ملک وملت کی فلاح وبہبودمیں مدارس کا کردار
تنزیل احمد
ریسرچ اسکالر،شعبہ اسلامیات،علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ
+91-9528608983
Email:tanjeelahmad88@gmail.com
(Mulk-o-Millat ki Falah wa Bahbood mein Madaris ka kirdar by Tanjeel Ahmad)
دینی مدارس نے ہندوستان کی جنگ آزادی ہی میں نہیں بلکہ ہندوستان کی اسلامک تاریخ کے الگ الگ پہلووںمیںان دینی مدارس نے ملک و ملت کی فلاح وبہبود میںبہت اہم کردار اداکئے ہیں۔مختلف مکتبئہ فکر کے دینی مدارس کے فارغین جن میںچند بڑی شخصیت کے نام یہ ہیں مولانا مودودی،اشرف علی تھانوی،احمد رضا خان بریلوی اور مولانا ابولکلام آزدہیں ان حضرات نے مدرسے کی تعلیم کے ذریعہ ہی مسلمانوں کی فلاح بہبود کی پرزور کوشش کی۔ ہندوستان کے چھوٹے اور بڑے مدارس نے ملک وملت کی تعمیر میںیکساںکردار ادا کئے ہیں ۔اس پیپر میں مقالہ نگارمدارس کی بیش بہا خدمتوںکا تجزیہ پیش کریگا ۔زیادہ ترچھوٹے مدارس کے پاس پیسے کی کمی ہوتی ہے اور اچھے استاد نہ ہونے کی وجہ سے ان بچوںکوجو ان چھوٹے مدارس میںتعلیم حاصل کرتے ہیںان کے لئے عصری تعلیم حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ ملک و ملت کی تعمیر وترقی میںوہ مرکزی کردار ادا نہیں کر پاتے جو بڑے مدارس کرتے رہے ہیں ۔
راقم کا دعوی ہے کہ قوم و ملت کی ترقی کے لئے دینی مدارس نے ہمیشہ سے اپنے طور پرخدمت کی ہے اور کر رہے ہیںاور انہی دینی مدارس سے اردو کا فروغ،قوم کی دینی تعلیم وتربیت،معاشرے کی اصلاحی تعلیم و تربیتی مراکزنے بھی انہی سے استفاداہ حاصل کیا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمان جس طرح سے پچھلے ساٹھ ستر سالوںسے پچھڑے رہے اور ان کو لگاتارتعلیم دینے کا کام یہ دینی مدارس کرتے رہے ہیں۔اور اس مقالہ کی اہم بات یہ ہوگی کہ یہ دینی مدارس اردو کو فروغ دے رہے ہیں جو کہ ملک و ملت کی اہم زبان سمجھی جاتی ہے۔
تعارف
۲۶؍۱۱ کے حملے کے بعد عالمی دنیا میں اسلام کو بدنام کرنے کی ایک سازش کی جارہی ہے اوروہ کافی حدتک کامیاب بھی ہوئے ہیں جس میں میڈیا کا اہم رول رہا ہے میڈیا نے عام طور پر ایک اسلامک دہشت گرد کے نام کو فروغ دے کر مسلم کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی بدنام کیا ہے جس سے دنیا کی دیگر قوم میں اسلام اور مسلمانوں کے تئیں ایک نفرت کی دیوار کھڑی ہوگئی اسی کے چلتے مغرب نے اسلام کو اور زیادہ بدنام کرنے کے لئے مدرسوں کا سہارا لیاتا کہ دنیا میں جہاں بھی مدرسے ہیں خاص طور پر ساؤتھ ایشیاء کے مدرسوں کو نشانہ بنایا گیا جس کا اثرہمارے ملک ہندوستان پربھی پڑا۔ ہندوستان کے مدرسوں پر حملہ کر کے آج کے سیاستدانوں نے اس کا بھر پور سیاسی فائدہ اٹھایا ۔ اگر تاریخی اعتبار سے نظر ڈالی جائے تو مدرسوں کی شروعات دسویں صدی سے ہوئی اور اس زمانے میں مسجدیں مدرسے اور مکتب کا کام کیاکرتی تھیںجیسے اودھ، ملتان، لاہور، خیرآباد ، پٹنہ ، سورت، دہلی اور آگرہ یہ وہ خاص جگہ تھیں جہاں مدارس کی تعلیم کا انتظام تھا پھر مسلم حکومت میں دن بہ دن تیزی سے وجود میں آتے گئے پھر یہ سلسلہ مغلوں تک چلا اور بعدمیں مسجدوں سے مکتب اور مدرسے الگ ہو گئے۔ ایک زمانے سے یہ رہا ہے کہ چھوٹے مدرسوں میں جو تعلیم دی جاتی تھی وہ صرف مسلم کے لئے مخصوص نہیں تھی بلکہ اس میں ہندومسلم اور دیگر ذات کے لوگ تعلیم حاصل کرتے تھے اور مدرسوں کی توجہ زیادہ تر دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیم پر بھی تھی جس کو اردو زبان میں پڑھایا جاتا تھااور جس سے اردو کوبھی فروغ ملااور اردو ملک کی دوسری اکثریت بولی جانے والی زبان ہے ۔
دینی مدارس کو تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ہندوستا ن کی تعلیم کے فروغ کا ایک حصہ رہے ہیں ان دینی مدارس نے کئی دانشور پیدا کئے ہیں جنہوں نے ہندوستان کی جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور انہوں نے ملک کو آزاد کرانے میںاہم کردار ادا کیا اوراپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا۔ اگربات دورجدید کی کی جائے تو روایتی مدرسوں کو جدیدتعلیم سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے جس سے وہ جدید دور کے سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کرسکیں اور ملک کی دوسری قوموں کی برابری کرسکیںاکسویں صدی کو علم کی صدی کہا جاتا ہے جب کہ اگر بات مسلم قوم کی تعلیم کی کی جائے تو مسلم کو جدید تعلیم کی ضرورت ہے کیونکہ ہندوستان میں مسلم سب سے بڑی اقلیتی قوم ہے۔
اس کے بعد جب انگریزوں کی حکومت آئی تو کئی دینی مدارس وجود میں آئے جیسے دارالعلوم دیوبند(۱۸۶۶ء) ندوۃ العلماء لکھنؤ(۱۸۹۴ء) اور اس کے بعد جامعہ عربیہ اسلامیہ ناگپور(۱۹۳۸ء)اور الجامعۃالاشرفیہ مبارکپور(۱۹۷۲ء )ملک کی آزادی کے بعد ہمدردایجوکیشن سوسائٹی کے ۱۹۹۶ء کے سروے کے مطابق ایک لاکھ پچیس ہزار(۱۲۵۰۰۰) مدرسے وجود میں آئے ۔ان مدرسوں نے صرف مسلم قائد ہی نہیں پیدا کئے بلکہ قوم کے ایسے ہمدرد لوگ پیدا کئے جو ملک وملت کی فلاح وبہبودمیں ہمیشہ آگے رہے مثلاشاہ ولی اللہ، مولانا مودودی، مولانا قاسم ناناتوی ، احمد رضا خان بریلوی اور مولانا ابوالکلام آزادوغیرہ وغیرہ۔
معاشرے کی ترقی میں دینی مدارس کا کردار
دینی مدارس کا ملک کی ترقی اور معاشرے کی ترقی میں اہم کردار رہا ہے مدارس نے ہر اعتبار سے معاشرے کی فلاح وبہبود کا کام کیا ہے دینی مدارس سے مراد یہاں دینی تعلیم ہے کہ اسلام ہمیں دینی تعلیم کیسے دیتا ہے ہمارے کیا فرائض ہیں، معاشرے میں کیسے رہنا ہے ،کس کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا ہے پڑوسی مسلم ہو یاغیر مسلم اسلام نے سب کے حقوق بتائے ہیں اورپوری طرح سے اپنی تعلیمات سے آگاہ کرایا ہے دینی مدارس میں جن بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے ان کو معاشرے کے سارے حقوق بتائے جاتے ہیں ان کو اسلام کی مکمل تعلیم دی جاتی ہے جو اسلام سکھاتا ہے قرآن کو ہدایت کی کتاب کہا جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ ہدایت جو آپ کو اپنی دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی زندگی بھی آسان کردے۔ مدارس میں بچوں کو دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی تعلیم بھی دی جاتی ہے اوروہ بچے ملک وملت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ مدارس نے معاشرے میں پنپنے والی تمام برائیوں کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ان اصولوں پر چلنے کی تعلیم سکھاتا ہے جواللہ اور اس کے رسول کی تعلیم ہے ۔
مدارس میں جدید تعلیم کی کمی
ہندوستا ن میں زیادہ تر مدارس سرکار سے کسی طرح کی مالی امداد نہیں لیتے ہیں اوراسی وجہ سے ہمارہ معاشرہ یا مسلم قوم کے افراد اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے زمانے میں ان مدارس کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کی سخت ضرورت ہے اوریہ تعلیم قوم کے بچوں کو ملک وملت کی مرکزی حیثیت میں لاسکتی ہے لیکن ان کی ترقی میں عصری تعلیم کو بڑھاوا دینا ضروری ہے جس سے بچے اخروی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم سے بھی باخبر ہوسکیں۔اکثر مدارس میں مالی امداد کی کمی کی وجہ سے اچھے اساتذہ کاملنا مشکل ہوجاتا ہے جو کہ باعث تشویش ہے ۔ مسلم کو سائنس اور ٹیکنا لوجی کے بارے میں ایسے پڑھنا چاہئے جیسے مغرب کے لوگ قرآن کو سائنسی نظریات کے تحت پڑھنے تے ہیںاور ان پر تحقیق کرتے ہیں تاکہ مسلم کو’’ علم اور فن‘‘ دونوں میں مہارت حاصل ہوسکے ۔علم سے مطلب دینی تعلیم اور فن سے مطلب ہر وہ تعلیم جو دنیا میں اسے بلندوبالااورترقی یافتہ بناسکے زیادہ ترمدارس پریہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنے طلبہ کوجدید تعلیم نہیں دیتے ہیں۔
مدارس کے اندر عام طور پرجو کمی پائی جاتی ہے وہ یہ کہ ان کا کوئی مقصد نہیں ہوتا ہے جیسے سائنس اور سوشل سائنس کی کمی مکتب اور مدرسے میں تال میل کی کمی ، فنڈ کی کمی اور انتظامیہ کی لاپرواہی۔دینی مدارس میں پڑھنے والے بچے زیادہ تر غریب طبقہ سے آتے ہیں نہ وہ فیس ادا کرسکتے ہیں نہ وہ کہیں رہ سکتے ہیں اس لئے مدرسہ بورڈ یاکمیٹی کی ذمہ داری ہونی چاہئے کہ ان کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرے جس سے وہ اپنا مستقبل سنوار سکیں ۔ہمارے مدارس میں زیادہ تر غیر تربیت یافتہ اساتذہ ہوتے ہیںاس لئے وہ بچوں کی عصری تعلیم کی طرف صحیح رہنمائی نہیں کر پاتے ۔
اردو کے فروغ میں دینی مدارس کا کردار
اردو زبان کو ہندوستان کی اہم زبانوں میں شامل کیا جاتا ہے جس کو دینی مدارس کے ذریعہ کئی صدیوں سے فروغ مل رہا ہے اگر ہندوستان کی بات کی جائے تو زیادہ تر دینی مدارس ہی ہیں جو اردو کو فروغ دے رہے ہیں ۔
اردو زبان نارتھ انڈیا کی عام زبان مانی جاتی ہے جو کہ مغل دور میں عربی اور فارسی سے وجود میں آیاپھر یہ ایک عام زبان میں تبدیل ہوگئی بہت سارا مواد عربی اور فارسی سے اردو میں منتقل کیا گیا آزادی سے پہلے ہندوستان میں واحد دو ایسی جگہ بچی جہاں پر اردو بولنے کا عام رواج تھا نارتھ انڈیا اور حیدرآباد ۔ نارتھ انڈیا میں اردو وہی لوگ بول پاتے تھے جو مدرسے کی تعلیم حاصل کرکے آتے تھے حالانکہ الگ الگ صوبوں میں بولی جانے والی دیگر زبانوں کو بولنے اور اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کر نے کا حق ہندوستان کا آئین دیتا ہے اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اردو کا فروغ جتنا مسلم قوم کے مدارس کے ذریعہ ہوا اتنا دوسرے لوگوں نے اس کوفروغ دینے میں اپنا کردار ادا نہیں کرپائے۔
مدارس کے فارغین کاملک وملت کی ترقی میں اہم کردار
۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک دینی مدارس سے فارغین نے انگریزوں سے کسی بھی طرح کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیابلکہ ملک وملت کیلئے ہمیشہ انگریزوں کے خلاف کھڑے رہے تاریخ میں کئی ایسے واقعات ملتے ہیں کہ مسلم علماؤں نے انگریزوں سے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور سینکڑوں کی تعداد میں پھانسی پر لٹک کر شہید ہوگئے۔مولانا آزاد صرف ایک عالم ہی نہیں بلکہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے قائد بھی بنے یہ کہاجاتا ہے کہ جنگ آزادی سے پہلے اور جنگ آزادی کے بعد کی بھی تاریخ بنا علماء کے ادھوری ہے ہمدوستان کے تاریخ کے کچھ بڑی شخصیتوں کے نام : شاہ ولی اللہ (۱۷۰۳ء)محمد قاسم ناناتوی (۱۸۳۳ء)احمد رضا خان بریلوی(۱۸۵۶ء) مولانا ابوالکلام آزاد(۱۸۸۸ء) مولانا مودودی(۱۹۰۳ء)جنہوںنے قوم وملت کے لئے ہمیشہ فلاح وبہبود کا کام کیا۔
خلاصہ
مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ ہندوستان کے جتنے بھی مدارس ہیں چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے اپنے طور پر معاشرے کی فلاح و بہبود میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور ان مدارس کے فارغین نے ملک و ملت کے تعمیر و ترقی میں اہم رول ادا کئے۔اردو جو کہ ہندوستان کی ایک اہم زبان مانی جاتی ہے اور حکومت کا کام ہے اس کا فروغ کرے لیکن یہ مدارس اس کو بخوبی انجام دے رہے ہیں۔
حوالہ جات
(۱) ارشد اسلم، سائنس ان مدرسہ(مقالہ)۔ای۔پی۔ڈبلو۔ ۲۰۰۵ (ص۔۱۸۱۲ تا ۱۸۱۵)۔
(۲) اے۔ایچ۔منظورالحق، اسٹیٹس آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ مدرسہ ایجوکیشن ان انڈیا(مقالہ)جے۔ایچ۔ایس۔ایس۔۲۰۱۳ (ص۔۱۴تا ۱۶)۔
(۳) امتیاز احمد، اردو اینڈ مدرسہ (مقالہ)۔ای۔پی۔ڈبلو۔۲۰۰۲ (ص۔۲۲۸۵تا ۲۲۸۷)۔
(۴) ایم۔ڈی ۔موسی علی،این اور ویو آن مدرسہ ایجوکشن ان انڈیا(مقالہ)۔ائی۔جے۔ڈی۔آر۔۲۰۱۵(ص۔۳۷۱۴تا۳۷۱۶)۔
(۵) سرل جنگران، مدرسہ ایجوکشن ان ماڈرن انڈیا :ایے اسٹدی،منوہر پبلشر اینڈ ڈسٹری بیوٹر،۲۰۱۰(ص۔۱۲۵تا۱۳۴)۔
(۶) جین پیٹر ہرٹنگ، اسلامک ایجوکشن ،ڈائورسٹی اینڈ نیشنل آیڈنٹیٹی، سیج، ۲۰۰۶(ص۔۳۹تا۴۸)۔
*****
Leave a Reply
Be the First to Comment!