کرشن چندرکا فکشن:ایک جائزہ 

معین الدین 

ریسرچ اسکالر ، شعبہ اردو  

خواجہ معین الدین لسان یونی ورسٹی(اردو عربی فارسی یونی ورسٹی سابق)لکھنؤ 

  (Krishn Chand ka Fiction … by Moinuddin)  

    

کرشن چندر اردو فکشن کی ممتاز شخصیت ہیں۔ جس میں ان کی افسانہ نگا ر ی اورناول نگاری ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ چونکہ کرشن چندر نے پنجاب اور کشمیر کی آب و ہوا میں ہوش سنبھالا اس لئے ان کے اکثر افسانوں اور ناولوں میں رومانیت کا عنصر زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔  لیکن دھیرے دھیرے جب ان کے ذہن نے پختگی اختیار کی اور سماجی معاملات سے ان کا سابقہ پڑا تو تحریری لہجے میں بھی تبدیلی دیکھنے کو ملی اور اس میں حقیقت پسندی کے ساتھ ساتھ طنز کا عنصر بھی شامل ہوتا چلا گیا۔کرشن چندر کی تحریریں لاجواب اور عام لوگوں سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں اس لئے ان کو پڑھتے ہوئے کبھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ 

کرشن چند رنے مختلف اصناف ادب کو اپنی توجہ کامرکز بنایا۔ انہوں نے افسانہ، ناول، ڈرامہ اور رپوتاژ کے دوش بدوش طنز ومزاح کو بھی اپنے فن کاحصہ بنایا۔ کرشن چندر کی اصل شناخت اور پہچان اردو فکشن نگار کی حیثیت سے ہوئی۔ کرشن چندر صرف تخلیق کار ہی نہ تھے بلکہ مفکر ودانشور بھی تھے، اشتراکیت کے علمبردار بھی تھے، انجمن ترقی پسند مصنّفین کے ایک اہم رکن اور جنرل سکریٹری بھی تھے۔ انہوں نے ترقی پسند تحریک کے لئے بہت کچھ لکھا۔ ترقی پسند تحریک کااثر ان کے ناولوں اور افسانوں میں صاف طور پر دیکھا جاسکتاہے۔  

ان کے ناولوں میں ان کے عہد کے مختلف سماجی، سیاسی، اقتصادی مسائل کاعکس اور اس کاشعور دیکھنے کو ملتاہے۔ ایک ناول نگار کی حیثیت سے پریم چندر کے بعد شاید ہی کوئی ان کی شہر ت کاہم پلہ ہو۔ کرشن چندر عوام دوست اور مظلومین کے مسیحا اور ظلم وناانصافی  کے دشمن تھے۔ انہوں نے اس دور کے معاشی، سیاسی اور سماجی صورت حال کی خامیوں، مثلاً بیجا رسم و روایات کے ساتھ ساتھ مذہبی تعصبات، آمرانہ نظام اور تیزی سے اْبھرتے ہوئے دولت مند طبقہ کے منفی رویے وغیرہ جیسے موضوعات کو بھی اپنی تخلیقات میں شامل کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آخر میں تحریر کئے گئے ان کے زیادہ تر افسانوں میں زندگی کے اعلیٰ معیار اور اس کے اقدار پر بحث کی گئی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ انہیں پڑھنے اور پسند کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان کی کئی تخلیقات  مثلاً ’کالو بھنگی‘، ’مہالکشمی کا پل‘ اور ’ایک گدھے کی سرگزشت‘ وغیرہ قارئین کے ذہن میں اچھی خاصی جگہ بنا لیتی ہیں اور بار بار پڑھے جانے کے باوجود انہیں دوبارہ پڑھنے کے لئے مجبور کرتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو ان تخلیقات نے لازوال شکل اختیار کر لی ہے۔ کرشن چندر اپنے ہمعصر افسانہ نگاروں میں کافی مختلف تھے۔ کرشن چندر کو زبان اردو پر جو عبور حاصل تھا وہ شاید دوسروں کا مقدر نہیں۔ ان کی خوبصورت زبان قاری کو آغاز میں ہی اپنے قبضے میں لے لیتی ہے اور افسانہ کے آخر تک اس سے باہر نکلنے کا موقع نہیں دیتی۔کرشن چندر نے اپنے تقریباً چالیس سالہ ادبی سفرمیں تین سو سے زیادہ افسانے ، پینتالیس ناول، کئی ریڈیائی ڈرامے، اسٹیج  ڈرامے، بچوں کاادب، طنزیہ ومزاحیہ افسانے اور ناول لکھے ہیں۔ 

کرشن چندر کی خوبیوں کے معترف اردو کے معروف ناقد گوپی چند نارنگ بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ: 

’’سعادت حسن منٹو  یاراجندر سنگھ بیدی اردو تنقید کے لئے اس طرح سوالیہ نشان نہیں ہیں جس طرح کرشن چندر اردو تنقید کے لئے سوالیہ نشان ہیں۔ اردو کی افسانوی روایت کا یہ وہ منطقہ ہے جس کی تعیین قدر کے بارے میں بحث و تمحیص جاری رہے گی اور برابر لکھا جاتا ر ہے گا‘‘(کرشن چندر شخصیت اور فن:  صفحہ۱۳)۔ 

کرشن چندر کے افسانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بلامبالغہ اس بات کا اعتراف کیا جا سکتا ہے کہ وہ نہ صرف محبت کے جذبہ اور احساس کو پورے انہماک اور حساسیت کے ساتھ اپنی کہانیوں میں پیش کرتے تھے بلکہ سماجی برائیوں کو بھی انتہائی کامیابی کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھتے تھے۔ وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے اور اسی لئے عام انسان کے حقوق کی بات کرتے تھے۔ ان کے دل میں امیروں کے تئیں بغاوت اور بدلے کا جذبہ تھا۔ 

ابتدائی دور میں کرشن چندر کے افسانے رومانیت زدہ نظرآتے ہیں، جس میں وہ حسن و عشق کی داستان اپنے حسین اور دلچسپ انداز میں بیان کرتے ہیں۔ لیکن جوں جوں ان کا سماجی شعور بیدار ہوتا گیا ، وہ رومانیت سے قدرے دور ہو تے ہوئے حقیقت نگاری اور زندگی اور اس کے اسرار و رموز کو اپنے تمام تر احساسات و جذبات کے ساتھ فن کی بھٹی میں تپاکر افسانوی قالب میں پیش کرنے لگے۔کرشن چندر کے ساتھ اردو افسانہ رومانیت کے چنگل سے نکلا اورحقیقت نگاری کی حدود میں داخل ہوا۔اس نئی روایت میں رنگی ہوئی ان کی حقیقت نگاری پورے عہد کو اپنے ساتھ بہا لے گئی۔ 

کرشن چندر کی فکشن نگاری کا زمانہ۶ ۱۹۳ء؁ کے ابتدائی دور سے شروع ہوتا ہے پھر۷ ۱۹۴ء؁ کے فسادات ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اردو افسانہ اس طرز احساس اور اسلوب بیان سے اکتا کر نئے رجحانات سے آشنا ہوتا نظر آتا ہے۔مگر سچی بات یہ ہے کہ اردو افسانے میں نئے رجحانات اور نئے اسالیب کے عمل دخل کے باوجود کرشن چندر کے رنگ میں لکھا جانے والا افسانہ آج بھی اثر رکھتا ہے۔ کرشن چندر کی رومانیت اپنے عہد کے مزاج سے نکلی تھی۔ مگر انہوں نے اپنے زور تخلیق سے اس میں اتنی توانائی پیدا کی کہ وہ اگلے عہد تک چلی اور اس پر اثر انداز ہوئی۔ انہوں نے ’’بالکونی‘ دل کسی کا دوست نہیں ، نغمے کی موت ، گل دان، چینی پنکھا، پالنا، جہلم میں ناؤ پر، سرخ پھول میں، اور گرجن کی ایک شام ‘‘ وغیرہ جیسے افسانے لکھے ، جن میں ان کا جمالیاتی حِس اور رومانیت پوری طرح نظر آتی ہے۔ کرشن چندر کی تصنیفات ہندوستانی ادب کے لئے ایک خاص اہمیت رکھتی ہیں ، عہدحاضر میں بھی ان کی کہانیاں قاری کو ترغیب دینے کا کام انجام د ے رہی ہیں ۔ 

کرشن چندر پر ان کے زمانے سے لیکر آج تک لکھا جارہا ہے اور ان پر بہت سارا تحقیقی کام بھی ہوچکاہے۔ بہت سے نقادوں نے کرشن چندر کے فکر و فن پر معیاری اور طویل مضامین لکھے اور کرشن چندر کی حیثیت کو متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ بہت سے لکھنے والوں نے کرشن چندر کاشمار رومانیت پسند افسانہ نگاروں میں کیا اور اسی کو ان کی سب سے بڑی خصوصیت بتایاہے۔ تو کسی نے ان کو حقیقت پسند افسانہ نگار کہا۔ کیونکہ ان کے افسانوں میں حقیقت نگاری بھی نظرآتی ہے۔ کرشن چندر کے ناقدین ان کواپنی اپنی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ کرشن چندر کے فکری اور فنی محرکات اور شخصیت پر اچھا خاصہ لکھا جاچکاہے  اور لکھاجارہاہے۔ کچھ رسائل نے خصوصی شمارے اور گوشے ترتیب دیئے  جن میں چند معروف ادیبوںکے نام اس طرح ہیںجگدیش چندر ودھاون کی ـ’’کرشن چندر شخصیت اور فن‘‘،پروفیسر سید شفیق احمد اشرفی کی’’کرشن چندر شناسی: ناولوں اور دیگر تحریروں کی روشنی میںــ‘‘ڈاکٹرمہ جبیں انجم کی ــ’’کرشن چندر کی ناول نگاری اور نسائی کردار‘‘،ڈاکٹرعبد السلیم کی ــ’’کرشن چندر کی افسانہ نگاری‘‘، ڈاکٹرانور شفیق اعظمی کی ’’کرشن چندر کے ناولوں میں سماجی شعور‘‘،پروفیسر علی احمد فاطمی کی’’کرشن چندر فکر وفن ،ڈاکٹرعبدالسلام صدیقی کی’’ کرشن چندر کے ناولوں کاتنقیدی مطالعہ(سیاسی اور سماجی پس منظرمیں)‘‘،ڈاکٹرفخرالکریم کی مرتب شدہ ’’کرشن چندر افکار ونظریات ‘‘،محمدا ویس قرنی کی ’’کرشن چندر کی ذہنی تشکیل‘‘،محمدغیاث الدین کی ’’کرشن چندر کے افسانوں کاتنقیدی جائزہ‘‘، ڈاکٹراطہرپرویز کی ’’کرشن چندر اور ان کے افسانے‘‘، جیلانی بانو کی ’’کرشن چندر ہندوستانی ادب کے معمار‘‘وغیرہ جو دستاویزکی حیثیت رکھتے ہیں۔ان سب کے علاوہ دیگر بہت سے تنقید نگاروں نے اپنی فکر ونظر سے کرشن چندر کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ 

جگدیش چندر ودھاون نے ’کرشن چندر شخصیت اور فن‘ کے عنوان سے کرشن چندر کی شخصیت کے حوالے سے ایک ضخیم اور معنی خیز کتاب لکھی ہے جس میں انہوںنے کرشن چندر کی ہمہ جہت شخصیت پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے ان کی زندگی کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی انہوںنے اس کتاب میں کرشن چندر کے فن کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی ہے اور ان کے بعض اہم نگارشات پر ناقدانہ بحث بھی کی ہے۔کرشن چندر کی شخصیت کے تحت انہوںنے کرشن چندر کی حسن پرستی، عاشق مزاجی اور سلمیٰ صدیقی سے شادی کا بھی ذکر کیا ہے، ایک مخلص شوہر اور شفیق باپ کے طورپر ان کے کردار کی نقاب کشائی کی ہے، ایک بے بدل دوست، بے مثل مہمان نواز کے بطور ان کی شخصیت پر روشنی ڈالی ہے، ان کی فلسفیانہ زندگی، فلسفیانہ خیالات اور دوسرے ادیبوں کے تئیں انکے دل میں موجود نرم گوشے کے سلسلے میں بھی انہوںنے بہت کچھ لکھا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوںنے کرشن چندرکی مقبولیت، سیاسی مسلک ، مذہب کے بارے میں بھی تفصیلی گفتگو کی ہے۔کرشن چندرکے فن پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے جگدیش چندر ودھاون رقم طراز ہیں: 

’’کرشن چندر اردو کے انتہائی مقبول اور معروف افسانہ نگار تھے ۔ ان کو جوشہرت اور ناموری ملی و ہ اردو کے کسی دیگرادیب کے حصے میں نہیں آئی۔ منٹو اور بیدی ان کے ہم عصر اور ادبی لحاظ سے ان کے ہم پایہ افسانہ نگار تھے لیکن ان کو وہ شہرت نصیب نہ ہوئی، جو کرشن چندر کامقدر ٹھہری۔ اسے سعادتِ خداوندی یا فضل ربانی ہی کہاجا سکتاہے۔ کرشن چندر کے افسانوں کوصرف اردو دان اور ہندی دان طبقوں میں مقبولیت حاصل نہیں بلکہ ان کے فن کے پرستار بلالحاظ زبان برصغیر کے ہرخطے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تصانیف کے تراجم ہندوستان کی قریب قریب تمام زبانوں مثلاً گجراتی، بنگالی، اڑیا، آسامی، کشمیری، پنجابی، تامل، تیلگو وغیرہ میں ہوئے اور بے حد سراہے گئے‘‘۔(کرشن چندر شخصیت اور فن:صفحہ ۲۵۶) 

   اس کے علاوہ انہوںنے کرشن چندر کی رومانی حقیقت نگاری، کردار نگاری، ان کے شاہکار افسانوں، فرقہ وارانہ فسادات کے دوران لکھی گئی تحریروں، ناول نگار ی اور طنزومزاح پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ 

پروفیسر سید شفیق احمد اشرفی نے اپنی کتاب ’کرشن چندر شناسی‘ میں کرشن چندر کی شخصیت اور فن کے مختلف گوشوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ پروفیسرسید شفیق احمد اشرفی نے اپنی کتاب میں ترقی پسند تحریک، کرشن چندر کے نظریات وموضوعات پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ کرشن چندرکے اہم ناولوں جیسے شکست، جب کھیت جاگے، باون پتے، ایک عورت ہزار دیوانے، آسمان روشن ہے اور دادر پل کے بچے پر تفصیلی بحث کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوںنے کرشن چندرکے ناولوںکااجمالی جائزہ لیاہے۔  

کرشن چندرکے نظریات وموضوعات کے تعلق سے پروفیسر سید شفیق احمد اشرفی لکھتے ہیں: 

’’کرشن چندر مارکسی نظریات کے قائل ہیں۔ انہوںنے اپنے ناولوں میںانہیں نظریات کوپیش کیاہے ۔ جس وقت کرشن چندر نے ادبی دنیا میںقدم رکھا، اس وقت دنیا ایک نئے انقلاب سے دوچار ہورہی تھی۔ انقلاب روس کے اثرات دیگر ممالک پر بھی پڑنے لگے تھے۔ جنگ کی وجہ سے دنیا کی اقتصادی حالت بگڑتی جارہی تھی۔ افراط زر کی وجہ سے طبقاتی کشمکش بڑھتی جارہی تھی۔ محنت کش طبقے میں جاگیردارانہ نظام اور سرمایہ داری کی مخالفت بڑھنے لگی تھی۔۔۔ 

ترقی پسند ہوتے ہوئے بھی وہ اشتراکیت کوانسانی معاشرے کی ترقی کی معراج نہیں سمجھتے۔ بلکہ ان کے خیال میں یہ صرف ایک ذریعہ ہے کیونکہ اقتصادی مسائل اور سماجی کشمکش سے لڑنے کے لئے اشتراکیت سب سے بڑا حربہ ہے۔ ان کے خیال میں انقلاب لانے سے پہلے عوام کو بیدار کرنا پڑے گا۔ ان کوان کے حقوق وفرائض سے روشناس کرائے بغیر اقتصادی انقلاب آنامشکل ہے اور جب تک اشتراکی اور اقتصادی انقلاب نہیں آئے گا اس وقت تک دنیا میں امن قائم ہونامشکل ہے‘‘۔ )کرشن چندر شناسی: ناولوں اور دیگر تحریروں کی روشنی میں :صفحہ ۳۰-۳۱) 

’’کرشن چندر فکروفن ‘‘پروفیسر علی احمد فاطمی کی ایک نادر تصنیف ہے جو انجمن ترقی اردو ہند کی جانب سے کرشن چندر کی صدی تقریبات کے موقع پر شائع کی گئی ہے۔ اس کتاب میں کرشن چندر کا فکری ارتقاء، رومان حقیقت، ان کے رپوتاژ،  ان کی شاہکار تصنیف شکست، اردو کے پہلے اشتراکی ناول جب کھیت جاگے، بھگت رام اور آدھے گھنٹے کاخدا کاتجزیہ، کے علاوہ پروفیسر بیگ احساس کی کتاب کاتجزیہ بھی شامل ہے۔ ان کے بقول : 

’’کرشن چندر کو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ مشکل کہانیاں لکھنا آسان ہے اور آسان کہانی لکھنا زیادہ مشکل کام ہے۔ کرشن چندر کو پڑھ کر فطرت کے رازہائے پنہاں کسی حد تک آشکار ہوئے اور یہ احساس ہوا کہ فطرت صرف لطف لینے کی چیز نہیں بلکہ درس لینے کی بھی چیز ہے۔ رومان صرف جسم و جنس نہیں بلکہ احترام آدمیت بھی ہے۔ حقیقت صرف وہی نہیں ہوتی جو ظاہری سطح پر دکھائی دے، پیچیدہ حقیقت اور سفاک حقیقت کو کس حد تک آسان اور لطیف بنایا جاسکتاہے ۔ پرتیں کھلتی گئیں جہتیں آشکار ہوتی گئیں اور کرشن چندر عام افسانہ نگار کی صف سے اٹھ کر عظیم فنکار کے روپ میں سامنے آتے گئے‘‘۔)کرشن چندر فکر وفن :صفحہ ۱۱-۱۲) 

ڈاکٹرانورشفیق اعظمی نے اپنی کتاب ،جودراصل ان کا تحقیقی مقالہ ہے،’’کرشن چندر کے ناولوں میں سماجی شعور‘‘ کے ذریعہ کرشن چندر کی تحریروں میں دیہی زندگی کے مسائل، خواتین کے مسائل ،ہندوستانی سماج کی معاشی اور اقتصادی صورتحال کی عکاسی، طبقاتی کشمکش  نیز قومی ہم آہنگی کے مسائل پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: 

’’یہ ـصحیح ہے کہ کرشن چندر کے ناول فنی اعتبار سے کمزور ہیں اور حقیقت کے برعکس تخیلی باتیں مبالغہ آرائی اور خلاف قیاس واقعات کی تفصیل ان کے کسی نہ کسی ناول میں کہیں نہ کہیں ضرور مل جاتی ہے۔ لیکن جہاںتک سماجی مسائل کی عکاسی کاسوال ہے، کرشن چندر اس معاملہ میں اردو کے کسی بھی بڑ ے ناول نگار سے پیچھے نہیں ہیں بلکہ اردو ناول نگاری میںسماجی مسائل کی پیش کش کے اعتبار سے کرشن چندر نے بہت بڑاکارنامہ انجام دیا ہے۔ انہوںنے اپنے تما م ہی ناولوں میں سماج کے چھوٹے بڑے  مسائل کوپیش کرتے ہوئے بڑی حقیقت شعارانہ فنکاری سے کام لیاہے ۔ ان کے اکثرناول سماجی زندگی کے مکمل ترجمان ہیں۔ انہوںنے تقریباً اپنے ہرناول میں کسی نہ کسی زاوئیے سے معاشرتی حالات کی عکاسی ضرور کی ہے۔ انہوںنے اپنے ناولوں میں ہر طبقے کے لوگوں کی معاشی اور اقتصادی بدحالی کانقشہ کھینچاہے اور اس کے اسباب کی نشاندہی بھی کی ہے‘‘۔) کرشن چندر کے ناولوں میں سماجی شعور:صفحہ ۳۲۱-۳۲۲) 

ڈاکٹرانور شفیق اعظمی نے بڑی عرق ریزی اور جانفشانی کے ساتھ ان کے گہرے سماجی شعور کو ناولوں میں تلاش کیا ہے۔ ان کے ناولوں کے سبھی کرداروںکاتفصیلی جائزہ لیا ہے جو ہرطبقہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مصنف نے تمام تر تعصبات سے بالاتر ہوکر کرشن چندر کے سرمایہ ادب کو از سرنودریافت کرنے میں بیش بہا سرمائے کااضافہ کیاہے جو اس سمت میں ہورہے تحقیقی وتنقیدی کاموں میں معاون ثابت ہوگا۔ 

منٹو، عصمت اور بیدی کو پڑھنے اور سراہنے والی نسل کرشن چندر کو بھی فراموش نہیں کر سکتی، بلکہ اِن تینوں ساتھیوں کے مقابل کرشن چندر اس لحاظ سے منفرد رہیں کہ انھیں ایک نیم خواندہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ تک یکساں دلچسپی سے پڑھ سکتا ہے۔ پنواڑی سے پروفیسر تک کے قارئین کی یہ رینج شاید اردو کے کسی اور فکشن نگار کو نصیب نہیں ہوئی۔ 

کرشن چندر نے چالیس برس تک مسلسل اور بِلا تکان لکھا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ناقدین نے جتنا زورِ قلم اُس دور کے دیگر افسانہ نگاروں پر لگایا ہے، کرشن چندر کے حصے میں اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں آیا، اور جس طرح منٹو اور بیدی کی کلیات چھپ کر منظرِ عام پر آئی ہیں۔ کرشن چندر کی کہانیاں ہمیں اس طرح یکجا نہیں ملتیں۔ 

کرشن چندر کی ادبی پرورش لاہور میں ہوئی اور اردو زبان میں ہوئی۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ سرحد پار چلے گئے تو وہاں بھی اردو کا چلن تھا اورا ردو پڑھنے والوں کی ایک کثیر تعداد وہاں آباد تھی۔ آہستہ آہستہ جب وہاں اردو کا اثر و رسوخ کم ہوا تو کرشن چندر کو بھی ہندی میں لکھنا پڑا اور انگریزی کا سہارا بھی لینا پڑا۔ 

  

کتابیات: 

.1     کرشن چندر شخصیت اور فن،جگدیش چندر ودھاون، کتابی دنیا، نئی دہلی، ۲۰۰۳  

          .2  کرشن چندر شناسی: ناولوں اور دیگر تحریروں کی روشنی میں ،پروفیسر سید شفیق احمد اشرفی، ایم آر پبلی کیشنز، نئی دہلی، ۲۰۱۸ 

   .3          کرشن چندر فکر وفن ،علی احمد فاطمی،انجمن ترقی اردو(ہند)،نئی دہلی، ۲۰۱۴ 

؁       .4          کرشن چندر کے ناولوں میں سماجی شعور،ڈاکٹرانور شفیق اعظمی،جید پریس،بلیماران،دہلی۔۶، ۲۰۱۳                 

      5  .       کرشن چندر ہندوستانی ادب کے معمار،جیلانی بانو،ساہیہ اکادمی، نئی دہلی،۱۹۹۲ء؁   

       .6        کرشن چندر افکار ونظریات ،مرتبہ ڈاکٹرفخرالکریم ،ایجوکیشنل فورم، الہ آباد، ۲۰۱۵ء؁ 

       .7       کرشن چندر کی ذہنی تشکیل،محمد اویس قرنی، آہنگ ادب،پیشاور، ۲۰۱۲ء؁ 

٭٭٭ 

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.