محمد علی جو ہر عظیم صحافی اور بانی ٔ جامعہ ملیہ اسلامیہ 

محمد وسیم  

ریسرچ اسکا لر  

شعبۂ اردو ،جامعہ ملیہ اسلا میہ ،نئی دہلی 

  

(Mohammad Ali Jauhar….. by Mohammad Waseem) 

محمد علی جو ہر کی عظیم شخصیت کا اعتراف سب کو ہے۔وہ معروف صحافی، ادیب، خطیب، جنگ آزادی کے عظیم رہنما اورتحریک خلافت کے روح رواں تھے،جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی کے بانیو ں میں سے ہیں۔وہ جو کچھ کہتے تھے اس پر عمل بھی کرتے تھے ۔حق گوئی و بے باکی ان کی شخصیت کا حصہ تھی ۔ان کی پوری زندگی ہندوستان کو انگریزوں سے نجات دلانے کے لئے مسلسل جدو جہد میں گزری۔ 

محمد علی جوہر کی پیدائش 10دسمبر 1978ء کو اتر پردیش کے ایک ضلع رامپور میں ہوئی۔ بچپن میں ہی ان کے والد کا انتقال ہو گیا مگر ان کی والدہ  اور بڑے بھائی نے ان کی تعلیم و تر بیت کی ذمہ داریاں نبھائیں ۔ا بتدائی تعلیم گھر پر ہوئی ۔ہائی اسکول بریلی سے پاس کیا ۔بی اے کی تعلیم علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی سے حاصل کی ،لندن کی ایک یو نیورسٹی ’’آکسفورڈ‘‘ سے بی اے میں ’’آنرز‘‘ گریجویٹ کی ڈگری حاصل کی ۔محمد علی جو ہر نے لکھا ہے کہ :صحافی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ واقعات کو پوری صحت کے ساتھ درج کرے۔اسے خیال رکھنا چاہئے کہ واقعاتی صحت کا معیار اتنا بلند ہو کہ مؤرخ اس کی تحریروں کی بنیاد پر تاریخ کا ڈھا نچہ کھڑا کر سکے ۔صحافی رائے عامہ کا تر جمان ہی نہیں بلکہ راہنما بھی ہوتا ہے ۔اسے صرف عوام کی تائیدو حمایت نہیں کرنی چاہئے بلکہ صحافتی منبر سے عوام کو درس بھی دینا چاہئے ۔ 

عظیم صحافی : 

صحافت کے میدان کا انتخاب محمد علی جو ہر نے جس شعور کے ساتھ کیا اس کا اندازہ اس سے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف میدان صحافت کو مقصدی رخ عطا کیا بلکہ اس سے ایسے نتائج بھی اخذ کئے جو ہندوستان کی آزادی کا نقیب بن گئے ۔میدان صحافت میں بڑے بڑے صحافی گذرے ہیں مگر اس میں جو مقبولیت محمد علی جو ہر کو ملی وہ صر ف انہی کا حصہ تھی۔ 

صحافت کے پیشے سے محمد علی جو ہر کو دلچسپی تھی ،ان کی خواہش تھی کہ وہ صحافت کے میدان میں قدم رکھیں اور اس کے ذریعے سے قوم و ملک کی خدمت کریں۔چنانچہ انہو ں نے اپنے وقت میں دو اہم اخبارات جاری کئے کہ جن کی مقبولیت ہر طرف پھیل گئی ۔کامریڈ اخبار ایک انگریزی اخبار تھا جسے انگریز بھی خرید کر بڑے شوق سے پڑھتے تھے ۔جب کہ ہمدرد ایک اردو اخبار تھاجس کی ہندوستانیوں کے یہاں کافی مقبو لیت تھی ۔ 

کامریڈ(انگریزی اخبار)محمد علی جوہر نے یہ اخبار انگریزی زبان میں 1911ء میں کلکتہ سے شائع کیا ۔بہت ہی مقبول اخبار تھا۔اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ انگریزوں کو بھی اس کی اشا عت کا شدت سے انتظار رہتا تھا۔ 

ہمدرد(اردو اخبار)محمد علی جوہر نے1جون 1913ء ہمدرد کے نام سے ایک اردو اخبار نکا لنا شروع کیا ۔جس نے بڑی ہی کم مدت میں شہرت حاصل کرلی۔محمد علی جوہر ہمدرد میں لکھتے ہیں کہ صحافت سے میری غرض صحافت نہیں بلکہ ملک و ملت کی خدمت ہے۔اس قول سے محمد علی جوہر کی صحافتی دیانت داری کا احساس ہوتا ہے۔ورنہ لوگ صحافت کو کسب معاش اور حصول شہرت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ 

محمد علی جوہر صحا فتی اصولوں کے بہت پا بند تھے ۔بغیر تحقیق و تصدیق کے وہ کوئی بھی خبر شائع نہیں کرتے تھے ۔انہوں نے صحافت کے ذریعے کبھی مالی منافع حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی اور کوئی بھی خبر غیر جانب داری کے ساتھ چھاپتے تھے۔محمد علی جو ہر نے یہ اخبار ہندوستانی عوام اور خاص کر مسلمانوں کی تعلیم و تر بیت کے لئے نکالنا شروع کیا تھا ۔اس اخبار میں اسلامی ممالک کی خبریں ہوتی تھیں ۔ملکی اور غیر ملکی خبریں بھی شائع ہوتی تھیں۔اس کے علاوہ اس میں شعرو سخن طنزو مزاح،تہذیب و ثقافت کے بھی گو شے ہوا کرتے تھے۔ 

ہمدرد کے ذریعے انہوں نے اردو دنیا کو جو پیغام ،آزادی ،حق گوئی اور بے باکی کا نغمہ سنایا وہ آگے چل کر آزادی کے متوالوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوا ۔محمد علی جوہر نے اردو صحافت میں بہت کچھ لکھا ،ان کا اصل میدان انگریزی تھا لیکن اردو میں بھی ان کے جوہر کم نہیں تھے۔اردو نثر یانظم میں اگر چہ کم لکھا لیکن نوعیت ،وزن اور وقار کے لحاظ سے دوسروں سے کم نہیں ہے۔ان کی تحریریں بصیرت پر مبنی ہیں۔ 

جامعہ ملیہ اسلا میہ کا قیام: 

ہندوستان میں 1920ء میں’’ترک موالات‘‘کے نام سے ایک زبردست تحریک شروع ہوئی ۔اس تحریک میں ہندوستان کے تمام لوگوں نے حصہ لیا اور تمام انگریزی چیز وں کا بائیکاٹ کیا جانے لگا ۔اس تحریک کے روح رواں علی برادران اور گاندھی جی تھے۔اس تحریک کا اعلان ستمبر1920ء میں کانگریس کے اجلاس میں کلکتہ میں کیا گیا ۔اس کا آغاز سب سے پہلے محمد علی جوہر نے علی گڑھ جاکر کیا۔انھوں نے کالج میں طلباء سے مخاطب ہو کر کہا کہ ایسی حکومت جو اسلامی خلافت سے بر سر پیکار ہو،اسلام کی دشمن ہو،ایسی حکومت کے اداروں اور محکموں اور محکموں سے جڑنا جائز نہیں۔اس لئے اس وقت ہر ہندوستان کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ انگریزی حکومت کی طرف سے ملے ہوئے ہر عہدے اور منصب سے دوری اختیار کرے۔یہ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ہندوستانیوں کو اعلی تعلیم سے دورکر دیا جائے بلکہ تمام زور اس بات پر دیا جا رہا تھا کہ وہ اپنی تعلیم اپنے ہاتھ میں لے لیں،اپنا تعلیمی نصاب خود تیار کریں ۔اور اپنے استاد کا انتخاب بھی خود کریں ۔یعنی پوری طرح سے ایک ہندوستانی نصاب تعلیم کی بنیاد ڈالیں۔جب محمد علی جوہرنے علی گڑھ میں جاکر یہ باتیں کیں توانہیں زبر دست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔پولیس آئی اور ان کے ساتھیوں پر ڈنڈے چلائے گئے۔لیکن وہ ہار ماننے والے نہیں تھے ۔اپنے ساتھیوں کے ساتھ درخت کی چھائوںمیں کلاس لینا شروع کر دیا ۔شیخ الہند مولانا محمودالحسن کے ہاتھوں 1920ء میں جامعہ ملیہ کی بنیاد ڈالی گئی۔محمد علی جو ہر نے خود پرنسپل کے فرائض انجام دئیے۔اساتذہ کا بھی انتخاب کرتے اور بی اے تک کا نصاب بھی ہر مضمون کا خود ہی تیار کرتے۔ 

مولانا محمد علی جوہر ’’ہمدرد‘‘کے 30اکتوبر 1920ء کے شمارے میں جامعہ کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: 

’’اس کا (جامعہ)پہلا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو حق دوست و خدا پرست مسلمان بنا یا جائے اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ ان کو وطن دوست و حریت پرور ہندوستانی بنا یا جائے‘‘۔ 

پہلے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :جامعہ ملیہ اسلا میہ پہلے تو ’’جامعہ‘‘اور ’’ملیہ‘‘ ہے ،یعنی اس میں علوم دین و دنیا دونوں پڑھا ئے جاتے ہیں۔اور نہ وہ دیوبند اور مدرسہ نظامیہ وغیرہ کے طرز پر صرف علوم دینی کی تعلیم دیتی ہے۔نہ انگریزی کا لجوں کی طرح صرف علوم دنیوی پر اکتفا کرتی ہے،پھر یہ جامعہ،جامعہ اسلامیہ ہے۔یعنی اس کی تعلیم اسلام کی تعلیم ہے ،گو دیگر مذاہب کے پیرووں کے لئے اس کا دروازہ بند نہیں ہے،وہ اسلا م کو صحیح تفسیر حیات سمجھتی ہے اور اسلامی اصولوں کی ا س لئے تعلیم دیتی ہے کہ وہ اسرار زندگی سے انسانوں کو آگاہ کرتے ہیں۔اسی لئے جامعہ میں سب سے خاص بات جو رکھی گئی ہے وہ یہ کہ عر بی لا زمی ہو اور نثر کا تمام تر کورس قرآن کریم ہوتا کہ طا لب علم اس قدر عر بی سیکھ لیتے کہ قرآن کریم اور حدیث نبوری کو کم ازکم اس طر ح سمجھ سکے جس طرح ایک امی عر ب رسول کریم کے زما نے میں سمجھ سکتا تھا تاکہ اسے اپنے مذہبی ضروریات کے لئے کسی دوسرے دستگیر نہ ہونا پڑے۔ 

اس کے بعد دوسرے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے آگے لکھتے ہیں کہ: 

’’یہ تعلیم کا وہ خاکہ تھا جو ایک جامعہ اور جامعہ ملیہ کے شایان شان تھا ۔لیکن ابھی لفظ نیشنل کا ذکر نہیں آیا ہے،حالاں کہ یاد رکھنا چاہئے کہ جامعہ ملیہ ایک نیشنل یونیورسٹی ہو نے کا دعوی کرتی ہے۔ہم ہندوستان کے مسلمان ،مسلمان ضرور ہیں مگر ہندوستانی بھی ہیں۔اس میں صرف مسلمان ہی آباد نہیں ہیںبلکہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی ان کے ساتھ ساتھ اس ملک میں آباد ہیں اور ان کے ہمسایہ اور پڑوسی ہیں اور انہیں کی کثرت ہے،جامعہ کے بانیوں پر یہ حقیقت آشکارہ ہو چکی تھی کہ اس ملک کی آزادی کے لئے (اور ایک مسلمان کے لئے آزاد ہو نا لا زمی ہے۔اس لئے کہ وہ سوائے کسی خدا کے کسی عبد و غلام نہیں ہو سکتا)مسلمانان ہندوستان کا اپنے ہمسایہ بھا ئیوں کے ساتھ اتحاد و ارتباط قائم کرنا لا زمی ولا بدی ہے،اس لئے ایک طرف تو جامعہ نے اپنا دروازہ ہر اس ہندوستانی کے لئے کھول دیا جس کو جامعہ کی فضاء میں رہنے اور وہاں تعلیم حاصل کرنے کے خلاف تعصب نہ ہو۔دوسرے جامعہ کے ہر طا لب علم دل میں خواہ ہندو یا مسلمان ملک کی محبت اور اغیار و اجانب کی غلامی سے نفر ت کرنا جامعہ نے پہلے ہی دن سے اپنا وظیفہ سمجھا اور جامعہ کی فضا ء کو غلو اور تعصب سے پاک و صاف رکھا ۔اس لئے حقیقی معنوں میں جامعہ ،جامعہ ملیہ اسلا میہ اورنیشنل یونیورسٹی ہے۔‘‘ 

جامعہ ملیہ اسلا میہ ایک ایسی یو نیورسٹی ہے جہاں پر اسلام اور قومی یکجہتی کی روشنی میں لوگوں کو تعلیم و تر بیت سے آراستہ کیاجاتا ہے ،جامعہ نے 2020ء میں اپنا سوواں سال پورا کیا ہے،اس وقت جامعہ قومی سطح پر ایک بہترین یو نیورسٹی ہے اور عالمی سطح پر بھی ایک نمایاں یو نیورسٹی بننے کا سفر جا ری ہے۔اسی سال یو جی سی کی ٹیم NAACنے جامعہ کو A++کادرجہ دیا ہے۔گزشتہ سو سالوں میں جامعہ ملیہ اسلا میہ نے اپنے مقاصد کے حصول میں اپنا یقین نہیں کھو یا ہے۔ 

کتا بیات: 

۱۔ہمدرد 30اکتوبر 1920ء 

۲۔مولانا محمد علی جوہر :حیات و خدمات، صابر ارشاد عثمانی  

۳۔ہندوستانی ادب کے معمار:مولانا محمد علی جوہر، شہزاد انجم 

۴۔مولانا محمد علی جوہر آنکھوں دیکھی باتیں،مصنف:محمد عبد الملک جامعی، مرتب :معصوم مرادآبادی 

٭٭٭ 

Leave a Reply

2 Comments on "محمد علی جو ہر عظیم صحافی اور بانی ٔ جامعہ ملیہ اسلامیہ "

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
Anees
Guest
محمد علی جوہر کی پیدائش 10دسمبر 1987ء کو اتر پردیش کے ایک ضلع رامپور میں ہوئی۔

Sir kindly correct the date of born did you mentioned in article. The actual date is 10 December 1878 .

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.