تقابلی مطالعہ:معنی اور اہمیت

ڈاکٹر سید مسرت گیلانی

اسسٹنٹ پروفیسر:جی۔ڈی۔سی بارہمولہ ، کشمیر

تقابلی مطالعہ سے مراد دویا چند فنکاروں کی تخلیقات کاموازنہ ہے۔مختلف زبانوں کی ادبی تاریخوں کے مطالعہ سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ فنی نمونوں اور تخلیقات کا باہمی موازنہ و مقابلہ اور مطالعہ ہر دور میں موجود تھا۔شاہد پرویز تقابلی مطالعہ کی وضاحت یوں کرتے ہیں:

’’تقابلی مطالعہ دو یا دو سے زیادہ فن کا روں‘ فن پاروں کا تجزیاتی مطالعہ ہوتاہے جس سے ادب‘ فن پاروں او رفنکاروں کے مراتب کے تعین‘ ان کی خصوصیات کو نمایاں کرنے اور ان کے اثرات کی نشاندہی کرنے میں قابل لحاظ مدد ملتی ہے لیکن یہ مطالعہ تعین قدر سے گریز کرتاہے‘‘ ۱؎

شاہد پرویز کے متذکرہ اقتباس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تقابلی مطالعہ بھی بنیادی طور ایک انداز نقد ہی ہے ۔ البتہ یہ آسان نہیں بلکہ انتہائی سخت اورکٹھن کام ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک طرف بعض ناقدین تقابلی مطالعے کو سب سے مؤثر اوربہتر تنقیدی مطالعہ قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف کچھ اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں۔سید احتشام حسین اپنی کتاب’’ تنقید اورعملی تنقید‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’…….تقابلی مطالعے ہمیشہ ناقص ہوتے ہیں لیکن تقابلی مطالعے میں تمام عناصر کو پیش نظر رکھنا تقریباً نا ممکن ہے او راگر ایک یا کئی پہلو نظر انداز ہوجاتے ہیں تو نتائج بالکل غلط ہوسکتے ہیں ‘‘ ۲؎

            اگرچہ سید احتشام حسین کی اس رائے سے انکار آسان نہیں تاہم یہ کُلی حقیقت بھی نہیں۔تقابلی مطالعہ اورموازنہ بھی تنقید کاہی ایک شعبہ ہے۔ اس لیے موازنے اورتقابلی مطالعے کے بھی بالعموم وہی کچھ قواعد و ضوابط اور شرائط ہیں جوتنقید کے ہیں البتہ ادب میں باہمی تقابل او رموازنے کی جو ناقص مثالیں ملتی ہیں‘ اس کا اصل سبب تنقید کے مسلمہ اصولوں سے انحراف او رذاتی پسند و ناپسند او رذاتی ترجیجات کا غلبہ پاناہے یا اپنے پسندیدہ ادیب او ر فنکار کودوسرے پر فوقیت دلانے کی خواہش کا حاوی ہوناہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اصول موازنہ کے بھی منافی ہے اور تنقیدی طریقۂ کار سے بھی کھلا انحراف ہے ۔اردو میں اس کی مثال شبلی نعمانی کا ’’موازنہ انیس ؔو دبیر‘‘ؔ ہے جس میں انیسؔ کی برتری اورتفوق ثابت کرنے کے لیے مرزا دبیرؔ کے کمزور ترین کلام کا انتخاب کیاگیاہے۔ اس موازنہ سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ علامہ شبلی نعمانی انیسؔ کے زبردست مداح ہیں او رمدح سرائی میںصرف انیسؔ کی فوقیت فکر و نظر پر چھائی ہوئی ہے۔

 محمد ابراہیم موازنہ او راس کے طریقۂ کار پرروشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ادباء کی ایک کثیر تعداد کے متعلق مشاہدے میں آیا ہے کہ وہ شعراء کیفوقیت او ر فضیلت میں جلد بازی سے کام لے کر فیصلہ کر بیٹھتے ہیں۔ایسا کرنا اصول موازنہ کے قطعاً منافی ہے ۔ایک اچھے ادیب کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے فیصلے کی بنیاد شاعر کی چند منتخب غزلیات یا منظومات کی بجائے اس کے مجموعی کلام پر رکھے۔ بعض اوقات موازنہ کرنے والا دوسروں کی آراء پر اعتماد کرکے فیصلہ دے دیتا ہے۔یہ بھی ٹھیک نہیں۔ کبھی کبھی ادیب فنکار کی شخصیت سے متاثر ہوکر رائے قائم کرنے میں پیش دستی کرتاہے۔ یہ بھی اصول موازنہ کے منافی ہے۔‘‘ ۳؎

تقابلی مطالعہ ہو یا موازنہ غیرجانبدارانہ رویہ لازمی ہے۔اگر ذاتی میلانات‘ رجحانات اور خواہشات سے مبرا ہوکر تقابلی مطالعہ اور تجزیہ نہ کیاجائے تو جو بھی رائے قائم کی جائے اور جو نتائج بھی اخذ کیے جائیں‘ وہ بہر حال یک طرفہ اور جانبدارانہ ہوں گے او راس سے تقابل اور موازنہ کافن او راس کی روح مجروح ہوگی۔

 ادبی مطالعات اور تنقیدی قدر شناسی میں تقابلی مطالعہ اورموازنہ کوئی نئی چیز نہیں۔ عالمی ادب میں اس کی ایک مضبوط او رمستحکم رو ایت موجود ہے ۔چنانچہ مختلف زبانوں کی ادبی تاریخوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات آئینہ ہوجاتی ہے کہ ناقدین شعر وادب کی تفہیم‘ توضیح‘ توجیہ اور شرح و بسط کے لیے جہاں مختلف تنقیدی نظریات اور تناظرات سے کام لیتے رہے وہیں انہوں نے ادباء‘شعراء او رفن پاروں کی پرکھ اورمعیارات وامتیازات کے تعین کے لیے موازنہ اور تقابل سے بھی کا م لیاہے۔ بہ نظر غائر دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتاہے کہ تقابلی مطالعہ اورموازنہ تنقیدات سے ہی مختص نہیں بلکہ تخلیقی ادب میں بھی یہ زیریں رو کی طرح متحرک اور موجزن نظر آتاہے۔

اس لیے یہ کہنا بے جانہیں ہوگا کہ موازنہ اور تقابل تخلیق وتنقید کے سائے میںعرصۂ دراز سے پلتا رہا ہے اسی طرح جس طرح انسان کے ساتھ بعض ایسی خصوصیات پرورش پاتی ہیں جن کی طرف بادی النظر میںتوجہ کم ہوتی ہے۔تقابلی مطالعہ او رموازنہ نہ صرف ادبی نمونوں کی تخلیق کے ساتھ ہمیشہ چپکا او رچمٹا ہوا نظر آتاہے بلکہ یہ انسانی ذہن‘ شعور اور فکر و نظرکے اندر اس قدر سمایا اورگھلا ہوا ہے کہ ادب‘ سائنس ‘ سماجی علوم‘ اقتصادیات‘عمرانیات اور فلسفہ میں ہر جگہ اس کی کار فرمائی اور کار گزاری نظر آتی ہے۔جب تک موازنہ اور تقابل سے کام نہ لیا جائے فکر‘ خیال‘ جذبہ اور احساس کی وضاحت و صراحت میںکچھ کمی سی محسوس ہوتی ہے ۔بات آدھی ادھوری معلوم ہوتی ہے اور جب فکر وخیال اور جذبہ واحساس میںموازنے کاعنصر داخل ہوتاہے تو بات فرش سے عر ش تک اورانفس و آفاق تک پھیلتی نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادب میں بھی موازنہ اور تقابلی مطالعہ ہمیشہ سے انداز نقد اورتخلیق ادب کے ہم رکاب نظر آتا ہے۔موازنہ کے رکاب میں پاؤں رکھے بغیر نقاد اسپِ فکر کو زیادہ دور تک دوڑانے سے قاصر نظر آتاہے۔ یہ رخشِ عمر کی طرح بے سمت ا ور بے قابو روکی طرح نہیں بلکہ یہاں بہر صورت ہاتھ باگ پر اورپاؤں رکاب میںہوتے ہیں۔رکاب کی جتنی بھی صورتیں اور نوعیتیں ہیں‘ ان میں موازنہ بھی ایک اہم صورت ہے۔ پھر یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ تنقیدی تناظر یاتنقیدی رکاب چاہے نفسیاتی ہو‘ عمرانی ہو‘ مارکسی ہو‘ اسلوبیاتی یا جمالیاتی ہو یا تمام تر لسانی نوعیت کاہو‘ موازنہ ہر جگہ سر اٹھائے دکھائی دیتاہے۔

موازنہ او رتقابلی مطالعہ کی روایت خاصی پرانی ہے ۔اگر یہ کہا جائے کہ موازنہ انسانیسر شت‘ طبیعت‘مزاج ا ور شعور و آگہی کا جُز و لاینفک ہے تو غلط نہیں۔ انسانی علم و ہنر اورفکر ودانش نے جو نئی نئی جولاں گاہیں دریافت کیں‘فکر ونظر کے اَن دیکھے اورانجانے جزیروں تک رسائی حاصل کی ‘ سخت وسنگلاخ اور اونچی چوٹیوں پر کمندیں ڈالدیں تو اس علمی وفکری ہم جوئی میں جو چیزاس کی زیادہ ممدومعاون رہی وہ یہی موازنہ کی قوت و صلاحیت ہے ۔یہ کہنا بھی بے محل نہیں ہوگا کہ حیات وکائنات کے اندر حُسن و قبح اور خوب وناخوب کااحساس و ادراک بھی بڑی حدتک موازنہ سے ہی ممکن ہوا۔ہم جب اجالوں کی بات کرتے ہیں‘اُجالوں کی تصویر کھینچ لیتے ہیں‘ اجالوں کو دلفریب ودلکش بناکر پیش کرتے ہیں تو یہ تبھی مؤثر اوردیر پا نقش قائم کرتاہے جب ہم اس کاموازنہ رات او راس کی سیاہی اور تاریکی کے ساتھ کرتے ہیں۔ شبِ تیرہ و تارذہن میں نہ ہو تو اجالوں کی شناخت‘ پہچان اوران کی قدر وقیمت کااحساس کیسے ہوسکتا ؟ دن او ررات کاموازنہ ہو یا موسموں او ربدلتی رُتوں کا ‘سرعت کے ساتھ بدلتی حالتوں یا کیفیتوں کا‘ ان کاایک دوسرے کے ساتھ موازنہ کرنے سے ہی ہم موسموں‘ رُتوں‘ حالتوں او ر کیفیتوں کو شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں اورمحسوس بنادیتے ہیں۔ ہم جب موازنہ کرتے ہیں تو صرف دو مختلف اشیاء اور ان کی ہیئت و ساخت ہی سامنے نہیںہوتی بلکہ ان کے خواص اوران کا جوہر بھی نگاہ میںہوتاہے۔دواشیاء یا دو اجسام بظاہر یکساں صورت اورہیئت کے ہوتے ہیں لیکن ان کے اندر چھُپے خواص اور جوہر میں زمین و آسمان کافرق ہوتاہے۔موازنہ کے وقت ہماری نگاہ میںدونوں چیزیں ہوتی ہیں مثلاً انسانوں کے ناک ونقشہ‘ خدوخال‘ قد و قامت میں بظاہر کوئی بڑا تفاوت نظر نہیں آتا بلکہ انسانی جسم کی ساخت تو ایک جیسی ہے لیکن اسی ایک ساخت اور صورت کے اندر ہزار صورتیں‘ طبیعتیں اورمزاج چھپے ہوتے ہیں۔ افتاد طبع مختلف ہوتی ہے‘ رویے مختلف ہوتے ہیں‘ دیکھنے اور محسوس کرنے کے زاویے الگ الگ ہوتے ہیں‘ نقطۂ نگاہ جدا جدا ہوتاہے اور جب ہم ان کاموازنہ کرتے ہیں تو صاف ظاہر ہوتاہے کہ ہر پیکر خاکی کے اندر ایک الگ جہاں آباد ہے ۔ہر جا جہانِ دیگر معلوم ہوتاہے او ریہ سارا عمل میر تقی میر کے اس شعر کی تفسیر محسوس ہوتاہے ؎

سرسری جہاں سے گزرے تم

ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا

جہانِ دیگر کی دریافت اور بازیافت میںموازنہ کی قوت سب سے زیادہ کار آمد ثابت ہوتی ہے۔ کُتے کس نے نہیںدیکھے۔ الگ الگ رنگوں کے ہونے کے باوجود ہیئت اور ساخت میں ایک جیسے لیکن یہی کُتے جب پطرس بخاری کی تحریر میں درآتے ہیں‘موضوع سخن بنتے ہیں تو کتنے مختلف ہوجاتے ہیں۔اب ان کا بھونکنا‘ ان کی ہڑ بونگ‘شوروغل ایک لمحہ کے لیے نہ کھٹکتا ہے اور نہ ہی وجہ ‘ بے زاری او رباعثِ آزار بنتا ہے بلکہ ان کا مسلسل بھونکنا او رہڑ بونگ مچانا نہ صرف گوارا بلکہ خوشگوار محسوس ہوتاہے۔یہ کبھی طرحی مشاعرے کاسماں باندھتے ہیں اورکبھی دیسی اور بدیسی صورت اختیار کرتے ہیں۔ کبھی قوم پرستی کامظاہرہ بھی کرتے ہیں:

’’پھر ہم دیسی لوگوں کے کُتے بھی کچھ عجیب‘ بدتمیز واقع ہوئے ہیں۔ اکثر توان میںایسے قوم پرست ہیں کہ پتلون او رکوٹ کو دیکھ کر ہی بھونکنے لگ جاتے ہیں……‘‘ ۴؎

 ’’خدانے ہر قوم میںنیک افراد بھی پیدا کیے ہیں۔ کُتے اس کُلیے سے مستثنیٰ نہیں۔آ پ نے خدا ترس کُتا ضرور دیکھا ہوگا۔عموماً جسم پر تپسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔جب چلتاہے تو اس کی مسکینی اور عجزسے گویا بارِ گناہ کااحساس آنکھ نہیںاٹھانے دیتا۔دُم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی رہتی ہے ۔سڑک کے بیچوں بیچ غور و فکر کے لیے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بند کرلیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں جیسی اور شجرہ دیو جانس کلبی سے ملتاہے……‘‘ ۵؎

پطرس کی تحریر’’کتے‘‘ میں جو مزاحیہ صورت حال پیدا ہوتی ہے وہ اسی موازنہ کی زائیدہ ہے۔ پطرس موازنہ کے توسط سے ہی بھر پور مزاح ابھارنے میںکامیاب ہوتے ہیں۔ رشید احمد صدیقی کاانشائیہ’’ارہر کاکھیت‘‘ میدان جنگ سے لے کر پارلیمنٹ کاسماں باندھتا ہے او ریہ سب موازنے کار ہینِ منت ہے ۔اس کا پہلا اقتباس ہی موازنے سے ایک ایسی فضا پیدا کرتاہے کہ ’’ارہر کا کھیت‘‘ صرف کھیت نہیں رہتا بلکہ پھیل کر سیاسی‘معاشرتی اور تمدنی زندگی پر محیط نظر آنے لگتا ہے۔اقتباسات ملاحظہ کیجئے:

’’دیہات میں ’’ارہر کے کھیت‘‘ کو وہی اہمیت حاصل ہے جو ہائیڈ پارک کولندن میں ہے۔ دیہات اور دیہاتیوں کے سارے منصبی فرائض‘ فطری حوائج اور دوسرے حوادث یہیں پیش آتے ہیں۔ہائیڈ پارک کی خوش فعلیاں آرٹ یا اس کی عریانیوں پر ختم ہوجاتی ہیں ۔ارہر کے کھیت کی خوش فعلیاں اکثر واٹر لوپر تمام ہوتی ہیں……‘‘ ۶؎

’’یہ دیہاتیوں کی اسمبلی ہے جہاں عورتوں او ربچوں کو گاؤں کی انتظامی حکومت میںاتنا ہی دخل ہوتاہے جتنا ہندوستانیوں کو اسمبلی یا کونسل میں۔ دونوں بولتے ہیں‘ ضد کرتے ہیں‘جھگڑتے ہیں‘ روتے بسورتے ہیںاور اپنے اپنے گھر کا راستہ لیتے ہیں۔دیہاتی عورتیں اوربچے کچھ مفید کام کر جاتے ہیں جن سے ان کو اور کھیت دونوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ ارکانِ حکومت وہ کرتے ہیں جس سے وہ خودفائدہ اٹھاتے ہیں۔ دوسرے نقصان……‘‘ ۷؎

موازنہ کی یہ فضا’’ارہر کے کھیت‘‘ پر ابتداء سے آخر تک تنی رہتی ہے او رموازنہ کو ایک آلہ اور Toolکی طرح استعمال کرکے رشید احمد صدیقی مفہوم و معنی کی پرتیں کھولنے کے علاوہ مزاح کی پھلجڑی کا دلکش سماں باندھ لیتے ہیں۔

            تمام شعری و نثری اصناف میںموازنہ کی کارفرمائی بھر پور انداز میں نظر آتی ہے۔ سوداؔ کا قصیدہ’’تضحیک روزگار‘‘ ہو یا ان کے بیشتر قصائد کی تشبیب‘ ہر جگہ موازنہ سر اٹھائے دکھائی دیتاہے۔جعفر زٹلی کی ہزل گوئی اور ہجونگاری ہویا نظیرؔ اکبر آبادی کے یہاں آدمی‘ انسان اورفطرت کے مرقعے ہوں‘اکبر الہ آبادی کی طنزیہ شاعری ہو یا دلاور فگار کی ‘ ہر ایک کے یہاں موازنہ ایک آلہ اور Toolکے رنگ میں نظر آتاہے۔اسی طرح ناول‘افسانہ ‘انشائیہ‘ خاکہ تمام اصناف میںصورت حال یا کردار کو شدت تاثر کے ساتھ ابھارنے میں موازنہ کی قوت و صلاحیت بے حد مدد گار ثابت ہوتی ہے۔غرض شعر وادب سے اس طرح کی سینکڑوں مثالیں دی جاسکتی ہیں حتیٰ کہ شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے حکیمانہ اور بلیغ کلام سے بھی اس کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ یہاں چند ایک مثالوں کا ذکر ضمنی طور پرآیا تاکہ موازنے کی قوت او راثر پذیری کی وضاحت ہو۔ شعر وادب کے علاوہ پوری انسانی فکر اس بات پر دال ہے کہ خیال کا خیال کے ساتھ ‘ تصورات کا تصورات کے ساتھ او رآئیڈیالوجی کا آئیڈیا لوجی کے ساتھ موازنے سے نئے خیالات‘ تصورات اور نئی آئیڈیالو جی کی نمود کی راہیں ہموار اورروشن ہوتی رہیں۔چیزوں کے خو اص کو جانچنے‘ پرکھنے اور موازنہ کرنے سے انسانی علم وہنر میںبھی بے پناہ اضافہ ہوا۔ ادب بھی انسان کی ذہنی وفکری سرگرمی کاایک بڑا مظہر ہے۔اس لیے ادب بھی موازنے کی اس قوت او رخاصیت سے الگ تھلگ اوربے نیاز کیسے رہ سکتا۔ فکر و فن اور شعر وادب میں بھی اس کی بھر پور اثر اندازی ملتی ہے۔

تقابلی ادب اور تقابلی مطالعے کے حوالے سے اس بات کو ہرگز نظر انداز نہیںکیاجاسکتا کہ کیا تقابلی ادب او رتقابلی مطالعہ ایک ہی چیز ہے؟ تقابلی مطالعہ تقابلی ادب کا جُز ضرورہے‘ کُل نہیں ۔تقابلی ادب کے ماہرین کی آگے چل کر جو آراء پیش کی جائیں گی ان سے یہ بات عیاںہوجاتی ہے کہ ان دونوں میں کچھ مماثلت بھی ہے اورمغائرت بھی۔ تقابلی مطالعے او رموازنے کی روایت خاصی پرانی ہے جب کہ تقابلی ادب (Comparative Literature) عصرِ حاضر کی دین ہے۔چنانچہ تقابلی ادب کے بنیاد گزاروں او رماہرین نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ ادب کا مطالعہ ہی’’تقابلی ادب‘‘ نہیںکہلا تا بلکہ بہت سے ادبیات کو ادبی تناظر کے علاوہ دیگر علوم و فنون کے وسیع تر تناظرات میں تجزیہ کرناہے۔ یہ بین اللسانی او ر بین التہذیبی مطالعہ ہے اور یہ مطالعہ سماج‘ سیاست‘مذہب‘ فلسفہ‘ تاریخ‘ زبان وبیان‘ روایات او راعتقادات پر محیط ہے جب کہ تقابلی مطالعہ میں عموماً ایک ہی زبان کے دو فنکاروں یا فن پاروں کا موازنہ او رمقابلہ کیا جاتاہے۔تقابلی ادب نے انیسویں صدی میں ایک مستقل اور باضابطہ اندازِ نقد کی حیثیت حاصل کرلی ۔ڈاکٹر حیات افتخار اپنے مجموعہ مضامین’’ تقابلی ادبی مطالعہ‘‘ میں تقابلی ادب کی تعریف وتشریح پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’تقابلی ادبی مطالعہ سے مراد دوزبانوں کے ادبیات کا تقابلی مطالعہ ہے یا مخصوص حالات میں دومختلف ملکوں کی ایک ہی زبان کے ادب کامطالعہ بھی ہوسکتا ہے۔یہ مطالعہ بیک وقت ادب کے تمام پہلوؤں کا بھی احاطہ کرسکتا ہے ۔کسی مخصوص صنف کا فنی لحاظ سے تقابل بھی ممکن ہے یا کسی مخصوص تحریک‘ رجحان یاافکار کے اثرات کاتقابلی جائزہ بھی لیاجاسکتاہے۔ چنانچہ کسی دویادوسے زیادہ زبانوں کے ادبیات کے علاوہ ایک ہی زبان کے مختلف یا مماثل افکار کے حامل ادیبوں کی تخلیقات کا مطالعہ بھی ممکن ہوسکتا ہے لیکن عالمی سطح پر تقابلی ادب کے نام سے تحقیق کا جو شعبہ وجودمیں آیاہے ا س میں عام طو رپر دو مختلف زبانوں کے ادبیات کے مشترکہ اوراختلافی پہلوؤں کو موضوع بنایا جاتا ہے‘‘ ۔ ۸؎

تقابلی ادب نے عالمی ادب میں انیسویں صدی میںاپنی اہمیت وافادیت کااحساس دلایا۔ ڈاکٹر یوسف عامر’’ تقابلی ادب‘‘(Comparative Literature)کی توجیہ و توضیح پیش کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’ جدید اردو اور جدید عربی شاعری کا تقابلی مطالعہ‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:

’’تقابلی ادب ‘ ادب کی ایک شاخ ہے اور ادب کی تاریخ میںاپنی ایک جداگانہ حیثیت رکھتی ہے۔تقابلی ادب میں ادبی رجحانات اورمیلانات کے موازنے کی بنیاد پر دویا اس سے زیادہ ادبی روایتوں کا تجزیہ کیاجاتاہے۔مثال کے طور پر فرانسیسی او رامریکی ادبی دبستانوں میں تقابلی ادب کے تصورات یکساں نہیں ہیں۔ فرانسیسی دبستان کے مطابق تقابلی ادب علم کی ایک ایسی شاخ ہے جس میں کسی دوسری زبان کے تراجم کاجائزہ لیا جاتاہے۔اس کے علاوہ کسی قوم یا کسی ایک ادیب پر دوسری قوم یا کسی دوسرے ادیب کے اثرات کامطالعہ بھی کیا جاتاہے لیکن امریکی دبستان کے مطابق تقابلی ادب کاتصور اپنے آپ میں اس سے زیادہ وسعت رکھتا ہے۔ امریکی علمائے ادب تقابلی ادب میں دویا دوسے زیادہ ادبی روایتوں کے تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہیں۔مماثلت اوراختلاف کاکوئی بھی گوشہ ان کی توجہ سے محروم نہیں رہتا۔ اس لیے تقابلی ادب کی جو سطح ہمیں امریکی دبستان میں ملتی ہے وہ کہیں اورنظر نہیں آتی۔تقابلی مطالعے پر توجہ کی پہلی مثال ۱۸۲۷ء؁ میں سامنے آئی جب پروفیسر فیلیلمان نے فرانسیسی یونیورسٹی میںلیکچر دیتے ہوئے اس کی نشاندہی کی ۔انہوں نے اس تقابلی ادب کی باضابطہ تدریس کا آغاز ۱۸۳۰ء؁ میںسوربون یونیورسٹی میںکیا….‘‘ ۹؎

تقابلی ادب کی اہمیت ‘افادیت او رضرورت کے بڑھتے ہوئے احساس و ادراک کے نتیجے میںموجودہ دور میں تقابلی ادب دنیا کی بیشتر یونیورسٹیوں میں پڑھا یا جانے لگا۔کئی یونیورسٹیوں میں تقابلی ادب کے نام سے الگ شعبے قائم ہوئے۔اس سلسلے میں چین‘ تائیوان‘ جاپان‘ برازیل‘ ارجنٹینیا‘میکسیکو‘ اسپین‘ پُرتگال‘ اٹلی او ریونان کے علاوہ جرمنی قابل ذکر ہیںجہاں تقابلی ادب کے حوالے سے یونیورسٹیوں میںنہ صرف الگ شعبے قائم ہوئے بلکہ جرائد و رسائل بھی منظر عام پر آئے ۔یوں یہ نیا شعبۂ علم تیزی سے اپنی اہمیت و افادیت کو منوانے میںکامیاب ہوا ۔فرانس میںکئی ایسے انسٹی ٹیوٹ بھی ہیں جو تقابلی ادب کی درس و تدریس او راس کی ترویج و تشہیر کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔تقابلی ادب کے فروغ کا ایک بڑا سبب یہی ہے کہ اس کے توسط سے قارئین بہ یک وقت کئی زبانوں میںلکھے گئے ادب سے نہ صرف روشناس ہوتے ہیں بلکہ کتنے ہی الفاظ ‘ اصطلاحات‘ استعارات‘ تشبیہات‘ ضرب الامثال‘ کہاوتیں‘ حکایتیں‘ رویے اور فکر و نظر کے زاویے ایک زبان وادب سے دوسری زبان وادب میں منتقل ہوتے ہیں او راس کرۂ ارض کو صحیح معنوں میں گلوبل ولیج بنانے میں ‘ قوموں اور تہذیبوں کو قریب لانے اور ان کے درمیان ذہنی‘ فکری اور ثقافتی سطح پر پُل کاکام دینے میں تقابلی ادب ایک اہم فریضہ انجام دے رہا ہے۔[

 پروفیسر محمد حسن تقابلی ادب کی وسعت و جامعیت کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’تقابلی ادب نے ایک نئے اوروسیع تر اندازِ تنقید کو رائج کیا جو محض دوفنکاروں یا دوشہ پاروں کے تقابل سے عبارت نہ تھا بلکہ د و ادبیات اور تہذیبوں کے درمیان تبادلہ‘ لین دین اور اثر پذیری کے عمل کا سنجیدگی سے مطالعہ کرتا تھا او راس عمل کے عمرانی عوامل اور مآخذ تلاش کرتا تھا‘‘ ۱۰؎

             تقابلی ادب کی وضاحت Totosyیوں کرتے ہیں:

“Comparative literature remains an embattled approach and discipline of the study of literature. Yet, it produces that meaningful dialogue between cultures and literatures that is its mark theoritically, in application and in basic as well as higher level education. It will continue to have supporters, students and disciples who value comparative literature’s insistance on the knowledge about as well as the inclusion of other in the widest defiition of the concept and its realities, its global and international nature, its interdisciplinarity, its flexilbility and its objective as well as ability to translate one culture into another by exercise and love of dialogue between cultures” (11)

 اس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ تقابلی ادب دو تہذیبوں او رایک سے زیادہ زبانوں میں لکھے گئے ادب کے ساتھ مکالمہ بھی ہے ۔اس تہذیبی وادبی مکالمہ نے تقابلی ادب کو ملکی اور مقامی حدود وقیود سے نکال کر عالمگیریت اور آفاقیت بخشی ہے۔ عصر حاضر کے گلو بل ولیج یا عالمی گاؤں کے پس منظر میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔

تقابلی ادب کے ماہرین نے اس کی جو تعریفیں پیش کی ہیں‘انہیں بیان کرنے سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھنا ضرور ی ہے کہ تقابلی ادب کسی خاص زبان میںلکھے گئے ادب کا نام نہیں۔ ہم جن معنوں میں انگریزی ادب‘ عربی ادب‘ یونانی ادب یا اردو ادب کانام لیتے ہیں‘ان معنوں میں’’ تقابلی ادب‘‘ کانام نہیں لیتے۔ تقابلی ادب کسی مخصوص زبان‘ کسی خاص ملک اور ثقافت کا زائیدہ ادب نہیں بلکہ ایک مخصوص نظریہ‘ سوچ‘ اپروچ اور نقطۂ نظرPoint o f Viewاور ایک خاص طرزِ تنقید ہے۔’’تقابلی ادب‘‘ ایک سے زیادہ زبانوں‘ ملکوں اور ثقافتوں کے پس منظر میں لکھے گئے ادب کا اس انداز سے مطالعہ اورتجزیہ کرتاہے کہ ان کے ا نفراد‘ اشتراک و افتراق او رقرب وبُعد کانہ صرف ادراک حاصل ہوتاہے بلکہ تخلیقی ادب اور ادبی نمونوں کی قدر شناسی کے لیے ایک وسیع تناظر میسر ہوتاہے جس سے بصیرت اوربصارت بھی پیدا ہوتی ہے اورایک انداز نظر اوراندازِ نقد بھی فراہم ہوتاہے۔چنانچہ ممتاز مغربی نقاد انتونی تور لبی(Anthony Thorlaby)نے لکھاہے کہ :

’’تقابلی ادب میں تخلیقی کارناموں کے تجزیے کے لیے تقابل کو نہایت ہی مفید تکنیک کے طور پر استعمال کیاجاتا ہے اور اس میں تقابلی مطالعہ کے لیے ایک ہی زبان کی تحریروں کو منتخب نہیںکیا جاتا بلکہ دیگررسالوں کے ادب میں موجود تقابل کے لحاظ سے اہم نکات کو بھی پیش نظر رکھا جاتاہے‘‘ ۱۲؎

تقابلی ادب کے ماہرین نے تقابلی ادب کی جو تعریف اور توضیح پیش کی ہے ‘اسے واضح طور پر دوگروہوں یا دو نقطۂ ہائے نظر میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ایک وہ گروہ ہے جس کے یہاں تقابلی ادب کا وسیع تصور پایا جاتاہے۔ اس گروہ کی نمائندگی ہنری ریماک کرتے ہیں۔وہ تقابلی ادب کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“A comparative literature is the study of literature beyond the confines of one particular country and the study of the relationship between literature on the one hand and other areas of knowledge and belief, such as arts-Philosophy, History, the Social Sciences-the sciences, religion etc on the other. In brief it is the comparision of one literature with another or others and the comparison of literature with other sphers of human expression” (13)

ہنری ریماک کی تعریف سے واضح ہوتاہے کہ تقابلی ادب ملکی او رمقامی حدود سے باہر نکل کر وسیع تر بنیادوں پر ادب کا مطالعہ کرتاہے اور اس چیز کا پتہ لگاتا ہے کہ علم اورفکر وفن کے دوسرے شعبوں اور اعتقادات‘مثلاً فنون لطیفہ‘فلسفہ‘ تاریخ‘ سماجی علوم‘ سائنس او رمذہب وغیرہ کے ساتھ ادب کا کیاتعلق اوررشتہ ہے ‘ اس کی جڑیں کہاں تک ان علوم وفنون میں اتری ہوئی ہیں اور ادب ان چیزوں سے کس حدتک اثر پذیر ہوا ہے۔مختصر طو رپر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک زبان میںلکھے گئے ادب کادوسری زبان کے ادب کے ساتھ موازنہ کرنا تقابلی ادب کی پہچان ہے ۔علاوہ ازیں اس کاموازنہ انسانی اظہار و بیان کی دوسری صورتوں کے ساتھ کرنا۔ یوں تقابلی ادب کا کینوس دور تک پھیلا نظر آتاہے۔

            تقابلی ادب کے ماہرین کادوسراگروہ اس کا نسبتاً محدود تصور رکھتا ہے ۔اس تصور کے حامی موازنہ اور تقابل کو ادب کے دائرے تک ہی محدود رکھنے اور دیگر علوم وفنون سے گریزاں رہنے پر زور دیتے ہیں۔اس گروہ کی نمائندگی کلاڈ پیشوی(Claud Pichois)اور آندرے روسو(Andre Rousseau)کرتے ہیں۔ان کے مطابق تقابلی ادب صرف ادب کے تجزیاتی موازنہ اور مطالعہ سے سروکار رکھتاہے:

“Comparative Literature: Analytical description, Methodical and differential comparision, synthetic interpretation of interlinguistic and inter-cultural literary phenomena, through history, criticism andphilosophy, in order the better to understandliterature as a specific function of human mind”(14)

یعنی تقابلی ادب تجزیاتی وضاحت سے عبارت ہے جو مماثلت و مغائرت کاموازنہ کرتاہے۔ بین اللسانی اور بین التہذیبی ادبی مظاہر کی تاریخ‘ تنقید اور فلسفہ کی مدد سے جامع تشریح ‘ تفہیم او رتوضیح پیش کرتاہے تاکہ ادب کو انسان کی ذہنی وفکری سرگرمی کے طور پر بہتر انداز میںسمجھا اور سمجھا یا جاسکے۔

موجودہ زمانے کا ممتاز تقابلی ماہر(Comparatist) رینی ولک کہتاہے کہ تقابلی ادب تمام حد بند یوں سے آزاد ہوکر ادب کامطالعہ کرتاہے اور اس کے لیے تمام طریقے روبہ کار لاتا ہے۔ بقول ان کے یہ ضروری نہیں ہے کہ

۱۔جن دوزبانوں یا دوسے زائد زبانوں کے ادبوں کامطالعہ کیاجائے تو ان کے درمیان کوئی واضح اشتراک و مماثلت ہو۔

 ۲۔ جن ادبی روایتوں میں بظاہر کوئی تاریخی تعلق و ربط نہ ہو ان کا تقابلی مطالعہ بھی قدرو قیمت کا حامل ہوتاہے کیونکہ عظیم ادب محض کوئی تاریخی دستاویز(Document)نہیںہوتا بلکہ یہ ادبی تاریخی یاد گار(Monument)جیسے ہوتاہے ۔

 ۳۔ اسی لیے میتھو آرنلڈ کہتاہے کہ قانون فطرت کی طرح تنقید کے بھی اپنے قوانین ہوتے ہیں۔وہ یوں کہ:

“Every great critic should try and posses one great literature, at least, besides his own andthemore unlike his own, the better”- (15)

میتھو آرنلڈ کا کہنا یہ ہے کہ ہر نقاد کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنے ادب کے علاوہ کسی دوسری زبان کے ادب پر بھی عبور حاصل کرے۔

میتھو آرنلڈ جسے قانون تنقید کہتے ہیں‘اسے بغائر دیکھیں تو وہ قانونِ تخلیق بھی ہے۔ گوئٹے‘ؔآرنلڈؔ‘ از راپاؤنڈؔ‘ ٹی ۔ایس۔ایلیٹؔ‘ ٹیگور‘ؔغالبؔ‘حافظؔ‘ اقبالؔ جیسے بڑے فنکاروں کے ادبی کارنامے اور تخلیقی نمونے اس بات پر دال ہیں کہ ان فنکاروں کاکینوس وسیع بلکہ وسیع تر اسی لیے تھا کہ ان کی نظرایک ہی زبان وادب تک محدود نہیں تھی بلکہ دیگر زبانوں اوران کے ادب پر بھی نگاہ تھی جس نے ان کے تناظر ‘ رویوں اورفکری دھاروں کو عالمگیریت او رآفتاقیت کی نئی ضو‘ روشنی او رحرارت عطا کی ۔ اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ادب میں عالمگیر‘آفاقی اور ابدی عناصر او ران کے مقابلے میں تاریخی اور وقتی عناصر ایک نامیاتی رشتے میں منسلک ہوتے ہیںمگر ادب اپنی عالمگیر‘ ابدی او رمافوق الزماں(Timeless) عناصر سے ہی ادب بنتا ہے۔یہی مافوق الزماں عنصران عالمگیر اور ابدی علامتوں کا سرچشمہ ہوتاہے جنہیں آرکی ٹائپس کہا جاتاہے۔مثال کے طور پر جب ہم گوئٹے‘ شیکسپیئر‘ؔ حافظؔ‘غالبؔ اور اقبالؔ کے ادبی کارناموں کاجائزہ لیتے ہیں تو محسوس ہوتاہے کہ ان کی معنویت ہمارے لیے بھی اتنی ہی ہے کہ جتنی ان کے عہد اورزمانے میں تھی۔فر ق صرف یہ ہے کہ ان کے زمانے کے لوگ انہیں اپنے اندا زسے پڑھتے تھے اور ہم اپنے طور سے اپنے حافظے ‘مطالعے اورمشاہدے کے تناظر میں۔ان کے زمانے اورہمارے زمانے کے قارئین کو جو چیز انتخلیقات او رنمونوں سے جوڑتی ہے وہ ان تخلیقات کے اندر مضمر عالمگیر و ابدی عناصر ہیں۔ اس بات کی وضاحت کے لیے ہم شعر و ادب سے کتنی ہی مثالیں دے سکتے ہیں۔اختصار کے پیش نظر ہم یہاں اردو شاعری وفکشن سے دو تین مثالوں پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔میرؔ کے شعر کو دیکھئے:

دل کی ویرانی کا کیا مذکور

یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا

اس شعر کی اہمیت آج کے دور میں بھی اتنی نظر آتی ہے جتنی اس وقت ہوتی جب دلی کو بار بار لوٹا جاتا تھا۔ دل کی دنیا لٹ جائے یا دلی لوٹی جائے‘ قاری کو مذکورہ شعر بہر صورت اپنی گرفت میں لیتا ہے ۔اسی طرح قاری کی ناول یا افسانہ کے ساتھ دلچسپی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب قاری خودکو ناول کاایک کردار سمجھنے لگے یا پھر کردار سے ہم آہنگی او رموانست کی بنیاد پر اس کی وابستگی اس حد تک بڑھ جائے کہ قاری یہ محسوس کرتاہے کہ وہ خود بھی اپنے پورے پس منظر ‘ پیش منظر اورتناظر کے ساتھ اپنے ناول‘ اپنے معاشرتی اقدار‘ اپنی تہذیبی روایات‘ اپنے سماجی و مذہبی اعتقادات اوراپنی سماجی حسیت کے ساتھ ایک کردار ہے ۔ناول کے کینوس پر اپنے آپ کو چلتا پھرتا‘ جدوجہد کرتاہوا‘ لڑتا جھگڑتاہوا‘ پیار و محبت کرتا ہوا دیکھتا ہے تو پھر اس کے لیے یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ پیش نظر ناول عصر حاضر کا ہے یا زمانۂ قدیم کا۔قدیم وجدید اس کے لیے بے معنی ہوکر رہ جاتاہے۔اس بات کی وضاحت یو ں کی جاسکتی ہے کہ بھلا خوجی (فسانہ آزاد) ،کلیم ،مرزا ظاہردار بیگ (توبتہ النصوح ) ‘ امراؤ جان ادا(امرائو جان ادا)،ہوری ،دھنیا(گئودان) کے ساتھ قاری خودکو کسطرح وابستہ کرسکتا ہے؟بالخصوص دورحا ضر کاقاری۔جواب یہ ہوسکتا ہے کہ ہر کردارکچھ امتیازی صفات رکھتاہے۔اگر یہ صفات مخصوص حالات اورمخصوص زمانے کی پروردہ ہوتیں اوران میںکوئی لمحاتی‘ وقتی یا عارضی کیفیت ہوتی تو اس کا اثر لازماً دیر پا اور پائیدار نہیںہوتا لیکن ان کی تہہ میں انسانی شخصیت کے کچھ بنیادی اجزاء ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر قاری کی وابستگی دیرپا ہوجاتی ہے ۔مثلاً ظاہر دار بیگ کاکردار ایک مخصوص معاشرہ کاکردار ہے لیکن جب تک انسانی زندگی میںنمود و نمائش اور جو کچھ’’وہ نہیں‘‘ ہے وہ ظاہر کرنے کی کوشش یا متوسط طبقے میں اپنے طبقے سے نکل کر اونچے طبقے میں بیٹھنے کی تمنا باقی ہے اوررہے گی تب تک ظاہر دار بیگ کاکردار دلچسپ رہے گا اورہر دور اور ہر زمانے میں قاری کو اس کردار کے اندر اپنا چہرہ ‘اپنی پرچھائیں اور اپنی زندگی نظر آتی رہے گی او راس طرح کے ناول اورکردار صرف سماجی دستاویز بن کر نہیں رہ جاتے بلکہ ابدی اورعالمگیر اقدار سے مملو ہوکر ہر عہد میں اپنی معنویت کو برقرار رکھنے میں نہ صرف کامیاب رہتے ہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی معنویت میںمزیداضافہ ہوجاتاہے۔

تقابلی ادب سے متعلق متذکرہ آراء کو مدِ نظر رکھ کر جو بنیادی باتیں سامنے آئیں انہیں اختصار کے ساتھ یوں سمیٹا جاسکتا ہے:

1۔یہ کہ تقابلی ادب بین اللسانی اوربین التہذیبی مطالعہ ہے اور یوں ادب کے توسط سے مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کاسنگم فراہم ہوتاہے ۔

2۔ یہ کہ تقابلی ادب تہذیبوں اور زبانوں او رمختلف علوم کے ساتھ مکالمہ ہے:

“The second general principle ofcomparative literature is the theoritical as well as methodological postutate to move and to dialogue between cultures, languages and disciplines”.(16)

3۔ تقابلی ادب اس بات کا متقاضی ہے کہ ماہر تقابل مختلف تہذیبوں اور زبانوں کاگہرا ادراک‘ آگہی او رعلم رکھتا ہو۔

“The third general principle of comparative literature is the necessity for the comparatist to acquire in depth grounding in several languages and literature as well as other disciplines.” (17)

4۔ تقابلی ادب بین اللسانی ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر فنونِ لطیفہ ‘ سائنس‘ فلسفہ اورسماجی علوم کو بھی پیش نظر رکھتا ہے۔

“The fourth general principle of comparative literature is its interest to study literature in relation to other forms of artistic expression (the visual arts, music, film etc) and in relation to other disciplines in the humanities and social sciences (History, Sociology, Psychology etc.) -” ( 18)

5۔  تقابلی ادب کا اصل سروکار بین التہذیبی مطالعہ سے ہوتاہے۔ یہ دومختلف ثقافتی پس منظر میں لکھے گئے ادب اور اس کے بطن میںموجود مماثل‘مشترک او رعالمگیر و آفاقی عناصر کو نشان زد کرتاہے۔

“The fifth general principle of comparative literature is its focus on literature within the context of culture”. (19)

اس ضمن میں پروفیسر محمد حسن لکھتے ہیں:

’’تقابلی ادب محض اس ادب سے عبارت نہیں جس میں محض کسی بھی دو فنکاروں کا تقابل کیا جائے یا کسی دو مختلف زبانوں یا ادبیات کے درمیان تقابلی مطالعہ کیا جائے بلکہ وہ ادب جو دوفنکاروں او ردوزبانوں کی ادبیات کے درمیان مختلف سطحوں کے لین دین‘ تطابق اور تخالف کا مطالعہ کرکے اس کے دور رس محرکات کو بے نقاب کرتاہو او روسیع تر عالمی آگاہیو ں کو سامنے لاتا ہو- ۲۰؎

 اس بات کا ذکر پہلے بھی ہوا کہ تقابلی مطالعہ سے مراد دو فن کار وں یا فن پاروں کو مقابل رکھ کر ان میں اعلیٰ وادنیٰ کی تمیز یا ایک فن کار کے دوسرے فن کا ر پر یا کسی فنی نمونے کے دوسرے فنی نمونوں پر اثر اندازی کی نشاندہی کرنا ہے۔ اس سلسلے میںشاہد پرویز اپنے ایک مضمون میںمختلف زبانوں کے ادب کے سلسلے میں ڈاکٹر ایشور راؤ نے کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انہو ں نے عالمی ادب کے دوبنیادی اجزاء پیش کیے ہیں:

۱۔        مختلف زبانوں کے ادب میں روح انسانیت کی یکسانیت۔

            ۲۔        ان زبانوں کے ادب کی وہ خصوصیات جن کی وجہ سے ان کا اپنا انفرادی وجود ہے ۔ ۲۱؎

            ظاہر ہے کہ ادب جس کے اندر آفاقیت ہو او رجو زمینی اور زمانی دائرے توڑ کر زمین و زماں سے ماوراء ہونے کی قوت و صلاحیت رکھتا ہو‘ وہ انہی دو اجزاء پر منحصر اور مشتمل ہوتاہے یعنی اس نوعیت کا ادب زمینی بوباس او راپنے ثقافتی رنگوں کو اپنے اندر جذب کرنے کے باوصف انفس و آفاق کی خوشبو‘ رنگ‘لمس او رلذت کو بھی اپنے اندر سموئے ہو ئے ہوتاہے۔ اس کی جڑیں اپنی ثقافت او رزمین میں صرف پیوستہ ہی نہیں ہوتیں بلکہ گہرائیوں میں اتری ہوتی ہیں لیکن یہ اپنی زمین سے نکل کر پھل پھول کر جب اپنا قدوقامت بڑھاتا ہے تو اس کی شاخیں‘ اس کی اونچائی‘ اس کا گھیراؤ او رپھیلاؤ بہت ساری چیزوں کو اپنے وجود کاحصہ بنانے کے لیے جذب وانجذاب کے عمل سے گزرتا ہے ۔پھلنے پھولنے کے لیے اسے سورج کی روشنی اور تمازت بھی چاہیے اورآسمان سے برستا پانی بھی قطرہ قطرہ اس کی شاخوں‘ پتوں او رپھل پھول میںسرایت کرجاتاہے او ریوں یہ نکھرتا جاتاہے۔اس لیے مقامیت اور آفاقیت ادب کی گھٹی میںپڑی رہتی ہے او رجب مختلف زبانوں کے ادبوں کا تقابلی مطالعہ کیا جائے یا مختلف فنی نمونوں کامقابل کیا جائے تو کتنی ہی خوشبو ئیں‘کتنے ہی ذائقے اور کتنے ہی دلکش رنگ ابھر کر خوشبوؤں‘ ذائقوں اوررنگوں کاسماں باندھ دیتے ہیں۔تقابلی مطالعہ ان ہی رنگوں اور ذائقوں کوپہچاننے اورانہیں دوسرو ں تک منتقل کرنے سے سروکار رکھتاہے۔

            تقابلی مطالعہ کے طریقہ کار او راس کی مبادیات کا ذکر کرتے ہوئے شاہد پرویز اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:

                        ’’تقابل مندر جہ ذیل اعتبار سے کیاجاتاہے:

                        ۱۔        فنی تقابل

                        ۲۔        فکری تقابل

                        ۳۔       موضوعاتی تقابل

                        ۴۔       عصری تقابل–_‘‘ ۲۲؎

            شاہد پرویز نے تقابلی مطالعہ کے لیے جن چار باتوں کی نشاندہی کی ہے‘وہ اتنی جامعیت او روسعت کی حامل ہیں کہ تقابلی مطالعہ کے لیے ایک وسیع او رکشادہ شاہراہ کھول دیتی ہیں۔ بہ نظر غائر دیکھیں تو یہی کچھ تقابلی مطالعے کی اساس ہیں۔انہی باتوں پر تقابل اور موازنہ کیاجاسکتاہے۔

            شاہد پرویز متذکرہ نکات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’فنی تقابل میںدو فنکاروں کی اساس اوران کے رجحانات سے بحث کرکے امتیاز قائم کیاجاتاہے۔

            موضوعاتی تقابل میںموضوعات کو زیر بحث لایا جاتاہے۔

            عصری تقابل میں دوعلیٰحدہ علیٰحدہ ادوار کے فنکاروں کا ان کے عصری پس منظر میں تقابل کیاجاتاہے جس میں سماجی‘ سیاسی اور معاشی حالات کو مد نظرر کھا جاتاہے او ران حالات کی تلاش فن پاروں میں کی جاتی ہے–‘‘۲۳؎

متذکرہ چیزوں کے علاوہ تقابل اسلوبیاتی سطح پر بھی کیاجاتا ہے ۔موازنہ اورمقابلہ میں اسلوب اورانداز بیان‘ زبان‘ ذخیرۂ الفاظ‘ تشبیہات ‘ استعارات اوردیگر تمام صنعتوں کو بھی پیش نظر رکھا جاتاہے کیونکہ فن اورشعر وادب میں تمام تر رونق‘ تہہ داری‘معنی آفرینی‘ محاسن معنی و بیان بڑی حدتک اسلوب اورانداز بیان کی مرہون منت ہوتی ہیں۔پروفیسر محمد حسن اسلوبیاتی تقابل کی مختلف سطحوں اور جہتوں کی وضاحت یوں کرتے ہیں:

’’امریکی ماہرین مثلاً رینے ویلک اورہیری لیون وغیرہ نے اسلوبیات کو تقابلی ادب کا موضوع بنایا او راصناف‘ تحریکات‘ادبی روایات ‘ تصورات او راسلوبیاتی اور استعاراتی سانچوں کا تقابلی مطالعہ کیا۔ ا س طرح تقابلی ادب کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا۔ ایک طر ف دائرہ میں وہ تمام موضوعات‘ تصورات و اقدار آگئے جو مختلف ادبیات میں زیر بحث آتے ہیں تو دوسری طرف تمثال‘ استعارے اورانداز بیان کے سبھی سانچے بھی شامل ہوگئے جو مختلف شہ پاروں کو امتیازی شان بخشتے ہیں-‘‘ ۲۴؎

شاہد پرویز اسلوبیاتی تقابل کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’اسلوبیاتی تقابل میںدو تخلیق کاروں کے اسالیب بیان کا تجزیہ کیاجاتاہے۔یہ مطالعہ اس اعتبار سے دشوار تر ہے کہ ہر شخص کااپنا فطری اسلوب ہوتاہے اوروہ اسلوب ایک شخص کو پسند ہوتاہے اور دوسرے کو ناپسند۔اسی لیے اسلوبیاتی تقابل معروضی نہ ہوکر موضوعی ہوجاتا ہے‘‘ ۲۵؎

تقابلی مطالعے کی توضیح‘ تشریح او رتفہیم کے بعد تقابلی مطالعے کے درج ذیل اصول و ضوابط کا تذکرہ کیاجاسکتاہے:

            ۱۔ تقابلی مطالعے کے لیے غیر جانبداری لازمی ہے۔غیر جانبدارانہ تجزیے کے لیے ضروری ہے کہ فنکار نہیں ‘ صرف فن توجہ کا مرکز ہو۔یہ بھی لازم ہے کہ فنکار اور اس کی شخصیت سے مرعوب نہ ہو۔

            ۲۔ تقابلی مطالعے کا یہ مقصد ہرگز نہیںکہ ایک فن پارے کو کمتر اوردوسرے کو برتر ثابت کرنے کی کوشش کی جائے بلکہ مقصد صرف قدر شناسی اوردرجہ بندی ہے او ردومختلف فن پاروں کے رنگوں اور ذائقوں سے روشناس کرکے ان کے درمیان قرب وبُعد کو ابھارنا ہے ۔

 ۳۔ تقابلی مطالعہ اس بات کامتقاضی ہے کہ فنکاروں‘ فنی نمونوں اورفن پاروں کاگہرائی اورگیرائی کے ساتھ مطالعہ کیاگیا ہو۔

            ۴۔       موازنہ اور تقابلی مطالعہ کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ جس صنف ادب کو موضوع بنائے اس صنف کے فنی وتکنیکی پہلوؤں او راس کی مبادیات سے گہری آگہی رکھتا ہو کیونکہ مختلف شعری و نثری اصناف پر یکساں اصول نقد کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔مثنوی کے مطالعہ اور تجزیہ کے لیے قائم معیارات اور تناظرات غزل پر لاگو نہیںہوسکتے۔یہی معاملہ دیگر اصناف کاہے۔

            ۵۔       تقابلی مطالعہ دو فن پاروں میں صرف مماثلت و اشتراک کی بناء پر ہی نہیں کیا جاتا بلکہ ان فن پاروں کے درمیان بھی کیا جاسکتا ہے جو بظاہر ایک دوسرے کی ضد ہوتے ہیں مگر ساتھ ہی اس بات کابھی خیال رکھنا ہے کہ اگر دوزبانوں یا دومختلف چیزوں میںمخالف چیزیں زیادہ اور یکسانیت کم ہوگی تو ایسی صورت میں بھی تقابلی مطالعہ کرنا مشکل او ر بے معنی ہوگا۔

            ۶۔        تقابلی مطالعہ ایک ہی زبان کے فن پاروں کابھی ہوسکتا ہے او ردوزبانوں کے فن پاروں کا بھی لیکن شرط یہ ہے کہ دونوں زبانوں پر مہارت او ردسترس حاصل ہو۔

            ۷۔       دویا دوسے زیادہ زبانوں کے ادب کاتقابل بھی کیا جاسکتاہے۔

            تقابل چاہیے ادب کاکیاجائے یا کسی او رشے کا ‘اس سے ہر صورت میںسود مند نتائج بر آمد کیے جاسکتے ہیں۔ تقابلی ادبی مطالعہ یا تقابلی تحقیق آج وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسی کے ذریعے ہمار ے ادب کی خوبیوں کی قدر کرنے او رخامیوں کو دور کرنے کا جذبہ فرو غ پا سکتا ہے۔کسی بھی زبان کاادب بزم خودکامل ہونے کا دعویٰ نہیںکرسکتا۔ہر زبان کی جہاں بہت ساری خوبیاں ہوتی ہیں وہیں کچھ خامیاں بھی ہوتی ہیں۔ان خامیوں کا سراغ تقابل سے ہی لگایا جاسکتاہے۔’’ تقابلی مطالعہ‘‘ بے شک ایک انتہائی سخت او رمشکل کام ہے مگر یہ وہ بڑا ہتھیار بھی ہے جس سے ادب کی خوبیاں اور خامیاں منظر عام پر آتی ہیں۔بغیر اس کے ہر زبان کے ادب کی ترقی کی راہیں مسدود ہوکر رہ جائیں گی ۔جس طرح سے تنقید ادب کو کسوٹی پر پرکھتی ہے اسی طرح تقابل بھی ایک طرح کی کسوٹی کاکام انجام دیتاہے مگر شرط یہ ہے کہ تقابل کم از کم ان اصولوں کو مدِ نظر رکھ کر کیاجائے جن کا یہاں ذکر کیاگیاہے۔

حوالہ و حواشی

 ۱؎ شاہد پرویز‘ تقابلی مطالعہ اور طریقہ کار ‘ ماہنامہ اردو دنیا ص ۲۱

۲؎ سید احتشام حسین‘ تنقید او رعملی تنقید ص ۷ ۱

۳؎ محمد ابراہیم‘ موزانہ او راس کے اصول‘ مشمولہ: ہمارا ادب‘ ص ۳۵

 ۴؎ پطرس بخاری‘ پطرس کے مضامین ص ۲۹

۵ ؎ پطرس بخاری‘ پطرس کے مضامین ص ۳۱

 ۶؎ رشید احمد صدیقی‘ مضامین رشید ص ۱۰۸

 ۷؎ رشید احمد صدیقی‘ مضامین رشید ص ۱۰۸

 ۸؎ ڈاکٹر حیات افتخار‘ تقابلی ادبی مطالعہ(مضامین کا مجموعہ) ص ۲۰

 ۹؎ ڈاکٹر یوسف عامر‘ جدید اردو اور جدید عربی شاعری کا تقابلی مطالعہ(۱۹۶۰ء سے تا حال) ص ۴

 ۰ ۱؎ محمد حسن‘ مشرق و مغرب میں تنقیدی تصورات کی تاریخ ص ۵ و ۳

۱ ۱؎ Steven Totosy:Comparative Literature–Theory,Method,Application P15

 ۲ ۱؎ ڈاکٹر افتخار حیات‘ تقابلی ادبی مطالعہ(مجموعہ مضامین) ص ۲۰

۱۳؎ مشمولہ انہار: تقابلی ادب معنی‘ سکوپ تہ￿ امکانات جی۔آر ۔ ملک ص ۲۹

۲ ۱؎ ڈاکٹر افتخار حیات‘ تقابلی ادبی مطالعہ(مجموعہ مضامین) ص ۲۰

 ۱۳؎ مشمولہ انہار: تقابلی ادب معنی‘ سکوپ تہ￿ امکانات جی۔آر ۔ ملک ص ۸

 ۱۴؎ مشمولہ انہار: تقابلی ادب معنی‘ سکوپ تہ￿ امکانات جی۔آر ۔ ملک ص ۹

 ۱۵؎ مشمولہ انہار: تقابلی ادب معنی‘ سکوپ تہ￿ امکانات جی۔آر ۔ ملک ص ۹

۱۶؎ Steven Totosy: Comparative literature Theory, Method, Application P-16

۱۷؎ Comparative Literature – Theory, Method and application – P.16

۱۸؎ Comparative Literature – Theory, Method and application – P.16,18

۱۹؎ -Comparative Literature -Theory, Method and application -P.16, 18

 ۲۰؎ محمد حسن‘ مشرق و مغرب میں تنقیدی تصورات کی تاریخ‘ ص ۳ ، ۲

۲۱؎ شاہد پرویز‘ تقابلی مطالعہ اور طریقہ کار ‘ ماہنامہ اردو دنیا ص ۲۴

۲۲؎ شاہد پرویز‘ تقابلی مطالعہ اور طریقہ کار ‘ ماہنامہ اردو دنیا ص ۲۲

۲۳؎ شاہد پرویز، تقابلی مطالعہ اور طریقہ کار ‘ماہنامہ اردو دنیا ص ۲۲

۲۴؎ محمد حسن‘ مشرق و مغرب میں تنقیدی تصورات کی تاریخ ‘ ص۳۹۴

۲۵؎ شاہد پرویز، تقابلی مطالعہ اور طریقئہ کار، ماہنامہ اُردو دُنیا ص۲۲

****

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.