بیسویں صدی کی خواتین سفر نامہ نگار: ایک جائزہ
ڈاکٹر عرش ؔکاشمیری
گورمنٹ ڈگری کالج وترسواننت ناگ کشمیر
9797214572
بیسویں صدی اردو سفر نامہ نگاری کے اعتبار سے ایک اہم صدی مانی جاتی ہے اس دور میں بہت سے عمدہ اور بامقصد سفر نامے لکھے گئے۔ ہندوستانی مفکروں دانشوروں اور ادیبوں نے اپنے وطن کو چھوڑ کر دور دراز کے ممالک کی خاک چھانی ۔ان سفرناموں نگاروں نے دوسرے ممالک کے رسموں ، رواجوں کے علاوہ ٹکنالوجی کے تجربات اپنے سفرناموں میں محفوظ کیے ۔سر سید ،شبلی اور آزاد کے مشہور اسفار بھی اسی صدی میں کئے گئے ۔ لیکن انیسویں صدی میں اردو سفر نامہ نگاری کا باضابطہ آغاز یوسف خان کمبل پوش کے ہاتھوں ہوتا ہے جنہوں نے سفر نامہ عجائبات فرہنگ (تاریخ یوسفی ) لکھ کر اس صنف میں اپنا نام سر فہرست کر دیا ۔اس کے بعد متعدد ادیبوں نے دور دراز کے سفر کیے اور سفر نامے لکھے ۔بیسویں صدی کے آتے آتے اردو سفر نامہ نگاری میں بے شمار مرد حضرات کے علاوہ خواتین قلم کاروں نے بھی سفر نامے لکھے ہیں۔ اس دور میں مغربی سیاحت کو خاص اہمیت رہی ۔اس ضمن میں انور سدید لکھتے ہیں :
’’اس دور میں ہندوستان میں انگریزی حکومت نہ صرف مستحکم ہوچکی تھی بلکہ اس کے خلاف ردِ عمل کی تحریکوں نے بھی سر ابھارنا شرع کر دیا تھا ۔غلامی کی اس احساس کا ایک بدیہی نتیجہ یہ ہوا کی ہندوستان کے علمی افلاس کو دور کرنے کے لیے مغرب کے علمی خزانوں تک برائے راست رسائی کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔ چنانچہ بیرونی ممالک کے سف کو اس دور میں خصو صی اہمیت حاصل ہوئی اور دوران سفر جو تجربات حاصل ہوتے ان میں ابناے وطن کو شریک کرنے کی کاوش بھی کی جاتی۔‘‘
(اردو ادب میں سفر نامہ : انور سدید،ص۱۸۱)
بیسویں صدی تغیر زمانہ کے اعتبار سے اہم صدی رہی ہے ۔ایک طرف پوری دنیا دو عظیم جنگوں سے جھلس گئی ،وہیں دوسری طرف ٹکنالوجی کے لحاظ سے بھی یہ دور خاصہ تبدیلی کا رہا۔ٹکنالوجی اور جدید وسائل کی مدد سے سفر کے طریقے آسان ہونے کے ساتھ ہی دلچسپ بھی ہوگئے۔اس طرح ہر ادیب میں سفر کی خواہش پیداہونے لگی بالخصوص مشرقی قلم کار مغرب کی سر زمین کی سیر کوباعث فخر محسوس کرنے لگے۔یہ سیاح مغربی دنیا کے حیرت انگیز تجربات اور ایجادات کو فخریہ الفاظ میں تحریر کرنے کو بھی اپنی شان سمجھتے تھے۔اس دوران نہ صرف مردوں نے دور دراز کے سفر کیے بلکہ عورتوں نے بھی گھروں کی دہلیزوں سے باہر قدم رکھ کر دوسرے مقامات جاکر وہاں کے حالات و اوقعات قلم بند کیے ۔بیسویں صدی کی پہلی خاتون سفر نامہ نگار نازلی رفعہ سلطانہ ہے جنہیں اردو ادب میں پہلی سفر نامہ نگارہونے کا شرف حاصل ہے ۔انھوں نے یورپ کا سفر کر کے یہ ثابت کیا کہ عورت بھی ایک اچھا ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا سفر نامہ نگار بھی ہو سکتی ہے ۔ انھوں نے سیر یورپ لکھ کر اردو میں پہلا خواتین سفر نامہ تحریر کیا ۔ اس بات سے انکار کی گنجائش نہیںہے کہ اردو سفر نامہ نگاری کے ارتقاء میں خواتین سفر نامہ نگاروں کا اہم کردار ہے ۔
نازلی رفعہ سلطانہ صرف بیسویں صدی کی ہی نہیں بلکہ اردو ادب کی بھی پہلی سفر نامہ نگار ہے ۔انھوں نے اس زمانے میں یورپ کا سفر کیا جب عورت کے لئے گھر سے نکلنا تعجب سمجھا جاتا تھا ۔اس ضمن میں سعد احمد یوں رقمطراز ہیں:
’’ اردو سفر نامے کے ارتقاء کو تیز تر کرنے میں بیسویں صدی کے نصف اول کی خواتین سفر نامہ نگاروں نے اہم کارنامہ انجام دیا ۔ اردو کی پہلی خاتون سفر نامہ نگار ہونے کا شرف نازلی رفعہ سلطانہ کو حاصل ہے ۔‘‘
(آزادی کے بعد اردو سفر نامہ : سعد احمد ،ص ۶۳)
رفیعہ سلطان نے سفر نامہ ’ سیر یورپ ‘ کو خطوط کی تکنیک میں تحریر کیا تھا۔ دوران سفر انہوں نے جو خطوط اپنے بزرگوں کو لکھے تھے،بعد میں ان خطوط کو ترتیب دے کر سفر نامہ مرتب کیا۔ مصنفہ خود اس سفر نامے کے بارے میں لکھتی ہے :
’’ اس میں نہ عبارت ہے نہ قافیہ پیمائی ۔ صاف سیدھی عبارت ہے ، وہاں کے حالات ، طرز ِ معاشرت ،تدبیرالمنازل ، بعض امُور سیاسیہ ہنروری ،اقسام فنوں کی کثرت ۔تہذیب ، طریقہ تعلیم، دربار کے آداب،، جو میں جتنا سمجھ سکی اپنی زبان میں اپنے اہل وطن کو سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔نسبتاّ جب یورپ اور ایشاء کو دیکھتی ہوں تو اپنی نظروں میں تھوڑی تھوڑی ہو جاتی ہوں ۔‘‘
(سیر یورپ: نازلی رفعیہ سلطان۔ص۳)
اس سفر نامے میں انھوں نے یورپی ترقی سے متاثر ہوکر جو خطوط لکھے تھے ان کا مقصدیہ نہیں تھا کہ یورپ کے گن گائے بلکہ وہ اس ترقی سے اپنے ہم وطنوں کو تر قی کی راہ پر گامزن کر نا چاہتی تھی۔انھیں اس بات کا احساس تھا کہ ہندوستان تعلیمی اور معاشی اعتبار سے بہت پیچھے ہیں ۔ اس طرح ان خطوط کی وجہ سے مصنفہ نے اپنے ہم وطنوں کو یورپ کی سیر کرائی ، انھیں یورپی صنعتی اور تمدنی ترقی سے روشناس کرایا۔جس دور میں سفر نامہ ’ سیرِ یورپ ‘ رفعہ سلطانہ نے تحریر کیا تھا اسی دور میں ہی عطیہ فیضی نے سفر نامہ’ زمانہ تحصیل ‘ لکھا اور شاہ بانو نے سفر نامہ ’سیا حتِ سلطانی‘تحریر کیاتھا۔
’ زمانہ تحصیل‘ عطیہ فیضی کا تخلیق کردہ سفر نامہ ہے۔ یہ ان خطوط پر مشتمل ہے جو انھوں نے لندن سے اپنی ہمشیر زہرہ بیگم کو لکھے تھے۔یہ خطوط سلسلہ وار رسالہ ’تہذیب النسواں ‘ میں شائع ہوتے رہے جنہیں بعد میں سفر نامے کی شکل دے کر کتابی صورت میں شائع کیا گیا ۔یہ وہی عطیہ فیضی ہے جن کے شبلی اور علامہ اقبال سے دوستانہ تعلقات تھے ۔ عطیہ فیضی دراصل لندن تعلیم کی غرض سے گئی تھی ۔اس سفر نامے کے بارے میں انور سدید لکھتے ہیں :
’’عطیہ بیگم فیضی رحیمن ۱۹۰۶ ء میں سر کاری وظیفے پر لندن گئی تھیں ۔ان کا مقصد تعلیم حاصل کر نا اور معلمی کا پیشہ اختیار کرنا تھا ۔لیکن تیرہ مہینوں کے قیقم کے دوران ان کی طبیعت نا ساز ہوگئی اور وہ بے نیلِ کام واپس آگئیں۔یہ سفر نامہ ان خطوط سے مر تب کیا گیا ہے جو عطیہ فیضی رحیمن نے لندن سے اپنی ہمشیر زہرہ بیگم کو لکھے تھے اور رسالہ ’تہذیب النسواں ‘ میں شائع ہوتے رہتے تھے ۔‘‘
( اردو ادب میں سفر نامے :انور سدید ۔ص۱۹۹)
اس سفر نامے میں عطیہ فیضی نے لندن میں اپنے تجربات اور مشاہدات کے علاوہ یہاںکے مختلف مناظر کی بھی عکاسی کی ہے ۔ مصنفہ نے قیام لندن کے دوران مختلف جگہوں کی سیر کی تھی ، مختلف لوگوں سے ملی۔ علامہ اقبال سے ان کی گہری دوستی کا آغاز بھی یہی لندن میں ہوا تھا ۔ان سارے واقعات کی تفصیل سفر نامے میں ملتی ہے۔
قیام لندن کے دوران انھیں مختلف دعوتوں میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ جس کا تذکرہ انھوں نے سفر نامے میں بھی کیا ہے۔اس حوالے سے اقتباس ملاحظہ فر مائیں :
’’ آج بہن صاحبہ وزیر النساء نے دعوت کی تھی ۔ازہر مجھے لینے کے آیا تھا اور اس کے ساتھ میں گئی ۔ہاہا۔ کھچڑی کے ساتھ دہی کی کڑھی بنائی تھی اور دو تین قسم کے لذیز اچار۔ کس ذوق و شوق سے شکم سیر ہو کر کھایا اور خدا کا شکر ادا کیا ۔ کون سی نعمت اس سارے کھانے سے بہتر ہوسکتی ہے۔‘‘
( سفر نامہ زمانہ تحصیل : عطیہ فیضی ۔ص۶۷)
سفر نامہ ’’ سیاحت سلطانی‘‘ مصنفہ شاہ بانوکا ہے۔ انھوں نے ۱۹۱۱ ء میں یورپ کا سفر کیا اور تقریباً سات ماہ تک یہاں قیام کیا ۔یہ سفر نامہ فنی اعتبار سے قابل قدر نہیں ہے نہ ہی اس میں سفر ی واقعات اور مشاہدات پُر تاثیر ہیں ۔ چونکہ مصنفہ کو یہ سفر دراصل ایک مریض کے علاج و معالجہ کی غرض سے کرنا پڑا جس کی وجہ سے دوران سفر وہ سفری کوائف کی طرف دھیان نہیں دے پائی۔ اس لیے سفر نامے کی منظر نگاری کہیں کہیں بے جان سی معلوم ہوتی ہے ۔اس سفر نامے کے بارے میں ڈاکٹر انور سدید اپنی رائے اس طرح قائم کرتے ہیں :
’’موصوفہ کو یہ سفر اپنے ایک عزیز کرنل محمد عبیداللہ کی علالت اور علاج کے سلسلے میں اختیار کرنا پڑا اور قیام لندن کے دوران ان کی توجہ بھی علاج معالجہ کی طرف ہی رہی ۔ چنانچہ اس سفر نامے میں مشاہدہ کمزور اور نقوش سفر دھندلے دھندلے ہیں ۔شاہ بانو کا تعلق چونکہ ریاستی نوابوں کے ایک خاندان سے تھا اس لیے ان کے ہاں ایک خاص قسم کا تہذیبی تکلف موجود تھا ۔۔۔۔۔۔۔شاہ بانو کو خود بھی احساس ہے کہ وہ ماحول اور مناظر کو پوری طرح گرفت میں لینے سے قاصر ہیں ۔‘‘
( اردو ادب میں سفر نامے :انور سدید ۔ص۲۰۱)
کچھ چند خامیوںباوجود اس سفر نامے میں مختلف جگہوں کا تذکرہ ملتا ہے جن کے بارے میں مصنفہ نے اپنی ذاتی رائے کے علاوہ معلومات بھی درج کیے ہیں ۔انھوں نے مختلف شہروں کی تاریخی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی ۔ ان شہروں کی تعریف بھی خوبصورت الفاظ میں کی ہے ۔جنیوا شہر کے بارے میں مصنفہ لکھتی ہے :
’’ لندن سے چل کر جنیوا میں قیام کیا ۔ یہ ایک نہایت قدیم آبادی ہے۔یہاں گھڑیوں کا بڑا کار خانہ ہے اور جنیوا کی گھڑیاں تمام ہندوستان میں مشہور میں یہاں کا منظر بھوپال سے بہت ملتا جلتا ہے ۔‘‘
(سیاحت سلطانی : شاہ بانو۔ص۱۰۳)
اس سفر نامے میں روزنامچہ کی شکل میں سفری روداد لکھی گئی ۔سفر کی تیاری، روانگی ،اور دوران سفر کے حالات و واقعات کو آسان زبان میں بیان کیا گیا۔ اس سفر نامے کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں منظر نگاری کے نمونے ہوبہو پیش نہیں کیے گیے ہیں ۔ تاہم اس کی اہمیت اس بات میں مضمر ہے کہ یہ اس زمانے کا سفر نامہ ہے جب عورتیں سفر کرنا معیوب سمجھتے تھے ۔ شاہ بانو نے سفر بھی کیا اور سفر نامہ بھی تحریر کیا۔
بیسویں صدی کی ایک اور اہم سفر نامہ نگار بیگم سر بلند جنگ بہادر ہے ۔خواتین سفر نامہ نگاروں میں ان کا نام بھی اہمیت کا حامل ہے ۔انھوں نے دوران سفر عورت کی نگاہ سے آس پاس کے ماحول کو بھی دیکھا اور عورت بن کر ہی سفر نامہ تحریر کیا ۔بیگم سر بلند جنگ بہادر کا سفر نامہ ’دنیا عورت کی نظر میں‘ اس سلسلے کی ایک اور اہم کڑی ہے ۔ مرزا حامد بیگ لکھتے ہیں:
’’ بیگم سربلند جنگ بہادر کا سفر نامہ ’ دُنیا عورت کی نظر میں ‘ ۱۹۱۰ میں سامنے آیا۔ اس سفر نامے کے عنوان سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس زمانے میں مشرقی عورت یورپ کی تہذیبی مطالعے کو کس قدراہمیت دے رہی تھی۔ ‘‘
(اردو سفر نامے کی مختصر تاریخ : مرزا حامد بیگ ، ص ۶۹)
اس سفر نامے میں مشرقی خواتین کے تاثرات جو مغربی دُنیا سے متعلق ہیں کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سفر نامے کے متعلق سعید احمد لکھتے ہیں:
’’اس سفر نامے کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مشرق کی عورت مغربی تہذیب و تمدن کو کس نظر سے دیکھتی ہے ۔ اس کے اپنے تجربات و مشاہدات مغربی ممالک میں کیا ہیں فنی اعتبارسے کمزور ہونے کے باوجود بھی اس نے اردو سفر نامے کے ارتقاء میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ‘‘
( آزادی کے بعد اردو سفر نامہ: سعید احمد ، ص ۶۴)
’سفر نامہ یورپ ‘ صغریٰ بیگم حیا کا سفر نامہ ہے جوفنی اعتبار سے اہم سفر نامہ ہے۔صغریٰ بیگم حیا رسالہ ’ النساء ‘ کی مدیرہ تھی ۔ ایک قابل قدر شخصیت کی مالک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک قابل فہم ادیبہ بھی تھی ۔ انھوں نے کئی اسفار کیے اور سفر نامے بھی تحریر کیے۔ لیکن شہرت ’ سفر نامہ یورپ ‘ کو ہی حاصل ہوئی ۔اس سفر نامے میں ہالینڈ ، جرمنی ، اٹلی ،فرانس اور لندن کی تہذیبی اور سماجی فضا نظرآتی ہے۔ ا س سفر نامے کا خلاصہ انور سدید ان الفاظ میں کرتا ہے ۔اقتباس ملاحظہ ہے:
’’ انہوں نے سفر کی جزئیات کو نسائی لطافت سے پیش کیا ہے۔ اس سفر میں انہوں نے ہالینڈ ، جرمنی ، اٹلی ، فرانس اور لندن کی سیاحت کی اور مغربی تمدن اور مجلسی زندگی کے قابل قدر نقوش سفر نامے میں جمع کیے۔ ان کے سفر نامے کی خامی یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کو ہمیشہ مرکزی حیثیت دے کر اس کی تزئین میں مصروف نظر آتی ہے جس سے نمود و نمائش کا زاویہ ابھر آتا ہے ۔اس سفر نامے کی دوسری خامی نجی مصروفیات کا بے جا تذکرہ ہے جس سے قاری کو دلچسپی کا زاویہ دب جاتا ہے اور سفر نامہ قدرے بوجھل ہو جاتا ہے ۔ صغریٰ بیگم حیا ان کمزوریوں کا ادراک نہیں کر سکیں ۔‘‘
(اردو ادب میں سفر نامہ :انور سدید ،ص۳۳۳)
بیسویں صدی کی خواتین سفر نامہ نگاروں میں سب سے اہم نام بیگم نشاط النساء ہے۔ حسرت موہانی ایک نامور ادیب ، شاعر اور سیاست داں تھے۔ ان کی شریک حیات بیگم نشاط النساء بھی ایک قلم کار تھی جنھوں نے اپنے شوہر کاساتھ بحیثت ادیبہ ہی نہیں بلکہ ان کی سیاسی زندگی میں بھی ان کا ساتھ دیتی رہی ۔بیگم حسرت موہانی نے جو اسفار حسرت موہانی صاحب کے ساتھ کیے تھے بعض کی یاد گار ان کے سفر نامے بھی ہیں ۔جن میں ان کے دو سفر نامے کافی مشہور ہے ۔سفر نامہ حجاز ( ان کا سفر حج ) ہے۔ اور دوسرا سفر نامہ عراق ہے ۔ان دونوں سفر ناموں کو اردو دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا گیا ۔
سفر نامہ ’ حجاز ‘ میں بیگم نشاط النساء نے اپنے وطن سے حجاز تک کے سفر ی روداد درج کی ہے ۔ یہ ایک روحانی سفر تھا جس میں مصنفہ نے اپنی والہانہ محبت کا اظہار گہرئے جذبوں سے کیا تھا ۔دوران سفر انھوں نے قارئین کو شریک سفر رکھنے کی کو شش کی تھی، جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئی ۔اس سفر نامے میں دلکش اور حسین مناظر کو اس طرح پیش کیا گیا کہ قاری پر سفر نامے کا منجمد تاثر رہتا ہے ۔
’سفر نامہ عراق ‘ ان کا دوسرا سفر نامہ ہے۔ یہ سفر نامہ کئی اعتبار سے اہم ہے سفر نامہ نگارنے اپنے پسماندہ ملک سے باہر نکل کر عراق کی ترقی کو دیکھ کر متحیر ہونے کے بجائے اس کی ستائش کی ہے ۔عورت ہونے کے ناطے عورتوں کے ملبُو سات کھانے پینے کے اشیاء کو بغور دیکھاہے۔اس سفر نامے کے بارے میں سعید احمدرقمطراز ہیں:
’’مرحومہ نے مولانا حسرت مرحوم کے ساتھ ۱۹۳۶ میں عراق کا سفرکیا۔ سفر نامہ عراق۔ اسی سفر کی روداد ہے۔ انہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات نسوانی انداز میں نہایت خوش اسلوبی سے بیان کیے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
(آزاد ی کے بعد اردو سفر نامہ: سعید احمد، ص ۶۸)
سفر نامہ عراق اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس میں عورتوں کے تقریباً ان سارے چیزوں کے بارے میں معلومات درج کیے گیے ہیں، جن کا استعمال بالخصوص مشرقی عورتیں کرتی ہے ۔ ملبوسات ، زیورات کے علاوہ انواع و اقسام کے طعامات وغیرہ کی بھی تفصیل درج ہے ۔مصنفہ نے یہاں اس اجنبی نگری کے فیشن اور دیگر غیر مہذب رسوم و رواج کا بھی نقشہ کھینچا ہے ۔بمطابق مصنفہ ہزاروں سفید جسم والی خوبصو رت عورتیں بازاروں او رکالجوں میں بے تکلف گھومتی پھرتی ہیں ۔ اس ضمن میں سفر نامے سے ایک اقتباس ملاحظہ فر مائیں :
’’ یہاں پردہ نہیں ہے البتہ پرانی وضح کی کچھ عورتیںعرب کا سا نقاب باہر سے ڈال لیتی ہیں ۔مگر پنڈ لیاں اوپر تک کھلی ۔ موزے باریک باریک لیڈی شو ۔ باقی عورتیں عموماً اور لڑکیاں خصوصاًنیم بر ہنہ ۔فراق گریبان چاک اوپر سے چسٹر ۔ با ل بنے ہوئے سب کے سب چہروں پہ زلفیں آٹھ آٹھ انگل کی اورادھر اُدھر گالوں پر لٹکی ہوتی ہے کسی کسی کی چوٹی لانبی لابنی اور کسی کسی کا جوڑا پیچھے بندھا ہوا ۔ ورنہ اکثر کے بال کٹے رہتے ہیں ۔ بے انتہا حسین اور گدازبدن ، سرخ و سفید ناک نقشے درست ۔بے تکلف سکو لوں میں بازاروں میں گھومتی پھر تی ہیں۔‘‘
(سفر نامہ عراق : نشاط النساء۔ص۶۶)
بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں سلطان آصف فیضی کا سفر نامہ ’عروس نیل ‘ اپنی جزئیات نگاری کی وجہ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ سلطان آصف فیضی نے مصر کا سفر ایک سفارتی نمائندے کے طورپر کیاتھا لیکن دوران سفر ایک باذوق سیاح کی طرح عام لوگوں کے عادات واطوار اور رہن سہن کی منظر کشی اس طرح کی ہے گویا وہ کئی سالوں سے ان لوگوں اور ان کے طور طریقوں سے واقف تھی۔اس حوالے سے سفر نامے کا ایک اقتباس ملا حظہ فر مائیں:
’’ دیہات کی نوجوان لڑکیاں جن کی جوانی ان کے موٹے موٹے فراکوں سے بھی ظاہر ہوتی ہے ۔آنکھوںمیں خوب سا کاجل ڈالے کانوں میں موٹی چاندی کی بالیاں لٹکا ئے اور گلے میں ر نگین موتی کی مالائیں ڈالے درختوں کے سائے میں بیٹھی شام کی بہار کا تماشا دیکھ رہی ہیں۔‘‘
( سفر نامہ،عروس نیل : سلطان آصف فیضی ،ص ۳۰۸)
قرۃالعین حیدر بیسویں صدی کی ایک اہم فکشن نگار ہے جو اندرون ملک کے علاوہ بیرون ممالک میں بھی اپنی پہچان بنا چکی ہے ۔انھوں نے فکشن کے علاوہ سفر نامے بھی تحریر کیے۔ ان کا اہم سفر نامہ ’ جہان دیگر ‘ ہے۔قرۃالعین حیدر نے سفر نامہ ’جہان دیگر ‘ میں جدید تکنیک کا استعمال کر کے ایک نئے اسلوب کا اضافہ کیا ہے۔ انہوںنے سفر نامے میں فکشن کی طرح فلیش بیک کی تکنیک کا سہارا لیاہے۔ کہیں کہیں ناول اور افسانے کے عناصر بھی سفر نامہ میں داخل کیے۔ سفر نامے میں مکالمہ نگاری، کردار نگاری ،منظر نگاری کے جُزو بھی اس طرح داخل کیے کہ یہ سفر نامہ نگاری کے بنیادی عناصر معلوم ہوتے ہیں۔اس سلسلے میں سفر نامے سے ایک اقتباس ملا حظہ فر مائیں:
’’ہم لوگ دیوان خانے میں واپس آئے۔ اب ہنگرین شاعرہ ایگنس چپکے سے بولیں: تم نے میزبان خاتون کا بیڈ روم دیکھا؟ اس قدر غیر شخصی۔ جائو دیکھ کر آئو۔‘‘ میں فوراً گئی۔ سفیدقالین، سفید منک کے پلنگ پوش ، غسل خانے میں سفید منگ کا غالیچہ۔ پورا سویٹ برف کا خواب معلوم ہوتاتھا۔ اس کے برابر ایک مورننگ روم میں مزید ماڈرن ماسڑز دیواروں پر آویزاں تھے میں نے واپس آکر ایگنس کے نرم مزاج شوہر بالا زینگل سے کہا چلئے وہ کمرہ بھی دیکھ آئیے وہ میرے ساتھ مورننگ روم میں گئے۔ تصاویر دیکھیں اور واپس آئے۔‘‘
ْ (جہان دیگر : قرۃ العین حیدر ، ص ۵۵)
قرۃ العین حیدر نے اس سفر نامے کو جدید طرزِ اسلوب میں لکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس سفر نامے میں ناول کی حقیقت نگاری ، افسانے کی لذت اور آپ بیتی کا بیانیہ ملتا ہے۔ ان خصوصیات کے اعتبار سے بھی یہ سفر نامہ اہمیت کا حامل ہے۔
سفر نامہ ’ الکویت ‘ نسرین بانوں اکرم کا ایسا سفر نامہ ہے جس میں افسانوی انداز کو استعمال کر کے حقیقی واقعات پیش کیے گیے ۔اس سفر نامے کی خصوصیت اس بات میں مضمر ہے کہ اس میں حقیقی واقعات کو دستانوی انداز میں کر داروں کے ذریعے پیش کیے گیے ۔سفرنامہ عام روایت کے تحت لکھا گیا تھا۔اکثرسفر نامہ نگاروں کی طرح یہاں بھی کویت کی بڑی بڑی عمارتوں ،بازارو ں اور دیگر حیرت انگیز مقامات کی کھل کر تعریف کی گئی ۔الغرض یہ سفر نامہ ۲۰ویں صدی کی ایک اہم تخلیق ہے جس سے اردو سفر ناموں کی تاریخی روایت کو تقویت ملی ۔
سفر نامہ ’براہ راست‘ اردو ادب کی مشہور ادیبہ کی سفری روداد ہے ۔انھوں نے روم ،پیرس،کینیڑا اور بر طانیہ کے دوران سفر یہاں کی تہذیبی،سماجی اور معاشی زندگی کا جائزہ لیاہے۔اس سفر کے دوران مصنفہ مشرق اور مغرب کی تہذیب کا موازنہ کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ انھیں مشرقی سماج اور کلچر کی برتری یہاں بھی نظر آئی ۔اس سفر نامہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مصنفہ نے شگفتہ مزاجی کو بروکار لاکر ایک دلچسپ نثر کا نمونہ پیش کیا ہے ۔جس سے قاری لطف انداز ہوجاتا ہے۔اقتباس ملاحظہ فر مائیں :
’’ لمبے قد کا گورا ہمیں دیکھ کر مسکرایا اور پاسپورٹ کے صفحات کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔۔۔۔۔۔۔اچانک اس نے اپنے بنٹے جیسی آنکھیں گھماکر پوچھا ـ’’ کیا آپ کوئی کھانے والی چیز لائی ہیں ؟‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔لرزتے ہوئے کہا ’’ ہمارے ہاں تو صرف قوم کا غم کھاتے ہیں کبھی آپ کی قوم کا ‘‘وہ بولے کہ ’’کوئی پینے کی شئے لائی ہیں ؟‘‘ ہم نے عرض کیا ’’ ہماری شاعری میں بس آنکھوں سے پی جاتی ہے ۔ہم آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے ہیںبی چڑھے تو واپس بھیج دیتے ہیں۔‘‘۔۔۔۔۔۔۔وہ ہمیں یوں دیکھ رہے تھے جیسے آسٹریلیا کا گوالا سا ہی دال کی گائے کو دیکھتا ہے ۔‘‘
( براہ راست : بشریٰ رحمان ،ص۸۴)
صالحہ عابد حسین اسی صدی کی ایک اہم اور معتبر مصنفہ ہے جنہوں نے سفر نامہ لکھ کر سفر نامہ نگاری کی روایت کو آگے بڑھایا۔صالحہ عابد حسین کو سیر و سیاحت کا بے حد شوق تھا انھوں نے کئی اسفار کیے متعدد ممالک کی سیر و سیاحت کر کے وہاں کے کلچر اور دیگر رسومات کو قلم بند کیا ہے۔ صالحہ عابد حسین کے ’ سفر زندگی کے لیے سوزساز ‘میں در اصل کئی ممالک کے اسفار شامل ہیں جن میں انھوں نے ان ممالک کے رسم و رواج ، کلچر اور دیگر معاشی زندگی کا احاطہ کیا ہے ۔ آس پاس کی چلتی پھرتی زندگی کی منظر کشی ان لفظوں میں کرتی ہے:
’’ پرنس کارل ہوٹل پیچھے رہ گیا ہے ۔اب وہ دکانیں گزر رہی تھیں جن میں کام کرنے والی لڑکیاں مہر بانی اور خلوص اے پیش آیا کرتی تھیں ۔یہ پیارے پیارے صاف سُتھرے بچے جارہے ہیں۔جو مجھے عجوبہ سمجھ کر پیچھے پیچھے چلا کرتے تھے ۔اور جب میں انھیں پیار کرتی تھی اور مسکرا شرما کر رہ جاتے تھے ۔‘‘
( سفرِ زندگی کے لیے سوز و ساز : صالحہ عابد حسین ،ص۴۴)
یہ سفرنامہ ۲۰ویں صدی میں اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں تانیثیت کا لہجہ نمایا طور پر سامنے آتا ہے۔
عورت کا مزاج ، عورت کے نظریات کے علاوہ یہاں عورت کی محنت کشی کا بھی اچھا خاصا مظاہرہ کیا گیاہے۔اس اعتبار سے یہ سفر نامہ عورت کی حمایت کا ایک اچھا دستاویز ہے ۔
’سفر نامہ جلا وطن ‘ حمیدہ جبین کی جرمنی سفری روداد ہے۔یہ سفر نامہ درحقیقت تانیثیت کے منفی عناصر پر سے پردہ اُٹھاتا ہے ۔اس میں انھوں نے عورت ذات کے نفسیات میں اُتر کر اس کے کرب و درد کو محسوس کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔
پروین عاطف نے کئی ممالک کے سفر کیں ۔سفر نامے تحریر کیں ساتھ ہی تاثرات بھی پیش کیں ۔ان کے سفر ناموں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ساتھ قاری کو بھی سفر میں شریک کیا تھا ۔انھوں نے ہر منظر اور نظارے کو اس طرح پیش کیا گویا قاری دیکھ رہا ہو۔ان کا یاد گار سفر نامہ ’’کرن،تتلی ، بگولے ‘‘ میں انھوں نے بنکاک ، منیلا، ہانگ کانگ،سرینگر، ٹوکیو، کیلاش وغیرہ کے سفری حالات بیان کیے ہیں۔انھوں نے سفر ناموں میں محض سفری داستان ہی نہیں لکھی بلکہ آس پاس کے ماحول کا گہرا مشاہدہ کر کے مناظر کی مرقع نگاری بھی کی ہے ۔ اس طرح کی خصوصیت سے ہی ان کا سفر نامہ دلچسپ معلوم ہوتا ہے اور قاری خوب لطف اندو ز ہوجاتا ہے ۔
انھوں نے جہاں شہروں اور قصبوں کی خوبصورتی اور دلکشی کو پیش کیا وہیں مغربی بازاروں میں ہورہی جنسی غلاظت کے کاروبار کا بھی تفصیلی جائزہ لیا ہے ۔سفر نامے میں انھوں نے بنکاک شہر میں ہورہے جنسی کاروبار اور جسموں کے کھلے عام ہورہے کاروباری نظام کی کھل کر مخالفت کی ہے ۔اقتباس ملاحظہ فر مائیں:
’’ اس رات بنکاک کے اس وسیع و عریض بازار میں کسی کا کوئی چہرہ نہیں تھا ۔کوئی ذہن نہیں تھا۔ کوئی روح نہیں تھی ۔صرف جسم تھے ، ننگے جسم، بھوکے جسم ۔چپ جسم ۔ بولتے جسم۔ مشتاق جسم۔ بیزار جسم ۔ بس جسم ہی جسم ۔ عورت کے جسم کی اتنی بڑی اکبری منڈی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈالر کی چاٹ نے اگر اسے جسم کو یوں کھلے بندوں چھابڑی میں لگانے پر مجبور کر دیا ہے تو ڈالر زندہ باد ! ‘‘
(سفر نامہ کرن تلی بگولے :پروین عاطف ،ص۳۴)
بیسویں صدی میں جہاں پوری دنیا دو عالم گیر جنگوںسے جھلس چکی ہے وہیں اسی صدی میں مغربی دنیا کے شہروں میں فحاش کے اڑ ے سجائے جارہے تھے ۔اس طرح کی بدنمائی پر سے مصنفہ نے پردہ اُٹھاکر عام قاری کو مغرب کی اصل صورت دیکھائی ۔اس سفر نامے کی اہمیت اس بات میں بھی مضمر ہے کہ بیسویں صدی میں جہاں اکثر سفر نامہ نگاروںنے مغربی دنیا کو ترقی پسند اور مہذب قرار دے کر پیش کیا ہے وہیں اس سفر نامے میں مغرب کی تصویر بالکل الگ اندا ز میں پیش کی گئی ہے ۔ کہیں نہ کہیں یہی اس سفر نامے کی منفردیت ثابت ہو چکی ہے ۔
سفرنامہ ’ مسافتیں کیسی ‘ بیسویں صدی کا ایک اہم سفر نامہ ہے۔اس سفر نامہ میں بلقیس ظفر نے اپنے شوہر کے ساتھ کیے ہوئے سفر کی روداد کو قلم بند کیا ہے ۔بلقیس ظفر کا شوہر دفتر خارجہ پاکستان میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے ۔انھیں لبنان جانے کا موقع اچانک ملا تو انھوں نے اپنی بیوی بلقیس ظفر کو بھی اپنے ہمرہ کر لیاتھا۔اس سفر ی روداد میں پاکستان سے بیرت تک کی سفر ی حالات لکھی گئی ہے ۔یہ سفر نامہ رپورتاژ کی تکنیک میںلکھا گیا ۔بیسویں صدی کی سفرنامہ نگاری کی تاریخ کو تقویت دینے میں اس سفر نامے کا بھی اہم کردار ہے ۔
’سفر نامہ امریکہ ‘ ایک ایسی ادیبہ کا سفر نامہ ہے۔ جنہوں نے سفر ی روداد کے علاوہ حقیقی واقعات بھی بیباک انداز میں قلم بند کیے ہیں ۔نوشابہ نرگس نے اس سفر نامے میں محض سفر ی حالات و واقعات ہی نہیں لکھے بلکہ امریکہ کی حقیقی زندگی کی بھی تصویر کشی کی ہے ۔ مصنفہ نے جہاں امریکہ کی ترقی یافتہ زندگی کا احاطہ کیا وہیں یہاں کی کیچڑ سے لت پت سڑکیں بھی قاری کو دیکھائی گئی ۔اس کے علاوہ غریبی اور افلاس سے بے حال چہرے بھی دیکھائے گئے ہیں ۔سفر نامے میںدوران سفر انھوں نے متضاد تجربات پیش کیے ہیں ۔اس طرح کی خصوصیت سے اس سفر نامے کی اہمیت بڑھ گئی ۔ بیسویں صدی کی سفر نامہ نگاری میں اس سفر نامے کا ایک خاص مقام ہے ۔
بیسویں صدی کو سفر نامے کے اعتبار کے لیے ایک اہم دور تصور کیا جاتا ہے اور اس دور میں خواتین نے بھی اپنی ایک منفرد پہچان بنائی ہے ۔درجہ بالا وہ سفر نامے ہیں جو بیسویں صدی میں خواتین کے زور قلم سے وجود میں آگئے ۔ان ساری ادباء کو بہت مقبولیت اس اعتبار سے ملی کہ انھوں نے اس زمانے میں سفر کو ترجع دی جب عورت کے لیے گھر سے نکلنا باعث تعجب تصور کیا جاتا تھا ۔ اس طرح جہاں اردو ادب میں مرد حضرات ادبی دنیا میںاپنا کردار ادا کر رہے ہیں وہیں عورتوں کا بھی اد ب میں ایک اہم حصہ ہے ۔اردو ادب بالخصوص سفر ناموں میں عورت کا حصہ ہونا محض سفر نامہ لکھنا ہی نہیں ہے بلکہ سفر کرنا بھی شامل ہے۔عورتوں نے بیسویں صدی میں دور دراز کے مسافت طے کیے ہیں ۔انھوں نے عجیب و غریب مناظر دیکھے ہیں اور ساتھ ہی حیرت انگیز کہانیاں بھی لکھی ۔ ان سفر ناموں کے علاوہ اور بھی چند سفر نامہ حج ہیں جن کو کوئی خاص مقبولیت حاصل نہیں ہوئی ۔اس وجہ سے یہاں ان کو شامل نہیں کیا گیا ۔الغرض اردو سفر ناموں کی تاریخی روایت میں ان سفر ناموں کااہم کردار ہے۔
***
Leave a Reply
Be the First to Comment!