اقبال اور سائنس
علی احمد ادریسی
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو،دہلی یونیورسٹی
9891129986
اقبال کے ذاتی کتب خانے میں انگریزی زبان میں 520کتابیں دستیاب ہیں۔ جن میں 426 کتابیں اسلامیہ کالج میں ’’انتخاب اقبال‘‘ یا گوشئہ اقبال کے نام سے محفوظ ہیں۔ ان میں زیادہ تر کتابیں Physical Sciences کے موضوع پر ہیں۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ان میں سترہ کتابیں آئنسٹائن (Einstein) کے نظریہ اضافیت یا (Theory of Relativity) کے موضوعات پر ہیں۔ اس ضمن میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس زمرے میں کسی دوسرے موضوع، مکتب فکر، مفکر، مصلح قوم یا شاعر کو وہ اہمیت یا فوقیت نہیں دی گئی ہے جو Einstein اور اس کے نظریہ کو دی گئی ہے ۔ Hegelianism یا ہیگلیت پر 9 کتابیں، برگساں اور برگسانیت (Bergsonisms) پر 12 کتابیں اور آخر میں 11 کتابیں نیٹشے (Nietzsche) اور اس کے نظامِ فلسفہ پر مشتمل ہیں۔ نظریہ اضافیت کے متعلق دوسری کتابیں جو اقبال کے مطالعہ میں شامل رہیں ،ان کی فہرست ذیل میں درج ہے۔
- Einstein, A, Relativity: The Special and General Theory: A Popular Exposition, 1920
- A.S. Eddington, The Nature of the Physical World, 1929
- H.W. Carr, The General Principle of Relativity in its Philosophical and Historical Aspect, 1920
- R.B. Haldane, Reign of Relativity, 1921
- L. Rougier, Philosophy and New Physics, 1921
1919ء تک Einstein کے نظریہ اضافیت کو عالمی شہرت حاصل ہوچکی تھی، اس سے قبل انھوں نے اپنا تحقیقی مضمون یا مقالہ (on the Electrodynamics of Moving Bodies) شائع کروایا جس میں نظریہ اضافیت کے متعلق قدرے تفصیل سے ذکر کیا گیا تھا۔ اس طرح سے 1922ء تک Einstein کے نظریہ اضافیت کے متعلق تمام تحقیقی کتب اور مضامین شائع ہوچکے تھے۔ قومی امکان ہے کہ پیام مشرق کی اشاعت 1923ء سے قبل یہ تمام تر تحقیقی مقالے اور مضامین مطالعہ اقبال کی زینت بن چکے تھے۔ لہذا پیام مشرق کے دیباچہ میں اقبال نے Einstein اور برگساں کی ستائش کی ہے، اقبال لکھتے ہیں:
’’یورپ کی جنگ عظیم ایک قیامت تھی جس نے پرانی دنیا کے نظام کو تقریبا ہر پہلو سے فنا کردیا ہے اور اب تہذیب وتمدن کی خاکستر سے فطرتِ زندگی کی گہرائیوں میں ایک نیا آدم اور اس کے رہنے کے لئے ایک نئی دنیا تعمیر کر رہی ہے جس کا ایک دھندلا سا خاکہ ہمیں حکیم آئن سٹائن اور برگساں کی تصانیف میں ملتا ہے‘‘۔ ۱؎
مزید تشکیل جدید الٰھیات اسلامیہ کے دوسرے خطبہ میں اقبال نے آئن سٹائن کو زبردست تہنیت پیش کی ہے اور ان کے نظریہ اضافیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے:
” His discoveries have laid the foundation of a far reaching revolution in the entire domain of human thought”.(Philosophical Test of the Revelations of Religious Experience)
نظریہ اضافیت کو وضع کرنے والوں کی فہرست میں ایک اہم نام A.stanley Eddingtonکا ہے جنھوں نے Physical Society of Londonکے اصرار پر ’’Report on the Relativity Theory of Gravitation‘‘ نامی کتاب لکھی اور مزید ترمیم اور اضافہ کے ساتھ 1923ء میںاپنے اصول کو Mathematical theory of Relativity کے نام سے شائع کیا۔ تشکیل جدید میں اقبال نے ان تمام تصانیف کا حوالہ دیا ہے۔ نظریہ اضافیت کی ضمن میں ایک اور اہم نام H Wildon Carr کا ہے جو ایک طویل عرصے تک Aristotelian Society,London کے سیکریڑی رہے اور بعد میں صدارت کے منصب پر بھی فائز ہوئے۔ یہ وہی Society ہے جس نے اقبال کو دسمبر 1932ء میں ایک خطبہ کے لئے دعوت دی تھی اور اقبال نے ’’کیا مذہب کا امکان ہے‘‘ یا ’’is Religion Possible‘‘ کے عنوان کے تحت تشکیل جدید کا ساتواں خطبہ پیش کیا تھا۔ اقبال کے ذاتی کتب خانہ میں دوسرے ہم عصر فلسفیوں کی نسبت Carr کے نظام فلسفہ پر زیادہ تصانیف دستیاب ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ Carr فرانسیسی فلسفی برگساں کے اولین شارح تسلیم کئے جاتے ہیں مزید برآں انھوں نے برگساں کو سب سے پہلے انگریزی قارئین سے متعارف کرایا۔ اقبال نے تشکیل جدید میں Carr کی ایک تصنیف ’’The General Principle of Relativity in its Philosophical and Historical Aspect‘‘ کا حوالہ دیا ہے۔
نظریہ اضافیت کے متعلق اقبال کے ذاتی کتب خانہ میں Louis Rougier’s کی ایک اہم تصنیف ’’Philosophy and new Physics(1921)‘‘ ہے۔ تشکیل جدید کے تیسرے خطبہ میں اقبال نے اس تصنیف کا حوالہ اشاریوں کے فلسفہ زمان اور مادہ (Time & matler) کے اصولوں کو تقویت پہچانے کے لئے دیا ہے۔ اس تصنیف کا حوالہ اقبال نے پہلے خطبہ میں بھی دیا ہے جہاں وہ کہتے ہیں:
”with the advance of scientific thought even our concept of intelligibility is under going change”.
Spengler کی مشہور تصنیف ’’Decline of the west‘‘ جو دو حصوں پر مشتمل ہے اس کے دونوں نسخے اقبال کی ذاتی کتب میں شامل ہیں۔ نومبر 1928ء میں Lahore میں oreintal conference کے تحت دئے گئے اپنے صدارتی خطبہ میں اقبال نے Spengler کے اس دعوے کو خارج کیا ہے کہ ’’Function‘‘ یوروپی دنیا کا وضع کیا ہوا اصول ہے اور دنیا کی کسی دوسری تہذیب میں اس کا عکس نظر نہیں آتا۔ اپنے خطبہ’’A Plea for Deeper Study of the Muslim Scientist‘‘ میں اقبال نے مدلل بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ ’’Function‘‘ کی ماہیت کو سب سے پہلے البیرونی نے پیش کیا۔ اقبال نے اس خطبہ میں جن عنوانات کے تحت اظہار خیال کیا ہے حسب ذیل ہیں۔
- Aristotelian idea of fixed universe
- Function
- Geometrical proof of the interpolation formula
- God as the ommipsyche of the Universe
- Hyperspace movement
- infinite continuum
- Newton’s formula of interpolation
- Non Euclidean geometry
- Parallel postulate
فکرِ اقبال کو ممیزکرنے میں ان تمام کتابوں رسالوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس طرح سے اقبال نے اپنے شعری فکری شعر میں مشرق ومغرب کے بیشتر شعراء حکما ء ،کتب و رسائل سے استفادہ کیا، ان کو اپنے فکر کے میزان پر پرکھا ،جو کھرے اترے انھیں داد وتحسین دی اور جو اس پیمانہ پر نہ پہنچ سکے ان پر تنقید کی۔ مغرب اور مغربی مفکر ین کو اقبال نے شروع سے ہی اصلاحی نظر سے دیکھا۔ مغرب سے بیزاری کے باوجود ہیگل، نطشے، برگساں، گوئٹے اور بعض دوسرے حکماء سے صرف اس لیے متاثر ہوئے کہ وہ ان کی فکر کے بعض اجزا کو اپنی فکر سے ہم آہنگ پاتے تھے۔ اقبال فلسفے کے طالب علم تھے اور مابعد الطبیعات (Metaphysics) ان کا اختصاصی موضوع رہا ہے، جو علم طبیعات (Physics) سے ماورا کی چیز ہے۔ کلام اقبال میں جگہ جگہ تسخر فطرت کے متعلق خیالات اور اسے مسخر کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے اور کہتی ہے کہ ’’کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ۔ مشرق سے نکلتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھــ۔ اس شعر کے چار لفظیات پر غور کرنے سے اس امر کی تشفی ہوجاتی ہے کہ جدید سائنس کی تمام ترکارگزاریاں انھیں کے گردطواف کرتی ہیں۔ Atmusphere، Space، Earth اورSun۔ اسی حقیقت کے پیش نظر اقبال نے سائنسی علوم کی اہمیت پر زور دیا اور نوجوان مسلمانوں کی توجہ مذہب اور سائنس میں ہم آہنگی تلاش کرنے کی طرف مبذول کرائی۔ اقبال نے اپنے خطبے میں وضاحت کی ہے کہ استقرائی عمل (Induction ACT) کے بانی مسلمان ہیں جس پر سائنس کی بنیاد ہے اور اس سائنس کی بدولت انسان نے فطرت کو مسخر کرکے قوت اور طاقت حاصل کی ہے چونکہ انسان بنی آدم کا نائبِ خدا ہے لہذا یہ اس کا اولین فریضہ ہے۔ یہ اقبال کا عظیم کارنامہ ہے کہ انھوں نے بنی نوع انسان کو عالم ارواح یا عالم انفس اور عالم آفاق دونوں پر غور وفکر کرنے کی دعوت دی۔ انھوں نے دینی اور اخلاقی زندگی کو اہمیت دیتے ہوئے مادی ترقیات کو یکسر مسترد نہیں کیا ہے بلکہ دونوں میں توازن قائم کرنے کی تلقین کی ہے۔ حقیقت مطلقہ کی شناخت وپرداخت کے لئے مذہب اور سائنس دونوں کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ فکر اقبال کی بازیابی میں جہاں دیگر سر چشمۂ حیات کا مطالعہ ضروری ہے وہیں سائنس کی توضیحات، اشارات، ایجادات، انکشافات کا علم ہونا بھی ضروری ہے مطالعہ اقبال کے ضمن میں یہ تمام مفروضات نئے دبستان کے متقاضی ہیں۔
جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!