ابوالفاضل رازؔ چاندپوری: تعارف اور شاعری 

محمد صالح انصاری 

ریسرچ اسکالر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد 

  

(Abul Fazil raaz chandpuri ta’aruf aur Shayery by Mohammad Saleh Ansari) 

ابوالفاضل رازؔ چاندپوری جن کا اصل نام محمد صادق اور تخلص رازؔ تھا۔ آپ اپنے بڑے بیٹے محمد فاضل کی عالم طفلگی میں وفات(دسمبر ۱۹۱۵ء) کے سبب اسی مناسبت سے یادگار کے طور پر ابولفاضل کنّیت اختیار کرلی تھی۔ رازؔ چاندپوری ۲۵؍مارچ ۱۸۹۲ء کو قصبہ چاندپور ضلع بجنور (یو۔پی) کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ خاندانی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے آباو اجداد اصحابِ سیف تھے، جن کا تعلق مغلیہ فوج سے تھا۔ چنانچہ مغلیہ سلطنت کے رو بہ زوال ہونے کے بعد افرادِ خاندان صاحبِ سیف کے بجائے صاحبِ قلم ہو گئے۔ رازؔ کے والد حافظ محمد جعفر نہ صرف اردو اور فارسی میں اعلیٰ مہارت رکھتے تھے بلکہ وہ ایک اچھے شاعر بھی تھے، جن کا تخلص حافظؔ تھا۔ مگر وہ عام شعرا کی طرح مستقل طور پر کوئی شاعر نہیں تھے، بلکہ کبھی کبھی بطور طفنّن شعر کہہ لیا کرتے تھے۔ گویا شعرو ادب کا ذوق رازؔ صاحب کو وراثت میں ملا تھا۔ چھ بھائی بہنوں میں صرف راز ؔ ہی اکیلے بھائی تھے، چنانچہ اُن کی پرورش اور تربیت بڑے ناز و نعم کے ساتھ ہوئی تھی۔ گھر میں تعلیم و تعلم اور علم و حکمت کے چرچے تھے، اس لیے رازؔ کی تعلیم و تربیت کی جانب خصوصی توجہ دی گئی۔دستور کے مطابق رازؔ چاندپوری نے اپنے تعلیمی سلسلے کا آغاز مکتب سے کیا اور پوری توجہ کے ساتھ تعلیمی حاصل کی، چنانچہ وہ اپنی ذاتی دلچسپی اور فطری ذہانت کے سبب اردو اور فارسی کی مروجہ تعلیم سے بہت جلد فراغت حاصل کرلی تھی۔ بعد ازاں گورنمنٹ ہائی اسکول مرادآباد سے اردو اور انگریزی کی تعلیم حاصل کی۔مگر ۱۹۱۱ء میں گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ اور معاشی تنگی کے سبب تعلیمی سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ لیکن رازؔ چاندپوری کا ادبی ذوق اور مطالعے کا شوق برابر قائم رہا، یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اپنے ذاتی مطالعہ اور خاص توجہ کی بنا پر اردو اور انگریزی کے ساتھ عربی اور ہندی میں بھی کافی استعدا د پیدا کرلی تھی۔ 

دورانِ تعلیم ہی سے رازؔ چاندپوری کا طبعی رجحان شاعری کی جانب ہوچکا تھا۔ اپنے ادبی میلان اور فطری ذہانت کے سبب بہت جلد شعر موزوں بھی کرنے لگے تھے۔ چوں کہ والد صاحب خود ایک اچھے شاعر تھے جو اردو اور فارسی کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ انھیں جب اپنے صاحبزادے کی موزونیٔ طبع کا علم ہوا، تو انھوں نے نہ صرف اُن کی حوصلہ افزائی کی، بلکہ اُن کے ذوقِ شعری کو اُبھارنے اور معیار کو نکھارنے میں بھی کافی مدد کی۔ مگر فنِ شاعری کے ہر ایک نکات کو بخوبی سیکھنے اور سمجھنے کے لیے انھیں ضرورت تھی ایک ایسے استادِ فن کی جو انھیں فن کی باریکیوں سے روشناس کراسکے۔ چنانچہ وہ ملازمت کے سلسلے میں جب آگرہ میں مقیم ہوئے تو اس دوران علامہ سیمابؔ کے ایک قدیم شاگرد باغؔ اکبرآبادی کے توسط سے ۱۹۱۶ء میں علامہ سیمابؔ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور زانوئے ادب تہہ کیا۔ رازؔ چاندپوری اپنے شفیق استاد کی رہنمائی میں اپنے ذاتی استعداد اور فطری ذوق کے سبب بہت کم عرصے میں ہی شعر گوئی میں اعلیٰ صلاحیت اور فنی پختگی حاصل کرلی تھی۔ اس مناسبت سے وہ اپنی ایک غزل میں فرماتے ہیں   ؎ 

سیکھی ہے رازؔ میں نے سیمابؔ نکتہ داں سے 

یہ رمز شعر گوئی یہ طرز خوشنوائی 

رازؔ چاندپوری کا علامہ سیمابؔ کے ساتھ بیحد قریب کا رشتہ رہا، دونوں کے درمیان برابر ملاقات کا سلسلہ بھی قائم رہا۔ پھر رفتہ رفتہ  استاد اور شاگرد کے توسط سے قائم ہونے والا یہ رشتہ ایک مضبوط یارانہ تعلقات تک جاپہنچا جو آخر عمر تک قائم رہا۔ جس کے مناسبت سے رازؔ چاندپوری لکھتے ہیں: 

’’جب تک میں آگرہ میں رہا ہر ہفتہ سیمابؔ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا اور وہ بھی کبھی کبھی غریب خانے پر تشریف لاتے رہے۔ رفتہ رفتہ تعلقات بڑھ کر دوستی کی حد تک پہنچ گئے اور سیمابؔ صاحب کی زندگی کے آخر دن تک قائم رہے۔‘‘   1؎  

رازؔ چاندپوری کی زندگی کے بیشتر ایام مصائب و آلام میں گزرے۔ ایک طرف روزگار کا غم تھا تو دوسری جانب تین بچوں کی قبل ازوقت موت نے انھیں اور ہی زیادہ مغموم کردیا تھا۔ پھر رفیقۂ حیات کی مسلسل کی علالت کے بعد ۱۹۵۵ء میں داغِ مفارقت دے جانے کے باعث اُنھیں کبھی سکون کے ساتھ کام کرنے یا اپنے فن کو اور بھی زیادہ بہتر طریقے سے نکھارنے اور سنوارنے کا موقع میسر نہ ہو سکا۔ انھیں ملازمت کے سلسلے میں کئی بار نقل مکانی بھی کرنی پڑی مگر اِن تمام مشکلات کے باوجود وہ جہاں بھی رہے اپنے ادبی ذوق کی تسکین کے لیے خود کو شعر و ادب سے وابستہ رکھا۔جب اُن کا تبادلہ کانپور میں ہوا تو وہاں سے نکلنے والا معروف رسالہ ’زمانہ‘ کی ترتیب میں منشی دیا نرائن نگم کے معاون و مددگار رہے۔ مگر چار سال بعد رازؔ کا تبادلہ جبل پور کردیا گیا ، جہاں کی ادبی فضا انھیں راس نہ آئی مگر پھر بھی ان یہ کا ظرف تھا کہ ایک غیر ادبی ماحول میں بھی شعرو ادب سے اپنا رشتہ مضبوطی کے ساتھ قائم رکھا۔ شعرو ادب سے یہی قربت اور قلبی لگاؤ کا ہی نتیجہ تھا کہ اُن کے شاعرانہ رنگ و آہنگ اور معیارِ شاعری میں کافی وسعت پیدا ہوئی۔ رازؔ چاندپوری نے اپنے تجربات و محسوسات کی روشنی میں اپنے جذبات کو جس فنکارانہ خوبی کے ساتھ پیش کیا ہے اس سے اُن کی فکر وفن اور شاعرانہ برتری کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ اُن کی شاعری میں عام آدمی کے بنیادی مسائل کی بہترین عکاسی پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے شاعری کے ذریعہ زندگی کے عام مسائل کو جس خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کیا ہے اس سے ادب کا عام قاری بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اپنے معاصر شعرا میں رازؔ چاندپوری اپنے جداگانہ اسلوب اور طرز ادا کی بدولت کئی لحاظ سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ انھوں نے جھوٹی شہرت حاصل کرنے یا نام ونمود کے لیے شاعری نہیں کی ہے، اور نہ ہی اپنے لیے مشاعرے کا شاعر ہونا پسند کیا۔یہی وجہ ہے کہ ایک بلند پایہ شاعر ہونے کے باوجود انھوں نے نہایت خاموشی کے ساتھ گوشہ نشیں ہوکر جس انداز سے شاعری کرتے رہے اس سے وہ اپنی آواز کو دور تک لے جانے میں کامیاب نہ ہوسکے ۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں۔   ؎ 

مشکل نہیں کہ گرمیِ محفل نہ بن سکوں 

لیکن میں اپنے رنگِ طبیعت کو کیا کروں 

 

گمنام ہوں ، گمنام سہی بزمِ ادب میں 

اے رازؔ یہ کیا کم ہے کہ بدنام نہیں ہوں 

 

شعر کہتا ہوں کہ ہوں مجبور ذوقِ طبع سے 

رازؔ کچھ خواہش نہیں مجھ کو نمود و نام کی 

ایک ادیب اور شاعر کی حیثیت سے رازؔ چاندپوری نے کئی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تصانیف اپنی یادگار چھوڑی ہیں۔ اُن کی مطبوعہ کتابوں میں ’زرّیں افسانے‘  سنِ اشاعت ۱۹۲۶ء، ’دنیائے راز‘ مطبوعہ ۱۹۳۰ء (نظموں کا مختصر مجموعہ) ’نوائے زارؔ‘ مطبوعہ ۱۹۶۱ء (انتخابِ غزلیات ۱۹۱۶ء تا ۱۹۵۵ء)، ’داستانِ چند‘ مطبوعہ ۱۹۶۸ء (یادداشتیں اور سوانح علامہ سیمابؔ اکبرآبادی) ’داستانِ عہد گل‘ مطبوعہ ۱۹۷۱ء وغیرہ زیادہ اہم کتابیں ہیں۔ اسی طرح ان کی غیر مطبوعہ کتابوں میں ’صحیفۂ راز‘ (قدیم و جدید نظموں کا مکمل مجموعہ)، ’ حدیثِ راز‘ (مجموعہ رباعیات) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ۱۹۵۴ ء میں ملازمت سے سبکدوشی کے بعد رازؔ چاندپوری نے اپنے منتشر کلام کی شیرازہ بندی شروع کی اور ایک ضخیم شعری مجموعہ ’مصحفِ راز‘ مرتب کیا جو تین حصوں پر مشتمل ہے۔ جس کا پہلا حصہ’ نوائے راز ‘ اس میں مطبوعہ اور غیر مطبوعہ غزلیں شامل ہیں، دوسرا حصہ ’ صحیفۂ راز‘ اس میں مطبوعہ اور غیر مطبوعہ نظمیں شامل ہیں، تیسرا حصہ ’حدیثِ راز‘ جو غیر مطبوعہ رباعیات پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ کچھ چنیدہ غزلوں کا ایک انتخاب ’مئے باقی‘ کے نام سے مرتب کیا۔ کلام کی شیرازہ بندی کے تحت رازؔ چاندپوری نے اپنے بہت سے ابتدائی اور وسطی زمانے کے شعر کو بالکل ہی تلف کردیا۔ اِس کے علاوہ انھوں نے ترجمہ نگاری کے طور پر ٹالسٹائی کے ایک دلکش ناول کا ترجمہ ’رودادِ محبت‘ کے عنوان کے تحت کیا ہے۔ اس طرح ر ازؔ چاندپوری کی مکمل شعری و نثری خدمات دنیائے شعرو ادب کے لیے ایک اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔ مگر ادب میںانھیں وہ مقام و مرتبہ حاصل نہ ہو سکا جس کے یقیناً وہ حقدار تھے۔ چوں کہ ۱۹۵۵ء کے بعد انھوں نے شاعری سے بالکل کنارہ کشی اختیار کرلی تھی اور چودہ سال گوشہ نشینی میں گزار نے کے بعد ۲۵؍اگست ۱۹۶۹ء کو ۷۷ سال کی عمر میں یہ کہتے ہوئی دنیا سے رخصت ہوئے۔   ؎ 

سراپا سوز ہوں میں ہمنوائے سازِ فطرت ہوں 

تعجب ہے میری آواز پہچانی نہیں جاتی 

ایک غزل گو شاعر کی حیثیت سے رازؔ چاندپوری کا رتبہ بہت بلند ہے۔اُن کے کلام میں شاعری کے عام اور فرسودہ روایت سے ہٹ کر ایک مخصوص اور منفرد لب و لہجہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ انھوں نے زندگی کے عام بنیادی مسائل کوجس پاکیزگی کے ساتھ پیش کیا ہے اس میں مکمل صداقت پائی جاتی ہے۔ چوں کہ رازؔ کی غزلوں میں عام لوگوں کی ذہنی اور جذباتی آسودگی کا سارا سامان موجود ہے۔ اُن کے اشعار اس قدر جاذبِ دل اور عین فطرت کے موافق ہوتے ہیں کہ اُن کی آواز میں آواز ملانے یا ان کے درد کو محسوس کرنے میں کسی قسم کی تکلیف یا تکلف کا احساس نہیں ہوتا۔ بلکہ موسیقیت اور غنائیت سے بھرپور اُن کی غزلوں کو پڑھتے یا گنگناتے وقت اُن کے احساسات و جذبات خود بخود اپنے اندر بھی جاری و ساری ہونے لگتے ہیں۔ اس لیے رازؔ کی غزلیہ شاعری کے توسط سے کہا جاسکتا ہے کہ اُن کی غزلوں میں عام آدمی کے فطری جذبات کا برملا اظہار ہے۔ رازؔ کی غزلیہ شاعری پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے مشہور نقاد خلیل الرحمٰن اعظمی لکھتے ہیں: 

’’سب سے پہلی بات جو مجھے رازؔ کی شاعری میں نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس میں شدت یا تلخی نہیں ہے۔ شاعر کے یہاں محسوسات بھی ہیں اور تجربات بھی، غم اور افسردگی، ناکامی اور نامرادی کے لمحے بھی ہیں، لیکن ان کو شاعر نے ہضم کرنے کے بعداس طرح پیش کیا ہے کہ یہ شدت ایک خوشگوار اعتدال میں تبدیل ہوگئی ہے اور زہر کی تلخی امرت رس معلوم ہوتی ہے…رازؔ کی شاعری ایک نارمل اور عام انسان کے دکھ درد، مسرت و انبساط اور اس کے آرزوؤں اور خوابوں کا نارمل اور سادہ اظہار ہے۔ اس لیے اس میں رنگینی، سرشاری، ربودگی، اُڑان، فلسفیانہ فکر، پیچیدگی اور بہت سے ایسے عناصر نہیں ملیں گے جو عام اردو غزل گویوں کا طرۂ امتیاز ہیں۔‘‘   2؎ 

یوں تو رازؔ چاندپوری نے عام روایت سے ہٹ کر شاعری کی ہے، مگرایک غزل گو شاعر کی حیثیت سے ان کے یہاں عام روایتی مضامین بھی پائے جاتے ہیں۔ لیکن انھوں نے عام موضوعات کے تحت جو شاعری کی ہے، اس میں بھی وہ اپنے مخصوص اندازِ فکر اور طرزِ بیان کے سبب بڑی حد تک اجتہاد و انفرادیت قائم رکھنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔    ؎ 

اسیرانِ قفس کو کاش یہ احساس ہوجائے 

شکستہ بازوؤں میں قوتِ پرواز ہوتی ہے 

 

پروانے خود غرض تھے کہ خود جل کے مر گئے 

احساسِ سوزِ شمعِ شبستاں نہ کر سکے 

رازؔ کی شاعری میں ابتدا ہی سے تصوف کا رنگ غالب رہا ہے۔ ان کے یہاں ہر شے میں عشق حقیقی کا مظہرجلوہ گرہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔وہ حقیقتِ حسن سے سرشار ہوکر اپنے دلی جذبات کو نہایت رچے ہوئے انداز میں پیش کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ وہ ذاتِ خداوندی کے عرفان میں غرقاب ہوکر بڑی بیتابی کے ساتھ یہ کہنے کو مجبور ہوتے ہیں   ؎ 

نیاز عشق میں اتنا کمال پیدا کر 

کہ ناز حسن سراپا نیاز ہوجائے 

کمالِ عشق ہے یہ ، شانِ عاشقی ہے یہی 

کہ سوزِ عشق مبدّل بہ ساز ہوجائے 

مری فطرت حقیقت آشنا معلوم ہوتی ہے 

نظر پڑتی ہے جس شے پہ خدا معلوم ہوتی ہے 

رازؔ چاندپوری بنیادی طور پر ایک غزل گو شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ اُن کی غزلوں کا معیار بیحد بلند ہے یہی وجہ ہے کہ آج اُن کا شمار صفِ اوّل کے ممتاز غزل گو شعرا میں ہوتا ہے۔ غزلوں کے علاوہ انھوں نے بے شمار نظمیں بھی کہی ہیں لیکن ایک غزل گو شاعر کی طرح نظم نگاری میں انھیں وہ مقام و مرتبہ حاصل نہ ہوسکا، مگر پھر بھی اُن کی بعض نظمیں اس قدر دلکش و دلآویز ہیں کہ اُن نظموں کے سبب انھیں ایک عمدہ نظم نگار شاعر کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ اُنھوں نے زندگی کے مختلف مسائل و موضوعات پر قلم اٹھایا ، اور نظموں میں ہیئت اور بیان کے نئے تجربے بھی کیے، لیکن اُن کی نظموں میں موضوعات کی اتنی وسعت نہیں ہے، جتنی ایک خالص نظم گو شاعر کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔ رازؔ کی شاعری میں داخلی اور خارجی محسوسات بڑے واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ مگر اُن کے یہاں عام طرزِ شاعری سے ہٹ کر زیادہ تر داخلی رنگ کی جلوہ گری دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ زندگی کے خارجی حادثات و واقعات کو بھی اپنا ذاتی اور قلبی واردات بنا کر پیش کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ رازؔ کی نظموں کا تجزیہ کرتے ہوئے عبدالقادر سروریؔ رقم طراز ہیں:  

’’ رازؔ صاحب کی شاعری زیادہ تر داخلی رنگ رکھتی ہے۔ ان کی نظمیں وارداتِ قلبی اور احساسات کی ترجمان ہوتی ہے۔ اس کیفیت کا غلبہ اس قدر ہے کہ جو نظمیں خارجی تفصیلات سے پر ہونی چاہیے تھیں اُن میں بھی شاعر کے جذبات کی فراوانی اُن نظموں کو داخلی رنگ میں رنگ دیتی ہے۔… رازکی شاعری بھی موجودہ عصر کے رجحانات کا پورا عکس ہے۔ بحروں کے موزوں انتخاب اور الفاظ کی خوشگوار نشست، نظم میں ترنم اور موسیقی پیدا کرنے کی کوشش رازؔ کی شاعری میں ہر جگہ نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔‘‘  3؎ 

رازؔ کی نظموں میں فطرت کے دلکش مناظر کی حسین عکاسی بھی پائی جاتی ہے۔ لیکن ان کی نظموں کی سب سے اہم اور نمایاں خصوصیت ان کی مقصدیت ہے۔ وہ شاعری کے ذریعہ صرف قاری کا وقت برباد کرنا نہیں چاہتے۔ بلکہ وہ کسی نہ کسی مقصدِحیات اور ضروریاتِ زندگی کے تحت ہی شاعری کو پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ اُن کی بعض نظمیں ایسی ہیںجو اپنے موضوعات کے اعتبار سے صرف منظر کشی تک ہی محدود ہوتیں، مگر رازؔ نے اپنے فطری جذبات کا رنگ دے کر اپنے فنکارانہ حکمت سے اُن نظموں میں بھی کوئی نہ کوئی پیغام یا دعوت کا پہلو رکھ کر اسے بامقصد بنایا، جس کی بنا پر اُن کی نظموں کی عظمت و اہمت میں بھی کافی اضافہ ہوا۔ اس سلسلے میں رازؔ کی ایک معروف نظم ’سکوتِ شب‘ کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں    ؎ 

طاری ہے اک سکوت جہانِ خراب پر 

ہنگامہ زار دہر کی ہر شے خموش ہے 

مضرابِ حسن نغمہ طرازی سے بے خبر 

سازِ حیات عشق سراپا خموش ہے 

الغرض رازؔ چاندپوری کی شاعری میں اُن کے ہم عصر شعرا کے مدمقابل ایک طرح کی انفرادیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان کے فکرو بیان کی ندرت غزلوں کے ساتھ نظموں میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ تخیل کی بلند پروازی اور تجربات و محسوسات نے ان کے فکر وخیال میں بیحد وسعت عطا کردی تھی۔ اُن کی جدت پسند طبیعت نے اُن سے ہیئت اور بیان کے نئے تجربے بھی کرائے اور ساتھ ہی روایتی اور فرسودہ موضوعات میں نیا رنگ و آہنگ عطا کرنے میں ان کی مدد کی ۔ رازؔ کی شاعری میں قلبی واردات کے علاوہ سیاسی، سماجی اور اخلاقی موضوعات کی کثرت پائی جاتی ہے۔ رازؔ کی ایک بڑی شاعرانہ خصوصیت یہ بھی ہے کہ اُن کی بیشتر تخلیقات موسیقیت اور غنائیت سے بھرپور ہوتی ہیں۔ جس کے سبب اُن کی نظموں کو سدا گنگنانے کا دل چاہتاہے۔ اس طرح اُن کی تمام شعری خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ رازؔ چاندپوری نے شاعری کے ان تمام لوازمات کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی جدتِ طبع سے شاعری میں ایک نیا رنگ و آہنگ پیدا کرنے میں اہم رول اداکیا ہے۔ رازؔ کی شاعری میں عام آدمی کے دل کے دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کو عام شہرت و ہ مقبولیت کا شرف حاصل ہوا۔ 

حوالہ جات 

1۔  رازؔ چاندپوری، داستانِ عہد گل، نسیم بک ڈپو، لکھنؤ، ص ۱۱، ۱۲ 

2۔  رازؔ چاندپوری، نوائے رازؔ، ادارۂ انیس اردو، الہ آباد، ۱۹۶۱ء، ص ۱۴ 

3۔  عبدالقادر سروری، جدید اردو شاعری ، انجمن امداد باہمی، حیدرآباد، ۱۹۳۲ء، ص ۳۲۸و ۳۳۰ 

**** 

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.