خلیل الرحمن اعظمی کی شاعرانہ عظمت : ایک مطالعہ
ڈاکٹر ظہور احمد مخدومی
اسٹنٹ پروفیسر،گورنمنٹ ڈگری کالج سوپور، جموں و کشمیر
غزل اردو شاعری کی ہر دل عزیز صنف سخن ہے۔ ہر زمانے میں شعراء نے اس صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ اردو شاعری میں غزل کو جومقبولیت حاصل ہوئی ہے وہ کسی دوسری صنفِ سخن کو حاصل نہ ہوسکی۔۱۹۳۶ء میں جب ترقی پسندتحریک وجود میں آئی تو شاعری میں حقیقت نگاری پر زور دیا جانے لگا اور غزل کو انفرادی شعور سے بیگانہ اور بے وقت کی راگنی قرار دے کر اس کی مخالفت کی گئی لیکن غزل سخت جان نکلی اور ان تمام مخالفتوں کے باوجود وقت کی آواز بن کر ہمارے سامنے آگئی۔ جدید دور کے غزل گو شعراء نے اردو غزل میں موضوع، اسلوب اور ہیت پر بڑی خوشگوار اور دلکش تبدیلیاں پیدا کیں۔ جن شعراء نے جدید غزل کی آبیاری اور وسعتیں بخشی ان میں ناصرؔ کاظمی، مظہرؔ امام، خلیلؔ الرحمن اعظمی، شہر یارؔ، حامدیؔ کاشمیری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
خلیل الرحمن اعظمی کی پیدائش ۹ اگست ۱۹۲۷ء کو اعظم گڑھ کے ایک گاوں سلطان پور میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام محمد شفیع تھا جو بڑے پر ہیزگار،دیندار اور متقی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے وقت کے بڑے عالم شمار کیے جاتے تھے۔ آپ کی والدہ رابعہ بیگم معمولی پڑھی لکھی خاتون تھی۔ خلیل کو ابتداء ہی میں گھر میں ادبی ماحول میسر ہوا جس کا انھوں نے بھرپور فایدہ اٹھایا۔ کم سنی میں انہیں کتابوں کے مطالعے سے دلچسپی پیدا ہوگئی۔ نیشنل ہائی اسکول اعظم گڈھ سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ علی گڈھ چلے گئے جہاں سے آپ نے انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ بعد میں آپ دلی چلے گئے۔ اس دوران فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور آپ کو وہاں ہنگامی صور تحال کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ اپنی کتاب ’’ نیا عہد نامہ‘‘ کے دیباچہ میں ان ہنگامی حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ ستمبر ۱۹۴۷ء میں دہلی سے علی گڈھ آتے ہوئے میں نے اپنی موت کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس منظر کی تاب نہ لاسکا۔ہوش آیا تو اپنے آپ کو جامع مسجد کے ریلیف کیمپ میں پایا۔ اور پھر تین ماہ تک جامعہ ملیہ میں حیات ومرگ کی کشمکش میں مبتلا رہا۔ اس حادثے سے جانبر ہونے کے بعد نومبر ۱۹۴۷ء کے آخر میں پھر علی گڈھ میں واپسی ہوئی۔ یہاں آکر کچھ دنوں تک مجھ پر عجیب کیفیت طاری رہی۔ راتوں کو گہری نیند سے چونک اٹھتا، مجھے ایسے معلوم ہوتا کہ جیسے کوئی ایسی قوت میرے سینے پر سوار ہے اور مجھے ہمیشہ کیلئے ختم کر دینا چاہتی ہے۔‘‘ ۱؎
ایسے حالات کے پیش نظر اعظمی کو میرؔ کی شاعری میں پنا ہ ملی اور ان کی صحبت میں بیٹھ گئے ۔ بی۔ اے اور ایم۔ اے کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد علی گڑھ گزٹ میں پہلے نوکری کی اور بعد میں ۱۹۵۲ء میں علی گڑھ یونیورسٹی میں آپ کا تقرر بحیثیت لیکچرار ہوا۔ اس دوران آپ شاعری بھی کرتے رہے۔ آپ کا پہلا مجموعہ کلام ۱۹۵۶ء میں ’’ کاغذی پیرہن‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ’’ نیا عہد نامہ‘‘ اور’’ زندگی اے زندگی‘‘ کے نام سے دو اور شعری مجموعے شائع کئے۔ شاعری کے علاوہ آپ کے دوتنقیدی مجموعے ’’ فکر وفن‘ اور ’’زوایہ نگاہ‘‘ کافی اہمیت کے حامل ہیں۔
خلیل الرحمن اعظمی ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے آپ بیک وقت شاعر، محقق اور تنقید نگار تھے آپ کی شاعری میں میر کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ اور حقیقت یہ بھی ہے آپ کے کلام میں میرؔ کی طرح نشتریت، درد وکرب اورحُزن ملال کا پہلو نمایاں ہے۔ آپ نہ صرف میر کے فکروفن سے خاصے متاثر تھے بلکہ آپ خود بھی اس کا برملا اظہار اپنی کتاب ’’ نیا عہدنامہ‘‘ کے دیباچے میں یوں کرتے ہیں:
’’ مجھے ان کے یہاں غم پرستی کے بجائے غم سے نبر دآزما ہونے اور اس کے زہر سے امرت نکالنے کا سلیقہ نظر آیا۔ میر کی آواز کو اپنی آواز سمجھنا میرے لئے مخصوص غزل گوئی یا شاعری کا راستہ نہیں تھا بلکہ میری پوری زندگی کا مسئلہ تھا اس آواز کا سراغ مجھے نہ ملتا تو میری روح کا غم جو اندر سے مجھے کھائے جارہا تھا۔ نہ جانے مجھے کن اندھی وادیوں کی طرف لے جاتا۔‘‘ ۲؎
اس طرح خلیل الرحمن اعظمی کی غزلوں میں میرؔ کے اثرات نمایاں طور نظر آنے لگے۔ چونکہ ان کی غزلوں میں جدیدیت کا رنگ غالب ہے اس لئے ان کے لہجے میں انفرادیت اور فنی بصیرت نظر آتی ہے ؎
آخری شمع ہوں میں، میرا لہو جلنے دو
اب میرے بعدملے گا نہ اندھیروں کو ثبات
سرا ٹھانے کا بھلا اور کسے یارا تھا
بس تیرے شہر میں یہ رسم ادا ہم سے ہوئی
حامدی ؔکاشمیری اپنے ایک مضمون میں خلیل الرحمن اعظمی کی میر ؔ سے طبعی مناسبت کو واضح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:۔
’’ تقسیم وطن کے فوراً بعد ناصر کاظمی اور خلیل الرحمن اعظمی نے کچھ تو، طبعی مناسبت کی بنا پرا ور کچھ خارجی حالات کی ابتری اور انتشار کے زیر اثر میر یت میں اپنی غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کیا، اور اسے ایک شعری رحجان کے طور پر فروغ دینے کی کوشش کی،۔۔۔۔ خلیل الرحمن اعظمی نے بھی میرؔ کے احیاء میں نمایاں رول ادا کیا، انہوں نے اس زمانے میں شعر گوئی کا آغاز کیا جب ترقی پسندی عروج پر تھی۔ چنانچہ وہ بھی ترقی پسندی کے اثر میں آگئے، لیکن انھیں برابر محسوس ہوتا رہا کہ تخلیقِ شعر کا عمل منصوبہ بندی اور پروپیگنڈا سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا، وہ نفسیاتی کشمکش کے شکار ہوگئے۔ انھیں بقول ان کے ’ عجب طرح کی نارسائی اور ناتمامی کا احساس دامن گیر رہا‘‘۔ ۳؎
خلیل الرحمن اعظمی نے نہ صرف میر کو اپنا پیش رو مانا بلکہ ان کی شاعری کے محاسن کو ایک نئے رنگ و روپ کے ساتھ پیش کیا ہے ۔اس بابت ممتاز حسین رسالہ ’ ’ شاعر‘‘ کے خصوصی نمبر میں لکھتے ہیں :۔
’’ انہوں نے میر کے سوز وگداز سے فیض حاصل کیا ہے اور اسے ایک جدید رجحان کی حیثیت سے قبول کرنے کی کوشش کی ہے۔وہ جدید رجحان اپنے ماحول کے غم اپنی ذات میں سمونے کا ہے ۔اس سے کلام میں قنوطیت پیدا نہیں ہوتی بلکہ کلام میں تاثیر پیدا ہوتی ہے اور اپنا غم ایک یونیورسل جذبے کی صورت اختیا ر کر لیتا ہے۔ ‘‘ ۴
خلیل الرحمن اعظمی کا شمار جدید غزل گوشعراء میں ہوتا ہے۔ اگر چہ وہ ابتداء میں ہی ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے لیکن بہت جلد اپنے آپ کو اس تحریک سے الگ کرکے جدیدت کے حامی ہوگئے۔ آپ نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی۔ نظموں سے اپنی زندگی کا آغاز کیا لیکن بنیادی طور پر آپ غزل کے شاعر تھے اور فوراً غزل کی طرف رجوع کیا۔
خلیل الرحمن اعظمی کے پہلے اور دوسرے مجموعے کی درمیان دس سال کا وقفہ ہے اس دوران ان کی زندگی میں بہت سارے خوشگوار اور ناخوشگوار واقعات رونما ہوئیں جس نے نہ صرف ان کے ذہن پر اثر ڈالا بلکہ ان کے تجربات میںبھی اضافہ ہوا ۔لب و لہجہ کی اس تبدیلی کے بارے میں پروفیسر آل احمد سرور لکھتے ہیں:
’خلیل الرحمن اعظمی کے ’’ کاغذی پیرہن‘‘ میں شوخی تحریر کا بھی احساس ہوا تھا ۔ ان کا دوسرا مجموعہ ’’نیا عہد نامہ‘‘ زندگی اور حسن سے ایک نئی گہری محبت کا نقش جمیل بن کر سامنے آیا،اعظمی کی یہی آواز ہے،اپنا لب ولہجہ اور اپنا آہنگ ہے، یوں تو ان کے یہاں میرؔ نشتریت بھی محسوس ہوتی ہے۔مگر اس دور کے مسائل اور معاملات کے شعور نے نشتریت میں ایک نئی نوک پیدا کر دی ہے۔‘‘ ۵؎
خلیل الرحمن اعظمی ایک دردمند اور حساس دل وجگر رکھنے والے انسان تھے۔ وہ صرف غم جانا ں ہی کے مارے ہوئے نہیں ہیں اور صرف غم ِمحبت ہی کا اظہار نہیں کرتے بلکہ عصری آگہی اور شعور ان کی غزلوں میں ہر جگہ موجود ہے؎
زندگی تیرے لئے سب کو خفا ہم نے کیا
اپنی قسمت ہے کہ اب تو بھی خفا ہم سے ہوئی
ہم نے اتنے ہی سرراہ جلائے ہیں چراغ
جتنی برگشتہ زمانے کی ہوا ہم سے ہوئی
خلیل الرحمن اعظمی کی غزلوں میں کئی مثبت اور منفی احساسات پے درپے جنم لیتے ہیں اور ان کی غزلوں میں تنہائی کی کئی کئی صورتیں نظر آتی ہے اور یہ ساری صورتیں ایک دوسرے سے منسلک ہیں ؎
نہ جانے کس کی ہمیں عمربر بھر تلاش رہی
جسے قریب سے دیکھا وہ دوسرا نکلا
ہمارے پاس سے گذری ایک پرچھائی
پکارا ہم نے تو صدیوں کا فاصلہ نکلا
کسی شاعر کی شعری کو پرکھنے کیلئے ایک کسوٹی یہ بھی ہے کہ اُس کے فن کے اظہار میں کتنا خلوص سے کام لیا ہے، یعنی وہ تجربات، احساسات اور جذبات کے اظہار میں خلوص اور صداقت کا کتنا خیال رکھتا ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی نے جس طرح زندگی کو دیکھا اور سمجھا اُسی طرح قارئین کے سامنے پیش کیا ؎
اور تو کوئی بتاتا نہیں اس شہر کا حال
اشتہارات ہی دیوار کے پڑھ کر دیکھیں
زیب دیتے نہیں یہ طرّہ ودستار مجھے
میری شوریدہ سری سنگ ملامت مانگے
خلیل الرحمن اعظمی کا اسلوب بیان بھی دلکش ہے ان کی غزلوں میں احساسات کی شدت، خیالات کی بلندی اور تجربے کی آفرینی، مشاہدے کی گہرائی وگیرائی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ الفاظ کی بندش، خوبصورت الفاظ کا استعمال ان کے کلام کوپُراثر بنا دیتی ہے۔ آپ کی شاعری میں غور وفکر اور تدبر وتفکر کا غلبہ پایا جاتا ہے۔ آپ کا پیغام آفاقی سنجیدگی، متانت اور زندگی کا ترجمان ہے ؎
صبح سے پہلے ہی برپا کرو خیمہ ٔ گل
کتنے گلچیں ابھی بیٹھے ہیں لگائے ہوئے گھات
پوچھتے کیا ہو ان آنکھوں کی اداسی کا سب
خواب جو دیکھے وہ خوابوں کی حقیقت مانگے
خلیل الرحمن اعظمی نے اپنی غزلوں میں پرانی علامتوں اور پرانے مضامین سے انحراف کیا ہے اس کے بجائے انہوں نے روز مرہ زندگی میں استعمال ہونے والی سادہ زبان اور عام علامتوں کا استعمال کیا ہے جس سے نہ صرف ان کی غزلوں میں حسن پیدا ہوا بلکہ ایک مخصوص فضا پیدا ہوگئی۔ ؎
ٹھنڈی ٹھنڈی سی مگر غم سے ہے بھرپور ہوا
کئی بادل مری آنکھوں سے پرے اور بھی ہے
روٹھی تو خوب روٹھی رہی ہم سے فصل گل
آئی تو پھر نچو ڑ کے دل کا لہو گئی
یا ہمیں قید کرو مجلس تنہائی میں
یا اسی دشمن جاناں سے ملا دو ہم کو
خلیل الرحمن اعظمی ؔ نے موضوعاتی اعتبار سے اپنی شاعری میں تنّوع پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔اپنے سماج میں پھیلی بد امنی،ظلم واستبداد اور معاشرتی خرابیوں اور غیر حقیقی مسائل ومعاملات پر ان کا شاعرانہ اظہار دراصل ہمیں ایک خاص طرح کا پیغام دیتا ہے اور وہ پیغام ہے ہماری بے فکری،بے حسی اور غیر سنجیدگی کو ترک کردینے کا۔گویا ان کی نظر میں ہماری معاشرتی صورت حال انتہائی مایوس کن اور دل سوز ہے ؎
زندگی بھی میرے نالوں کی شنا ساں نکلی
دل جو ٹوٹا تو مرے گھر کی کوئی شمع جلی
ہم نے خود اپنے آپ زمانے کی سیر کی
ہم نے قبول کی نہ کسی رہنما کی شرط
یہ امر قابل ذکر ہے کہ نفسیاتی سطح پر مختلف کشمکشوں ( ناسازگار اور ناموافق) حالات سے گزرنے کے باوجود خلیل الرحمن اعظمی قنوطیت پسند نہیں تھے۔ ان کا کلام عزمِ مصّمم، بلند حوصلگی اور جہدِ مسلسل کا پیام ہے۔ ان کی افسردگی میں بھی ناامیدی اور مایوسی نہیں وہ زندگی کے فرار کے قائل نہیں۔ ان کی شاعری سنجیدہ جذبات، احساسات، خلوص، صحت مند اور تعمیری خیالات ورحجانات کی آئینہ دار اور پاسدار ہے۔ جو لوگ آپ کے کلام کا سنجیدگی سے مطالعہ کریں گے وہ آپ کو بے ساختہ ایک روشن دماغ شاعر قرار دیں گے۔ خلیل صاحب ایسے فن کار ہے جن کی قدر زمانے کے ساتھ بڑھتی جائے گی۔
حوالہ جات
۱۔دیباچہ ۔از خلیل الرحمن اعظمی ۔’’نیا عہد نامہ ‘‘ صفحہ ۱۵
۲۔ دیباچہ ۔از خلیل الرحمن اعظمی ۔’’نیا عہد نامہ ‘‘ صفحہ ۱۵
۳۔حامدی کاشمیری کا ایک تبصراتی مضمون
۴۔خلیل الرحمن اعظمی نمبر ’’ شاعر‘‘ ۱۹۸۰ ء ص ۱۷۷
۵۔’’نیا عہد نامہ‘‘ پر ایک تبصراتی نوٹ ۔پروفیسر آل احمد سرور
٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!