کرشن چندرکا ڈرامہ” بیکاری “: ایک مطالعہ
ڈاکٹر عارفہ بیگم
اسسٹنٹ پروفیسر،شعبۂ اردو،ایس۔ایس۔ کھنہ گرلس ڈگری کالج الٰہ آباد
بین الاقوامی سطح پر دنیا میں طر ح طرح کے مسائل موجود ہیں۔ ان ہی مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ بے روزگاری بھی ہے۔ہندوستان بھی ان ممالک میں سے ایک ہے جس کو بے روزگاری کے آکٹوپس نے جکڑ رکھا ہے۔ ہمارا ملک ایک ترقی پذیر ملک ہے ۔ ترقی پذیر ملکوں کے لئے روزگار کے وسائل پیدا کرنا اور سبھی کو روزگار مہیہ کرانا ایک مشکل امر ہے۔ موجودہ عہد میں ہم بظاہر تو بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن اگر ہم روزگار مہیہ کرانے سے متعلق ڈاٹا(Data)پر غور کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک کا ایک بڑا طبقہ آج بھی بے روزگاری کا شکار ہے اور اس میں سب سے زیادہ تعداد تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ کی ہے ۔ ایک طرف اگر ہم دیکھیں تو ہم تعلیمی معاملات میں آگے بڑھ رہے ہیں لیکن بے روزگاری کے مسائل کے ہم آج بھی شکار ہیں۔
ہم سبھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ادب اور ادیب دونوں ہی سماج سے ضرور متاثر ہوتے ہیں چنانچہ بے روزگاری کے اہم موضوع کو کرشن چندر جیسے اعلیٰ پائے کے تخلیق کار کا ڈرامے میں پیش کرنا غیر فطری نہیں۔ کیونکہ ادیب سماج کا فرد ہوتا ہے او فرد سماجی مسائل سے متاثر ضرور ہوتا ہے۔
کرشن چندر نے اس ڈرامے میں بے روزگاری کے سبب پیدا ہونے والے مسائل اور سماج پر اس کے مضر اثرات کو دکھانے کے ساتھ بے روزگار نوجوانوںکی نفسیات کا بھی تجزیہ کیا ہے۔
بیکاری کرشن چندر کا یک بابی ڈراما ہے جو اکتوبر ۱۹۳۷ء میں لاہور میں پیش کیا گیا ۔ڈرامے کے کردار بھیا لال،شیام سندر،اظہر اور سپاہی ہیں۔ان تین بے روزگارنوجوانوں کو ہی مرکز بنا کر ڈراما تیار کیا گیاہے۔ڈرامے کی ابتدا ہندوہاسٹل کے کمرہ نمبر ۴۴ سے ہوتی ہے جہاںشیام سندر پریشانی کے عالم میں بیٹھا سگریٹ پہ سگریٹ پھونک رہا ہے اسی درمیان بھیا لال جو کہ دبلا پتلا نوجوان ہے اور چہرے مہرے سے بیمارلگتاہے کمرے میں داخل ہوتا ہے یہ نوجوان ایم۔اے۔ پاس ہے لیکن بے روزگاری کے سبب پریشان ہے۔بھیلا لال اورشیام سندر کی گفتگو سے اندازہ ہو تا کہ بھیا لال پندرہ روپئے مہینے کے عوض ڈاکٹر گھنشیام لال کی بیوی کو ٹیوشن پڑھاتا ہے جو انتہائی کوڑھ مغز ہے ۔شادی اوردو بچوںکی پیدائش کے بعد ابھی تک ایف۔اے۔ میں پڑھ رہی ہے ۔بھیالال آج بہت خوش ہے اورخوشی کی وجہ یہ ہے کہ اس نے آج ڈاکٹر کی بیوی سے بدلہ لے لیا جس نے اس کی صورت دیکھتے ہی تپ دق کا مریض سمجھا تھا اور اسے آرام کرنے کی نصیحت کی تھی۔ڈاکٹر کی بیوی کم عقلی کو بھیا لال نے خراب صحت کی وجہ قررا دیتے ہوئے اپنا تین مہینے پہلے کا بدلہ پوراکر لیا۔اسی بیچ ایک دہرے بدن کا نو جوان سوٹ پہنے کمر میں داخل ہوتا ہے اس نام اظہر ہے اس کے ہاتھ میںایک تار ہے جسے اس کے دوست امجد نے بھیجا ہے۔ امجد کو بی۔ٹی۔ کرنے کے بعد الہ آباد میونسپل میں ۳۵ روپئے مہوار کی نوکری مل گئی ہے۔
بھیا لال کی زبانی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ہم جماعت کیلاش جو بی۔اے۔میں فیل ہو گیاتھا اب اپنے باپ کے کارخانے میں مینیجر ہے اور کار میں گھوم رہا ہے ۔بھیا لال کو اس بات کا شدید افسوس ہے کل تک جوشخص انگریزی کا جواب اور مضمون اس سے صحیح کراتا تھاآج وہ اسے رحم بھری نگاہوںسے دیکھتا ہے اور پوچھتا ہے کہ آج کل کیا کرتے ہو؟اسی درمیان یہ بات کھلتی ہے کہ شیام سندر مسعود کی طرف سے پریشان ہے جو نوکری کی تلاش میں اس کے پاس ٹھہراہوا ہے لیکن کل سے ابھی تک لوٹا نہیںہے یہ سن کر بھیا لال اوراظہر شیام سندرکو تسلی دیتے ہیں اظہر ان دونوںکو پروفیسر رچانند کے لیکچر کا حوالہ دیتے ہوئے بتاتا ہے ۔پروفیسر صاحب کہہ رہے تھے کہ یہ بیکاری تعلیم یافتہ طبقہ کی آرام پسندی کی وجہ سے ہے چنانچہ پڑھے لکھے لوگوں کو چھوٹے موٹے کام بھی کرنا چاہئے مثلاً گھی کی دکان کھولنا،مونگ پھلی کی تجارت، بوٹ پالش وغیرہ ہنسی ہنسی میں یہ تینوں دوست بہت سے تجاویز بھی زیر بحث لاتے ہیں جیسے اخبار نکالنا، ہوٹل کھولناوغیرہ لیکن یہ سب کرنے کے لئے ان کے پاس رو پئے نہیں ہے ان کے پاس اب صرف ایک ہی تدبیر رہ جاتی ہے کہ وہ کسی مالدارکی بیٹی سے شادی کر لے۔مذاق میں شیام سندر لال آنکھیں بند کر کے کہتا ہے کہ ایسی عورت اس کی نظر میں ہے لیکن جب اس کی دوست اس بارے میں پوچھتے ہیںتووہ آنکھیں کھول کر کہتا ہے کہ ارے کہاں چلی گئی؟اس جملے میں بھی دراصل ان تینوں کرداروں نے اپنے آپ کو ہی ہدف بنایاجس کا سبب ان کی بے روزگاری ہے۔شیام سندر کا یہ جملہ سن کر تینوں دوست ہنسنے لگتے ہیں ۔اسی اثنا میں شیام سندر کو تلاش کرنے ایک سپاہی داخل ہوتا ہے جو یہ اطلاع دیتا ہے کہ مسعود نے ریل گاڑی کے نیچے آکر خود کشی کر لی ۔وہ اسپتال چل کر لاش کی شناخت کر لے۔مسعود کی موت کی خبر کے ساتھ ڈرامے کا اختتام ہو جاتاہے۔
زندگی کے ایک بہت اہم مسئلے کو کرشن چندر نے ڈرامے کا موضوع بنایا۔مسعود کی خود کشی کے ساتھ ڈراما ختم نہیںہوتا بلکہ ایک نہایت نازک مسئلہ اہم سوال کی شکل میں تبدیل ہو کر ہمارے سامنے آ تا ہے۔ تحریک آزادی کے بعد ملک میں دولت کی جس طرح بندر بانٹ ہوئی اور نئے دولتمندوں کا ایک ایسا طبقہ سامنے آیا جس کا مقصد سماج کے تمام وسائل پر قبضہ کرنا تھا چنانچہ یہ وسائل کچھ خاص لوگوںتک ہی محدود رہ گئے اور متوسط طبقہ گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور رہا۔اس کی قابلیت بھی کہیںکام نہ آئی۔لائق افراد پر نالائق کو تر جیح دی جانے لگی۔جس کے سبب رشوت کا بازار گرم ہوا بد عنوانیوں نے دیمک کی طرح سماج کو چاٹنا شروع کر دیا۔آزادی سے جو امیدیں لوگوں کی وابستہ تھیں ٹوٹ گئیں صرف اہل اقتدار ہی تبدیل ہوئے سماجی نظام وہی رہا استحصال جاری رہا۔قابلیت کی جگہ رشوت اور سفارش نے لے لی۔دھیرے دھیرے سماج میں بد عنوانی اس قدر پھیل گئی کہ انسان تصور کرنے لگاکہ کامیابی کا راستہ صرف رشوت اور سفارش ہے چنانچہ جنھیں یہ حاصل نہ ہوا انھوں نے موت کی آغوش میں پناہ لے لی۔
ڈرامے میں مسعود کا خودکشی کر لینا انسانی نفسیات کے اس پہلو پر روشنی ڈالتا ہے کہ بے روزگاری اور اس کے سبب پیدا ہونے والے مسائل سے انسان کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت معدوم ہونے لگتی ہے تو وہ انسان کو خودکشی کے عمل پر مجبور کر دیتی ہیں۔ یہ مثل مشہور ہے کہ ’’خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے‘‘ اور بھوک انسان سے بڑے سے بڑا جرم کر لیتی ہے۔ کیونکہ ایسے حالات میں انسان کا ذہن صحیح اور غلط کی تمیز کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔
ماہرین نفسیات کے مطابق ایسے حالات میں انسانی ذہن یا تو جرم کی طرف مائل ہوتا ہے یا مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جاتا ہے۔
بظاہر بے روز گاری جیسے موضوع پر یہ ایک سیدھے سادھے پلاٹ پر مبنی ڈراما ہے لیکن ڈرامے کا انجام بہت سارے ان کہے سوالوں کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے ۔ڈرامے میں کرشن چندر عصری زندگی کے مسائل کو پیش کرنے میں کامیاب ہیں ڈرامے کے مکالمے معنویت سے پر ہیں۔ملاحظہ ہوں :
’’مجھے بتاتے ہو شیام سندر؟تیسری جماعت کا سبق دہرا رہے ہواس میں تو اور بھی کئی نکمی اور جھوٹی باتیں لکھی ہے مثلاً ورزش نہایت اچھی ہوتی ہے ،جھوٹ بولنا گناہ ہے، دیانت داری بڑی نعمت ہے،دوسرے کی چیز پرنگاہ نہ ڈالو۔سب بکواس، سفید جھوٹ اس دورمہاجنی میں تم کر بھی کیا سکتے ہو۔‘‘
(ڈراما بیکاری از کرشن چندر ص ۷۹)
اس اقتباس کا یہ مکالمہ کہ تم کر بھی کیا سکتے ہو ان بے روز گار نوجوانوںکی بے بسی اور بے کسی کو ظاہر کر دیتا ہے اور یہی بے بسی اور مایوسی مسعود جیسے نوجوانوں کو خودکشی پر مجبور کرتی ہے۔موجودہ عہد میں نوجوانوںکا ایک بڑا طبقہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگاری کا شکار ہے اور آئے دن مسعود جیسے نہ جانے کتنے بے روزگار مایوسی میں ڈوب کر خودکشی کر رہے ہیں۔ کرشن چندر نے جس موضوع کے ذریعہ سماج کے ایک مسئلہ کو اٹھایا ہے وہ کوئی عام مسئلہ نہیںکیونکہ خودکشی جیسے عمل کا گراف ہماری ترقی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ آج آزادی کے ۷۵ سال پورے ہونے کے باوجود اگر موجودہ نظام روزگار مہیہ کرانے میں ناکامیاب ہے تو قابل غور بات یہ ہے کہ ہم آج بھی اس مسائل کا شکار کیوں ہیں؟کرشن چندر کے اس ڈرامے کی عصری معنویت اس لئے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ آج بھی ہمارے ذہن میں بے روزگاری کے مسائل پر سوال اٹھارہی ہے اور ایک اچھے تخلیق کار کی خوبی ہوتی ہے کہ اس کی تخلیق ہر عہد میں اتنی ہی معنویت کی حامل ہو جتنی اس کے اپنے عہد میں تھی۔
کرشن چندر کا یہ ڈراما اس نقطۂ نظر سے آج بھی کامیاب ہے۔
٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!