مرزا مظہر جان جاناں:شخصیت وشاعری
ڈاکٹر جہاں گیر حسن مصباحی
ایڈیٹر ماہنامہ خضر راہ،کوشمبی، الٰہ آباد، یوپی
مرزا مظہر جان جاناںمبلغ بھی ہیں، صوفی بھی ہیں، شاعربھی ہیں اور زبان وبیان کے اعتبارسے دیکھیں تو مصلح اعظم بھی ہیں۔مرزا کی پیدائش راجح قول کے مطابق 11؍ رمضان بروزجمعہ1111 ھ مطابق 1700ء کالا باغ میںہوئی جو حدودمالوہ میں واقع ہے۔مرزامظہرجان جاناںکااصل نام ’’جان جاناں‘‘ لقب ’’شمس الدین، حبیب اللہ ‘‘ اور ’’مظہر‘‘ تخلص ہے۔’’ اظہرمن الشمس‘‘ اور’’نورعلی نور‘‘ کے نام سے بھی پکارے جاتے تھے۔ سلسلۂ نسب اُنیس (مقامات مظہری کے مطابق اٹھائیس) واسطوںسے محمد بن حنفیہ کے توسط سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم تک پہنچتاہے۔
(معمولات مظہریہ ، ص:10و20،کرمانوالہ بک شاپ ، لاہور- 2009)
والدین کے سلسلے میں کچھ زیادہ وضاحت نہیں ملتی ۔لیکن اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ والدہ ماجدہ بیجاپور کی شیخ زادی اورامیر خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور بڑی نیک و پارساخاتون تھیں،جب کہ والدبزرگو ار کا نام’’ مرزا جان‘‘ تھا جو فضل وکمال اور علم وفن میں بلند مقام تھے ۔کچھ دنوں تک اورنگ زیب کے دربار سے منسلک رہے،لیکن شاہ عبدالرحمن قادری کی صحبت بافیض کی وجہ کے باعث دربارِشاہی سے کنارہ کشی اختیارکرلی۔
(مقامات مظہری،ص:48،لاہور۔2001)
چوںکہ مرزا مظہرکاخاندان آگرہ میں سکونت پذیرتھا، اس لیے ان کی ابتدائی تعلیم وتربیت بھی وہیں ہوئی۔ حدیث کی کتابیں شیخ المحدثین حضرت عبداللہ ابن سالم مکی کے شاگردحاجی محمدافضل سیالکوٹی سےپڑھیں اور قرآن مجیدکی تعلیم شیخ القراء عبدالخالق شوقی کے شاگرد حافظ عبدالرسول دہلوی سے حاصل کی۔اس کے بعد نہ صرف مختلف پیشہ اور فن کوسیکھا بلکہ اس میں کامل مہارت بھی حاصل کی، اس طرح مرزامظہر دینی اور دنیوی دونوں علوم کے متدین عالم ہونے کے ساتھ ساتھ فن موسیقی،فن سواری، فن سپہ گری اورصنعت وحرفت میں بھی باکمال ثابت ہوئے۔(حوالہ سابق)
شخصیت واِنفرادیت
مرزامظہرنہایت حسین وجمیل،ظریف،بلندقامت اور نازک مزاج انسان تھے ۔بچپن ہی سے طبیعت میں قلندری تھی ۔مذہباًحنفی اور مشرباً نقشبندی تھے۔سنت کے مطابق عمامہ باندھتے اور قمیص سامنے سے چاک شدہ پہنتے تھے۔تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ مشکوک کھانا کبھی نہ تناول فرماتے ، زرق حلال کا حد درجہ اہتمام فرمایاتے ،امیروں کی جانب سے آئے ہوئے کھانے کوتو کبھی ہاتھ بھی نہ لگاتے،بلکہ یہ فرماتے کہ بدترین کھانا امیروںکا کھاناہے۔
عظمت وشان کا یہ عالم تھا کہ معاصرین میں کوئی ان کاہم پلّہ نہ تھا ،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہٗ جیسے عظیم اسلامی اسکالر بھی مرزامظہر کی انفرادیت اورہمہ جہت شخصیت کے قائل تھے،وہ لکھتے ہیں:’’ہم لوگ ان کو جانتے ہیں وہ کیاچیز ہیں۔ہندوستان کے لوگوں کے احوال ہم پر پوشیدہ نہیں ۔ عرب کے شہروں میں بھی ہم گئے ہیں اوران لوگوں سے آپ کی ولایت کے پختہ وٹھوس احوال سنے ہیں۔کتاب وسنت اورشریعت وطریقت پر احسن طریقے سے مستقیم و استوار ہیںاورطالبین کے درمیان عالیشان عظمت کےمالک ہیں،عمدہ شخصیت ہیں۔ اس زمانے میںان جیسا انسان ہمارے شہروں میں کوئی نہیں،بلکہ ہرزمانے میں ایسے لوگوں کا وجودبہت کم ہوتاہے۔(معمولات مظہریہ،ص:218-219،کرمانوالہ بک شاپ ، لاہور- 2009)
خودداری اورتوکل علی اللہ کا حال یہ تھا کہ بادشاہوںسے کبھی کوئی ہدیہ یا تحفہ قبول نہیں کیا۔ دنیا اور اہل دنیاسے ہردم بے نیز رہتے۔ایک بار کسی امیرنے خانقاہ کے لیے ایک حویلی بنوائی، قبول نہ کیا اور فرمایا:چوںکہ ایک نہ ایک دن مکان چھوڑنا ہی ہے تو مکان چاہے اپنا ہو ،یا پرایا برابر ہے اورروزی جو مقرر ہے وہ مل کر رہے گی، اس لیے فقراکے لیے صبروشکراورقناعت کا خزانہ ہی کافی ہے۔
اعلی ظرفی ،اخلاقی بلندی اوراخلاص و للہیت کی اس سے بڑی مثال اورکیا ہوسکتی ہے کہ مرزا مظہر نے اپنے قاتل سے بھی قصاص نہیں لیا۔ جب بادشاہ نے استفسار کروایا تو کہلا بھیجاکہ میں نہیں بتاؤں گا اوراگر خدانخواستہ ملزمان کاپتا چل بھی گیا تو بھی اُنھیں سزا نہ دی جائے، کیوںکہ’’بندہ کشتۂ راہِ خدا است، وکشتہ راکشتن داخل جرم نیست۔یعنی بندہ تو اللہ کی راہ میں مراہواہے اورمرے ہوئے کو مارنا جرم نہیں ،اور یوں باکمال اورقابل رشک زندگی جینے کے بعد 1195ھ مطابق1781ء میں اس دنیا کو خیرباد کہا۔( حوالہ سابق)
شعرو شاعری
مرزامظہرایک زندہ دل انسان ،صوفی مزاج شخصیت،اورعاشقانہ طبیعت کے مالک تھے،پھر وہ شعری خمیرسے مرکب بھی تھے ،چنانچہ اسی کا اثر تھاکہ مرزاکی شاعری میں شعورواحساس کا ایک بحربیکراں موجود ہے۔حالاںکہ شعر کہنامرزامظہرکا شوق یا مشغلہ نہیں تھا اورنہ ہی اُنھوں نے کسی نام ونمودکے لیے شاعری کی راہ اپنائی،بلکہ جب کبھی وہ عشق حقیقی سےشرابور ہوتے، ان کامافی الضمیرشعری قالب میں ڈھلتاچلاجاتا۔وہ خودلکھتے ہیں :’’گاہ گاہ ازکشش طبع رسااسرار مافی الضمیر رادرقالب نظم فارسی و ریختہ ظاہر می کند۔‘‘یعنی کبھی کبھی طبع رساجذبے سے مغلوب ہوتاہوں،توقلبی واردات ریختہ اورفارسی زبان میں نظم ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مرزامظہر نے فارسی اوراردو ہردوزبان میں شاعری کی ہے۔کم وبیش فارسی اوراردو شاعری میں خیالات و جذبات ایک ہی جیسے ہیں۔ مرزا چوںکہ اپنے آپ کو ’’کشتہ ٔ راہِ خدا‘‘ کہتے تھے،اس لیے ان کی شاعری میں بھی عشق حقیقی کی تڑپ، وارفتگی شوق کی کثرت، واردات قلبی کی بہتات اورپاکیزہ خیالات کی فراوانی پائی جاتی ہے۔یہی وہ خاصہ ہے کہ مرزا شاعری ہر خاص وعام میں مقبول اورپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے اور وہ ہر طرح کے قارئین کو اپنا گرویدہ بنائے رکھتی ہے۔جب بھی کوئی مرزاکے اشعار کو سنتا ہے،مانووہ اپنے دل پر ایک چوٹ سی محسوس کرتا اورکچھ نہ کچھ فیض ضرورپاتاہے۔چنداشعار ملاحظہ کریں:؎
چلی اب گل کے ہاتھوں سے لٹاکر کارواں اپنا
نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن میں کچھ نشاں اپنا
یہ حسرت رہ گئی کیا کیامزے سے زندگی کرتے
اگر ہوتا چمن اپنا، گل اپنا، باغباں اپنا
ہم نے کی توبہ اور دھومیں مچاتی ہے بہار
ہائے بس چلتا نہیں کیا مفت جاتی ہے بہار
ہم گرفتاروں کو اب کیا کام ہے گلشن سے لیک
جی نکل جاتاہے،جب سنتے ہیںآتی ہے بہار
لالہ و گل نے ہماری خاک پر ڈالاہے شور
کیا قیامت ہے مُوْوَنْ کو بھی ستاتی ہے بہار
دراصل مرزا فانی فی اللہ اور باقی باللہ کے مقام پر فائز تھے اس لیے ان کاہر کلام اپنااثردکھائے بغیر نہیں رہ پاتا، چاہےوہ نظم ہو یا نثر۔اورچوںکہ جو بھی مردحق آگاہ ہوتا ہے وہ ہر تصنع اورہرتکلف سے پاک ہوتاہے ،وہ جو کچھ کہتاہے حق ہی کہتاہے اورحقانیت اپنا اثر ضروردکھاتی ہے ،چنانچہ مرزامظہر کا کلام سننے -پڑھنے کے بعددل میں شعلہ سا بھڑکناتولازمی امرہے۔
اُن کی شاعری کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں سنجیدگی،لطافت،سادگی اور عام فہم الفاظ ہوتے ہیں، اور اس طرح کا اندازو اسلوب، عشق ومحبت میں ڈوبے ہوئے کلام کو اور بھی پُرتاثیربنادیتاہے، اسی پر بس نہیں بلکہ فصاحت وبلاغت اور سلاست وروانی کے اعتبارسے بھی مرزامظہر کی شاعری مثالی نظرآتی ہے،جیسے یہ اشعار:
خدا در انتظار حمد ما نیست
محمد چشم بر راہ ثنا نیست
خدا مدح آفرینِ مصطفی بس
محمد حامدِ حمدِ خدا بس
محمد از تو می خواہم خدا را
الٰہی از تو حبِّ مصطفی را
جھکی ہے فوج گل اور عندلیباں کی پکار آئی
ارے ہنستاہے کیا وہ دیکھ دیوانے بہار آئی
تجلی گر تری پست و بلند ان کو نہ دکھلاتی
فلک یوںچرخ کیوںکھاتا زمیں کیوںفرش ہوجاتی
بلبل فدا ہوئی ہے ترے رخ پہ اے صنم
سنبل ہے پیچ پیچ تری زلف و بال دیکھ
مرزامظہرکے کلام کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میںجو کچھ مضامین باندھے گئے ہیں وہ خیالی نہیں بلکہ اصلی اور حقیقت حال کے بالکل مطابق ہوتے ہیں ،نیز وہ قدرتی عاشق مزاج بھی ٹھہرے، جس کا نتیجہ ہے کہ اُن کےکلام میں موجودعاشقانہ مزاج عجب وعضب تڑپ دکھاتے ہیںاور دل مچل مچل اٹھتا ہے۔چنداشعارملاحظہ کریں:؎
رسوا اگر نہ کرنا تھا عالم میں یوں مجھے
ایسی نگاہ ناز سے دیکھا تھا کیوں مجھے
گر یہ سرد مہری تجھ کو آسائش نہ سکھلاتی
توکیوں کر آفتاب حسن کی گرمی میں نیند آتی
آتش کہو، شرارہ کہو، کوئلہ کہو
مت اس ستارہ سوختہ کو دل کہا کرو
زبان وبیان سے متعلق محمدحسین آزادلکھتے ہیں:
’’زبان ان(مرزامظہر) کی نہایت صاف وشستہ وشفاف ہے ۔‘‘اور’’جوسودااورمیرکی زبان ہے وہی ان کی(مرزامظہر)زبان ہے۔‘‘
(آب حیات، ص:175- 173،احسان بکڈپو،لکھنو)
بلکہ میرے خیال میں تومرزامظہر کی زبان وبیان میرؔ اورسوداؔدونوں کے مقابلے کہیں زیادہ ارفع واعلی ہے ۔وہ یوںکہ مرزامحمدرفیع سوداؔاپنے کلام میں شوکت الفاظ پر زوردیتے تھے،اور میرتقی میرؔسادگی وسلاست پر زیادہ توجہ دیتے تھے،اس لیے سودا ؔکے کلام میں شوکت الفاظ ہے تومیرؔ کی سی سادگی نہیں اور میرؔ کے کلام میں سادگی ہے تو سودؔا کی طرح شوکت الفاظ نہیں،جب کہ مرزامظہرکے کلام میں شوکت الفاظ کا برمحل استعمال بھی ہے اورسادگی وسلاست کی لذت ومٹھاس بھی۔
رنگ تصوف کی جلوہ گری
مختصریہ کہ اسلام،ایمان اوراِحسان کے مجموعے کا نام تصوف ہے ، لیکن صوفیائےکرام نے احسان پر زیادہ زوردیاہے۔ اِس کسوٹی پر مرزا مظہر کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے پوری تشفی و تسلی ہوتی ہے،چوں کہ مرزامظہرنقشبندی سلسلے سے منسلک تھے اس لیے اُن کا تصوف سے فطری طورپرمربوط ہونا فطری ہے،بلکہ وہ نقشبندی سلسلے سے مربوط نہ بھی ہوتے تو بھی مزاج ایسا پایاتھا کہ وہ تصوف کی جانب مائل ہوئے بغیر نہ رہ پاتے ،اور جس کا رشتہ تصوف سے اس قدر مضبوط اورگہرا ہو،وہ شاعربھی ہوتواُس کے کلام میں تصوف کا آنا لازمی ہے، یہی کچھ مرزامظہرکے ساتھ بھی ہوا ۔لیکن اُن کے کلام کی اہم خوبی یہ ہے کہ انھوںنےاس پُرلطف انداز میں’’سردلبری‘‘کو’’فاش‘‘کیاہے کہ کلام میںصوفیانہ مضامین کی کثرت ہونےکے باوجود رنگ تغزل کہیں بھی کم نہیںہوتا،اورنہ ہی کہیں کوئی خشکی یا بدمزگی کا احساس ہوتاہے۔اس کے برعکس رنگ تغزل اپنے شباب نظرآتا ہے۔مثلاً یہ کلام دیکھیں:؎
الٰہی درد و غم کی سرزمیں کا حال کیا ہوتا
محبت گر ہماری چشم تر سے مینہ نہ برساتی
یہ دل کب عشق کے قابل رہا ہے
کہاں اس کو دماغ و دل رہا ہے
سجن کس کس مزہ سے آج دیکھا مجھ طرف یارو
اشارہ کرکے دیکھا، ہنس کے دیکھا، مسکرا دیکھا
اگر ملئے تو خفت ہے و گر دوری قیامت ہے
غرض نازک دماغوں کو محبت سخت آفت ہے
مرا جلتا ہے دل اس بلبلِ بے کس کی غربت پر
کہ گل کے آسرے پر جن نے چھوڑا آشیاں اپنا
رقیباں کی نہ کچھ تقصیر ثابت ہے نہ خوباں کی
مجھے ناحق ستاتا ہے یہ عشقِ بد گماں اپنا
اِسی معجزبیانی کو دیکھ کرسید اِنشاء اللہ خاں جیسے ماہرزبان بھی مرزامظہرکے کلام کی چاشنی کو لایزال کہنے پرمجبورہوجاتے ہیں،اِنشاکے اِس نظریے کو ’’دریائے لطافت ‘‘سے مع فارسی عبارت مولانا محمدحسین آزادنے اپنی کتاب ’’آب حیات ‘‘میں نقل کیاہے ،جس کا خلاصہ یہ ہے :
’’ایک بارجب یہ بندہ ٔگنہ گاروالدمغفورکے ساتھ دارالخلافہ میںتھاتو فیض مآب مرزا جان جاناں مظہرعلیہ الرحمہ کی فصاحت وبلاغت کاچرچا سنا۔میرے دل اورآنکھ میںکشمکش ہونے لگی کہ مرزا صاحب کے دیدارسے میںکیوںمحروم رہا اوران بزرگ کے کلام معجزنظام میں جو لایزال روحانی اور جاودانی لذت وسرور ہے اس سے خودکوکیوں بازرکھا۔چاروناچاران سے ملاقات کے لیے گئے۔ وہ جامع مسجدسے متصل ایک مقام پر تھے اورشریفانہ وبزرگانہ لباس میں ملبوس تھے۔ میں نے ان کی بارگاہ میںادب کے ساتھ سلام پیش کیا۔اس فرط عنایت اورمکارم اخلاق کے ساتھ میرے سلام کا جواب دیااور اپنے قریب میں بٹھایاجو اللہ کے نیک بندوںکا شیوہ رہاہے۔‘‘ (آب حیات،ص:174،احسان بکڈپو،لکھنو)
نیازفتح پوری جیسامستنداورباشعورنقادنے ہندوستان کے جن پانچ شاعروں کو ایرانی مسلم الثبوت کے مقابلے پیش کیا ہے ان میں ایک نام مرزا مظہر جان جاناں کا بھی ہے،مرزاکی غزل گوئی کے تعلق سے وہ لکھتے ہیں:
’’ان کی غزل گوئی میں سعدی ومابعدسعدی دونوں زمانوں کارنگ سمویاہواہے۔‘‘(انتقادیات،جلد:2،ص:209،عبدالحق اکیڈمی،حیدرآباد)
القصہ!بجاطورپریہ کہاجاسکتاہےکہ مرزامظہر کے کلام میںسعدی کی سی سادگی و صفائی،لطافت وچاشنی،سوزوگداز،شستگی وشگفتگی، موسیقیت وغنائیت،دلکشی ورعنائی اورکیفیات عشق کے سوسوطرزِاظہارتوملتے ہیںلیکن ان تمام خصوصیات پر تصوف کا رنگ زیادہ غالب وحاوی ہے،مثلاً: ؎
سحر اُس حسن کے خورشید کو جا کر جگا دیکھا
ظہور حق کو دیکھا خوب دیکھا باضیا دیکھا
جو اٹھ کر نیند سے تری طرف دیکھااوسارا دن
طماچہ قہر کا دیکھا، غضب دیکھا، بلا دیکھا
****
Leave a Reply
Be the First to Comment!