تعلیم و تربیت۔ فکرِ اقبال کی روشنی میں

 ڈاکٹر فیض قاضی آبادی

 اسسٹنٹ پروفیسر اردو گورنمنٹ ڈگری کالج ہندواڑہ کشمیر انڈیا۔

drfaiazqaziabadi313@gmail.com

            فکرِاقبال کا مطالعہ کرنے والا ہر ایک شخص جانتا ہے کہ اقبال فنِ تعلیم کے ماہر نہ ہونے کے باوجود تعلیمی مسائل پر گہری نظر رکھتے تھے۔ چونکہ اقبال نے اپنی عملی زندگی کا آغاز معلم کی حیثیت سے کیا۔ اس لئے انہیں اپنے عہد کے نظام تعلیم کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ پھر جب انہوں نے تعلیمی نظام، مدرسہ، استاد، نصاب وغیرہ پر تنقیدی نظر ڈالی تو انہیں کبھی نصابی کمیٹیوں کا ممبر بنایا گیا اور کبھی ممتحن۔        اقبال کے تعلیمی نظریات کیا تھے اور وہ کس قسم کی تعلیم کے حامی تھے اس پر بات کرنے سے پہلے میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ اب تک اقبال کے تعلیمی نظریات پر جتنا کچھ لکھا گیا ہے اس میں تربیتی پہلو کو یا تو سرے سے Ignore کیا گیا ہے یا اس پر سرسری روشنی ڈال کر اسے بہت کم اہمیت دے دی گئی۔ جبکہ اقبال کے ہاں تعلیم تربیت کے ساتھ اس طرح مربوط ہے جس طرح لفظ اپنے معنیٰ کے ساتھ  یا سکے کا ایک روخ دوسرے رُخ کے ساتھ۔ ایک دفعہ خواجہ غلام السیدین نے اقبال سے سوال کیا کہ علم کا مفہوم کیا ہے تو انہوں نے جواب دیا۔

’’علم سے مری مراد وہ علم ہے جس کا دارومدار حواس پر ہے۔ عام طور پر میں نے علم کا لفظ انہی معنوں میں استعمال کیا۔ اس علم سے ایک طبعی قوت ہاتھ آتی ہے جس کو دین کے ماتحت رہنا چاہئے۔ اگر دین کے ماتحت نہ رہے تو محض شیطانیت ہے۔‘‘

اقبال کے اس بیان سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کا نظریہ تعلیم وہی ہے جو اسلام کا نظریہ تعلیم ہے اور اسلام میں تعلیم تربیت کے بغیر نا مکمل ہے۔ اسلام اُس تعلیم پر زور دیتا ہے جو اللہ کا صالح بندہ بنائے یعنی ’’طلبہ کی فطری صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ، ان کے طبعی رحجانات کو صحیح رُخ پر ڈالنا اور انہیں ذہنی، جسمانی، عملی اور اخلاقی اعتبار سے بتدریج اس لائق بنانا کہ وہ اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں۔ کائنات میں اس کی مرضی کے مطابق تصرف کریں۔۔۔۔۔ تعلیم کا یہی صحیح جامع اور بنیادی مقصد ہے۔‘‘ (فن تعلیم و تربیت۔ افضل حسین صفحہ۳۰)

آگے بڑھنے سے پہلے تعلیم اور تربیت کے لغوی اور اصطلاحی معنیٰ کو جاننا ضروری ہے۔ تعلیم کے معنیٰ سکھانا، بتانا اور تلقین و ہدایت کرنا ہے لیکن یہ اس کا محدود مفہوم ہے جبکہ اس میں تدریس کے ساتھ ساتھ تدریب، تادیب اور تربیت بھی شامل ہے۔ تربیت کے لغوی معنی پالنا پوسنا ہے لیکن اصطلاح میں سیرت و شخصیت کو سنوارنا تربیت کہلاتا ہے۔ لفظ تربیت ’ربا‘ سے مشق ہے قرآنِ مجید اور احادیث میں بیسوں جگہ پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ بعض اوقات تعلیم و تربیت کو ایک دوسرے کا مترادف سمجھا جاتا ہے۔ ممتاز احمد نے اس گتھی کو یوں بہترین انداز میں سمجھایا ہے:

’’جب تعلیم و تربیت کا لفظ ایک ساتھ بولا جائے تودونوںکے معنیٰ جد اجدا ہوں گے اور اگر الگ الگ بولا جائے دونوں کے معنیٰ ایک ہوں گے مثال کے طور پر جب ایمان و اسلام کا لفظ ایک ساتھ بالا جاتا ہے۔ تو دونوں کا مفہوم جدا جدا ہوتا ہے اور الگ الگ استعمال کیا جائے تو دونوں کا مفہوم ایک ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں عربی کا ایک قاعدہ ہے۔

            ’’اذا اجتمعا افترقا۔ واذا فترقااجتمعاً‘‘

            (یعنی دونوں یکجا ہو جائیں تو ان کی مراد بدل جاتی ہے اور جب دونوں جدا ہو جائیں تو مراد اکٹھی ہو جاتی ہے۔)

            (اسلام کا تربیتی، تعلیمی اور تدریسی نظام صفحہ ۷۲)

اگر ایک معلم اپنے شاگرد کو ’الف‘ سکھائے تو یہ علم ہے لیکن اگر ساتھ میں اسے یہ بھی کہے کہ ’الف‘ سے لفظ اللہ بنتا ہے۔ جو اکیلا ہے جس کا کوئی شریک نہیں تو یہ تربیت ہوئی ۔ اس طرح ہم کہہ سکتے کہ تربیت کے مقابلے میں تعلیم کا دائرہ کار محدود ہے۔ علامہ اقبال صرف شاعر نہیں تھے بلکہ اُسے دینی علوم کی بھی آگاہی تھی اور جانتے تھے کہ تربیت کے بغیر تعلیم انسان کو مکمل اور مثالی انسان نہیں بنا سکتی اس لئے انہوں نے جو کچھ اس حوالے سے لکھایا کہا تو اسے اسلام کے تربیتی نظام کی کسوٹی پر کھرا اُترنے کے بعد ہی بیان کیا ہے۔

’’ضربِ کلیم‘‘ میں ’’تربیت‘‘ کے عنوان سے ایک مختصر نظم میں علامہ نے بڑی دلنشین انداز میں بتایا ہے کہ تربیت اور علم میں بہت فرق بڑا ہے کہ علم سے دماغ جبکہ تربیت سے دل روشن ہو جاتا ہے۔ علم میں دولت، قدرت اور لذت تو ہے ۔لیکن اپنا سراغ نہیں مل پاتا خود کو جاننے کے لئے اور خودی کا راز پانے کے لئے تو تربیت کے راستے ہی سے گزرنا پڑتا ہے۔        ؎

زندگی کچھ اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے

زندگی سوزِ جگر ہے علم ہے سوزِ دماغ

علم میں دولت بھی ے قدرت بھی ہے لذت بھی ہے

ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ

اہل دانش عام ہیں کم باب ہیں اہل نظر

کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا ایاغ

علامہ اقبال نے مغرب کے نظامِ تعلیم پر بڑی سخت تنقید کی ہے حالانکہ علم کی لذت کے لئے کشاں کشاں مشرق سے مغرب گئے اور وہاں تین سال رہ کر اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔ اس دوران انہیں وہاں کے نظامِ تعلیم، نصاب، طریقہ تدریس کو بہت تزدیک سے دیکھنے کا موقعہ ملا اور انہیں اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ مغرب کا نظام تعلیم مادی بنیادوں پر ہی استوار ہے اور جس علم کا مقصود صرف روٹی حاصل کرنا ہو وہ سراسر موت ہے۔ ؎

وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں

جس علم کا حاصل ہے فقط دو کفِ جو

اس لئے وہ علم کو اسلامی بنیادوں پر ہی استوار کرنا چاہتے تھے اور ابتداء میں قرآنی تعلیم سے ہی تعلیم کا باقاعدہ آغازکرنے کی ترغیب دیتے تھے چنانچہ فرماتے ہیں:

’’ مسلمان طالبِ علم جو اپنی قوم کے عمرانی، اخلاقی اور سیاسی تصورات سے نابلد ہے روحانی طور پر بمنزلہ ایک روحانی لاش ہے اور اگر موجودہ صورت حال اور بیس سال تک قائم رہیں تو وہ اسلامی روح جو قدیم اسلامی تہذیب کے چند علم برداروں کے فرسودہ قالب میں ابھی تک زندہ ہے۔ ہماری جماعت کے جسم سے بالکل ہی نکل جائے گی۔ وہ لوگ جنہوں نے تعلیم کا اصل اصول قائم کیا تھا کہ ہر مسلمان بچے کی تعلیم کا آغاز کلام مجید کی تعلیم سے ہونا چاہیے۔ وہ ہمارے مقابلے میں ہمارے قوم کی ماہیت اور نوعیت سے زیادہ باخبر تھے۔‘‘

            (اقبال کا نظریۂ تعلیم۔ محمد حبیب الدین احمد صفحہ ۳۰)

اقبال چونکہ خود مغرب کی دانش گاہوں سے فارغ شدہ تھے اس لئے وہ کیسے دوسروں کو مغربی تعلیم سے باز رہنے کی ترغیب دے سکتے تھے۔ البتہ انہوں نے فرنگیا نہ تعلیم حاصل کرنے سے پہلے ایمان کو مضبوط ومستحکم کرنے کی تعلیم پر زور دیا ہے تاکہ طالب علم مغرب جا کر اور ان کے علوم پڑھ کر مرعوب نہ ہو جائیں۔ وہ اپنے بیٹے جاوید کو خطاب کرتے ہوئے ملت اسلامیہ کے تمام نوجوانوں کو یہ نصیحت کرتے ہیں۔       ؎

غارتِ گرِدِین ہے زمانہ

ہے اس کی نہاد کافرانہ

دربار شہنشہی سے خوشتر

مردانِ خدا کا آستانہ

جوہر میں ہو لا الہ تو کیا خوف

تعلیم ہو گوفر نگیانہ

بچے کی تعلیم و تربیت میں کتاب کی اہمیت بہت بڑی ہے۔ تدریس کے کام میں تو اس کے بغیرتعلیم نا مکمل سمجھی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ درسی کتب تیار کرنے میں ماہرین تعلیم کی کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں۔ مگر یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ان کتب میں بچے کی مادی ضروریات کا خیال تورکھا جاتا ہے۔ لیکن دینی یا اخلاقی ضروریات کو صرفِ نظر کیا جاتا ہے۔ شعبہ تدریس سے باہر بھی کتب انسان کو بنانے اور بگاڑنے میں اہم رول ادا کرتی ہے اس لئے ضروری بنتا ہے کہ اُن ہی کتابوں کو مطالعہ میں لایا جائے جو غیر شرعی خیالات سے ذہن کو آلودہ نہ کریں۔ علامہ اقبال کو کتب کی اہمیت معلوم تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے کتب پر صالحین کی صحبت کو ترجیح دی ہے۔        ؎

صد کتاب آموزی از اہل نظر

خوشتر آں در سے کہ گیری از نظر

دین مجو اندر کتب اے بے خبر

علم وحکمت از کتب دین از نظر

اکبر الہ آبادی اقبال کے دوستوں میں سے تھے انہوں نے یہی خیال اپنے مخصوص  لہجے میں یوں پیش کیا ہے۔         ؎

کام نکلے گا نہ اے دوست کتب خانوں سے

رہیے کچھ اور کسی محرم اسرار کے ساتھ

نہ کتابوں سے نہ کالج سے نہ زر سے پیدا

دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

علامہ اقبال کے نزدیک وہ علم کسی کام کا نہیں جو دماغ کو منور تو کرے لیکن دل میں تڑپ اور اضطراب پیدا نہ کرے۔ طالب علم کتابیں تو پڑھتے ہیں اور ان کتابوں کے پڑھنے سے انہیں اونچی ڈگریاں تو حاصل ہوتی ہیں لیکن دل روحانیت سے یکسر محروم ہو جاتا ہے۔ اقبال کو بڑا دکھ تھا کہ ان کے دور کا طالب علم صاحب ِکتاب‘‘ نہیں بن پاتا یعنی وہ بیرو کریٹ اور آئی، اے ایس آفیسر تو ہوتا ہے۔ لیکن اللہ کا پیارا اور محبوب بندہ نہیں ہوتا                     ؎

خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے

کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ

کتاب خواں ہے مگرصاحبِ کتاب نہیں

دوسری جگہ فرماتے ہیں      ؎

کیا ہے تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا

صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بُوے گل کا سراغ

مذکورہ بالاسطور سے یہ غلط فہمی نہ پیدا ہو جائے کہ اقبال کتابی علم کے بالکل خلاف تھے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ کتاب گمراہ بھی کر سکتی ہے اگر اُستاد کے مشورے سے یا اُن کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کر کے نہ پڑھی جائے۔ یہ اصول تو قرآن کا قائم کیا ہو ا ہے۔ چنانچہ مفتی محمد شفیع سورہ البقرہ کی ۱۲۷ویں آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’انسان کی تعلیم و تربیت کے لئے نہ صرف کتاب کافی ہے نہ کوئی مربی انسان، بلکہ ایک طرف آسمانی ہدایات اور الہیٰ قانون کی ضرورت ہے جس کا نام کتاب یاقرآن ہے۔

دوسری طرف ایک معلم اور مربی انسان کی ضرورت ہے جو اپنی تعلیم و تربیت سے عام انسان کو آسمانی ہدایات سے روشناس کر کے ان کا خوگر بنائے۔ کیونکہ انسان کا اصلی معلم انسان ہی ہو سکتا ہے۔ کتاب معلم یا مربی نہیں ہو سکتی، ہاں تعلیم و تربیت میں معین و مددگار ضروری ہے۔‘‘(معارف القرآن جلد اول )

اب معلوم ہو ا کہ تعلیم و تربیت میں اُستاد ہی بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور جب ہم اقبال کے تعلیمی تصورات پر نظر ڈالتے ہیں تو وہاں بھی اُستاد خیمہ کے بیج والے ستوں کا درجہ رکھتا ہے کہ اس کے بغیر خیمہ کھڑا ہو ہی نہیں سکتا۔

معلم اول خودرب ذوالجلال ہیں حضور  ؐ بھی معلم بنا کر بھیجے گئے اور یہ وہ پیشہ ہے جو تمام پیشوں سے اشرف و افضل ہے۔ کتابوں میں آتا ہے کہ والدین بچے کو عرش سے فرش پر لانے کا ذریعہ بنتے ہیں جب کہ اُستاد اُن کو فرش سے اُٹھا کر عرش پر پہنچا دیتے ہیں ۔ اُستاد کا کام ہی بچے کی ذہنی اخلاقی اور دینی تربیت کرنا ہے۔   ؎

شیخ مکتب ہے اک عمارت گھر

جس کی صنعت ہے روحِ انسانی

اُستاد کے اعتقادات، اقدار، برتائو اور کردار بچوں کے لئے نمونہ ہوتا ہے۔ اس لئے اگر معلم ذہین، نیک اور صالح ہو گا تو بچے اس کا اثر لے لیں گے کہ    ع          صحبت صالح ترا صالح کند

مگر اقبال ان سے نالاں ہی نظر آتے ہیں۔’’خفتہ راخفتہ کے کند بیدار‘‘ کے مصداق جو اُستاد خود بھٹکے ہوئے ہوں وہ دوسروں کو کیونکر صیح راستہ بتا سکتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔           ؎

مقصد ہو اگر تربیت ِلعلِ بدخشاں

بے سود ہے بھٹکے ہوئے خورشید کا پرتو

دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار

کیا مدرسہ کیا مدرسہ والوں کی تگ ودو

کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت

وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو

            دوسری جگہ فرماتے ہیں      ؎

شیخ مکتب کم سواد و کم نظر

از مقام اونداد او راخبر

شیخ مکتب کے طریقوں سے کشادہ دل کہاں

کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ

ہندوستان میں انگریزوں کے تسلط کے بعد نظامِ تعلیم اور نصاب وغیرہ میں روحانیت اور مذہبی تعلیم کی جگہ مادیت نے لے لی۔ کالج و یونیورسٹیوں سے نکلنے والے طلباء کائنات کو اپنے چنددہائیوں کی کیریر کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ انہیں اس کائنات کابنانے والا نظر نہیں آتا بقول مرحوم اکبر الہ آبادی جب کالج سے لے کر دفتر تک کہیں بھی اللہ کا نام لینے والا نہ ملے تو سمجھنا چاہئے کہ قوم تباہی کی طرف جارہی ہے۔       ؎

گذر ان کا ہوا کب عالمِ اللہ اکبر میں

پلے کالج کے چکر میں مرے صاحب کے دفتر میں

لیکن کالج میں اگر تربیت یافتہ استاد پڑھانے پر معمور ہوں تو وہ غیر دینی نصاب کو پڑھاتے ہوئے بھی کوئی نہ کوئی دینی نقطہ طلبہ کے ذہنوں میں ڈال سکتے ہیں۔چنانچہ جب اسلامیہ کالج لاہور کے پروفیسر ڈاکٹرمیگ جو فلسفہ پڑھاتے تھے کا انتقال ہو گیا تو اقبال کو دو ماہ کے لئے مرحوم ڈاکٹر کی ایم اے کلاس لینی پڑی اس دوران وہ بچوں کو دینی باتوں سے بھی مستفید کرتے رہے ۔اکبر الہ آبادی کے نام لکھتے ہیں:

’’یہ لڑکے شام کو ہر روز میرے مکان پر آجاتے ہیں۔ دن میں جو تھوڑی بہت فرصت ملتی ہے اس میں ان کے لئے کتب دیکھتا ہوں۔ لکچر کیا ہیں انسان کی ذہنی مایوسیوں اور ناکامیوں کا افسانہ ہے جسے عرفِ عام میں تاریخ فلسفہ کہتے ہیں۔ بہر حال ان لکچروں کے بہانے لڑکوں کے کان میں کوئی نہ کوئی مذہبی نقطہ ڈالنے کا موقع مل جاتا ہے۔‘‘

                        (اقبال نامہ حصہ دوم صفحہ ۷۳)

علامہ اقبال صوبہ پنجاب میں خود ایک بڑا تعلیمی مرکز قائم کرنا چاہتے تھے جو علوم دینیہ و دنیویہ کا مرکب ہو اور جہاں ہر قسم کی کتب مہیا ہوں۔ اقبال کا دیرینہ خواب تھا کہ تعلیمی مرکز دوسرے مراکز سے ہر طرح بڑھ چڑھ کر ہو اور اس کا نور سارے ہندوستان کو روشن کرے۔ لیکن ایسا تبھی ممکن ہو گا جب اس ادارہ کے معلمین علوم ِجدیدہ سے واقف ہونے کے ساتھ ساتھ صالح اور قرآن پاک کا گہرا علم رکھتے ہوں۔ چنانچہ جامع ازھر کے مہتمم علامہ المصطفیٰ المراغی کو لکھتے ہیں            ؎

’’ان کی رہنمائی کے لئے ہم ایک ایسا معلم جو کامل اور صالح ہو اور قرآنِ مجید میں ؓبصارت تامہ رکھتاہو نیز انقلاب ِدورِ حاضرہ سے بھی واقف ہو مقرر کرنا چاہتے ہیں۔‘‘     (اقبال نامہ۔ جلد اول صفحہ ۲۵۱)۔

انسانوں کی تربیت کے لئے جہاں شخصی نمونہ (اُستاد، مرشد وغیرہ) ضروری ہے وہیں اقبالؔ نے نصیحت اور قصص کے ذریعے بھی تربیت کا کام انجام دیا ہے۔ کیونکہ بقول شہید محمد قطب ’’وعظ و نصیحت اورقصص و واقعات بھی تربیت کے ذرائع ہیں اور یہ طریقے بھی نفس پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔‘‘(اسلا م کا نظام تربیت صفحہ ۲۹۸)

اقبال کے شعری سرمایہ میں وہ اشعار جو نصیحت اور مقصد پر مبنی ہیں کو اگر الگ سے ترتیب دے دیا جائے تو ایک موٹی کتاب تیار ہو جائے گی اور اگر اس قسم کے اُن کے خطبات، مکاتیب اور مضامین بھی اس میں جوڑ دئے جائیںتو پھر کیا کہنا ۔شاید اسی لئے اقبال کے بارے میں اکثر نقاد نے کہا ہے کہ وہ شعر نہیں کہتے بلکہ تبلیغ کرتے ہیں۔ یہ ہندوستانی مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ انہیں اقبال کی تبلیغ سمجھ میں نہ آسکی ورنہ آج کے مسلمان غلامی کا طوق گلے میں دالے ہوئے ابترزندگیاں نہ گذار رہے ہوتے۔

بہر حال تربیت کے لئے نصیحت ایک لازمی اور ضروری عمل ہے۔ کیونکہ یہ نصیحت کبھی خود اللہ تعالیٰ کرتے ہیں اور کبھی انبیاء کرام  اپنی امتوں کو اور کبھی صالحین عالمِ انسانیت کو۔مثلاً

’’اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔ اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے۔‘‘(النساء  ۵۸)

’’یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کررہا تھا۔ تو اس نے کہا بیٹا، خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ بیٹا نماز قائم کرو، نیکی کا حکم دو بدی سے منع کر اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر ۔‘‘ (لقمان ۱۳ تا ۱۹)۔

حکیم الامت نے قرآنِ حکیم کی ان ہی نصیحتوں کو شعری پیرہن میں پیش کر کے عالم انسانیت کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔اقبال کی پچاسوں نظمیں اور سینکڑوں ابیات ثبوت کے طور پر پیش کئے جا سکتے ہیں مگر مقالہ کی ضخامت کومدنظر رکھتے ہوئے     صرف چند اشعار بطور نمونہ ملاحظہ فرمائے ۔             ؎

تمنا آبرو کی ہو اگر گلزار ہستی میں

توکانٹوں میں الجھ کر زندگی کرنے کی خوکرلے

اگر منظور ہو تجھ کو خزاں نا آشنا رہنا

جہانِ رنگ و بو سے پہلے قطع آرزو کرلے

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے

آتے ہیں جو کام دوسروں کے

سبق پڑھ پھر صداقت کا عدالت کا شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

قصص میں بھی ایک پُر سحر تاثیر ہے۔ قرآن مجید نے انبیائے کرام اور اُن کی امتوں کے قصوں سے حضور ؐکی امت کو اس سے سبق لینے کا درس دیا ہے۔ اقبال نے کہیں قرآن مجید کے ان ہی بعض قصوں اور کہیں حضور کی امت کے اہم قصوں، جن میں کوئی نہ کوئی تربیتی پہلو موجود ہے، سے امت مسلمہ کو بالخصوص سبق لینے کا پیغام دیا ہے۔ اس سلسلے میں شکواہ، جواب شکوہ، خطاب بہ جوانانِ اسلام ،سرگزشت آدم، حضرت بلالؓ، خضرراہ، فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہوئے وغیرہ نظمیں ثبوت کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں۔ ان نظموں کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اقبال انسان کو مقامِ ادمیت سے واقف کرانا چاہتے ہیں ۔ اور جس نے خود کو پہنچانتے ہوئے انسانیت کو پہچانا اسی کو رب ذوالجلال کو پہنچان ہو گئی۔ اقبال کی تربیت کا اصل مقصود یہی ہے۔

اقبال اپنے خود کے بچوں کی تعلیم وتربیت کا بھی خاص خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ جب جاوید کی والدہ کا انتقال ہوا تو صرف چار مہینے کے بعد اقبال نے بچوں کی اخلاقی تعلیم اور دیکھ بال کے لئے لاہور کے ایک مشہور اخبار ’’تہذیب نسواں‘‘ میں ایک استانی کی ضرورت کے لئے اشتہار دے دیا۔ اس اُستانی میں کیا خوبیاں ہونی چاہئے۔ وہ اُس خط سے معلوم ہو جاتے ہیں جو اقبال نے خواجہ غلام السیدین کو  اکتوبر۱۹۳۵ میں لکھا تھا۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

’’دو بچوں کے لئے اُستانی کی ضرورت ہے جس پر میں ان کی اخلاقی اور دینی تربیت کے لئے اعتبار کر سکوں ان کے فرائض مندرجہ ذیل ہوں گے۔

            ا۔           بچوں کی اخلاقی اور دین ی تربیت اور نگہداشت۔

            ۲۔         گھر کا انتظام اور نگہداشت۔

            مندرجہ ذیل باتیں ضروری ہیں:

ا۔           بیوہ اور بے اولاد۔

۲۔         دین اور اخلاقی تعلیم دے سکتی ہو یعنی قرآن اور اُردو پڑھا سکتی ہو۔ عربی اور فارسی بھی جانے تو اور بہتر ہے۔‘‘

            (اقبال نادر معلومات۔ ڈاکٹر اقبال اور خواجہ غلام السیدین صفحہ ۱۶۷)۔

****

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.