بلوچستان میں اردو تحقیق کی ابتدائی روایت

کرن داؤد بٹ

 اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو، سردار بہادر خان ویمنز یونیورسٹی بلوچستان کوئٹہ

موبائل نمبر:03327849572

Urdu research in Balochistan began in an unorganized and confusing manner with selected articles by local journalists published in Urdu newspapers that spoke on social issues. This process of essay writing also highligthted areas of research that had a slight research approach in arranging and organizing. This style of expression partially colored researech into specific sections of articles that lacked the essential research elements of source and reference. The first step in this regard was “Balochistan mai Tableeghi Mission ki Zaroorat” by Akhunzada Abdul Rahim Achakzai, which was published in Akhbar-ul-Baloch on April 6, 1933. in the same newspaper, two partially research alike essays were also published. Going further, this journey absorbed the research etiquette and principles and reached the literary and linguistic research of Urdu. The continuity of which has connected the literary research of Urdu with the mainstream in modern time.

            مقاصد تحقیق،فروغ علم کو پیش نظر رکھ کر مرتب کیے جاتے رہے ہیں اور کیے جاتے رہیں گے۔بلوچستان میں بھی اردو زبان و ادب اپنے ضابطوں کے ساتھ جب کبھی بھی وارد ہوا تھااسی دن یہاں تحقیق کی خشت اول بھی گاڑدی گئی تھی۔ کیوں کہ ہر تخلیق کار عمل تحقیق کے مختلف مراحل میں ایک محقق کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ چھان پھٹک کے بعد اپنی تخلیق کو مربوط حالت میں سامنے لاتا ہے ۔جب تحقیقی شعور تناور ہوا تب تحقیق نے تخلیق سے فاصلے پیدا کیے مگر اس طرح کہ تعلق مکمل طور پر ٹوٹنے نہ پائے۔یوں یہ عمل بڑھتے بڑھتے باضابطہ تحقیق سے قریب تر ہوا۔اگرچہ پہلے تخلیق کار اور باضابطہ عمل تحقیق میں عشروں کا فاصلہ موجود تھامگریہ ادراک ضرور تھاکہ تحقیق کو برتے بغیر درست اور غلط کے مابین خط امتیاز نہیں کھینچا جاسکتا ہے۔ نتیجے میں فروغ تخلیق نے، فروغ تحقیق کو آگے بڑھایا، منضبط بھی کیا اور اس کے اصولوں سے آگہی کی جانب سفر بھی طے کیا۔

            بلوچستان میں تحقیق کی روداد زیادہ دل خوش کن نہیں ہے لیکن مسرت کا پہلو یہ ضرور نکلتا ہے کہ یہاں تحقیق اور اس کی اہمیت کے بارے میں جاننے کا عمل موجود رہا ہے ۔چوں کہ تیز رفتار تہذیبی ارتقا ء میں یہاں آبادی کی قلت ،سنگلاخ جغرافیائی صورت حال اور کم یاب پانی نے رکاوٹیں پیدا کیں۔اس لیے بلوچستان علوم کی تیز رفتار ترقی سے اس وقت روشناس ہوا جب اس کے ارد گرد کے علاقے اس سلسلے میںاپنے عروج کو چھو رہے تھے۔عالمانہ اور محققانہ ذہنی ساخت تہذیب کے ارتقاء سے جڑے ہوئے اعمال وافعال کا فیضان ہوتی ہے۔اسی لیے بلوچستان میں تحقیقی ذہن بننے میں بہت تاخیر ہوئی اور یہ کام اس وقت اپنی اصل شکل میں ظاہر ہونا شروع ہو ا جب تحقیق کے ثمرات سے دنیا بہر مند ہوچکی تھی۔یہ منظر نامہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بلوچستان میں ادبی تحقیق اس لیے تاخیر سے شروع ہوئی کہ یہاں کااردو ادب بہت بعد میں منظر عام پر آیا تھا ۔۱۸۴۷ع اس خطے میںاردو ادب کے لیے سال افتخار ہے ۔کیوں کہ اسی سال محمد حسن براہوئی کی کلیات تکمیل کو پہنچی تھی۔اس کے پانچ سال بعد اس کی کتابت مکمل ہوئی تو اس سال پہلی مرتبہ محمد حسن براہوئی کا اردو کلام منضبط صورت میں سامنے آیا ۔ان کی تحریر،مخمس ہندی بر غزل رفیع السودا، اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اردو کو ہندی زبان کے نام سے جانتے تھے اور اردو لفظ سے ناآشنا تھا۔اس زبان کے نام کا یہ شعور ان کے پاس کہاں سے آیا ؟ یہ ان کے محققانہ ذہن کی بازیافت تھی۔یہاں سے بننے والا تحقیق کا ہیولارفتہ رفتہ مجسم حالت میں ہمارے سامنے ایک کے بعد ایک اس طرح آتا ہے۔ بلوچستا ن سے نجی اخبارات کے اجرا پر پابندی کے باعث ہفت روزہ البلوچ، کراچی سے اہل بلوچستان کی کاوشوں سے۱۹۳۲ع میں جاری ہواتھا۔جس کے پہلے مدیر عبدالصمد سربازی اور معاون مدیرمحمد حسین عنقاؔ تھے۔بعدازاں محمد حسین عنقا ؔمدیرمقرر ہوئے ۔ اخبار شعوری طور پر کسی علمی یا ادبی خدمت کا فریضہ انجام دینے سے زیادہ صحافتی امور کو بجا لاتے ہیں۔ البلوچ ، میں شایع ہونے والے مضامین کی صورت بھی خالصتاََادبی یا تحقیقی نہیں تھی۔ کیوں کہ وہ لوازمات تحقیق، اقتباس،حوالہ اور ماخذات کے کوائف فراہم نہیں کرتے تھے۔لیکن انتہائی بنیادی معلومات اپنے متن میں سمیٹے ہوئے تھے۔جنہیں معیار صحت کی بناپر محض ذاتی رائے، بیان یا تاثر قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ ان کی حیثیت جزوی اردو تحقیق کی ہے جس کی بنیادی وجہ ان حقائق کی طویل المعیاد مستحکم قبولیت ہے جن سے بعد میں محققین نے حتی الوسع استفادہ کیا ہے۔

            بلوچستان میں اردو نثر نگاری کا آغاز عملاََ اخبار البلوچ کی اشاعتوں کے بعد اس میں جستہ جستہ شامل ہونے والے اردو مضامین سے ہوتا ہے ۔جس میں صحافتی امور کے ساتھ ساتھ معاشرتی معاملات سے جڑے ہوئے مسائل بیان کیے گئے ہیں ۔ ان میں سے کچھ مضامین ایسے ہیں جن میں حقیقی اعداد و شمار کے پس منظر میں ابھرنے والی صورت حال کو زیر بحث لایا گیا ہے۔اکثر مضامین میں اعدادو شمار کا براہ راست استعمال تو نہیں ہوا ہے مگر ان سے حاصل ہونے والے نتائج کو کسی مسٔلے کے طور پر ابھار کر تجزیے کا عمل اس طرح سے کیا گیا ہے کہ اصل حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے کا ایک مضمون اخوند زادہ عبدالرحیم اچکزئی کوئٹہ کا لکھا ہوا بہ عنوان، بلوچستان میں تبلیغی مشن کی ضرورت،البلوچ ، ۱۶ِ اپریل ۱۹۳۳ع ،جلد ۱، شمارہ ۳۸ ،صفحہ ۲ پر شایع ہوا۔اس مضمون میں درست اسلامی معاشرے کے قیام کو قبائلی رسم ورواج اور لگے بندھے نظام پر فوقیت دیتے ہوئے اسلامی تہذیب کے نمونوں کو پیش کیا گیا ہے۔بلوچستان میں رائج بعض فرسودہ رسومات کو اسلام سے متصادم قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کی زندگی کے عملی پہلو نمایاں کیے گئے ہیں۔بالخصوص خواتین کے حقوق کو اجاگرکرنے کے لیے اسلامی تعلیمات سے استفادے کا عمل اسے جزوی تحقیق میں شامل کرتا ہے۔یہ مضمون اس وقت لکھا گیا ہے جب بلوچستان میں کسی بھی نوعیت کی مضمون نگاری اپنے ابتدائی قدم اٹھا رہی تھی۔نیز اس قسم کے حساس امور کو زیر بحث لانا قبائلی معاشرے کی جکڑ بندیوں میں انتہائی مشکل اور جرات مندی کا کام تھا۔ان حالات میںمصنف نے بلوچستان میں خواتین کے مسائل کو اہمیت دی ہے۔یہ تحریر مصنف کے مشاہدے سے میسر آنے والے ان اعداد و شمار کو سامنے لاتی ہے جن کی بنیاد پر انہوں نے پسے ہوئے طبقے کی نمائندگی اور ان کے لیے عملی اقدام کو وقت کا اولین فریضہ قرار دیا ہے ۔ یہی پہلو اس مضمون کو جزوی تحقیق میں شامل کرتا ہے۔ عملاََ یہ ادبی تحقیق نہیں ہے مگر اس کی جانب اس خطے میں پہلا قدم ضرور ہے۔مضمون کے آغاز میں قبائلی روایات کی حد درجہ پابندی کو مذہبی لاعلمی سے تعبیر کیا گیاہے۔ اس تناظر میںجرگے کے یک رخی کردار پر چوٹ کی ہے جو ان روایات کو شریعت پر مقدم سمجھتا ہے ۔وہ لکھتے ہیں:

’’سر زمین بے آئین بلوچستان میں جہانپر سیاسی امور کے متعلق نا واقفیت کا ابر محیط ہے وہاں پر مذہبی امور پر رواجوں کو ترجیح دیجاتی ہے،عوام الناس بلوچستان میں رواجوں کو ترویج دینا گو وہ مذہب کے صریحی طور سے خلاف کیوں نہوں فخر سمجھتا ہے،مذہبی لاعلمی کی وجہ سے ہم اسقدر رواج پسند ہو گئے ہیں کہ ہمارے سیاست داں بھائی جرگہ میں بجائے تنسیخ رواج اس نقصان دہ چیز کو کتابی صورت میں اہالیان ِ جرگہ کے لئے بطور قانون پاس رکھوانیکے خواہشمند ہیں‘‘        ۱؎

قبائلی جرگے کا اہم سماجی ذمے داریوں سے صرف نظر کرنا مصنف کے مشاہدات اور عوام الناس کے انفرادی اور اجتماعی رد عمل کا نتیجہ ہے۔لہذامصنف نے سوال اٹھاتے ہوئے یہ بحث بھی کی ہے کہ کیا جمہوریت کو شوریٰ شرعی کی ترتیب نہیں دے سکتے ؟ خاص طور پر جب معاملہ خواتین کے حقوق کا ہو تورویہ سرد ہو جاتاہے ۔اس سلسلے میں مصنف لکھتے ہیں:

’’وہ اپنی بے زبان عورتوں کو حق وراثت کے حقدار تصور کریں ، اور انکو وراثت دیا کریں، کیا یہ انکی دلی تمناہے؟اور کیا اس دلی تمنا کو پورا کرنیکے لئے انکے محض الفاظ ہی صفحہ ٔ قرطاس پر ان بے زبان عورتوں کے حقوق دلوانے کیلئے کافی ہیں، جو انہوں نے قوم کے5فیصدی اخبار بین اصحاب کو بذریعہ اخبار پہنچائے ہیں، اگر جواب نفی میں ہے،تو کیا یہی حساس طبقہ کچہہ عملی کام کرنے کے لئے بھی تیار ہے، میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے آئمہ مساجد بعض موقعوں پر جم غفیر کے سامنے عربی کے دراز خطبے پڑھتے ہیں اور عوام الناس کے وقت عزیز کو نہایت بیرحمی سے ضایع کرتے ہیں اور اس موزون موقعہ کو نہایت لا اُبالی سے گزارتے ہیں۔کیا آج ہماری اس موجودہ کمزوری کا صحیح علاج یہی ہے کہ ہم ان پڑھ لوگوں کے سامنے عربی کے دراز خطبے سناتے رہیں؟‘‘     ۲؎

اسلامی معاشرے میں خواتین کے حقوق اجاگر کرنے کا موضوع اس وقت نیا نہیں تھا جب یہ مضمون لکھ کر چھپوایا گیا تھا۔مگر بلوچستان کے تناظر میں اس نوعیت کا مواد نا پید تھایا لکھا ہی نہیں گیا تھا۔اس لیے مصنف کی یہ تحریر اپنے سماجی ڈھانچے کے عینی شاہد کے طور پر وجود میں آئی ہے۔جس میں حقیقت حال کی دریافت وہ زاویہ نگاہ ہے جو اس مضمون کو جزوی طور پر ایسی تحقیق بناتا ہے جس میں اس زمانے کے رائج لوازمات تحقیق موجود نہیں ہیں۔صاحب مضمون کا مطمحٔ نظر کوئی تحقیقی نمونہ پیش کرنا نہ تھا ۔نہ ہی اردوکی کسی ادبی صنف نثر کی ترویج مرکز نگاہ تھی۔بل کہ ان کا ہدف عوامی بے داری ہے ۔بالخصوص خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانا اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے جو انداز اختیار کیا ہے وہ مربوط اور منطقی استدلال کا حامل ہے۔جا بجا اٹھائے گئے سوالات اس نکتے پر دلالت کرتے ہیں کہ ان کا مشاہدہ ،مطالعہ اور تجزیہ عمیق ہے۔ جو تحقیق روش کا آئینہ دار ہے۔ یہ جس عہد میں لکھا گیا ہے اس دور میں بلوچستان کے ادبی پس منظر میں آج کے رائج طریقہ تحقیق کی کھوج یا جستجو کرنا موزوں نہیں ہے۔

            مضمون ،تحصیل مرام بہ طریق اعتصام ،مولوی نور محمد بلوچ معتصم بااللہ پنجگوری کا لکھا ہوا ہے۔ جوالبلوچ ۱۶ِاپریل ۱۹۳۳ع کے صفحہ۵ پر شایع ہوا۔اس کاموضوع اتحادو یک جہتی ہے ۔خصوصی طور پر مخاطب اہل بلوچستان ہیں ۔مصنف نے اپنی بات قرآن پاک کے چار مختلف حوالوں کے ذریعے مدلل انداز میں پیش کی ہے۔ جو اقتباس کے استعمال کی ہی نہیں تحقیقی مزاج کی مثال بھی ہے ۔وہ تحریر کرتے ہیں:

’’اس فیاض ازل( جسکی نعمتوں اور رحمتوں کا دریا بے پایاںہے،جسکی یاد ہر دل کی روشنی ہے)کی تلقین سے بول اٹھتا ہے کی متیٰ نصَرُاللہ وہ امداد الٓہی جو ہر مظلوم کے استغاثہ کی منتظر رہتی ہے کب آئیگی جسکے سوا اب کوئی وسیلہ نہ رہا ،تو اچانک فرشتہ حمایت اسکا بازو پکڑتا ہوا ساحل مرام پر پہنچا کر کہتا ہے اَلاَاِنَ نَصرَاللہ ِقرَِیب خبردار بیشک مددِ خدا وندی ہر امیدوار کے ساتھ ساتھ ہے۔‘‘       ۳؎

یہ مضمون اسلوبیاتی سطح پر ادبیت کا حامل ہے۔اس کے طرز نگارش میں تمثیلی رنگ ملتا ہے جو اس وقت کی مقبول تیکنیک سمجھی جاتی تھی۔ صاحب مضمون نے اسی ڈھب کو اختیار کیا ہے۔ جو موجودہ تحقیقی اسلوب سے لگا نہیں کھا تالیکن تحقیق کی خو رکھنے اور بلوچستانی صحافت کے پس منظر میں انتہائی بنیادی مسائل کی طرف توجہ دلاتا ہے۔اتحاد ویکجہتی اس عہد کی ہی نہیں ہر دور کی اشد ضرورت ہے۔جسے اس مضمون میں قرآنی آیات اور ان کے اردو تراجم کی روشنی میں راسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اگرچہ آیات کے ذیل میں سورت کا نام ،رکوع نمبر اور آیت نمبر نہیں لکھے گئے ہیںمگر یہ عمل اپنی ساخت میں تحقیق کی طرف پیش قدمی کی دلالت کرتاہے۔

            مضمون ،مختصر حالات خوانین قلات ،مصنف نا معلوم میں خان قلات میر محمود خان کے افراد خانہ کے حالات،باہمی نااتفاقی، ان کی نجی زندگی کا احوال اور وفات تک کی صورت حال کا بیان ہے۔یہ اردو زبان میں دریافت ہو نے والا بلوچستان کے پس منظر میں ابتدائی غیر ادبی مطالعہ احوال ہے ۔جس میں تاریخ خوانین قلات کے متفرق پہلو ،امرا میں قتال وجدال کے سلسلے اور مختلف حکمرانوںکے اقتدار و زوال کی داستان کو سنین کے ساتھ درج کیا گیا ہے۔ مختصر حالات زندگی کے اہم نکات کا بیان اس ادھوری تحقیقی روایت میں پیش قدمی ہے جو مضمون ، بلوچستان میں تبلیغی مشن کی ضرورت ، سے شروع ہوا تھا۔مضمون نویس بیان کرتے ہیں :

’’میر محمود خان بنفسہٖ خوب انسان تھاچناں چہ سخاوت و شجاعت میں نامور تھا،مگر چوں کہ باپ اس کا تین اولاد نرینہ اور دو دختران چھوڑگیا تھا ،ایک دختر میر نصیر خان بی بی زینب جسکا نام اس ملک میں بنام بی بی صاحبہ مشہور ہے مردوں سے کم نہ تھی،اس خاندان میں نااتفاقی پیدا ہوئی، چنانچہ مصطفیٰ خان کو محمد رحیم خان نے موقع شکار علاقہ کچہی میں قتل کیا۔جسکا روضہ بہاگ میں موجود ہے اور محمد رحیم خان فرار ہو کر داجل میں گیا،وہاں کا خود مختار حاکم بن گیا، پھر کچہہ عرصہ بعد علاقہ کچہی میں آیا جسکو بی بی صاحبہ نے مروا دیا ،پھر بی بی صاحبہ خود محمود خان سے بر خلاف ہو گئی۔‘‘    ۴؎

گو کہ یہ مضمون تاریخی شخصیات کامطالعہ احوال ہے مگر حوالہ جاتی عمل نہ ہونے کی وجہ سے اس کاتحقیقی دائرہ کار محدود ہو گیاہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مصنف نے اسے ادبی تحقیق کے نقطہ نظر سے نہیں لکھاہے۔ دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض ایسی معلومات جو پہلے کبھی رقم ہی نہیں کی گئی ہوں ان میں حوالے کی موجودگی کیسے ممکن ہے؟یہ مضمون اسی نوع کا ہے جس میں بیان کردہ معلومات کسی بلوچستانی کے قلم سے اردو میں پہلی بار تحریر کی گئی ہیں۔

            درج بالاتمام مضامین نے تحقیق کے میدان میں یہ خدمت ضرور انجام دی ہے کہ بلوچستان کے لکھنے والوں میں تحقیقی شعور کے بعض میلانات کے دروازے کھولنے کی کوششیں ایک کے بعد ایک سامنے آئیں۔اس پس منظر میں ہفت روزہ البلوچ کاشمارہ۳۸، جلد ۱ ،۱۶ اپریل ۱۹۳۳ع انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ تحقیق آشنائی کے ۳ مضامین اسی شمارے میں شایع ہوئے ۔اس کی پزیرائی میں ۱۴ مئی ۱۹۳۳ع میں طبع ہونے والا مضمون بہ عنوان ،کوئٹہ ،سامنے آیا۔جس میں سند ،حوالہ نگاری اور اصل ماخذ کے تحت ایسی مضمون نگاری کی گئی ہے جو تحقیقی درجہ بندی میں نسبتاََ بلند معیار کو سمیٹے ہوئے ہے۔مصنف نے دستاویزی ثبوت کے طور پر احمد شاہ ابدالی کے فارسی حکم نامے کی نقل محررہ ۱۵ صفر ۱۱۵۴ھ کو اصل ماخذ کے طور پر پیش کیا ہے۔ثبوت کے طور پر نقطہ دار دائرے کے اندر احمد شاہ ابدالی لکھا ہے۔جو اصل حکم نامے میں ثبت مہر کی کتابت شدہ نقل ہے۔ اصل متن سے استفادے کے طور پر مصنف نے جس کانام تحریر میں موجود نہیں ہے ،اپنے سوال درج کیے ہیںاور ماخذ کی مدد سے ان کا تاریخی شہادتوں کے تجزیے کے بعد جواب دیا ہے۔ابتدا میں کوئٹہ کا نام کوئٹہ کیوں ہے؟ کا سوال اٹھاتے ہوئے نام کی وجہ تسمیہ پشتو زبان کے لفظ کوٹ ،بہ معنی قلعہ بیان کی ہے۔یہ شہر چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھرے ہونے کی باعث قلعہ نما شکل اختیار کر لیتا ہے اس لیے اس کا نام کوٹ مشہور تھا ۔مرہٹوںکے خلاف احمد شاہ ابدالی کی فتح ہوئی ۔اس جنگ میںخان قلات میر نصیر خان نے نہ صرف معاونت کی بل کہ خود حصہ بھی لیاجس کی وجہ سے زخمی ہوئے۔احمد شاہ ابدالی نے میرنصیر خان کی والدہ کو یہ علاقہ بہ طور خلعت، صلے میں دیاتھا۔خلعت کی یہ طرز پشتو میں ’’شال‘‘ کہلاتی ہے۔چناں چہ اس رعایت سے علاقہ شال کوٹ مشہور ہوا۔ وہ وجہ تسمیہ یو ں رقم کرتے ہیں:

’’وجہ تسمیہ اسکا یہ ہے کہ پشتو زبان میں کوٹ قلعہ کو کہتے ہیںیہ قطعہ میدان جس میں کوئٹہ آباد ہے، قدرتاََبمثل قلعہ کے ہے،اسکے چارونطرف پہاڑ ہیں ،فقط چند راستے آمدورفت کے لئے قدرتی طور پر کھلے ہوئے ہیں،اس واسطے اس کا قدیم نام کوٹ تھا،لیکن احمد شاہ ابدالی نے بہ عوض خدمات میر نصیر خان کلان بصلہ جنگ ہمراہ علی مراد خان مغل حاکم علاقہ مشہد و حملہ آوری احمد شاہ بر ملک ہندوستان اور مرہٹوں کی لڑائی میں جس میں نصیر خان بذات خود زخمی ہوا تھا علاقہ کوٹ کو والدہ میر نصیر خان کو بطور خلعت دیا،عورتوں کو جو بادشاہوں یا امیروں سے خلعت دیجاوے ان کو بلوچی میں سری ہندی میں چادر اور پشتو میں شال کہتے ہیں،لہٰذاعلاقہ مذکورہ کا نام شال مشہور ہوااور تب سے شال کوٹ کہلانے لگا‘‘              ۵؎

بلوچستان کے مشہور شہر کوئٹہ کے نام کے بارے میں مستند شہادتوں کے ذریعے اردو تحقیق نگاری نے جو کروٹ لی تھی اس کا ثمر اردو کی ادبی اور لسانی تحقیق کے آغاز کی صورت میںظاہر ہوا۔

            ہفت روزہ ،بلوچستان ،کراچی ،۲۴جنوری ۱۹۳۷ء ،جلد ۲،شمارہ۳،کالم ۱۔۴،ص ۲بقیہ ص ۶پر،مسلمان سلاطین و امراء کا تعلیمی ذوق و شوق ،کی سرخی لگاکر محمد عبداللہ کا مضمون شایع کیا گیا ہے ۔یہ مضمون بنیادی طور پر منتخب مسلم سلاطین کی تعلیمی خدمات پر لکھا گیا ہے۔پس منظر میں ہندستانی معاشرہ تھا جس میں مسلمان سر سید تحریک کے باوجود پیچھے رہ گئے تھے۔شبلی نے مسلمان مشاہیر کی شخصیات کی سوانح عمر یاں لکھ کر مختلف زاویوں سے فکر اسلامی کے احیا کی کوششیں کیں۔بعد کے بیشتر مضمون نگاروں نے شبلی ہی کی لکھی گئی سوانح کوتلخیص یا خلاصوں کی شکل میں پیش کیا۔تاکہ احیاء کا فکری عمل رکنے نہیں پائے۔اسی زاویہ نگاہ سے مضمون نگار نے اپنے مضمون کا موضوع منتخب کیااور بہ طور تمہید جامعہ نظامیہ طوسی بغداد اور اسلامی دنیا میں اس وقت اس سے منسلک تعلیمی اداروں کی تفصیل بیان کر کے مسلم حکمرانوں کی تعلیمی خدمت کو اجاگر کیا ہے۔لیکن اصل متن میں دس شخصیات ،خلیفہ المستنصربااللہ عباسی،نورالدین محمود زنگی،صلاح الدین ایوبی،الملک الظاہرابوالفتح غازی،خاندان اتراک و چراکسہ کے عبدالباسط،ملک اشرف،ابن الناصر،سلطان غیاث الدین،سلطان محمد فاتح اورسلطان محمود غزنوی کاتعلیمی مدارس کے قیام اور ان میں فراہم کردہ سہولیات کا عہد بہ عہد ذکر کیا ہے۔ جس کامقصد بلوچستان ہی نہیں بر صغیر کے تمام نوابین اور عمائدین کو یہ پیغام دینا تھا کہ اگر وہ اپنا نام تاریخ کے اوراق میں روشن رکھنا چاہتے ہیں تو ان سلاطین کے نقش قدم پر چلیں۔ تعلیم کو عام کرنے کے لیے اپنی مالی و سیاسی قوتیں صرف کرتے رہیں۔جو وہ بالعموم نہیں کرتے ہیں۔اس پس منظر میں وہ تحریر کرتے ہیں:

’’بلوچستان کے مستقبل قریب کا مورخ نہایت حسرت اندوہ کے ساتھ تمہاری فرض شناسیوں کا ذکر کرے گا ۔اور آئندہ نسلیں ، غم و غصہ کے ساتھ تمہاری داستان غفلت کو پڑھیں گی اور سب سے زیادہ یہ کہ جبار وقہار خدا کے سامنے تم کچہہ جواب نہیں دے سکو گے۔‘‘ ۶؎

            یہ تحریر اپنی تنظیم ، ترتیب ،انتخاب عنوان اور مواد کی فراہمی کے اعتبار سے بلوچستان میں ایک نئی سمت کا تعین کرتی ہے۔جس میں تاریخی ماخذات کے کثیر مطالعے کے بعد اپنے موضوع سے ہم آہنگ معلومات و حقائق کو دریافت کیا گیاہے ۔متعلقہ سنین کا اندراج بھی ہے۔صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے تاریخ نویسی کے اہم وصف ، دیانت داری کو ملحوظ رکھا ہے ۔ ماسواے مقامات اور اشخاص کے ناموں کے ،اسلوب بیان تاریخی ہونے کے باوجود عام فہم ہے۔ اسلوب کا اہم نکتہ یہ ہے کہ اختصار بیان کے باوصف حقائق کو منظم شکل میں اپنے مقاصد سے مربوط کر دیا ہے۔متن کو مختلف اجزا میں تقسیم کیا ہے۔ جس کو زمانی ترتیب میں شخصیات سے منسلک کرتے ہوئے مذکورہ شخصیات کے ناموں کے عنوانات قائم کیے ہیں۔یہ تحریر شبلی کے مضمون ،مسلمانوں کا قدیم طرز تعلیم ،میں اضافہ ہے اور اسی مقصد کو آگے بڑھاتی ہے جو شبلی کے پیش نظرتھا۔

             بلوچستانیوں کے اردو اخبارات میںاردو تحقیق کی جو کچی پکی اپچ سامنے آئی تھی اس نے ۴ سال کے قلیل عرصے بعد خالص اردو لسانی تحقیق کی طرف مثبت پیش قدمی کی۔یہ نمونہ محمد حسن نظامی بلوچ کے مضمون ،طاق اور بین السطور کے الفاظ پر لغوی بحث کی صورت میں سامنے آیا۔جو ہفت روزہ، بلوچستان، کراچی، ۲۴ جولائی ۱۹۳۷ع،جلد ۲،شمارہ ۲۳،کالم ۱۔۴،ص۶پرشایع ہوا ۔اس میں لفظ طاق اورایک مرکب بین السطور کو بنیاد بنا کر علمی بحث کا اس طرح آغاز کیا ہے کہ پہلے ان کے وہ معنی دیے ہیںجن سے عام لوگ آشنا ہیں۔پھر شیخ سعدی،طالب آملیؔ،احدیؔ،مرزا صائبؔ،خواجہ نظامی ؔ،محمد قلی سلیمؔ،اقبالؔ،ظفر ؔعلی خان اور علامہ مشرقیؔکے فارسی اشعار اور نثری نمونے بہ طور سند لکھ کر یہ ثابت کیا ہے کہ طاق کے معروف معنی الماری کے لیے جاتے ہیں۔ مگر ایسے اساتذہ جنھیں مستند سمجھا گیا ہے ان کی نظر میں اس لفظ کے معنی کشادہ اور بڑے محرابی دروازے کے ہیںجو بڑے گھروں کی بیرونی دیوار میں آنے جانے کے لیے لگائے جاتے ہیں۔ ایسے دروازوں کے اوپر صاحب خانہ اپنے ذوق کے مطابق قرآنی الفاظ،آیات یا معروف شعرا کا مقبول کلام آویزاں کرتے ہیں۔اسی طرح بین السطور کے معنی تحتی ترجمے کے لیے جاتے ہیں۔مگر سکہ بند لوگوں نے اسے عمیق اور معنی خیز مطالعے کے معنوں میںاستعمال کیا ہے۔اس پر بحث کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

ـ’’باقی رہا بین السطور کا لفظ سو اس کے متعلق عرض ہے کہ عارف ہند سر اقبال اپنی ایک تصنیف میں جس کا ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے ’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘کے عنوان سے کیا ہے صفحہ اول پر لکھتے ہیں:۔’’جب ہماری نظر ارتقاکے الم ریز جھمیلوں میں سے چھنتی ہوئی…….رزمیہ بین السطور پر پڑتی ہے ‘‘اس جملے میں نہ علامہ اقباؔل اور نہ مولانا صاحب اور معنی لیتے ہیں۔جس پر میرے احباب کو بے جا اصرار ہے۔علاوہ ازیں علامہ مشرقیؔ اپنے ایک دوست کو ایک مکتوب میں جو اخبار مدینہ کی اشاعت ۳ ۱پریل ۳۷ء ص ۱۱کالم اول میں شائع ہوا ہے لکھتے ہیں کہ :۔

’’تاریخ کا مطالعہ ایک سطروں کا ہے اور ایک بین السطور کا مطالعہ ۔معلوم ہوتا کہ آپ بین السطور مطالعے کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔‘‘ان جملوں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ لفظ بین السطور کے معنی وہ ہیں جو میرے احباب چاہتے ہیں۔‘‘ ۷؎

یہ مضمون اپنی نہج، طرز استدلال ،معنی آفرینی اور عام معلومات کو محققانہ انداز میں زیر بحث لا کر نئی معلومات کی بنیا دیں قائم کرتا ہے۔بنیادی موضوع مباحث لغت اورمعنی پر مبنی ہے ۔جو اس عہد کے اہل علم کا اگرچہ مرغوب موضوع تھا مگر بلوچستان میں اس سے پہلے ایسی ادبی ولسانی تحقیق کی کوئی نظیر موجود نہیں تھی ۔جس میں اس عہد کے اردو تحقیق کے رائج ضابطوں کو دیانت داری ،ریاضت اور معنی فہمی کی مشقتوں سے گزر کر برتا گیا ہو۔سند کے لیے مستند فارسی اردو شعرا ومفکرین کے اشعار اور تحریروں سے استفادہ کر کے تقابلی مطالعے کے بعد نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ البتہ تمام ماخذات اور مصادر کو پیش کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عہد میںاردو کی عمومی تحقیق کا یہی اندازرائج تھا۔اس تحقیق کی زبان اور انداز بیان میں کہیں کہیں یہ ابہام ہے کہ قاری فوراََ مطالب کی اصل سطح تک نہیں پہنچ پاتا۔ اس سب کے باوجود یہ بات خوش آئند ہے کہ اس عہد کا بلوچستانی نثر نگار اردو ادبی تحقیق سے نہ صرف واقف تھا بلکہ عملی طور پر تحقیق کو اپنائے ہوئے تھا۔اردو تحقیق کے اس وقت جاری سفر میں کئی نشیب و فراز آئے مگر اس مقام سے قدم آگے نہیں بڑھ سکے جہاں تک محمد حسن نظامی بلوچ نے اسے پہنچایا تھا۔دستیاب مواد کے مطابق طویل وقفے کے بعد بلوچستان میں اردو کی ادبی تحقیق کا اصل اور جدید مرحلہ اس وقت سامنے آیا جب کامل القادری کا محققانہ مطالعہ اورنٹیل کالج میگزین میں بہ عنوان براہوی اور اردو ۱۹۶۲ع میں طبع ہوا۔اس سنگ میل تک پہنچانے کی نتیجہ خیز کوششیں۱۶اپریل ۱۹۳۳ع سے شروع ہوئی تھیں۔بلوچستان میںاردو تحقیق کی یہ ابتدائی روایت آج مستحکم ہو کر اردو تحقیق کے بڑے دھارے سے جڑ چکی ہے۔

حوالے

۱۔ عبدالرحیم، اچکزئی، اخوندزادہ، بلوچستان میں تبلیغی مشن کی ضرورت ،مشمولہ البلوچ ،ہفت روزہ، کراچی ، ۱۶ِ اپریل ۱۹۳۳ع ،جلد ۱، شمارہ ۳۸،ص ۲ ۔

۲۔ عبدالرحیم، اچکزئی، اخوندزادہ، ایضاََ،مشمولہ البلوچ ،ہفت روزہ، کراچی ، ۱۶ِ اپریل ۱۹۳۳ع ،جلد ۱، شمارہ ۳۸،ص ایضاََ۔

۳۔نور محمد ،معتصم بااللہ،بلوچ ، پنجگوری ، مولوی،تحصیل مرام بہ طریق اعتصام ،مشمولہ البلوچ ،ہفت روزہ، کراچی ، ۱۶ِ اپریل ۱۹۳۳ع ،جلد ۱، شمارہ ۳۸،ص ۵۔

۴۔مصنف نہ دارد، مختصر حالات خوانین ِقلات،مشمولہ البلوچ ،ہفت روزہ، کراچی ، ۱۶ِ اپریل ۱۹۳۳ع ،جلد ۱، شمارہ ۳۸،،ص۷۔

۵۔مصنف نہ دارد، کوئٹہ ،مشمولہ البلوچ،ہفت روزہ،کراچی،جلد ۲،شمارا ۲،۱۴ مئی ۱۹۳۳ع،ص۷۔

۶۔ محمد عبداللہ ، مسلمان سلاطین و امراء کا تعلیمی ذوق و شوق ، مشمولہ بلوچستان ،ہفت روزہ ، کراچی ،جلد ۲،شمارہ۳،کالم ۱۔۴،۲۴جنوری ۱۹۳۷ع،ص ۲۔

۷۔محمد حسن ،نظامی، بلوچ ،طاق اور بین السطور کے الفاظ پر لغوی بحث،مشمولہ بلوچستان، ہفت روزہ ،کراچی ، ۲۴ جولائی ۱۹۳۷ع،جلد۲،شمارہ ۲۳،ص۶۔

*****

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.