تعلیم اورعہد حاضر میں رائج تدریسی طریقۂ کار 

ڈاکٹر محمد فیروز عالم  

این سی پی یو ایل، نئی دہلی 

  

(Taleem aur Ahde Hazir mein ra’ij  tadreesi tareeqa’e kaar by Dr. MD FIROZ ALAM) 

  

تعلیم ایک ایسا تدریسی عمل ہے جوتمام ذی روح میں ارگرد کے ماحول اور تجربات ومشاہدات سے مستقل پروان چڑھتی  ہے۔لیکن اصطلاح میں تعلیم سے مراد ایک ایسا عمل ہے جس میںمختلف علوم اور تجربات ومشاہدات کے ذریعہ طالب علموںکی تربیت کی جاتی ہے۔اس کا مقصد طالب علموں میں پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنا اور ان کےطریقۂ کارمیں تبدیلی لانا ہے تاکہ وہ انفرادی اور اجتماعی ضرورتوں کو سمجھ سکیں اور انھیں پوراکرنے کے طریقوں سے واقف ہوسکیں۔بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے ان کے والدین اور ماحول کو ذمہ دار رٹھہرایاجاتاہے۔یہ حقیت ہےکہ گھر کا ماحول بچے کے کردار کو متاثر کرتا ہے۔ والدین کی خود اعتمادی اور خود نظمی بچوں کی تعلیم میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔تعلیم گاہوں میں تعلیم کا مرکز طالب علم ہے جس کے باطنی صلاحیتوں کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے نفسیات کا علم بھی ضروری ہے۔ ایک اچھااستاد اپنے طلبا کی شخصیتوںکی اچھی تعمیران کی نفسیات سے واقف ہونے کے بعد ہی کرسکتاہے۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ طالب علم کی منفرد شخصیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرے، اس کی فطرت اور صلاحیتوں سے واقفیت حاصل کرےاور ان پوشیدہ صلاحیتوںپر نظر رکھے جس سے اس کی نشوونما میں آسانی پیدا ہو۔اسی لیے کہا جاتاہے کہ طالب علموں کی عمر اور ان کی ذہنی صلاحیتوں کو نظر میں رکھتے ہوئے پڑھانا زیادہ آسان اور بہتر ہوتاہے۔تعلیمی نفسیات کے ذریعہ ایک استاد اپنے طالب علموں کے رویوں میں تبدیلی لاسکتاہے۔ یہاں یہ بات درست معلوم ہوتی ہے: 

چونکہ اساتذہ کا کام تمام طلبا کے کردار میں مطلوبہ تبدیلی لانی ہوتی ہے اس لیے اگر اس کی کوئي طے شدہ سوچ یا اصول نہیں ہوں گے تو ہو طلبا کو زیادہ متاثر نہیں کر پائیں گے۔ اور نہ ہی کچھ خاص اصولوں اور معیارات کے حصول کے لیے حوصلہ افزائی کرپائیں گے۔ طلبا میں مختلف خصوصیات جیسے سچائی ، ایمانداری، فرض شاسی، حب الوطنی، خوداعتمادی، ہمدردی، عاجزی اور انکساری کو پیدا کرنےکا بھی کا اساتذہ کا ہی اور اگر اساتذہ میں خود یہ خصوصیات نہیں ہوں گی تو طلبا میں بھی نہیں آپائيں گی۔ 1 

بچوں کی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لیے مختلف ماہرین تدریسیات ونفسیات کے اپنے اپنے نظریات ہیںجن کی مدد سے کسی بھی گروپ کے بچوں کی ایسی تربیت کی جاسکتی ہےجس سے ان کے اندر موجود صلاحتیں ابھر تی اور پروان چڑھتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اب تدریسی طریقۂ کار کی تعلیم عام ہے اور بعض اداروں میں انھیں افراد کوبطوراستاد منتخب کیا جارہاہے جن کے پاس تعلیم وتعلم کے نئے طریقوں اور رجحانوں سے واقفیت کا کوئي سندہو۔ظاہر ہے کہ طلبا کی عمر اوران کی صلاحیتوں کے اعتبارسے تدریس کا طریقہ بھی بدل جاتاہے۔ مثال کے طور پر خصوصی ضروریات کے حامل بچوں کی تعلم وتربیت کا طریقہ کا عام بچوں سے قدرے مختلف ہوگا۔ اسی طرح ابتدائی سطح کے بچوں کی تعلیم وسطانیہ اورفوقانیہ کے طلبا سے قدرے مختلف ہوگی۔ 

آج اکیسویں صدی میں طفل مرکوز تعلیم کا تصور اس بات کی طرف اشارہ کرتاہے کہ تعلیم کی بنیاد نفسیاتی اصولوں پر ہے۔حالاںکہ اب تک جو تدریسی طریقے رائج ہیں ان کو عام طور پر ذیل کے دو طریقوں میں منقسم کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر قمر سلیم لکھتے ہیں: 

اکیسویں صدی کے اوائل تک زیادہ تر تعلیمی اداروں میں تدریس کا محور استاد کی شخصیت تھی۔ ڈیجیٹل تکنیک کے زمانے میں طلبا کا جماعت میں عدم دل چسپی دکھانا اور سائنسی رجحانات نے تدریس کی شکل کو بد دی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ آج کی تعلیم وتدریس طفل مرکوز ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ معلم کی اہمیت کم ہوگئی ہے بلکہ معلم کی ذم داریاں مزید بڑھ گئی ہیں ۔ 2  

مذکورہ بالا اقتباس پر غور کریں تو اندازہ ہوتاہے کہ طریقۂ تدریس بنیادی طور پر قسموں پر مبنی ہے: 

استاد مرکوز طریقہ 

طالب علم مرکوز طریقہ 

استاذ مرکوز طریقۂ تعلیم ابتدائی زمانے میں رائج تھے جو آج بھی اسلامی مدارس اور اعلیـ تعلیمی اداروں میں رائج ہے۔ بدلتے ہوئے زمانے اور ترقی یافتہ ملکوں کی ہرمیدان میں سرگردانی نے لوگوںکو طفل مرکوز طریقۂ تعلیم کی طرف توجہ دلائی ہے۔ جسے آج تعلیم وتعلم کے میدان میں اہمیت بھی حاصل ہے۔یہ طریقہ اسکولی سطح کے طلبا کے لیے کار آمد اور موثر  ہے۔ 

اول الذکر طریقوں کے چندایسےضمنی طریقے رائج ہیں جن کی مدد سے تعلیم وتعلم کو آسان اور زیادہ کارآمد بنایاجاسکتاہے۔ جو حسب ذیل کچھ اس طرح ہیں: 

تقلیدکے ذریعہ تدریس: 

نفسیات کے ماہرین کا ماننا ہے کہ نئی معلومات سیکھنے کا ایک سب سے اہم طریقہ تقلید یا نقل ہے۔ تقلید، یا کسی دوسرے کے طرز عمل کی کاپی کرنا ، بچپن میں ہی شروع ہوجاتا ہے اور عمر بھر جاری رہتا ہے۔ بچے اپنے آس پاس کے افراد اور ماحول کو جس طرح دیکھتے ہیں، اس کی نقل کرتے ہیں۔ ذاتی دل چسپی، ماحولیاتی عناصر اور اطوار و عادات اس طریقۂ تعلیم کے بنیادی عناصر ہیں۔ تدریس کا یہ طریقہ کافی مفید ہے ۔ 

کہانی کے ذریعہ تدریس: 

اس طریقۂ کار میں بچوںبچوں کی نفسیات سے ہم آہنگ کہانی سناکر معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔جس میں آئیڈیل شخصیات، سماجی کارکنان، بادشاہوں اور اخلاقیات پر مشتمل قصے کہانیاں زیادہ موثر ہوتی ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد بچوں میں ترغیب اور شوق پیدا کرنا ہوتاہے۔ کہانیوں کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کی قوت فہم اور زبان کے مطابق لکھا جائے۔یہ طریقہ بالعموم 6 سال کی عمرتک کے بچوں کے لیے مفید ہوتا ہے۔اس طریقۂ کار سے بچوں میں کسی چیز پر فوکس کرنے، تصورات میں تخلیقیت کے علاوہ ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے۔ 

متن خوانی کے ذریعہ تدریس: 

اس طریقۂ کار میں اساتذہ بلند آواز سے کتاب کے متن کو پڑھتے ہیں اور اہم اہم نکات کی تشریح کرتے ہیں۔ اس طریقۂ تدریس کے لیے ضروری ہے کہ متن آسان زبان میں لکھی جائے۔ مضمون کا مواد بچوں کے عمر کے اعتبار سے تیار کیا جائے اور کوشش ہو کہ مضمون عام فہم ہو۔ تحریر و طباعت اور مشمولات میں ایسی چیزیں شامل کی جائیں، جو بچوں کے لیے دل کشی اور تفریح کا ذریعہ بنیں۔اس طریقۂ کار کے ذریعہ بچوں میں متن فہمی اور متن خوانی کا ملکہ نمو پذیر ہوتاہے۔ 

تقریر کے ذریعہ تدریس : 

اس طریقے کو چاک اینڈ ٹاک میتھڈ(Chalk and Talk method) بھی کہا جاتا ہے۔ اس طریقے میں اساتذہ درس گاہ میں زبانی تقریر کے ذریعہ موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں۔مثالیں دے کر عنوان کو سمجھاتے ہیں۔ سبق کو سمجھانے کے لیے یہ انتہائی موثر طریقہ ہے۔یہ طریقہ تدریس مثبت اور منفی دونوں طرح کی خصوصیات کا حامل ہے۔عام طور پر یہ طریقہ اعلی درجات کے طالب علموں کے لیے اپنایا جاتاہے۔اس کے بہت سے فوائد ونقصانات بیان کیے جاتے ہیں، لیکن اعلی تعلیمی اداروں میں یہ طریقہ مقبول ہے۔اس کے ذریعہ بڑی سے بڑی تعداد میں طلبا کو پڑھایا جاسکتاہے۔ لیکن یہ طریقہ استاذ مرکوز طریقے کی ایک قسم ہے۔ 

مشاہدے کے ذریعہ تدریس : 

اس میں بنیادی طور پر کسی چیز کو دکھاکر تعلیم دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر دنیا کو سمجھانے کے لیے گلوب، یا نقشہ دکھایا جائے۔ سائنس اور دیگر علوم کی تعلیم کے لیے یہ طریقہ انتہائی مفید ہے۔لیکن اس طریقۂ کار میں عملی سرگرمیاں بہت کم ہوتی ہیں اور تمام علوم و فنون کی تعلیم اس طریقۂ کار سے ممکن نہیں ہے۔ 

سوال جواب کے ذریعہ تدریس: 

یہ طریقہ سقراط کی ایجاد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اندر جو معلومات مخفی ہیں، انھیں سوال و جواب کے ذریعہ باہر نکالا جاسکتا ہے۔ اس طریقہ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ استاذ اور طلبہ دونوںپر مرکوزہوتاہے۔ سوالات طلبا کے اندر تجسس پیداکرتے ہیںاور اساتذہ کے جوابات ان کی رہ نمائی کرتے ہیں، جس سے طلبا اور استاتذہ دونوں کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ عمومی طور پر یہ طریقہ تدریس بہت مفید ہے۔ 

بحث و مباحثے کے ذریعہ تدریس: 

اس میں کسی بھی موضوع پر بحث و گفتگو کے ذریعہ تعلیم دی جاتی ہے۔پہلے استاذ طلبہ سے ، پھر طلبہ آپس میں ایک دوسرے سے مباحثہ کرتے ہیں۔اس طریقۂ تدریس میں کھل کر بحث کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔جس سے منطقی فکر کی صلاحیت پروان چڑھتی ہے، لیڈرشپ نکھرتی ہے۔ برداشت کرنےاورمخاطب کو سننے کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ طلباکےعادت و اطوار ان کے تاثرات کی پیمائش کرنے کے لیے یہ طریقۂ کار اہم ہے۔ 

انکشاف کے ذریعہ تدریس: 

یہ طریقہ H.E Arm Strong نے دیا تھا ۔ اسی طریقہ کو Pollion اور Dankar نے Problem Solving Method کا نام دیا ہے۔ اس طریقہ میں طلبہ خود سے حقائق کو تلاش کرتے ہیں ، حقائق تلاش کرنے میں جو پریشانیاں سامنے آتی ہیں، ان کا تجزیہ کرتا ہے ، جس کے نتیجہ میں حقائق تک پہنچ جاتا ہے۔ اس میں طلبہ پہلے کوشش کرتے ہیں، اس کوشش میں غلطیاں بھی ہوتی ہیں، لیکن بار بار کرکے غلطیوں پر قابو پالیتا ہے۔ یہ طریقہ طلبہ میں خود اعتمادی پیدا کرنے میں کافی معاون ہے۔ 

پروجیکٹ کے ذریعہ تدریس: 

یہ نظریہ William Heard Kilpartrick کی دین ہے۔اس میں بچوں کو کوئی پروجیکٹ دے دیا جاتا ہے جس کی منصوبہ بندی کرکے وہ نئی چیزوں کو سیکھتا ہے۔یہ طلبہ مرکوز طریقہ ہے۔ اس میں طلبہ کو ایسے کاموں کو دیا جاتا ہے، جو سماج سے مربوط ہوتا ہے۔ طلبہ گروپ بناکر کسی منصوبہ کی پلاننگ کرتے ہیں ۔ اس طریقہ سے طلبہ میں تخلیقی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ اس میں اور انکشافی طریقہ میں فرق یہ ہے کہ پروجیکٹ میں گروپ بندی ضروری ہوتی ہے، جب کہ انکشافی طریقہ میں طلبہ انفرادی طور پر کام کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں انکشافی طریقہ میں فرضی مشکلات پیدا کی جاتی ہے، جب کہ پروجیکٹ میں ہمیشہ حقیقی پریشانیوں کا حل ڈھونڈھنا ہوتا ہے۔ 

ایکٹنگ کے ذریعہ تدریس: 

کسی چیز کو سیکھنے یا سکھانے کے لیے تقریر کے بجائے اداکاری کی جائے ۔ اس میں استاذ یا ایک طالب علم کوئی رول پلے کرتا ہے، بقیہ طلبا اس کو بغور دیکھتے ہیں اور خوبی و خرابی پر نظر رکھتے ہیں۔ اس طریقے سے طلبہ میں عملی سرگرمی اور مشاہدہ کی قوت پروان چڑھتی ہے۔ اس طریقہ کا استعمال بالعموم ٹیچر ٹریننگ وغیرہ میں کیا جاتا ہے۔ اس سے الفاظ کو خارجی وجود دینے اور تصورات کو وسعت دینے میں مدد ملتی ہے۔  

گروپ بندی کے ذریعہ تدریس: 

اس طریقۂ کار میں میں طلبا کا ایک گروپ بناکر کسی عنوان پر سبھی گروپ ممبران کو اپنے اپنے خیالات پیش کرنے کو کہا جاتا ہے۔ کسی ایک شخص کے خیالات کے مقابلہ میں گروپ کے خیالات اور مسائل کے حل کی تلاش زیادہ بہتر نتیجہ دے سکتی ہے ، اس سے طلباکی فکری صلاحیت بڑھنے کے ساتھ ساتھ مختلف لوگوں کے خیالات سے آگہی اور نئے نئے آئیڈیا بنانے کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ اس طریقے سے بچوں میں بولنے کی حوصلہ افزائی،خیالات کا اشتراک،صلاحیت کا مظاہرہ، ایک دوسرے سے سیکھنے، خود اعتمادی کو بڑھا نے، غلط فہمی کودور کرنےمیں مدد ملتی ہے۔ 

فوجی تربیت کے ذریعہ تدریس: 

اس طریقے میں اساتذہ جو قواعد و ضوابط طلبہ کو پڑھاتے ہیں، انھیں عملی طور پر طلبہ کو کرنے کا پابند بنایا جاتا ہے۔ درس گاہ میں جب طلبہ ان قواعد کو عملی جامہ پہناتا ہے، تو اساتذہ ان کی نگرانی کرتے ہیں ۔ جب طلبہ کسی جگہ کام نہیں کرپاتے ہیں، تو اساتذہ ان کی مدد کرتے ہیں ۔ اس سے طلبہ میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور کوئی سرگرمی انجام دینے سے نہیں گھبراتا۔اسلامی مدارس میں قرآن کریم کی حفظ کا طریقہ فوجی تربیتی طریقے کی ایک بہتر مثال ہوسکتی ہے۔اس طریقۂ کار میں بچہ سبق کو اس وقت تک دہراتا رہتاہے جب تک کہ اسے اچھی طرح سے یاد نہ ہوجائے۔ 

سیاحیت کے ذریعہ تدریس: 

اس طریقہ میں بچوں کو سیاحت پر لے جایا جاتا ہے، جہاں زمینی سطح پر بچوں سے ڈیٹا جمع کرنے کے لیے کہا جاتا ہے ۔ اس طریقے میں بچے تفریح کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں۔ مشاہدہ فطرت سے علم حاصل کرتے ہیں۔تاریخی موضوع کی تدریس میں یہ طریقۂ کار بے حد معاون ہے۔ 

کھیل کے ذریعہ تدریس: 

اس نظریے کے تخلیق کار ہیں Forbel Friedrich۔ اس میں بچوں کی نفسیات کے مطابق کھیل کھیل میں تعلیم دینے کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس کا دوسرا نام Kindergarten Method بھی ہے۔ اس میں کھیل اولیت رکھتا ہے جب کہ تعلیم ثانوی مقصد ہوتا ہے۔ 

سرگرمی کے ذریعہ تدریس: 

اس نظریے کے تخلیق کار ہیں David Horsburg۔ اس میں طلبہ اور اساتذہ دونوں تعلیم و تدریس کی سرگرمیوں میں برابر کے شریک رہتے ہیں ۔ یہ طریقہ طلبہ مرکوز طریقہ ہے، جس میں طلبہ کو مکمل طورپر حصہ لینے کے لیے اساتذہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ 

تجزیے کی ذریعہ تدریس: 

اس طریقہ میں مسائل کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے ۔ پھر استاذ یکے بعد دیگرے ہر ایک حصہ کی تشریح کرتا ہے،اور ان کا حل بتاتا ہے۔ اس میں مجہولات سے معلومات کی طرف جایا جاتا ہے۔ یہ طریقہ کھوج اور انکشافی طریقے سے مماثلت رکھتا ہے۔ تاریخ پڑھانے میں یہ سب سے معاون طریقہ ہے۔ 

ترکیب کے ذریعہ تدریس: 

چھوٹے چھوٹے مسائل کو اس طرح جوڑا جاتا ہے کہ اس کے مجموعہ سے کوئی معنی خیز نتیجہ نکلتا ہے۔ اس طریقے میں معلومات سے مجہولات تک اور تجزیہ سے نتیجہ تک پہنچتے ہیں ۔ استاذ کئی چھوٹی چھوٹی معلومات طلبہ کے سامنے پیش کرتا ہے، جس سے طلبہ کو ان حصوں کو جوڑ کر نتیجہ یا ماحصل نکالنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ 

ماریہ مونٹیسری نظریہ تعلیم: 

اس نظریہ کو پیش کرنے والی خاتون کا نام   Dr.Maria Montessori  ہے۔ اس طریقے میں بتایا گیا ہے کہ بچے حواس خمسہ یعنی آنکھ کان ناک دماغ اور چھوکر سیکھتے ہیں اور اسی طریقے سے انھیں سکھایا جاسکتا ہے۔اس طریقے میں از خود سیکھنے اور گروپ میں سیکھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اوراساتذہ بچوں کو مناسب طریقے کی رہنمائی کرتا ہے۔ 

مذکورہ بالا تدریسی نظریات وطریقۂ کارکے علاوہ مہاتما گاندھی،رابندر ناتھ ٹیگور،سرسید احمد خان،ڈاکٹر ذاکر حسین،مولانا ابوالکلام آزاد اور اسماعیل میرٹھی جیسے متعدد ہندوستانی ماہرین تعلیم کے اپنے اپنے نظریات ہیں۔جس سے ماہرین عمرانیات کے تعلیمی حقائق کےانکشاف کی تصدیق ہوتی ہے۔ ان کاماننا ہے کہ تعلیم ایک سماجی ، مسلسل، دطرفہ، متحرک اور ارتقائی عمل ہے(3)اسی لیے تمام ماہرین تعلیم کے نزدیک استاد، طلبا اور مادری زبان کو مرکزیت حاصل ہے۔ گاندھی جی نے بچوں کو ان کی مادری زبان میںتعلیم دینے کی بات کہی ہے۔ گاندھی جی تعلیم کو روزگار کے لیے ایک بیمہ قرار دیتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ بچوں کو غیروں کی تہذیب و تاریخ پڑھانے کے بجائے اپنی تاریخ و تہذیب پڑھانازیادہ ضروری ہے۔اس لیے کتاب کی تعلیم اور ماحول میں ہم آہنگی ہونی چاہیے۔ 

مولوی محمد اسماعیل خاں میرٹھی ماہر نفسیات کے ساتھ ساتھ ماہر تعلیم بھی تھے۔ انھوں نے بچوں کے نصاب پر بہت کام کیا ہے۔ ان کا نظریہ تھا کہ بچے تدریجی طور پر سیکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب “اردو کی پہلی کتاب” میں بچوں کو پہلے حروف تہجی بالترتیب، پھر بے ترتیب،اس کے بعد دو حرفی، سہ حرفی اور آٹھ حرفی لفظوں تک کی تعلیم کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ نورانی قاعدہ اور یسرنا القرآن وغیرہ کی تیاری میں اسی طریقےکا استعمال کیا گیاہے۔ 

ان تمام نظریات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتاہے کہ بچوں کو ان کے ماحول پر مشتمل مضامین پڑھایا جانا چاہیے۔ گفت وشنید کی زبان مادری اور آسان ہو۔بچوں کی تعلیم کے لیے استاتذ ہ کو ہر وہ طریقۂ کار اپنانا چاہئے جس سے کلاس روم میں بچوں میں بولنے، لکھنے، اور اظہار خیال کرنے کی صلاحیت پروان چڑھے۔بچوںسے خوف وحراس اور جھجھک دور ہو۔اس لیے ان کے سوالات کا مثبت طریقے سے جواب دینا، ان کی ہمت افزائی کرناتعلیم وتعلم میں بے حد اہم ہے۔ اس سے طلبا کی بنیادی تعلیم مضبوط ہوگی،ان خود اعتماد اور یقین کے جذبے کے ساتھ ساتھ تحقیق ، بحث مباحثہ اور سوال وجواب کا ملکہ بھی فروغ پائے گا۔ 

حوالہ جاتی کتابیں: 

  1. ابھرتے ہوئے ہندوستانی سماج میں تعلیم: ساجد جمال/عبدالرحیم،مطبوعہ، شپرا پبلیکیشنز دہلی،(ص:60)
  2. اردو زبان: فن تدریس: قمر سلیم، مطبوعہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی،(ص: 55-56)
  3. تعلیمی نفسیات کے پہلو: ڈاکٹر آفاق ندیم/سید معاذ حسن،مطبوعہ ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ (ص:31)
  4. تعلیمی نفسیات: پروفیسر طلعت عزیز، مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی

٭٭٭ 

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.