اقبال کے فکری منابع
اقبال احمد شاہ
استاد شعبہ اردو، گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج،کوٹ سلطان(پاکستان)
Fountainheads of Iqbal’s idealogy.
by:Iqbal Ahmad Shah,lecturer Urdu,Govt Post_Graduate college Kot Sultan(Pakistan)
iqbalshah26@yahoo.com
+923457171761
Abstract:
Allama Iqbal enjoys the status of being a universal poet in term of his intellect and art.Iqbal`s intellect neglects a glimpses of different personalities, movements, trends and views. Having acquired the early education from his parents, he went on to avail himself of the wisdom of Molvi Mir Hassan and Prof. Arnold. After this,he directly extracted inspiration from movements, such as Ali Garh,Makhzan,Anjman e Punjab and Anjman Himayat e Islam.Besides,he benefited a great deal from Persian, Urdu and Western poetic tradition. All these factors not only redered maturity to iqbal`s intellect but also made it a beautiful blend of different movements as well as trends.
فنی اور فکری حوالے سے اقبال ایک آفاقی شاعر کا درجہ رکھتے ہیں۔اقبال کی فکر میں مختلف شخصیات،تحاریک ،رجحانات اور افکار کی جھلک محسوس کی جا سکتی ہے۔والدین سے ابتدائی تعلیم و تربیت کت بعد اقبال نے مولوی میر حسن اور پروفیسر آرنلڈ سے کسب فیض کیا۔اس کے بعد علی گڑھ ،مخزن،انجمن پنجاب،انجمن حمایت اسلام جیسی تحریکوں کے اثرات براہ راست قبول کیے۔اس کے علاوہ فارسی،اردو اور مغربی شعری اور فکری روایت سےبھرپور استفادہ کیا۔ان تمام عوامل و محرکات نے نہ صرف اقبال کی فکر کو پختگی اور آفاقیت عطا کی بلکہ اسے مختلف تحاریک اور رجحانات کا حسین امتزاج بھی بنا دیا۔
کلیدی الفاظ
اقبال کی فکری تشکیل۔۔۔۔۔والدین کی ابتدائی تربیت۔۔۔۔مولوی میر حسن۔۔۔۔پروفیسر آرنلڈ۔۔۔۔علی گڑھ تحریک کے اثرات۔۔۔۔لاہور کی علمی و ادبی فضا۔۔۔۔مخزن اور سر عبدالقادر۔۔۔۔۔انجمن پنجاب کی جدیدنظم کی روایت۔۔۔۔انجمن حمایت اسلام۔۔۔۔فارسی کی شعری روایت۔۔۔مولاناروم اور حافظ۔۔۔۔۔اردو ادب۔۔۔۔غالب کے معترف۔۔۔۔مغربی شعر و ادب سے کسب فیض۔۔۔۔۔فکر اقبال مختلف رجحانات کا امتزاج
اقبال کا شمار اردو ادب کے ان معدودے چند شعراء میں ہوتا ہے جنہیں اپنی زندگی میں ہی شہرت عام اور بقائے دوام کی سندحاصل ہو گئی تھی۔وہ نہ صرف اپنے عہد کے سب سے بڑے شاعر تھے بلکہ انہیں اردوشاعری کی تاریخ کے ایک نئے عصر کے معمار ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے حالی،سرسید،شبلی اور اکبر کے اصلاحی کاموں کی تکمیل کی اوراپنی قومی و ملی شاعری کے ذریعے صحیح صورت حال اپنی قوم تک پہنچائی۔اقبال نہ صرف یہ کہ ایک عظیم المرتبت شخصیت کے مالک تھے بلکہ بلند پایہ مفکر اور فلسفی بھی تھے۔اس کے ساتھ ساتھاردو اور فارسی زبان کے قادرالکلام شاعر ہونے کا اعزاز بھی انہیں حاصل تھا۔انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے نہ صرف قومی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا بلکہ اردوزبان و ادب کو نئےمفاہیم،علائم،رموز،تشبیہات اور استعاراتی نظام سے بھی روشناس کرایا۔اقبال اگرچہ پیدائشی اور فطرتی شاعر تھے تاہم اپنی دور کی کچھ تحریکوں،رجحانات اور اشخاص ایسے ہیں جنہوں نے اقبال کی فکری تشکیل اور بنت میں نمایاں کردار ادا کیا۔
اقبال 9نومبر1877ء کو سیالکوٹ کے ایک قدیم کشمیری خاندان میں پیدا ہوئےجو پندرہویں صدی میں اسلام قبول کر کے سیالکوٹ میں آ مقیم ہوئے تھے۔یہ خاندان اپنی درویشی،تصوف،دانائی اور حکمت کے باؑچ نہ صرف ممتاز مقام کا حامل تھا بلکہ اس اس دور میں عزت اور احترام کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا تھا۔خاص طور پر اقبال کے والد اپنی دانائی،بزرگی اور درویشی کے باعث شہر بھر میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔اگرچہ شیخ نور محمد کی رسمی تعلیم نہ تھی مگر پھر بھی انہیں اپنے شہر میں معتبر مقام حاصل تھا۔ڈاکٹر محمد آصف ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
شیخ نور محمد اپنے پاکیزہ صوفیانہ اطوار کے باعث شہر میں بے حد محترم تھے اور رسمی تعلیم نہ ہونے کے باوجود مذہبی مسائل سےواقفیت اور صوفیانہ ادراک رکھتے تھے۔اور ان پڑھ فلسفی کہلائےجاتے تھے”۔(1)
اس طرح کی روحانی ہستی کے ہاں اقبال کی ابتدائی تربیت ہوئی جس نے اپنے سعادت مند بیٹے کو تاکید کی کہ قرآن اس طرح پڑھو جیسے قرآن تم پر اتر رہا ہے۔اپنے والد محترم کی اس طرح کی تربیت کے باعث اقبال میں نہ صرف عشق رسول کے جذبات نے شدت اختیار کی بلکہ آپ میں تصوف کی رغبت بھی پیدا ہوئی۔اس کے ساتھ ساتھ اگر اقبال کی والدہ کی تربیت کا ذکر کیا جائے تو گرچہ اقبال کی والدہ ایک ان پڑھ خاتون تھیں مگر ان کی ذات بھی تصوف،معرفت،عشق الہی ،اخلاقیات جیسی صفات سے مزین تھی۔ان کی تربیت اور پرورش کے اثرات اور اہمیت اقبال کی شہرہ آفاق نظم “والدہ مرحومہ کی یاد میں”سے بخوبی محسوس کی جا سکتی ہے۔گویا والدین کی اس طرح کی تربیت کے زیر اثر اقبال میں عشق رسول،معرفت الہی،دین داری جیسے اوصاف پیدا ہوئے جنہوں نے آگے چل کر اقبال کی فکری تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا۔
ابتدائی تعلیم کے بعد اقبال کا داخلہ سکاچ مشن سکول سیالکوٹ میں کروا دیا گیا جہاں مولوی میر حسن جیسے جوہر کامل نے اقبال کی فکری تشکیل اور بالیدگی کیے ایک نئے دور کی بنیاد ڈالی۔مولوی میر حسن متنوع الاوساف اور خدا داد صلاحیتوں کے مالک تھے۔ان کی شخصی خوبیوں کے بارے میں ڈاکٹر محمد آصف لکھتے ہیں:
مولوی میرحسن مسلمانوں میں جدید تعلیم کے فروغ کے زبردست ہامیتھے،وسیع النظر،روشن خیال تھے۔علعم اسلامی و عرفان و تصوف کے ساتھ ساتھ علوم جدیدہ،ادبیات،لسانیات اور ریا ضیات سے آگاہ تھے۔۔۔علی گڑھاور اس کے مقاصد سے والہانہ لگاؤ تھا”۔(2)
اقبال کی شخصیت،فکر اور تربیت پر مولوی میر حسن کی شخصیت اور تربیت کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔اقبال کی ذات میں مولوی میر حسن کے باعث نہ صرف اسلام اور مشرق کی وقعت و اہمیت پیدا ہوئی بلکہ علی گڑھ تحریک کی قومی خدمات کا احساس بھی اقبال کے اندر مولوی میر حسن کے باعث پیدا ہوا۔سید عابد علی عابد اقبال کی شخصیت پر مولوی میر حسن کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اس زمانے میں میر حسن نے نہ صرف اقبال کو فارسی ادبیات سے آگاہ کیا بلکہ عربی بھی پڑھائی”۔(3)
اقبال اس ابتدائی تعلیم کے بعد جس شخصیت سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے وہ پروفیسر آرنلڈ تھے۔والدین کی ابتدائی تربیت کے بعد یہ مولوی میر حسن اور پروفیسر آرنلڈ کی شخصیت،تعلیم اور تربیت کا سرچشمہ ہی تھا کہ اقبال نہ اپنے دور ہی سے ایک نابغہ کی حیثیت اور رتبہ حاصل کر لیا۔پھر نابغہ کی ایک خاصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ محض ایک زمانے تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ اس کی فکری اساس کا خمیر بھی کئی زمانوں کی خاک کو سموئے ہوئے ہوتا ہے۔اقبال کی صورت حال یہی تھی۔انہوں نے براہ راست نہ سہی مگر اپنے دور،ماضی کی نامور شخصیات،تحاریک اور رجحانات سے کسب فیض حاصل کیااور اپنے آپ کو محدود نہیں کیا۔اس عمل نے نہ صرف اقبال کو فکری پختگی عطا کی بلکہ اف کی فکر اور کلام کو آفاقیت بھی عطا کی۔
اقبال کے زمانہ طالب علمی کے دونوں کاملین،مولوی میر حسن اور پروفیسر آرنلڈ سر سید احمد خان سے نہ صرف متاثر تھے بلکہ ان سے قریبی تعلقات بھی رکھتے تھےاور ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے سرسید کی خدمات کے دل سے معترف بھی تھے۔اقبال کا ابتدائی دور علی گڑھ تحریک کے عروج کا دور تھااس لیے اقبال جیسے شخصیت کا اس تحریک سے واقف نہ ہونا یقینا حیران کن بات دکھائی دیتی ہے۔یوں اقبال اپنے ابتدائی دور میں نہ صرف علی گڑھ تحریک سے متاثر ہوئے بلکہ اسے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے واحد امید کی کرن بھی تصور کرتے تھے۔سرسید سے اقبال کا پہلا رابطہ مولوی میر حسن کے ذریعے ہوا(4)اور اقبال سرسید سے متاثر بھی ہوئے۔اس دور میں اقبال کی سرسید کے بارے میں رائے نہایت معتدل اور عمدہ تھی۔ڈاکٹر محمد آصف اس حولے سے لکھتے ہیں:
سرسید پہلے مسلمان تھے جنہوں نے آنے والے دور کی جھلک دیکھی تھی اور یہ محسوس کیا تھاکہایجابی علوم اس دور کی خصوصیت ہے۔انہوںنے مسلمانوں کی پستی کا علاج جدید تعلیم کو قرار دیا۔”(5)
خاص طور پر جدید تعلیم کے حوالے سے اقبال سر سید کے معترف تھے۔گرچہ اقبال کا قلب مشرقی اور اسلامی تھا لیکن وہ مغربی تعلیم سے بھی بہرہ مند ہوئے تھےاس لیے ایک تو سرسید سے متاثر ہونا فطری بات تھی،دوسرا سر سید کااس دور کا کام بلاشبہ ایک کارنامہ ہی کہا جا سکتا ہے۔اس لیے بقول عابد علی عابد:
اقبال نے سرسید اور حالی(یعنی علی گڑھ تحریک)کے کام کی تکمیل کردی”۔(7)
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا عوامل تھے جن کی وجہ سے اقبال سرسید کی فکر اور تحریک سے پہلو تہی کر گئے؟اس حوالے سے ڈاکٹر محمد آصف کا تجزیہ اور رائے بالکل درست معلوم ہوتی ہے۔وہ لکھتے ہیں:
سرسید تہذیب مغرب سے مرعوب ہو گئے تھے۔مادہ پرستی کا عنصر غالب آگیا تھا،اقبال نے یہ بات ملحوظ خاطر رکھی کہ اپنی ساری توجہ اسلام کے بنیادی اصولوںکو آشکار کرنے میں صرف کریں اور اسلامی روایات کو مجروح کیے بغیردینی مسائل کا جدید افکار کی روشنی میں اثبات کریں”۔(8)
گویا سرسید سے اقبال کا یہ “اختلاف”مثبت اور صحت مندانہ تھا اور اس کے پس پردہ کوئی ذاتی مسائل نہ تھے بلکہ اسلام اور مسلمان کی اصلاح تھی جو اقبال کے پیش نظر رہی۔
ہندوستان کے دیگر علاقوں کے برعکس سرسید کی علی گڑھ تحریک کے سب سے زیادہ اثرات پنجاب پر مرتب ہوئے۔پنجاب کی علمی،ادبی اور تہذیبی فضا پر ان عناصر اور عوامل کا غلبہ تھا جو سرسید اور ان کی تحریک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے۔سرسید کی جانب سے پنجاب کے چار مختلف دوروں کے باعث لاہور گویا علی گڑھ کی ہی ایک شکل بن گیا اور یہاں پرجدید تعلیم اور ادب کے نئے سرچشموں کا آغاز ہوا۔(9)سرسید کی علی گڑھ تحریک کے باطن سے پھوٹنے والا ایک اہم سرچشمہ انجمن پنجاب لاہور کا قیام ہے(1865ء)جو نہ صرف پنجاب میں نئی ادبی روایت قائم کرنے کا ایک ذریعہ ٹھہری بلکہ اس سےجدید نظم اور ادب میں سرسید جیسی مقصدیت کی روایت کو بھی فروغ حاصل ہوا۔اس کے ساتھ ساتھ انجمن پنجاب نے لاہور کی علمی و تعلیمی ترقی کے ایک روشن باب کا آغاز کیا۔اس کے دو کارنامے اس دور سے ہی اہل لاہور کے لیے ایک یادگار ٹھہرے۔ایک اورئنٹیل کالج اور دوسرا پنجاب یونیورسٹی کا قیام۔ پھر ہندوستان کے اہم ترین ادیبوں اورشاعروں کی ہجرت لاہور کے ادبی اور تہذیبی مرکز کے قیام کی ضامن ٹھہری۔یہ ایسی ہی ہجرت تھی جیسی دکن سے دلی اور پھر دلی سے لکھنئو کی طرف ہوئی تھی۔حالی اور آزاد نے نہ صرف لاہور میں اس انجمن کی بنیاد رکھی بلکہ یہاں سے نئی شاعری کے باقاعدہ اجراء کے بھی علمبردار ٹھہرے،ایک ایسی نئی شاعری جس میں پرانی شاعری کو یکسر کمزور بنا کر پیش کیا گیا۔انجمن کے تحت ہونے والے مشاعروں میں اقبال بھی شریک ہوتے رہے اور یہیں پر انہوں نے اپنی وہ غزل سنائی جس کے اس شعر کو سن کر مرزا ارشد گورگانی بھڑک اٹھے تھے:
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
قطرے گرے تھے جو عرق انفعال کے(10)
اس تحریک کے زیر اثر اقبال نے جو شاعری کی ان میں زیادہ تر تعداد آزاد نظموں کی ہے۔انجمن پنجاب کے تحت حالی،آزاد،اسماعیل میرٹھی،دتا تریا کیفی،نظم طباطبائی ایسےبڑے شاعروں نے آزاد نظم کی بنیاد رکھی اور اس دور میں اقبال نےہمدردی،ایک بچے کی دعا،پہاڑ اور گلیری،ایک مکڑا اور مکھی،پیام صبح،آفتاب ایسی نظمیں لکھیں جن پر آزاد نظم کی شاعری کی چھاپ واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔یہ وہ موضوعات ہیں جو آزاد اور حالی کی شاعری کے موضوعات سے مناسبت رکھتے ہیں۔بعد میں مسدس مدو جزر اسلام ایسی شہرہ آفاق نظم کے باعث اقبال نے خضر راہ،جواب شکوہ،طلوع اسلام،مسجد قرطبہ،شب معراج،صدیق اور بلال جیسے مشہور زمانہ نظمیں تخلیق کیں۔ان نظموں کے موضوعات اور اس میں پیش کی جانے والی فکر کے ساتھ ساتھ استعاراتی اور تشبیہاتی نظام اقبال کی فکری پختگی کی علامت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
انجمن پنجاب اور سر سید کی فکر سے متاثرہ اس تحریک سے ہی پنجاب میں ایک علمی و ادبی فضا کی تشکیل ممکن ہوئی۔گویا پنجاب میں ایک علمی ،ادبی اور تعلیمی ماحال کا آغاز ہو گیا جس سے دیکھتے ہی دیکھتے انجمن حمایت اسلام جیسا ادارہ قائم ہوا۔ابتدا میں گرچہ انجمن حمایت اسلام کے اغراض و مقاصد خالصتاسماجی اور فلاحی خدمت کے حوالے سے تھے مگر جلد ہی اس کے تحت ایک ذرخیز ادبی روایت کا آغاز ہو گیا اور اس کے تحت مختلف ادبی رجحانات کی تخلیق دیکھنے میں آئی۔خاص طور پر جدید نظم کی جس روایت کی بنیاد انجمن حمایت اسلام کے تحت پڑی،اقبال نے بھی اس روایت کی ذرخیزی میں بھی اپنا حصہ بخوبی ڈالا۔اقبال کی نظم نالئہ یتیم سے انجمن کے ساتھ فکری سفر کی ابتدا ہوئی جس کے بعد انہوں نے “شکوہ”،”شمع و شاعر”،”بلال”،”خضر راہ”اور “طلوع اسلام”جیسی شہرہ آفاق نظمیں انجمن حمایت اسلام کے پلیٹ فارم سے ہی کہیں۔
انجمن حمایت اسلام کو علی گڑھ تحریک کی ہی ایک توسیعی شکل قرار دیا جا سکتا ہے۔اس کااندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ سرسید تحریک کے تمام بڑے نام انجمن حمایت اسلام کے اجلاسوں میں باقاعدہ شریک ہوتے رہےان میں الطاف حسین حالی،مولوی نذیر احمد اور مولانا شبلی نعمانی کے نام قابل ذکر ہیں۔اقبال کی جانب سے اپنی اہم ترین نظموں کو اس پلیٹ فارم کے ذریعے پیش کرنا اور لوگوں تک پہنچانا سرسید تحریک کی طرح ہی اپنے مقاصد کو ادب کے ذریعےحاصل کرنے کی ایک کوشش قرار دیا جا سکتا ہے۔پھر اقبال نہ صرف دلجمعی سے اس تحریک کے ساتھ وابستہ رہے بلکہ بعد ازاں اس تنظیم کے سیکرٹری،صدر اور قانونی مشیر بھی رہے۔یون نہ صرف اقبال نے لاہور کی تعلیمی و فلاحی سرگرمیوں میں عملی طور پر حصہ لیا بلکہ انجمن حمایت اسلام کے ذریعے انہوں نے قومی و ملی شاعری کی روایت کو بھی پروان چڑھایا۔اس حوالے سے انجمن حمایت اسلام اور اقبال ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بن گئے اور ان دونوں کی سرگرمیاں ایک دوسرے کی ترقی کا ذریعہ ٹھہریں۔
ان ادبی تحاریک کے علاوہ اقبال کے سامنے کلاسیکی شعراء کی بھرپور تخلیقی روایت موجود تھی۔یہ روایت محض اردو زبان و ادب تک ہی محدود نہ تھی بلکہ اس میں فارسی اور انگریزی ادب کی روایت بھی شامل تھی جس کا اقبال نے براہ راست مطالعہ کیا تھا۔فارسی شاعری میں اقبال مولانا روم کی انتہائی عقیدت مند تھےاور انہیں پیر رومی کہتے ہوئے ان کا معنوی شاگرد ہونے میں فخر محسوس کرتے تھے۔اقبال کے پیش نظر چونکہ مسلمان قوم کی اصلاح اور سربلندی تھی اسی لیے مولانا روم سے ان کا متاثر ہونا فطری بات محسوس ہوتی ہے۔مولانا روم کے بعد حافظ ایسے شاعر ہیں جن کی شاعری سے اقبال کو والہانہ لگاؤتھا۔ڈاکٹر خالد اقبال یاسر اس حوالے سے لکھتے ہیں:
اقبال جب ہندوستان سے یورپ گئے تو حافظ کے بے شمار شعر انہیں ازبر تھے،اس لیے ایک بار عطیہ فیضی نے انہیں حافظ کا حافظ قرار دیا تھا۔”(11)
حافظ سے اقبال کی یہ وابستگی فن سے کہیں زیادہ فکری حوالے سے تھی کیوں کہ اقبال حافظ کی وحدت الوجودی فکر سے متاثر تھے۔اس کے علاوہ سنائی،عرفی،فیضی اور بیدل ایسے شاعر ہیں جن کی فارسی شاعری سے اقبال کی پسندیدگی ظاہر ہوتی ہے۔اسی طرح اردو کی شعری روایت میں اقبالا ابتدا میں سودا کے فن اور فکر سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔بعد ازاں بیدل کی شعری عظمت کے پوری طرح قائل رہے لیکن اردو شاعری میں جس شاعر نے اقبال کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ مرزا غالب ہیں۔غالب سے اس لگاؤ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ غالب اردو میں وہ اولین شاعر ہے جس نے فلسفیانہ مضامیں کو شاعری کے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا۔اس لیے اقبال نے جب اپنی شاعری میں فلسفیانہ مضامین کو سمونے کی کوشش کی تو اردو شاعری میں انہیں غالب ہی اٌپنے پیش رو نظر آئے۔اس لیے انہوں نے نہ صرف غالب کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا بلکہ جاوید نامہ میں انہوں نے مسلم دنیا کے جن تین کرداروں کو چنا ان میں ایک غالب بھی شامل تھے۔اقبال نے اپنی شاعری میں درحقیقت اس روش کی تکمیل کی جس کی داغ بیل غالب ڈال گئے تھے۔گویا غالب کی انانیت اقبال کے تصور خودی میں ڈھل کر سامنے آئی۔
اس شعری اور تحریکی روایت کے ساتھ ساتھ اقبال نے مغرب کی مکمل فلاسفی کا مطالعہ کیا اور اس سے فکری شعور بھی اخذ کیا۔اقبال نے اس دوران کالج،ورڈزورتھ،نطشے،برگساں،کال مارکس،چارلس اینگلز،ہیگل،گوئٹے،سے بھر پور استفازہ کیا۔ان تمام عوامل اور محرکات نے مل کر اقبال کو،جو ابتدا میں ایک فطرتی شاعر کے طور پر جانے جاتے تھے،ایک مکمل فلسفی،آفاقی شاعر بننے میں مدد فراہم کی۔اقبال کی خاصیت یہ ہے کہ انہوں نے کسی فکر،فرد،رجحان کے اپنے لیے شجر ممنوعہ قرار نہیں دیس بلکہ ان سےایک پیاسے طالب علم کے طور پر مکمل استفادہ حاصل کیا۔اس عمل سے ایک طرف تو اقبال کے لیے اپنی فکری سمت کا تعین آسان ہوا تو دوسری طرف ان کی فکر کو پختگی بھی عطا ہوئی۔ان سب چیزوں سے بڑھ کر اس عمل سے اقبال کے فکر کو آفاقیت اور علگیریت عطا ہوئی۔اقبال پھر ایک وقت،ایک رجحان اور ایک دور تک ہی محدود نہ رہے بلکہ انہیں وہ رتبہ ملا جو آج تک بھی قائم و دائم ہے اور آج کے اس دور میں بھی اقبال کی فنی و فکری عظمت کو کم نہیں کیا جا سکا۔علاوہ ازیں ان محرکات اور عوامل،شخصیات و رجحانات اور تحاریک سے مکمل اور بھر پور استفادے نے فکراقبال کو تمام عصری تحاریک اور رجحانات کے ایک حسین امتزاج کی شکل عطا کی جو اقبال کی فکری معراج کہی جا سکتی ہے۔
حوالہ جات
1۔محمد آصف،ڈاکٹر،”اسلامی اور مغربی تہذیب کی کشمکش،فکر اقبال کے تناظر میں”،ملتان:شعبہ اردو،بہاءالدین زکریا یونیورسٹی،2009ء،ص105
2۔ایضاً،ص107
3۔عابد علی عابد،سید،”شعر اقبال”،لاہور:بزم اقبال،1964ء،ص69
4۔محمد اقبال،علامہ،”شذرات فکر اقبال”،دیباچہ،مرتبہ،جاوید اقبال،ڈاکٹر،مترجم،افتخار احمد صدیقی،ڈاکٹر،لاہور:مجلس ترقی ادب،1983ء،ص47
5۔محمد آصف،ڈاکٹر،”اسلامی اور مغربی تہذیب کی کشمکش،فکر اقبال کے تناظر میں”،ص92
6۔ عابد علی عابد،سید،”شعر اقبال”،ص35
7۔ محمد آصف،ڈاکٹر،”اسلامی اور مغربی تہذیب کی کشمکش،فکر اقبال کے تناظر میں”،ص96
8۔ایضاً،ص101
9۔محمد حنیف شاہد،”اقبال اور انجمن حمایت اسلام”،لاہور:کتب خانہ انجمن حمایت اسلام،1976ء،ص81
10۔خالد اقبال یاسر،”ادبی-فکری تحاریک اور اقبال”،لاہور:اردو سائنس بورڈ،س۔ن،ص392
11۔ایضاً،ص387
٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!