ابراہیم ہوش کی ہوشمندی :ایک اجمالی جائزہ

 ڈاکٹر سید علی عرفان نقوی

ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبۂ اردو،خضرپور کالج،کولکاتہ۔23

09123079268

sainaqvi72@gmail.com

            پروفیسر مشتاق احمد نے اپنی کتاب ’’ 20 ویں صدی میں مغربی بنگال کے اردو شعراء‘‘کے صفحہ 124 پر ابراہیم ہوش کے متعلق بجا فرمایا ہے کہ:

’’ ابراہیم ہوش کلکتہ کے کہنہ مشق شاعر ہیں- اگر آپ صحافت کو اوڑھنا بچھونا نہ بناتے تو اس وقت جتنے اچھے شاعر ہیں اس سے کئی گنا بہتر شاعر ہوتے‘‘

             پروفیسر مشتاق کی باتیں درست اس لئے لگتی ہیں کہ ابراہیم ہوش نے اپنا ذریعہ معاش چونکہ صحافت ہی کو بنایا تھا لہٰذا اس سے الگ رہ کر وہ اپنی زندگی کی گاڑی کھینچ نہیں سکتے تھے اور زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق گوناگوں مسائل کے حل محض شاعری کرکے تو نکل نہیں سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے زندگی کرنے کی جو راہ نکالی اس پر چلتے ہوئے خادم، رشاد،عصرِ جدید،روزانہ ہند ،استقلال،نظام، اقبال، آزاد ہند، آبشار، ضربِ کلیم، آثار اور اقراء جیسے اخبارات کے دفتروں میں اپنا خون جلایا۔لیکن کمال تو یہ ہے کہ اس کے ہوکر نہیں رہ گئے۔ ان کی صرف نثری خدمات پر نظر ڈالی جائے تو اداریہ، فکائیہ نویسی کے علاوہ ڈاکٹر شکیل احمد خان کے مطابق آپ نے یاداشت، تذکرہ، تاریخ، مضمون حتیٰ کہ افسانہ نگاری میں بھی نہ صرف طبع آزمائی کی بلکہ ہر ایک صنفِ نثر میں اچھا خاصا سرمایہ چھوڑا ہے۔

            اسی طرح انہوں نے شاعری کی تو اس فن میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے بلکہ شعری سفر مسلسل جاری رکھنے کی خاطر کہیں بھی گھڑی بھر کے لئے رک کر دم لینا تک گوارا نہ کیا- چنانچہ پہلے وحید النبوی وحید سے اصلاح لی تو ناطق لکھنوی سے بھی۔اور اگر ذرا بھی رکاوٹ درپیش آئی تو قمر صدیقی،آصف بنارسی،وحشت کلکتوی اور آرزو لکھنوی کی بارگاہ میں بھی زانوئے ادب تہہ کرنے عار نہ جانا۔ اور اس طرح صرف غزلیں یا نظمیں ہی نہیں قطعات و رباعیات وغیرہ جیسی اصنافِ سخن میں بھی طبع آزمائی کرکے اپنی کامیابی کے پرچم نصب کئے۔بلکہ اسی شاعری کے ضمن میں دہلی کی کرخنداری اور ملا رموزی کی گلابی اردو کی طرح کلکتیا اردو میں بھی شعر گوئی کر کے ایک نئی مثال قائم کی یہاں تک کہ ’’ جندگی کا میلہ‘‘ نامی شعری مجموعہ تک منظرِ عام پر لا دیا۔

             کلکتیا اردو میں انہوں نے فقط شعر ہی نہیں کہے بلکہ نثر میں بھی” کالا چاند اور ڈوما” جیسے اختراعی کرداروں کے درمیان مکالمہ نگاری کی ہے۔ اور جس طرح اس مقامی بولی میں شعر کہہ کر مغربی بنگال کی اردو شاعری کی دنیا میں ایک انفرادیت قائم کی اسی طرح ان دونوں اختراعی اشخاص کی صورت میں دو ایسے کردار تخلیق کئے جو اگر سچ مانا جائے تو فکشن کی دنیا میں دو منفرد کرداروں کا اضافہ ہے۔

            یہ کردار صرف کلکتیا اردو میں گفتگو ہی نہیں کرتے ہیں بلکہ جس دنیا میں وہ جی رہے ہیں اس کی سیاسی ،سماجی ،مذہبی،تعلیمی یہاں تک کہ ادبی صورتِ حال پر بھی روشنی ڈالتے جاتے ہیں۔اور اس طرح یہ فکائیہ کالم محض تفننِ طبع کا وسیلہ نہیں بلکہ اپنے وقت کے تہذیب و تمدن کا آئینہ دار بھی بن جاتا ہے۔

            ابراہیم ہوش جس زمانے میں جی رہے تھے اور ان کے فنون جن حالات میں ارتقاء کی منزلیں طے کر رہے تھے وہ ترقی پسند تحریک کا دور تھا۔جس کی روح اشتراکیت سے عبارت تھی۔ لہٰذا ہوش کا ذہنی رجحان بھی اشتراکیت سے وابستہ تھا۔یہی فکر ان کی تحریروں میں سموئی ہوئی ہے۔چاہے ان کی شاعری ہو یا صحافت- چنانچہ ان کے صحافتی روئیے کے متعلق پروفیسر یوسف تقی نے بڑی وضاحت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

’’ ہفتہ روزہ آثار کی پالیسی اشتراکی تھی لیکن اس کے باوجود اس کے ادارئیے مختلف النوع موضوعات کے حامل ہیں۔ اپنے اداریوں میں جہاں انہوں نے جھک کر بڑی دیانتداری کے ساتھ اپنی پالیسی کی پاسداری کی ہے۔ وہیں ایسے موضوعات پر بھی قلم اٹھایا ہے جن کا تعلق ان کی پالیسی سے نہیں۔ اگر انہوں نے ہفت روزہ کی پالیسی کے پیشِ نظر اپنے اداریے میں سوویت روس کی سیاسی استقامت اور عالمی طور پر اسکی پالیسی کی کامیابی کا اظہار کیا ہے، اس کی سائنسی ایجادات کو سراہا ہے اور روسی ادب کی اہم شخصیتوں کو روشناس کرانے کی کوشش کی ہے تو ساتھ ہی ایسے موضوعات کو بھی اپنے دائرہ تحریر میں لیا ہے جن کا تعلق خالص ہندوستانی سیاست، سماج اور ثقافت سے ہے بلکہ کچھ موضوعات اور شخصیتیں ایسی ہیں جن کا رشتہ اردو دنیا اور صرف مسلم طبقے سے ہے۔‘‘

(ابراہیم ہوش کی صحافت صفحہ 79)

             خیال رہے کہ مذکورہ بالا اقتباس سے جہاں ابراہیم ہوش کی اشتراکی فکر کا پتہ چلتا ہے تو بقول پروفیسر یوسف تقی ان کی ’’دیانتداری‘‘ کا بھی ثبوت مل جاتا ہے یعنی انہوں نے بحیثیت صحافی اپنے فرائض سے ذرا بھی چشم پوشی نہیں کی۔ چنانچہ جہاں روس کے حالات کا ذکر کیا وہیں خود اپنے وطن،معاشرے بلکہ مسلمانوں کے تعلق سے بھی اگر کوئی قابلِ ذکر باتیں دیکھیں یا محسوس کیں تو انہیں بھی ضبطِ تحریر میں لانا اپنا صحافتی فرض سمجھا۔

            ابراہیم ہوش کی شاعری بھی اسی ’’دیانتداری ‘‘ سے عبارت ہے جس کے متعلق ظہیر انور نے کم لفظوں میں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بات کہہ دی ہے:

’’ عصری حسیت سے مراد صرف عہدِ جدید کے موجود لمحوں سے نہیں بلکہ ہوش صاحب کی شاعری عمر کے ہر دور کی حسیت سے عبارت ہے۔‘‘ (شعرائے بنگالہ’ جلد اول صفحہ 701)

            یہاں ہر ’’دور‘‘ پر غور کیا جائے تو ہوش کی زندگی ترقی پسندی کے ساتھ جدیدیت کے دور سے بھی گزرتی ہوئی نظر آتی ہے لیکن پروفیسر اعزاز افضل کہتے ہیں:

’’ ہوش سر سے پاؤں تک ترقی پسند تھے اور جدیدیت کو مریض ذہن کی پیداوار کہنے میں ذرا بھی جھجکتے نہیں تھے۔‘‘

(خط و خال، صفحہ ۔7)

پروفیسر اعزاز افضل کی بات ظہیر انور کی پرزور تردید کرتی ہے لیکن ڈاکٹر شمیم انور کا مطالعہ کچھ اور کہتا ہے:

             وہ کلاسیکی شاعری،ترقی پسند شاعری، نیم ترقی پسند شاعری اور نئی شاعری کے نہ صرف مزاج سے واقف رہے بلکہ ان سبھوں کے مثبت عناصر کو بڑی فراخ دلی سے قبول کرتے ہوئے اپنی غزلوں سے ہم آہنگ کرنے میں عار بھی محسوس نہیں کیا۔‘‘  (جندگی کا میلہ،صفحہ -88)

یعنی ابراہیم ہوش نے دراصل ایک زندہ شاعر ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ زندہ ان معنوں میں کہ انہوں نے جو دیکھا’ محسوس کیا اور جو محسوس کیا اسے اپنے اشعار کے سانچے میں ڈھال دیا- یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں اگر یہ شعر ملتا ہے:

سمجھ سکتا تھا کون اس راز کو جو تھا مرے دل میں

اگر شرما نہ جاتا دیکھ کر وہ مجھ کو محفل میں

            تو یوں بھی ملتا ہے:

آج زنداں میں اسے بھی لے گئے

جو کبھی اک لفظ تک بولا نہیں

            اور جب روزنِ زنداں سے جھانکا تو بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ:

آج میں نے یہ تماشا دیکھا

دھوپ کوسائے میں بیٹھا دیکھا

            ہوش نے اپنی نظروں کے ذریعہ جہاں محمڈن اسپورٹنگ کے میچوں کے تعلق سے اپنے جذبات ظاہر کئے ہیں۔ حالاتِ حاضرہ کے ضمن میں بھی اپنے محسوسات و مشاہدات روک نہ سکے۔

            شہروں شہروں

            تشنگی کو ہونٹوں پر چپکائے

            میں پھرتا ہوں

            دریا دریا

            پاس سے گزرا کئے

            پھر بھی ہونٹوں سے مری

            چپکی رہی وہ دائمی تشنگی

            اور میں

            زندگی کا بوجھ کاندھوں پر اٹھائے

            تشنہ لب پھرتا رہا

            پھرتا رہا

                        (یزیدی فوج)

            ’’یادوں کے جھروکے سے‘‘ دراصل ان کی مختصر خودنوشت سوانح حیات ہے جسے روزنامہ ” اقراء” میں 51 قسطوں تک لکھ کر محفوظ کردیا- اور یہاں بھی اپنی دیانتداری کا مظاہرہ اس طرح کیا کہ ایک حساس صحافی ہونے کے ناتے دنیا کو جس طرح ہر رنگ میں دیکھتے اور سمجھتے رہے اس کا برملا اور بے جھجھک اظہار کردیا- بلکہ ان کا یہ مشاہدہ حالاتِ حاضرہ کے لئے بھی موزوں ترین معلوم ہوتا ہے- ابراہیم ہوش کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’ ملک کو تقسیم کے بعد ہی سے ہندوستان کا مخصوص اور بڑا طبقہ ہندوستانی مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لئے نت نئے مسائل چھیڑتا اور نئے نئے سوال اٹھاتا رہتا تھا ان ہی میں ایک یہ بھی تھا کہ ہندوستانی مسلمان ہندوستانی ہیں یا پہلے مسلمان۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ کانگریس کے ہم نوا ملک کے کئی نام نہاد قوم پرست مسلمان اخبارات بھی اغیار کے اس سوال پر ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے مسلمانوں سے یہی سوال کررہے تھے کہ بتاؤ پہلے تم ہندوستانی ہو یا پہلے مسلمان۔ اس سوال کے پسِ پردہ یہ ذہنیت کام کررہی تھی کہ ہندی مسلمان کو پاکستان نواز قرار دے کر اکثریتی فرقے کے ذہن و دماغ کو مسموم کیا جائے اور ان کے خلاف عام ہندوؤں کے جذبات مشتعل کئے جائیں۔‘‘

            ابراہیم ہوش کی دور رس نگاہوں نے اپنے حال میں صرف ماضی ہی کو نہیں دیکھا تھا مستقبل کی پیشن گوئیاں بھی کردی تھیں کہ آج ملک کی سیاسی و سماجی حالات عین اسی طرح ہیں جنہیں ہوش نے دیکھا تھا- چنانچہ یہ اقتباس تو یوں لگتا ہے جیسے آج بھی وہ اپنے اخبار کا کوئی اداریہ قلمبند کررہے ہیں۔

            سخنورانِ بنگال کے نام سے ان کا تذکرہ روزنامہ ’’ اقراء ‘‘ میں قسط وار شائع ہوتا تھا جس میں بنگال کے شعرائے متقدمین سے متاخرین تک کے متعلق سے جو باتیں لکھی گئی ہیں وہ ہر شاعر کے سلسلے میں معلومات کا خزانہ ہیں۔ ہوش کی یادداشت بہت ہی قوی تھی۔جس کے سہارے انہوں نے جس کے بھی بارے میں لکھا اس لحاظ سے قابلِ ذکر لکھا کہ کئی باتیں کسی تاریخِ ادبِ اردو میں مندرج نظر نہیں آئیں گی۔یہ باتیں چونکہ ان کی اپنی یادداشت پر مبنی ہیں جو ان کے ذاتی مشاہدات و احساسات کی غماز ہیں۔ لہٰذا ان کے کہیں اور ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مثلاً ہوش چونکہ بنگال کی سب سے قدیم ادبی انجمن ’’بزمِ احباب ‘‘ کے دیرینہ رکن تھے جس کے ممبران میں بالخصوص کلکتے کے تقریباً نامورانِ اردو ادب شامل تھے- چنانچہ ان حضرات کو انہوں نے بزم کے جلسوں میں بھی قریب سے دیکھا’ سنا اور جانا تھا۔ اسی لئے یہ تذکرہ ان کی جانکاری کا آئینہ بھی ہے۔ جس میں بعض ایسے اہلِ قلم کے عکس ابھر کر آئے ہیں جن پر یا تو لکھا ہی نہیں گیا ہے یا بہت کم خامہ فرسائی کی گئی ہے،مثلاً قمر صدیقی وغیرہ۔ اسی طرح یہ تذکرہ ان شاعروں کی خصوصاََ شخصیت شناسی کے سلسلے میں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔

            تاریخ نویسی کے ضمن میں محمڈن اسپورٹنگ کلب کے ماضی و حال کا ذکر ملتا ہے۔ جس میں انہوں نے اپنی وہ نظمیں بھی شامل کر دی ہیں جو اس کلب پر لکھی تھیں۔جن کے سبب سے محض ایک تاریخ ہی نہیں ادبی تاریخ بھی بن جاتی ہے۔

            ابراہیم ہوش نے وقفے وقفے سے مضامین بھی خوب لکھے ہیں۔ اور یہ سب کے سب ادبی ہیں۔ لیکن خالص تنقیدی یا تحقیقی نہیں بلکہ انہیں شخصیت نگاری کہنا درست ہوگا۔کیونکہ انہوں نے اس ضمن میں کسی نہ کسی کی شخصیت کے تعلق سے اپنی باتیں کہنے کے لئے قلم اٹھایا ہے۔ مثلاً وحشت کلکتوی، جمیل مظہری،شائق احمد عثمانی، علقمہ شبلی اور پرویز شاہدی وغیرہ۔

            یہ سارے مضامین کئے لحاظ سے لائقِ مطالعہ ہیں۔مثلاً اپنے دور کی ادبی تاریخ پیش کرتے ہیں، موضوع کے تعلق سے ان کے عادات و اطوار، گفتار و کردار اور اخلاق و سلوک کا ایسا مرقع پیش کرتے ہیں کہ خاکہ نگاری کا لطف بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ مذکورہ شخصیات کے تعلق سے جو باتیں ملتی ہیں وہ خالص ذاتی ہونے کے سبب کہیں اور نظر نہیں آتیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ اندازِ بیان اتنا دلچسپ ہوتا ہے کہ افسانہ خوانی کا مزہ دے جاتا ہے۔ مثال کے طور پر صرف ایک اقتباس درجِ ذیل رقم ہیں:

’’یہ سن 1934ء ہے۔ میں لیلیِٰ شعر کے آستانے پر ریاضی کو قربان کرکے مدرسہ عالیہ کلکتہ سے شاندار طریقے پر فیل مارچکا ہوں اور مشاعروں اور سیاسی جلسوں میں غزلیں اور نظمیں پڑھتا پھرتا ہوں۔‘‘

            ابراہیم ہوش کی تحریر میں جو دل کو کھینچ لینے والی خوبی ملتی ہے اس کی وجہ یہی ظاہر ہوتی ہے کہ ہوش کو افسانہ نگاری کا شغف تھا۔ چنانچہ ان کے مضامین ہوں یا تذکرے سب میں ویسی ہی دلچسپی ملتی ہے جیسی افسانے میں ملتی ہے۔ ڈاکٹر شکیل احمد خاں نے ہوش کے چار افسانوں کا پتہ چلایا ہے جن میں حسنِ پشیماں، وارداتِ قلب،پاداشِ عمل اور آزمائش شامل ہیں۔ یہ سارے افسانے شکیل صاحب کی تحقیق کے بموجب ہفتہ روزہ’’رشاد‘‘ کلکتہ میں شائع ہوئے ہیں- ان افسانوں کے تعلق سے انہوں نے جو باتیں بتائی ہیں اور نمونے کے طور پر جو عبارتیں نقل کی ہیں ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ ہوش صاحب اپنے دور کے مروجہ انداز کے افسانے ہی قلمبند کرتے تھے۔ یعنی ان پر ادبِ لطیف کا اثر زیادہ تھا۔ ذیل میں ان کے افسانے سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

            ’’آہ ذکیہ! میرے عشق کا ذریعہ’ میری مسرتوں کا سبب’ میری راحتوں کا وسیلہ’ میری زندگی کا سرمایہ’ میری امنگوں کا خزانہ’ میرے ارمانوں کی تصویر’ میری حسرتوں کا منبع’ میری تمناؤں کا مخزن تم اور صرف تم ہو‘‘۔۔۔۔۔

(حسنِ پشیماں)

             لیکن ہوش صاحب چونکہ بہت جلد ترقی پسند ادب سے ذہنی طور پر وابستہ ہوچکے تھے۔لہٰذا اسی ’’آہ اور ہائے‘‘جیسی طرزِ نگارش والی افسانہ نویسی سے بچ نکل گئے اور یہ بہتر ہی ہوا ورنہ اس کے سہارے وہ زیادہ دور تک جا نہیں پاتے۔

            آخر میں اس اہم نکتے کی طرف توجہ مبذول کرانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ نظم ہو یا نثر ہر جگہ ہوش صاحب نے جو زبان استعمال کی ہے وہ اپنی سلاست، فصاحت،متانت اور سب سے بڑی بات کہ مافی الضمیر کی کامیاب ترسیل کا قابلِ داد ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔حیرت اس بات پر بھی ہے کہ انہوں نے کسی کالج یا یونیورسٹی سے تعلیم کی کوئی اعلیٰ سند حاصل نہیں کی تھی۔ صرف ذاتی مطالعہ،بسیار مشق اور خدا داد فہم و فراست کے سبب اتنی مہارت حاصل کرلی تھی کہ ان کے آگے بڑے بڑوں کی بھی کوئی دھاگ نہیں جم پاتی تھی۔

             ہوش صاحب نے بہت لکھا اور خوب لکھا۔ لیکن افسوس کہ خود ان پر بہت کم لکھا گیا ڈاکٹر شکیل احمد خاں نے ان پر پی۔ایچ۔ ڈی کی اور ’’سرخ بر سبز‘‘کے نام سے ان کے اشعار یکجا کرکے شائع کئے۔ ان کی نثر نگاری پر کتاب لکھی اور ڈاکٹر یونس آرزو نے اپنے رسالے ’’عالمی لب و لہجہ‘‘کا ہوش نمبر شائع کیا۔ اسی طرح اگرچہ ادبی تذکروں یا مضامین میں بھی ذکر مل جاتا ہے لیکن ہنوز باقاعدہ طور پر ان کی حیات و خدمات کے تعلق سے کوئی کتاب منصئہ شہود پر نہیں آئی۔ اگر شکیل صاحب کی تھیسس چھپ جاتی تو اس کمی کا احساس نہیں ہوتا تاہم امید پر دنیا قائم ہے۔ آئندہ مزید کام منظرِ عام پر ضرور آئیں گے۔

کتابیات

            1) 20ویں صدی میں مغربی بنگال کے اردو شعراء از پروفیسر مشتاق احمد

            2) جندگی کا میلہ از ابراہیم ہوش                                3) شعرائے بنگالہ (جلد اول) از ڈاکٹر الف انصاری

            4) خط و خال از پروفیسر اعزاز افضل                           5) سرخ بر سبز مرتبہ از ڈاکٹر شکیل احمد خان

            کلیاتِ ابراہیم ہوش از ڈاکٹر شمیم انور                          6) روز نامہ اقراء 1984-1983

            7) روزنامہ رشاد                              8) تمحیص و تجزیہ از پروفیسر یوسف تقی

٭٭٭٭

نابغۂ روزگار شخصیت : ظفر احمدصدیقی

ڈاکٹرمعین الدین شاہین

ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبۂ اردو،سمراٹ پرتھوی راج چوہان گورنمنٹ کالج، اجمیر(راجستھان)

۳۰؍دسمبر ۲۰۲۰؁ء کو میرے حبیب ولبیب ڈاکٹر شاکرعلی صدیقی صدر شعبۂ اردو ، بھگونت یونیورسٹی ،اجمیر نے یہ دردانگیز اطلاع بہم پہنچائی کہ’’کل یعنی ۲۹؍دسمبر کو آپ کے او رہمارے کرم فرما پروفیسر ظفراحمدصدیقی مرحومین کی فہرست میں شامل ہوگئے۔‘‘ یہ سنتے ہی سناٹہ سا چھاگیا اور بزرگوں کا یہ قول ذہن کی وادیوں میں گشت کرنے لگا کہ:

            ’’ایک عالم کی موت ، ایک عالم کی موت ہوتی ہے۔‘‘ یہ کہاوت، قول یامثال پروفیسر ظفر احمدصدیقی کی عالمانہ شخصیت پر صد فیصد صادق آتی ہے۔

ظفرصاحب کی ولادت ۱۰؍اگست ۱۹۵۰؁ء کو قصبہ گھوسی ،پوسٹ مرزا پور، ضلع مئو، صوبہ اُتر پردیش میں ہوئی تھی۔ والد ماجدکااسم گرامی وقار احمدصدیقی تھا۔ جو بذاتِ خود اپنے عہد کے علمائے دین میں شمار ہوتے تھے۔ آپ نے اپنے فرزند ارجمند کی تعلیم وتربیت کااہتمام منظم طریقے سے کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ظفر صاحب کو اپنے دور کے جید علماء وفضلاء کی شاگردی کاشرف حاصل ہوا جن میں مولانا مفتی عبدالرحمٰن جامی الٰہ آبادی، مولانا محمد حنیف جونپوری، مولانا مفتی مظفرحسین اجراڑوی، مولانا محمدیونس محدث جونپوری، مولانا محمدعاقل سہارنپوری(حفظہ اللہ)، مولانا محمدرابع حسنی ندوی (حفظہ اللہ)، مولانا محمدبرہان الدین سنبھلی وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔

آپ کے ممتحنین میں مولانا محمدسراج الحق سراجؔ مچھلی شہری اور مولانا مفتی عبدالقدوس رومیؔ الٰہ آبادی جیسے حضرات شامل تھے وہیں مجیزین حدیث میں مولانا محمدزکریاکاندھلوی اور مولانا محمداسعداللہ اسعدؔ رامپوری کے اسمائے گرامی اہم ہیں۔ حضرت شاہ محمداحمدپرتاپ گڈھی آپ کے مرشد تھے۔ اور مصلحین میں مولانا ابرارالحق حقی ہردوی جیسی شخصیات کاشمار ہوتا ہے۔ آپ نے جن شخصیات کواپنارہنمائے فکرونظربنایا اُن میںماہر غالبیات مولانا امتیا زعلی خان عرشی او رمولانا ابوالحسن علی میاں ندوی کے اسمائے گرامی کاتذکرہ ناگزیر ہے۔ آپ نے مدرسہ ناصرالعلوم گھوسی، مدرسہ وصیۃ العلوم الٰہ آباد، مدرسۃ الغرباء مسجد شاہی مرادآباد، مدرسہ عربی مظاہر علوم سہارنپور، دارالعلوم انجمن ندوۃ العلماء لکھنؤ اور بنارس ہندویونیورسٹی جیسی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کی۔ یہاں آپ نے منشی، عالم، فاضل، مظاہر، متخصص ادب عربی(ندوہ) کے علاوہ ایم اے اور پی ایچ ڈی کی اسناد امتیاز کے ساتھ حاصل کیں۔ آپ نے علامہ شبلیؔ نعمانی سے متعلق تحقیقی مقالہ سپردِ قلم کرکے پروفیسر حکم چند نیّر کی نگرانی میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی تھی۔

بنارس ہندو یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوکر آپ نے ۳؍اپریل ۱۹۷۹؁ء کو اسی ادارے میں بحیثیت لکچرر تدریسی زندگی کاآغاز کیا۔ یہاں تقریباً اٹھارہ برسوں تک آپ کی وابستگی رہی، بعد ازاں آپ کاانتخاب بطور ریڈر (ایسو سی ایٹ پرفیسر) ہوجانے پر ۱۹۹۷؁ء میں آپ علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے وابستہ ہوگئے اور یہیں سے سبکدوش ہوئے۔

مذکورہ دونوں تعلیمی اداروں میں آ پ کی نگرانی میں طلبہ وطالبات نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات مکمل کئے جن میں چند کی فہرست حسب ذیل ہے :

(الف ) : بنارس ہندو یونیورسٹی، وارانسی

نمبرشمار

نام اسکالر

موضوع

۱

امتیاز احمدندوی

نکات الشعراء (ترتیب، ترجمہ تشحیہ)

۲

نسیمہ

اردوکی خواتین ناول نگار

۳

سلمان عزیزی

طبقات الشعراء (ترجمہ او رتشحیہ)

۴

محمدجان

فرہنگ کلامِ اقبال

۵

سلمان راغب

فرہنگ کلامِ مومنؔ

۶

عبدالسلام

امرت لال عشرتؔ : حیات اور خدمات

(ب) : علی گڈھ مسلم یونیورسٹی، علی گڈھ

نمبرشمار

نام اسکالر

موضوع

۱

شاہین فاطمہ

سجاد ظہیرکی ادبی خدمات

۲

مبشراحمد

خطوطِ غالبؔ کے ادبی مباحث کاتنقیدی جائزہ

۳

سمرین جہاں

خلیل الرحمٰن اعظمی کی ادبی خدمات

۴

آرزو بانو

پروفیسر نذیراحمدکی تحقیقی خدمات

۵

تبسم (ایم -فل)

امیرؔ مینائی کی نعتیہ شاعری

۶

سمیہ نسرین

پروفیسر مسعود حسین خاں کی ادبی خدمات

۷

ناظرین فاطمہ

یوسف ناظم کی ادبی خدمات تحقیقی وتنقیدی جائزے

۸

نعمان ظفر

مختارالدین احمدآرزوؔ کی علمی وادبی خدمات کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ

(اردو ادب کے حوالے سے)

۹

عقیل احمد

اردو میں تدوینِ متن کا فن اور روایت

۱۰

عبدالرزاق (ایم-فل)

شعرائے اردو کے تذکرے از حنیف نقوی کا تحقیقی وتنقیدی مطالعہ

۱۱

زیباشکیل(ایم-فل)

ظفرؔاقبال کے مجموعۂ کلام رطب ویابس کا تنقیدی جائزہ

۱۲

انیسہ نگار

پروفیسر محمودالٰہی  : شخصیت اور ادبی خدمات

۱۳

محمدراشد اقبال

مالک رام بہ حیثیت غالبؔ شناس

۱۴

نذرانہ شفیع

اسلوب احمدانصاری کی تنقیدنگاری

۱۵

عبدالرزاق

پروفیر حنیف نقوی کی ادبی خدمات کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ

۱۶

مہہ جبیں خاں

نیّر مسعود کی غیرافسانوی تحریروں کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ

            پروفیسر ظفراحمدصدیقی بیک وقت ناقد، محقق اور مبصر کی حیثیت رکھتے تھے اُن کی تصانیف وتالیف علمی وادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں جن میں چند کے عنوانات اس طرح ہیں :

(۱)       تنقیدی معروضات ،ناشر فلاحی بک ڈپو، وارانسی            ۱۹۸۳؁ء

(۲)      انتخابِ مومنؔ، ناشر یوپی اردو اکادمی، لکھنؤ                                ۱۹۸۳؁ء

(۳)      شبلیؔ ، ناشر ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی                                            ۱۹۸۸؁ء

(۴)      انتخابِ کلام آبروؔ ، ناشر یوپی اردو اکادمی ، لکھنؤ                ۱۹۹۷؁ء

(۵)      نقشِ معنی ، ناشر بھارت آفسیٹ پریس، نئی دہلی              ۱۹۹۹؁ء

(۶)      مولانا شبلی بحیثیت سیرت نگار ، ناشر بھارت آفسیٹ پریس ، نئی دہلی             ۲۰۰۱؁ء

(۷)      تحقیقی مقالات ، ناشر خدا بخش اورینٹل لائبریری، پٹنہ                              ۲۰۰۳؁ء

(۸)      شبلیؔ : معاصرین کی نظر میں، ناشر یوپی اردو اکادمی، لکھنؤ                            ۲۰۰۵؁ء

(۹)       افکار وشخصیات، ناشر رامپور رضالائبریری، رام پور                    ۲۰۰۶؁ء

(۱۰)     دیوان ِناظمؔ ،ناشر رام پور رضالائبریری، رام پور                        ۲۰۱۱؁ء

(۱۱)      شرح دیوانِ اردوغالبؔ،ناشر مکتبہ جامعہ لمٹیڈ، نئی د ہلی    ۲۰۱۲؁ء

(۱۲)     شبلیؔ کی علمی وادبی خدمات ،ناشر فیکلٹی آف آرٹس، علی گڈھ مسلم یونیورسٹی، علی گڈھ   ۲۰۱۲؁ء

(۱۳)     مقالاتِ نذیر، ناشر عرشیہ پبلی کیشنز، نئی دہلی                            ۲۰۱۲؁ء

(۱۴)     کتاب نما (خصوصی شمارہ) حنیف نقوی نمبر،ناشر مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی   ۲۰۱۳؁ء

(۱۵)     مثنوی موضع آرائشِ معشوق، ناشر شعبۂ اردو، ممبئی یونیورسٹی، ممبئی             ۲۰۱۳؁ء

(۱۶)     ابتدائی عربی(نصاب برائے طلبائے اردو) ،ناشر مصنف                          ۲۰۱۵؁ء

(۱۷)    شبلیؔ شناسی کے اولین نقوش، ناشر دارالمصنفین، اعظم گڈھ                                   ۲۰۱۶؁ء

            مذکورہ کتب کے علاوہ ’’نظم ؔ طباطبائی‘‘ (۲۰۱۲؁ء میں دہلی اور ۲۰۱۳؁ء میں لاہور) اور ’’قصیدہ : اصل ہیئت اور حدود(مطبوعہ ۲۰۲۰؁ء) ایسی کتابیں ہیں جن کے حوالے سے پروفیسر ظفراحمد صدیقی کی علمیت اور ذکاوت ظاہر ہوتی ہے ۔ موصوف نے مختلف موضوعات پر مضامین ومقالات بھی سپردِ قلم کئے جو معاصر رسائل وجرائد میں طبع ہوکر ذخیرۂ ادب میں اضافہ ثابت ہوئے یہاں طوالت کے خوف سے ان کے چند نمائندہ مضامین ومقالات کی فہرست پیش کی جارہی ہے :

(۱)       شبلیؔ او رموسیقی مشمولہ ’’کائنات‘‘ مرزاپور،     جنوری ۱۹۸۱؁ء

(۲)      ایم-ایم -قاسم نانوتوی اور سرسیداحمدخاں مشمولہ ’’فکرونظر‘‘ علی گڈھ، اکتوبر ۱۹۹۲؁ء

(۳)      علامہ شبلیؔ کی شخصیت مشمولہ ’’کاروانِ ادب‘‘ لکھنؤ، جنوری ۱۹۹۵؁ء

(۴)      علامہ شبلیؔ نعمانی : مختصر حالاتِ زندگی مشمولہ ’’ہماری زبان‘‘ دہلی، اپریل ۱۹۹۵؁ء

(۵)      اردو میں فنِ سوانح نگاری کاارتقاء مشمولہ ’’کاروانِ ادب‘‘ لکھنؤ، جنوری/مارچ ۱۹۹۷؁ء

(۶)      علامہ شبلیؔ کاسیاسی شعور مشمولہ ’’آفتاب‘ ‘ علی گڈھ ، ۱۹۹۹؁ء

(۷)      مکتوباتِ شاہ ولی اللہ دہلوی مشمولہ ’’ترجمان الاسلام‘‘ وارانسی، ۲۰۰۲؁ء

(۸)      رومیؔ کاپیامِ عشق مشمولہ ’’کتاب نما‘‘ نئی دہلی، جنوری ۲۰۱۱؁ء

(۹)       تاریخ ابنِ خلدون مشمولہ ’’اردودنیا‘‘ نئی دہلی، مارچ ۲۰۱۱؁ء

(۱۰)     ٹیگورکی شاعری کارنگ وآہنگ مشمولہ’’تہذیب الاخلاق‘‘ علی گڈھ ، مئی ۲۰۱۵؁ء

            اسی ضمن میں مندرجہ ذیل مقالات بھی فکروآگہی کی نظیرپیش کرتے ہیں :

(۱)       شبلیؔ کی شاعری مشمولہ ’’جامعہ‘‘نئی دہلی، اپریل ۱۹۸۰؁ء

(۲)      شعرالعجم اورتنقید ِ شعرالعجم مشمولہ ’’اورینٹل کالج میگزین‘‘لاہور، ۱۹۸۲؁ء

(۳)      آغا حشرؔ بحیثیت شاعر مشمولہ’’اکادمی‘‘ لکھنؤ، نومبر/دسمبر ۱۹۸۳؁ء

(۴)      شبلیؔ کاغیرمطبوعہ کلام مشمولہ ’’اکادمی ‘‘لکھنؤ ،ستمبر،اکتوبر ۱۹۸۴؁ء

(۵)      غالبؔ کی معنویت کے چند نئے پہلو ’’غالب نامہ‘‘ دہلی، جولائی ۱۹۸۷؁ء

(۶)      علمِ کلام ؛ ایک تعارف مشمولہ’’ترجمان الاسلام ‘‘وارانسی، اپریل جون  ۱۹۹۰؁ء

(۷)      سوانح آبروؔ مشمولہ ’’آج کل‘‘ دہلی ،دسمبر ۱۹۹۰؁ء

(۸)      فسانۂ عجائب (رشیدحسن خاں) مشمولہ ’’کتاب نما‘‘ دہلی، مارچ ۱۹۹۱؁ء

(۹)       باغ وبہار کی تدوین ِ جدید مشمولہ ’’کتاب نما‘‘ دہلی، جنوری ۱۹۹۳؁ء

(۱۰)     ترجمہ القرآن ایک جائزہ مشمولہ’’اکادمی‘‘ لکھنؤ، جولائی ،دسمبر ۱۹۹۳؁ء

(۱۱)      آبروؔ کاایہام مشمولہ ’’شب خون‘‘ الٰہ آباد ،نومبر ۱۹۹۵؁ء

(۱۲)     شبلیؔ اور علمِ کلام مشمولہ ’’فکرونظر‘‘(شبلی ؔ نمبر) علی گڈھ ،جون ۱۹۹۶؁ء

(۱۳)     مآثر ِ غالبؔ ترتیب وتدوین ِ جدید مشمولہ ’’شب خون‘‘ الٰہ آباد، مارچ،اپریل ۱۹۹۸؁ء

(۱۴)     غالب ؔکی ایک فارسی غزل کا تجزیہ مشمولہ’’نقدونظر‘‘ علی گڈھ، شمارہ  ۱۹

(۱۵)     بحرالفصاحت مشمولہ’’فکرونظر‘‘علی گڈھ ۱۹۹۹؁ء

(۱۶)     مولانا آزاد ؔ کی شخصیت کے چندپہلو مشمولہ ’’جامعہ‘‘ دہلی ،جنوری مارچ ۲۰۰۰؁ء

(۱۷)    سرسید کے اثرات مشمولہ’’تہذیب الاخلاق‘‘ علی گڈھ، مارچ  ۲۰۰۰؁ء

(۱۸)     کلامِ دبیرؔ کا فنی نظام مشمولہ ’’الحبیب‘‘ علی گڈھ، ۲۰۰۰؁ء

(۱۹)     سوداؔ کی غزل بازدید مشمولہ ’’غالبؔ نامہ‘‘ دہلی، جولائی ۲۰۰۱؁ء

(۲۰)    جوشؔ کی شاعری مشمولہ ’’فکرونظر‘‘ علی گڈھ، جون ۲۰۰۲؁ء

(۲۱)     مقالاتِ حالیؔ مشمولہ ’’غالبؔ نامہ‘‘ دہلی،جولائی ۲۰۰۲؁ء

(۲۲)    علامہ شبلیؔ کی تاریخ نگاری مشمولہ ’’المعارف‘‘ لاہور،جنوری -جون ۲۰۰۳؁ء

(۲۳)    ولیؔ کاتاریخی کارنامہ مشمولہ ’’سابرنامہ‘‘ احمدآباد ،مارچ ۲۰۰۴؁ء

(۲۴)    شبلیؔ کاشاعرانہ مقام مشمولہ’’المعارف‘‘ لاہور ،جولائی ستمبر ۲۰۰۴؁ء

(۲۵)    مولانافضل حق خیرآبادی مشمولہ ’’اردوادب‘‘ دہلی، اکتوبر دسمبر ۲۰۰۷؁ء

            مذکور ہ کتب اور مضامین ومقالات ظفراحمدصدیقی مرحوم کے عمیق مطالعے اور مشاہدے کی گواہی دیتے ہیں۔ انہوں نے علامہ شبلیؔ کو اپنا آئیڈیل بناکراپنادبی سفر طے کیا۔ اس لئے آپ نے بہ شمولہ ڈاکٹریٹ سب سے زیادہ شبلیؔ پر لکھ کر شبلیؔ شناسی کے رجحانات کو فروغ دے کرگراں قدر اضافے کئے۔ علاوہ ازیں ترتیبِ متن کے ذیل میں آپ نے شعرائے اردو کے جو بھی انتخابات ترتیب دیئے ان میں تدوینِ متن کے تمام تر اصولوں کوملحوظ رکھاگیا ہے۔ ادبی تاریخ نگاری کے اصولوں سے بھی آپ بخوبی واقفیت رکھتے تھے۔

            اس کااندازہ آپ کے بعض خطوط اور تقاریرسے بھی ہوتاہے۔ راقم نے اپنے تحقیقی مقالے برائے پی ایچ ڈی کی تکمیل کے دوران آپ سے ٹیلی فونک او رمکتوباتی مشورے لیے تھے۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ظفر صاحب بنارس میں تشریف فرماتھے۔

            ظفرؔصاحب کی علمی وادبی خدمات کے سلسلے میں مختلف ادارو ں نے آپ کو موقع بہ موقع اعزاز واکرام سے نوازکر بھرپور پذیرائی کی۔ یویورسٹیز اور علمی اداروں نے اسکالر شپ اور فیلوشپ سے نواز کر آپ کی خوب پذیرائی کی۔

            اکثردیکھاگیا ہے کہ جوحضرات درس وتدریس سے وابستہ ہوتے ہیں اُن میں خال خال ہی علم وادب اورخصوصاً مذہب سے متعلق تحریری کاموں میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ لیکن ظفرصاحب نے ان تمام موضوعات پر اپنی تحریریں پیش کرتے ہوئے سرگرمِ عمل ہونے کی نظیریں پیش کیں۔

            علمی وادبی دنیامیں ظفرصاحب کو اس لئے بھی احترام کی نظروں سے دیکھاجاتارہا کہ آپ کے تنقیدی وتحقیقی فیصلے ازحدمتوازن ہوتے ہیں۔ کسی بھی طرح کی انتہاپسندی سے دامن بچاتے ہوئے آپ نے علم وادب کی صالح اقدار کاپاس ولحاظ رکھا۔ آپ کا اردو ،فارسی اور عربی زبان کامطالعہ ومشاہدہ بھی بے حد عمیق ہونے کے باعث آپ کی کتابوں میں انفرادی اور نرالی شان دکھائی دیتی ہے ۔ کلاسیکی شعراء کے متون کی ترتیب وتدوین بے حد مشکل کام ہوتاہے، جسے آپ نے سلیقے مندی سے سرانجام دے کر عمدہ ترین مثالیں پیش فرمائیں۔ آپ کالب ولہجہ اس قدر متاثرکن تھا کہ سننے والا ستناہی رہ جاتاتھا۔ تقریر وتحریرمیںبرمحل لفظوں کے استعمال میں بھی آپ خاصی مہارت رکھتے تھے۔ نرمی، ملائمت، خوش بیانی جیسی خصوصیات آپ کی شخصیت میں موجود تھیں۔ یونیورسٹی کی ملازمت سے سبکدوشی کے بعدآپ ہاتھ پر ہاتھ دھر کرنہیں بیٹھتے۔ ہمیشہ کسی نہ کسی موضوع پرفکر کے تازی دوڑاتے رہتے تھے۔

            ایک مرتبہ مجھ سے ٹیلی فونک گفتگو میں یہ فرمایاتھا کہ فرصت ملنے پر مولانا آزادؔ لائبریری ،علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے رام بابو سکسینہ کلکشن میں موجود مواد کی روشنی میں آپ ایک کتاب تحریر فرمائیں گے۔ چونکہ مرحوم نے جوعلمی وادبی خدمات انجام دی ہیں وہ دعوتِ فکروعمل کا کام کرتی ہیں ، تاہم آپ کے فکروفن اور سوانح وشخصیت کوموضوع بناکر آپ کے شایانِ شان تحقیقی کام ہوناچاہئے۔

            امیدہے کہ درس وتدریس سے وابستہ اساتذہ اپنے اسکالر زکوترغیب دلاکر اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرتے ہوئے اپنے اخلاقی فرض کوعملی جامہ پہنچائیں گے۔

***

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.