونا چاہیے۔ایسا اصول جو اس لحاظ سے ہمہ گیر ہو کہ اس کی روشنی میں جملہ اصناف ادب کے آغاز ،نشو و نما اور تشکیل کے مراحل کی تفہیم ممکن ہو یہی نہیں بلکہ مستقبل کے لئے بھی سمت نما ثابت ہو ۔اردو میں مختلف اسالیب نقد ملتے ہیں۔چنانچہ تاریخی ،عمرانی ،جمالیاتی ،نفسیاتی اور مارکسی انداز نظر سے دلچسپی رکھنے والے ناقدین ملتے ہیں ۔لیکن ہماری تمام اہم ادبی تاریخوں کوصرف ’’تاریخ‘‘کے طور پر لکھا گیا ۔یعنی حالات زندگی اور کلام پر تبصرہ اور بس ،لیکن کسی ادبی مورخ نے کبھی کسی مخصوص نظام نقد کو تخلیق اور تخلیق کاروں کے مطالعہ کے لئے محدب شیشہ بنانے کی کوشش نہ کی …اگرچہ مخصوص علمی زاویہ نگاہ کی پابندی کے باعث دائرہ کار نسبتاً محدود ہوجاتا ہے لیکن تاریخ ادب کا یہ عمیق مطالعہ زیادہ افادہ بخش ثابت ہوتا ہے کہ خوبیاں اور خامیاں مخصوص تناظر میں اجاگر ہوتی ہیں …ہمارے ہاں اہم اسالیب نقد کے اصولوں کی روشنی میں ادبی تاریخیں قلم بند نہ کی گئیں ۔اگر ان تنقیدی دبستانوں سے استفادہ کیا جائے تو اردو ادب کی تاریخ نگاری میں نئی جہت ہوگی ‘‘۔ ۴؎
ادبی مورخ کے لئے لازم و ملزوم بلکہ ناگزیر ہے کہ وہ تنقیدی شعور و آگہی کا حامل ہو ۔اس کے بغیر ایک مورخ کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی مخصوص ویژن کے تحت ادبی تاریخ کو منظم انداز میں تحلیل و تجزیہ کے بعد ترتیب دے کر پیش کر سکے۔کیوں کہ تنقیدی شعور علمیاتی و عملیاتی سطح پر ادبی مورخ کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ ادبی تاریخ کے متنوع اور پیچیدہ مسائل کا بہ آسانی محاکمہ کر سکے۔
ادبی مورخ کے پاس جب تنقیدی تصور کے علاوہ تخلیقی ذہن اور سائنٹفک طریق کار ہو تو اس کے لئے مسائل و موضوعات کی معنویت و مقصدیت کو مدنظر رکھ کر ان کے متعلق کوئی رائے قائم کرنا ممکن ہوتا ہے۔اس کے برعکس اگر مورخ ان صفات سے متصف نہ ہو تو کوئی بھی تاریخی بحث نتیجہ بخش نہیں ہوسکتی ۔اس پے مستزاد ادبی مورخ کا اپنے انفرادی نظریے اور تحلیلی و استنباطی قوت سے یکسرقاصر ہونا ادبی تاریخ کو یقینا ایسے بے ہنگم طومار میں بدل دے گی جس کے سرے لا پیدا کنار اور مواد و معنی پہیلی جیسا در آمد ہوگا ۔
سلیم اختر مذکورہ بالا حقائق و مسائل کی روشنی میں ادبی تاریخ کے ڈسکورس میں ادبی مورخ کے لئے ذاتی رائے اور عقیدے کو لازمی جانتے ہیں۔ادبی تاریخ میں ذاتی رائے کے اظہار کو وہ کلیدی حیثیت سے دیکھتے ہیں ۔اس ضمن میں وہ کہتے ہیں :
’’فراہمی مواد میں تساہل سے در گذر کیا جاسکتا ہے ،کوائف میں اغلاط اور تحقیق کے نقائص گوارہ کئے جاسکتے ہیں (کہ یہ خارجی ہیں)مگر ذاتی رائے کا فقدان نا قابل معافی ہے (کہ یہ داخلی ہے)تاریخ میں تنقید کا رس بھی اسی سے پیدا ہوتا ہے ،رائے کے درست نا درست یا متنازعہ ہونے سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ رائے بہر حال ذاتی ہی تو ہوتی ہے ،رائے اگر کسی تنقیدی نظریہ پر استوار ہو تو پھر دیگر حضرات کے لئے اس کے مقبول یا نا مقبول ہونے سے بھی کوئی خاصا فرق نہیں پڑتا کہ ادبی نقاد کی مانند ادبی مورخ نے بھی رائے ہی کی صورت میں فیصلہ صادر کرنا ہوتا ہے ۔ویسے تو تخلیق کاروں یا تخلیقات کے انتخاب میں بھی بالواسطہ فیصلہ پنہاںہوتا ہے مثلاً متعدد معاصرین سے صر ف نظر کے بعد جب چند تخلیق کاروں کا مطالعہ کیا تو ایسا انتخاب یوں ہی اٹکل پچو نہیں ہوتا بلکہ رد و قبول پر مبنی ایسے انتخاب کی اساس کسی تخلیقی نظریہ ،ادبی شعور یا تنقیدی حس پر استوار ہوتی ہے۔یہ بالواسطہ فیصلہ ہے لیکن صرف نظر کرنے کے برعکس ان کا نام لے کر خامیاں اجاگر کرتے ہوئے تقابل کے بعد ممتاز تخلیق کاروں کی خوبیاں اجاگر کی جائیں تو یہ بلاواسطہ تنقیدی عمل قرار پاتا ہے اور یہی بنیادی فریضہ ہے ادبی مورخ کا‘‘۔ ۵؎
ادبی مورخ اپنے موقف کا اظہار جامع و مدلل طریقے سے تب کرسکتا ہے جب وہ وحدت فکر رکھتا ہو۔ اس کے بغیر وہ حقائق کے انکشاف پے قادر نہیں ہوسکتا ۔وسعت مطالعہ کے ساتھ وسعت نظر ،ژرف بینی اور سائنٹفک ذہن کے علاوہ جو چیز ادبی مورخ میں ازحد ہونا ضروری ہے وہ قاطعیت اور جرات گفتار ہے ۔ان کا فقدان مورخ کو صراحت ،رائے کے استحکام اور غیر جانبداری کی اساسی خصوصیات سے محروم رکھ سکتا ہے ۔ادبی مورخ جب مصلحت پرستی اور معاشرتی و اقداری تنگنائیوں کے تحت اپنے موقف اور رائے کا اظہار کرے گا تو حتماً اسے حقائق سے چشم پوشی کرنی پڑے گی جو علمی دیانت کے سراسر منافی عمل ہے ۔
سلیم اختر ادبی مورخ کے لئے قاطعیت و صراحت لابدی مانتے ہیں۔وہ ادبی مورخ کو کسی پس و پیش کے بغیر اپنی رائے کے اظہاراورفیصلہ ومحاکمہ کرنے پر زور دیتے ہیں:
’’تاریخ ،تحقیق اور تنقید زخمی دلوں کے مرہم کا نام نہیں،اس لئے اگر رائے کے اظہار سے چند نازک طبع ادیب ناخوش یا ناراض ہوتے ہیں تو عدم اظہار کے لئے یہ کوئی معقول جواز نہیں ،اسی طرح یہ جو نام نہاد مشرقی شرافت کا ایک معیار یہ ہے کہ بزرگوں کی خطا پکڑنا بذات خود خطا ہے تویہ بھی درست نہیں۔اگر حافظ محمود شیرانی اور قاضی عبد الودود نے آزاد اور شبلی کی بزرگی کو پیش نظر رکھا ہوتا تو ان کی اپنی اہمیت کیا ہوتی ؟اگر ناقد ،محقق یا مورخ کو اپنی رائے کی درستی کا یقین ہو تو پھر کسی کی پروا نہ کرے خواہ یہ رائے خود پسندی کے شیش محل کو چکنا چور ہی کیوں نہ کرے ۔در اصل رائے حال اور معاصرین کے مقابلہ میں مستقبل اور قارئین کے لئے ہوتی ہے اور اسی لئے قابل احترام !اس کی درستی یا نا درستی کا فوری فیصلہ ممکن نہیں ہوتا۔یہ وقت کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو کہ بڑا ظالم ہے اور تاریخ اس ظالم کا اہم ہتھیار ‘‘۔ ۶؎
معاصرین میںکسی شخصیت کا امتیازی و انفرادی حیثیت کا مالک بننا ،اثر و نفوذ کے دائمی نقوش چھوڑنا وغیرہ کسی علت کے بغیر نہیں ہوتا ۔اس حوالے سے لاشعوری محرکات ،اجتماعی شرائط اور فکری ساخت تخلیقی شخصیت کو انفرادی رنگ بخشنے والے کلیدی ارکان ہوتے ہیں ۔در اصل داخلی کوائف ا ور خارجی مسائل و مظاہر کا منظر نامہ ہی تخلیق اور تخلیقی شخصیت کو انفرادیت کے قالب میں وجود میں لاتے ہیں ۔اگر ان نکات کا لحاظ ادبی مورخ ادبی تاریخ میں نہ کریں تو ممکن نہیں کہ تخلیقی شخصیات کے آثار کے انفرادی پہلوئوں یا کلی طور پر انفرادیت کو درک کیا جاسکے ۔ بد قسمتی سے سلیم اختر کی نظر میں اردو کی بیشتر ادبی تاریخوں میں داخلی و خارجی شخصی حقائق ،مسائل و معاملات کو کم ہی توجہ کی نظروں سے دیکھا گیا ۔جو تخلیق اور تخلیق کار کے مجموعی وجود میں کشش و ارتفاع کی روح پھونکنے کا باعث بنتے ہیں۔وہ رقمطراز ہے :
’’در اصل خارجی حالات اور داخلی کوائف کے تال میل سے ہی تخلیقی شخصیت رنگ انفرادیت اپنا کر معاصرین میں نمایاں تر نظر آتی ہے اور ادبی مورخ کا کام ان سب عوامل کے تناظر ہی میں تخلیق کار کا مطالعہ کرنا ہے ۔یو ں کہ دونوں محدب شیشہ تلے نظر آئیں ۔بحیثیت مجموعی اردو ادب کی تاریخوں کا بنیادی نقص ہی یہی ہے کہ ان میں صرف تخلیق سے دلچسپی ظاہر کی جاتی ہے ،تخلیق کار سے نہیں !حالانکہ تخلیق سے تخلیق کار کو جدا کرنا گوشت سے ناخن جدا کرنے کے مترادف ہے ’’آب حیات ‘‘کی تحقیقی اغلاط سامنے کی ہی لیکن اس کی مقبولیت میں جو اب تک کمی نہیں آسکی تو خوش رنگ اسلوب کے ساتھ تخلیق کاروں کا ڈراما بھی اس کا باعث ہے ۔چنانچہ دہلی اور لکھنوکے شاعر چلتے پھرتے ،ہنستے بولتے شعر پڑھتے حتیٰ کہ لڑتے جھگڑتے بھی نظر آتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ محققین نے جن واقعات کو ساقط الاعتبار قرار دیا ڈرامائیت کی بنا پر وہی عوام پسند ٹھہرے ‘‘۔ ۷؎
سلیم اختر اگر چہ اپنے نفسیاتی تنقیدی رجحان کے مد نظر لاشعوری محرکات اور داخلی کوائف کو تخلیق اور تخلیق کار کے وسیع و غائر مطالعہ میں اہم جانتے ہیں مگر ادبی ثقافت کے وسیع تر مطالعے کے لئے وہ جمیل جالبی اور رام بابو سکسینہ وغیرہ کی طرح ادبی ثقافت کی کلیت کو اہم مانتے ہیں۔اس کلیت میں ثقافت کے مجموعی و متنوع روحانی و معنوی ،فکری واعتقادی ،اخلاقی و معاشرتی ،جغرافیائی اور لسانی و غیرہ مظاہر کو زیر نظر رکھا جاتا ہیں ۔ان مظاہر کا غائر مطالعہ ادبی مورخ کو تخلیقی متن ،وقوعہ اور فن پارے کے داخلی عناصر ترکیبی اور خارجی مظاہر کے تاثر اور باہمی اطلاق و انطباق کے عمل کو درک کرنے کی صلاحیت بخشتا ہے ۔
تہذیبی و تمدنی عناصر و پس منظر اور روایات اس کلیت میں خاصے اہم ہیں۔ان کے بغیر ادبی وقوعہ اور تخلیقی روایات کو کما حقہ جاننا و سمجھنا آسان نہیں ۔مثال کے طور پر اردو کے دوعظیم و آفاقی شاعروں غالب و اقبال کو اگر مذکورہ تہذیبی و تمدنی روایت اور پس منظر کے بغیر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو نتیجہ یقینا عبث نکلے گا ۔کیونکہ تہذیبی و تمدنی اساس و پس منظر کے بغیر ان کی فکری و فنی ماہیت کو منکشف نہیں کیا جا سکتا ۔اس ضمن میں اقبال جیسے عظیم شاعر و مفکر کو اس کے اپنے تہذیبی و تمدنی ریشے و پیوستگی کی عدم موجود گی میں سمجھنا و پرکھنا از حد مشکل ہے۔
اجمالی طور پر جب ادبی تاریخ حیات انسانی کے کلی تہذیبی و تمدنی وغیرہ ابعاد کے آئینے میں اپنے بیانیہ کو تشکیل دیتی ہے تو پھر ادبی تاریخ و ادبی مورخ کے لئے ادب و تخلیقی وقوعہ کا تجزیہ کرنا ممکن ہوتا ہے ۔علاوہ از ایں اس سے ادبی مورخ کے کام کی پیچیدگی و کٹھنائی کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔جب مندرجہ ذیل میں سلیم اخترکے اس طویل اقتباس کو مذکورہ بالا حقیقت کی روشنی میں دیکھاجائے تو اس کی معنویت واضح ہوتی ہے :
’’ادبی مورخ کا کام یہیں پر ختم نہیں ہوجاتاکیونکہ … اسے ان تمام سیاسی ،سماجی ،تہذیبی ،تمدنی اور روحانی عوامل کا تجزیاتی مطالعہ بھی کرنا ہوتا ہے جو کسی عہد کو مخصوص رنگ دے کر خصوصی تقاضوں پر مبنی خاص نو ع کی فضائے تخلیق معرض وجود میں لاتے ہیں جو عوام کو بالعموم اور تخلیق کاروں کو بالخصوص خاص طرح کے نفسی سانچے میں ڈھال کر کبھی اس عہد کی فضائے تخلیق سے ہم آہنگ کرتی ہے تو کبھی متصادم ۔یہی وجہ ہے کہ ایک عہد کے مخصوص ذہنی رجحانات اور تخلیقی میلانات سے ہم آہنگ اکثریت کے ساتھ ساتھ محدوداقلیت میںمعیار شکن ،انحراف پسند اور باغی بھی ملتے ہیں ۔ادبی مورخ کے لئے یہ سب امور اور ان کے باہمی عمل و رد عمل کو ملحوظ رکھنا لازم ہے کہ ان سب کے تال میل سے صورت پذیر ہونے والے ذہنی ،فکری اور تخلیقی تناظر سے صرف نظر کر کے تخلیق اور تخلیق کار کا درست مطالعہ اگر نا ممکن نہیں تو دشوار یقینا ہے ۔ادبی مورخ جب ذہنی رجحانات ،تخلیقی میلانات اور فنی روایات کی بات کرتا ہے تو عام مورخ کے مقابلہ میں اس کا کام اسی بنا پر زیادہ مشکل ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب گریز پا سے ہیں جبکہ عام مورخ کا مواد زیادہ ٹھوس ہوتا ہے۔اس امر کو یوں سمجھئے کہ اپنے کسی معاصر تخلیقی فن کار کو اس کی تمام تر نفسی پیچیدگیوں اور کرداری تضادات سمیت سمجھنا آسان نہیں لیکن جب ادیب اور ادبی مورخ میں خاصا زمانی بعد اور وسیلہ تفہیم صرف تخلیق ہی ہو تو پھر ادبی مورخ کی مشکلات کا انداز لگایا جا سکتا ہے ۔لمبی چوڑی تفصیلات میں جائے بغیر صرف اس مثال سے یہ نکتہ سمجھا جاسکتا ہے کہ بادشاہ کے خلاف اور کسی تخلیقی روایت کے خلاف بغاوت سے وابستہ عوامل و مقاصد کی تفہیم ،تجزیہ اور تصریح میں خاصا فرق ہے ‘‘۔ ۸؎
مجموعی طور پر سلیم اختر کے ادبی تاریخ نگاری کے متعلق پیش کردہ اصول و نظریات کو دیکھنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وہ معروضی طریق کار اپنانے کے ساتھ ہر نوع کے نظام فکر سے استفادے Eclectism))پر یقین رکھتے ہیں ۔جو ادبی مورخ کے لئے افقی و عمودی اور دروںبینی و خورد بینی سطح پر ادب کے مطالعے ،تحلیل اور تجزئے کے حوالے سے منطقی وسائل فراہم کرتا ہیں۔
حوالہ جات
۱؎ ڈاکٹر سلیم اختر،اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ آغاز سے ۲۰۰۰ تک،کتابی دنیا ،دہلی ،۲۰۰۵،ص ۱۶۔
۲؎ ایضاً،ص ۱۴۔
۳؎ ایضاً،ص ۱۶۔
۴؎ ایضاً،ص ۲۰۔
۵؎ ایضاً،ص ۲۲۔
۶؎ ایضاً،ص ۲۳،۲۴۔
۷؎ ایضاً،ص ۱۹۔
۸؎ ایضاً،ص۱۶۔
Leave a Reply
Be the First to Comment!