ہندوستان کے غیر مسلم فارسی قلمکار: (عہد اکبری تا عہد فرخ  سیّر)

ڈاکٹر ہارون رشید با غبان

 پرنسپل ایم اے پنگل اینگلو اردو، ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج، سولاپور

India’s Non-Muslim Persian Pen-Persons.

(Age of Akbar to Age of Farakh Saer-Part-I)

MOB. 9890067765

E-mail:bagbanharoonrashid@gmail.com

ہندوستان اور ایران کے مابین زمانہ قدیم سے ہی بہت گہرے اور مضبوط تعلقات رہے ہیں جن کا آغاز ایرانی بادشاہ دارا کے سندھ فتح کر نےسے ہوتا ہے۔1؎ 711ء میں محمدبن قا سم کے سندھ پر حملہ کر نے اوراس علاقہ پر تقر یباً تین صدیوں پر محیط مسلما نوں کی عظیم الشاحکومت کے سبب سند ھیوں اور عربوں،خاص کر ایرانیوں کے در میان زبر دست سیاسی ، تمدنی اور معاشرتی اختلاط ہوا۔2؎   اورہندوستان کے ہند وؤں اور مسلمانوں کا یہ اختلاط بے حد عام اورگہرا تھا ۔ تاہم مسلمانوں کی اس زبان کو مقامی ہندوؤں نے نہایت توجہ کے ساتھ بولنے ، سمجھنے، پڑھنے اور لکھنے کی پو رکی بھر پور کو شش کی۔

٭ ٹوڈرمل:-          ہندوستان میں فارسی کو فروغ دینے میں راجہ ٹوڈر مل نے 990 ھ میں اپنی شہرہء آفاق اصلاحا ت کے ذ ر یعے تمام مملکت کے تمام دفتری کام فارسی میں انجام دینے کا حکم دیا۔3؎  اس کا اثریہ ہوا کہ اب فا رسی زبان عام ہندوؤں کے ہاں پڑھائی جا نے لگی۔اس  پس منظر میں اکبر اعظم کے زما نے میں ہندوستان کے غیر مسلم قلمگاروں کی تحریری خدمات کا اجمالی خاکہ بہت اہم اور قابل قدر ہو گا کہا جا تا ہے کہ راجہ ٹوڈر مل “بھگوت پْران ” کا فا ر سی تر جمہ کیا تھا۔4؎ عہد ِ اکبر کی ایک نما یاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس دور میں سنسکرت کتابوں کے تر جمے نہایت مستعد ی کے سا تھ شروع کیے گئے جس میں بر ہمنوں اور پنڈتوں کی بھی شریک کیا گیا تھا۔ اس دور میں مرزا منوہر کو ہندوستان کے ہندو قوم کے سب سے پہلے فارسی شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ٥؎

٭ کرشناداس :       برٹش میوزیم لندن کی مطبوعہ کتابوں کی فہرست میں ایک کتاب دستیاب  ہے جو کرشناداس اکبری نے لکھی ۔ یہ 157 مصرعوں پر مشتمل فا رسی ، سنسکرت کی لغت ہے جو خود شہنشاہ اکبر کے حکم پر تیا ر کی گئ تھی۔

نورالدین جہانگیر کی تخت نشینی 1014 ھ سے لے کر عہد فرخ سیر  1124ھ کے دور  میں ہندوستا ن کے غیر مسلم قلمکاروں ، خاص کر ہندوؤں نے بہت کار آمد اور عمدہ ادب تخلیق  کیا ۔ اکبری  عہد میں کوئی قا بل قدر کتاب دستیاب نہیں ہوتی ۔ لیکن اورنگ زیب عالمگیر کی وفا ت کے بعد محمد معظم کے دور میں ہندووی میں  فا رسی تعلیم اور تصنیف کا آغاز “تراجم” سے ہوا۔

٭ چندر بھان بر ہمن ( 1057 ھ ) کا تحریر کردہ ” چہار چمن ” یہ  ایک انشا یئہ ہے لیکن بحیثیت تاریخ کے بھی بہت اہم ہے۔   اس مو قع پر مذ کو رہ دور کی چند اہم تصانیف اور ان کے تخلیق کاروں کا مختصر ذکر لا زمی محسوس ہو تا ہے۔

1-راجا ولی یہ بنوالی داس و لی دارا شکو ہی (  1060 ھ) کی تخلیق ہے ۔ یہ رسالہ صرف قدیم ہندو راجا یا ن کے حالات پر مشتمل ہے۔6؎

2- شاہ جہاں نا مہ یہ رسالہ مُصّنفہ بھگونت داس بندہء درگاہ، دراصل شاہ جہاں کے زمانہ میں تخلیق پایا جو 54  (1)

مشتمل ہے ۔ اس میں مغلیہ خاندان کا حضرت آ دم علیہ سلام سے لے کر شاہ جہاں کی تخت نشینی کا حال بیان کیا گیا ہے۔

3- گوالیار نا مہ : منشی پیرامن ولد گر دھر داس(1078 ھ ) نے گوالیارنامہ تصنیف کی۔ یہ گوالیار کی تعمیر سے لے کر معتمد خان کی گور نر ی تک کی تا ریخ ہے ۔ یہ کتا ب جلال حصاری کی، اسی  نا  م کی ایک کتا ب پر مبنی  اور اسی سے ما خوذ ہے۔

4- لْب التوّاریخ ہند:  لْب التواریخ  ہند کے مصنف بندرابن داس بہادر شاہی ہے۔یہ  ہند وستان کی تاریخ ہے جو شہاب الدین غوری سے لے کر 1101 ھ تک کے حالات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب دس فصول پر اور ہر فصل کئی کئی شعبوں پر مشتمل ہے ۔بندرابن کا انداز تحر یر سا دہ ہے لیکن یہ واضح کر تا ہے کہ مصنف کو فارسی زبان پر کا فی قد رت حاصل تھی۔

5- خلاصتہ التواریخ: خلاصتہ التواریخ سبحا ن رائے بٹالوی کی مصروف تصنیف ہے ۔ہو سبحان رائے کی تصا نیف صرف دو تک ہی محدود ہیں ۔ ایک خلاصہ” تواریخ” اوردوسری” خلا صتہ المکا تیب” جو فن انشا و نثر میں مسبوط کتاب ہے۔

6- فتو حا تِ عا لمگیر ی:یہ  الشیر داس نا گر کی تصنیف  ہے ۔جوپٹن ضلع گجرات کا باشندہ تھا۔ یہ کتاب الشیر داس کی یاد داشتوں کا مجموعہ ہے۔ جو چار سوا نح پر مشتمل ہے۔

7- اعظم الحرب مصنف کا مران (1120 ھ ) یہ محمد اعظم شاہ کی تاریخ ہے ۔ کا مراج محمد اعظم کا ملازم تھا۔ یہ تا ریخ کا مران پر اپنے آقا کی عنا یا ت کے صلے میں لکھی گئ تار یخ ہے۔

8- عبر ت نا مہ یہ کا مران کی تصنیف کر دہ گذ شتہ تا ریخ کی بنسبت زیا دہ ضخیم ہے۔ اور 1118 ھ سے لے کر 1131ھ تک کے حالا ت پر مشتمل ہے ۔

9- منتخب اتواریخ یہ جگجیون داس ولد منوہر داس سا کن گجرات کی تصنیف ہے ۔ جگجیون داس کو 1119 ھ  میں محمد معظم نے واقعہ نگاری کی ذمہ داری سونپی تھی۔

10- تار یخ کشمیر کے مصنف نرائن کول  عاجز( 1122ھ) ہیں۔  مصنف نے تاریخ کشمیر کو عارف خان صوبہ دار کشمیر کی   فر ما ئش پر اسے مرتب کیا۔اور تا ریخ  کا مواد کو ایک نئے انداز میں پیش کیا ۔

11- تاریخ مر ہٹہ دھونکل سنگھ منشی  کی تصنیف ہے ۔ یہ کتاب 1803ھ سے 1805 ھ تک کے حالات پر مشتمل ہے۔ جس میں رنجیت سنگھ جا ٹ  کے کار ہائے نمایاں کو تفصیلی طور پر بیان کیا گیا ہے۔

12- تا ریخ دل کشا: ۷؎ بھیم سین ولد رگھو نند ن داس کی اس کتاب میں اورنگ زیب ؒ کی تخت نشینی سے لے کر شاہ عالم کے   زما نے تک کی تاریخ در ج ہے۔

 13- انشاء ہر کرن :٨؎  منشی ہر کرن ولد متھراداس کنبوہ ملتانی ( 1032 ھ وہ 1031 ھ) ہر کرن عہد جہانگیر میں نواب اعتبار خان کا منشی تھا جو  32-1031میں اکبر آباد کا صوبہ دار تھا ۔ یہ کتاب بہت اہم خیال کی جاتی ہے جب انگر یزوں کو فا رسی میں کاروبار کی محسوس ہو ئی تھی تو انہوں نے اس انشاء کو پیش نظر رکھا تھا۔ اس کا انگر یزی میں تر جمہ بھی ہوا۔

14- منشآتِ بر ہمن : بر ہمن کو خطِ شکستہ میں کمال حاصل تھا۔ منشآتِ بر ہمن ، چندربھان بر ہمن کے اْن خطوط کا مجموعہ ہے جو اس نے وقتا  ً  فوقتاً شاہ جہاں ، اْمرائے دربار، ہمسرانِ عہد اور اپنےمتعالقین کے نا م مر قو م کیے۔ منشآتِ کی ابتداء میں بر ہمن نے اپنی متعدد تصا نیف کا نام لیا ہے۔ مثلاً چہار چمن ، گلد ستہ، تحفتہ الانوار، نگار نا مہ ، تحفتہ الفصحا، مجمو عتہ الفقرا ، کے علاوہ منشآت اور دیوان ہیں ۔

15- انشاء ما دھو رام : ۹؎  کےمْصنف منشی ما دھورام ہیں اس کتاب کو بہت شہرت حا صل ہے۔ حالانکہ اس کا انداز بیان نہایت تکلیف دہ اور نا گوا ر سا ہے۔

16- نگار نا مہ 10؎ : کے مصنف ملک زادہ منشی( 1090 ھ) یہ عہدِ شاہ جہانی کا ایک ز بر دست منشی تھا۔ غالباً مصنف کا نا م منشی لعل چند تھا لیکن عام طور پر اس کو ملک زادہ ہی کہا جا تا ہے ۔ نگارنا مہ دو دفاتر پر مشتمل ہے ۔ پہلے دفتر میں اپنی منشآت ہیں ۔ اور دوسرے دفتر میں دوسرے منشیوں کی تحریر ات ہیں ۔ نگا ر نا مے میں عہد عالمگیر ی کی بعض اہم دستا ویزات محفو ظ ہیں ۔ جن کی و جہ سے یہ نسخہ بہت قابل قدر بن گیا ہے۔

دیوانِ بر ہمن : بر ہمن نے اور کتابوں کے علاوہ ایک دیوان بھی یا دگار چھوڑا ہے۔ نشترِ عشق کے ایک  بیان سے معلوم ہوتاہے کہ برہمن نے ایک دفعہ اپنے دیوان کے کئی نسخے نہایت عمدہ خط میں لکھوائے اور ہرہر صفحے کو نہایت اعلیٰ بیل بو ٹوں کے سا تھ آراستہ کیا اور پھر نہایت نفیس جلد بندی کر کے ایران و توران وغیرہ بیرونی ممالک کے علما و شعرا کے پا س بغرض انتخاب روانہ کیا لیکن ان علما کی ستم ظریفی یا بےذوقی کا بْراہو کہ انھوں نے کتا ب کی نفیس جِلداور آراستہ بیل بو ٹوں کو اس کی طر ف واپس بھیج دیا اور دیوان یعنی متن کو ضایع کر دیا۔ اس حکایت کی صحت اور دْرستی کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ لیکن اس افسانے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بر ہمن نے اپنا دیوان اپنے جیتے جی مر تّب کر لیا تھا۔ دیوان  قصا ید موجود نہیں البتّہ غز لیا ت و رْباعیات کا مجمو عہ ہے۔ ہندووں میں بر ہمن شا ید سب سے پہلا با کمال شاعر تھا جس نے ایک دیوان یاد گار چھو ڑا ہے۔

٭ہندو متھرا داس ٭

            انڈیاآفس لائیریری میں اس کا قلمی دیوان موجود ہے۔11؎ باڈلین لائبریری میں اس کی ایک مثنوی لیلیٰ مجنوں” کا پتہ چلتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی طرف خسرو شیریں بھی منسوب کی جا تی ہے ۔ اس شاعر کا تذ کرہ ‘گل رعنا’ میں بھی ہے۔ دیوان میں غزلیا ت ، رْعیا ت اور فر د ہیں ۔ تصانیف کے اعتبا ر سے اندازہ ہو تا ہے کہ اچھا شاعر ہو گا۔

٭ سالم کشمیری٭

محمد اسلم سالم 12؎ ۔ یہ در اصل کشمیر ی بر ہمن تھا۔ ملّا محسن فانی کی کو شش سے  مسلمان ہوا۔ ایک مثنوی “اعظم شاہ” کے نا م پر کھی۔ سالم کو دوسرے درجے کے شعرا میں شمار کیا جا تا ہے ۔ اس کا پورا دیوان مو جود ہے۔ جس میں بعض بعض نہا یت شْستہ اور اعلیٰ اشعا ر پائے جاتے ہیں ۔ اس کی دو مثنویاں بھی ہیں۔1- گنج معانی      2- مثنوی اعظم شاہ

٭ بحر عر فان٭ بنوالی داس ولیؔ

            بنوالی داس  ولیؔ کی  بہت سی مثنو یاں ملتی ہیں ۔ مثلاً بحر عرفان وغیرہ جو اکثر متصوّر فانہ خیالات کی حامل ہیں۔مگر یہ شاعر ی کے لحاظ سے زیا دہ بلند نہیں معلوم ہو تیں ۔

            ان اکابر شعرا کے علا وہ واؔمق کھتر ی ، مخؔلص (گلاب رائے ولد گرواس) لچھمی نرائن بھی شاعر تھے۔ لچھمی نراین نے 1040 ھ میں شاہ نا مے کا خلاصہ تیا ر کیا ہے۔ وہ شہزادہ بیداز بخت کے ہاں پیش کا ر تھا۔

ترا جم : ٭ سنگھا سن بیتسی٭

            سنگھا سن بیتسی کے بہت سے تر جمے ہو ئے ۔جہا نگیر کے عہد میں(  1119 ھ) بھارا مل 13؎ کھتری نے سب سے پہلا تر جمہ کیا۔ایک اور تر جمہ ہے جو کشن داس ابن ملوک چند تنبولی نے کیا ہے۔ یہ شخص لا ہور کا با شندہ تھا اور بواب جا راللہ امیرالامرا کا ملا زم تھا اس لیے اس کا نا ” کشن بلاس” رکھا گیا ہے۔ شاہ جہاں کے عہد میں اس کا ایک اور تر جمہ ابن ہر کر ن نے کیا۔

٭ راماین کے مختلف ترا جم :-

1- گر دھرداس کا یتھ دہلوی ، جس نے 1036 ھ میں راماین کا تر جمہ مثنوی میں کیاـ

2- چند ر من نے 1097 ھ میں راما ین کا تر جمہ کیا۔

3- دیبی داس کایتھ نے بھی اسی زمانے میں راماین کا تر جمہ کیا۔

4- امر سنگھ منشی نے 1117 ھ میں یعنی اورنگ زیب کے آخری سا ل میں راماین کا تر جمہ کیا جس کا نا م ” امرپر کا ش رکھا۔

گلزار حال14؎- پر بھودہ چند روناٹک کا تر جمہ بنوالی داس ولی نے 1073 ھ میں کیا۔ نازک خیلات بر ہمن نے آتم بلاس کا تر جمہ کیا

٭قصص٭

کشایش نا مہ 15؎مصنّفہ راج کر ن( 1100 ھ )کے چھ کہانیوں کا مجموعہ ہے۔

٭دیگر فنون٭

بدیع الفنون مصنّفہ دھر م نراین (1054 ھ ) اس میں حساب کے متعلق اسباق ہیں ۔اس کے نوباب ہیں بعض جگہوں پر مصنف کا نام مید نی مل یا مداری مل بھی دیا گیا ہے۔

فرس نامہء ہندی : ( قبل از 1054 ھ) کے مصنف کا نا م معلو م نہیں ہو سکا ہے ۔ اس کا ہندی تر جمہ سیّد عبداللہ فیروز جنگ کے حکم سے ہوا۔ اور اس کا انگریزی تر جمہ بھی ہو چکا ہے۔

*مآخذ*

1) (عرب و ہند کے تعلقات  از سیّد سلیمان ندوی)

2)ادبیات فارسی میں ہندوستان کا  حصّہ  صفحہ 1۔

3) آئین ( تر جمہ ہلونمن صفحہ 352) / ادبیات فارسی میں صفحہ 29

4) A lit.History of India 36 N گر یرسن صفحہ 35

5) ادبیات فارسی میں ہندوؤں کا حصّہ ( مر تبہ ڈاکٹر سید عبداللہ صفحہ 1 )

6) خلا صہ تواریخ صفحہ 7۔

۷)ما ڈرن ریوہو۔ 1919 ھ  ج، 27  ص، 17

۸)ریو یو 2 ص 530 ، انسائیکلو پیڈیا آف کلام – از بلو شے – ج 2 ص 277

۹)ایشیا ٹک سو سا ئٹی بنگال فہر ست مخطوطا ت۔ ایونا ف ( کر زن کا الیکشن – عدد 150)

10) دیویو – ج-1 ص 985 ، ہانکی پور فہرست ج- 9 – عدد 879 ص 105

11) گلِ رعنا۔ بانکی پور ج۔8۔ص۔133

12) نشتر عشق (قلمی) ج۔1۔ ق 237 : گل رعنا بانکی پور ۔ ج۔8 ۔ص۔ 89

13) انڈیا آفیس : عدد 1888- 1989ریو یو 2- ص 673

14)  ریو – ج 3 –ص 1043

15)  ریو- ج2 ص 767 انڈیا آفس عدد 825

٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.