سیکولرزم اور ہندستانی مشترکہ تہذیب
ڈاکٹر اَعلم شمس
اسسٹنٹ پروفیسر،شعبۂ اردو،ذاکر حسین دہلی کالج،دہلی یونیورسٹی
9312365749
alambly@yahoo.co.in
انسان کی فطرت ہے کہ وہ مل جل کر رہنا پسند کرتا ہے۔ اس طرح رہنے کا اسے پہلا موقع اپنے اہل و عیال، خاندان اور قبیلے نے فراہم کیا۔ خاندان اور قبیلے کی منزل سے آگے بڑھ کر انسان جیسے جیسے سماجی زندگی کی برکتوں سے آشنا ہوتا گیا ویسے ویسے وہ اپنے اقتصادی، سماجی اور مذہبی جذبات اور بقائے نسل و تحفظ جائداد کے احساس کے تحت اتحاد و اشتراک کی ضرورت کو بھی محسوس کرتا گیا، لہٰذا جگہ جگہ بستیاں بناکر رہنے لگا۔ رفتہ رفتہ اس کے دل میں اپنی بستیوں، اپنے سماج اور اپنے مذہب سے وابستگی اور وفاداری پیدا ہوتی گئی۔ مہذب سماج میں زندگی بسر کرنے کا سب سے بڑا سلیقہ یہی رہا ہے کہ ہر فرد خود زندہ رہے اور دوسروں کو زندہ رہنے کا موقع دے البتہ جیسے جیسے تہذیبی ارتقاء کی رفتار تیز ہوتی گئی ویسے ویسے ذہن و دماغ کی وسعت کے ساتھ مہذب زندگی کے تقاضے آگے بڑھتے رہے اسی لحاظ سے زندگی کی اعلیٰ قدروں کا معیار بھی بلند ہوتا رہا۔ کبھی رشی منیوں اور مفکروں نے انسانیت کی اعلیٰ قدروں پر زور دے کر اسے سکون حاصل کرنے کے ذرائع سے روشناس کرایا، کبھی سیاسی رہنماؤوں اور قومی مصلحین نے قومیت اور اجتماعی تصورات کے پیمانے مقرر کیے لیکن ہر طرزِ فکر میں تہذیبی عظمت و بلندی کے لیے جن عناصر کو بنیادی حیثیت دی گئی وہ یہ ہیں کہ انسانی مساوات، ظلم و جور سے نفرت، اتحاد و اتفاق، اقتصادی برابری، فرقہ وارانہ ہم آہنگی وغیرہ کی ایسی تبلیغ کی جائے جس کے ذریعے تمدن اپنے ارتقاء کی آخری منزل تک پہنچ سکے۔ اس طرح انفرادی فطرت کے اختلاف کے باوجود ان تصورات کی ہم آہنگی انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب رکھتی ہے اسی سلسلے میں مذہبی آزادی اور فرد کے ذاتی و انفرادی اعتقادات کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔ یہاں مذہب سے دوری کا تصور کارفرما نہیں ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ مذہب کی یہ آزادی دوسروں کے مذہبی اعتقادات کے برتنے میں حائل نہ ہو اور اسے سیاست سے الگ رکھا جائے انھیں تصورات کو وسیع معنوں میں سیکولرزم کی اصطلاح قرار دیا گیا ہے۔
سیکولرزم کے مفہوم میں بہت الجھاؤ پایا جاتا ہے، اس مفہوم کی تشریح مختلف لوگوں نے مختلف طرح کی ہے، اس سلسلے میں ڈاکٹر مشیرالحق کہتے ہیں:
’’ہر طرف سے سیکولر نظریات اور سیکولرزم کی آوازیں تو آتی ہیں لیکن متعین طور سے یہ نہ معلوم ہوسکا کہ سیکولرزم ہے کیا۔۔۔ جلد ہی سیکولرزم ایک مبہم نظریہ بن کر رہ گیا جس کی تشریح میں ہر شخص آزاد تھا‘‘۔ (ڈاکٹر مشیرالحق، مسلمان اور سیکولر ہندوستان، مطبوعہ اگست ۱۸۷۳ء، ص۱۲)
ڈاکٹر اختر بستوی لکھتے ہیں:
’’سیکولرزم کے مفہوم کے بارے میں الجھاؤ اور اختلافِ رائے کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں سیکولرزم کا تصور صدیوں سے ارتقاء پذیر رہا ہے اور اس نے مختلف ممالک اور مختلف ادوار میں مختلف سمتیں اختیار کی ہیں۔ کبھی اس کا رخ منفی سیکولرزم کی طرف رہا ہے جس نے مذہب کی نفی کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے کی روش اپنائی ہے اور کبھی اس نے مثبت رخ اختیار کرکے مذہب کی اہمیت اس کے اپنے مخصوص دائرے میں تسلیم کرنے اور مذہبی رواداری پر زور دینک کا رویہ اپنایا ہے‘‘۔(ڈاکٹر اختر بستوی، سیکولرزم اور اردو شاعری، اترپردیش اردو اکادمی، پہلا ایڈیشن ۱۹۹۲ء، ص۱۷۔)
دراصل سیکولر اور سیکولرزم خالص مغربی اصطلاحیں ہیں۔ لاطینی زبان میں سیکولم (Seculum) کے لغوی معنی ’’دنیا‘‘ کے ہیں۔ قرونِ وسطیٰ میں کیتھولک پادری دو گروہوں میں بٹے ہوئے تھے، ایک وہ پادری جو کلیسائی ضابطوں کے تحت خانقاہوں میں رہتے تھے، دوسرے وہ پادری جو عام شہریوں کی سی زندگی بسر کرتے تھے، کلیسا کی اصطلاح میں آخرالذکر کو سیکولر پادری کہا جاتا تھا۔ وہ تمام ادارے بھی سیکولر کہلاتے تھے جو کلیسا کے ماتحت نہ تھے اور وہ جائدادیں بھی جن کو کلیسا فروخت کردیتا تھا۔ آج کل سیکولرزم سے مراد ریاستی سیاست و نظم و نسق کی مذہب یا کلیسا سے علاحدگی ہے اور سیکولر تعلیم وہ نظام ہے جس میں دینیات کو تعلیم سے الگ کردیا جاتا ہے۔ انسائکلوپیڈیا بریٹانیکا میں ہے:
’’سماج میں سیکولرزم ایک ایسی تحریک ہے جس کا رخ ماورائی دنیا سے اس دنیا کی جانب ہوتا ہے۔ قرونِ وسطیٰ میں خالص مذہبی لوگوں میں انسانی امور سے ناپسندیدگی اور خدا اور مابعد زندگی کے متعلق مراقبہ کا ایک قوی رجحان دکھائی دیتا تھا۔ قرونِ وسطیٰ کے اس رجحان کے ردِّعمل کے طور پر نشاۃِ ثانیہ کے دور میں سیکولرزم نے نوعِ انسانی کی خدمت اور اس کے مطالعے میں ترقی کی شکل میں خود کو پیش کیا۔ یہ وہی دور تھا جب انسانی ثقافتی کارنامو ںاور اس دنیا میں ان کی تکمیل کے متعلق لوگوں کی دلچسپی بڑھ گئی تھی۔ جدید تاریخ کے پورے دور میں سیکولرزم کی تحریک نشوونما پاتی رہی جسے زیادہ تر مسیحی مخالف اور مذہب مخالف سمجھا جاتا رہا‘‘۔(انسائکلوپیڈیا بریٹانیکا، جلد۹، صفحہ نمبر۱۹، پندرہواں ایڈیشن ۱۷۶۸ء۔)
اور انسائکلوپیڈیا امریکانا میں سیکولرزم کو یوں بیان کیا گیا ہے:
’’سیکولرزم ایک اخلاقی نظام ہے جو قدرتی اخلاق کے اصول پر مبنی ہے اور الہامی مذہب یا مابعد الطبیعات سے جدا ہے۔ اس کا پہلا کلیہ فکر کی آزادی ہے یعنی (۱) ہر شخص کو اپنے لیے کچھ سوچنے کا حق، (۲) تمام فکری امور کے بارے میں اختلافِ رائے کا حق، (۳) تمام بنیادی مسائل مثلاً خدا یا روح کی ابدیت وغیرہ پر بحث و مباحثے کا حق۔ سیکولرزم یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ موجودہ زندگی کی خوبیوں کے علاوہ کوئی اور خوبی نہیں ہے البتہ اس کا مقصد وہ مادّی حالات پیدا کرنا ہے جن میں انسان کی محرومیاں اور افلاس ناممکن ہوجائیں‘‘۔ (انسائکلوپیڈیا امریکانا، جلد۔۔۔، صفحہ ۵۱۰، پہلا ایڈیشن ۱۸۹۲ء۔)
سیکولرزم کا تصور یوں تو صدیوں سے چلا آرہا ہے لیکن سیکولرزم کی اصطلاح جارج جیکب ہولی اوک (George J. Holyoake) نامی ایک آزاد خیال انگریز نے ۱۸۵۱ء میں وضع کی۔ اس کی تصدیق ’’انسائکلوپیڈیا آف ریلجین اینڈ ایتھکس (Encyclopedia of religion and Ethics) سے ہوتی ہے جس میں اس کا ذکر یوں کیا گیا ہے:
’’۱۸۵۰ء میں ہولی اوک بریڈلا سے ملا اور اس کے بعد والے سال میں سیکولرزم کی اصطلاح وضع کی‘‘۔)(”Encyclopedia of Religion and Ethics” Vol. xi (vi Edition 1956) P. 348)
ہولی اوک شہر برمنگھم کی میلنکس انسٹی ٹیوٹ میں استاد تھا۔ برطانیہ کے مشہور خیالی سوشلسٹ رابرٹ اودین (۱۷۷۱ء تا ۱۸۵۸ء) کے ہم نوا ہونے کے جرم میں برطرف کردیا گیا تھا اور کل وقتی مبلغ بن گیا تھا۔ ان دنوں لندن سے آزاد خیالوں کا ایک رسالہ ’’ندائے عقل‘‘ نکلتا تھا، ۱۸۴۱ء میں جب رسالے کے ایڈیٹر کو دین مسیحی کی بے حرمتی کے جرم میں ایک سال قید اور سو پاؤنڈ جرمانے کی سزا ہوگئی تو ہولی اوک کو رسالے کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا لیکن ابھی چند مہینے ہی گزرے تھے کہ ہولی اوک کو بھی ایک تقریر کی پاداش میں چھ ماہ کی قید کی سزا بھگتنی پڑی۔ جیل سے نکلنے کے بعد وہ آزاد خیالی کے حق میں مسلسل تقریریں کرتا اور رسالے لکھتا رہا۔ ۱۸۵۱ء میں لندن میں اس نے سینٹرل سیکولر سوسائٹی کے نام سے ایک انجمن قائم ہی۔ (۱) ہولی اوک کا موقف یہ تھا کہ انسان کی سچی رہنما سائنس ہے، (۲) اخلاق مذہب سے جدا ہے اور پرانی حقیقت ہے، (۳) علم و ادراک کی واحد کسوٹی اور سند عقل ہے، (۴) ہر شخص کو فکر اور تقریر کی آزادی ملنی چاہیے، (۵) ہم کو اس دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ہولی اوک کی اس تحریک کو چارلس ساؤتھ، ولیم چلٹن، ٹامس پیٹرسن اور ٹامس کوپر نے مضبوط کیا۔ یہ تحریک ایک احتجاجی تحریک تھی۔ جس ماحول میں اس نے آنکھیں کھولی تھیں ان میں بہت سے ایسے مسائل تھے جن سے نبردآزما ہونے کی ضرورت پیش آئی تھی۔ سنگین سماجی زیادتیوں، دولت مند اور بااثر طبقوں کی خود غرضی، سیاسی او رمذہبی آزادی کی غیر استدلالی مخالفت اور دینیات کی سختی نے اس تحریک کو غذا فراہم کی۔ اس تحریک کے بانی جارج جیکب ہولی اوک نے سیکولرزم کی جو تعریف کی ہے اس کو ڈاکٹر اختر بستوی نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے:
’’سیکولرزم وہ ہے جو زندگی کے فرضِ راست کی حیثیت سے انسان کے مادّی، اخلاقی اور ذہنی قوائے فطری کی بلند ترین امکانی سطح تک تکمیل کی جستجو کرتا ہے، جو دہریت، خدا پرستی یا انجیل سے علاحدہ ہوکر فطری اخلاقیات کے عملاً داعی ہونے کی تعلیم دیتا ہے اور جو مادی وسائل کے ذریعے انسانی بہبود کی حوصلہ افزائی کو اپنے طریقِ عمل کے طور پر منتخب کرتا ہے‘‘۔(ہولی اوک بحوالہ ڈاکٹر اختر بستوی، سیکولرزم اور اردو شاعری، یوپی اردو اکادمی لکھنؤ، ص۱۹، پہلی اشاعت ۱۹۹۶ء۔)
یعنی انسان کی فطری تکمیل اور آسائش کے وسائل کا مہیا ہونا اخلاقی پرستی کا مستحکم ہونا سیکولرزم کا مدعا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا فطری ضروریات کی تکمیل میں مذہب کی رکاوٹ کو ختم کیا جائے تو مذہب کی مخالفت سیکولرزم کے لیے ضروری ہوئی حالانکہ ایسا نہیں ہے، فطری ضروریات اخلاقی بلندی سے پوری کرنا کسی طرح مذہب مخالفت نہیں ہے۔
سیکولرزم کو معاشرتی نظام کے لیے درست سمجھنے سے دیندار بے دین نہیں ہوجاتا۔ سیکولرزم کا مقصد معاشرے کی صحت مند سماجی اور اخلاقی قدروں کو پامال کرنا نہیں ہے بلکہ سیکولرزم ایک ایسا فلسفۂ حیات ہے جو خردمندی اور شخصی آزادی کی تعلیم دیتا ہے اور تقلید و روایت پرستی کے بجائے عقل و علم اجہتادی قوتوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ چنانچہ سیکولرزم کی تبلیغ کرنے والوں کی کوشش رہی ہے کہ انسان کے عمل و فکر کو توہمات کے اندھیروں سے نکال کر دانائی کی روشنی میں لایا جائے۔ یہ کوئی انوکھا فلسفہ نہیں ہے۔ ہمارے صوفیائے کرام بھی یہی کہتے تھے کہ سچائی کو خود تلاش کرو، خود پہچانو اور جو رشتہ بھی قائم کرو چاہے وہ خالق سے ہو یا مخلوق سے معرفت حق پر مبنی ہو نہ کہ لالچ و خوف پر۔
سیکولرزم کی بنیاد اس قاعدۂ کلّیہ پر قائم ہے کہ ضمیر و فکر اور اظہارِ رائے کی آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے۔ ہر کسی چیز کے متعلق اسے سوچنے کا حق ہے چاہے خدا کے موجود ہونے یا ناموجود ہونے کے بارے میں غور کرے چاہے وہ مذہب کے بارے میں زندگی کے بہترین لائحۂ عمل کی حیثیت سے سوچے یا توہم پرستی کا ڈھیر مانے۔ انسان کو اس طرح سوچنے کی مکمل آزادی کی ضمانت سیکولرزم ہی دیتا ہے۔ اس طرزِ فکر میں انسان کو اس کی پوری پوری اجازت ہے کہ وہ سچائی کا راستہ خود تلاش کرے اور زندگی کے تمام مسائل پر چاہے ان کا تعلق سیاسیاست اور اقتصادیات سے ہو یا مذہب و اخلاق سے ، فلسفہ و حکمت سے ہو یا ادب سے اپنے خیالات کا اظہار بغیر کسی خوف کے کرے۔
اس تحریک کا مذہب سے رشتہ معاندانہ نہیں ہے بلکہ بے تعلقانہ ہے اس کے مطابق مذہبی عقیدہ جب تک انسانی خوشی و مسرت میں خلل انداز نہ ہو اس سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی وہ چاہے پھلے پھولے یا فنا ہوجائے، مگر سیکولرزم مذہب کے بارے میں اس رویّے کو آگے چل کر برقرار نہیں رکھ سکا۔ حالانکہ ہولی اوک نے ہمیشہ اس بات کی کوشش کی کہ سیکولرزم کے سیاسی، سماجی اور اخلاقی مقاصد ملحدانہ عقیدے کی تائید کو لازمی نہ بنائیں لیکن وہ اس مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا کیونکہ اس کے دوسرے ساتھیوں نے سیکولرزم کے فروغ کے لیے مذہب کی مخالفت کو ضروری قرار دیا خاص طور سے بریڈلا نے جو ہولی اوک کے بعد اس تحریک کا سب سے بڑا مبلغ ہے، مذہب اور سیکولرزم کو ایک دوسرے کا حریف قرار دیا۔ اس کے مطابق ’’سیکولرزم مذہبی عقیدے سے نبردآزما ہونے پر مجبور ہے‘‘۔ بقولِ ڈاکٹر اختر بستوی:
’’اس تحریک کے مبلغوں اور ہمدردوں میں بریڈلا کے ہم نواؤں کی تعداد ہی زیادہ تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا مذہب مخالف کردار مسلم ہوگیا اور اسی بنیاد پر پی۔ بی۔ گجیندر گڈکر یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ سیکولرزم کی وہ تحریک جو مغربی یورپ میں انیسویں صدی میں شروع ہوئی تھی بنیادی طور پر خدا اور مذہب کی مخالف تھی‘‘۔(اختر بستوی ، سیکولرزم اور اردو شاعری، بحوالہ انسائکلوپیڈیا آف ریلیجین اینڈ ایتھکس‘ ص۲۱، یوپی اردو اکادمی، لکھنؤ، پہلی اشاعت ۱۹۹۲)
سیکولرزم کا مفہوم اگر مذہب مخالف متعین کیا جائے گا تو اس کا ایسا تصور سامنے آئے گا جو زیادہ تر اس کے منفی پہلوؤں پر مشتمل ہوگا جب کہ یہ تصویر کا ایک ہی رخ ہوگا کیونکہ سیکولرزم کا ارتقاء مثبت سمتوں میں بھی ہوا ہے جسے نظر انداز کردینے کی صورت میں سیکولرزم کی نہ تو مکمل تشریح ممکن ہوگی اور نہ اس کا مفہوم ہی پوری طرح واضح ہوسکے گا۔ اگر ہم ’’سیکولرزم‘‘ کے لغوی معنی پر بھی غور کرلیں تو شاید اس الجھاؤ سے کچھ بچاؤ ہوسکے۔ مولوی عبدالحق کی ’’انگلش اردو ڈکشنری‘‘ کے مطابق:
’’سیکولرزم اس معاشرتی اور تعلیمی نظام کو کہتے ہیں جس کی اساس مذہب کے بجائے سائنس پر ہو اور جس میں ریاستی امور کی حد تک مذہب کی مداخلت کی گنجائش نہ ہو‘‘۔
(مولوی عبدالحق، اردو انگلش ڈکشنری، ص۲۰۹۱۔)
انگریزی کی مستند لغت ’’دی آکسفورڈ انگلش ڈکشنری‘‘ میں سیکولرزم کے مندرجہ ذیل معنی بیان کیے گئے ہیں:
’’یہ نظریہ کہ خدا یا عقبیٰ کے اعتقاد سے اخذ شدہ تمام ملحوظات کو ترک کرکے اخلاقیات کو صرف بنی نوعِ انسان کی موجودہ زندگی کی فلاح و بہبود کے لحاظ پر مبنی ہونا چاہیے‘‘۔
(بحوالہ ڈاکٹر اختر بستوی، سیکولرزم اور اردو شاعری، ص۲۳۔)
انسائکلوپیڈیا برٹینکا کے مطابق:
’’سماج میں اخرویت سے رخ پھیرکر دینویت پر توجہ دینے کی ایک تحریک‘‘۔
(بحوالہ ڈاکٹر اختر بستوی، سیکولرزم اور اردو شاعری، ص۲۴)
اسی طرح لفظ ’’سیکولر‘‘ کے لغوی معنی بھی کئی ملتے ہیں۔ آکسفورڈ ڈکشنری میں کچھ معنی یہ دیے گئے ہیں:
’’(۱) دنیا کا یا اس سے متعلق (۲) کلیسا او رمذہب سے ممیز، دنیا اور اس کے معاملات سے تعلق رکھنے والا (۳) ابدی یا روحانی دنیا سے ممیز، موجودہ یا مرئی دنیا کا دنیوی‘‘۔
)دی آکسفورڈ انگلش ڈکشنری، جلد۹، ص۳۲۵، ۱۹۳۳ء۔(
’’سیکولرزم‘‘ اور ’’سیکولر‘‘ لفظوں کے جو معنی انگریزی لغات میں بیان کیے گئے ہیں ان پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ سیکولرزم کے فرہنگی مفہوم میں دو باتوں پر زور دیا گیا ہے۔ پہلا یہ کہ سیکولر کا مطلب دنیوی ہوتا ہے، دوسرا یہ کہ سیکولر سے مراد ’’غیر مذہبی‘‘ ان معانی سے صرف یورپی سیکولرزم کے مفہوم کو سمجھا جاسکتا ہے اور ان کی روشنی میں صالح اور مثبت سیکولرزم کی وہ سمتیں اجاگر نہیں ہوتیں جو دنیا کے بعض دیگر علاقوں میں ابھری ہیں خصوصاً ہندوستان میں آزادی کے بعد نافذ ہونے والے آئین کی بنا پر سیکولرزم کے جس تصور کو فروغ حاصل ہوا ہے اور جو مذہب کی نفی کرنے کے بجائے تمام مذاہب کا یکساں طور پر احترام کرنا سکھاتا ہے وہ انگریزی لغات میں بیان کردہ معانی سے بالکل میل نہیں کھاتا ہے۔ بقول ڈاکٹر اختر بستوی سیکولرزم ایک انگریزی اصطلاح ہے اس لیے لوگ اس کی وضاحت کرتے وقت انگریزی کی لغتوں کی طرف رجوع کرتے رہے ہیں جس سے الجھاؤ پیدا ہوئے ہیں۔ جن اہلِ فکر، اہلِ قلم نے سیکولرزم کا مفہوم بیان کرنے میں اس کے لغوی معنی کو اہمیت دی ہے ان کی رائیں ایسے لوگوں سے مختلف ہوتی رہی ہیں جو اس کے ارتقاء کے تمام پہلوؤں کو نظر میں رکھ کر اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
)ڈاکٹر اختر بستوی، سیکولرز اور اردو شاعری، یوپی اردو اکادمی، لکھنؤ، پہلی اشاعت ۱۹۹۶ء، ص۲۷۔(
اردو میں سیکولرزم اور سیکولر کے لیے لادینیت، لامذہبیت یا بے دینیت اور لادینی، لامذہبی یا بے دینی یا نامذہبیت اور نامذہبی وغیرہ الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے جو کہ الحاد پرستی اور دہریت کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ان سے مذہب کی نفی کا مفہوم مترشح ہوتا ہے حالانکہ سیکولرزم کی تشریح کے سلسلے میں الجھاؤ کی صورتیں نمایاں ہوتی ہیں جس کا تفصیل سے ذکر ڈاکٹر اختر بستوی نے اپنی کتاب ’’سیکولرزم اور اردو شاعری‘‘ میں کیا ہے۔ اس قضیے کو مکمل طور پر ختم کرتے ہوئے ڈاکٹر بستوی نے لکھا ہے کہ:
’’مناسب طریقہ یہ ہے کہ اردو میں ’سیکولرزم‘ کے الفاظ جوں کے توں اپنائے جائیں اور ان کی جگہ پر اردو کا کوئی لفظ استعمال کرنے کے بجائے تقریر و تحریر میں انگریزی کے یہی الفاظ بولے اور لکھے جائیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اردو والوں نے عملاً اس مسئلے کے اسی حل کو تسلیم کرلیا ہے اور گزشتہ چند برسوں سے تمام اردو اخباروں، رسالوں اور کتابوں میں ’سیکولر اور سیکولرزم‘ کی اصطلاحیں بغیر کسی ترجمے کی اپنی اصل شکل میں استعمال ہورہی ہیں‘‘۔
)ایضاً، ص۲۹۔(
بہرحال سیکولرزم کے مفہوم اور اس کی تشریح کے سلسلے میں اختلافِ رائے ختم تو نہیں کیا جاسکتا ہے البتہ اس کا سیدھا طریقہ یہ ہے کہ ڈاکٹر تارا چند کی اس بات کو ذہن نشیں رکھا جائے کہ ’’سیاست اور مذہب کی باہمی تعلق کے مسئلے کا حل جس طرح کیا گیا اس نے سیکولرزم کے تصور کو فروغ دیا‘‘۔ (قومی یکجہتی اور سیکولرزم، ڈاکٹر تاراچند، مرتّبہ شمیم حنفی، مطبوعہ مارچ ۱۹۷۵ء، ص۳۲)
مغرب کے مقابلے مشرق میں سیکولر خیالات کی اشاعت اٹھارہویں صدی میں ہوئی۔ ہندوستان میں سیکولر خیالات کی روایت ہمیں قدیم دور سے ملتی ہے۔ اشوک، ہرش وردھن، علاء الدین خلجی، اکبر اعظم سے یہ روایت بہادر شاہ ظفرثانی تک پہنچتی ہے۔ نئی شکل میں یہ خیالات صنعت و حرفت، مغربی انداز کے نظم ونسق اور مغربی علوم کی انگریزی میں تعلیم کی وجہ سے پھیلے۔ آزادی کے بعد وہ جمہوری آئین نافذ کیا گیا جو مکمل طور پر سیکولر کردار کا حامل ہے۔ ہندوستانی سیکولرزم مذہب کی نفی نہیں کرتا بلکہ تمام مذاہب کا یکساں طور پر احترام کرتا ہے۔ جہاں تک مذہب کی بات ہے تو یہ پہلے ہی واضح کیا جاچکا ہے کہ سیکولرزم اپنے مثبت پہلو میں مذہب کی مخالفت نہیں کرتا۔ سیکولرزم کو کسی فرد، جماعت یا معاشرے کے مذہبی عقائد سے کوئی سروکار نہیں یعنی دینی امور اور دنیاوی امور کے تقاضے الگ الگ ہیں۔ سیکولرزم کا مدعا یہ ہے کہ ریاست اپنے باشندوں کے مذہبی عقائد میں مداخلت نہ کرے اور نہ مذہب کو ریاستی امور میں دخل دینا چاہیے۔ سیکولر ریاست میں ہر شخص بلالحاظِ مذہب و ملّت برابر ہوتا ہے۔ سیکولر ریاست آئینی طور پر کسی مذہب سے وابستہ بھی نہیں ہوتی اور نہ کسی مخصوص فرقے کے عقائد کو فروغ دیتی ہے۔ ریاست کے ہر باشندے کو اختیار ہوتا ہے کہ جس مذہب کو چاہے قبول کرے اور جس کو چاہے رد کرے، ریاست کو یہ بھی حق نہیں ہے کہ وہ کسی خاص مذہبی رسم کی حمایت یا مخالفت میں قانون نافذ کرے۔ البتہ اس کو یہ حق ضرور ہے کہ امن عامہ کے تحفظ کے پیشِ نظر مذہبی رسوم کی ادائیگی کے ضابطے مقرر کردے تاکہ کسی ایک مذہبی گروہ کے رسوم کی ادائیگی کے وقت دوسرے مذہبی گروپ کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔ ریاست اس بات کا بھی خیال رکھے کہ تحریر و تقریر کی آزادی کے تحت کسی کی تقریر یا تحریر سے کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کی دل آزاری نہ ہو۔ جہاں ریاست کو مذہبی تنظیموں پر مذہبی عقائد کی اشاعتوں پر پابندی کا کوئی حق نہیں ہے۔ ریاست میں فرد کی حیثیت شہری کی ہوتی ہے اور اس کے شہری حقوق مذہبی عقائد سے متعین نہیں ہوتے۔ ریاست کی نظر میں سب مذہب والے برابر ہوتے ہیں۔ ریاست ایسا نصابِ تعلیم بھی جاری نہیں کرسکتی جس سے کسی مخصوص فرقے یا مذہب کی جانب داری یا مخالفت ہوتی ہو اور نہ کسی فرقے پر مخصوص ٹیکس لگاسکتی ہے۔
ڈاکٹر اختر بستوی نے سیکولرزم کی گیارہ خصوصیات کا ذکر اپنی کتاب ’’سیکولرزم اور اردو شاعری‘‘ میں بڑی تفصیل سے کیا ہے۔ یہاں اس کی گنجائش نہیں ہے البتہ وہ خصوصیات یہ ہیں:
۱- سیکولرزم کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ مذہب کی نفی نہیں کرتا اور یہ سیکولرزم کا مثبت کردار ہے۔
۲- سیکولرزم مذہبی آزادی کے اصول کو تسلیم کرتا ہے۔
۳- سیکولرزم مذہب کو ایک انفرادی معاملہ تصور کرتا ہے۔ سیاسی یا سماجی طور پر کسی مذہب کو اجتماعی سطح پر لادنا سیکولرزم کے نظریے کے منافی ہے۔
۴- سیکولرزم کی چوتھی خصوصیت اجتماعی سطح پر مختلف مذاہب کے معاملے میں غیر جانبداری سے کام لینا ہے۔
۵- سیکولرزم ایک غیر فرقہ وارانہ اور غیر متعصبانہ نقطۂ نگاہ ہے۔
۶- سیکولرزم کی سب سے اہم خصوصیت مذہبی رواداری ہے۔
۷- سیکولرزم کی خصوصیت تمام مذاہب کا یکساں طور پر احترام کرنا ہے۔
۸- اجتماعی معاملات میں مختلف مذاہب کے درمیان تفریق کرنے کی روش کو غلط سمجھنا بھی سیکولرزم کے لیے ضروری ہے۔
۹- اجتماعی سطح پر تمام مذاہب سے مساویانہ سلوک روا رکھنا۔
آٹھویں اور نویں خصوصیات تو ایک ہی ہیںان کو الگ الگ بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی مگر تفریق کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر اختر بستوی کہتے ہیں:
’’اس خصوصیت کو سطورِ بالا میں بیان کردہ سیکولرزم کی آٹھویں خصوصیت سے منسلک و مربوط سمجھنا چاہیے، عام طور پر عدمِ تفریق اور مساویانہ سلوک کو ایک ہی بات سمجھا جاتا ہے اور ان دونوں امور کو ایک دوسرے سے الگ قرار نہیں دیا جاتا لیکن چونکہ کسی امر کا نہ ہونا اور اس کے متضاد امر کا ہونا پوری طرح ایک ہی بات نہیں ہے بلکہ ایک بات کے دو پہلو ہیں، اس لیے میں نے مختلف مذاہب کے درمیان تفریق نہ کرنے اور تمام مذاہب سے مساویانہ سلوک روا رکھنے کو سیکولرزم کی دوالگ الگ خصوصیات کے طور پر بیان کیا ہے‘‘.۔
(ڈاکٹر اختر بستوی ، سیکولرزم اور اردو شاعری، یوپی اردو اکادمی، لکھنؤ،۱۹۹۲ء، پہلا ایڈیشن، ص ۱۲۰۔ )
۱۰- سیکولرزم کی دسویں خصوصیت یہ ہے کہ مذہب کی اصل روح کا احترام کرتے ہوئے اس کے اوپری ڈھانچے کی ان فروعات کی مخالفت اور حوصلہ شکنی کی جائے جن کا تعلق اس قسم کے خارجی رسمیات سے ہوتا ہے جو بیشتر ریا کا روپ دھار کر سامنے آتی ہیں اور انسانی سماج میں منافرت اور مناقشوں کو جنم دیتی ہیں۔
۱۱- سیکولرزم کی گیارہویں خصوصیت یہ ہے کہ انسان کو سب سے بلند و برتر تصور کرتے ہوئے اس کی عظمت پر زور دیا جائے۔
ان خصوصیات کو بیان کرنے کے بعد ڈاکٹر اختر بستوی کہتے ہیں:
’’سطورِ بالا میں جن خصوصیات کا مفصل طور پر ذکر کیا گیا ہے ان سب کے مجموعے کو اس سیکولرزم سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جسے آج کے ہندوستان میں قبولِ عام حاصل ہے اور جس کو مثبت سیکولرزم کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ساری خصوصیتیں مل کر ہمارے ملک میں مروّج سیکولرزم کے مفہوم کا تعین بھی کرتی ہیں اور اس کی وضاحت بھی‘‘۔(ایضاً، ص ۱۲۷۔)
ہندوستان شروع سے ہی مختلف مذاہب کا آماجگاہ رہا ہے لہٰذا ہندوستانی سیکولرزم کی بات کرتے وقت ہم سیکولرزم کے مثبت پہلو کی ہی بات کریں گے جو کہ مذہب کی نفی نہیں کرتا بلکہ مذہبی رواداری پر زور دیتا ہے۔
مغل حکمرانوں نے آخر وقت تک رواداری اور فراخ دلی کا ثبوت دیا۔ ہندوؤں اور خصوصاً راجپوتوں کو مغل بادشاہوں سے جو قلبی لگاؤ تھا اس کا اندازہ اس روایت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جس کو سیّد صباح الدین عبدالرحمن نے اپنی کتاب ’’ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کی مذہبی رواداری‘‘ میں بیان کیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ:
’’جب دہلی کے قلعۂ معلّیٰ پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا تو کچھ زمانے کے بعد جے پور کے مہاراجا دہلی کا قلعۂ معلّیٰ بھی دیکھنے گئے، جب وہ اس جگہ پہنچے جہاں تخت رکھا جاتا تھا تو تخت کے سامنے کھڑے ہوکر چلّا اٹھے:
’مہابلی پھر کروٹ لے‘
مہابلی اکبر کا خطاب تھا، مغلوں کو مہابلی ہی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘‘۔ (سیّد صباح الدین عبدالرحمن، ہندوستان کے عہد ماضی میں مسلمان حکمرانوں کی مذہبی رواداری، معارف اعظم گڑھ، ۱۹۸۴ء، جلد سوم، ص۲۷۲)
مغلوں نے مذہبی رواداری کی جو مثال قائم کی وہ بعد کو اودھ کے نواب اور وزیروں کے یہاں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ لکھنؤ کے نوابین ہندوستانی کلچر او رمذہبی رواداری کے جس قدر قریب آگئے تھے ویسی مثال مغلوں کے یہاں بھی چند ایک کو چھوڑکر کسی اور دور میں نہیں ملتی۔ آصف الدولہ کا ہولی کھیلنا، واجد علی شاہ کا اندرسبھا کی پریوں کے قصوں کو اپنی مثنویوں میں جگہ دینا اور پھر ان کے رہس تیار کرانا، خود اردو کا سب سے پہلا رہس رادھا کنھیا کے نام سے لکھنا، برہمنوں کی منشا کے مطابق اپنے لوسو نے چاندی میں وزن کرنا پھر تمام سیم و زر کو برہمنوں اور ناداروں میں تقسیم کرانا، ساون میں قیصر باغ میں جوگیوں کا میلا، لٹکن والیوں اور جھلنی والیوں کے میلے لگانا، موسیقی کی سرپرستی کرنا، واجد علی شاہ کا راس لیلا میں جو جنم اشٹمی کے موقعے پر قیصر باغ کی سفید بارہ دری میں کھیلی جاتی تھی۔ خود شری کرشن بننا اور محرم کی مجلسوں میں ہندوؤں اور مسلمانوں کا برابر شریک ہونا وغیرہ شاہانِ اودھ کے ایسے کارنامے ہیں جنھوں نے مذہبی رواداری کی لو کو تیز کیے رکھا۔
حیدرآباد اور مرشدآباد وغیرہ میں بھی مذہبی رواداری کی شاندار مثالیں ملتی ہیں۔ اٹھارہویں صدی سے انیسویں صدی کے نصفِ اوّل تک مذہبی رواداری پھلتی پھولتی رہی لیکن ۱۸۵۷ء میں مغلیہ چراغ کے گل ہونے کے ساتھ ہی انگریزوں نے نفرت و نفاق کے بیچ بودیے۔
ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے میں صوفیائے کرام اور سادھو سنتوں نے بہت اہم رول ادا کیا ہے۔ مذہبی رواداری کا سبق صوفیائے کرام اور سادھو سنتوں نے ملک کے کونے کونے میں ہر جگہ دیا۔ اسلام نے اخوت اور انسانی مساوات کا جو پیغام دیا ہے جب صوفیاء اس پیغام کو لے کر ہندوستان میں آئے اور انھوں نے یہاں کے باشندوں کو اس اخوت اور انسانی مساوات کا پیغام دیا تو ذات پات اور اونچ نیچ کے بندھنوں میں جکڑے سماج کو اس پیغام نے اس حد تک متاثر کیا کہ کافی تعداد میں لوگ ان صوفیاء کے حلقوں میں شامل ہونے لگے۔
ہندوستان میں بھکتی اور تصوف کی نشوونما ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو ہوئی۔ ہماری تاریخ میں یہ دونوں تحرکیں ایک ہی مذہبی رجحان، ایک ہی قوت اور ایک ہی نظامِ فکر و طرزِ حیات کی نمائندگی کرتی ہیں۔ تصوف اور بھکتی اپنے ارتقاء کے ہر موڑ پر ایک دوسرے سے متاثر بھی ہوئے اور ایک دوسرے پر نظر انداز بھی، صوفیاء نے اپنے اعمال و اقوال سے عام زندگی پر اثر ڈالا، بھکتی کے رہنماؤں نے بھی اپنے کردار اور زندگی کے اثر سے بھکتی کی تعلیمات کو عام کیا، ان دونوں گروہوں نے مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو رواج دے کر سیکولر اسپرٹ کو فروغ دینے کا بڑا کام کیا۔ ہندوستان کے مختلف گوشوں میں عوام الناس کے قلوب کو انسانیت، محبت، یگانگت، اتحاد، وسیع النظری، بے تعصبی اور رواداری سے بھردیا۔
صوفیاء نے اسلامی مساوات، بلالحاظِ رنگ و مذہب و نسل انسان کی حرمت اور وحدانیت پر زور دیا۔ ان تعلیمات نے ہندو سماج اور مذہب میں روشنی کی نئی لہر پیدا کی۔ ہندوؤں نے بھی اسلامی توحید کے جواب میں اپنے یہاں وحدانیت کو تلاش کرلیا اور انھوں نے اس پر زور بھی دیا۔ ہندومت کا احیا ایک طرف تو اسلام کے مقابلے میں دفاع کی حیثیت رکھتا تھا، دوسری طرف بھکتی کا عروج اسلام اور ہندومت کی تعلیمات کی آمیزش کا نتیجہ تھا۔ ان محرکات و عوامل ہی نے آگے چل کر گرونانک اور کبیر جیسے پیشوایانِ مذہب کو جنم دیا جن کے یہاں ہند اسلامی مذہبی ترکیب کے بہترین ثمرات رونما ہوئے۔
تصوف اور ویدانت میں بہت سے عناصر مشترک تھے جنھوں نے مذہبی رواداری کی بنیادوں کو مستحکم کیا۔ ہندوستان میں بسنے والے صوفیاء نے اسلام کو ہندوستانی ذہن اور مزاج، تہذیب اور رسم و رواج کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔ اس سعی میں انھوں نے ہندوؤں کی بہت سی رسوم اور تصورات کو بھی اسلامی رنگ میں رنگ لیا۔ مذہبی فکر کی مماثلت تہذیبی اشتراک سے اور زیادہ نمایاں ہوگئی۔ اس لین دین کے نتیجے میں وہ ہند اسلامی تہذیب تشکیل پذیر ہوئی جو آج بھی پورے ملک کی مشترکہ تہذیب مانی جاتی ہے۔ اس تہذیب کی تشکیل، اس روایت کا ارتقاء اور اس کے اقدار و تصورات کے تحفظ میں صوفیاء نے مذہب، فنونِ لطیفہ، سماجی اصلاح، سیاسی بیداری اور تہذیبی یکجہتی کی مختلف سطحوں پر آبیاری کی ہے، اس کے بغیر ہندوستان کی مذہبی رواداری اور اس کی تاریخ مکمل ہی نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ ہندوستان کے ابتدائی حکمرانوں کا ہندوستان کے عوام اور خواص سے رشتہ سیاسی ضرورتوں کے تحت رہتا تھا۔ حکومت کے استحکام کے لیے وہ عوام سے قربت حاصل کرتے تھے۔ یہ حکمراں سیاسی مصلحتوں کے پیشِ نظر ہندو اور مسلمانوں میں فرق بھی کرتے لیکن صوفیائے کرام نے کبھی مذہب کے نام پر عوام میں کوئی فرق نہیں کیا۔ ان کے لیے ہندو اور مسلمان دونوں برابر تھے۔ صوفیاء ایک طرف تو حکمراں طبقے کے ظلم و استبداد کے خلاف جہاد کرتے تھے تو دوسری طرف بے بس، مجبور اور لاچار انسانوں کو انسانی عظمت اور خودداری کا درس دے کر ان میں خود اعتمادی اور بلند کرداری پیدا کرتے۔ مختصر یہ کہ تصوف کی بنیاد انسان دوستی، مذہبی رواداری اور مساوات پر تھی۔
چشتیہ سلسلے کے صوفیاء میں شیخ نظام الدین اولیاء محبوبِ الٰہی کو خواجہ اجمیر کے بعد سب سے زیادہ اہمیت و مقبولیت حاصل ہے۔ اپنے کردار اور اخلاقی تعلیم کے ساتھ برسوں عوام کے لیے شجرِ سایہ دار بنے رہے۔ تصوف کے نظریاتی مباحث سے ان بزرگوں نے زیادہ دلچسپی نہ لی مگر ان کے اقوال میں اخلاقی تعلیم اور رواداری کے جو جواہر بکھرے ہوئے ہیں ان سے ان کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کے ایک واقعے سے جس کا ذکر ڈاکٹر محمد عمر نے اپنی کتاب میں کیا ہے، ان کی مذہبی رواداری کا پتہ چلتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
’’کہا جاتا ہے کہ ایک شام شیخ اپنی خانقاہ کی چھت پر چہل قدمی کررہے تھے، اسی وقت کچھ ہندو جمنا کے کنارے پوجا کرنے میں مشغول تھے۔ ان کے ایک مرید نے شیخ کا دھیان ادھر مبذول کرایا۔ شیخ کی زبان پر برجستہ یہ مصرع برآمد ہوا (عنوان چشتی، ماہنامہ ’نیادور‘ قومی یکجہتی نمبر، مارچ-اپریل ۱۹۹۳ء، لکھنؤ، ص۷۰)
ہر قوم راست راہے دینے و قبلہ گاہے‘‘
پروفیسر خلیق نظامی لکھتے ہیں:
’’اس مصرعے میں مذہبی رواداری کا ایک بے پایاں جذبہ سمٹ آیا ہے‘‘۔ (ڈاکٹر محمد عمر، ہندوستانی تہذیب کا مسلمانوں پر اثر، پبلی کیشنز ڈویژن وزارتِ اطلاعات و نشریات حکومتِ ہند، نئی دہلی، مئی ۱۹۷۵ء، ص۲۱۔)
نظام الدین اولیاء کے چہیتے مرید امیرخسروؔ تھے جن کا ہندوستانی تہذیب کی تشکیل میں زبردست حصہ ہے۔ امیر خسروؔ اپنی مذہبی رواداری کی وجہ سے مقبولِ عام تھے، انھوں نے ہندو تہذیب اور ان کے رسوم کے بارے میں جو اظہارِ رائے کیا ہے اس سے ان کی مذہبی رواداری کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ امیرخسروؔ موسیقار بھی تھے اور شاعر بھی۔ ان کے دوہے، پہیلیاں، گیت، مکرنیاں آج تک زبان زدِ خاص و عام ہیں۔ ڈاکٹر وحید اختر لکھتے ہیں:
’’پنڈت جواہر لال نہرو کا خیال ہے کہ دنیا کی تاریخ میں مقبولیت کی ایسی دوسری مثال مشکل سے ملے گی کہ خسروؔ کی طرح کسی شاعر کا کلام بغیر لکھے سینہ بہ سینہ اور زبان و بیان صدیوں زندہ اور مقبول رہا‘‘۔)ڈاکٹر وحید اختر، بھارت بانی، ص۷۱۔(
مجموعی طور پر مسلمانوں کی حکومت میں صوفیاء کی کوششوں اور روشن خیال روادار بادشاہوں کی پالیسی کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے قریب آگئے بلکہ صوفیوں نے بھی بھکتی تحریک کے مبلغوں کے دوش بدوش مذہبی تفریق کو ختم کرنے اور رواداری کے جذبے سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے قلوب کو سرشار کرنے کی اہم قابلِ قدر خدمت انجام دی۔ ڈاکٹر پرکاش سنگر لکھتے ہیں:
’’ہندو دھرم اور اسلام کے باہمی میل سے دونوں مذاہب کے پیروکاروں نے ایک دوسرے میں بہت سی مشترکہ باتیں پائیں جن کا اظہار بھکتی کی تحریک میں رونما ہوا‘‘۔
)ڈاکٹر ست پرکاش سنگر، ماہنامہ ’شاعر‘ بمبئی، قومی یکجہتی نمبر ۱۹۷۴ء، ص۵۶)
بھکتی تحریک اور صوفی ازم کے ذریعے مذہبی رواداری اور سیکولرزم کے فروغ کے سلسلے میں ڈاکٹر اختر بستوی لکھتے ہیں:
’’صوفیوں اور بھکتوں کی تحریک بنیادی طور پر روحانی اور مذہبی تحریک تھی لیکن چونکہ اس کی بدولت مذہبی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کو فروغِ عام حاصل ہوا۔ مذہب کے ظاہری اور رسمی پہلو کی طرف سے توجہ ہٹاکر مذہبی مناقشوں کی راہ مسدود کرنے کی تدبیر پیدا ہوئی اور مذہبی اختلافات سے بلند ہوکر انسانوں کی حیثیت سے دیکھنے اور دکھانے میں مدد ملی، اس لیے اس تحریک کو ہندوستان میں سیکولرزم کے مثبت تصور کے بالواسطہ ارتقاء کی ایک انتہائی اہم کڑی قرار دیا جاسکتا ہے‘‘۔
)ڈاکٹر اختر بستوی، سیکولرزم اور اردو شاعری، یوپی اردو اکادمی لکھنؤ، پہلی اشاعت ۱۹۹۶ء، ص۸۳۔(
بہرحال یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صوفیاء اور سنتوں نے مذہبی رواداری کے فروغ میں اہم رول ادا کیا ہے۔ اب ہم مذہبی رواداری کو مشترکہ تہذیبی وراثت اور عوام کے رسم و رواج اور تہواروں کے آئینے میں دیکھیں گے۔
جب ہم ہندوستان کے اجتماعی ذہن کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ فلسفیانہ افکار، مذہبی عقائد رسم و رواج، حیاتِ اجتماعی کا شعور، انفرادی زندگی کا ادراک، تصور و تخیّلات کے خاکے، رسا طبیعتوں کا ظہور، انسانی اقدار کا تحفظ جیسے جن تصوری عناصر نے ہندوستان کے ذہن پر اثر ڈالا وہ سب کے سب خود ہندوستان کی سرزمین میں پیدا نہیں ہوئے تھے بلکہ ان میں زیادہ تر باہر سے آئے تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان عناصر نے ہندوستان کی مختلف جماعتوں اور گروہوں کو مختلف انداز میں مختلف حد تک متاثر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں مختلف مذاہب اور تہذیبیں پائی جاتی ہیں، لیکن ان کا ایک حصہ ایسا بھی تھا جو ذہنِ اجتماعی میں جذب ہوگیا اور ملک کی سب جماعتوں اور سب تہذیبوں میں مشترک بن گیا۔ ہندوستان کی تہذیبی تاریخ پر اگر آپ غور کریں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ ہندوستان میں جب بھی باہر سے کوئی نیا نظامِ فکر داخل ہوا تو وقتی طور پر تو باہمی اختلافات پیدا ہوئے لیکن اسی کے ساتھ ہندوستانی ذہن نے اپنا کثرت میں وحدت پیدا کرنے کا عمل شروع کردیا اور ایک مدت کے بعد مختلف عناصرِ تہذیب نے ایک حد تک امتزاج پیدا کرکے ایک مشترکہ تہذیب کی بنیاد قائم کردی۔
مشترکہ تہذیبی وراثت کی لو سے مذہبی رواداری کی روشنی پھیلنے کے متعلق ڈاکٹر سیّد محمد عقیل لکھتے ہیں:
’’کسی قوم یا کسی تہذیب کا وجود بغیر اس جذباتی اہم آہنگی، اتحاد اور یگانگت کے ممکن نہیں جو کسی تاریخی دور کے ایک مخصوص کلچر کے اندرونی حصوں میں گڈمڈ ہوکر بہا کرتی ہیں۔ اس بات کو ذہن میں رکھ کر جب ہندوستان کے تہذیبی ورثے کا مطالعہ کیا جائے تو نیگرائڈ، پرٹوآسٹرلائیڈ، دراوڑ، آریائی اور بعد کی اسلامی، تاتاری تمام تہذیبی تبدیلیاں ایک مخصوص وقت میں یہی نتیجے برآمد کرتی تھیں۔ قومیت، قومی یک جہتی، جذباتی ہم آہنگی، ہم جو نام چاہیں اسے دے لیں مگر مختلف دور میں انسانوں میں میل جول، ایک ساتھ مل جل کر اپنے مسائل کا حل ڈھونڈنے، طبقات کی زندگی میں اونچ نیچ یا سیاسی زبردستیوں سے آزاد ہونے کے لیے اسی خیال، فکری، جذباتی اور معاشرتی یکجہتی کی ضرورت پڑتی رہی ہے۔ جب اس ہم خیالی کا دائرہ تنگ ہوکر صرف فرقوں تک محدود ہوجاتا ہے تو یہیں سے فرقہ پرستی اور تعصب کی بھی ابتداء ہوسکتی ہے اور اگر وسیع ہوکر ایک خطۂ ارض پر محیط ہوجاتا ہے تو ایک جغرافیائی حدود کے اندر رہنے والوں کی نمائندگی ہونے لگتی ہے، جسے موسیقی، مصوری، فنِ تعمیر، ادب، لباس، رسم و رواج اور فکر و نظر کے اتار چڑھاؤ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ہندوستان میں یہ صورت ہڑپا، موہن جداڑو سے لے کر پاٹلی پتر، اجنتا، ایلورا، کھجوراہو، تاج محل، لال قلعہ، نانک، کبیر، ریداس، جائسی، معین الدین چشتی، فرید گنج شکر، پران ناتھ، بھکتی اور پریم مارگ، اکبر، جہانگیر، خسرو، داراشکوہ اور اردو زبان میں دیکھی جاسکتی ہے‘‘۔
(ڈاکٹر سیّد محمد عقیل، ماہنامہ ’شاعر‘ بمبئی، قومی یکجہتی نمبر، ۱۹۷۴ء، ص۷۳)
مشترکہ ہندوستانی تہذیب وہ خاموش بہتا ہوا دریا ہے جس میں دو دھارے آپس میں مل گئے ہیں۔ اس میں ایک دھارا ہندو تہذیب کا ہے جو آریوں کے آنے کے ساتھ ہی وسط ایشیا کے اثرات ساتھ میں لایا تھا اور یہاں کی دراوڑی تہذیب سے مل کر ایک مکمل تہذیب کی شکل اختیار کرچکا تھا۔ دوسرا دھارا سالامی تہذیب کا ہے جو عربی، ایرانی اور ترکی اثرات لے کر ہندوستان میں آٹھویں صدی میں بہنے لگا تھا۔ لیکن گیارہویں صدی کے آخر میں کچھ تیز ہوکر تیرہویں صدی میں پورے زور و شور کے ساتھ شمال سے جنوب کی طرف بڑھنے لگا۔ دونوں دھاروں کے ملنے سے جو تہذیب پروان چڑھی اس کو کبھی تو ہند اسلامی تہذیب کہا گیا ،کبھی ہند ایرانی، کبھی گنگا جمنی اور کبھی مشترکہ تہذیب کہا گیا۔ نام چاہے جو رکھ دیجیے لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ دونوں تہذیبوں نے ایک دوسرے پر زبردست اثر کیا۔
کتابیات
۱- اقبال حسین، ہندوستانی تہذیب، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، ۱۹۸۸ء
۲- اختر بستوری، سیکولرزم اور اردو شاعری، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، ۱۹۸۸ء
۳- اشفاق محمد خاں، مذہب، مسلمان اور سیکولرزم، اردو بازار، دہلی، ۱۹۷۳ء
۴- اقبال خاں، اردو اور سیکولرزم، شرکت پرنٹنگ پریس، لاہور، ۱۹۹۸ء
۵- تاراچند، اسلام کا ہندوستانی تہذیب پر اثر
۶- تنویر احمد علوی، ہماری تہذیبی ورثہ، شاہد پبلی کیشنز، نئی دہلی، ۲۰۰۰ء
****
Leave a Reply
Be the First to Comment!