سر سید،مکتوبات اورشخصی خوبیاں

ڈاکٹر زبیرعالم

 251(اولڈ)، برہما پترا ہاسٹل،جے این یو،نئی دہلی۔110067

9968712850

zubair2amu@gmail.com

            سر سید کے تعلق سے ان کے رفیق مولانا الطاف حسین حالی کا یہ بیان سر سید شناسی کے سفرمیں میل کا پتھر ہے۔مولانا الطاف حسینحالی کے اس بیان سے سر سید کی عملی زندگی کا نقشہ برآمد ہوتا ہے۔اس میں نسلوں کی تربیت اور ان کے حوصلوں کو مہمیز کرنے کا بھرپور سامان موجود ہے۔مولانا حالی لکھتے ہیں :

’’سر سید احمد خان کی عمر کچھ کم اسی برس کی ہو چکی ہے اور طرح طرح کےجسمانی آلام لاحق ہیں مگر مدرسہ میں جو اس وقت انتظامات در پیش ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کا ارادہ قیامت تک جینے کا ہے۔ایسے ہی لوگ دنیا میں بڑے بڑے کام سر انجام کرتے ہیں۔‘‘(۱)

مکتوبات سر سید اس عبقری شخصیت کی روداد حیات کو بیان کرتے ہیں ۔ان مکتوبات میں سر سید ایک طرف مدبر نظر آتے ہیں تو دوسری جانب ماہر تعلیم۔ایک طرف اس وقت کے تناظر میں اپنے سیاسی موقف کو دلائل کے ساتھ واضح کرتے ہیں تو اس کے بر عکس خاندانی مسائل کو بھی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام تک پہنچاتے ہیں ۔خانگی زندگی میں وہ احمدی بیگم کے لیے ایک شفیق اور دلجوئی کرنے والے دادا کے روپ میں نظر آتے ہیں تو اپنے دونوں فرزند وں کے لیے دور اندیش والد کی ذمے داریاں بھی نبھاتے ہیں ۔اسی طرح مدرستہ العلوم کی امداد کے واسطے یہ انسان مغرب و مشرق تا جنوب و شمال ہر کونے میں فقیروں کی طرح صدا لگاتا پھرتا ہے۔اس عمل میں وہ کسی مقام پر ذلیل ہوتا ہے تو کسی مقام پر سر آنکھوں پر بٹھایا جا تا ہے۔جب کسی شہر کے قدردان عزت افزائی کے لیے انواع و اقسام کی اشیاء برائے دعوت تیار کرانے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں تو یہ انسان دعوت میں خرچ ہونے والی رقم کو مدرسہ کی تعمیر کے لیے مانگ لیتا ہے۔جب  اخبارات و رسائل میں اس کے خلاف ہنگامہ برپا ہوتا ہے تو یہ انسان مدرسہ کی تکمیل میں منہمک نظر آتا ہے۔

            گویا مکتوبات سر سید ان تمام اطلاعات و انکشافات کا بنیادی حوالہ ہے۔ظاہر ہے کہ بنیادی حوالے کی عدم موجودگی میں سر سید شناسی کا عمل نامکمل ہو گا۔اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ سر سید شناسی کے باب میں مکتوبات سر سید کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔لہـذا یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ سر سیدسے واقف ہونے کے لیے مکتوبات سر سید کا مطالعہ ضروری ہے۔پیش نظر مضمون میں مکتوبات سر سیدکے حوالے سے انہیں گوشوں پر روشنی ڈالی جائے گی۔ خاص طور پر سر سید کی خانگی زندگی اور ان کے انکسار کو نمایاں کیا جائے گا۔

            سر سید کے تعلق سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مجلسی زندگی کے اسیر تھے۔یہ فطری بھی معلوم ہوتا ہے کیونکہ بطور منصف اور دوسرے عہدوں پر کام کرتے ہوئے وہ بہت سے لوگوں کے درمیان گھرے رہتے تھے۔اسی طرح جب انہوں نے مدرستہ العلوم کی بنیاد ڈالی تو یہاں بھی انہیں ایک طرح سے جماعت کے ساتھ کام کرنا پڑا۔ایسا نظر آتا ہے کہ سر سید کی عملی زندگی میں سماجی امور پر توجہ زیادہ رہی ہے۔ایسا ہوتا رہاہے کہ عوامی زندگی کے مسائل سے وابستہ افراد خانگی زندگی کے مسائل سے بہت کم واسطہ رکھ پاتے ہیں۔اس میںوقت کی قلت اور دوسرے امور کے علاوہ انسانی طبیعت کا بھی دخل ہوتا ہے۔سر سید اس باب میں خوش نصیب تھے کہ انہوں نے عوام کے ایک بڑے طبقے کی نمائندگی کی نیز امور خانگی کو بھی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا۔

             مکتوبات سر سید میں ان دو پہلوئوں پر جا بجا گفتگو کی گئی ہے ۔ سرسیدکہیں آبائی مکان کی دیکھ ریکھ اور مرمت کے لیے مکین و ملازمین کو ہدایت دیتے ہیں۔کہیں وہ اپنے فرزندوںکو دنیا کے سفید و سیاہ سے آشنا کراتے ہیں تو کہیں عمر بھر کے تجربات کی روشنی میں نو عمروں کو زندگی کرنے کے آدا ب بتاتے ہیں ۔کسی کسی مقام پر وہ نو عمر بچوں کی دلجوئی بھی کرتے نظر آتے ہیں ۔اپنے ایک رشتے دار اور  آبائی مکان کے نگراں احمد الدین صاحب کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں :

            ’’تمہارا خط پہنچا۔اس وقت جوترددہوا ہے اور دقت اور مشکل پیش آئی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔بہر حال وجیہ الدین نے جو خط بھیجا ہے اس سے حال معلوم ہوگا۔با لفعل جو روپیہ میں نے متعلق مرمت مکان بھیجنا چاہا تھا وہ نہیں بھیج سکا۔یہ خط صرف اس مطلب کے لیے لکھتا ہوں کہ سید حامد کو جو غلطی پڑی ہوئی ہے وہ رفع ہو جاوے۔انھوں نے چاہا کہ بسبب ان امور کے،جو پیش آئے ہیں ،حیدرآباد چلے جاویں۔وہ سمجھتے ہیں کہ وہاں ان کے دوست ہیں ۔یہ خیال ان کا کہ وہاں ان کے دوست ہیں ،محض غلط ہے۔ان سے پوچھو کہ وہ کس کو اپنا دوست سمجھتے ہیں ۔ایک شخص بھی ان کے وہاں آنے پر راضی نہیں ہے۔جب انہوں نے استعفا دے دیا تو حیدرآباد کے لوگوں کو اندیشہ ہواکہ ایسا نہ ہو کہ سید حامد کو حیدرآباد بھیجنے کے لیے میں لکھوں ۔سب نے میرے پاس خط بھیجے تھے کہ ان کو حیدرآباد بھیجنے کا ہر گز ارادہ نہ کیجئے گا۔وہ اپنی صاف دلی سے لوگوں کو دوست سمجھ کر دھوکہ کھا چکے ہیں ،پھر وہی خیالات دوستی کے ان کے دل میں ہیں ۔ان کو سمجھائو کہ وہ ان خیالات کو دور کریں۔

حیدرآباد میں ہر ایک شخص اس بات کو ہی ناگوار سمجھے گا کہ وہ چند روز بطور مہمان کے وہاں ٹھہریں ۔دوستی کجا،کسی قسم کی توقع بہبودی (کی)ان لوگوں سے رکھنی محض نادانی ہے۔جو مصیبت خدا کی مرضی سے پڑی ہے،اس کو برداشت کرنا چاہیے۔جہاں تک ہم سے ہو سکتا ہے،اس کی تدبیر کرتے ہیں ۔ان کو دروازہ بند کر کے اپنے گھر میں بیٹھا رہنا چاہیے،جب تک خدا ان مشکلات کو دور نہ کرے۔‘‘(۲)

            پیش نظر خط سے صاف نمایاں ہے کہ سر سید خانگی زندگی میں برابر دلچسپی لیتے تھے۔اپنے فرزند سید حامد کے ساتھ پیش آئے معاملات کی روشنی میں ایک والد کی طرح انہیں صبر کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور آئندہ کی منصوبہ بندی میں کون سے امور کو پیش نگاہ رکھنا ہے اس پر بھی روشنی ڈالتے ہیں ۔ساتھ ہی اس بات کی بھی تلقین کرتے ہیں کہ رضائے الہی کو ہر حال میں ملحوظ رکھنا چاہیے اور خدا جب تک حالات سازگار نہیں بنا دیتا،سکون سے گھر بیٹھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

سید حامد کے انتقال کے بعد ایک خط میں لکھتے ہیں :

            ’’سید حامد کے انتقال سے جو الم ہوا ہے،اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا ۔ان کے قرض کی کوئی انتہا نہیں ہے۔میں نہیں سمجھتا کہ کیونکر ادا ہو سکتا ہے۔تم نے جو تعداد قرضہ لکھی ہے،تفصیل وار اس کی فہرست لکھو کہ کس کس کا ہے۔او ر نیز ٹھیک اندازہ لکھو کہ ان کی بیوی کے اخراجات کے لیے ماہواری کیا دینا چاہیے۔مگر نہایت کفایت اور ضرورت سے کام ہونا چاہییں،جواب(جلد)بھیجو۔‘‘(۳)

            پیش نظر خط میںسر سید اپنے فرزند کی وفات پر رنجیدہ ہیں تاہم ان کی فکر یہ ہے کہ متوفی کے قرض کی ادائیگی نیز ان کے بیوی بچوں کی کفالت کا کوئی ذریعہ کس طرح پیدا کیا جائے ۔ اس طرح کا جذبہ ان کی اہلیہ کی وفات کے بعد بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔جب انہوں نے دوسرے نکاح کو ترجیح دینے کے بجائے مدرستہ العلوم کے لیے خود کو وقف کر دیا تھا۔مولانا الطا ف حسین حالی ان کے اس عمل سے بے انتہا متاثر تھے ۔اپنے ایک عزیز کو ان کی اہلیہ کی وفات کے بعد مشورہ دیتے ہیں کہ انہیں بھی سر سید کی پیروی کرنی چاہیے اور اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کو ئی کارنامہ انجام دینا چاہیے۔چنانچہ حافظ محمد یعقوب صاحب مجددی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں :

            ’’اگرچہ یہ موقع نصیحت و پند کا نہیں ہے مگر میں اس مقام پر خاموش نہیں رہ سکتا۔خدا کے تمام کام حکمت اور مصلحت سے بھرے ہوتے ہیں ۔بہت سی باتوں کو ہم مکروہ جانتے ہیں مگر وہ ہمارے حق میں اکسیر کا حکم رکھتی ہیں۔اتفاقات تقدیری سے جو آپ کو یہ آزادی حاصل ہوئی ہے اس کی قدر کرنی چاہیے اور اس سے کچھ کام لینا چاہیے۔آپ کو معلوم ہے کہ سید احمد خاں صاحب نے جو اس قدر شہرت اور عزت ملک اور قوم کی نظر میں حاصل کی ہے اس کا کیا سبب ہے؟ میں یقینا کہہ سکتا ہوں کہ صرف اس وجہ سے ان کو یہ رتبہ حاصل ہوا کہ ان کی اہلیہ ان کہ جوانی میں مر گئی تھیں ۔بہت سے لوگوں نے ان کو دوسری شادی کی صلا ح دی مگر انہوں نے ایک نہ مانی اوراپنے بچوں کو اپنے کنار شفقت میں لیا اور ان کی تعلیم و تربیت میں کوشش کی اور اپنی دماغی طاقتوں سے جو بسبب تجرد کے اور زیادہ سر سبزاور شگفتہ ہو گئی تھیں وہ کام لیے جنہوں نے آج ان کو تمام ہندوستان بلکہ تمام دنیا میں مشہور اور نامور کر دیا۔اگر وہ دوسری شادی کر لیتے تو ہرگز یہ رتبہ ان کو حاصل نہ ہوتا۔آپ کے لیے یہ نہایت عمدہ موقع ہے کہ آپ ہمہ تن اولاد کی تربیت میں مصروف ہو جائیے اور نوکری بھی چاہو کرو چاہو نہ کرو اور اگر زیادہ ہمت ہو تو خود بھی تحصیل علم کرو اور ہرگز دوسرا خیال دل میں نہ لائو۔‘‘(۴)

            پیش نظر خط سے واضح ہے کہ انہوں نے زندگی میں شعوری اور لاشعوری طور پر اتنے رنگ برتے ہیں کہ اس میدان کے نو واردکے لیے ان کا ہر ایک رنگ نشان منزل سا ہے۔مذکورہ اقتباس سے یہ بھی عیاں ہے کہ سر سید اپنے معاصر اور مابعد کے لوگوں پر کس کس طرح سے اثر انداز ہوئے ہیں۔ سرسید کے دوسرے نکاح کے فیصلے میںشاید یہ زاویہ شامل نہ رہا ہو لیکن ان کے قدر دانوںنے یہاں بھی مثبت پہلو تلاش کر لیا۔

سر سیداپنی پوتی احمدی بیگم کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں :

            ’’تمہارا خط پہنچا۔تم نے تو دو خط بلانے کے لیے بھیجے تھے مگر ہماری بوا صاحب نے کوئی خط نہیں بھیجا،نہ بلانے کا پیغام بھیجا،اس لیے میں بھی نہیں آیا۔اب اس خط میں تم نے ان کی طرف سے بھی بلاوے کا پیغام بھیجا ہے،اب میں آئوں گا۔مگر اس پر ان کے دستخط نہیں ہیں ۔تم نے ان کی طرف سے لکھ دیا ہے یا خود انہوں نے لکھا ہے؟

            میں دو پلنگ اور دو شطرنجیاں کل روانہ کروں گا۔پلنگوں کو نواڑ سے بنوا رکھنا اور اگر گرمی ہو تو باہر کے مکان میں جو سونے کا کمرہ ہے،اس میں ایک پنکھا بنوا کر رکھنا۔جب سب چیز تیا ر ہو جاوے تو مجھے خبر کرو،میں چلا آئوں گا۔‘‘(۵)

            اس خط میں سر سید اپنی پوتی کے لیے ایک دوست نما دادا ہیں ۔ایک طرف احمدی بیگم سے گھر آنے کا وعدہ کرتے ہیں تو دوسری جانب بوا صاحبہ کی دستخط کے حوالے سے پوتی کو بہلانے کا بھی کام کرتے ہیں ۔

            سر سید اور مولانا الطاف حسین حالی کے درمیان بہت اچھے تعلقات تھے۔مولانا حالی مشرقی تصور شعر وادب کے پروردہ تھے نیزانہیں مرزا غالب کی شاگردی کا شرف بھی حاصل تھا۔ نظم جدید کے فروغ میں ان کا نام نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔مولانا حالی کی اہمیت اس لیے اور بھی اہم ہو جاتی ہے کہ موصوف نے سرسید سے بہت کچھ مستعار لیا۔قدرتی مناظر اور اس قسم کے دوسرے موضوعات پر مبنی نظمیہ شاعری کو رواج دینے میں سر سید کی داد و تحسین کا بھی اہم کردار ہے۔مولانا حالی نے اپنی لیاقت کے دم پر معاصر شعراء میں اس رحجان کو قابل قبول بنایا کہ وہ بھی خیالی مضامین سے گریز کرتے ہوئے شعروادب کو زندگی سے وابستہ کرنے کی کوشش کریں۔

            سر سید نے موصوف کی اس پیش قدمی کو ہمیشہ تحسین کی نظر سے دیکھاخصوصاً ’’مسدس حالی‘‘ کی تخلیق پر سر سید نے مولانا حالی کی بے پناہ تعریف کی۔ سر سید کے رفیقوں میں مولانا حالی پیش پیش رہے ہیں۔مدرستہ العلوم کے لیے شہر در شہر بھٹکنا اور لوگوں کے طعن وتشنیع کا نشانہ بننے کے عمل میں مولانا حالی بھی سر سید کے ساتھ رہے ہیں ۔ان دونوں بزرگوں کے تعلقات بھی قابل رشک ہیں ۔ایک بار موسم گرما میں جب سر سید شملہ میں قیام فرماں تھے تو مولانا حالی نے بھی شملہ آنے کی خواہش ظاہر کی۔چنانچہ ان کے خط کے جواب میں سر سید لکھتے ہیں :

            ’’شملہ میں میرے لیے اس سے بڑھ کر کون سی نعمت ہو سکتی ہے کہ چند روز آپ کی صحبت رہے۔میرا رمضان سچ مچ میں عید ہو جاوے گا۔آپ بلا تامل تشریف لائیے۔مکان،دل،آنکھیں سب حاضر ہیں ۔موسم یہاں کا اچھاہے۔اتفاقیہ علالت دوسری چیز ہے،معمولی بیماری کا ہر جگہ ہونا لازم ہے۔سردی بہت نہیں ہے،نہایت ملائم ٹھنڈک ہے۔بارش اکثر ہوتی ہے جو کسی قدر ناگوار ہے۔آپ تشریف لائیے۔میری دانست میں کچھ نقصان اور مضرـت سردی کے سبب متصور نہیں ہے۔‘‘(۶)

            مذکورہ اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ سر سید اپنے دوستوں کو کس قدر عزیزرکھتے تھے۔گرمی سے نجات پانے کے لیے سرسید کچھ دنوں کے لیے پہاڑی مقام پر جاتے ہیں لیکن دوستوں سے رابطہ قائم رہتاہے ۔مولانا الطاف حسین حالی جب ان سے شملہ میں چند روز قیام کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں توسر سید انہیں یہ کہتے ہوئے شملہ آنے کی دعوت دیتے ہیں کہ ان کا مکان،دل اور آنکھیں سب آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہیں ۔مزید کہتے ہیں کہ آپ کے آنے سے میرا رمضان حقیقت میں عید میں تبدیل ہو جائے گا۔مذکورہ سطور سے عیاں ہے کہ سر سید جس طرح اپنے دوستوں کی دلجوئی کرتے ہیں وہ حقیقت میں ایک یار باش شخص ہی کر سکتا ہے۔

            سر سید کی زندگی کا ایک اہم پہلو ان کی انکساری بھی ہے۔یو ں تو انسان اپنے احباب اور عزیزوں کے درمیان خاکساری کے ساتھ پیش آتا ہے تاہم زندگی کے کسی موڑ پر جب شہرت سے آشنائی ہوتی ہے تب شخصیت کے پردے چاک ہوتے ہیں ۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ انسانوں کی عظمت پر شہرت نے کیسی کیسی ضرب کاری لگائی ہے۔سر سید نے اپنی عملی زندگی میں بطور منصف سے مدرستہ العلوم کے بانی تک کے سفر میں متعدد اہم ذمے داریوں کو نبھایا۔اس دوران مختلف النوع طبیعت کے حامل انسانوں سے ان کی وابستگی رہی۔ان میں ایک طرف انگریز حکام تھے تو دوسری جانب ہندوستان کے رئوسا ۔ایک جانب عوام الناس کی ایک جماعت ساتھ تھی تو بالائی طبقے کے افراد بھی۔

            سر سید نے اس پورے سفر کے دوران اپنی مستقل مزاجی اور بردباری سے ایک الگ چھاپ چھوڑی۔موصوف وائسراے کی کونسل کے رکن رہے اور متعدد اہم کمیٹیوں کے ساتھ بھی کام کیا۔ انہوں نے مختلف افراد سے گفت و شنید کی نیز خط و کتابت کے وسیلے سے بھی وہ بہت سے لوگوں سے وابستہ تھے۔ مدرستہ العلوم کے حوالے سے ان کی خط وکتابت کا دائرہ خاصا وسیع تھا۔مکتوبات سر سید میں بہت سے ایسے خطوط یکجا کر دیے گئے ہیں جو اس بات کی شہادت فراہم کرتے ہیں کہ سرسید حقیقی معنوں میں ایک رہنما تھے۔انہیں اس بات کا علم تھا کہ کسی تحریک کو ثمر آور بنانے کے لیے اس کے رہنما کو کس طرح کی صفات سے متصف ہونا چاہیے۔انہوں نے اپنے طرز عمل سے یہ ثابت کیا کہ خوشامد کرنے والوں سے اجتناب اور تعریف و توصیف سے گریز ایک رہنما کی نمایاں صفت ہوتی ہے۔

منشی سراج الدین احمد نے ’’سرمور گزٹ‘‘میںسر سید کی تعریف کی تھی چنانچہ اس کے جواب وہ لکھتے ہیں :

            ’’آپ کا عنایت نامہ پہنچا،ممنون ہوا۔آپ کے قلم نے ’’سرمور گزٹ‘‘ میں میری نسبت زیادہ جوش دکھایا ہے جس کے لائق میںخود اپنے آپ کو نہیں سمجھتا۔میں فرض کرتا ہوں کہ آپ اپنی عنایت و محبت سے مجھے ایسا ہی سمجھتے ہیں لیکن اور لوگ تو ایسا نہیں سمجھتے۔پس وہ لوگ آپ کی تحریر کو فضول سمجھتے ہوں گے۔پس ایسی تحریرات سے،جن کو لوگ فضول سمجھیں،کیا فائدہ؟۔۔۔آپ میری تصویر کو کیا کیجئے گا؟ آپ کو معلوم نہیں ہے کہ تصویر کھینچنا ،کھنچوانا،رکھنا،سب منع ہے۔بہ ایں ہمہ اگر آپ چاہتے ہیں تو لیجئے ،ملفوف ہے۔اگر تصویر میںکچھ نقص ہو تو بے چاری بے جان تصویر پر الزام نہ دیجئے گا۔بلکہ جس کی تصویر ہے اس پر،اور اگر آگے بڑھیے تو اور پر۔مگر یہ نصیحت پیر دانہ یاد رکھنی چاہیے ؎ (۷)

پیر ما گفت خطا در قلم صنع نہ رفت

آفریں بر نظر پاک خطا پوشش باد

            حیرت ہوتی ہے کہ یہ شخص کس قدر حقیقت پسند اور بردبار تھا ۔اپنے وقت کی ایک پر زورتحریک کی رہنمائی کر رہا تھا لیکن اپنے تعلق سے کسی خوش گمانی میںمبتلا نہیں ہوا۔سر سید کا جائز تعریف و توصیف پر بھی حد درجہ انکساری کا مظاہرہ کرنا مستقبل کے رہنمائوں کے لیے ایک سبق ہے۔

رئیس بنارس حاجی غلام علی کے نام ایک خط میں رقم طراز ہیں :

            ’’بعد سلام مسنون الاسلام التماس یہ ہے کہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔میں آپ کا اور ان بزرگوں کا،جنھوں نے میرا ناپاک نام اس پاک جگہ یعنی مسجد نو تعمیر پر کندہ ہونا تجویز کیاہے،شکر کرتا ہوں۔مگر ایسا کرنا نہایت نا مناسب ہے اور میں اس کو کسی طرح پسند نہیں کرتا۔میرے نذدیک ایسا کرنا دین و دنیا دونوں میں کچھ بہتر نہیں ہے۔پس امید ہے کہ آپ اور جو صاحب اس کے باعث ہوں ،(وہ)اس ارادے کو بالکل چھوڑ دیں ۔میں ایسا کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دینے کا۔‘‘(۸)

            مذکورہ خط کا پس منظر یہ ہے کہ سر سید جب بنارس میں مجسٹریٹ کے عہدے پر فائض تھے تو وہاں کے مقامی لوگوں نے ایک نئی مسجد کی تعمیر کے لیے ان سے رابطہ کیا تھا۔ ان لوگوں کی درخواست پر سر سید کے ذریعہ حکومت کی طرف سے ہر قسم کی مددحاصل ہوئی۔ چنانچہ وہ لوگ سر سید کے تعاون کو مد نظر رکھتے ہوئے نو تعمیر شدہ مسجد کی پیشانی پر یہ شعر درج کرانا چاہتے تھے ؎

در آوان سعید و از برائے طاعت یزدان

بنا گر دید این  مسجد ز سعی  سید احمد خان

            سر سید نے شہر بنارس کے رئوسا کی اس تجویز کو یہ کہہ کر خارج کر دیا کہ وہ ایسا کرنا کسی بھی طرح سے پسند نہیں کرتے۔تاہم انہوں نے اس پیش کش پر ممنویت کا اظہار کیا۔ انسانی فطرت کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ سر سید کے علاوہ شاید کوئی اور ہوتا تو یہ تجویز مشکل سے ٹھکرا پاتا۔سر سید نے حقیقی معنوں میں ایسے اور اس طرح کے دوسرے بظاہر آسان نظر آنے والے امور کی وساطت سے بھی ایک جہاں کو اپنا گرویدہ بنایاہے۔یہی سبب ہے کہ ہزارہا مخالفت کے بعد بھی سر سید کے قدم ڈگمگائے نہیں ۔اس کے بر عکس ایسے کئی واقعا ت رونما ہوئے جن میں سر سید کے سخت جان مخالف بھی ان کے ہم نوا ہوگئے۔یہ سر سید کے یقین محکم اور عمل پیہم کا فیضان ہے۔

٭٭٭٭٭

حوالہ جات:

۱۔مکتوبات حالی(جلد دوم)،خواجہ سجاد حسین ،حالی پریس پانی پت،۱۹۲۵،ص۲۰

۲۔مکتوبات سر سید (جلد دوم)،شیخ اسماعیل پانی پتی،مجلس ترقی ادب لاہور،۱۹۸۵،ص۱۴

۳۔مکتوبات سر سید (جلد اول)،شیخ اسماعیل پانی پتی،مجلس ترقی ادب لاہور،۱۹۷۶،ص۱۹

۴۔مکتوبات حالی(جلداول)،خواجہ سجاد حسین ،حالی پریس پانی پت،سن اشاعت ندارد،ص۱۲۲

۵۔مکتوبات سر سید (جلد اول)،شیخ اسماعیل پانی پتی،مجلس ترقی ادب لاہور،۱۹۷۶،ص۴۰

۶۔ایضاً،ص۵۰                  ۷۔ایضاً،ص۲۴۵

۸۔ایضاً،ص۳۸۴

****

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.