واجد تبسم گورکو کی علمی و ادبی خدمات
نظیر احمد گنائی
ریسرچ اسکالر دہلی یونی ورسٹی ،فرصل کُلگام کشمیر ۱۹۲۲۳۲
7889779687
(Wajida Tabassum Gaurko ki Ilmi wa Adabi Khidmat)
وادی گُل پوش ، موسموں کی بہار ،جنت ِ بے نظیر ابتدا ء سے ہی علم و ادب کا مرکز رہی ہے۔جس کو شاعر نے ایران صغیر کہا ہے اور ادیب نے جنت کا نمونہ کہا ہے۔کشمیر میں پہلے پہل صوفیوں ، درویشوں اور ریشیوں نے اردو لکھنا شروع کیا ۔ انہوں نے اپنے ملفوظات کشمیری اور اردو زبان میں ہی لکھے تھے۔عہد بہ عہد تبدیلیاں ہوتی رہیں اور اس زبان نے ریاست میں سرکاری زبان کا درجہ پالیا ۔ اٹھارویں صدی سے ہی یہاں شعر وادب کا چلن رہا ہے۔ یہ سر زمین ادیبوں ، دانشوروں اور قلم کاروں کا مسکن رہی ہے۔ داستان گو سے لے کر ناول نگاری تک، افسانہ نگاری سے لے کر انشائیہ نگاری تک اور شاعری میں قصیدہ سے لے کر غزل تک اور نظم سے لے کر رباعی تک غرض شعر وادب کے ہر حصے میں یہاں کے شاعروں ، ادیبوں اور قلم کاروں نے بڑھ چڑ ھ کر حصہ لیااوردنیائے اردو ادب پر اپنی گہری چھاپ چھوڑدی ۔نثری ادب میں یہاںافسانہ سب سے زیادہ لکھی جانے والی صنف رہی ہے۔مرد و زن نے اس صنف میں طبع آزمائی کی۔
محمد الدین فوق سے لے کر حامدی کاشمیری تک اردو افسانے کا مقام ایک معیاری درجہ تک پرواز کرچکا تھا ۔اس کے بعد دور حاضر میں نورشاہ سے لے کر ناصر ضمیر تک اردو افسانہ بام عروج پر پہنچ گیاہے۔ اردو افسانے میں ہیئتی اور تکنیکی اعتبار سے بھی بہترین تبدیلیاں رونماہوئیں ۔علامتی، تجریدی افسانوی کے ساتھ ساتھ شعور کی رو،فلیش بیک اور واحد متکلم جیسے نئے تجربے افسانے میں دیکھنے کو ملے۔ ان چیزوں نے قاری کی دلچسپی میں مسلسل اور مزید وسعت پیدا کی۔ چوں کہ ریاست جموں و کشمیر ابتدا ء سے ہی ظلم و تشدد کا شکار رہی ہے اس اعتبار سے یہاں کے افسا نوی ادب میں نئے موضوعات کے ساتھ نئے الفاظ اور نئی تراکیب وقوع پزیر ہوئی ہیں۔ جیسے کریک ڈاون ، ٹائیر گیس ، شیلینگ، پکڑاپگڑی ، نوجوانوں کی قید ، لوٹ کھسوٹ ،عصمت دری ،جنسی زیادتی ،بے گناہوں کا قتلِ عام وغیرہ
ریاست کے خواتین افسانہ نگاروں میں سب سے پہلے واجدہ تبسم گورکو نے اردو افسانے کی طرف توجہ مرکوز کروائی۔ واجدہ تبسم گورکو سے لے کر رافعہ ولی تک ، اس نئی نسل نے عورتوں کے مسائل کو اپنے افسانوں میں اُجاگر کیا ہے۔ جنسی بے راہ روی ، جہیز اور طلاق جیسے اہم موضوعات کو بڑے دلکش انداز میں قلم بند کیا ہے۔ جموںو کشمیرکے نسائی اردو افسانہ کی تاریخ میں واجدہ تبسم گورکو کانام سنگ بنیادکی حیثیت رکھتا ہے ۔وہ بیک وقت ایک کامیاب شاعرہ ، افسانہ نگار ، مضمون نگار، کالم نگار اور بہترین صحافی کی حیثیت سے جانی اور پہچانی جاتیں ہیں۔ ان کا تعلق شہرسری نگر سے ہے ، ان کی ولادت یکم نومبر ۱۹۵۲ء میں شہر خاص میں ہوئی۔ والد کا نام خواجہ غلام احمد اور والدہ کا نام محترمہ حمیدہ بیگم ہے۔ واجدہ تبسم گورکو کی ابتدائی تعلیم وشوبھارتی اسکول میں ہوئی اور سری نگر گورنمنٹ ڈگری کالج رعناواری سے بی۔ اے پاس کیا۔ اس کے بعد ایم۔ اے اردو اور پھر ایم ۔اے کشمیری ، یونی ورسٹی آف کشمیر سے پاس کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہندی ڈپلومہ اور اردو آئنرس کی ڈگری جامعہ ملیہ اسلامیہ سے حاصل کی۔
واجدہ تبسم گورکو کی تعلیم و تربیت کے بعد دور درشن کیندر سری نگر سے وابستہ ہوئیں ۔ دوردرشن میں کافی عرصہ تک سکشن آفیسر کے عہدے پر خدمات انجام دیتی رہیںاور اسی عہدے پر سبکدوش ہوئیں۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے ہوا ہے ۔واجدہ تبسم گورکو کا پہلا افسانہ ’’آہ کے اثر ہونے تک‘‘ اس وقت کے مشہور و معروف اخبار ’’چنار‘‘ میں ۱۹۷۲ء میں شائع ہوا۔ اس طرح سے انہوں نے اردو افسانہ نگاری میں قدم رکھا۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ’’ ڈولتی نیا‘‘ ۱۹۸۳ء میں منظر عام پر آیا اور قارئین نے اسے بہت سراہا۔ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’ دل آج بھی روتا ہے‘‘ ۲۰۱۹ء میں شائع ہوکر قارئین سے داد ِتحسین وصول کر چکا ہے۔ واجدہ تبسم گورکو نے اپنے افسانوں میں عورتوں کے مسائل کی مکمل عکاسی کی ہے۔ عورت کے جذبات،خوشیاں ، درر و غم ، محبت اور نفرت، آرزوئیں ، عداوت، حسرت، مظالم، جہیز، طلاق، سماجی حیثیت ، عزت وقار،قربانیاں، ممتا، بغاوت، وفااور جفا وغیرہ جیسے موضوعات کو اپنے افسانوں میں جگہ دے کر سماج میں ان مسائلوں کو اُجاگر کیا۔عورتوں کے ساتھ جو معاشرے میں ناانصافیاں ہو رہی ہیں اس کے خلاف واجدہ تبسم نے اپنے افسانوں کے ذریعے آواز بلند کی ہے۔ ان کے افسانوں میںہمیں گھریلو ماحول اور معاشرے کا عکس دیکھنے کو ملتا ہے۔
واجدہ تبسم گورکو کے افسانے ،مضامین، کالم ،سیریل ، ٹیلی فلمیں ،شارٹ فلمیں،ڈیکوڈرامہ،غزلیں ، گیت اور نظمیں وغیرہ ملکی اور بین الاقوامی سطح کے رسالوں ، جریدوں اور اخباروں میں شائع ہوتے ہیں ۔جیسے بیسویں صدی ، خاتونِ مشرق، شہر آشنا، شان ہند، جرائم ، آجکل ، تلاشِ رشتہ، دوردرشن میگزین (دہلی)،جوابِ عرض(پاکستان)،امکان،اودھ نامہ،نیادور(لکھنؤ)،سالارویکلی(بنگلور)،تریاق،فلم سنسار،مشاعرہ، تحریر (ممبئی) ، ساز سرمدی(ڈیرہ ڈون)، سب رس(حیدرآباد)،قرطاس، بزم اردو، ہیتھ واڑہ،فیروز (ناگپور)،دی ویکلی فلم،دوردرشن میگزین (کلکتہ)،تحریک ادب (وارانسی)،ارژونگ ادب(دھولیہ) ، ہند سماچار( پنجاب) ، تسکین، لازوال (جموں)، ہرموکھ، بڑشاہ (بڑگام)، الکوثر(سوپور)، لفظ لفظ (اننت ناگ ) ، شیرازہ (کلچر ل اکاڈمی جموں وکشمیر)،تعمیر،شافی،دبستان، حرف آخر، سرکتاآنچل، چنار، کشمیر اعظمیٰ ، آفتاب ، چٹان، سرینگر ٹائمز، الصفا، آفاق، وادی کی آواز، خدمت، شاہین، آئینہ، روشنی، نوائے صبح، اقبال، ہمدرد، مارننگ ٹائمز، نگہباں، تعمیل ارشاد(اردو)، آلوکشمیری اخبار(کشمیری)وغیرہ۔ان کے کئی سیریل، ٹیلی فلمیں، شارٹ فلمیں، گیت ،غزلیں اور ڈویکوڈرامہ دوردرشن پر دکھائے گئے ہیں۔ جن میں بیوہ ، لمس کا دھوکہ، بہرام اور زنداں قابل ذکر ہیں۔
واجدہ تبسم گورکو کے اب تک کئی شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ غزلوں اور نظموں کا سنگم ، گلہائے تبسم وغیرہ ۔ جنوری ۱۹۸۰ء ناگپور میں انہوں نے اپنے پہلے مشاعرے کی شروعات کی۔انہوں نے اپنا کلام پڑھ کر سامعین سے داداور واہ واہ وصول کی۔ واجدہ تبسم گورکو اب تک (۶۵)سے زیادہ رسالوں ، اخباروںاور جریدوںمیں اپنی تخلیقات شائع کر چکی ہیں۔ساتھ ہی ساتھ اب تک تقریباً (۲۵)ریاستی اور ملکی مشاعروں میں شرکت کی۔انہوں نے دوردرشن اور ریڈیو کے علاوہ ریاست اور بیرون ریاست میں اسٹیٹ اور آل انڈیا سطح کے پروگراموں ، مشاعروں ، افسانوی محفلوں اور بحث و مباحث میں حصہ لیا۔ انہیں یہ شرف بھی حاصل ہوا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کی پہلی خاتون بنی جس نے ریاست کے باہر ہندوستان کے مختلف شہروں میں مشاعرے اورافسانے پڑھے اور ان کایہ سفر اب بھی جاری ہے۔ریاست جموں وکشمیر کی پہلی خاتون افسان نگار کے بارے میں محترم نور شاہ ’’دل آج بھی روتا ہے‘‘ کے افسانوی مجموعے میں یوں رقم طراز ہیں:
’’ تقسیم ملک کے بعد اگر ریاست جموں و کشمیر کی خواتین افسانہ نگاروں کی تاریخ مرتب کی جائے گی تو واجدہ تبسم گورکو کسی تعارف کی محتاج نہیں۔یہاں کی خواتین افسانہ نگاروں میں ان کا ایک نام ہے ، ایک مقام ہے اور ایک الگ پہچان بھی ہے ۔انہوں نے ۱۹۷۲ء میں لکھنا شروع کیااور ان کی پہلی کہانی ’’آہ کے اثر ہونے تک‘‘ اس زمانے کے مشہور ومعروف اخبار ’’چنار‘‘ میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد وہ تواتر کے ساتھ لکھتی رہیںاور ان کی تخلیقات شعری اور نثری ریاست اور ریاست سے باہر مختلف جرائد اور رسائل میں شائع بھی ہوتے رہے۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’ڈولتی نیا‘‘ کے عنوان سے ۱۹۸۳ء میں شائع ہوا۔ یہ مجموعہ تیرہ (۱۳)افسانوں پر مشتمل ہے اور قارئین سے دادِ تحسین بھی حاصل کر چکا ہے۔‘‘
(دل آج بھی روتا ہے،۲۰۱۹ء،واجدہ تبسم گورکو ،ص ۱۱ )
واجدہ تبسم گورکو اپنی ادبی زندگی کے بارے میں خود کہتی ہیں:
’’ میں ۱۹۷۲ء میں گیارویں جماعت میں پڑھتی تھی ،اس وقت میں نے اپنا پہلا افسانہ لکھا تھا ۔میں نے اس افسانے کا عنوان ’’غریبی کیا کیا سکھاتی ہے ‘‘ رکھا تھالیکن اس وقت کے مشہور ومعروف اخبار’’چنار‘‘ کے مدیر مرحوم محمد امین صاحب نے مجھے کہا کہ اس افسانے کا عنوان تبدیل کرکے ’’آہ کے اثر ہونے تک ‘‘ رکھتے ہیں۔ جو میرے لیے باعث فخر اور کسی اعزا ز سے کم نہ تھا ۔اس طرح انہوں نے یہ نام تجویز کرکے اپنے اخبار ’’ چنار‘‘ کی زینت بنائی۔بدقسمتی سے یہ اخبار کئی سالوں سے بند پڑا ہے۔ میراپہلا افسانوی مجموعہ ’’ ڈولتی نیا‘‘ کے عنوان سے ۱۹۸۳ء میںجموں و کشمیر کلچرل اکاڈمی کے مالی تعاون سے شائع ہوا۔اس افسانوی مجموعے پر محروم محترم اکبرجے پوری صاحب نے اس وقت مجھے پانچ سو روپیے بطور انعام عطاکیا ۔میں جموں وکشمیر کی پہلی خاتون ہوں جو ریاست سے باہر کسی ادبی سیمینار میں شریک ہوئی ہوں ۔اس کے بعد میں اپنی گھریلو زندگی اور ملازمت کی وجہ سے کافی مصروفیات کا شکار رہی اور ساتھ ہی ساتھ لکھتی بھی رہی ۔اب میرا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’ د ل آج بھی روتا ہے‘‘ کے عنوان سے ۲۰۱۹ء میں شائع ہوا۔‘‘
(شخصی انٹرویو ،زاہدظفر، ۲۰۲۰ء ،سری نگر لال چوک )
اس بحث سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست کی پہلی خاتون افسانہ نگارواجدہ تبسم گورکو ہی ہے۔ ترنم ریاض کی کہانی ۱۹۷۵ء میں شائع ہوئی ہے جبکہ واجدہ تبسم گورکو کا پہلا افسانہ ۱۹۷۲ء میں روزنامہ ’’چنار ‘‘ میں شائع ہواتھا۔ واجدہ تبسم گورکو صحافت سے بھی وابستہ رہی ہیں،وہ کئی اخبارات کی مدیر بھی رہی ہیں۔جن میں ہفتہ روزہ العتیق اخبار ، خواتین ایڈیشن اخبار آفتاب اور چٹان، آئنری ممبر مجلسِ نسواںاور سازو سرمدی(ڈیرہ ڈون)۔
واجدہ تبسم کو جن انعامات و اکرامات سے نوازا گیا ہے ان میں چند کا نام قابل ذکر ہیں:
۱۔ راجیو گاندی سدبھاونہ ایوارڑ
۲۔ کشمیر کلچرل کانفرنس (جموں و کشمیر)
۳۔ ۱۔لکھنؤ دوردرشن ۲۔دہلی دوردرشن
۳۔ پرتھم بکس دہلی ۴۔ جالندھرردوردرشن
۵۔ ناگپور دوردرشن اور سری نگر دور درشن کی طرف سے انہیں توصیفی اسناد ،ٹرافیاں اور نقدی انعامات سے بھی نوازا گیا ہے۔ وغیرہ
واجدہ تبسم کئی سرکاری و نیم سرکاری ادراوں کی بھی ممبر رہی ہیں:
۱۔ جموں وکشمیر فکشن رائٹرس گلڈ
۲۔ گاندی گلوبل فیملی
۳۔ جموں کشمیر میڈیا گلڈ
۴۔ اسکرین رائٹرس ایسوسیشن ممبئی۔ وغیرہ
٭٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!