کرشن چندر کی ڈرامہ نگاری 

عبدالرحمن 

ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو، دہلی یونی ورسٹی، دہلی 

  (Krishn Chandr ki Drama Nigari by Abdur Rahman)  

  

اردو ادب کی تاریخ  کرشن چندر کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی، اردو ناول نگاری اور افسانہ نگاری کو کرشن چندر نے جو وسعت بخشی ہے وہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان دونوں اصناف میں انھوں نے قلم برداشتہ لکھا ہے اور اپنی فنی خصوصیات کی وجہ سے وہ نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا میں مقبول و معروف ہوئے۔ اردو کے افسانوی ادب کو بام عروج تک پہنچانے میں جن ادیبوں اور افسانہ نگاروں کا نام لیا جاتا ہے ان میں سے ایک نام کرشن چندر کا بھی ہے۔اردو کے افسانوی ادب میں ان کو جو شہرت اور نام وری حاصل ہوئی وہ کسی اور کے حصہ میں نہیں آئی۔ کرشن چندر کے بارے میں پروفیسر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں: 

’’کرشن چند راردو افسانے کی روایت کا ایک ایسا لائق احترام نام ہے جو ذہنوں میں برابر سوال اٹھاتا رہے گا۔ کرشن چندر کی اہمیت اور دین اردو کا کوئی سنجیدہ قاری انکار نہیں کر سکتا۔ اردو تنقید کے لیے کرشن چندر آج بھی سوالیہ نشان ہے۔“  

(کرشن چندر فکر و فن، علی احمد فاطمی، سن اشاعت ۲۰۱۴، ص ۴۵) 

اردو ادب کے فروغ میں کرشن چندر نے متنوع الجہات طریق پر خدمات انجام دی ہیں جنہیں فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کئی اصناف ادب کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے جن میں افسانہ نگاری، ناول نگاری، رپورتاز نگاری، مضمون نویسی اور ڈرامہ نگاری شامل ہیں۔  

اردو میں ڈرامہ نگاری کی روایت قدیم ہے۔ اردو ڈرامے کے اولین نقوش انیسویں صدی کے وسط سے ملتے ہیں جب لکھنو کے نواب واجب علی شاہ نے اپنے دربار میں رہس پیش کیا۔ بعد کے ادوار میں امانت لکھنؤی کا ”اندر سبھا“، آغا حشر کاشمیری کے متعدد ڈرامے، طالب بنارسی، مہدی حسن اور احسن لکھنؤی کے نام ڈراما نگاری کو فروغ دینے میں اہم ہیں۔ بیسویں صدی میں جب اردو ادب متعدد تحریکوں اور رجحانوں سے دوچار ہوئی اور اس دور کے ادیبوں نے مختلف اصناف ادب کو مرکز توجہ بنایا، ڈرامہ نگاری پر بھی توجہ مبذول کی گئی۔ چنانچہ ترقی پسند ادیبوں نے جہاں فکشن کو بام عروج پر پہونچایا ڈارمہ نگاری پر بھی خاطر خواہ توجہ دی، اس سلسلہ میں منٹواور بیدی کے علاوہ ایک اہم نام کرشن چندر کا بھی ہے جنہوں نے ناول اور افسانہ کے علاوہ اردو ڈرامہ نگاری کو فروغ دینے میں اہم کردار نبھایا۔ کرشن چندر تعلق سے خواجہ احمد عباس لکھتے ہیں: 

’’ادیب کی حیثیت سے کرشن چندر کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے اس کے ناول اور افسانے بیس برس سے اردو اور ہندی ہی میں نہیں دنیا کی دوسری زبانوں میں بھی شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں۔ یہ تو اب سب ہی جانتے ہیں کہ کرشن چندر ترقی پسند ہے۔ اشتراکیت اور عقلیت کے اصولوں کو مانتا ہے جو کچھ بھی وہ لکھتا ہے وہ ان ہی بنیادوں پر لکھتا ہے لیکن اس کے علاوہ وہ کچھ اور بھی ہے وہ ایسا انسان دوست ہے، جو نہ صرف ”انسانیت“ کے تخیلی آدرش سے پیار کرتا ہے، بلکہ خود انسان سے، ہر فرد سے پیار کرتا ہے۔ اس لیے اپنی کسی تخلیق میں جب وہ کسی کردار کو پیش کرتا ہے، تو اس کا نفسیاتی تجزیہ کرتا ہے اور بڑے پیار سے کرتا ہے۔‘‘ 

(دروازے کھول دو، از کرشن چندر، مکتبہ جامعہ لمٹیڈ نئی دہلی، ۱۹۷۷، ص ۷۰، ۷۱) 

خواجہ احمد عباس نے یہ بات اس وقت لکھی تھی جب کرشن چندر کا ڈرامہ ”دروازے کھول دو“ شائع ہوا تھا اور ان کی تخلیقی عمر محض بیس برس تھی۔ اس کے بعد کرشن چندر نے بہت لکھا ہے اور بے حساب لکھا۔کرشن چندر کے ڈراموں کا صرف ایک ہی مجموعہ ”دروزاہ“ کے عنوان سے شائع ہوا ہے، البتہ ان کے کئی سارے ڈرامے مختلف افسانوی مجموعوں میں شامل ہیں جن کو مجموعہ کی شکل میں شائع نہیں کیا گیا ہے۔ کرشن چندر اپنے ڈراموں کا مجموعہ ”دروازہ“ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں: 

’’میرے ڈراموں کا یہ پہلا مجموعہ ہے۔ ان میں سے اکثر ڈرامے آل انڈیا ریڈیو سے متعد بار براڈکاسٹ ہو چکے ہیں۔ کالجوں کے شوقیہ سٹیج پر کھیلے جا چکے ہیں۔ اور ملک کے مختلف رسائل میں مختلف زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں۔‘‘ 

(پیش لفظ، مجموعہ ’دروازہ‘) 

’دروازہ‘ کے علاوہ کرشن چندر کا ایک ڈرامہ ”دروازے کھول دو“ علیحدہ طور پر شائع ہوا اور اسی طرح تقریباًگیارہ ڈرامے ان کے متعدد افسانوی مجموعوں میں شامل ہوکر شائع ہوئے۔ کرشن چندر کی ڈرامہ نگاری  کے حوالے سے خواجہ احمد عباس لکھتے ہیں: 

’’ڈراما نویس کے لیے یہ خصوصیت بہت ہی اہم ہے۔ افسانہ نگار تو اپنے افسانوں میں کرداروں کی تصویر پیش کرتا ہے۔ مگر ڈراما نویس تو خود ان کرداروں کو اسٹیج پر پیش کر دیتا ہے۔ اور کرداروں کی تخلیق دہی کر سکتا ہے جو (خالق کی طرح) اپنی مخلوق“ یعنی اپنے پیدا کیے ہوئے کرداروں سے محبت کرتا ہو، ان کی اچھائیوں اور برائیوں کو سمجھتا ہو۔ ان کے ساتھ ہنستا بھی ہو اور روتا بھی ہو۔ اس کے علاوہ ڈرما نویس کی حیثیت سے کرشن چندر میں دو اور خوبیاں بھی ہیں، جو اس ناٹک میں بڑی نمایاں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ڈرامے میں شروع سے آخیر تک پلاٹ کا (suspense) سپنس برقرار رکھتا ہے اور دوسری یہ کہ اس کے مکالمے بڑے برجستہ، بڑے تیکھے اور بڑے معنی خیز ہوتے ہیں۔ ایک جملہ آپ سنتے ہیں، بے اختیار ہنس پڑتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے، ڈراما نویس نے ایک لفظی پھلجھڑی چھوڑ دی ہے۔ لیکن بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ جملہ پھلجھڑی کی طرح آتشی پھول برسا کر بجھ نہیں گیا۔ وہ آپ کے شعور میں، آپ کے دل اور دماغ میں کھٹک رہا ہے۔ ایک مستقل کسک پیدا کر رہا ہے۔ تب آپ مصنف کے جملے کے اندرونی معنی کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اور یہی اس کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔‘‘ 

(دروازے کھول دو، از کرشن چندر، مکتبہ جامعہ لمٹیڈ نئی دہلی، ۱۹۷۷، ص،۷۱، ۷۲) 

کرشن چندر نے اپنے ناول اور افسانوں کی طرح ڈراموں میں بھی حقیقت کی ترجمانی کی ہے اور تہہ در تہہ زندگی کے مسائل و مصائب اور پریشانیوں کو اپنے ڈراموں میں موضوع بحث بنایا ہے۔ ان کے ڈراموں کے موضوعات میں گھریلو تشدد کے مسائل بھی ہیں اور عورتوں پر مردوں کا ظلم بھی، روزی روٹی اور غربت و افلاس جیسے مسائل بھی شامل ہیں، اور سماج کی بے چہرگی بھی، پولیس محکمہ کی بے بسی اور نا اہلی بھی شامل ہے اور ان کا ظلم و جبر بھی۔  

کرشن چندر کا ایک ڈرامہ ’’قاہرہ کی ایک شام‘‘بھی ایسا ہی ایک ڈرامہ ہے جس میں کرشن چندر نے گھریلو تشدد کو موضوع بحث بنایا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ عورتوں پر مرد کس طرح ظلم کرتے ہیں۔ عورت بہت سارے مصائب کو برداشت کرتی ہے پھر بھی اس آس میں رہتی ہے کہ اس کا شوہر سدھر جائیگا اور گھر آباد ہوجائے گا۔ اسی طرح انھوں اپنے ایک ڈرامہ ”دروازہ“ میں ایسے غریب الحال گھر کی کہانی بیان کی جس کا سب کچھ لٹ چکا ہے۔ اس کے پاس صحیح سے دو وقت کی روٹی کھانے کے لیے نہیں۔ اس ڈرامہ کے ذریعہ کرشن چندر نے سماج کے ٹھیکیداروں کی ذہنیت کو بھی اجاگر کیا ہے جنہیں غریبوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی۔  

معاشرتی زندگی میں بارہا طاقتور کمزور پر ظلم کرتا رہا ہے اور امیر غریب کے حقوق و واجبات کو سلب و غصب کرنے کی کوشش کرتے ر ہے ہیں، ایسے میں غریب و کمزور اور بے سہارا لوگوں کا ایک ہی سہارا ہوتا ہے، پولیس کا محکمہ۔ لیکن جب پولیس محکمہ ہی اس قدر سست ہوجائے کہ معمولی سے معمولی الزامات کو رفع کرنے میں سالوں لگ جاتے ہوں تو پھر ایسے میں غریب کو انصاف کہاں سے ملے۔ کرشن چندر کا ڈرامہ ”حجامت“ بھی میں پولیس کے محکمہ کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ جو پولیس کے محکمہ کی بے بسی کو پیش کرتا ہے۔ 

بے کاری اور بے روزگاری بھی ہمارے سماج کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ بیکاری اور بے روزگاری ایسا مسئلہ ہے جس کی گونج ہر دور اور عہد میں سنائی دیتی ہے۔ ہزاروں لاکھوں ایسے نوجوان بھی جو تعلیم یافتہ ہیں لیکن کوئی روزگار نہیں، کوئی ملازمت نہیں کہ وہ اس کے ذریعہ اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پال سکیں۔ جب فقر و فاقہ حد سے تجاوز کرجاتا ہے تو بے روزگاری کا درد سہتے سہتے نوجوان ذہنی زدوکوب میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور خود کشی کرنے پر بھی مجبور ہوتے ہیں۔ کرشن چندر کا ڈرامہ ”بیکاری“ میں اسی موضوع کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ڈرامہ ”سرائے کے باہر“ بھی کرشن چندر کا ایک اچھا ڈرامہ ہے۔ اس ڈرامے کے ذریعے کرشن چندر نے غریبوں خاص کر بھکاریوں کی زندگی پر روشنی ڈالی ہے۔  

اسی طرح کرشن چندر کا ایک مشہور ڈرامہ ”دروازے کھول دو“ ہے جس کا موضوع قومی یکجہتی ہے۔ کرشن چندر نے اس ڈرامہ میں جس موضوع کو مرکز توجہ بنایا ہے وہ ہمارے ملک کی سالمیت  کے لیے بہت ضروری ہے۔ ’دروازے کھول دو‘ڈرامے کے موضوع کے متعلق خواجہ احمد عباس کا قول: 

”میں اسے بڑی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ اس ڈرامے میں کرشن چندر جیسے ترقی پسند اور عقلیت پرست نے قومی یک جہتی کے مسئلے کو اپنایا ہے۔ ”دروازے کھول دو“ جیسا ا س کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے، قومی یک جہتی کے مسئلے کو سیاسی اور جذباتی سطح سے ہٹا کر ایک بنیادی انسانیت اور عقلیت کی سطح پر لے آیا ہے۔ لیکن کرشن چندر لکچر نہیں دیتا۔ تبلیغ نہیں کرتا۔ صرف تعصبات کے بھاری بھرکم غباروں میں پن چبھا کر ان کی ہوا نکال دیتا ہے۔ ان کا کھوکھلاپن عیاں کر دیتا ہے۔ یہ تعصبات وہ بھی ہیں، جو جنوب اور شمال کے درمیان وندھیاچل بنے کھڑے ہیں۔ یہ تعصبات ہی ہیں، جن کی وجہ سے ہندوستانی قومی احساس کی تشکیل پوری طور سے نہیں ہو سکی اور اس نے ان کا بھانڈا پھوڑ کر ان کی بے بنیاد حیثیت کو ظاہر کر کے کرشن چندر نے بہت بڑا کام کیا ہے۔ دروازے کھول دو۔ اپنی بلڈنگوں کے دروازے، جو مسلمانوں، پنجابیوں، مدراسیوں، گوشت کھانے والوں، قوالی سننے والوں لیے بند ہیں۔……دروازے کھول دو۔ اپنے دل کے تاکہ تمھارے سارے ہم وطن، تمام انسان، اس میں سماسکیں۔……دروازے کھول دو!! اپنے دماغوں کے۔ تاکہ اس میں بھرے ہوئے پرانے دقیانوسی واہمے، نسلی، مذہبی اور فرقے وارانہ تعصبات باہر نکل سکیں۔ کرشن چندر نے یہ ڈراما لکھ کر کتنے ہی زنگ خوردہ دروازے کھولے ہیں۔‘‘ 

(دروازے کھول دو، از کرشن چندر، مکتبہ جامعہ لمٹیڈ نئی دہلی، ۷۷۹۱، ص ۲۷، ۳۷) 

یہ ڈرامہ بہت پہلے لکھا گیا ہے لیکن اس کو پڑھنے کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ڈرامہ موجودہ ہندوستان کے ماحول کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ ڈرامے کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک قوم سے دوسری قوم کی نفرت اور تعصب کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اس میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔  

کرشن چندر کا ایک ڈرامہ ”جھاڑو“ کے عنوان سے بھی شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے سماج کے سب سے غریب طبقے ’بھنگیوں‘ کی پریشانیوں کو موضوع بنایا ہے۔ شہری زندگی میں صاف صفائی اور کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کام بہت اہم ہے جس کو سماج کا ایک خاص طبقہ انجام دیتا ہے اور اس طبقہ کی محنت و مشقت کی بدولت ہی شہری زندگی میں چمک دمک قائم ہے، اگر یہ طبقہ اپنی ذمہ کو نبھانے سے ایک دن بھی منع کردے تو ہر سو گندگی کا ڈھیر لگ جائے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طبقہ کی محنت و مشقت اور ان کی پریشان بھری زندگی پر ہمارا سماج توجہ نہیں دیتا اور اس طبقہ کو ان کی محنت و مشقت کے مطابق وہ اجرت نہیں ملتی جس کے وہ حقدار ہیں۔  

کرشن چندر کا شمار کثیر التصانیف ادیبوں میں ہوتا ہے، انھوں نے نت نئے موضوعات کو اپنے فن پاروں میں جگہ دی ہے اور زندگی کے متنوع جہات کو موضوع بحث بنایا ہے۔ کرشن چندر نے سماج و معاشرہ کی میں پیدا ہونے والے مسائل کو بڑی بے باکی سے اپنے فن کا حصہ بنایا ہے۔ ان کا ایک ڈرامہ ”منگلیک“ کے عنوان سے ہے جس میں انھوں نے مذہبی توہم پرستی اور اس سے پیدا ہونے مسائل کو موضوع بحث بنایا ہے۔ انھوں نے اس ڈرامے کے ذریعہ مذاہب میں موجود ان توہمات کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے جو لوگوں کی زندگیاں تباہ و برباد کر دیتا ہے۔  

کرشن چندر نے جہاں سماج و معاشرہ کے مختلف طبقات کو اپنی تحریروں میں جگہ دی ہے خود اپنے طبقہ یعنی فنکار اور شاعروں کی زندگی کو بھی مرکز توجہ بنایا ہے اور ان کی مفلسی و تنگ دستی اور ان کی مفلوک الحالی کو اپنے فن پاروں کے ذریعہ پیش کرنے کی سعی کی ہے۔ ان کا ایک ڈرامہ ”کتاب کا کفن“ اسی موضوع کا احاطہ کرتا ہے۔ کرشن چندر کا یہ ڈرامہ ادیبوں اور شاعروں کی کسمپرسی کی داستان بیان کرتا ہے۔ کرشن چندر نے ادبیوں کے حالت زار کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ اتنے مجبور ہیں کہ انہیں دھوکے باز پبلشرز اور نا اہل قارئین کی قدموں میں مجبور ہوکر گرنا پڑتا ہے، وہ اتنے لاچار ہیں کہ گھریلو ذمہ داریوں کو بخوبی پورا نہیں کرپاتے۔ کرشن چندر نے اس ڈرامے کے ذریعہ پبلشروں کی دھوکے بازی اور مکاری کی طرف بھرپور اشارہ کیا ہے، اسی طرح قارئین کی طرف اشارہ کیا ہے جو صحیح ادب کے بجائے تڑک بھڑک اور سماج کے تباہی کی اور دھکیلنے والے ادب کو پسند کرتے ہیں۔  

کرشن چندر کا تعلق صوبہ کشمیر سے تھا ان کی ادبی تخلیقات میں بہت سے ایسے ہیں جن میں کشمیر اور کشمیر کے عوام کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ کرشن چندر کی ایسی تخلیقات میں ناول بھی ہیں اور افسانے بھی۔ کشمیر کی زندگی سے متعلق ان کا ایک ڈرامہ ”نقش فریادی“ کے عنوان سے بھی ہے جس میں انھوں نے کشمیر کی خوبصورتی اور وہاں کے دلکش مناظر کے بیچ وہاں کے رہنے والوں کا درد بیان کیا ہے۔ 

الغرض کرشن چندر نے جس طرح اپنے ناولوں، افسانوں اور دوسری تحریروں میں زندگی کی مشکلات و مصائب کو مرکز توجہ بنایا ہے اور سماج و معاشرہ کے آلام و مصائب کو موضوع بحث بنایا ہے، اسی طرح انھوں نے اپنے ڈراموں میں بھی زندگی کے نت نئے موضوعات کو چھیڑا ہے اور اپنی فنکاری اور ہنرمندی کے ذریعہ ادب و فن کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔ 

٭٭٭٭ 

 

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.