علامہ اقبالؔ کی شاعری میں آفاقی پیغام 

عرفان رشید 

ریسرچ اسکالرشعبہ اردو،یونی ورسٹی آف کشمیر ، کشمیر 

  

(Allama Iqbal ki Shayeri mein Aafaqi Paigham by Irfan Rasheed)  

جب بھی کوئی قوم جمود و تعطل کا شکار ہوجاتی ہے تو اُسے خواب ِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی مسیحاضرور جنم لیتاہے اقبال ؔنے جب ہوش سنبھالااُس وقت پورا ایشیاء فکری اور عملی جمود سے جھوج رہاتھا ۔ علامہ نے شاعری کو وسیلہ اظہار بناکر اس جمود کو توڑ ڈالنے کی کامیاب کوشش کی ۔انہوں نے اردو شاعری کو ایک نئی فکر اور موضوعاتی تنوع سے آشناکیا ۔ ان سے پہلے اردو ادب میں روایتی موضوعات اور اظہارو بیان میں جکڑا ہوا تھاجسے غالب نے طنزاً محمد شاہی روش سے موسوم کیا ہے ۔ علامہ نے اس سنگلاخ زمین میں نئی سوچ اور فکر کے پھول کھلائے۔ ۔اقبال نے حب الالوطنی ، قوم پرستی ، مرد مومن، عشق ، خودی ،شاہین جیسی جدید اصطلاحات اور نظریات سے اردو ادب کو نئی توانائی عطا کی ۔انہوں نے احتجاجی فکر سے مغرب پر کاری ضرب لگادی اور اپنے نئے تصورات کی طرف تمام عالم ِمفکرین کو متوجہ کیا کیونکہ اُن کے افکار میں موجود آفاقیت ایک عالم کو متاثر کر رہی تھی۔ 

۲۰ویں صدی پوری دنیا میں نئے ہنگامے اور نئے انقلابات لے کر آئی ۔ دنیا کے سیاسی نقشے میں کئی ردوبدل ہوئے اور دنیا نے پہلی جنگ عظیم کا بھی سامنا کیا ۔ اس دور میں برصغیر بھی نئی تبدیلیوں سے ہمکنار ہو ا اور ان تغیرات و تبدیلیوں کے چلتے ہر طرف نفسانفسی کا عالم تھا۔ اِس دور میں علامہؔ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ان رویوں کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی اور انسان کی بے بسی خاص طور پر مسلمانوں کی کسمپرسی اور جہالت و گمراہی کو دور کرنے کے لیے فلسفہ خودی ، عشق و عقل ، مرد مومن ،حرکت و عمل جیسے آفاقی افکار و تصورات پیش کیے علامہ نے قرآن مجید اور احادیث نبوی ﷺ کی روشنی میں امت مسلمہ کے مسائل کا حل تلاش کیااوردین کی ایک نئی تعبیر پیش کی۔علامہ عالمی سطح پر سامنے آنے والی نئی تحریکات و رجحانات سے پور ی طرح واقف تھے ۔اقتصادیات ، جمہوریت ، اشتراکیت، شہنشاہیت ، غرض ہر طرزحکومت کا انہوں نے بغور مطالعہ و مشاہدہ کیا تھا۔یہی نہیں اُن کی قدیم یونانی فلسفہ پر بھی گہری نظر تھی اور اس عمیق مطالعہ و مشاہدہ سے ان کی شاعری میں وہ آفاقیت پیدا ہوگئی ہے کہ عصر حاضر میں ان کے افکار و خیالات کو دانش کدوںمیں نئے نئے زایوں سے سمجھنے اور پرکھنے کی کوششیں جاری و ساری ہیں۔ ان کے نبیادی تصورات کی معنویت پر زمانے کی تبدیلی اثر انداز نہیں ہورہی ہے ۔اقبال کوکسی زبان ،قوم یا فرقے تک محدود رکھنا اُن کی ذات پر ظلم ہوگا کیونکہ ان کا کلام اس بات کا گواہ ہے کہ اس میں معنی کی تکثیریت اوتہہ داری ہیں جس سے کوئی بھی انسان بلالحاظِ مذہب و ملت اپنا راستہ متعین اور ہموار کرسکتا ہے ۔چند اشعار ملاحظہ کیجئے جن میں آفاقیت ہے کا پہلو قوی تر ہے ؎ 

آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا  

منزل یہی کھٹن ہے قوموں کی زندگی میں  

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا  

تیرے سامنے آسماں اور بھی ہے  

اقبال نے ’’ شاہین ‘‘کا استعارہ نوجواں نسل کو اپنے پیغام کی طرف مائل کرنے کی غرض سے استعمال کیا ہے۔ علامہ نے سب سے زیادہ جس طبقے کو اپنی شاعر ی میں مخاطب کیا ہے وہ نوجوان ہی ہیں۔اُن کی دنیا کی تاریخ پر گہری نظر تھی اور وہ ا س بات پر یقین رکھتے تھے کہ قوموں کی تقدیر انہی جوانوںکے دم سے ہی بدلتی ہے ۔اسی لیے وہ بار بار اپنی قوم کی نوجواں نسل سے خطاب کرتے ہیں :  

کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے ؟ 

وہ کیا گردوں تھا توجس کا ہے ایک ٹوٹا ہوا تارا ؟  

اپنی ملت پر قیاس اقوام ِ مغرب سے نہ کر  

خاص ہے ترکیب میں قوم ِ رسول ِ ہاشمی ﷺ 

اقبال کا ’’مرد مومن‘‘ایسا شخص ہو ہی نہیں سکتا جو معرکہ حیات میں لرزہ براندام ہو جائے اور عمل سے اس کے پائے استقلال میں لغزش آجائے ۔اقبال کے مرد مومن اور نطشے کے سپر مین میں یہی فرق ہے کہ نطشے کا سپر مین صاحبِ غرو ر و گھمنڈہے اور خدا کا منکر ہے لیکن مرد مومن اللہ کا منکر نہیں بلکہ وہ محبت و اخوت کا مجسم ہے اور مساوات کا عملبردار ہے اور غرور و تکبر سے بے نیاز ہے ۔ مرد مومن کے حوالے سے پروفیسر سید افضل امام لکھتے ہیں ـ: 

’’اقبال کا مرد مومن اس قدر جانباز ہے کہ بغیر تیغ بھی لٹر تا ہے۔ اسے کسی عصا کی ضرورت نہیں ۔ شب ِ ہجرت ،دشمنوں کے محاصرہ میں تلواروں کے سائے میں سوتا ہے مگر کوئی تلوار باندھنے کی ضرورت نہیں محسوس کرتا ہے ۔‘‘ ۱؎  

اقبال کی نظر میں عشق وہ ناقابل تسخیر قوت ہے جو غلاموں کو بھی خو د آگاہی کی دولت عطا کرکے ان پر اسرار شہنشاہی آشکار کر دیتی ہے :  

جب عشق سکھا تا آداب خود آگاہی  

کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی  

اقبال کے افکار میں فلسفہ خودی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔اس کے توسط سے علامہ نے انسان کواپنی ذات کے بارے میں سوچنے کی ترغیب دی ہے حالانکہ کئی مفکروں نے ان کی اس فلسفیانہ کوشش کو مغرب کے دانشوروں کی فکر سے جوڑنے کی کوشش کی ہے جس کی انہوں نے مثنوی ’’رموز بے خودی ‘‘ میں سختی سے تردید فرمائی ہے ۔خودی اصل میںانسانی ذات یا شخصیت کے ہم معنی ہے ،انسان نوری بھی ہے اور ناری بھی۔ جسم کے علاوہ انسان میں وہ شئے بھی مو جود ہے جس کو ہم اس کی ذات سے تعبیر کرسکتے ہیں یعنی وہ شئے جسے ہم ’’میں ‘‘ کے معنی سے موسوم کرسکتے ہیں ۔اسی کو انسانی ذات یا انا اور شخصیت کے الفاظ سے موسوم کیا جاتا ہے ۔گو کہ انسانی جسم سے خودی ماورا ہے لیکن اس کے بغیر اس کی ماورائیت کوئی معنی نہیں رکھتی ۔جس طرح جسم کو تندرست رکھنے کے لئے صحت مند کھانے کی ضرورت ہے اسی طرح خودی یعنی نفس کوصحت مند رکھنے کی اپنی لوزمات ہیں جنہیں قرآن مجید نے متعین کر کے رکھا ہے ۔ اس سے اس بات کی طرف بھی اشارہ ملتاہے کہ ’’خودی ‘‘ کے تصور کا ماخذ قرآن کریم ہیں : 

خودی کا سر نہاں لاالہ الا اللہ  

خودی ہے تیغ فساں لاالہ الا اللہ 

علامہ نے اپنے تصورات سے پورے برصغیر کو ہشیار و بیدار کردیا۔ انہیں ’’شاعر مشرق ‘‘ کا لقب اس لیے ملا ہے کہ انہوں نے مشرقی افکار و خیالات کی بھر پورترجمانی کی ۔ اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ۲۰ویں صدی کے شاعر کو ہم ۲۱ صدی میں کیوں پڑھیںیا اس کی عصری معنویت کیا ہے ؟ تو اس جواب میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مذکورہ تھیوری میں موجود ایک concept “every reading is miss reading” کے حوالے سے علامہ کی شاعری آفاقی نوعیت کی ہیں جس کی ہر قراتء کے بعد قاری کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ایک نیا معنی ہر بار سامنے آرہاہے ۔یہی ایک شاعر یا ادیب کے فن پارے کی کامیابی کا راز ہے کہ ہر بار اس کے متن سے نت نئے معنی سامنے آتے رہیں اور یوں ہر زمانے میں علم و ادب کے شیدائیوں کی پیاس بجھتی رہے ۔علامہ اقبال کے آفاقی پیغام پر عمل پیرا ہونے کے لیے عربی کے معروف مفکر عبد الوہاب عزام بک جس نے ’’پیام مشرق ‘‘ کو عربی جامع پہنایا ہے اپنے ایک مضمون ’’اقبال کا پیغام ‘‘ میں یوں رقمطراز ہیں :  

’’مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اقبال کے پیغام کی عظمت کا احترام کریں ، اس کے پیش کردہ طریق کو اپنا آئین بنائیں ، اس کی دعوت پر لبیک کہیں اور اس کے کلام کو اسلامی اور غیر اسلامی زبانوں میں شایع کریں ۔‘‘ ۲؎ 

مزکورہ اقتباس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ شاعر مشرق سے اپنے کلام سے نہ صرف اس وقت کے لوگوں کو جگانے کی کوشش کی ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی انہوں نے ایک راستہ ہموار کیا ہے ۔ 

حوالہ جات :  

۱: پروفیسر سید افضل امام ، ’’علامہ اقبال کی اساس ِ فکر ‘‘ ساہتہ بھنڈار چاہ چند ، الہ آباد ، ۲۰۰۶ء ، ص ۱۳ 

۲: عبد الوہاب عزام بک، علامہ کا پیغام ، مشمولہ ’علامہ اقبال : حیات ،فکر و فن ‘ مرتب ڈاکٹر سلیم اختر ،سنگ میل پبلی کتشنز ،لاہور ،۲۰۰۳ء ، ص ۸۹۲ 

٭٭٭٭ 

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.