جدید ہندوستان کی تعمیر میں سر سید احمد خاں کی خدمات

 سونو رجک

  اسسٹنٹ پروفیسر مانو کالج آف ٹیچر ایجوکیشن، دربھنگہ، بہار

 9708779952 ,sonu.06541@gmail.com

ہندوستان کی عظیم اور تاریخی درس گاہ علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کے بانی سر سید احمد خاں نے اپنی پوری زندگی فکری، اصلاحی، فراخدلی،رواداری، استدلالی جستجو اور سائنسی طرز فکر کو توانائی دینے میں صرف کردی ان کے مصلحانہ اقوال اور تحریریں ان کی فکری عظمت  اور ان کے اعلیٰ خیالات کی آئینہ دار ہے۔ انہوں نے تعلیم کو معاشرتی  اصلاح کا واحد ذریعہ بنایا ہے۔ محسن ملت سر سید احمد خاں صاحب ملت کے نو نہالوں کے چہرے پر مسکان دیکھنا چاہتے تھے انہوں نے ملک و ملت کو اقتصادی طور پر بحرانی کیفیت میں دیکھا تھا چنانچہ اس کیفیت سے ابھرنے کے لئے علم و ہنر کو شاہ کلید دیا تھا اور باربارکہا کرتے تھے  ”میں اپنی قوم کے نو نہالوں کو نیلے آسمان سے بھی اونچا دیکھنا چاہتا ہوں“۔

سر سید احمد خان ملک و ملت کے ہمدرد غمگسار تھے۔چنانچہ ان کا ماننا تھا کہ مجموعی ترقی کے لئے اجتماعی جدوجہد ضروری ہے۔اور ان کا اس پر یقین تھا کہ اگر مسلمان ترقی کرے گا تو ہندوستان ترقی کرے گا جس نے حالات کے تقاضوں کو سمجھا دنیا اس کے قدموں کو چومتی ہے۔وہ کہتے تھے کہ ایک ہاتھ میں فلسفہ ہوگا اور دوسرے ہاتھ میں نیچرل سائنس اور سر پہ لا الہ الا اللہ کا تاج۔

حسن کے ہر انداز ستم سے ہوتی ہے تجدید وفا

پھر بھی نہ جانے اہل محبت کیوں اتنا گھبرا تے ہیں

سر سید احمد خان نے تعلیم نسواں کے حوالے سے پنجاب میں خواتین کے ایک جلسہ میں کہا۔ ائے میری بہنوں! تم یقین جانو کہ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں مردوں کے حالات ہونے سے پہلے عورتوں کے حالات میں درستگی ہوئی ہو۔خدا کی برکت زمین سے نہیں آتی بلکہ آسمان سے آتی ہے سورج کی روشنی بھی نیچے سے نہیں آتی بلکہ اوپر سے آتی ہے اسی طرح مردوں کی تعلیم سے عورتوں کی تعلیم ہوتی ہے۔

اے ماں بہنوں یٹیوں دنیا کی زینت آپ سے ہے

ملکوں کی بیٹی ہو تم ہی قوموں کی عزت تم سے ہے

ہو معنیٰ ہو خاوندوں کی تم غم خوار فرزندوں کی تم

تم بن ہے گھر ویران سب گھر بھر میں برکت تم سے ہے

سر سید احمد صاحب  کا تصور نیشنلزم ،سیکیولرزم  اور اس کے دیگر عناصر نکتہ کا بار بار اعادہ کرتے ہیں کہ باشندگان ہند ایک قوم ہے ان کی نیشنیلٹی انڈین ہے وہ اپنے اپنے مذہب و دین پر اچھی طرح قائم رہتے ہوئے جو سیکیو لرزم کا صحیح مطلب ہے وطن کی بہتر خدمت کر سکتے ہیں۔

ظلمت شب میں بہاروں نے چمن چھوڑ دیا

رات بھر ساتھ گلوں کے رہی شبنم تنہا

سر سید احمد خاں کا نظریہ ذریعہ تعلیم :ـ

(1         دیسی زبانوں میں مختلف فنون اور علوم کی اعلیٰ تعلیم کا انتظام کیا جائے۔

(2         امتحانا ت بھی دیسی زبان میں ہوں

(3         اب انگریزی زبان کے طالب علموں کو علم کی مختلف شاخوں میں لیاقت حاصل کرنے پر جو سندیں عطا ہوتی ہے وہی سندیں ان طالب علموں کو عطا ہوا کریں  جو انہیں مضامین کا اردو زبان میں امتحان دے کر کامیاب ہوتے ہیں۔

(4         خواہ کلکتہ یونیورسٹی میں ایک الگ اردو فیکلٹی قائم کی جائے۔

سکھایا تھا تمہیں نے قوم کو یہ شورو شر سارا

جو اس کی انتہا ہم ہم ہیں تو اس کی ابتدا تم ہو

سر سید کی پارکھی نظر

1)         شریعت محمدیہ کی پیروی

2)         تہذیب  وسائگلی پر زور

3)         اتحادو اتفاق کی پر زور وکا لت

4)         سماجی برائیو ں کے خلاف جدوجہد

5)         فر سو دہ رسم و رواج  کی مخالفت

سر سید احمد خاں ساحب چاہتےتھے کہ مسلم نو جوان جہاں ایک طرف انگریزی زبان و ادب اور جدید علوم وفنون کا مطالعہ کریں وہین دوسری جانب قدیم مشرقی علوم پر بھی توجہ  دیں ان کے تعلیمی وزن میں قدیم اور جدید کا امتزاج شامل تھا  عربی و فارسی زبان  وادب اور مذہبی امور کی تعلیم کو وہ نوجوان ذہنوں کی مناسب پرداخت کے لئے از حد ضروری خیال کرتے تھے البتہ ان کا منشا تھا کہ نو جوان کو رانہ تقلید سے اجتناب برتیں ۔ علم کی روشنی میں حق و باطل کی شناخت کریں اور قرآن کی روشنی میں دین کی بنیادوں تک رسائی حاصل کریں مذہب کےنام پر جو برائیاں  و نو ہمات معاشرے میں سرایت  کر گئے ہیں ان کو محض اس وجہ سےقبول نہ کریں کہ برسوں سے ہمارے اطوارو روایات کا حصہ ہیں یہ مقصد تبھی حاصل ہو سکتا ہے  جب نو جوان دین کی صحیح تعلیم حاصل کریں اور علوم عربیہ اور فارسی  کتب مذہبی جو معدوم ہو جاتے ہیں کس طرح قائم رہے۔

جلا کر اپنے آشیانے کو

بخش گئے روشنی زمانے کو

جو ابر یہاں سے اٹھا ہے

وہ سارے جہاں میں برسےگا

سر سید احمد خاں نے جدید ہندوستاں کی تعمیر و ترقی کا جو خواب دیکھا تھا اسے شرمندہ تعبیر کرنا ہر ہندوستانی کی ذمہ داری ہے ۔ جدید ہندوستان کے متعلق ان کا خیال تھا کہ ”ہندو اور مسلمان  ہندوستان کی دو آنکھیں ہیں  “سر سید احمد خاں ہندوستان کے عقلی افق پر چلنے والے روشن ستاروں میں ایک تھے ۔ انہوں نےنوجوانوں کو جدید اور سائنٹفک بنیادوں پر تعلیم و تربیت دینےک طرف توج دلائی ۔ حالانکہ خود انہوں نے یوروپین تعلیم نہیں پائی تھی۔ تاہم ان کا فیصلہ تھا کہ ہندوستانی (مسلمان) اگر اپنے نو جوان کو یوروپین خصوصاً  England کی طرز تعلیم نہیں دلوائیں گے تو وہ کبھی ترقی نہیں کرسکیں گے۔

سر سید تا عمر مسلمانوں کی تعلیمی ،مذہبی اور معاشرتی ترقی و اصلاح کے لئے کام کرتے رہے۔وہ سمجھتے تھے کہ ہندوستانی مسلمان ایسے مریضوں کی طرح ہیں  جو اپنے مرض کو اس وقت تک محسوس نہیں کریں گے جب تک صحت کا مزہ نہ چکھ لیں۔وہ ان فقرا کی طرح ہیں جو اپنے فقر  اور  اپنی غذا اوررہائشی بدحالی کو اس وقت تک محسوس نہیں کر سکتے جب تک ذائقہ دار کھانا نہ کھا لیں۔ جب تک نرم و گذاز بستر میں نہ سوئیں اور جب تک کشادہ آرامدہ اور ہوا دار مکان میں نہ قیام کر لیں۔اس لئے ان ہوں نے یہ خیال کیا کہ مسلمانوں کو ان چیزوں سےروشناس کرایا جائے۔ جس کے لئے تعلیمی اور ذہنی بیداری کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ سر سید نے اس کو اپنا مشن اور نصب العین بنایا۔ جس کے متعلق وہ خود لکھتے ہیں۔  ہم پر فرض ہیکہ مغربی اقوام کےساتھ ان کے علوم  میں شرکت کریں۔ اور اکتساب علم اور ایجاد عمل کی راہ میں جاری ان کی کوششوں میں شانہ بہ شانہ قدم بہ قدم چلیں۔ اہل مغرب کے علوم کو حاصل کرنے اور ان کی تہذیب کو اپنا نے کے سوا ہمیں غربت کےپنجوں اور جہالت جبروں سےبچانے والا کوئی نہیں ہے۔ اس وقت ہم دونوں کےدرمیان یک گونہ یگانگت اور برابری ہوگی ۔ اس شدید مقابلہ میں ہمیں صرف ان کی برابری ہی ہلاکت سے بچانے والی ہے”۔

ایک موقع پر قوم کے نوجوانوں کو خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتےہوئے یہ فرمایا کہ “تمہارےلئے ضروری ہیکہ اگر تم علم حاصل کرنا اور اس سے استفادہ کرنا چاہتے ہو تو اپنی قدیم عادتیں اور ضرر رساں اخلاق کو ترک کرو اوراپنی زندگی کے راستہ میں علم کی روشنی سے ہدایت حاصل کرو”۔ قوم کے بچوں کی صحیح تعلیم اور ان کی پرورش و پرداخت سے متعلق اپنی خواہش کا اظہار سر سید نے ان الفاظ میں کیا ہے۔ ” ہماری خواہش یہ ہیکہ ہمارے بچے یہاں آزادی کے ماحول میں پرورش پائیں اور ان نقصاندہ اور  فاسد اوہام اور گھٹیاں عادتوں سے دور رہیں۔ جو ان کو چاروں طرف  سے گھیرے ہوئے ہے”۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلم قوم ایسے مقام تک پہونچ جائے کہ نئی نسل کو ترقی دینےمیں  اور اور اسے مہذب بنانے میں معاون ثابت ہو سکے۔

سر سید احمد خاں مغرب کے علوم وفنون کی  اہمیت کو سمجھتے تھے۔ اگرچہ گزشتہ صدیاں مشرق کی علمی بازیافت کی گواہ رہی ہیں لیکن اب مغرب جدید فکروفن کا مرکز بن گیا ہے۔ اس سلسلے میں سر سید کا یہ خیال تھا کہ”آج روشنی مغرب سے آ رہی ہے۔جبکہ یہ کبھی مشرق سے چمکا کرتی تھی۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم یوروپ سے ان علوم کو حاصل کریں ۔حیات نو کے میدان میں زندگی کے ساتھ ساتھ چلیں اور یہ چیز مسلمانوں سے ان کی شناخت کو ضائع نہیں کریگی۔ بلکہ ان سے جہالت اور لاعلمی کو ختم کریگی۔“

سر سید  نے” تہذیب الاخلاق”میں تعلیم وتربیت کے موضوع پر ایک مضمون میں اپنے تعلیمی خیالات اس طرح ظاہر کئے ہیں “ہر ضلع میں کم سے کم ایک مدرسہ قائم کرنا چاہئے۔ جس سے ہر قسم کے مطالب و مقاصد پورے ہوں گے۔ کیونکہ تمام لوگوں کے ایک ہی طرح کے مقاصد نہیں ہوتے ۔اگر کوئی شخص مولوی ،محدث وفقیہ بننا چاہے تو مولوی بننے کا بھی اس میں موقع موجود ہو۔ اگرکوئی شخص بڑا ریاضی داں بننا چاہے تو وہ بھی اس میں اپنا مقصد حاصل کر سکے اور اگر کوئی شخص علوم وزبان انگریزی میں تحصیل کامل کرنا اور عہد ہائےجلیلہ گورنمنٹ کو حاصل کرنا چاہے وہ بھی کرسکے جب ایسا انتظام و سلسلہ قائم ہو جائے تب مسلمانوں کی تربیت اور دینی و دنیوی ترقی کو توقع ہوتی ہے۔”

سر سید کا مشہور زمانہ قول تعلیمی وتعمیری ترقی کے متعلق یہ ہے کہ  جو ان کا سب سے بڑا ترجمان ہے۔ ” فلسفہ ہمارے دائیں ہاتھ میں ہوگا اور نیچرل سائنس بائیں ہاتھ میں اور کلمہ  لا الہ الا اللہ کا تاج سر پر ہوگا۔”

جدید ہندوستانکی تعمیر کے لئے سر سید کے افکا رو خیالات کی روشنی میں ان کے تعلیمی مشن کے مختلف مراحل کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ وہ ایک ایسے نظام تعلیمی کے داعی اور المبردارتھے۔ جس میں علوم قدیم اور علوم جدیددونوں کا  امتزاج پایا جائے۔ اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ملک وملت کی نئی نسل خود کو پروان چڑھائے۔

سرسید کو اللہ غریق رحمت کرے قوم و ملت کے زوال آمادہ تہذیب کو سنوارنے اور اسے عروج  تک پہنچانے میں اہم کردا ر ادا کیا۔قوم کی اصلاح اس کی تعلیم وتربیت اور سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے تن من دھن کی بازی لگا دی ۔ اس کے لئے مضامین لکھے،رسالے نکالے،سائنٹفک سوسائٹی قائم کی مدرستہ العلوم کی بنیاد رکھی  ۔اس کے لئے خود بھی مخلف طریقےسےچندہ  کی اور دوسروں سے بھی چندہ کروایا اور اپنا سارا اثاثہ اس کے نام کر دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ پوری قوم سر سید کے احسان سے گراں بار ہے آج سر سید کی شخصیت کو اجاگر کرنے ، ان کی تعلیمات کو نئی نسل تک پہنچانے اور قوم سےان کی محبت کو عام کرنے کی ضرورت ہے اس طرح جدید ہندوستان کی تعمیر میں سر سید احمد خاں کی تعلیمی خیالات اور خدمات نہ صرف نمایاں ہیں بلکہ تاریخ کی صفحوں میں زندہ جاوید مثال ہے جو ہمیشہ کہا کرتے تھے ملک کے اخوت اور رواداری کے لئے کہ ہندو اور مسلمان ملک ہندوستان کی خوبصورت دلہن کے مانند ہے یقینی طور پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پہلے فارغین میں ایشور پرشاد، لالا امرناتھ، میجر دھیان چند،وغیرہ ۔ اس طرح سرسید احمد خاں کے ذریعہ بنایا گیا ۔ ادارہ ایک گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ ہےجو نہ صرف سیکیولرزم بلکہ نیشنلزم کی مظبوطی کے لئے وطن میں اول ہےاس کو ترجیح دی اور سماج کے غریب دبے کچلے مظلوم پسماندہ میں نیا جوش ،فنون ،بلبلہ اور روح ڈالنے کا کام کیا۔ اس طرح سر سید صاحب ملک ہندوستان کے تعلیمی روشن مستقبل کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے۔

آج دن میں ہی آسماں پر چاند دیکھ رہا ہوں

سر سید احمد کو چاند کی طرح چمکتا دیکھ رہا ہوں

نواب وقار الملک نے سرسید کی خدمات کا اعتراف اس طرح کیا ہے:

نازش اہل وطن تھے صاحب کردار تھے

مولوی مشتاق حاجی قوم کے معمار تھے

واجب العظیم تھے اپنے پرائے کے لئے

جذبہ اخلاص کی بنیاد کے اثار تھے

وقف روزو شب تھے ان کے خدمات دین کے لئے

عہد انگریزی میں اعلیٰ قوم کے معیار تھے

اب کہاں رہبر ہیں ایسے؟ جو خدا ئے قوم ہوں

سید احمد کے “مشن کالج” کے بھی غم خوار تھے

قابل تقلید ان کا آج بھی کردار ہے

واسطے قوم و وطن کے روز شب بے دار تھے

سر سید احمد خاں ملک وملت کے بڑے ہمدرد تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ قوم کی ترقی کے لئےاجتماعی جدو جہد بہت ضروری ہے۔ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ کسی بھی قوم کی ترقی کے لئے ان کی عورتوں میں تعلیمی بیداری ضروری ہے۔ اور انہوں نےتعلیم نسواں کے حوالے سے ایک جلسےکو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا میں کوئی بھی قوم ایسی نہیں ہے جن میں مردوں کے حالات کی درستگی سے پہلے عورتوں کے حالات میں درستگی ہوئی ہو۔ سر سید تا عمر مسلمانوں کی تعلیمی، مذہبی اور معاشرتی ترقی کے لئے کام کرتے رہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہندوستانی مسلمان ایسے مریضوں کی طرح  ہیں جو اپنے مرض کو تب تک محسوس نہیں کرتے جب تک وہ صحت کا  مزہ  نہ  چکھ لیں۔ سر سید نے تعلیمی بیداری کو اپنا  مقصد اور نصب العین بنا لیا تھا جس کے متعلق وہ خود لکھتے ہیں  ” ہم پر  فرض ہے کہ مغربی اقوام کے ساتھ ان کے علوم میں ہم برابر کی شرکت کریں“ ایک اور موقع پر انہوں نے نوجوانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تمہارے لئے ضروری ہے اگر تم علم حاصل کرنا اور اس سے استفادہ کرنا چاہتے ہو تو اپنی قدیم عادتیں اور ضرر رساں اخلاق کو ترک کرو اپنی زندگی کے راستے میں علم کی روشنی سے ہدایت حاصل کرو ۔ قوم کے بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت کے لئے وہ ہمیشہ کوشاں ہوتے تھے ۔اور وہ چاہتے تھے کہ ہمارے بچے ایسے مقام تک پہونچیں کہ وہ نئی نسل کی ترقی اور اسے مہذب بنانے میں معاون ثابت ہو سکے۔ ان کا یہ خواب تبھی سچ ہوگا جب قوم کے رہنما اور نوجوانوں کے اندر تعلیمی بیداری پیدا ہو جائےگی اور ہمہ وقت وہ یہ جدو جہد کریں کہ کیسے ہماری قوم تعلیم یافتہ ہو جائے اور جب قوم کے اندر تعلیم آ جائیگی تب دیس بھی ترقی کرے گا ۔ اور یہ تب تک ممکن نہیں ہے جب ہمارا  نصب العین  اور ہماری سونچ یہ نہ ہو کہ قوم کی ترقی ہماری ترقی اور ہماری ترقی دیس کی ترقی ہے۔

٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.