مہتاب حیدر نقوی : شخص اور شعری جہات
طاہر حسین
ریسرچ اسکالر ،شعبۂ اردو ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ
8492026733
(Mehtab Haidar Naqvi….. by Tahir Husain)
سید مہتاب حیدر نقوی کا جنم یکم جولائی ۱۹۵۵ء میںسادات کی ایک چھوٹی سی بستی غوری خالصہ سندیلہ ضلع ہردوئی اتر پردیش میں ہوا۔اودھ کایہ علاقہ نہایت مردم خیز،علم دوستی اور ادب نوازی کا گہوارہ رہا ہے۔آ پ کے والد کا نام سید محمد ابراہیم تھا۔آپ کا گھرانہ نہایت علمی،ادبی اور مذہبی قسم کا تھا۔خود آپ کے والدکو مطالعہ کتب کا بے حد شوق تھاخصوصاًمذہبی کتابوں اور بزرگ شعرا کے کلام سے دلچسپی تھی۔مہتاب حیدر نقوی نے اپنی آبائی بستی میںاپنے والد سید محمد ابراہیم کی سرپرستی میں دینی اور دنیاوی علم سیکھا اور ادبی ذوق و شوق وراثت میں پایا۔خود ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:
’’پیدا ہوتے ہی میرے کانوں میں اذان و اقامت کے علاوہ میر انیس کی آواز بھی سنائی دی اور بہت کم عمر ی میں ہزار کیا بیسوں ہزار شعر یاد ہو گئے ‘‘۱؎
ابتدائی سے لے کر انٹرمیڈیٹ تک کی تعلیم گاوں گوٹ گنج تحصیل سندیلہ میں حاصل کرنے کے بعدانیس سال کی عمر میں۱۹۷۴ء میں علی گڑھ ا ٓیے اور اگلے سال ۱۹۷۵ء میںبی اے آنرز اردو میں داخلہ لیا اور ساتھ ساتھ سیاسیات و معاشیات کے مضامین بھی پڑھے۔۱۹۸۰ء میں ایم اے اردو میں داخلہ لیالیکن بہت جلد تعلیم ادھوری چھوڑ کر ملازمت کے سلسلے میں اپنے دوست صلاح الدین پرویز کے کہنے پر ریاض سعودی عرب چلے گیے ۔ وہاں تین سال قیام کے بعد۱۹۸۳ء میں واپس آیے اورعلی گڑھ میں سول سروسز امتحانات کی تیاری میں لگ گئے ۔ کچھ ہی عرصہ بعداس کو بھی چھوڑ دیا اور کاروبار میں مصروف ہو گئے۔ ۱۹۹۰ء میں آگرہ یونیورسٹی سے پرائیویٹ ایم اے اردو کیا۔ ۱۹۹۴ء میںعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم فل کیا اور پھر ۱۹۹۶ء میںپروفیسر عقیل احمد صدیقی کی نگرانی میںــــــــــــــــــ ـــ ناصر کاظمی کی شاعری کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ کے موضوع پرپی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ــــــپی ایچ ڈی ختم ہوتے ہی پروفیسر شہریار کے زمانے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں بحیثیت لکچرر تقرر ہوا ۔درس و تدریس کے علاوہ آپ نے تصنیف و تالیف اور تخلیق شعر و ادب کے میدان میںبھی کچھ ایسے لا زوال نقوش پیش کیے ہیںجو نہ صرف یہ کہ آپ کی علمی اور ادبی شناخت کا ذریعہ ہیں بلکہ اردو شعر و ادب کے خزانے میںاضافے اور وقار کا باعث بھی ہیں۔
آپ کے تخلیقی کاموں میں اب تک دو شعری مجموعے اردو میں شائع ہو چکے ہیں’’شب آہنگ‘‘۱۹۸۸ء اور ’’ماورائے سخن‘‘۲۰۰۶ء۔یہ دونوں مجموعے معاصر شعر و ادب کے منظرنامے پر قبول و اعتبار کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔اس کے علاوہ ایک اور مجموعہ ’’ہر تصویر ادھوری ‘‘ دیوناگری رسم الخط میں شائع ہوا ہے۔شب آہنگ اور ماورائے سخن پر یوپی اردو ایکیڈمی لکھنو نے آپ کو اعزاز سے بھی نوازا ہے۔اس کے علاوہ آپ نے متعدد جدید شعرا اور ان کی شاعری پر تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیںجن سے آپ کی شعر فہمی اور تنقیدی بصیرت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ان مضامین میں آپ نے اردو کے کچھ جدید شعرا اور ان کی شاعری کا مطالعہ کر کے ان کے شعری کمالات کا نہایت غیر جانبدارانہ محاکمہ کیا ہے۔ یہ مضامین بعد میںایک کتابی شکل میں ’’نیا شعری احساس‘‘ کے نام سے ۲۰۱۴ء میں شائع ہوئے۔خلیل الرحمن آعظمی پر تحریر کردہ آپ کا مونوگراف نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اس کے علاوہ آپ نے کئی کتابوں کے تراجم بھی کیے ہیں۔
۱۔ یشپال (مونوگراف)
۲۔ یاس یگانہ چنگیزی
۳۔ نوائے ظفر
جس زمانے میں آپ ادبی منظرنامے پر نمودار ہوئے یہ بیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر کا زمانہ تھاجس میں ایک طرف ترقی پسند تحریک کا خاتمہ ہوا اور دوسری طرف جدیدیت کا آغاز ہوا اور کچھ ہی عرصہ بعد پھر ما بعد جدیدیت کا تصور سامنے آیا ۔ اس طرح یہ پورا دور ایک طرح کے تناو اور کشمکش کا دور بن کر ابھرتا ہے۔یہ کشمکش ہے قدیم اور جدید کی، نئی اور پرانی قدروں کی، انفرادیت اور اجتماعیت کی، کلاسیکیت اور جدیدیت کی۔ ایک طرف دیرینہ روایات سے وابستگی اور ان کی پاسداری کا جذبہ ہے تو دوسری طرف بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطا بق انحراف کے عناصر پنپ رہے ہیں ۔ جدیدیت سے وابستہ فنکاروں نے عصری درد و کرب،اضطراب و انتشار، داخلی شکست و ریخت اور نفسیاتی پیچیدگیوں کو مو ضوع بنا کر خارجیت سے بے زاری اور برأت کا اظہار کیا اور اس طرح رومانیت پسندی کے دائرے میں آگئے جبکہ ما بعد جدیدیت نے ان تمام باتوںسے انحراف کیا اور ساری حدوں کو ختم کر کے خارجیت اور حقیقت پسندی پر زور دیا۔
کشمکش کے اس دور میںاردو شعر و ادب کے افق پر شاعروں اور ادیبوںکا ایک جھر مٹ نظر آتا ہے جن میں سے کچھ روایات کے ساتھ سختی سے چمٹے ہوئے ہیںاور کچھ نئے خیالات و نظریات کے علمبردار۔ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو ہر طرف سے آزاد اور سب سے اخذ و استفادہ کرکے ایک ملی جلی بیچ کی راہ پر گامزن رہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات ثابت ہوتی گئی کہ کشمکش کے اس دور میں وہی لوگ کامیاب ہوئے جنہوں نے روایت کے صالح عناصر کو وقت کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے پیش کیا اور اس طرح جدت،تازگی اور انوکھے پن کا احساس دلایا اور بھری بھیڑ میںاپنی ایک الگ پہچان و شناخت قائم کی۔ ٹھیک یہی کام مہتاب حیدر نقوی نے بھی کیا نہ تو پرانی روایات کے ساتھ سختی سے چمٹے رہے اور نہ ہی جدیدیت کے علمبردار بن کرہوا میں معلق ہوئے۔ شب آہنگ اور ماورائے سخن کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے قدیم و جدید کا ایک ایسا آمیزہ بنایا ہے جس کے تحت انہوں نے قدیم مواد ا ور ذاتی تجربات کو نئے پیمانوں میں پیش کرکے تخلیقیت اور تازگی کا احساس دلایا ہے۔ جدید شاعری کی آوازوں میں نقوی کا لب و لہجہ اور اندازِبیان نہ صرف یہ کہ سب سے جدا اور منفرد ہے بلکہ دور سے پہچانے جانے والا بھی ہے۔بقول قاضی جمال حسین:
’’اپنی اس منفرد آواز کی آبیاری میںنقوی نے غایتِ احتیاط اورہنر مندی کا ثبوت دیا ہے۔ روایت کے مستحکم حصار میںانفرادیت کے دریچے کھولنا اورمانوس لفظیات کے ذریعے،سیاق و سباق کی خفیف تبدیلی سے،پیش منظر میں لطیف ارتعاش پیدا کر دینا نقوی کے کلام کی نمایاں خصوصیت ہے۔ تجربے کی تہ داری،سرّیت، دروں بینی اور لہجے کی دلآسائی سے نقوی نے ایک ایسی آواز دریافت کر لی ہے جو آوازوں کے ہجوم میں بخوبی پہچانی جا سکتی ہے۔‘‘۲؎
مزید لکھتے ہیںکہ:
’’مہتاب حیدر نقوی کے دوسرے مجموعے ماورائے سخن کے مطالعہ کے دوران اس تخلیقی جدت کا بار ہا احساس ہوا جو سچے اور جنوئین شاعر کی پہلی شناخت ہے۔ شعر کا وہ بنیادی آہنگ اکثر ان کی گرفت میں ہوتا ہے جو موزوں الفاط کی مناسب ترین ترتیب سے تشکیل پاتا ہے۔‘‘۳؎
مہتاب حیدر نقوی کی شعری و تخلیقی تربیت علی گڑھ میں پروفیسر شہر یار کی سر پرستی میں ہوئی جو ان کے پسندیدہ اور ہر دلعزیز استاد تھے۔اسی لیے مہتاب حیدر نقوی ان سے بے حد متاثر نظر آتے ہیں اور کبھی کبھی تو ان کی شاعری پر شہریار کی شاعری کا گمان ہوتا ہے۔ اس طرح نقوی اپنے استاد شہریار کی آواز میں آواز ملا کر گویا خلیل الرحمن اور شہریار کے سلسلے کی اگلی کڑی معلوم ہوتے ہیں۔ مہتاب حیدر نقوی اکثر اپنے اشعار پروفیسر شہریار کو سناتے اور ان سے اصلاح و تربیت لیتے تھے جیسا کہ پروفیسر عقیل احمد صدّیقی نے لکھا ہے کہ:
’’ان دنوں علی گڑھ میں ادبی سر گرمی زوروں پر تھی۔ شعر و ادب کی چھوٹی بڑی محفلیںاکثرمنعقدہوتی تھیں جن میںیہ سب(مہتاب،آشفتہ،فرحت)اپناکلام سناتے اور داد وصول کرتے۔ جدیدیت پسند مقبول شاعر شہریار ان کی دلچسپی کا مرکز تھے۔ خلیل صاحب،شمیم حنفی اور وحید اختر کو یہ سب محترم گردانتے تھے اور ان سے اپنے لیے استناد حاصل کرتے۔ بعض دفعہ ان ہی محفلوں میںان کی اصلاح بھی ہو جاتی۔ اکثر شہریار مہتاب کو مشورہ دیتے اور مہتاب انکساری کے ساتھ قبول کر لیتے۔ اس طرح کے لین دین سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ مہتاب کو بتدریج شعر بنانے اور بننے پر دسترس ہوتی گئی اور اپنے معا صرین کے مقابلے ان کا شعری آہنگ زیادہ واضح اور توانا ہو گیا۔‘‘۴؎
شاعری کیا ہے یہ مجھ کو نہیں معلوم مگر
لوگ کہتے ہیں کہ یہ دل کی لگی ہے کوئی چیز
نقوی کا یہ شعر ان کی اپنی شاعری پر تبصرہ بھی ہے اور ان کا شعری منشور بھی ہے۔ اس شعر سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نقوی کے ہاں شاعری کا کوئی بندھا ٹکا اور متعینہ نظام نہیں اور نہ ہی وہ کسی خاص فکر و رجحان سے متاثر ہو کر شاعری کرتے ہیں ۔شعر کے پہلے مصرعے میں جس شانِ بے نیازی سے وہ شاعری سے متعلق عارفانہ تجاہل کا اظہار کرتے ہیں وہ ان کی آزادہ روی اور ہر طرح کے افکار و نظریات سے برأت کا اظہار ہے ۔دوسرے مصرعے میں انہیں گرچہ اس بات کا اقرار ہے کہ لوگوں کا ماننا ہے شاعری دل لگی اور دل کی لگی کا بیان ہے لیکن یہاںبھی کوئی اشارہ یاقرینہ ایسا نہیں چھوڑتے اور نہ ہی یہ اعتراف کرتے ہیںکہ میں بھی لوگوں کے اسی خیال سے اتفاق رکھتا ہو ں مگر ان کے شعری مجموعوں پر نظر ڈانے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا پورا کلام اسی دل لگی اور دل کی لگی کا ترجمان ہے۔شاعری دل لگی کا نام ہے جس میں شاعر دلی جذبات اور احساسات کااظہار کرتا ہے،عشق و محبت اور حسن و جمال کے ایسے گیت گاتا ہے کہ اپنے اندر کی ساری بھڑاس نکالتا ہے اور خوابوں خیالوں کی دنیا میں کھو کر تھوڑی دیر کے لیے خود کو اس من چاہی دنیا کی سیر کراتا ہے جہاں اسے ہر طرح کا لطف و سرور اور آرام و سکون میسّر آتا ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ شاعری دل کی لگی کا بھی بیان ہے جس میں شاعر روز مرّہ کی زندگی میںملنے والے دکھ ،درد،رنج ، غم پریشانیاں ،مصیبتیں اور وہ تمام تلخ تجربات بھی بیان کرتا ہے جن سے اس کا گزر اور سامنا ہوتا ہے ۔جو کچھ بھی اس کے دل پر لگتا ہے اور اس کی زندگی کا تجربہ بن جاتا ہے شاعری اسی کی ترجمانی سے عبارت ہے۔اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خود مہتاب حیدر نقوی اپنے شعری مجموعے ماورائے سخن کے پیش ِلفظ میں لکھتے ہیں:
’’یہ شاعری میرے خوابوں سے عبارت ہے ۔میرے رت جگوں کا نتیجہ ہے۔اس میں سماجی سروکار ہے یا یہ سارا کھڑاگ محض برائے شعر گفتن مجھے اس کا علم نہیں۔ مجھے تو اپنے دکھوں میں مگن رہنے کی عادت ہے جس کا اظہارتخلیقی سطح پر کرنے کی کوشش کرتا ہوں‘‘۵؎
مہتاب حیدر نقوی کسی خاص فلسفے یا نظریے کے تحت شاعری نہیں کرتے بلکہ ہر طرح کے بندھنوں اور حصاروں کوتوڑ کر وہ اپنے خوابوں خیالوں اور روزمرّہ کے تجربات کو بنیاد بنا کر شعری قالب میں پیش کر دیتے ہیں اور اس طرح اپنی ایک الگ اور منفرد آواز کے مالک ہو جاتے ہیں جس پر انہیں خود بھی ناز ہے۔وہ کہتے ہیں:
ہم نے کیا صرف کیا خون جگر شعروں میں
ہم سے بہتر نہیں کوئی سخن ور دیکھو
مہتاب حیدر نقوی کی شاعری کاسب سے بنیادی وصف یہ ہے کہ یہ تجربات پر مبنی شاعری ہے۔دورِ جدید کا انسان اپنی زندگی میں جن تجربات و مشاہدات سے گزرتا ہے یہ شاعری انہی کے بیان سے عبارت ہے۔نقوی کے یہ تجربات انتہائی ذاتی ہونے کے باوجود ایک عمومی رنگ رکھتے ہیں۔اس شاعری کو پڑھنے سے اندازہ ہوتاہے کہ شاعر اپنی ذاتی زندگی میں زیادہ تر تلخ تجربات سے گزرا ہے۔وہ ایک خود دار، غیرتمند ،شریف النفس اور آزاد طبیعت کا مالک ہے جو اپنی صلاحیت اور قابلیت کے دم پہ زندگی میں کچھ کر گزرنا چاہتا ہے اور نہایت شان سے جینا چاہتا ہے مگر زندگی کے کسی موڑ پرحالات اسے سخت پریشان اور مجبور کر دیتے ہیں ۔معاشرے کا سیاسی وسماجی نظام اس کی خواہشات اور ضروریات کے پورا ہونے کی راہ میںبڑی روکاوٹ بن جاتا ہے جس کا سامنا کرتے کرتے وہ تھک ہار کر نڈھال ہو جاتا ہے۔یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
سنتا ہی نہیں کوئی شرافت میں ہماری کچھ اور کجی چاہیے عادت میں ہماری
ایک میں ہوں اور دستک کتنے دروازوں پہ دوں کتنی دہلیزوں پہ سجدہ ایک پیشانی کرے
کس و ناکس ہیں بہت دست طلب کے آگے سر پندار جھکا جاتا ہے سب کے آگے
کس و ناکس کے آگے کیوں سر پندار جھکتا ہے کبھی سجدوں سے خالی کیوں یہ پیشانی نہیں ہوتی
شب آہنگ اور ماورائے سخن کے ان اشعار پر ذرا غور کیجیے ان میں جہاں ایک طرف ذاتی تجربات و مشاہدات کا بیان ہے وہیںدوسری طرف ہمارے سیاسی و سما جی نظام کی عکاسی بھی ہے اور اس پر ایک بلیغ طنز بھی ہے جہاںقابل،باصلاحیت اور ہنر مند لوگوںکی کوئی قدر نہیں کرتا۔انسان اپنی روز مرّہ کی ضروریات و خواہشات اور ارادوں کو پورا کرنے کے لیے کیسے کیسے نااہلوں اور نالائقوں کا محتاج ہو گیا ہے جو کرسیوں پر بیٹھ کر نظام چلا رہے ہیں۔انسان باوجود اپنی خودداری اور عزِت نفس کے ان کے سامنے جھکنے ،جی حضوری کرنے اور سجدہ ریز ہونے پر مجبور ہے اور وہ بھی ایک جگہ نہیں بلکہ قدم قدم پر اسے لوگوں کی خوشآمدیں کرنی پڑتی ہیں اور سرِ پندار جھکانے کا یہ سلسلہ دراز ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکل جاتے ہیں کہ:
ایک میں ہوں اور دستک کتنے دروازوں پہ دوں
کتنی دہلیزوں پہ سجدہ ایک پیشانی کرے
شاعر کا مشاہدہ ہے کہ اس دنیا کا کاروبار اور نظام مکّاروں اور عیّاروں کے ہاتھ میں ہے جو عام انسان کو طرح طرح کے منصوبوں اور اسکیموں میں ورغلاتے ہیں اور اس کے سامنے تابناک مستقبل کے کئی راستے کھول دیتے ہیں کہ وہ پس و پیش میں پڑ جاتا ہے مگر جب وہ کسی ایک کا انتخاب کرکے اس پر چل پڑتا ہے تو قدم قدم پہ مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے اور کوئی اس کی بات سننے ماننے والا نہیں ہوتا۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اسے اپنی زندگی کے بنیادی اصولوں اور عادتوں پر بھی سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔
سیکھا ہے بدلتے منظروں سے
باقی نہ کوئی اصول رکھنا
یہ وہ تجربات ہیں جن سے تقریباًآج کا ہر انسان گزرتا ہے ۔ نقوی صاحب کے سوانحی حالات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی جوانی کے دنوں میں اس طرح کی کئی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کر چکے ہیں ۔گریجویشن کے بعد ایم اے میں داخلہ لیتے ہی تعلیم چھوڑ کر تلاش ِروزگار کے سلسلے میں سعودی عرب چلے گئے۔تین سال بعد وہاں سے واپس آکر علی گڑھ میں کچھ کاروبار بھی شروع کیا ۔ایسا لگتا ہے اس پورے عرصے میں وہ سخت مشکل حالات سے گزرے ہیں اور بہت تلخ تجربات کا سامنا ہوا ہے جن کا اظہار پھر انہوں نے تخلیقی سطح پر کیا ہے۔
درجہ بالا اشعار پر دوبارہ غور کیجیے اور ایک نئے پہلو سے مطالعہ کرنے کی کوشش کیجیے تو انسان اس نتیجے پر پہنچتا کہ ان نا مساعد سیاسی و سماجی حالات اور زندگی کے تلخ تجربات نے نقوی کی زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے ۔ایک ہنستے مسکراتے اور خوش مزاج انسان کے اندر غصہ اور بغاوت کی آگ بھڑکا دی جس کی وجہ سے ان کی شاعری میں احتجاجی عناصر پیدا ہوئے۔یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
سنتا ہی نہیں کوئی شرافت میں ہماری کچھ اور کجی چاہیے عادت میں ہماری
دنیا کے طریقے ہمیں اچھے نہیں لگتے نادان اگر ہم ہیں تو نادان رہیں گے
یہ اور اس طرح کے اور بہت سے اشعار میں جس طرح کے غصے اور برہمی کا اظہار ہے یہ اس سماج اوسماجی وسیاسی نظام کے خلاف ایک خاموش مگر پر زور احتجاج ہے۔اس احتجاج میں نقوی کا امتیازی کمال یہ ہے کہ وہ اوروں کی طرح تشدد اور نعرہ بازی پر نہیں اتر آتے بلکہ بہت ہی نرم اور دھیمے لہجے میں اس کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔یہ نقوی کے کلام کی ایک نمایاں خوبی ہے کہ وہ جس موضوع پر بھی اظہار خیال کر رہے ہوتے ہیںچاہے وہ کتنا ہی سخت اور پرشکوہ کیوں نہ ہو ان کے لہجے میں کسی اتار چڑھاو کا احساس نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ نرم آہنگ ،دھیمے لہجے اور لطیف و شیریں آوازوں کے ذریعے رس گھولتے رہتے ہیں ۔یہی آہستگی اور دھیما پن ان کی تخلیقی اور احتجاجی شاعری کا نمایاں وصف ہے ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نقوی صاحب اپنی ذاتی زندگی میں بھی سادہ،سنجیدہ اور خاکسارانہ شخصیت کے مالک ہیں جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کے دیرینہ دوست پروفیسر صغیر بیگ افراہیم لکھتے ہیں:
’’صاف گو ،کشادہ دل اور وسیع النظر انسان ہیں ۔اصرار پر مشاعروں اور نشستوں میں شرکت کرتے ہیںاور تحت میں پڑھتے ہیں ۔طبع بچپن سے ان کی موزوں تھی ۔مہتاب کو جس رنگ میں ایک طویل عرصہ سے دیکھ رہا ہوں وہ رنگ ہے سادگی کا ،خاکساری کا ،محبت کا،مرّوت کا ۔فرق یہ آیا ہے کہ پہلے عینک نہیں لگاتے تھے مگر اب وہ بھی دامن گیر ہے اور زاویوں کو بدلنے کا تقاضا کرتی ہے۔‘‘۶؎
نقوی کی شاعری کا ایک اوربڑا وصف یہ ہے کہ اس سے ان کی شخصیت کے کئی اہم پہلو آشکار ہوتے ہیں ۔نقوی اپنی زندگی میں جن حالات سے گزرے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کی شخصیت اور فکر و فن پر جو اثرات مرتب ہو ئے وہ سب اس شاعری میں نظرآتے ہیں۔اس شاعری کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی زندگی میں سکون اور ٹھہراو کہیں نہیں ہے بلکہ ایک مسلسل بہاو اور حرکت اور عمل ہے ۔وہ کسی بھی حالت اور چیز سے مطمئن نہیں اور اس کو بہتر سے بہتر کرنے کے لیے ہمیشہ سفر کی تیاری میں مگن رہتے ہیں ،یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
نئے سفر کی لذتوں سے جسم و جاں کو سر کرو سفر میں ہوں گی برکتیں سفر کروسفر کرو
نیا سفر ہے نئے بادبان کھولے جائیں نئی زمیں ہے نئے آسمان کھولے جائیں
آتا ہی نہیں راس کسی شہر کا کوچہ شاید کہ کمی رہ گئی ہجرت میں ہماری
بلا سے ہوگا جہاں آب و دانہ ہونے دو ہمیں تو اگلے سفر پہ روانہ ہونے دو
سفر کی شرط ہے کوہ ندا عبور کرو تمام رات کوئی بھی صدا نہ ہونے دو
یہ اور اس جیسے اور بہت سے اشعار نقوی کے مجموعوں میں موجود ہیںجن سے اندازہ ہوتا ہے شاعر اپنی زندگی اور در پیش حالات سے کس قدر غیر مطمئن ہے اور ان سے بچنے کا اس کے سامنے صرف ایک راستہ ہے کہ اس جگہ سے نقل مکانی کی جائے۔شاعر صرف حالات سے ہی مجبور ہو کر سفر کرنے پر نہیں تلا ہوا ہے بلکہ وہ اسے زندگی کو بہتر بنانے کا ذریعہ بھی سمجھتا ہے ۔ یہ وہ آفاقی اصول ہے جو دنیا کے ہر انسان کے لیے یکساں اہمیت رکھتا ہے کہ انسان سفر کرکے اس لا محدود دنیا کو دیکھتا ہے اور اس کے سامنے زندگی کو بہتر بنانے کے کئی مواقع آ جاتے ہیں ۔سفر اور اس سے متعلق اشعار نقوی کی زندگی کا اہم حصہ ہیں اس لیے کہ خود انہوں نے تلاش روزگار کے سلسلے میں کئی مقامات کا سفر طے کیا ہے۔سفر کی تمام کلفتوں اور دشواریوں سے واقف ہونے کے باوجود شاعر کا سفر پر اس قدر مصر ہوناشاعر کی زندگی میں اس کی اہمیت کی دلیل ہے۔علی گڑھ سے وابستگی کے بعد گرچہ نقوی کی زندگی میں سکون اور ٹھہراو آگیا تھا تاہم شعری اورتخلیقی تجربے کی سطح پر یہ ان کی فکر کا ایک جز ء بن گیا ہے ۔خیالات اور تجربات کی پیشکش میں وہ آج بھی محو سفر ہی نظر آتے ہیں ۔ نقوی اپنے اشعار میں سفر کے لیے کبھی تواپنی خوشی سے بے چین و بے قرار نظر آتے ہیں تو کبھی یہ سفر ان کے لیے ناگزیر مجبوری کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔سفر سے اس قدر دلچسپی اور لگاو ہونے کی وجہ سے تخلیق کی سطح پر نقوی ہمیشہ محو سفر رہتے ہیں لیکن انہیں کبھی اس کی منزل نصیب نہیں ہوتی۔ایسا لگتا ہے کہ نقوی کو سفر کے بعد منزل پر پہنچ کر خوشی ،آرام اور سکون ملنے والا ہے۔لیکن یہ منزل کبھی آتی ہی نہیں بلکہ سفر ہی دراز ہوتا چلا جاتا ہے اور شاعرکا جذبئہ سفر بھی۔
لفظ سفر ان کی شاعری میں صرف حقیقت ہی کے لیے استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ یہ ان کے کلام میں زندگی کا استعارہ بن کر بھی آتاہے۔انسان اس دنیا میں بنیادی طور ایک مسافر ہی تو ہے جو ہر لمحہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتا ہے ۔اس پہلو سے بھی نقوی کی شاعری میںیہ لفظ اور مضمون بار بار آیا ہے۔
مہتاب حیدر نقوی کی شاعری کلاسیکیت اور جدیدیت کی آمیزش سے تیار ہوتی ہے۔انہوں نے نہ تو شاعری کے صرف پرانے اور فرسودہ طریقے اختیار کیے اور نہ ہی ان سے یکسر انحراف کرکے ہوا میںمعلق ہوئے ۔بلکہ انہیں شاعری کی دیرینہ روایت سے واقفیت بھی ہے اور وابستگی بھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس میں جدت اور تازگی بھی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔وہ کلاسیکی شاعری کی عظمت کے قا ئل ہیں اور اس کی بازیافت کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ کلاسیکی مزاج کے شاعر ہیں۔نقوی جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے زمانے کے شاعر ہیں اور ان نظریات کا کچھ نہ کچھ اثران کی شاعری میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔دراصل نقوی نے ان سب سے کسب فیض تو کیا ہے مگر کسی کے ہمنوا نہیں ہوئے ہیں ۔موضوعات اور لفظیات کی سطح پر دیکھیں تو ان کی شاعری کلاسیکی رنگ میں ڈوبی ہوئی نظر آتی ہے لیکن اظہار اور پیشکش کے اعتبار سے بالکل جدید طرز کی شاعری لگتی ہے۔پرانی شراب کو نئے پیمانوں میں پیش ک کرنے کا ہنر بھی نقوی کا ایک نمایاں وصف ہے۔وہ خودایک جگہ لکھتے ہیں:
’’میں نے محسوس کیا ہے کہ ہم سب اپنے معاصرین اور اپنے اساتذہ کو دہراتے رہتے ہیں ،اور ہم پر یہ الزام اکثر لگا یا جاتا ہے ۔ دراصل زندگی کے اہم اور شدید تجربات اتنے پیچ دار ہوتے ہیں کہ ان کو محسوس کرنے کے لیے تخلیقی عمل میں شریک ہونا پڑتا ہے ۔ہم اسے دور سے محسوس نہیں کر سکتے۔شاعر خود یا کسی کو دہراتا نہیں بلکہ وہ مخصوص تجربے کے مختلف shadesکی طرف اشارہ کرتا ہے۔ہم سب چونکہ ایک ہی روایت کا حصہ ہیں لہذا ایک دوسرے کے خیال کی نقل کو اپنے زورِبیان، اظہارکی صورت اور اسلوب کے ذریعے اصل بنانے یا اپنانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔‘‘۷؎
مہتاب حیدر نقوی نے شعر گوئی میں کلاسیکیت اور جدیدیت کے حسین امتزاج سے ایسا رنگ ایجاد کیا جو ان کا خاصہ اور ان کی پہچان بن گیا ۔جدیدیت کے زمانے میں ہونے کے باوجود کلاسیکی لب و لہجہ اختیار کرنا جہاں شاعر کی آزاد روی پر دلالت کرتا ہے وہیں اس کی خود اعتمادی اور روایات سے وابستگی کی بھی دلیل ہے ۔مہتاب حیدر نقوی نے اپنی شاعری میں شعوری اور غیر شعوری طور پر یہ لب و لہجہ اختیار کیا ہے موضوعات و مضامین کی سطح پر بھی اور لفظیات کی سطح پر بھی۔بقول فرحت احساس:
’’شب آہنگ ۱۹۸۸ء میں چھپا تھا۔ اس کی بیشتر شاعری اس زمانے کی ہے جب اردو میں جدیدیت کا شوراور غبار رعونت کے آسمانوں پر ناچ رہا تھا ۔یہ مان لیا گیاتھا کہ جدیدیت کی مخصوص لفظیات و معاملات سے الگ چہرہ رکھنے والی تخلیقات ادب میں شمار ہونے کی مستحق ہی نہیں ۔شب آہنگ کے بیشتر اشعارجدیدیت کے اثرات سے حیرت انگیز طور پر نہ صرف پاک ہیں بلکہ ان میں جدید یا نیا ہونے کی کوئی خواہش یا کوشش ہی نظر نہیں آتی بلکہ جدید ہونے سے ایک نوع کی بیزاری اور عدم مناسبت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔‘‘ ۸؎
کلاسیکی رنگ و آہنگ کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
بات تو تب ہے کہ تو بھی ہو مقابل میرے جان من پھر تیرا خنجر میرا سرہے سب کچھ
شب فراق ازل سے ابد تلک پھیلی کوئی وصال کا موسم نہیں زمانے میں
ہجر کے موسم میں لذت وصل کی خواب ایسا تو کوئی دیکھا نہ تھا
یہ یاد ہے بچھڑے تھے کسی موڑ پہ تجھ سے پر کیا تھا جدائی کا سبب یاد نہیں
نقوی نے صرف موضوعات و مضامین ہی کی سطح پر نہیں بلکہ لفظیات بھی بیشتر کلاسیکی ہی استعمال کی ہیں ۔ان کی شاعری میں دشت ،صحرا ،شب ِفراق ،حلقہ زنجیر،رنگ و بو ،شوق، زلف ،جنوں ،ویرانہ ،حسرت ،وحشت ،ہجر، وصال، اہل جنوں، چاک گریباں وغیرہ الفاظ بکثرت استعمال ہوئے ہیں البتہ مہتاب حیدر نقوی نے یہ شعوری کوشش ضرور کی ہے کہ ان الفاظ کو نئے انداز سے،نئے معنی میں ، نئے تلازمات کے ساتھ اور سیاق و سباق کی ہلکی سی تبدیلی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ جس کی وجہ یہ تمام الفاظ کلاسیکی اور روایتی ہوتے ہوئے بھی جدّت ،انفرادیت اور تازگی کا احساس دلاتے ہیں اور معنی میں ایک نیا پن پیدا کرتے ہیں ۔
نقوی نے اپنی شاعری کی بنیاد ٹھوس اور مادی چیزوں کے بجائے خیالی اور سیّال چیزوں پر رکھی ہے ۔ خواب ،خیال ،سراب ،وحشت ،حیرت ،جنوں یاد ،تنہائی وغیرہ جیسی سیّال چیزوں پر ان کی شاعری کی عمارت کھڑی ہے۔ یہ الفاظ ان کی شاعری میںبکثرت استعمال اور مرکزی استعاروں کی حیثیت رکھتے ہیں ۔نقوی اپنی شاعری انہی کی تعبیر و جستجو اور ان کے پیچھے بھاگتے نظر آتے ہیں ۔ یہ گرچہ اردو شاعری کے روایتی اور مانوس الفاظ ہیں لیکن نقوی نے ان الفاظ کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے وہ معنوی وسعت و گہرائی بخشی ہے کہ بالکل نئے معلوم ہوتے ہیں ۔ ان الفاظ سے نقوی نے اپنی شاعری میں وہ ابہام اور پیچیدگی پیدا کی ہے جس کو سمجھنا کوئی آسان کام نہیں ۔یہ اشعار ملاحظہ ہوں :
کار جنوں میں اپنا کوئی دخل ہی نہیں صحرا اسی کا اور یہ وحشت اسی کی ہے
کچھ وسعت صحرا پہ ہی دل جھوم گیا تھا کچھ رنگ طرحدار تھے وحشت میں ہماری
خیال وخواب کے ویران منظروں کے سوا گھروں میں اور ہی رکھا ہے کیا دروں کے سوا
میرے خوابوں سے الگ میرے سرابوں سے جدا اس محبت میں کوئی وہم مگر ہے سب کچھ
نقوی صاحب کے ان اشعار کو پڑھ کر آدمی کی سمجھ میں کچھ آئے نہ آئے لیکن اس کے دل میں ایک ہلکی سی گدگدی اور ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ ضرور بکھر جاتی ہے اوروہ اپنی شاعری اورشعر و ادب سے بس یہی چاہتے بھی ہیں ۔ وہ شعر و ادب کی مقصدیت اور افادیت کے قائل نہیں بلکہ اس سے لطف و سرور اور فراغت کے اوقات میں تفریح طبع کا ایک سامان سمجھتے ہیں ۔نقوی کی شاعری خاص ہے اور خواص کے لیے ہے اسے سمجھنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی وہ عام آدمی کے لیے لکھی گئی شاعری ہے ۔وہ خود اپنے ایک مضمون ’’میں خالی ہوں مجھ کو کوئی کام دو ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ادب جمہور کے لیے نہیں ہوتااور نہ ادب میں جمہوریت کا کوئی مقام ہے‘۹؎‘
نقوی اپنی شاعری کے قارئین کا طبقہ متعین کرتے ہیں ۔ان کی شاعری کا قاری سماج کا اعلی،اشرف،مہذب ،تربیت یافتہ،ا دبی ذوق و شوق ،اورشعر و ادب کی روایات سے واقفیت رکھنے والا طبقہ ہے ۔ وہ عام آدمی کے لیے شعر نہیں کہتے اس لیے کہ آج کے زمانے میں عام آدمی کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ شعر و ادب پڑھے اور اس سے لطف حاصل کرے اسے تو دن رات محنت کر کے مشکل سے دو وقت کی روٹی نصیب ہو پاتی ہے ۔نقوی کی شاعری تو خواص اور ذوق و شوق رکھنے والے لوگوں کو بھی آسانی سے سمجھ نہیں آتی اس لیے کہ یہ سطحی شاعری نہیں بلکہ بہت گہرائی و گیرائی کی حامل شاعری ہے۔اس گہرائی و گیرائی کی طرف خود نقوی صاحب اپنے دوسرے مجموعے ’’ماورائے سخن ‘‘ کی پہلی غزل کے پہلے شعر میں اشارہ کرتے ہوئے اپنے قاری کو متوجہ کرتے ہیں کہ:
زمین دل جو دکھاتی ہے یوں ادائے سخ
کہ ہم کچھ اور ہی کہتے ہیں ماورائے سخن
نقوی کا یہی جمالیاتی نقطہ نظر ہے جس نے ان کی شاعری کو کسی فکر و فلسفے سے وابستہ نہیں ہونے دیا بلکہ اسے اپنے ذاتی دکھ درد ،خواب و سراب اور تجربات ومشاہدات کے بیان تک محدود رکھا ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے شاعری کی دوسری اصناف پر زیادہ طبع آزمائی نہ کی اس لیے کہ وہاں طبع ِسلیم اور منظم فکروفن کی ضرورت کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی پابندیاں ہوتی ہے جب کہ اس کے بر عکس غزل،جو نقوی کی پسندیدہ صنف ہے میں قدرے آزادی ہوتی ہے ۔انسان چلتے پھرتے کسی بھی لمحاتی کیفیت یا دلی جذبے سے متاثر ہو کرجو جی میں آیا دو مصرعوں کے پیکر میں ادا کر دیتا ہے ۔ نقوی کی شاعری کا زیادہ تر حصہ غزلیہ شاعری پر مشتمل ہے کیونکہ یہ ان کی پسندیدہ صنف ہے۔ خود اپنے ایک مضمون ’’میں خالی ہوں ،مجھ کو کوئی کام دو‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’’ادب کے مطالعے میں میری کچھ ترجیحات بھی ہیں ۔سارے کا سارا ادب نہیں پڑھتا ۔کچھ رد بھی کر دیتا ہوں مثلاًغزل پڑھتا ہوں ،رباعی اور قطعات بالکل نہیں پڑھتا ہوں ۔غزل اس لیے پڑھتا ہوں کہ اپنی روایت اور تہذیب سے وابستہ رہنے کو جی چاہتا ہے۔ اس کے استعاروں کے ذریعے اپنے ماضی اور اس کے وسیلے سے اپنے آپ سے ملاقات ہو جاتی ہے ۔رباعی اور قطعات اس لیے نہیں پڑھتا کہ یہ مفید ادب ہے ۔اس میں ادب کم اور پتے کی باتیں زیادہ ہوتی ہیں ۔‘‘۱۰؎
نقوی صاحب نے کچھ مختصر سی نظمیں بھی کہی ہیں لیکن ان کا اصل میدان اور پہچان غزل ہے ۔ ان کی نظموں میں بھی غزلیہ فضا اور غزلیہ رنگ و آہنگ نظر آتا ہے ۔جو نظمیں لکھی ہیں وہ بھی کسی بڑے اور خاص موضوع پر نہیں بلکہ خود اپنی ذات ،ذاتی کیفیات، تخلیقی عمل اور اپنے دوستوں کی یاد میں لکھ کر انہی کے نام منسوب کی ہیں ۔اپنے دوستوں سے انہیں بے پناہ محبت ہے ان کی یاد اکثرستاتی ہے چناچہ پرانی یادوں میں کھو کر اور ان کے ساتھ گزارے وقت کو یاد کرکے چھوٹی چھوٹی نظمیں لکھتے ہیں ۔اپنے اساتذہ پروفیسر شہریار،خلیل الرحمن اعظمی ،اور دوستوں میںابو الکلام قاسمی، فرحت احساس ،آشفتہ چنگیزی و غیرہ کی یادیں ان کے دل و دماغ پر نقش ہیں اور کبھی کبھی تخلیقی عمل سے گزر کر شعری صورت میں نمودارہوتی ہیں ۔ ان نظموں میں بھی کسی فکر و فلسفے کی تلاش کارِعبث ہے البتہ یہ نظمیں بھی تخلیق کا ایک اعلی نمونہ پیش کرتی ہیں ۔
حوالہ جات:
۱۔نیا شعری احساس از مہتاب حیدر نقوی ص۱۸
۲۔رسالہ شعروحکمت ،کتاب ۹ دوم سوم، ص ۲۴۱
۳۔ایضاً ص۲۳۶
۴۔ایضاً۲۲۶۔۲۲۷
۵۔حرف آغاز ،ماورائے سخن از مہتاب حیدر نقوی ص ۱۱
۶۔رسالہ شعروحکمت ،کتاب ۹ دوم سوم، ص۲۰۷
۷۔نیا شعری احساس از مہتاب حیدر نقوی ص۲۰
۸۔رسالہ شعروحکمت ،کتاب ۹ دوم سوم، ص۲۲۲
۹۔نیا شعری احساس از مہتاب حیدر نقوی ص۱۵
۱۰۔ایضاً ص۱۴
****
Leave a Reply
Be the First to Comment!