احمد فراز کی نظموں کا ہیئتی مطالعہ

ڈاکٹرمحمد افضل صفی

 شعبہ اردو گورنمنٹ گریجوایٹ کالج، کروڑ لعل عیسن، ضلع لیہ ، پنجاب، پاکستان

0092 301 7842908

mafzal.safi@yahoo.com

Abstract :

 During the 20th century, Under the influence of English ” Blank Verse”ِ Nazm (Poem) got free from observance of ” Radeef and Kafia”(rhyme and meter) In this respect, Tasaddaq Hussain Khalid and Nazar Muhammad Rashid Played an important role. Later on, Mjeed Amjad inroduced new forms / diction after changing the classical ones . After Mjeed Amjad , the poets who expermented in the form of urdu Nazm , Ahmad Faraz is the most important. In this article, I have proffered the Hayyati(forms) study of Ahmad Faraz `s Nazm (Poem).The different Hayyati Tajaribaat (experiments of forms) are

 divided into two parts.

  1. Complicated form experiments II. Simple form experiments.

Besides it, the third form consists in individual Hayyati Tajaribaat (Form experiments). In this article, the prominent trends of Ahmad Faraz`s

leading experiments of Poems have been discussed.

Key Words:  Ahmad Fraz, Poem, Influence,forms

خلاصہ : بیسویں صدی میں انگریزی Blank verse کے زیر اثر اردو نظم ردیف قافیے کی قید سے آزاد ہو گئی ۔اس ضمن میں تصدق حسین خالد اور ن۔ م ۔راشد نے اہم کردار ادا کیا۔ بعد میں مجید امجد نے کلاسیکی ہیئتوں میں تبدیلی کر کے نئی نئی ہیئتیں متعارف کروائیں ۔مجید امجد کے بعد جن شعرا نے اردو نظم میں ہیئتی تجربات کیے ان میں احمد فرا ز کا نام نہایت اہمیت کا حامل ہے احمد فرازکو عام طور پر غزل کے حوالے سے اہمیت دی جاتی ہے جب کہ ان کی نظمیں غزلوں کے برابر ہیں ۔پابند، معریٰ اور آزاد کی تعداد ۲۱۸ ہے ۔ ان کی نظموں کو نظر انداز کرنا سراسر ناانصافی ہے میں نے اس آرٹیکل میں احمد فراز کی نظموں کا ہیئتی مطالعہ پیش کیا ہے ۔احمد فرازنے مختلف ہیئتی تجربات کیے ۔ اس مضمون میں ان تجربات کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔۱۔ پیچیدہ ہیئتی تجربات ۲۔ سادہ ہیئتی تجربات ۔ان کے علاوہ تیسری صورت انفرادی ہیئتوں پر مشتمل نظمیں ہیں ۔جو ہیئتی تجربات کے زمرے میں تو نہیں آتیں لیکن ان کی اہمیت سے صرف ِ نظر نہیں کیا جا سکتا ۔اس آرٹیکل میں ان کے نمائندہ ہیئتی تجربات کے نمایاں رحجانات کو زیر ِ بحث لایا گیا ہے ۔

کلیدی لفظ : احمد فراز ، نظم ، ہیئتی تجربات ،پیچیدہ ہیئیتی تجربات، سادہ تجربات ،انفرادی تجربات۔

ہیئت کیا ہے ؟ ہیئت کے معنی بناوٹ ، ساخت اور شکل وصورت کے ہیں ۔یعنی ہیئت وہ خارجی سانچاہے جس میں فنکار کے خیالات ڈھلتے یا اظہار پاتے ہیں ۔کسی بھی تخلیقی فن پارے کے لیے جہاں مواد کی خاص اہمیت ہوتی ہے وہی ہیئت کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ۔’’ہیئت کے لیے خیال(مواد) بنیادی توانائی کی حیثیت رکھتاہے ۔جب فنکار کے ذہن میں ایک خیال جنم لیتا ہے تو وہ اس کا مئو ثر اظہار چاہتاہے ۔چونکہ خیال ایک غیر مرئی داخلی جذبے کا نام ہے اس لیے اُس کو اپنے اظہار کے لیے کسی مرئی اور خارجی پیکر کی ضرورت ہوتی ہے ۔لہذا فنکار ایک ایسا سانچا تلاش کرتا ہے یا وضع کرتا ہے جو اس مقصد کے لیے استعمال میں لایا جائے ۔ نتیجتاً ہیئت کی تخلیق ہوتی ہے ۔ ‘‘(۱)

 انیسویں صدی کے ربع چہارم سے قبل پابند اُردو نظم کا طوطی بولتا تھا۔ہیئت کے اعتبار سے مثنوی، مثلث، مربع یا پھر مخمس، مسدس اور مثمن کی صورت میں ترکیب بند اور ترجیع بند کی تقسیم غالب رہی۔ کسی بھی نظم میں بحر، وزن اور قافیہ کا التزام ضروری سمجھا جاتا تھا۔ ۱۸۸۴ء میں پہلی بار محمد حسین آزاد نے ’’جغرافیہ طبعی کی پہلی‘‘ میں اردو نظم کو قافیہ و ردیف سے عاری کیا۔ (۲)

 انیسویں صدی کے آخری عشرے میں انگریزی Blank Verse کے تراجم کے طفیل’’بیسویں صدی میں ہمارے شعرا کے اندر قافیے سے چھٹکارا پانے کا رحجان پیدا ہو نے لگا‘‘(۳)، بیسویں صدی کے پہلے ربع میں اُردو نظم قافیہ و ردیف سے چھٹکارا پانے کے ساتھ ساتھ وزن کی قید سے بھی آزاد ہوئی۔ تصدق حسین خالد نے آزاد نظم کی روایت کے فروغ میں اوّلیت کا سہرہ اپنے سر سجا لیا۔ میرا جی اور خاص طور پر ن۔م راشد نے اُردو نظم کو جدّت سے ہم کنار کیا اور جدید افسانوی ادب میں برتی جانے والی تکنیک کو اُردو نظم میں برت کر موضوع کی پیشکش کو جدید خطوط پر استوار کیا۔

 ’’مجید امجد کے ہاں وسعتِ نظری اور کشادگی کا احساس ہوتا ہے ‘‘(۴) مجید امجد نے متقدمین سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ایک طرف اُردو میں نثری نظم کاآغاز کیا تو دوسری طرف مسلمہ کلاسیکی ہیئتوں سے آزاد ہو کر خود سے نئی ہیئتیں متعارف کرانے کا بیڑہ اٹھایا۔ کلاسیکی ہیئتوں میں ہر بند میں مصرعوں کی تعداد بدلنے سے ہیئت بدل جاتی تھی۔ بحر اور وزن میں تبدیلی لانا ممکن نہ تھا۔ مجید امجد نے ایک ہی بند میں ایک سے زائد وزن اور ایک سے زائد قوافی برت کر اُردو نظم کو ایک نیا آہنگ دیا۔ مجید امجد کے اِن تجربات کو اُن کے معاصر نوجوان شعرا نے قابلِ تقلید سمجھا او رہر ایک نے آزاد رہتے ہوئے کچھ نہ کچھ پابندیوں کی پاس داری کی اور نئی نئی ہیئتیں متعارف کروائیں۔

            مجید امجد کے بعد احمد فراز کو بھی ہم اُن شعرا میں شمار کر سکتے ہیں جنھوں نے اُردو نظم میں ہیئت کے تجربات کیے۔ ہیئت کے تجربات کے تناظر میں، جب احمد فراز کی نظموں کو دیکھا جائے تو واضح طور پر دو طرح کے تجربات سامنے آتے ہیں۔ اوّل ایسی نظمیں ہیں جن میں ایک سے زائد بند ہیں۔ ہر بند میں ایک سے زائد اوزان ہیں اور قوافی بھی ایک سے زائد ہیں۔ اسے ہم پیچیدہ تجربات کہہ سکتے ہیں۔ دوم وہ نظمیں ہیں جن میں مسلمہ کلاسیکی ہیئتوں کو اس طرح برتا گیا ہے کہ ایک ہی نظم میں ایک سے زائد ہیئتیں استعمال میں لائی گئی ہیں البتہ مصرعوں کو چھوٹا بڑا کرنے کا تجربہ نہیں کیا گیا، اسے ہم سادہ تجربہ کہہ سکتے ہیں۔

            ایک تیسری صورت بھی موجود ہے، جِسے ہم تجربہ تو نہیں کہہ سکتے البتہ انفرادی سطح پر نظموں میں ہیئتی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

            پیچیدہ تجربات زیادہ تر احمد فراز کی اوّلین کتاب ’’تنہا تنہا‘‘میں نظر آتے ہیں جو ۱۹۵۸ء میں شائع ہوئی۔ یہ وہ عہد ہے جس میں مجید امجد کے ہیئتی تجربات اپنا رنگ دکھا رہے تھے۔ اِس عہد کے ہیئتی تجربات ہر لحاظ سے مکمل اور بھرپور ہیں جن کا بعد والی نظموں میں تسلسل نہیں ملتا۔ باوجود اس کے کہ یہ تجربات ہر حوالے سے مکمل ہیں، بعد میں اِن تجربات کا ترک کر دینا یا اِن کی رفتار کا دھیما پڑ جانا اس بات کا غماز ہے کہ اُن کا شعری وفور خود ساختہ پابندیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ ہیئتوں کے اوّلین قسم کے تجربات کی حامل نظمیں نسبتا مختصر ہیں جب کہ تجربات سے عاری اور کلاسیکی ہیئتوں کے ادغام پر مبنی ہیئتوں کے تجربات کی حامل نظمیں طویل تر ہیں۔

            پہلے پیچیدہ ہیئتی تجربات پر بات کرتے ہیں :

۱۔ پیچیدہ ہیئتی تجربات

            بھول:     احمد فراز کے اوّلین مجموعہ ’’تنہا تنہا‘‘ کی ساتویں نظم ’’بھول‘‘ میں اولین ہیئتی تجربہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس نظم میں کل تین بند ہیں۔ ہر بند میں پانچ مصرعے، دو وزن اور دو قافیے ہیں۔ پانچ مصرعوں کے بند میں پہلا اور چوتھا مصرع ہم وزن (آٹھ ارکان پر مشتمل) ہے۔ دوسرے، تیسرے اور پانچویں مصرع کا وزن ایک (چار ارکان پر مشتمل) ہے جہاں تک قوافی کا تعلق ہے۔ پہلا، چوتھا اور پانچواں مصرع ہم قافیہ ہیں اور دوسرا اور تیسرا ہم قافیہ ہیں۔اہم بات یہ کہ تینوں بندوں میں پہلے، چوتھے اور پانچویں مصرعے کو ہم قافیہ رکھا گیا ہے البتہ دوسرے اور تیسرے مصرعے کا قافیہ تینوں بندوں میں مختلف ہے۔

افق پر دھندلکے، شفق میں الاؤ، گھٹاؤں میں شعلے، چمن میں ببول

بہاروں پہ صر صر کے گھمبیر سائے

نظاروں کے دامن میں نکہت بسائے

دلوں پر اُداسی، دماغوں میں الجھن خیالوں میں تلخی نگاہیں ملول

ہر اک سمت ویرانیوں کا نزول (۵)

 فرار:     نظم فرار ایک کامیاب ترین ہیئتی تجربہ ہے۔ اگر فراز اس تجربے کو ساتھ لے کر چلتے تو اس میں طویل تر نظمیں کہے جانی کی گنجائش موجود تھی۔ نظم ’’فرار‘‘ میں سولہ مصرعے اور بظاہر تین بند ہیں۔ ظاہر ہے سولہ مصرعوں کو تین بندوں میں تقسیم کرنا ممکن نہیں مگر فراز نے کمال مہارت کے ساتھ پوری نظم کو تین ٹکڑوں میں تقسیم بھی کیا ہے اور تقسیم کے باوجود یک جان بھی کیا ہے۔ اس نظم میں بحرِ ہزج مخبون کے تین اوزان برتے گئے ہیں:

۱۔         مفاعلن    مفاعلن    مفاعلن    مفاعلن

۲۔         مفاعلن    مفاعلن    مفاعلن

۳۔         مفاعلن    مفاعلن

سولہ مصرعوں میں اوزن کی ترتیب کچھ یوں ہے۔ چار، تین، دو۔ دو ، تین، چار۔ تین دو، دو۔ تین چار ، تین ۔دو، دو ،تین، چار۔

            گویا پہلا ،پانچواں، گیارھواں اور سولھواں مصرع چار رکنی ہے۔ یہ چاروں مصرعے ہم قافیہ ہیں اور الگ الگ لکھنے پر مربع کی صورت اختیار کر کے بھرپور معنویت کا اظہار کرتے ہیں۔

            ہر دو چار رکنی مصرعوں کے بیچ چار مصرعے ہیں جن میں پہلا اور چوتھا تین رکنی اور ہم قافیہ ہے جبکہ دوسرا اور تیسرا دو رکنی اور ہم قافیہ ہے۔ یوں چھے مصرعے تین رکنی اور چھے مصرعے دو رکنی ہیں۔ چاہے تین رکنی مصرعوں کو نظم سے الگ کر کے پڑھا جائے یا دو رکنی کو الگ کر لیا جائے۔ چار رکنی مصرعوں کی طرح یہ نظم سے الگ ہو کر اپنی معنویت برقرا ررکھتے ہیں اور جب یہ تینوں آزاد اکائیاں شاعر کی دی گئی ترتیب کے مطابق باہم مل کر ایک نظم کی صورت اختیار کر لیتی ہیں اور بادی النظر میں انہی میں انھیں الگ الگ کر کے پڑھنا ممکن نظر نہیں آتا:

کئی ایاغ دل میں آنسوؤں کے بیج بو گئے

شراب لالہ گوں کے عکس عکس میں

جہانِ رنگ و بو لیے

فریب آرزو دیے

گھنیری آندھیوں کے رقص رقص میں

کئی چراغ ظلمتوں کی وادیوں میں کھو گئے(۶)

احتساب:  نظم ’’احتساب‘‘ میں کیا گیا ہیئتی تجربہ اپنی نوعیت کا منفرد تجربہ ہے۔ بظاہر اٹھارہ مصرعوں کی اِس نظم میں اوّل تا آخر دو، دو ہم وزن چار رکنی مصرعے ہیں۔ بیچ میں چار چار، باہم ہم وزن مصرعوں پر مشتمل دو ٹکڑے ہیں اور دونوں ٹکڑوں سے ماقبل و مابعد اور بیچ میں دو دو باہم وزن چھوٹے مصرعے ہیں۔ شروع اور آخر میں آنے والے دو دو بڑے مصرعے باہم، ہم قافیہ نہیں ہیں لیکن چار مصرعوں والے ٹکڑوں میں پہلا چوتھا مصرع ہم قافیہ اور دوسرا، تیسرا مصرع ہم قافیہ ہیں۔

            نظم کی حقیقی بنت، مذکورہ بالا ظاہری بنت سے مختلف ہے۔ کل مصرعے اٹھارہ ہیں اور نظم تین ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ اگر ایک ایک ٹکڑے کو الگ الگ دیکھیں تو پہلا مصرع چھٹے کے ساتھ دوسرا پانچویں کے ساتھ اور تیسرا چوتھے کے ساتھ ہم قافیہ ہے۔ اگراِن ہم قافیہ مصرعوں کو الگ الگ شعر کی صورت میں لکھیں تو کسی بھی غزل کے مطلع کا سا لطف دیتے ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، تینوں ٹکڑوں میں سے پہلا اور چھٹا مصرع جن کا قافیہ ایک ہے۔ اگر چھے مصرعے الگ کر لیے جائیں تو نہ صرف ہم قافیہ ہوں گے بلکہ معنوی طور پر بھی اکائی کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔

            یہی صورت پانچویں اور چھٹے مصرعے کی ہے کہ یہ بھی چھے مصرعے الگ کر کے لکھے جانے پر معنوی طور پر مکمل بند کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ البتہ تینوں ٹکڑوں میں آنے والے چھوٹے مصرعے الگ کیے جائیں تو مثنوی کے رنگ میں سامنے آئیں گے اور اپنی معنویت کا اظہار کریں گے:

سوچ مفلوج ہے حالات کے زندانوں میں

عقل پر تلخ حوادث کے گراں تالے ہیں

آگہی سردو خموش

منجمد شعلۂ ہوش (۷)

واہمہ:     نظم ’’واہمہ‘‘ میں ایک سے زائد وزن برتنے کا تجربہ تو نہیں کیا گیا، البتہ مصرعوں اور قوافی کی تکرار اس نظم کو منفرد بناتی ہے۔ اس نظم میں تین بند اور ہر بند میں نو مصرعے ہیں۔ ہر بند کے آغاز میں دو مصرعے:

تو ہر اک بات پہ ہنس دیتی ہے

اور میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں (۸)

تکرار کے ساتھ ہیں۔ ہر تیسرے مصرع میں ایک لفظ کا تغیر ہے:

ع: یہ تیری سادہ و ……… ہنسی

پہلے بند میں ’’ہنسی‘‘ کو سادہ و معصوم، دوسرے بند میں سادہ و بیباک اور تیسرے بند میں سادہ و پرکار کہا گیا ہے۔ معصومیت سے بے باکی اور بے باکی سے پرکاری کا سفر واہمے سے حقیقت کا سفر ہے۔

            تینوں بندوں میں چوتھے نمبر پر آنے والے تینوں مصرعے ہم قافیہ بھی ہیں اور الگ سے لکھے جائیں تو معنوی وحدت کے حامل بھی ہیں۔ مزید براں نظم کے تینوں بندوں کے مابین فنی و معنوی جڑت پیدا کر کے نامیاتی کل بنانے کی خاطر تینوں بندوں میں پانچویں ساتویں اور نویں مصرعے میں ایک ہی قافیہ برتا گیا ہے۔

 اے بھوکی مخلوق: اس نظم کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر حصے میں تین تین مصرعوں پر مشتمل دو دو ٹکڑے اور ایک ٹیپ کا مصرع ہے۔ ہر بند کے پہلے تین مصرعے ہم وزن اور ہم قافیہ ہیں۔ تین مصرعوں میں پہلے دو مصرعے ہم قافیہ ہیں جب کہ تیسرا مصرع ٹیپ کے مصرعے کے ساتھ ہم قافیہ ہے۔

یاد رہے کہ ہر بند کے دونوں ٹکڑے ہم وزن ہیں جب کہ ٹیپ کا مصرع ’’ائے بھوکی مخلوق‘‘ مختصر بھی ہے اور نظم کا عنوان بھی:

آج تری آزادی کی ہے ساتویں سالگرہ

چار طرف جگمگ جگمگ کرتی ہے شہرپنہ

پھر بھی تیری روح بجھی ہے اور تقدیر سیہ

پھر بھی ہیں پاؤں میں زنجیریں ہاتھوں میں کشکول

کل بھی تجھ کو حکم تھا آزادی کے بول نہ بول

آج بھی تیرے سینے پر ہے غیروں کی بندوق

 اے بھوکی مخلوق(۹)

سیلاب: اس نظم میں ایک ہی وزن کے چھے اشعار کی ترتیب کچھ اس طرح سے موجود ہے کہ ہر دو اشعار کے درمیان تین تین ہم وزن مصرعوں پر مشتمل ایک ایسا ٹکڑا موجود ہے جس کے ہر مصرع کا وزن مذکورہ اشعار کے ہر مصرع سے کم ہے۔ یہ بھی کہ چھے کے چھے اشعار کا دوسرا مصرع ’’ناچو گاؤ جشن مناؤ آیا ہے سیلاب‘‘ ٹیپ کا مصرع ہے اور مصرع اولیٰ کا ہم قافیہ ہے۔ بیچ میں آنے والے تین مصرعوں کے ٹکڑے میں قافیہ کا التزام کچھ اس طرح کیا گیا ہے کہ پہلا اور تیسرا مصرع ہم قافیہ ہیں:

پھر تم ہاتھوں کو پھیلاؤ آیا ہے سیلاب

ناچو گاؤ جشن مناؤ آیا ہے سیلاب

قدرت کے سب کھیل نیارے

اس میں کسی کو دخل نہیں

جس کو ڈبوئے جن کو ابھارے

چھوڑو ناؤ خوف نہ کھاؤ دور نہیں گرداب

ناچو گاؤ جشن مناؤ آیا ہے سیلاب        (۱۰)

تشنگی:   یہ نظم تین بندوں پر مشتمل ہے۔ ہر بند مسدس کی ہیئت میں ہے۔ قوافی کا التزام کچھ اس طرح کیا گیا ہے کہ ہر بند کے پہلے چار مصرعوں میں سے پہلا، تیسرا اور دوسرا، چوتھا مصرع باہم ہم قافیہ ہیں۔

            ہر بند میں چھٹا مصرع ٹیپ کا مصرع ہے جو کہ ہر بند کے پانچویں مصرعے کے ہم قافیہ ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس نظم میں وزن کا خفیف سا فرق ہے یعنی ہر بند کے پہلے چار مصرعوں میں آخری دو مصرعوں کے مقابل آدھا رکن زائد ہے۔

سلگا سلگا موسم ہے شعلوں کی دہکتی حِدّت سے

چڑھتے سورج کے سائے میں ساری دنیا جلتی ہے

دہک دہک اُٹھی ہیں سڑکیں تپتی دھوپ کی شدت سے

ابھی نہ جاؤ دیکھو کتنی تیزی سے لُو چلتی ہے

اس کو بھی اک جبرِ مشیّت سمجھو اور سہہ جاؤ

اور ذرا کچھ لمحے ٹھہرو اور ذرا رہ جاؤ (۱۱)

’’تنہا تنہا‘‘ کے بعد والی نظموں میں یہ ہیئتی تجربات خال خال ملتے ہیں۔ ’’خواب گل پریشاں ہے‘‘ سے ایک نظم دیکھیے:

بھلی سی ایک شکل تھی : یہ نظم دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں چار چار مصرعوں پر محیط سات بند اور ایک شعر ہے۔ دوسرے حصے میں چار چار مصرعوں پر محیط دس بند ہیں۔ چار چار مصرعوں پر محیط ہر بند میں قافیہ کا التزام قطعہ کی صورت میں کیا گیا ہے یعنی ہر بیت کا مصرع ثانی ہم قافیہ ہے۔ اِس نظم کے پہلے حصے میں ہیئت کا تجربہ موجود ہے۔ پہلے حصے کے بند کے بعد اور دوسرے بند سے پہلے ایک ہیئت کا اہتمام کیا گیا ہے۔ جن کا وزن ہر بند کے چار مصرعوں کے برابر ہے یعنی ہر بند میں مفاعلن آٹھ بار استعمال ہوا ہے۔ ہر مصرع میں دوبار ہے جب کہ اس ہیئت کے دو مصرعوں میں آٹھ بار استعمال ہوا ہے، پہلا بند ملاحظہ ہو:

بھلے دنوں کی بات ہے

بھلی سی ایک شکل تھی

نہ یہ کہ حسنِ تام ہو

نہ دیکھنے میں عام سی

نہ یہ کہ وہ چلے تو کہکشاں سی رہگذر لگے

مگر وہ ساتھ ہو تو پھر بھلا بھلا سفر لگے(۱۲)

اے عشق جنوں پیشہ (۱۳)    یہ نظم کل پانچ بندوں پر مشتمل ہے۔ پہلے تین بند دس دس مصرعوں پر اور آخری دو بند بارہ بارہ مصرعوں پر مشتمل ہیں۔ ہر بند کا آخری مصرع باہم ہم قافیہ ہے۔ ہر بندکے آخری شعر سے پہلے کے تمام اشعار کے مصرع ہائے ثانی ہم قافیہ ہیں۔

            الغرض احمد فراز کی نظموں میں پیچیدہ ہیئت کے عمدہ تجربات ملتے ہیں لیکن یہ تجربات زیادہ تر ان کے اوّلین دور تک محدود ہیں۔ بعد کی شاعری میں خال خال مثالیں ملتی ہیں۔ اس سے ہم بخوبی اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد نظم کا جو منظر نامہ ہمارے سامنے آیا، وہ متنوع ہیئتی تجربات کا شاخسانہ تھا۔ اِس عہد کی نظم نے احمد فراز کی نظم پر بھی مثبت اثرات مرتب کیے۔ بعد والی نظموں میں سادہ ہیئتی تجربات زیادہ ہیں تاہم کہیں کہیں پے چیدہ ہیئتی تجربات کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔

            اب سادہ ہیئتی تجربات پر بات کرتے ہیں:

۲۔ سادہ ہیئتی تجربات: احمد فراز کے پہلے شعری مجموعہ ’’تنہا تنہا‘‘ کی نظموں کے بعد والی کتب میں زیادہ تر سادہ ہیئتی تجربات موجود ہیں تاہم سادہ ہیئتی تجربات کا اعلان بھی اُن کی اوّلین کتاب ہی سے ہو جاتا ہے۔

            ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ عام طو رپر احمد فراز کے ہاں سادہ ہیئتی تجربات قطعہ، مسدس یا قطعہ مربع کی صورت میں ملتے ہیں۔ قطعہ سے مراد ہر بند کے دونوں یا تینوں مصرع ہائے ثانی ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ پھر قطعہ مسدس کی جو صورت سامنے آتی ہے، وہ یوں ہے کہ مصرعے تو ہر بند میں چھ ہوتے ہیں لیکن روایتی مسدس کی طرح نہیں ہوتے۔

(۱) قطعہ مسدس کی مثالیں

شاعر:     نظم ’’شاعر‘‘ میں مجموعی طور پر نو بند ہیں۔ ہر بند میں چھے مصرعے ہیں لیکن ہم اس نظم کو روائتی مسدس نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہر بند میں قوافی کا التزام روایتی انداز میں نہیں کیا گیا بلکہ قطعہ کی طرز پر ہے یعنی ہر بند کے تینوں اشعار کے مصرع ہائے ثانی ہم قافیہ ہیں:

جس آگ سے جل اُٹھا ہے جی آج اچانک

پہلے بھی مِرے سینے میں بیدار ہوئی تھی

جس کرب کی شدت سے مِری روح ہے بے کل

پہلے بھی مِرے ذہن سے دوچار ہوئی تھی

جس سوچ سے میں آج لہو تھوک رہا ہوں

پہلے بھی مِرے حق میں یہ تلوار ہوئی تھی(۱۴)

’’ناتمام مسافتیں ‘‘:   یہ نظم چار بندوں پر مشتمل ہے۔ ہر بند چھے مصرعوں پر محیط ہے۔ یہ نظم بھی روایتی مسدس کے زمرے میں نہیں آتی کیونکہ اس کے ہر بند میں قوافی کا التزام قطعہ کی طرز پر ہے:

دیکھو ذرا ادھر کہ چلے تھے جہاں سے ہم

کچھ پھول کچھ چراغ ابھی واہموں میں ہیں

بے اعتمادیوں کا دھوا ں بھی سہی مگر

کچھ گیت بھی تو شہر کی خاموشیوں میں ہیں

اک سو گوار شام ِ خزاں بھی سہی مگر

بکھر ے ہوئے گلاب ابھی راستوں میں ہیں (۱۵)

یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں : اس نظم میں سات بند ہیں او رہر بند چھے چھے مصرعوں پر مشتمل ہے۔ ہر بندکے تینوں اشعار کے مصرع ہائے ثانی ہم قافیہ ہیں:

یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں

تمام تیری حکایتیں ہیں

یہ تذکرے تیرے لطف کے ہیں

یہ شعر تیری شکایتیں ہیں

میں سب تری نذر کر رہا ہوں

یہ اُن زمانوں کی ساعتیں ہیں (۱۶)

            الغرض قطعہ مسدس کی صورت میں درج ذیل نظمیں ہیں:

            ایبٹ آباد، زیرِ لب، فنکاروں کے نام، ممدوح، افریشیائی ادیبوں کے نام،مسیحا، عید گاہ، اے مِری ارضِ وطن، بانوکے نام ، اے مِرے وطن کے خوشنواؤ، نامۂ جاناں اور خوابوں کے بیوپاری وغیرہ۔

(۲) قطعہ مربع کی مثالیں:

مسند ِ پیر مغاں :اِس نظم میں دو دو اشعار پر مشتمل تین بند ہیں اور ہر بند میں موجود دونوں شعروں کے مصرع ہائے ثانی ہم قافیہ ہیں:

اڑا کے باد ِ صبا لے گئی ہے شہر کا شہر

نہ بام و در رہے باقی نہ جسم و جاں میرے

کسے کسے میں پکاروں کسے کسے روئوں

تڑپ رہے ہیں شناسا کہاں کہاں میرے(۱۷)

وفا پرست صلیبیں : اس نظم میں پانچ بند ہیں، ہر بند میں دو اشعار ہیں۔ دونوں اشعار کے مصرع ہائے ثانی ہم قافیہ ہیں:

وہ دن بھی یاد ہیں مجھ کو کہ جب مری دنیا

کہاں کے جسم ، کہ سایوں کو بھی ترستی تھی

پھرا ہوں کوچہ بہ کوچہ متاعِ درد لیے

                                     اگرچہ خلق مری سادگی پہ ہنستی تھی (۱۸)

 قطعہ مربّع کی صورت میں مزیددرج ذیل نظمیں موجود ہیں۔

            مجسمہ، پیمر مشرق، ملکیت، لختئی، نوحہ گر چپ ہیں، معذرت ،مراسلہ، اب کس کا جشن مناتے ہو، جو سزا ہم کو ملے، تو بہتر ہے یہی ، منسوبہ سے، یہ پرچم جاں، جلاد، شہرِ آشوب، ناسپاس، سرحدیں، مجھ سے پہلے، اتنے چپ کیوں ہو، بہروت، ہوا سو ہوا، شہر نامہ، معبود، کر گئے کوچ کہاں، اے میرے سارے لوگو،طلسم ِ ہوش ربا ، آتشِ غم، ابوجہاد، ہیچ ہائیکر، غنیم سے، اب وہ کہتے ہیں، بنگلا دیش، وہ تری طرح کوئی تھی وغیرہ۔

            اسی طرح قطعہ مثمن اور قطعہ مثلث کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ مثلاً شہدائے جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کے نام قطعہ مثمن کی صورت میں ہے اور نظم ’’میں اور تو‘ اور ’’المیہ‘‘ وغیرہ مثلث کی صورتیں ہیں اور اِسی طرح ’’نیند‘‘ مخمس کی مثال ہے۔

۳۔ انفرادی ہیئت پر مشتمل نظمیں:       احمد فراز کی شاعری میں کچھ ایسی نظمیں بھی ہیں جنھیں ہم کسی تجربے کے زمرے میں شامل نہیں کر سکتے کیونکہ ان میں ترتیب دیے گئے بندوں میں مصرعوں کی تعداد کسی باقاعدگی کی قید میں نہیں یعنی جب جب اور جہاں جہاں قوافی کا التزام مناسب سمجھا گیا، کر دیا گیا۔ اس زمرے میں درج ذیل نظمیں آتی ہیں:

            آگ میں پھول، مشورہ، تسلسل، اظہار، ہمدرد خواب، اے نگارِ گل، گم شدہ شمعوں کا ماتم نہ کرو، تریاق، زندگی اے زندگی، خوشبو کا سفر،… ان دیکھے دیاروں کے سفیر، کون سا نام تجھے دوں، تخلیق، گئی رُت، فصلِ رائیگاں، سلامتی کونسل، نہیں ہے یوں، خواب جھوٹے خواب، آئینہ، لہو لہان مسیجا، اگر یہ سب کچھ نہیں، اے مِرے یارِ قدح ریز، خٹک ناچ، مت قتل کرو آوازوں کو، محاصرہ، طاہرہ کے لیے ایک نظم، آئی بینک، اے مِرے یار کی قاتل، لب گویا، جلاوطنی، بن باس کی اک شام، پردیس میں جاتے سال کی آخری شب، تجھے کیا خبر کہ جاناں وغیرہ۔

            احمد فراز نے اوّلین دور میں نظم کی ہیئت کے نہایت عمدہ تجربے کیے ہیں، اگر وہ اِن تجربوں کو جاری رکھتے تو کمال نظمیں سامنے آتیں۔ احمد فراز بہت جلد سادہ ہیئتی تجربوں کی طرف پلٹ گئے جس سے طویل نظمیں بھی سامنے آئیں البتہ انفرادی سطح پر جو الگ الگ ہیئتیں استعمال کی گئیں، وہ احمد فراز کی نظموں میں بہت اہم مقام رکھتی ہیں۔

حوالہ جات

۱۔ارشد محمود ناشاد ، ڈاکٹر : اردوغزل کا تکنیکی ہیئتی اور عروضی سفر ،ص۳۱۔

۲۔ حنیف کیفی ، ڈاکٹر : اردومیں نظم معریٰ اور آزاد (ابتدا سے ۱۹۴۷ء تک ) ، ص ۲۶۵

۳۔ رفیع الدین ہاشمی: اصناف ادب ،ص ۱۰۰       ۴۔ وزیر آغا، ڈاکٹر : نظم جدید کی کروٹیں ، ادارہ ادبی دنیا، لاہور،س،ن، ص ۱۹۔

۵۔احمدفراز : تنہا،تنہا: اسلام آباد،دوست پبلی کیشنز،۲۰۱۵ء، ص ۲۷

۶۔ایضا ً   ص ۳۰                           ۷۔ایضاً     ص ۳۹

۸۔ایضا ً ص۱۸۲                            ۹۔ ایضاً   ص ۸۷

۱۰۔ایضا ً             ص ۱۵۶                         ۱۱۔ ایضا ً            ص ۵۵

۱۲۔احمد فراز :خواب گل پریشاں ہے، ص ۴۹     ۱۳۔ایضا ً :اے عشق جنوں پیشہ، ص ۱۰

۱۴۔ایضاً : تنہا،تنہا، ص ۱۱               ۱۵۔ایضا ً :نابینا شہر میں آئینہ، ص ۷۶

۱۶۔ایضاً:جاناں جاناں، ص ۰۹                        ۱۷۔ایضاً :پس انداز موسم ، ص ۹۲

۱۸۔ایضا ً :نایافت، ص ۱۳٭٭٭٭

دیپک بُدکی بحیثیت افسانہ نگار

 مشتاق احمد بٹ

 لیکچرر اردو ،گورنمٹ ڈگری کالج ،پونی

mushtaqabdullah2018@gmail.com

 دیپک بُدکی کا شمار ریاست جموں و کشمیر کے ممتاز افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے ۔ان کے افسانوں کا کینواس بہت وسیع ہے اور بہت دور تک پھیلا ہوا ہے ۔انہوں نہ صرف کشمیر بلکہ ملک کے ملک کے دیگر حصوں کے مسائل کو اپنے افسانوں میں نہایت ہی سلیقے سے برتا ہے ۔وہ اپنی محنت شاقہ کی بدولت ایسے کردار ہمارے سامنے لاتے ہیں جن کا تعلق ہر شعبہ اور ہر طبقہ سے ہوتا ہے۔ ان کے افسانے آشنائی کا پتہ دیتے ہیں ۔اپنے افسانوں میں موجودہ درد وکرب کی عکاسی رنگا رنگ الفاظ کے ذریعے کرتے ہوئے ماحول کو پر کش بنانے کی کوشش کرتے ہے ۔دیپک کمار بُدکی نام لیکن ادبی دنیا میںانہیں دیپک بدکی کے نام سے ہی جانا اور پہچانا جاتا ہے ۔آپ کی پیدایش ۱۹۵۰ ؁ء میں سرینگر (کشمیر) میں ہوئی۔ دیپک بدکی کا اصل میدان افسانہ ہے ۔اردو اور ہندی ،دونوں زبانوں میں وہ گذشتہ چالیس برس سے افسانے لکھ رہے ہیں ۔اب تک ان کے چھیانوے افسانے اور ایک سو چار افسانچے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں ۔ان کے افسانوی مجموعوں کے نا م باالترتیب اسطرح ہے۔ ادھورے چہرے ،چنار کے نیچے، زیبرا کراسنگ پر کھڑا آدمی ،ریزہ ریزہ حیات ،روح کا کرباور مٹھی بھر ریت شامل ہیں ۔ان کی افسانہ نگاری پر بلراج کومل اپنے خیالات کا اظہار یوں کرتے ہیں :

’’ آپ کے افسانے گہرے مشاہدے اور انسانی رشتوں کو سمجھنے کے عمل میں کامیاب تخلیقی ترسیل کی منزل تک پہنچتے ہیں ۔آپ کے یہاں تجسیم کا عمل نہایت ملائمت سے تکمیل سے سرفراز ہوا ہیں ‘‘ ۔ ؎۱

 ہند پاک کے ممتاز افسانہ نگاروں کی فہرست میں دیپک بُدکی کا نام بھی شامل ہے ۔ان کے افسانے فنی اعتبار سے مربوط ہے ،سادہ زبان اور اپنے بیانیہ کی وجہ سے اپنے اندر بڑی اپیل رکھتے ہیں۔ان کے افسانوں میں ایک عجیب وغریب بات یہ بھی ہے کہ ان کے یہاں ایک قسم کا چرخہ کار گر نظر آتا ہے۔دیپک بدکی نے ابتدا ء ہی سے مختلف رنگوں کے تار و پود سے اپنے افسانے کی بنت تیار کرتے ہیں اور افسانے سے متعلق اپنی اختراع کی ہوئی ہنر کو برمحل استعمال میں لاتے ہوئے موضوع کے عین مطابق الفاظ کا انتخاب کرکے اسے نگینے کی طرح جڑ دیتے ہیں ۔اس اہم صلاحیت کی وساطت سے ہی یہ افسانے قاری کو اپنے طرف مضبوطی سے کھینچے رکھتا ہے ۔پلاٹ کو دیپک بدکی اپنے گرفت میں لے کر اس قدر چھانٹتے پھٹکتے ہیں کہ کہ سارے عیوب خسک و خاشاک کی مانند الگ ہوجاتے ہیں ۔جس کی بدولت ان کے افسانے ریزہ ریزہ ہو کر بکھرنے سے محفوط رہ جاتے ہے اور پھر ایک نئی مربوط شکل اختیار کرکے آہستہ آہستہ اعتماد کی سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہوئے پایہ تکمیل کی منزلوں تک پہنچ کر اپنی کامیابی درج کرتے ہیں ۔ان کی افسانہ نگاری کے حوالے سے ڈاکٹر خان حفیظ ؔ یوں رقمطراز ہیں :

’’دیپک بدکی اپنے افسانوی کردار وں کو جاذبِ نظر بنانے کے لیے ابتداء ہی سے انہیں ہنر مند اور جفا کش بنانے کی جدو جہد میں لگ جاتے ہیں ۔جب وہ ایسے کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو پھر مکالموں کے آبشار کی دھاراؤںکو پکڑ کر بلندی پر چڑھانے کا غیر ممکن عمل کرتے ہیں ۔اپنی پوشیدہ فن کاریوں سے کرتب بازیاں دکھانے کے لیے راضی کرکے انہیں وہاں سے چھلانگ لگوادیتے ہیں ۔یہ دیکھ کر قاری جہاں حیرت زدہ ہوکر سوز وگداز سے ہم آہنگ ہوکر مضمحل ہوجاتا ہے ٹھیک اسی وقت دیپک بدکی اپنے بہترین جملوں سے انہیں فرط وانبساط سے غسل دے کر پھر سے تر وتازہ کردیتے ہیں ۔زبان کی سلاست اور جملوں کی ساخت پر خاص توجہ دینے کے باعث ان کی تحریروں میں برجستگی اور روانی کے ساتھ جاذبیت اور دلکشی در آتی ہے ۔اس طلسم سے قاری سحر زدہ ہو کر ایک ایک لفظ پر غور خوض کرتا ہوا دلجمعی سے ان افسانوں اور مضامین کو ایک نشت میں پڑھ کر لطف اندوز ہوتا ہوادیپک بدکی کے اندرونی کرب کو محسوس کرتا ہوا حقیقت کے قریب پہنچ جات ہے ‘‘۔ ؎۲

 دیپک بدکی نے اپنے افسانوں میں جہاں سیاسی ،سماجی برائیوں اور فرقہ واریت ،غریب عوام کی کمپرسی، استحصال، وغیرہ مسائل پر احتجاج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔وہیں عورتوںکی نفسیات اور ان پر ہورہے استحصالی حملوں کو باریک بینی سے مطالعہ کرنے کے بعد قرطاس ابیض پر نہایت ہی سلیقے سے اتار دینے کے فن میں واقف ہیں ۔ان کی افسانہ نگاری پر محمد منصور الحق نے بھیاپنے خیالات کا اظہارکچھ اسطرح کیا ہیں:

 ’’کبھی ان کا فن بالیدہ ہوکر اظہار کے بلند گوشوں تک پہنچ جاتا تو کبھی معصومیت کی اس نہض کی جانب مڑ جاتا ہے جہاں سے وہ اپنی کہانی کے سفر کا آغاز کرتے ہیں ۔وہ لسانی اظہار سے کم فکری بنیادوں سے زیادہ مضمحل اور منتشر نظر آتے ہیں ۔لہذا ان کی زبان و بیان کا معیار ان کے افسانوں میں ہر لمحہ روشن نظر آتا ہے مگر فکری دھاروں میں عجیب سا الٹ پھیر دکھائی دیتا ہے ۔بدکی کا فن الجھن اور اس کے سلجھنے کے درمیان کی داستان ہے، اس لئے اردو کے ان افسانہ نگاروں کی صف میں رکھنا چائیے جن کے تئین کا مسئلہ بڑی مشکل سے طئے ہو پاتا ہے‘‘۔ ؎۳

  دیپک بدکی گونا گوں شخصیت کے مالک ہیں ۔افسانہ نگاری کے علاوہ بدکی ادبی تخلیقات کی پرکھ کا شعور بھی رکھتے ہیں۔ ان کے اندر تخلیقی صلاحیت بھی موجود ہے ۔اس لیے ہم عصر ادیبوں، شاعروں اور افسانہ نگاروں کی تخلیقات پر اپنے تاثرات بھی قلمبند کرتے رہے ۔ تحقیق و تنقید اور تبصرہ میں اب تک ان کی دو کتابیں منظر عام پر آچکی ہے ۔’عصری تحریریں‘‘ ، عصری شعور ‘ ان دو کتابوں کی بدولت انہوں نے تنقیدی شعبے میں بھی اپنی شنا خت قائم کی ۔’عصری تحریریں ‘اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے ۔اس کتاب کو ساتھ ابواب پر منقسم کیا گیا ہے ۔کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر فرید ؔ پربتی نے لکھا ہے۔ ان مضامین کے مطالع سے بُدکی کی تنقیدی بصیرت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر سیفی سرونجی لکھتے ہیں:

’’سچائی تو یہ ہے کہ دیپک بُدکی نے ان تمام مضامین کو اپنی تنقیدی صلاحیتوں اور گہرے مطالعہ کی بنا پر اتنا اہم اور پراثر بنا دیا ہے کہ قاری نے اگر کتاب نہیں بھی پڑھی ہے تو زدیپک بدکی کے مضامین پڑھ کر نہ صرف اس سے ساری معلومات ہوجوتی ہیں بلکہ کتاب پڑھنے کی جستجو پیدا ہوجاتی ہے ۔۔۔اردو میں ایک اچھے افسانہ نگار دیپک بدکی سے تو ہم آشنا تھے ہی ایک اچھے نقاد کا بھی استقبال ہے۔‘‘ ؎۴

 مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہے کہ دیپک بدکی کی کہانیاں ہندوستان ،پاکستان اور یورپ کے اردو اخباروں اور رسالوں میں آج بھی شائع ہوتی رہتی ہیں ۔اردو ادب کی خدمت کے لیے یہ شخص تن و من مصروف ہے ۔ماہنامہ شاعر بمبی،ٔ سہ ماہی انتساب سرونج ،سہہ ماہی تحریک ادب اور سہ ماہی اسباق پونے نے ان کی شخصیت اور فن پر خصوصی گوشے شائع کیے۔ نامور ادیبوں و ناقدوں نے ان کے فن کو وقتاً فوقتاً سراہا ہے ۔ان کی شخصیت اور فن پر بے شمار مضامین شائع ہوچکے ہے اور آج بھی ہو رہے ہیں ۔

حواشی

۱۔ انتساب رسالہ مدیر ڈاکٹر سیفی سرونجی ۴۹

۲۔ ورق ورق آئینہ۔دیپک بدکی شخصیت اور فن مرتبہ ،ڈاکٹر فریدؔ پربتی ،شہاب عنایت ملک مخدومی پرنٹررس سرینگر ۹۲

۳۔ رسالہ تحریک ادب مدیر جاوید انور خصوصی شمارہ نومبر ۲۰۱۷؁ء ۲۰۱

۴۔ ورق ورق آئینہ۔دیپک بدکی شخصیت اور فن مرتبہ ،ڈاکٹر فریدؔ پربتی ،شہاب عنایت ملک مخدومی پرنٹررس سرینگر ۲۰۸

****

Leave a Reply

1 Comment on "احمد فراز کی نظموں کا ہیئتی مطالعہ"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
بلال انجم
Guest
صفی صاحب کا مضمون نہایت اعلی اور تکنیکی اعتبار سے بہت شاندار ہے ۔
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.