اردو ادب میں خواتین کی نمائندگی
ڈاکٹر محمد انور
این ٹی ایم، سی ، آئی ایل، میسور
اقبال کا یہ مصرعہ ع ’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘ نظام حیات میں عورت کی ناگزیریت کا اعلامیہ ہے۔ مرد و زن ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ دونوں لازم و ملزوم اور دونوں ہی ناگزیر۔ حیات و کائنات کا کوئی علاقہ ان کی بوقلمونی سے خالی نہیں۔ علم و آگہی، ادب اور ساہتیہ ہر جگہ دونوں کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔مرد نے البتہ اپنی اساس کچھ زیادہ مستحکم کی لیکن عورت نے دامن نہیں چھوڑا۔ کم کم ہی سہی لیکن اس طبقے نے بھی جابجا اپنی حاضری درج کرائی ہے۔ یہ مقالہ اردو ادب میں طبقہ اناث کی صورت حال سے واقف کراتا ہے کہ انھیں ادب سے کسی بھی طور الگ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اردو کی نشو و نما کے مراحل ہوں، دلّی کی خوشحالی و بدحالی کا ذکر ہو، دکن کے عروج و زوال کی کہانی ہو، دبستان لکھنؤ کی رنگینی ہو یا عظیم آباد کا متصوفانہ ماحول، عورت کا کردار ہر جگہ مختلف صورتوں اپنے وجود کا اعلان کراتا ہوا نظر آتا ہے۔ڈاکٹر قمر رئیس لکھتے ہیں:
’’نذیر احمد سے قرۃ العین حیدر تک اردو ناول کی ہیروئین کے روپ میں ہندوستانی عورت کے بدلتے ہوئے روپ میںاس کے مسائل، سماجی حیثیت اور انسانی حقوق کے لئے اس کی انتھک جدوجہد کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ اردو ناول کے ارتقائی عمل میں ہیروئن کا تصور بھی ارتقا پذیر رہا جبکہ داستانوں میں اس ارتقا کی نشاندہی مشکل ہے۔ اردو ناول کی ہیروئن اپنے ماحول اور معاشرے سے پوری طرح جڑی ہوئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہیرو کے مقابلے میں اس کی سرگرمیوں کی سمت و رفتارمحدود ہے، اس کی خواہشوں کا حصار تنگ ہے اوراس میں ہیرو کے جیسی توانائی بھی نہیں ۔اس کا ایک فائدہ بھی ہوا۔ ہیرو کے فکر و عمل میں اگر اجتماعیت کا عنصر غالب ہے تو ہیروئن اپنی کم نمائی کے دائرے میں زیادہ انفرادیت اور دل کشی کی حامل نظر آتی ہے۔ اس کا تعلق متوسط طبقے سے ہو یا گاؤں کی کھردری زندگی سے، وہ شہر کے اعلیٰ طبقے کی پُر شکوہ زندگی کی نمائندگی کرتی ہو یا ارباب نشاط کے بالا خانوں سے ہو یا فلمی نگارخانوں سے اس کے وجود کی دل کشی اور پہچان زیادہ تیکھی رہتی ہے۔ وہ اپنے باطنی محرکات، اپنے ماحول، اپنی جڑوں، اپنی روایات اور قدروں سے زیادہ مانوس اور وابستہ نظر آتی ہے‘‘۔ ۱ ؎
لیکن موجودہ صورتحال ڈاکٹر قمر رئیس کی گفتگو سے انحراف کرتی نظر آتی ہے کیونکہ زمانہ حال میں کچھ ایسے کردار سامنے آچکے ہیں جو عورتوں کی نفاستوں کو بالائے طاق رکھ کر دلیرانہ قدم اختیار کرتے ہیں اور فن پارے کی جان بن جاتے ہیں۔
اس گفتگو کا حاصل بس اتنا سمجھنا چاہیے کہ جو خواتین صرف کردار کی حد تک محدود تھیں اب وہ خود کردار کی تخلیق کرنے لگی ہیں اور نہ صرف کہ یہ مردوں کے شانہ بہ شانہ چلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں بلکہ کہیں کہیں پر مردوں سے آگے کا سفر طے کر رہی ہیں۔
یوں تو ابتدا سے ہی خواتین ناول نگار و شاعرات کا ذکر اردو ادب میں ملتا ہے۔ اردو ادب کی تاریخ کا مطالعہ اس بات کی غمازی کرتا نظر آتا ہے کہ اردو ادب کی آبیاری میں خواتین اگرچہ بالکل مردوں کے شانہ بہ شانہ تو نہیں چل پائیں لیکن انہوں نے جابجا اپنے وجود کا احساس دلایا ہے۔ اس سلسلے میں کئی نام اور کام منظر عام پر آچکے ہیں اور روز بروز اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اگر ہم خواتین کا ذکراردو ناول سے شروع کریں تو جہاں نذیر احمد کھڑے ہیں وہیں کچھ فاصلے پر رشیدۃ النسا بھی کھڑی ہوئی مسکراتی نظر آئیں گی۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر عظیم الشان صدیقی لکھتے ہیں:
’’نذیر احمد کے یہ ناول محض ان کے تخیل کا ہی نتیجہ نہیں تھے بلکہ ان کی سبقاً سبقاً تخلیق میں ان کی لڑکیوں کی دلچسپی اور رد عمل کا عنصر بھی اس طرح شامل ہوگیا تھا کہ اصلاح پسندانہ رجحان کے باوجود انہیں طبقہ نسواں میں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی اور نذیر احمد کی آواز کو خلق کی آواز بنانے کے لئے عورتیں بھی کمربستہ ہوگئیں۔ نذیر احمد کے یہ ناول اگر تحریک نسواں اور تعلیم نسواں کا نقطۂ آغاز ہیں تو رشیدۃ النساء کا ناول ’’اصلاح النساء‘‘ (سن تصنیف۱۸۸۱ء) اس تحریک کا پہلا ثمر اور نثر میں نسوانی ادب کا نقطۂ آغاز‘‘۔ ۲؎
’’اصلاح النساء‘‘ اردو کی پہلی خاتون ناول نگار رشیدۃ النساء کا ناول ہے جس کا دیباچہ اگر ایک طرف نذیر احمد کا شکریہ ادا کرتا ہے تو دوسری طرف اس بات کی وضاحت کہ نذیر احمد نے خواتین کے بہت سے پہلوئوں کو تشنہ چھوڑ دیا ہے اور جسے ایک خاتون ہی جان سکتی ہے۔ ناول کے دیباچہ میں رشیدۃ النساء اس بات کی وضاحت یوں کرتی ہیں:
’’اللہ مولوی نذیر احمد صاحب کو عاقبت میں بڑا انعام دے ان کی کتاب کے پڑھنے سے عورتوں کو بڑا فائدہ پہنچا۔ جہاں تک ان کو معلوم تھا انہوں نے لکھا اور اب جو ہم جانتے ہیں اس کو انشاء اللہ تعالیٰ لکھیں گے۔ جب اس کتاب کو لڑکیاں پڑھیں گی تو مجھے خدا سے امید ہے کہ انشاء اللہ سب اصغری ہو جائیں گی۔ شاید سو میںسے کوئی ایک اپنی بدقسمتی سے اکبری رہ جائے تو رہ جائے۔ میرے لکھنے میں عمدہ بات یہ ہوگی کہ اس کتاب کے پڑھنے سے عورتوں پر اثر زیادہ ہوگا اور سمجھیں گی کہ اس نے عورتوں کی رسموں کو جہاں تک لکھا ہے آنکھوں دیکھی بات ہے‘‘۔ ۳؎
رشیدۃ النساء کا مذکورہ ناول دو حصوں پر مشتمل ہے اور محمد سلیمان کی کوششوں کا ثمرہ ہے۔ ان کی کوششوں سے ہی یہ ناول مطبع قیصری، پٹنہ سے شائع ہوا۔ اس ناول میں نذیر احمد کے ہی اسلوب اور آداب فن کو بروئے کار لایا گیا ہے۔
تعلیم نسواں کے موضوع پر نذیر احمد کی تقلید میں ایک اور مصنفہ نادر جہاں کا ناول ’’افسانہ نادر جہاں‘‘ یا ’’فسانہ طاہرہ‘‘ بھی اہمیت کا حامل ہے اگرچہ علی عباس حسینی اسے نادر جہاں کی تصنیف ماننے میں تامل ہے لکھتے ہیں :
’’افسانہ نادر جہاں یا فسانہ طاہرہ پر نادر جہاں کا نام بطور مصنفہ طبع ہے لیکن مصنفہ نے مقدمہ کتاب میں اس کا اقرار کیا ہے کہ اس کی اصلاح مرزا عباس حسین ہوش ؔنے کی ہے۔ میں نے ہوش ؔکے جاننے والوں سے اس افسانے کی تصنیف کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ نادر جہاں کا نام فرضی ہے اور اصل میں یہ ناول بھی مرزا صاحب کاکارنامہ ہے۔ان کے راویان معتبر ہیں ۔شیخ مختار حسین عثمانی مرحوم، مدیر اودھ پنچ اور مرزا محمد عسکری بی۔اے ،مترجم تاریخ اردو ،دوایسے موثق شاہد تھے جنہوں نے میرے لئے شک کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی‘‘۔ ۴؎
لیکن ہماری رائے ہے کہ حسینی صاحب کے خیال کی بنیاد محض ظن ہے اور ظن کو تنقید کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔
ڈاکٹر عظیم الشان صدیقی نے ان کے اس خیال کی نفی بھی کی ہے ۔وہ لکھتے ہیں:
’’حسینی صاحب کے اس بیان سے شک کو تقویت ملتی ہے لیکن مقدمے میں واضح اظہار اور کسی دستاویزی ثبوت کی عدم موجودگی میں اسے مرزا ہوش کی تصنیف تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ مرزا ہوش ادیب و شاعر ہونے کے علاوہ ناول نگار بھی تھے ان کے دو ناول ’’مرزا مستا‘‘ اور ’’ربط و ضبط‘‘ کے نام سے شایع ہو چکے ہیں اگر یہ ناول مکمل طور پر انہوں نے ہی تصنیف کیا ہوتا تو اپنے نام سے شائع کرانے میں کوئی امر مانع نہیں تھا۔ اس لیے اس ناول کو نادر جہاں کی تصنیف تصور کیا جانا مناسب معلوم ہوتا ہے‘‘ ۔ ۵ ؎
مذکورہ بالا دونوں ناولوں نے تحریک نسواں کو تقویت پہنچائی اور ان کی اصلاح اور ان کی صلاحیتوں کی بیداری کے احساس نے خواتین کے ایک ماہانہ رسالہ ’’تہذیب نسواں‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ ’’تہذیب نسواں‘‘ کی مدیرہ محمد بیگم تھیں بعد میں عبدالحلیم شرر نے بھی ۱۹۰۰۔ء میںایک پندرہ روزہ رسالہ ’’پردۂ عصمت‘‘ خواتین کے لیے جاری کیا۔ رسالہ خاتون ۱۹۰۵۔ء میں جاری ہوا۔ خواتین کے دوسرے رسائل میں عصمت، شریف بی بی، سہیلی اور نور جہاں بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان رسائل کی بیشتر تحریریں خواتین کے زور قلم کا نتیجہ تھیں۔ان رسائل کی اشاعت نے خواتین کے ادب کے ارتقا میں جو کردارادا کیا اس سے انکار مشکل ہے اگرچہ آج کل ان کی دستیابی ایک مسئلہ ہے۔ عظیم الشان صدیقی لکھتے ہیں کہ ــــ:
’’ان رسائل میں خواتین کے بارے میں ہی مضامین شائع ہوتے تھے جن میں بیشتر خواتین ہی کے زور قلم کا نتیجہ ہوا کرتے تھے۔ ان میں مسز سراج الدین احمد کا وہ ناول بھی شامل تھا جو ۱۹۰۵۔ء میں رسالۂ خاتون میں ناول دکن کے نام سے شائع ہوا تھا جس کا موضوع دکن کی تہذیب و معاشرت، خواتین کے مسائل اور اصلاح رہا ہوگا لیکن ’’خاتون‘‘ کے یہ شمارے نایاب ہیں اس لئے قصہ اور کرداروں کے بارے میں کچھ کہنا دشوار ہے۔ اس ناول کی کتابی شکل میں اشاعت کے بارے میں بھی کوئی اطلاع نہیں ملتی‘‘۔ ۶؎
اس ارتقائی دور میں اکبری بیگم کا ناول ’گڈری کے لال‘ (۱۹۰۷ء) محمدی بیگم کے ’صفینہ بیگم‘، ’آجکل‘ اور ’شریف بیٹی‘، مسز عباس طیب جی کا ناول’شوکت آراء‘، صغری ہمایوں مرزا کا ناول ’سرگذشت ہاجرہ ‘بھی اسی دور کی یادگار کہے جاتے ہیں۔ اسی زمانے کی ایک اہم خاتون نذر سجاد بھی ہیں جو شادی سے قبل نذر زہرا کے نام سے جانی جاتی تھیں۔ اس نام سے ان کے کئی افسانے اور مضامین منظر عام پر آئے۔ نذر سجاد نے چھ ناول (۱) حرماں نصیب (۲) اخترالنساء بیگم (۳) آہ مظلومان (۴) نجمہ جاں باز (۵) اور(۶) ثریا ،اردو ادب کو دئیے۔ ان ناولوں میں اعلیٰ متوسط طبقہ کی تہذیب و معاشرت، افکار و اقدار اور مسائل کے ساتھ ساتھ عام عورت کے دھڑکتے ہوئے دل کی دھڑکنیں سنی جا سکتی ہیں۔ جہاں درد و کرب کا غلبہ ہے اور اس درد و کرب کے زیر اثر پڑھنے والے کی آنکھیں بھی نمناک ہوتی ہیں ۔گویا یہ ناول ابتدائی دور میں خواتین کے ذہنی و جذباتی رویوں کی نہ صرف یہ کہ نشاندہی کرتے ہیں بلکہ ان سے تحریک نسواں کے ارتقائی مدارج کو سمجھنے میں مدد بھی ملتی ہے۔
آئندہ دور میںحجاب امتیاز علی کا نام خاصہ معروف رہا ہے ان کے ناول دراصل اردو ناول میں ایک نئے موڑ کا اشاریہ ہیں۔ حجاب امتیاز علی پہلی ناول نگار ہیں جنہوں نے موضوع اور اسلوب دونوں سطح پر خواتین کی صف میں انفرادیت قائم کی ہے۔ گرچہ یہ ناول رومانی ہیں اس کے باوجود تحریک نسواں کی حصہ داری سے اسے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
اے۔آر۔ خاتون کثیر التصانیف ناول نگار کے طور جانی جاتی ہیں تاہم ان کے ناولوں میں سے ’شمع‘ اور’افشاں‘ کو کافی مقبولیت حاصل رہی ہے اور اس مقبولیت کا راز یہ رہا کہ اے۔ آر۔خاتون نے عورت کی پابندیوں پر ایک نئی نگاہ ڈالی اور پردہ میں رہ کر بھی وہ کس قدر آزاد ہیں اس کا احساس دلایا۔ اے۔ آر۔ خاتون کا ناول خصوصاً نوجوان طبقے میں خاصا پسند کیا گیا۔ عمر میں ان سے چھوٹی مگر ہم عصر حمیدہ سلطان مخفیؔ کا بھی اردو کی خاتون ناول نگاروں میں اہم مقام ہے۔ ان کے ناول ’ثروت آرا بیگم‘ اور’رنگ محل‘ کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ سہیل عظیم آبادی نے جو خود ایک قابل ذکر ناول نگار ہیں حمیدہ سلطان کے ناولوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
’’حمیدہ سلطان نے ناول نویسی کے تمام تقاضوں کی طرف سے آنکھیں بند کرکے صرف اس زندگی کی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو ان کی یادوں میں محفوظ ہے جسے وہ بار بار یاد کرتی ہیں اور آج کی میکانکی زندگی سے اس کا مقابلہ کرتی ہیں۔ جو لوگ حمیدہ سلطان کو قریب سے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ اس عہد میں بھی وہ اس عہد کے قصے کس دلچسپی کے ساتھ بیان کرتی ہیں جو انہوں نے بچپن میں دیکھے اورسنے تھے وہ اچھی طرح جانتی ہیں کہ اب وہ زندگی قصّے سے زیادہ کچھ نہیں مگر انہیں یہ قصّے بے حد عزیز ہیں۔ اگر وہ چاہتیں تو ناول کو سمیٹ کر فن کا مظاہرہ کر سکتی تھیں لیکن انہیں یہ پسند نہیں‘‘۔ ۷ ؎
مذکورہ بالا ناولوںمیںفن کی طرف سے قدرے بے نیازی کے باوجود مخصوص طبقہ کی تہذیب و معاشرے اور زبان و بیان کے جو نمونے ملتے ہیں اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔
حمیدہ سلطان کی ہم عصر صالحہ عابد حسین کے کئی ناول منظر عام پر آئے۔ شروع میں تو پریم چند کے اثرات اور روایتی فکر ہی ان کی مرکز نگاہ رہی لیکن بعد میں آنے والے ناول ان کی انفرادیت کی داد دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کے ناولوں میں ’عذرا‘، ’آتشِ خاموش‘،’ قطرے سے گہر ہونے تک‘، ’راہ عمل‘، ’یادوں کے چراغ‘، ’اپنی اپنی صلیب‘، ’الجھی ڈور‘،’ گوری سوئے سیج پر‘ اور ’ساتواں آنگن ‘اہم ہیں۔
صالحہ عابد حسین کے ساتھ ساتھ رضیہ سجاد ظہیر نے بھی لکھنا شروع کیا تھا خواتین کے رسائل میں دونوں ساتھ ساتھ چھپیں۔ خواتین کے رسائل میں ان کے مضامین ایک دوسرے کا جواب ہوا کرتے تھے۔
رضیہ سجاد ظہیرؔ ایک روشن خیال خاتون تھیں انہوں نے کالج میں پڑھا بھی اور پڑھایا بھی وہ اجمیر کے ایک معروف کالج کے پرنسپل رضا حسین کی بیٹی تھیں اور بعد میں ترقی پسند تحریک کے رہنما سجاد ظہیرؔ کی بیوی بنیں۔وہ خود بھی ترقی پسند تحریک میںاگرچہ اپنے شوہر کی طرح فعال نہ بھی رہی ہوں لیکن ان کے ناول ان کی ترقی پسندی اور اصلاح معاشرہ کے جذبے سے بھرپور نظر آتے ہیں۔ رضیہ کے چار ناول ’سرشام‘،’ کانٹے‘،’ سمن ‘اور’ اللہ میگھ دے‘ شائع ہو کر منظر عام پر آئے ان کے ناولوں سے متعلق ڈاکٹر عظیم الشان صدیقی لکھتے ہیں:
’’رضیہ سجاد ظہیر کے ناولوں میں اشتراکی نظریات کی گونج بھی سنائی دیتی ہے اور نئے سماج کی تعمیر و تشکیل کا جذبہ بھی ٹھاٹھیں مارتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان میں آزادی کے بعد ہندوستان کے سیاسی و سماجی حالات اور واقعات پر بامعنی تبصرہ اور تنقید بھی موجود ہے‘‘۔ ۸ ؎
عصمت چغتائی کے ناول’ ضدی‘،’ ٹیڑھی لکیر‘،’ معصومہ‘،’ سودائی‘،’ عجیب آدمی‘،’ دل کی دنیا‘،’ جنگلی کبوتر‘ اور’ قطرہ خون‘ کو موضوع و اسلوب کے لحاظ سے خاصی شہرت حاصل رہی ہے۔ ان کی ناول نگاری سے متعلق ڈاکٹر نیلم فرزانہ لکھتی ہیں کہ :
’’گرچہ عصمت نے کئی ناول اور ناولٹ لکھے لیکن ’ٹیڑھی لکیر ‘ ان کے فن کا نقطۂ عروج ہے۔ ٹیڑھی لکیر کے بعد انہوں نے جو ناول لکھے ان میں کسی تازگی یا ندرت کا احساس نہیں پایا جاتا ۔جو چیز ان ناولوں کو اہمیت بخشتی ہے وہ ان کی مخصوص زبان ہے‘‘۔ ۹؎
یہ ڈاکٹر نیلم فرزانہ کا ذاتی خیال ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ ان ناولوں سے جو مزاحمت کی لے اور احتجاج کی آواز شروع ہوئی اسی نے آگے چل کرناول نگاروں اورخصوصاً خواتین ناول نگاروںکونہ صرف متاثر کیابلکہ اس صاف گوئی ، روشن خیالی اور جرأتِ اظہار کی طرف ان کی رہنمائی کی جس کے نتیجے میں آج بڑی تعداد میں خواتین اس میدان میں سرگرم عمل ہیں۔
قرۃ العین حیدر کا نام اردو ناول کے باب میں اتنا اہم ہے کہ اگر اس نام کو ہٹا لیا جائے تو اردو ناول کا گراف کافی نیچے آجائے گا۔ انہوں نے اردو ناول کو مغربی ادب کے ناولوں کے مدمقابل لا کھڑا کیا۔ ان کے ناول کلاسیکی ادب میں جگہ پانے کے بجا طور پر مستحق ہیں۔ انہوں نے اردو ناول کو نئے تجربات سے آشنائی بخشی۔ قرۃ العین حیدر کے متعدد ناول مثلاً ناول’ میرے بھی صنم خانے‘، ’سفینئہ غم دل‘،’ آگ کا دریا‘، ’کار جہاں دراز ہے‘،’ آخر شب کے ہم سفر‘،’ گردش رنگ چمن ‘اور’ چاندنی بیگم‘ کافی مقبول ہوئے ان کی ناول نگاری سے متعلق ڈاکٹر وہاب اشرفی لکھتے ہیں:
’’قرۃ العین حیدر کے فکشن کی تکنیک کے باب میں کئی طرح کی رائیں سامنے آتی رہی ہیں۔شعور کی رو کے برتاؤ کے سلسلے میں ان پر ورجینا و ولف کے اثرات تلاش کئے جاتے ہیں لیکن ایسے اثرات کی نشاندہی کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ عینی کے کینوس میں وہ شعور کام کر رہا ہے جو بیک وقت اپنے ثقافتی مراکز سے وابستہ بھی ہے اور گلوبل فینومینا کو بھی اسیر کرنا چاہتا ہے لہٰذا مجھے تو بیک وقت ورجینا وولف سے آگے کے لوگ ذہن میں آجاتے ہیں ،مثلاً،پروست جس نے’دی ممبرنس آف دی تھنگس پاسٹ‘ جیسی چیز پیش کی۔ یاد اس پوس جس نے ’’مین ہنٹ ٹرانسفر‘‘ اور دوسرے ناولوں میں امریکی تہذیب کے تضادات کو نشان زدکرنے کی کوشش کی۔ قرۃ العین حیدر کا جس طرح مواد اکہرا نہیں ہے اسی طرح تکنیک بھی اکہری نہیں ہے اور اس کی توضیحات کے لیے مشرق و مغرب کے قدیم و جدید ادغام کو پیش نظر رکھنا پڑے گا تبھی ان کے ناولوں کی تفہیم مواد و تکنیک کے اعتبارسے گرفت میں آسکے گی‘‘۔ ۱۰؎
جیلانی بانو کے ناول’ایوان غزل‘ اور’بارش سنگ‘ میں ایوان غزل کو جو اہمیت حاصل ہوئی وہ بارش سنگ کے حصے میں نہیں آئی۔ صغرامہدی کے ناول ’پابہ جولاں‘، ’دھند‘، ’پرائی‘،’ راگ بھوپالی‘ اور جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو بھی اپنے موضوع اور تنکینک کی وجہ سے اہمیت کے حامل رہے ہیں۔
قابل ذکر ناولوں میں آمنہ ابوالحسن کا ناول ’سیاہ سرخ اور سفید‘، ’عالم پناہ‘ اور’ ایک جہاں اور بھی ہے‘۔ خدیجہ مستور کا’ آنگن‘ اور’زمین‘، جمیلہ ہاشمی کا ’تلاش بہاراں‘،’ روہی ‘،’چہرہ بہ چہرہ روبہ رو‘ اور’ دشت سوس‘، رضیہ فصیح احمد کا ’آبلہ پا‘ اور ’انتظار موسم گل‘، بانو قدسیہ کا ’راجہ گدھ‘ وغیرہ اپنے موضوع اور اسلوب کی اچھی مثال پیش کرتے ہیں۔ اردو ناول نگاری میں خواتین کا قلم رواں دواں ہے اور اس کے ذخیرے میں مزید اضافے کے امکانات روشن ہیں۔
ان ناولوں کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خواتین ناول نگاروں نے نہ صرف یہ کہ معاشرے کے حسن و قبح کو منظر عامپر لایا ہے بلکہ ویسے موضوعات کا انتخاب بھی کیا ہے جن کی طرف دوسرے ناول نگاروں کی نگاہ بمشکل جا سکتی تھی۔ گویا انہوں نے عمومی مسائل کے علاوہ کچھ ایسے مسائل کا احاطہ بھی کیا ہے جن کا تعلق صرف صنف نزک سے ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو ناول کو اعتبار و اعتماد عطا کرنے والی خاتون ناول نگاراچھی خاصی تعدادمیں ہیں جنہیں اردو ناول کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔
ایسی ہی صورتحال کم و بیش اردو افسانے کی بھی رہی ہے۔ ناول تک پہنچنے میں خواتین کو قدرے دیر لگی لیکن اردو افسانے کی تاریخ اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ خواتین افسانے کی طرف جلد رجوع ہوئیں۔
ڈاکٹر نیلم فرزانہ لکھتی ہیں:
’’اردو زبان و ادب میں ناول اور مختصر افسانہ ایسی دو اصناف ہیں جن کے فروغ میں خواتین نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ناول لکھنے میں خواتین نے کافی دیر لگائی لیکن افسانہ لکھنے میں تاخیر نہیں کی۔ صدی کی پہلی دہائی میں مختصر افسانے کا آغاز ہوا اور خواتین نے تیسری دہائی میں باضابطہ افسانے لکھنے شروع کردئیے۔ اس دور کی نسبتاً ٹھہری ہوئی اقداری کائنات میں پندرہ یا بیس سال کا فاصلہ کچھ زیادہ معنی نہیں رکھتا‘‘۔ ۱۱ ؎
لیکن اس سلسلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان خواتین افسانہ نگاروں کے افسانے اس دور کے مقبول رسالوں بالخصوص تہذیب نسواں، عصمت اور نیرنگ خیال میں شائع ہوئے اور آج یہ رسالے نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔
ڈاکٹر نیلم فرزانہ کے مطابق رسالہ ’’عصمت‘‘ ۱۹۲۷۔ء میں خواتین کی افسانہ نگاری کا ابتدائی عکس دیکھا جا سکتا ہے۔ عظمت النساء بیگم کی کہانی ’پاؤں میں زنجیر‘ عصمت اگست ۱۹۲۷۔ء میں شائع ہوئی یہ کہانی دوسری شادی کے خلاف لکھی گئی ہے۔
نذر سجاد حیدر( جن کا ذکراسی باب میں ناول کے تعلق سے بھی کیا گیا ہے )کا افسانہ ’’بی مغلانی‘‘ بھی عصمت کے جولائی ۱۹۲۷۔ء کے شمارے میں موجود ہے۔ اس افسانے کا موضوع بھی دوسری شادی ہی ہے۔ اسی طرح سیدہ فضل فاطمہ بیگم کی کہانی ’فرزانہ بیٹی‘، مسز یوسف الزماں غازی آباد کی کہانی ’سونا‘، رضیہ ناصرہ کی کہانی’سودائے خام‘ کے علاوہ کچھ غیر مسلم خواتین کی کہانیاں بھی ’نیرنگ خیال‘ میں نظر آتی ہیں۔ ایس نصرت رعنا کی کہانی ’احساس جفا‘، رسالہ ’گرہستی‘ ۱۹۳۲۔ء کے’’عورت نمبر‘ کے مشمولات میں شامل ہے جبکہ نذر سجاد کے کئی افسانے نیرنگ خیال کے صفحات کو روشن کئے ہوئے ہیں۔ ان میں’ شہید جفا‘، ’مایوس تمنا ‘اور ’اخترو زہرا‘ خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ ایک دلچسپ امر مگر حقیقت یہ ہے کہ بیشتر خواتین افسانہ نگاروں نے خود کو ان رسالوں تک ہی محدود رکھا جن کی قارئین عورتیں یا لڑکیاںہی گنی جاتی تھیں یا جوان میں ہی مقبول تھے اردو کے مقبول عام جرائد کی طرف ان کا اعتنا کم رہا۔
حجاب امتیاز علی سے لے کر بشریٰ اعجاز تک خواتین افسانہ نگار وں کی ایک لمبی فہرست ہے جس سے علم و ادب کا ہر قاری آشنا ہے کہ حجاب امتیاز علی سے بشریٰ اعجاز تک اردو افسانے میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں اور ہو رہی ہیں۔ عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر، جیلانی بانو وغیرہ کے بعد بشریٰ اعجاز کے افسانے نہ صرف یہ کہ دامن دل کھینچتے ہیں بلکہ موضوع اور اسلوبیاتی سطح پر مرعوب بھی کرتے ہیں۔
اردو فکشن کی طرح اردو کے طنزیہ اور مزاحیہ ادب میں بھی خواتین کا حصہ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ حالانکہ اردو افسانہ اور ناول کی طرح طنزو مزاح میں ان کی شمولیت آغاز سے اکیسویں صدی تک مردوں کے شانہ بہ شانہ تو نہیں رہی لیکن موجودہ صورتحال کے پیش نظر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خواتین نے بھی طنز و مزاح کی طرف اپنی دلچسپی دکھائی ہے پیش رفت کے سلسلے میں شفیقہ فرحت لکھتی ہیں:
’’طنزیہ مزاحیہ ادب یا ہلکے پھلکے انشائیوں کے نمونے خال خال ہی سہی پہلی بار خواتین دکن کے یہاں ملتے ہیں۔ محترمہ آصف جہاں کے مضامین کا مجموعہ ’’گل خنداں‘‘ اس قسم کی پہلی کوشش ہے‘‘۔ ۱۲؎
یہاں یہ اظہار بھی ضروری ہے کہ آصف جہاں فرحت اللہ بیگ کی بھانجی ہیں اور فرحت اللہ بیگ نے ہی گل خنداں کا دیباچہ لکھا ہے۔ اس کتاب میں گھریلو مسائل پیش کئے گئے ہیں۔ جنہیں مضامین کی شکل دی گئی ہے۔ حالانکہ یہ مضامین پورے طور پر اس لائق نہیں کہ انہیں طنزیہ ادب کے دائرے میں رکھا جائے لیکن کسی خاتون کی طرف سے یہ پہلی کوشش ہے اس لئے اس کا ذکر لازمی قرار پاتا ہے۔ دوسری طرف حیدرآباد سے متعلق صالحہ بیگم مخفی، وجیہہ النساء جبیں اور س۔ب۔ سدید بھی لگ بھگ آصف جہاں کے رنگ کی ہی نمائندگی کرتی ہیں۔ شاہین اور قیصری احمد بھی اس عہد میں انشائیہ نگاری کی طرف رجوع ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان کے مضامین تو رسائل و اخبارات میں شائع ہوئے لیکن ان کا دونوں خاتون کے مضامین کا کوئی مجموعہ موجود نہیں اسی دور میں حجاب امتیاز علی، خاتون اکرم، آنسہ محمودہ رضویہ اور وحیدہ نسیم کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔
صالحہ عابد حسین نے بھی ریڈیو کے تعلق سے کئی مضامین لکھے ان میں ’’شماتت ہمسایہ‘‘ کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ محترمہ نے مزاحیہ شاعری بھی کی ہے جس میں طنز کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ایک شعر دیکھئے:
نا مکمل ہے ابھی وردی پولیس کی اے حضور
چوڑیوں کا بھی اضافہ اس میں ہونا چاہیئے
عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر کے یہاں بھی طنز و مزاح کے عناصر بدرجہ اتم موجود ہیں اس سلسلے میں شفیقہ فرحت لکھتی ہیں کہ :
’’افسانے ناول اور ڈراموں میں طنز و مزاح کو انتہائی مؤثر اور خوبصورت انداز میں جگہ دینے والی مصنفاؤں میں پہلا اور اہم نام عصمت چغتائی کا ہے ان کی دنیا بہت وسیع ہے۔ اترپردیش کا متوسط طبقہ وہاں کا مسلم معاشرہ، بمبئی کی کاروباری اور فلمی دنیا، حیدرآباد کا دیمک زدہ جاگیردارانہ نظام،کہیں گھٹن، کہیں خوف، کہیں حریفانہ نفسیات۔ عصمت کی گہرائیوں تک اتر جانے والی نظر بھی۔ حالات اور کردار کو سمجھنے والی عقل اور سڑتے ہوئے زخموں پر نشتر لگانے والی ہمت اور بے باکی۔ ان خصوصیات کی بنا پر ان کا افسانوی ادب طنز و مزاح کا اہم حصہ بن جاتا ہے۔ ان کا شاہکار ناول ٹیڑھی لکیر، اس کی اچھی مثال ہے۔ ناولٹ، معصوم اور بزدل میں بھی یہ رنگ حاوی ہے۔ لا تعداد افسانوں میں بھی طنز کے تیر چلائے ہیں۔ چند اچھے مزاحیہ ڈرامے بھی لکھے ہیں اور خالص طنزیہ مضامین بھی۔ ڈراموں میں ہلچل اور دُلہن کیسی ہے، کو بہت شہرت ملی اور مضامین میں ’’ایک شوہر کی خاطر‘‘ کو عصمت چغتائی اپنی تحریر کو خود بلّی کے بچوں کے کھرونچوں سے تشبیہہ دیا کرتی تھیں۔طنزیہ مزاحیہ رنگ قرۃ العین حیدر کی تحریروں پر بھی حاوی ہے۔ وہ ’میرے بھی صنم خانے‘ کے مغرب زدہ تعلقہ دار خاندان کے لڑکے لڑکیاں ہوں یا آگ کا دریا کا بار بار جنم لینے والا گوتم نیلمبر، کار جہاں دراز ہے، گردش رنگ چمن اور چاندنی بیگم، میں رہنے بسنے والی گھنی دنیا کے کردار کسی کو تو انہوں نے نہیں بخشا کہ بلند ستھرا، نکھرا مزاح ان کے قلم کا خاص وصف ہے‘‘۔ ۱۳؎
عصمت چغتائی اور قرۃ العین کے بعد ڈاکٹر رشید جہاں، سلمیٰ صدیقی، سرور جمال اور شفیقہ فرحت کی تحریروں کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔انہوں نے بلا شبہہ ایسے مضامین لکھے جو انشائیہ کہے جانے کے مستحق ہیں۔ اس ضمن میں سرور جمال کے مجموعے ’مشق ستم‘، اور ’مفت کے مشورے‘ شفیقہ فرحت کے ’لو آج ہم بھی‘، ’رانگ نمبر‘ اور ’گول مال‘ ڈاکٹر حبیب ضیا کا ’بچہ باہر گیا ہے‘ حلیمہ فردوس کا ’’ماشاء اللہ‘‘ اور رشیدہ قاضی کے ’’پرواز‘‘ کو اردو کے طنزیہ و مزاحیہ ادب کا نمائندہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس سلسلے میں ایک اہم نام شمیم علیم کابھی ہے جن کے تخلیقی سفر کا اعتراف کرتے ہوئے ہندستان میں طز و مزاح کے نمائندہ اور باوقار رسالے ’شگوفہ‘ (حیدرآباد)نے اپنایادگار ’’شمیم علیم نمبر‘‘ شائع کیا ۔
اس طرح یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ اردو کے طنزیہ مزاحیہ ادب میں بھی خواتین کا دخل رہا ہے اور پوری دیانت داری کے ساتھ فن کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے سماج میں پھیلی مختلف برائیوں پر ایسا نشتر لگا رہی ہیں جو ظالم نشتر نہیں بلکہ ایک تجربہ کار سرجن کا نشتر ہے، جو آدمی کو موت کے گھاٹ نہیں اتارتا بلکہ اسے نئی زندگی عطا کرتا ہے۔ ادب میں خاتون ادیبوں کے تناسب کے پیش نظر طنز و مزاح میں بھی ان کی نمائندگی کم نہیں ہے۔
جہاں تک اردو شاعری کا تعلق ہے۔ خواہ غزل ہو یا نظم، خواہ مرثیہ ہو یا مثنوی ہر جگہ عورت کا ذکر ملتا ہے۔ لیکن اوائل سے ہی ان ا صناف کی خالق کے طور پر بھی عورت کی نمائندگی جا بجا ملتی ہے۔ عہد ریختی میں کئی نسوانی نام نظر آتے ہیں اگرچہ ان کے پردے میں بیشتر مرد حضرات ہی کی طبع آزمائیاں کارفرما رہی ہیں جیسا کہ شفیقہ فرحت اسے فرضی مانتی ہیں بقول ان کے:
’’اس دور میں مزاح کی ایک اور صنف ریختی، جس کا درجہ اور معیار پست ہے ،ایجاد ہوئی۔ اس میں چند نسوانی نام بھی نظر آتے ہیں مثلاً رشک محل بیگم، نازنین، عنقا بیگم، عصمت وغیرہ لیکن ان کے متعلق توضیحات کہیں نہیں ملیں جس سے اس نظریہ کو تقویت پہنچتی ہے کہ یہ نام فرضی ہیں‘‘۔ ۱۴؎
اگر شفیقہ فرحت کی بات کو سچ مان بھی لیا جائے تو غزلیہ شاعری سے متعلق کئی نسوانی نام منظر عام پر آچکے ہیں۔ جن میں سب سے اہم نام جمیلہ خاتون کا ہے۔ جمیلہ خاتون کے سات دیوان مخطوطہ کی شکل میں بہت دنوں تک خدابخش لائبریری کی زینت رہے لیکن بعد میں انہیں شائع کیا گیا۔ اس کی ترتیب و تدوین کا کام معروف افسانہ نگار و شاعر شفیع مشہدی نے انجام دیا۔ جمیلہ خاتون خدابخش خاں بانی کتب خانہ کی اہلیہ تھیں اور اہل علم اور اہل ہنرتھیں۔ انہوں نے نہ صرف شاعری کی بلکہ موسیقی سے بھی ان کی دلچسپی رہی اور موسیقی کے کئی آلات پر انہیں دسترس تھی۔ جمیلہ خاتون کی شاعری میں عشق و محبت کے ساتھ دیگر مسائل حیات کی عکاسی بھی مل جاتی ہے۔ اس دور کی دیگر شاعرات کے یہاں بھی درد و کرب، حزن وملال، ہجر و وصال اور قنوطیت و رجائیت کا عکس ملتا ہے۔ کوئی نئی اور قابل ذکر بات متقدمین شاعرات کے کلام میں نہیں ملتی۔ ایک روایت کے مطابق پہلی باضابطہ صاحب دیوان شاعرہ کا سہرا مہ لقا بائی چنداؔ کے سر بندھتا ہے جبکہ دوسری صاحب دیوان، شاعرہ شبیہہ بانو شاکرہؔ ہیں۔
بیسویں صدی کی نصف آخر کی اردو شاعری میں کسی خاتون شاعرہ نے اگر انقلاب برپا کیا اور تذکروں میں رہیں تو وہ ہیں کشور ناہید، جنہیں جھانسی کی رانی بھی کہا گیا اور پھولن دیوی بھی، کشور ناہید کا کمال یہ ہے کہ وہ ان طنزکے تیروںسے پریشان نہیں ہوتیں۔انہوں نے اپنا سفر جاری رکھا اور اپنے موقف کی وضاحت کرتی رہیں ۔ آخرکار یہ فکر دوسری شاعرات کا بھی محور و مرکز بنی ان میں فہمیدہ ریاض اور پروین شاکر کے نام اہم ہیں۔
بعد میں آزادیٔ نسواں کی اس تحریک میں شامل ہونے والی شاعرات میں فرخندہ نسرین حیات، عذرا عباس، عزیزہ بانو داراب وفا، ماہ طلعت زاہدی ، سیدہ شان معراج، میمن روحی، شائستہ حبیب، شائستہ یوسف، بشریٰ اعجاز، شہناز نبی، بلقیس ظفیرالحسن، فاطمہ حسن، شاہدہ حسن، اداجعفری اور رفیعہ شبنم عابدی اور روبینہ شبنم وغیرہ کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ ویسے تو فی الوقت اردو شاعری میں جہاں شعراء کرام کی کثیر تعداد موجود ہے وہیں شاعرات کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔لیکن مشاعرے کے توسط سے جانی جانے والی شاعرات کا معیار شاعری انہیں اس حد تک نہیں پہنچنے دیتا جو اردو ادب کا طرۂ امتیاز ہے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے قابل ذکر شاعرات کے غزل کے اشعار اور کچھ شاعرات کی نظموں کے کچھ حصے نقل کئے جائیں تاکہ صحیح صورت حال وضح ہو سکے:
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا ہے
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
(پروین شاکر)
ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی برسرِ الزام ہی آئے
لمحات مسرت ہیں تصور سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے
(ادا جعفری)
حبیب چہروں کو خواب لکھ دے
محبتوں کو سراب لکھ دے
وصال کی ساری منزلوں کو
مسافتوں کا عذات لکھ دے
(صفورہ احمد)
ملا کے مجھ سے نظر تم جدا نہ ہو جانا
پتہ بتا کے مجھے لاپتہ نہ ہو جانا
کھلانا پھول خود اپنی طرف سے گلشن میں
رہین منت بار صبا نہ ہو جانا
(ریحانہ قمر)
جاگتی راتوں کے سارے سلسلے اچھے لگے
آنکھ میں جو جم گئے وہ رت جگے اچھے لگے
لمحہ لمحہ زندگی ہونے لگی عنبر فگاں
اب کے رت میں خوشبو ؤں سے رابطے اچھے لگے
(شاہدہ لطیف)
کوئی مجھ کو مرا بھرپور سراپا لا دے
میرے بازو، مری آنکھیں، مرا چہرہ لادے
کچھ نہیں چاہیئے تجھ سے اے مری عمر رواں
مرا بچپن، مرے جگنو، مری گڑیا لا دے
(نوشی گیلانی)
شہر میں تیری پذیرائی نہ ہونے دوں گی
تو مرا ہے تجھے ہرجائی نہ ہونے دوں گی
یاد آؤں گی تجھے اچھے دنوں کی صورت
میں مکمل تیری تنہائی نہ ہونے دوں گی
(قمر آراء)
الھڑپن کے سپنے سارے اچھے تھے
جو پل ان کے ساتھ گذارے اچھے تھے
عمر بتائی تنہائی کے پالے میں
ہم سے تو پنچھی بنجارے اچھے تھے
(فاخرہ بتول)
آئین وفا اتنا بھی سادہ نہیں ہوتا
ہر بار مسرت کا اعادہ نہیں ہوتا
یہ کیسی صداقت ہے کہ پردوں میں چھپی ہے
اخلاص کا تو کوئی لبادہ نہیں ہوتا
(شبنم شکیل)
اسی طرح نظموں میں شاعرات نے عورت کے حقوق منوانے کی بات کی ہے اور ان کی گفتگو میں اعتماد و یقین کی وہ خوشبو ہے جسے ہم دیرپا کہہ سکتے ہیں۔ عتیق اللہ لکھتے ہیں کہ:
’’جدید شاعرات کے یہاں اس صورتِ حال کا رد عمل تو یکساں ہے مگر اظہار کے پیرایوں اور شدتوں میں امتیاز کی سطحیں مختلف ہیں۔ بعض شاعرات کی آواز بے حد بلند ہے اور انہوں نے پوری قوت کے ساتھ اپنے لحن کوپروازعطاکی ہے‘‘۔ ۱۵؎
آئیے اس تناظر میں کچھ قابل ذکر خواتین کی نظموں پر بھی نظر ڈالیں:
یہ سب رشتے
کچے رنگوں کے کچے دھاگے ہیں
سب پتھر ہیں
ان کے اوپر چلو تو بھی لہولہان
ان کو سہو تو بھی لہولہان
پر اپنے لیے جینا کیوں ممکن نہیں
میری بنّو!
سورج مکھی کی طرح
گھر کے حاکم کی رضا پر
گردن گھماتے گھماتے
میری ریڑھ کی ہڈی چٹخ گئی ہے
(جاروب کش: کشور ناہیدؔ)
یہ لونڈیا ںہیں
کہ یرغمالی، حلال شب بھر رہیں، دم صبح در بدر ہیں
یہ باندیاں ہیں
جناب کے نطفۂ مبارک کے نصف ورثے سے معتبر ہیں
یہ بیبیاں ہیں
کہ زوجگی کا خراج دینے، قطار اندقطار باری کی منتظر ہیں
یہ بچیاں ہیں
کہ جن کے سر پر پھر ا جو حضرت کا دست شفقت
توکم سنی کے لہو سے ریش سپید رنگین ہوگئی ہے
حضور کے حجلہِ معطر میں زندگی خون روگئی ہے
(ایک نظم : فہمیدہ ریاضؔ)
تباہی کے قاصد، مری جاں، میرے سنبرپا
خداوند ابلیس تیرے ارادوں میں برکت کرے
کتاب نحوست سے نکلی ہوئی تیری بدفال کو
حافظ خوش ذہن کی طرح وصف تکمیل دے
دیہہ موعودہ کی ممکنہ دسترس دیکھ
نان و نفقہ کی مجھ کو بھلا فکر کیا
غم کا موضع
اداسی کی تحصیل
تنہائی کا پرگنہ
مری عمر بھر کی کفالت کو کافی رہیں گے
مرے بوم نر،حاجب بارگاہ حماقت
قاضی شہر بہرام کو حکم ہو
صیغہ عقد پڑھ
(ایک معقول نکاح : پروین شاکر)
میں وعدوں کی زنجیرمیں اپنی زندگی کی پہلی
صبح سے بندھی ہوئی ہوں
اس کا سرا کس کے ہاتھ میں ہے
مرے ہاتھ کھول کھول دئیے جائیں
تو میں اس دنیا کی دیواروں کو اپنے خوابوں
کی لکیروں سے سیاہ کردوں
اور آسمان کی چھت گرادوں
قہر کی بارش برساؤں
اور اس دنیا کو اپنی ہتھیلی پر بٹھا کر مسل دوں
(مری زنجیر کھول دی جائے: عذرا عباس)
میں دھڑکن ہوں
اور اپنا سینہ توڑ کے
اس کے دل میں سمانا چاہتی ہوں، جو
میری حدوں سے باہر ہے
میں دھرتی ہوں
بادل کے لئے آغوش کشا
اور دھویں میں چلتی رہتی ہوں
میں پچھلی رات کا سپنا ہوں
اور جاگنے والی آنکھوں سے
ہونے کی گواہی مانگتی ہوں
(میں کون سی رات میں زندہ ہوں: ماہ طلعت زیدی)
دشتِ حالات میں
چشمۂ زندگی کی طلب
میں مسافت کے زخموں سے بے حال ہوں
سوچتی ہوں کدھر جاؤں گی
سوچتی ہوں کہ مرجاؤں گی
کاش کوئی مسیحا ہو، عیسیٰ نفس ہو
جودشت و صحرا میں ابرکرم بن کے برسے
مجھے زندگی دے
مجھے میری پہچان دے
(وہ : میمونہ روحی)
بڑی تیز دھوپ سے چار سو
میرے آقا دشت نصیب میں
کہیں سایہ ہے
نہ ہی سائباں کا گمان ہے
مرے آسمانِ حیات پر
بڑی تیز دھوپ کا راج ہے
کہیں آبلوں کی کہانیاں
کہیں بے یقین مسافتوں کا
مزاج ہے
سر رہگذار جنون اب
وہی سلسلے ہیں حیات کے
وہی صبح، صبح فراق سی
وہی شام، شام ملال سی
وہی دن طویل اذیتوں سے بنا ہوا
وہی دوپہر کسی ان کہی غبار سے ہے
اٹی ہوئی
(بشریٰ اعجاز)
مجھے کمرے کی اس کالی کثافت سے ذرا باہر نکالو
دھوپ میں رکھو
ہو ائے تازہ میں نکلنے دو
شبنم سے نہانے دو
میری رگ رگ میں پنہاں ہے کلوروفل کا سرمایہ
اسے ملنے دو سورج کی سنہری گرم کرنوں سے
نمو آسا ذرا ہونے دو مجھ کو اپنی مٹی میں
کہ میں زندہ رہوں گی تازہ کرنوں کے خزانے سے
ہواؤں سے
مجھے کمرے کی تاریکی سے باہر تو نکالو
(فوٹو سنتھیسس: شہناز نبی)
مندرجہ بالا شاعرات کے علاوہ شائستہ یوسف، شائستہ حبیب، محمودہ غازیہ، فرخندہ نسرین حیات، بلقیس ظفیرالحسن، فاطمہ حسن، شاہدہ حسنؔ، نجمہ شہریار، شفیق فاطمہ شعری، زاہدہ زیدی عرفا نہ عزیز، ساجدہ زیدی کی نظمیں بھی اپنے موضوع اور اسلوب کی وجہ سے اپنی پہچان بنائے ہوئے ہیں۔ ان شاعرات کے یہاں تمام تر بیباکی کے باوجود اپنی روش سے بے گانگی نظر نہیں آتی اور یہ بڑی بات ہے۔
جہاں تک خواتین کی تنقیدی و تحقیقی خدمات کا تعلق ہے تو فی زمانہ اگر یونیورسٹی کی حد تک بات کی جائے تو شاید یہ مردوں سے آگے ہیں عملی طور پر بھی تحقیق و تنقید کا کام انجام دینے والی خواتین تنقید نگار اور محقق کی کمی نہیں ان میں ڈاکٹر شہناز انجم، عابدہ بیگم،مسز ڈی۔ برکت رائے، صفیہ بی حیا، عائشہ بیگم، عقیلہ بیگم، زہرہ بیگم وغیرہ کے نام نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ عثمانیہ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کی طالبات نے بھی تنقید و تحقیق میں کافی نمایاں رول ادا کیا اور ڈھیرے ساے ایسے موضوعات منظر عام پر آئے جو عام قاری کی نظروں سے اوجھل تھے۔ ایسی خواتین محقق اور تنقید نگار میں ڈاکٹر زینت ساجدہ، ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ، ڈاکٹر آمنہ پرویز، سیدہ جعفر ڈاکٹر شمیم نکہت، ڈاکٹر حبیب النساء، پروفیسر ثمینہ شوکت، ڈاکٹر میمونہ ردولوی وغیرہ کے علاوہ دیگر یونیورسٹیوں میں ڈاکٹر عایشہ خاتون، ڈاکٹر نیلم فرزانہ، ڈاکٹر ایس۔کے جبیں، ڈاکٹر ترنم جہاں، ڈاکٹر تسنیم فاطمہ، ڈاکٹر شاہانہ امام، ڈاکٹر شمیم افزا قمر، ڈاکٹر قمر جہاں، ڈاکٹر شیریں زباں خانم اور ڈھیرسارے نام شامل ہیں اگر جنہیںجمع کیاجائے تو ایک ضخیم فہرست تیار ہوجائے۔ خواتین نے ادب اطفال میں بھی اپنی حصہ داری درج کی ہے جوتفصیل کی متقاضی ہے لیکن بیشتر نام وہی ہیں جو افسانے اور ناول کے تعلق سے آچکے ہیں۔
اردو شعر و ادب میں اخبار و رسائل کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی دخل رہا ہے۔ اب تو الیکٹرونک میڈیا کا زیادہ زور ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ خواہ وہ پرنٹ میڈیا کا معاملہ ہو یا الیکٹرونک میڈیا کا خواتین اردو شعر و ادب کی ترویج و اشاعت اور بقا کے لئے مردوں کے شانہ بہ شانہ چلنے کی اہلیت سے متصف ہیں۔
ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ اردو ادب میں عورتوں کے محاورات اور زبان کو اولیت کا درجہ حاصل ہے۔ آپ کسی بھی فکشن کو اٹھائیں اور اس کا بغور مطالعہ کریں خواہ وہ طلسم ہوش ربا ہو یا باغ و بہار یا آج کاکوئی نمائندہ ناول۔ ہر جگہ عورتوں کے محاورات اور زبان کا عمل دخل ملتا ہے اس سلسلے میں سید ضمیر حسن دہلوی لکھتے ہیں:
’’عورتیں اپنے گرد و پیش سے الفاظ چنتی ہیں ان کے یہاں کسی ایک شئے کی جزئیات کو پیش کرنے کے لئے الفاظ کی کمی نہیں ہوئی اسی لئے مردوں کے بجائے عورتوں کی لکھی ہوئی کتابیں زیادہ عام فہم صاف اور شستہ ہوتی ہیں۔ عورتیں لسانی اعتبار سے مردوں سے زیادہ تیز و طرار ہیں وہ سیکھنے کا شوق رکھتی ہیں۔ سننے میں تیز ہیں اور جواب دینے میں قدرت رکھتی ہیں۔ دنیا بھر میں عورتیں باتونی مشہور ہیں ۔مردوں کی طرح الفاظ ٹٹولنے اور تولنے میں دیر نہیں لگتی‘‘۔ ۱۶ ؎
اور شاید یہی وجہ ہے کہ خواتین جب شعر و ادب کا رخ کرتی ہیں تو کہیں مردوں سے آگے نکل جاتی ہیں اور کہیں ساتھ ساتھ چلتی دکھائی دیتی ہیں۔
بحیثیت مجموعی ہم کہہ سکتے ہیں خواتین افسانہ نگاروں، ناول نگاروں، محققوں، تنقید نگاروں اور شاعرات نے اردو شعر و ادب کو نہ صرف یہ کہ مالامال کیا ہے بلکہ اپنی موجودگی کا احساس بھی دلایا ہے۔ اگر قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی اور بشریٰ اعجاز کے نام کو حذف کر دیا جائے تو اس کا اثاثہ کم نہیں تو کم وزن ضرور ہو جائے گا اسی طرح سے شاعری میں پروین شاکر، ادا جعفری، بشریٰ اعجاز اور دیگر اہم شاعرات کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
اس پس منظر اور پیش منظر کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو شعر و ادب کی آبیاری میں خواتین فنکاروں نے بھی اپنا خون جگر صرف کیا ہے اور کر رہی ہیں اور یہ بات کسی بھی فن پارے کے لئے بڑی اہم ہے کہ اس میں خواتین کی شراکت رہے کہ وہ پہلو بھی تشنہ نہ رہے جس کا بہتر اظہار ان کی نمائندگی سے ہی ممکن ہو اور اردو ادب کو یہ نعمت عظمیٰ ابھی حاصل رہی ہے اور ہے۔
حوالے:
۱۔ ڈاکٹر قمررئیس، اُردو ناول کی ہیروئین – ایک جائزہ ، ص: ۳۰
۲۔ ڈاکٹر عظیم الشان صدیقی، اُردو ناول کے فروغ میں خواتین کا حصّہ، ص: ۲۱
۳۔ رشیدۃ النساء ، دیباچہ اصلاح النساء ، ص: ۶
۴۔ علی عباس حسینی، ناول کی تاریخ و تنقید، ص: ۳۰۶
۵۔ ڈاکٹر عظیم الشان صدیقی ، اُ ردو ناول کے فروغ میں خواتین کاحصّہ ، ص: ۲۴۰
۶۔ ایضاً ، ص: ۲۵ ۷۔ سہیل عظیم آبادی ، پیش لفظ’’رنگ محل‘‘
۸۔ ڈاکٹر عظیم الشان صدیقی ، اُ ردو ناول کے فروغ میں خواتین کاحصّہ ، ص: ۳۶۰
۹۔ ڈاکٹر نیلم فرزانہ ، اُردو ادب کی اہم خواتین ناو ل نگار، ص: ۱۲۰
۱۰۔ وہاب اشرفی ، تاریخ ادب اُردو، جلد سوم، ص: ۳۱-۱۲۳۰
۱۱۔ ڈاکٹر نیلم فرازانہ، اُردو افسانے کے فروغ میں خواتین کاحصّہ، ص: ۹۴
۱۲۔ شفیقہ فرحت، اُردو ظنزیہ مزاحیہ ادب میں خواتین کاحصّہ، ص: ۱۲۵
۱۳۔ شفیقہ فرحت، اُردو کے طنزیہ اور مزاحیہ ادب میں خواتین کاحصّہ، ص: ۱۲۲
۱۴۔ ایضاً، ص: ۱۲۴ ۱۵۔ پروفیسرعتیق اللہ ، خواتین کی نظموں میں فکر کے اسالیب، ص: ۶۷
۱۶۔ سید ضمیر حسن دہلوی، اردو ادب میں عورتوں کے محاورے اور زبان، ص:۱۳۵
****
Leave a Reply
Be the First to Comment!