اردو تنقید مشرقی تصورات و نظریات کے تناظر میں 

محمد شوکت علی 

لیکچرار اردو،اسپائر کالج مناواں،لاہور(پاکستان) 

Email: shouketurdu@gmail.com 

Cell No: 0323-4279788 

  

Urdu Criticism in the Context of Eastern Concepts and Ideas 

Abstract: 

In this article, the concepts and ideas of Urdu criticism have been critically examined. Eastern concepts of Urdu criticism are divided into two parts, ancient and modern. The first part is based on Urdu narration of ancient poets and ancient critical ideas and the second part is tendency from ancient to modern. Principles and rules, meanings and concepts, discipline and discipline in critical theories in the ancient era of Urdu criticism. In the early critical period, critics presented their ideas on the basic issues of poetry and established ancient oriental standards in their ideas. During this period, poets and critics of Urdu criticism were greatly influenced b Arabic and Persian criticism. In the early days of Urdu literature, the influence of Eastern languages and sciences was largely reflected on Urdu poetry and Urdu criticism. The early work of Urdu criticism is evident from the memoirs of the poets of Urdu literature. Urdu criticism begins with tazkirs but modern Urdu criticism begins with the movement of Sir Syed Ahmad Khan. The credit for modern criticism in Urdu goes to Maulana Altaf Hussain Hali’s book “Muqadma Sharo Shaari”. Hali also adopted the influence of Western critical ideas and carried forward the tradition of Eastern Arabic and Persian. In this article, the ideas of Eastern critics have been highlighted in different ways to explain Urdu criticism. Thus Urdu literature is acquainted with new trends, new style, modern practices, modern thinking and modern harmony.  

Key Words: Urdu criticism, Eastern concepts, Examind, Ancient to modern, Influenced, Modern harmony. Acquainted. 

اردو تنقید کے مشرقی تصورات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا حصہ قدیم شعراء کے اردو کے تذکروں اور قدیم تنقیدی تصورات پر منحصر ہے اور دوسرا حصہ اردو تنقید کا قدیم سے جدید کی طرف مائل ہونا ہے اور یہ مولانا الطاف حسین حالیؔ کی ”مقدمہ شعر و شاعری“ کی اشاعت سے ہوتا ہے جس میں اردو تنقید کے بنیادی اصول و ضوابط کو قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ا ردو تنقید کے قدیم دور میں تنقیدی نظریات میں اصول و ضوابط، معانی و مفاہیم، نظم وضبط اور تنقیدی تصورات میں عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ ابتدائی تنقید کے دور میں شاعری کے بنیادی مسائل پر نقادوں نے اپنے تصورات کو پیش کیاہے، لیکن ان کے نظریات و تصورات میں قدیم مشرقی معیارات کی جھلک نظر آتی ہے۔ اس دور میں شاعروں نے اردو کے تذکروں میں اپنے تنقیدی شعور کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے اور اس دور کے شاعر اور نقاد عربی اور فارسی کی تنقید سے کافی متاثر تھے۔ اردو تنقید میں مشرقی تصورات نے عربی اور فارسی تنقید سے بہت اثر قبول کیا ہے۔ اردو شاعری پر فارسی اور عربی دونوں زبانوں نے اپنے اثرات کو مرتب کیا ہے اور ابتدائی دور کے شعراء کی شاعری میں فارسیت کا زیادہ اثر پایا جاتا ہے۔ اردو ادب کے شعراء جن میں فارسی زبان کا اثرزیادہ واضح نظر آتا ہے۔ امیر خسروؔ، مصحفیؔ اور غالبؔ کے ہاں بھی فارسی زبان کی اثرپذیری پائی جاتی ہے۔ اردو ادب کے ابتدائی دور میں مشرقی زبانوں اور علوم کے اثرات اردو شاعری اور اردو تنقید پر کافی حد تک منعکس کیے گئے۔ اس دور میں اردو تنقید کا جو ابتدائی نوعیت کا کام نظر آتا ہے وہ اردو ادب کے شاعروں کے تذکروں کی شکل میں ہے۔ 

اردو تنقید ابتداء میں تذکروں کی شکل میں نمودار ہوتی ہے اور بعد میں ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے جس میں الطاف حسین حالیؔ تنقید پر ایک کتاب ”مقدمہ شعر وشاعری“ ۱۸۹۳ء میں مرتب کرتے ہیں۔ حالی ؔ کی یہ کتاب اردو تنقید کی نوعیت سے ایک عظیم کاوش ثابت ہوتی ہے۔ حالیؔ تنقید کے نئے نئے انداز اور طریق کار سے اردو تنقید کے نقادوں کو متعارف کرواتے ہیں اور اردو تنقید میں جدید تنقید کا آغاز کرتے ہیں۔ ان سے پہلے اردو ادب میں تنقیدی لحاظ سے اس قدر بلندپایہ کی کوئی کتاب نہیں ملتی ہے جس پر تنقیدی بنیاد کو کھڑا کیا جا سکے۔ حالیؔ نے مغربی تنقیدی تصورات سے اثر قبول کیا اور مغربی تنقید کے اثرات کو اردو تنقید میں شامل کیا۔ انھوں نے مغربی تنقیدی اثرات ہی کو قبول نہ کیا بلکہ مشرقی عربی اور فارسی کی تنقیدی روایت کو بھی تقویت بخشی۔ حالی ؔ نے مغربی اثر پذیری کو قبول کرتے ہوئے عربی اور فارسی کی تنقیدی روایت کو مزید فوقیت دی اور اردو ادب کی تاریخ میں تنقیدی لحاظ سے ایک عظیم الشان کام کو سرانجام دیا۔ اردو تنقید کے مشرقی تصورات کی وضاحت کرنے کے لیے مشرقی ناقدین کے تصورات کو الگ الگ نوعیت سے پیش کیا گیا ہے۔ 

مولانا الطاف حسین حالیؔ اردو ادب کے ایک قدآور شخصیت ہیں۔ وہ بیک وقت شاعر، ادیب، سوانح نگار اور نقاد ہیں۔ انھوں نے اردو ادب کے مختلف شعبوں میں اہم مقام حاصل کیا ہے۔ وہ ایک بلندپایہ کے شاعر، صاحب طرز ادیب، باذوق سوانح نگار اور وسیع النظر نقاد کی حیثیت سے اردو ادب میں ہمیشہ زندہ اور جاوید رہیں گے۔ حالیؔ ،سر سید احمد خاں کی تحریک اور ان کی شخصیت سے بہت زیادہ متاثر تھے اور سر سید کے کہنے پر ہی انھوں نے مسدس حالیؔ  تصنیف کو مرتب کیا۔ حالیؔ نے اردو ادب میں پرانی شاعری کے طرز کو نئے اسلوبِ شعر کی طرف راغب کیا اور اردو شاعری میں نئے رجحانات کو متعارف کروایا۔ انھوں نے اردو ادب میں شاعری کو جدید طرز عمل اور جدید اندازفکر میں شعر کہنے کی طرح ڈالی اور اردو ادب کے ووسرے شعراء کو جدید فکر اور جدید آہنگ میں شاعری کرنے کی طرف متوجہ کیا اور اردو نظم و ادب میں جدید رجحان کو متعارف کرایا۔ اس وقت میرا موضوع حالیؔ کی تنقیدی کاوشوں کو بروئے کار لانا ہے اور اردو تنقید کے مشرقی تصورات کو اجاگر کرنا ہے۔اردو تنقید میں حالیؔ  کی بلندپایہ کتاب”مقدمہ شعر وشاعری“ ہی ہے لیکن ان کی دوسری کتابوں میں بھی کہیں کہیں تنقیدی تصورات نمایاں ہوتے ہیں۔ حیات جاوید، یادگار غالبؔ اور حیات سعدیؔ ان کی سوانح عمریوں کی تصانیف ہیں، لیکن ان کی ان سوانح عمریوں میں بھی تنقیدی خیالات و تصورات موجود ہیں۔ ان کے علاوہ ان کے کچھ مضامین کو انجمن ترقی اردو نے ”مقالات حالی“ کے نام سے دو حصوں میں شائع کر دیا ہے۔ ان مضامین میں بھی تنقیدی نظریات و تصورات مرتب کیے گئے ہیں۔ حالیؔ نے اردو تنقید میں نئے اندازفکر اور رجحان کو پید اکیا ہے جس نے اردو ادب میں تنقیدی نوعیت میں بہت اہم کام سرانجام دیا ہے۔پروفیسر ممتاز حسین حالیؔ کے بدلتے ہوئے رجحان کے ضمن میں رقم طراز ہیں: 

”خواجہ الطاف حسین حالیؔ ۷۳۸۱ء میں پیدا ہوئے لیکن صحیح معنوں میں اپنے سن شعور کو ۷۵۸۱ء کے ہنگاموں کے بعد پہنچے۔ حالیؔ نے اس بغاوت کے معرکوں میں مغرب کی خودبخود چلنے والی بندوق اور دخانی کشتیوں کو مشرق کی توڑے دار بندوق اور بادبانی کشتیوں سے جنگ کرتے ہوئے دیکھا۔ ایشیا کی مطلق العنان شاہیت کے غیرمنظم جاں نثاروں کو مغرب کی آہنی شاہیت کے آزاد انسانوں سے دست و گریباں پایا۔حالیؔ نے مفلوک الحال کسانوں کی تباہ حال دست کاروں اور بے روزگار شرفاء کو اپنے عیوب سے بے خبر اپنی تباہی نہ بربادی کے لیے مغرب کا شکوہ منج دیکھا۔“(۱) 

مولانا الطاف حسین حالیؔ نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے حالات کا بغور مطالعہ کیا اور اپنی آنکھوں سے انگریزوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کی منظرنگاری کی کیفیات کو محسوس کیا۔ جس نے حالیؔ کے جذبات و احساسات کو بدل کر رکھ دیا اور ان کو جدید اور متحرک انداز میں سوچنے پر مجبو رکر دیا اور حالیؔ میں جدید رجحانات نے تقویت پائی اور انھوں نے نئے اندازفکر میں اردو ادب میں اپنی خدمات کو سرانجام دینا شروع کیا۔’’مقدمہ شعروشاعری‘‘ مولانا الطاف حسین حالیؔ کا تنقیدی شاہکار ہے اور یہ ان کے دیوان کا مقدمہ ہے۔ اسے اردو میں اصول تنقید کی سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کتاب میں حالی ؔ نے شعری صنف کے مختلف رجحانات کو مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔ ”مقدمہ شعر وشاعری“ میں شاعری کے متعلق مختلف رجحانا ت کو پیش کیا گیا ہے جیسے شعر کی ماہیت، شعر کی ضرورت، شعر کی خوبیاں، سادگی، اصلیت، جوش، بری شاعری کے نقصانات، شاعری کی شرائط، شاعری کا سماج کے ساتھ تعلق، کائنا ت کا مطالعہ، نیچرل شاعری اور آمد اور آورد وغیرہ۔ یہ کتاب اردو ادب میں تنقید کی پہلی کتاب ہے جس میں شاعری کی بہت سی خوبیوں اور خامیوں کو موضوع تنقید بنایا گیا ہے۔ یہ کتاب ۱۸۹۳ء میں شائع ہوئی۔ 

’’یادگار غالبؔ‘‘ بھی تنقیدی حیثیت کی حامل کتاب ہے اس میں بھی تنقیدی خیالات و تصورات کو پیش کیا گیا ہے۔ اس میں مرزا غالبؔ کی سوانح عمری کو بیان کیا گیا ہے اور ان کی حیات جاوید اور غالبؔ کے مقام مرتبے پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کتاب میں بھی شعری محاسن کو پرکھنے اور سمجھنے کے لیے تنقیدی تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے غالبؔ کی حیات کے بارے میں واقفیت حاصل ہوتی ہے اور غالبؔ اردو ادب کے عظیم شاعر ہیں۔ اس لیے ان کی سوانح عمری کو حالیؔ نے ترتیب دیا۔ ”یادگار غالب“ کی بدولت ہم اردو ادب کے اس معروف شاعر کی زندگی سے آشنا ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ ان کی شاعری اور مقام و مرتبے سے بھی واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ یہ کتاب ۱۸۹۸ء میں منظرعام پر آئی یہاں اس کا ذکرکرنا اس لیے بہتر سمجھا کہ غالبؔ اردو ادب کے ایک قدآور شاعر ہیں۔ حال آں کہ حیات سعدی اس سے بھی پہلے شائع ہو چکی تھی۔ ۱۸۸۲ء میں ”یادگار غالب“ سے نہ صرف شاعر کی سوانح عمری سے آشنائی ہوتی ہے بلکہ اس میں اردو تنقید کے متعلق بہت سے شاعرانہ مسائل کے حل پربھی بحث موجود ہے۔ 

’’حیات جاوید‘‘ حالیؔ کی ایک اور منفرد شاہکار تصنیف ہے۔ اس میں انھوں نے سر سید احمد خاں کی سوانح عمری کو پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں حالیؔ نے سر سید کی زندگی کے حالات و واقعات کو جامع انداز میں پیش کیا ہے اور ان کی معاشرتی، مذہبی، سیاسی اور سرکاری خدمات کو تنقیدی پیش منظر میں پیش کیا ہے۔ اس تصنیف میں قومی، ملی، سیاسی اور سماجی پہلوؤں کو ادبی تنقید کی نسبت زیادہ اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ کتاب بھی اپنی نوعیت کی ایک منفرد کتاب ہے اور ۱۹۰۱ء میں شائع ہوئی۔ سر سید احمد خاں نے اردو ادب میں نئے رجحان اور ادبی خدمات میں اعلیٰ پایہ کا کام کیا ہے اور آج تک ان کو ادبی دنیا میں یاد کیا جا رہا ہے اور اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے اپنا مقام اور مرتبہ قائم کر گئے ہیں۔ 

’’حیات سعدیؓ‘‘ بھی سوانح عمری ہے اور یہ بھی ایک بلندپایہ کی کتاب ہے۔ یہ تصنیف ۱۸۸۲ء میں شائع ہوئی۔ اس تصنیف میں سعدیؒ کی حالات زندگی، شاعری اور نثرنگاری پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کتاب میں حالی ؔ نے سعدیؓ کے کلام پر تنقیدی روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے سعدی کی غزلوں، قصیدوں اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کو تنقیدی انداز میں واضح کیا ہے ، شاعری اور ان کے کلام کی خصوصیات کو تنقیدی نوعیت سے پیش کیا ہے۔ حالیؔ کے اردو تنقید کے نظریاتی و تصورات کو ابھارنے میں ان کے ذہنی رجحان اور معاشرتی اثرات کو بڑا عمل دخل ہے۔ وہ زمانے کے ساتھ تغیر وتبدل کے ساتھ متحرک رہنے اور اپنے آپ کو بدلتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے قائل ہیں۔ ان کے تنقیدی شعور نے معاشرتی ناہمواریوں اور ان کو درست کرنے کی خواہش نے بڑی حد تک مدد کی ہے۔ حالیؔ حالات کی خرابیوں کو درست کرنے اور ان کو زمانے کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے قائل رہے ہیں۔ ان کے تنقیدی نظریات میں مغربیت پسندی کا عنصر کافی حد تک کارفرما ہے۔ حالیؔ ترقی پسند اور جدیدیت کے عوامل کو اپنی ذہنی استعداد کے ذریعے اپنے تنقیدی تصورات میں اجاگر کرتے ہیں۔ حالیؔ کے تنقیدی تصورات کو تقویت دینے میں جہاں ذہنی کاوش اور سماجی حالات و واقعات کی کارفرمائی ہے وہاں سر سید، مرزا غالبؔ اور نواب مصطفی خاں شیفتہؔ کی مجلسوں نے بھی حالیؔ کے تنقیدی افکار کو روشنی بخشی ہے۔ 

سر سید احمد خاں قوم کے نباض شناس تھے۔ ان کے خیالات ملت کی بقاء، مذہبی امو رکی پاسداری، اخلاقی اور سیاسی طور پر بہت گہرے تھے جن کی باعث حالیؔ پر بھی بہت اثر ہوا۔ سر سید کے علاوہ غالبؔ حالیؔ کے استاد تھے ان کی صحبت سے ان کے شاعری کے تنقیدی نظریات میں کافی اضافہ ہوا۔ نواب مصطفی خاں شیفتہ سے بھی انھوں نے فارسی اور اردو شاعری کے محاسن کو سمجھنے میں کافی مدد لی۔ شیفتہؔ اور غالبؔ بازاری الفاظ و محاور ات اور عامیانہ خیالات سے دونوں بدظن تھے اور شاعری کو مبالغہ آرائی سے پاک کر کے فنی خوبیوں سے آراستہ وپیراستہ کرنے کے قائل تھے۔چھچھورے خیالات اور مبالغہ آمیزی سے نفرت کرتے تھے اور شاعری کو حسین جمیل انداز میں پیش کرنے کے قائل تھے۔ ان تمام چیزوں سے حالیؔ کے تنقیدی شعور میں اضافہ ہوا اور انھوں نے اردو تنقید کو ایک نئے اور منفردراستہ اختیار کرنے کی طرح ڈالی۔ حالی ؔ اپنے تنقیدی نظریات میں فنون لطیفہ کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک شاعری اور فنون لطیفہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ وہ شاعری کے ذریعے زندگی کے مثبت پہلوؤں کو اجاگرکرنا چاہتے ہیں۔ وہ شاعری میں اچھائی اور برائی دونوں پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک شاعری کا مقصد عوام کی خدمت اور ان کے درمیان شعور وآگہی پید اکرنا ہو نہ کہ کسی منفی اثرات کی طرف قائل کرے۔ وہ شاعری کے ذریعے عوام الناس کی خدمت خلق کے قائل ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ شاعر یا ادیب کے سامنے عوام کی بہتری کے لیے نصب العین ہونا چاہیے۔ وہ افلاطون کی طرح شاعروں کو جمہوریت سے نکالنے کے قائل نہیں ہیں بلکہ وہ شاعر کو عوام کی ترقی اور ان کے شعور کو اجاگر کرنے والی شاعری پر اکساتے ہیں اور شعراء کی فنی کاوشوں میں عوام کی بہتری کے اصولوں اور قوانین کو تلاش کرنے کے خواہاں ہیں۔’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ مولانا حالیؔ کا تنقیدی شاہکار ہے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: 

(i) حصہ اوّل میں شعر کی تعریف، اس کی افادیت و اہمیت اور الفاظ ومعانی کی اہمیت کو موضوع تشریح بنایا گیا ہے اور شاعری کے بنیادی اصولوں کو ترتیب دیا گیا ہے۔ تنقیدی نظریات میں عربی کے معیار تنقید اور مغربی تنقید کے تصورات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ 

(ii) حصہ دوم میں اردو کی اہم اصناف ادب کی تعریف و اہمیت کے معیار کو اجاگر کیا گیا ہے۔  

حالیؔ نے ”مقدمہ شعر وشاعری“ میں شعری اصناف کے بارے میں جو نظریات و تصورات پیش کیے ہیں ان میں عرب نظریاتی اور مغربی مفکرین کے افکار دونوں سے استفادہ کیا گیا ہے اور پھر انھوں نے شعر و سخن کے لیے اصول و ضوابط قائم کیے ہیں۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی شعر وشاعری پر حالیؔ کے تصورات کو پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 

”شعر و شاعری کی ماہیت کے متعلق انھوں نے جو خیالات پیش کیے ہیں وہ بہت وسیع مطالعہ کا نتیجہ نہیں ہیں چناں چہ اس سلسلے میں وہ صرف لارڈ مکالے کا قول نقل کرتے ہیں۔ اس قول کو بھی انھوں نے شاید سن لیا تھا۔ مکالے کی ان دنوں بڑی شہرت تھی۔ وہ ہندوستانیوں کی تعلیم کے سلسلے میں بہت مشہور ہو چکا تھا۔ ہندوستانی اور خصوصاً مسلمان اس کی شخصیت کو بہت اہم سمجھتے تھے۔ شاید حالیؔ کے مکالے کا قول نقل کرنے کی وجہ یہ بھی ہے۔ اسی کے خیالات کو سامنے رکھ کر انھوں نے چند نتائج نکالے ہیں اور خصوصیات کے ساتھ ملٹن کی شاعری کے متعلق اس کا مضمون اپنے سامنے رکھا ہے جس میں اس نے شاعری اور تہذیب کی ترقی، اس کے عناصر، اس کی ماہیت اور پھر ان سب کی روشنی میں ملٹن کی شاعری پر تنقیدی نظر ڈالی ہے۔“(۲) 

حالیؔ شعر وشاعری میں مغربی مفکرین کے تنقیدی افکار سے بھی متاثر ہیں اور جو ادبی خصوصیات ان کو مغربی علوم میں بھلی معلوم ہوتی ہیں۔ وہ ان سے استفادہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی حالیؔ کے تنقیدی نظریات کو مشرق ومغرب کے تناظر میں دیکھتے ہیں: 

”حالیؔ کے تنقیدی نظریات بہت اہم ہیں۔ ان میں مشرق و مغرب کے تنقیدی نظریات کا امتزاج موجود ہے۔ ان دونوں کو انھوں نے پیش کیا ہے۔ دونوں پر بحث بھی کی ہے۔ دونوں کا مقابلہ بھی کیاہے لیکن ترجیح انھوں نے مغربی نظریات ہی کو دی ہے۔ کیوں کہ ان کے اندر انھیں زیادہ جامعیت نظر آتی ہے۔ ان کے یہ تنقیدی خیالات و نظریات گہری سوچ کا نتیجہ ہیں۔ ان میں خلوص ہے سچائی ہے، بے تکلفی ہے، تصنع اور بناوٹ سے یہ بالکل پاک ہیں۔ انھوں نے جو صوری و معنوی دونوں پہلوؤں کو شعر کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔ نیچرل شاعری کی جو اہمیت ظاہر کی ہے سماج اور شاعری کے تعلق پر جو بحث کی ہے۔ شعر کے لیے جن عناصر کو ضروری قرار دیا ہے۔ شعر کی ماہیت اور اس کی ضروریات پر جو روشنی ڈالی ہے ان سب سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ وہ شعر کی صحیح اسپرٹ سے واقف تھے ان کو اس کی اہمیت اور ضرورت کا بھی بخوبی اندازہ تھا اور اسی وجہ سے انھوں نے یہ اصول قائم کیے تاکہ اس کو صحیح طریقے سے سمجھا اور پرکھا جا سکے۔“(۳) 

حالیؔ مشرقی تصورات کی نسبت زیادہ مغربی نظریات و خیالات سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں کیوں کہ مغربی تنقید نگاروں نے شعر و ادب میں سماجی معنویت پر زیادہ زور دیا ہے اور انھوں نے معاشرتی پہلوؤں کو زیادہ اجاگر کیا ہے۔ وہ شعر کی ظاہری خوبصورتی کی بجائے اس کے معانی و مفاہیم پر زور دیتے ہوئے مخصوص اصولوں کو قائم کرتے ہیں۔ انھوں نے شعر و شاعری کو بناوٹ اور مرصع سازی سے آزاد کر کے حقیقت نگاری کے پہلوؤں کو پرکھنے پر ترجیح دی ہے اور ان تمام اصولوں کو پرکھنے پر ترجیح دی ہے اور ان تمام اصولوں و ضوابط کو وہ مغربی تنقید نگاری اور ادبی اصناف میں محسوس کرتے ہیں۔حالیؔ غزل کی ہیئت کو پسند کرتے ہیں کیوں کہ اس صنف ادب میں انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا جا سکتا ہے۔ وہ اس کے معانی اور اصلاحی صورتوں کو پیش کرنے کے قائل ہیں۔ وہ شعر و شاعری میں اخلاق، اصلیت اور حقیقت کو روشناس کراتے ہیں۔ وہ ”مقدمہ شعر وشاعری“ میں غزل کی اصلیت، جوش اور سادگی کو دیکھنے کے قائل ہیں اور انھوں نے قصیدہ، مثنوی اور مرثیہ میں بھی اسی اصول کو قائم کرنے کے کوشش کی ہے۔ حالیؔ اپنے تنقیدی خیالات و نظریات کے اصولوں کو سوانح عمریوں میں بھی ان ہی اصولوں و ضوابط کو متعارف کرواتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ”یادگار غالب“ میں ان کے محاسن کلام کو بیان کرتے ہیں اور ”حیات جاوید“ اور ”حیات سعدیؒ“ میں بھی اخلاقی، ملی، مذہبی اور سیاسی نوعیت کے پہلوؤں کو اپنے تنقیدی خیالات و نظریات میں پیش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی، حالیؔ کی اردو تنقید کے حوالے سے لکھتے ہیں: 

”حالیؔ اردو کے پہلے نقاد ہیں جنھوں نے ایک منظم اور مربوط شکل میں تنقیدی نظریات کو پیش کیا۔ حالیؔ سے قبل بھی اردو میں تنقیدی شعور موجود تھا لیکن اس کی حیثیت ادنیٰ درجے کی تھی معیار،ذوق اور وجدان کو سمجھا جاتا تھا۔ جو چیز پسند آئی تھی وہ اچھی تھی، جو پسند نہیں آئی تھی وہ ادنیٰ درجے کی تھی لیکن ان کی بھی تفصیل پیش کرنے کو ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا اگرکوئی بڑی ہمت کر کے تفصیلات میں جاتا بھی تھا تو اس کے ذہن کی رسائی اس سے آگے نہیں ہوئی تھی کہ وہ الفاظ اور محاور ات کی خوبیوں کا ذکر کر دے۔ بندش کی چستی پر روشنی ڈال دے اور عروض کے اعتبار سے اس کی اچھائیاں اور برائیاں بیان کر دے۔ بقول ڈاکٹر عبدالحق پہلے تنقید کا مدار شعر کے ظاہر پر تھا مثلاً محاور ہ درست ہے یا نہیں۔ زبان کی تو کوئی غلطی نہیں۔ بندش کیا ہے؟ قافیہ ٹھیک بیٹھا ہے یا نہیں۔ تعقید تو نہیں وغیرہ وغیرہ۔ غرض یہ کہ تنقید منظم اور مربوط شکل میں موجود ہی نہیں تھی اور جو موجود تھی اس کو اعلیٰ درجے کی تنقید نہیں کہا جا سکتا۔“(۴) 

حالیؔ اردو کے پہلے نقاد ہیں جنھوں نے اردو میں تنقیدی شعور پید اکیا۔ انھوں نے اردو تنقید میں معانی اور مفاہیم کو سمجھنے اور پرکھنے کا رواج قائم کیا۔ ان سے پہلے صرف صرف زبان وبیان، قافیہ بندی اور قواعد کو ہی دیکھا جاتا تھا کہ درست ہیں کہ نہیں۔ حالیؔ کی تنقیدی کاوشوں سے اردو تنقید میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ انھوں نے ادب کے ذریعے قومی، ملی، اخلاقی، سیاسی و معاشی اور سماجی پہلوؤں پر زور دیا اور اس طرح ترقی پسند تنقید اور جدید تنقید کی ابتداء حالیؔ کے یہاں بھی نظر آتی ہے۔حالیؔ کو اردو تنقید میں نقاد اوّل کی حیثیت حاصل ہے جنھوں نے تنقیدی نظریات کو بڑی عمدگی سے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”مقدمہ شعر و شاعری“ پیش کیا ہے۔ ان کے تنقیدی نظریات و تصورات نے تنقید کے معیار کو بلند مقام عطا کیاہے۔ ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی، حالیؔ کے مشرقی تصورات کے ضمن میں لکھتے ہیں: 

”حالیؔ سادگی اور جوش کی اصطلاحات کی تشریح بھی مشرقی تصورات شعر کی مدد سے کرتے ہیں۔ سادگی پر تو انھوں نے زیادہ مبسوط گفتگو نہیں کی اور نہ سادگی پر ان کے خیالات میں کسی نکتہ رسی کا اندازہ ہوتا ہے البتہ ”جوش“ کی خوبی ان کو عربی اور فارسی شاعری میں کماحقہ ملتی ہے۔ فارسی کے شعراء میں خاقانیؔ، فردوسیؔ اور نظیریؔ کے اشعار سے مثالیں دیتے ہیں اور عربی شاعری کو تمام زبانوں کی شاعری کے بالمقابل جوش کی صفت کے اعتبا رسے ممتاز ثابت کرتے ہیں …… حالیؔ اسی پر بس نہیں کرتے کہ سادگی، اصلیت اور جوش کی وضاحت کے لیے عربی اور فارسی شاعری سے دلیلیں ڈھونڈ کر خاموش ہو جائیں، وہ شاعری کی ان تینوں خوبیوں پر مدلل گفتگو کرنے کے بعد ایک بار پھر ملٹن کے خیال کی تطبیق مشرقی نقادوں میں سے کسی نقاد کے نظریہ شعر سے کرنا چاہتے ہیں۔“(۵) 

اردو تنقید میں حالیؔ مشرقی تصورات کا بھی بھرپور استعمال کرتے ہیں اور ان سے بھی اپنے تنقیدی نظریات کو فروغ دیتے ہیں۔ مشرقی تصورات میں حالیؔ عربی اور فارسی دونوں زبانوں کے ادب سے اپنی تنقیدی افکار کو اجاگر کرتے ہیں اور اردو تنقید کو ایک نئے انداز سے پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ فارسی میں خاقانیؔ، فردوسیؔ، حافظؔ اور نظیریؔ کے اشعار سے مثالیں لیتے ہیں اور اپنے تنقیدی نظریات کو مزید ترویج دیتے ہیں۔ حالیؔ جہاں مشرقی شعراء اور ادیبوں کے افکار سے متاثر نظر آتے ہیں اس کی نسبت وہ مغربی شعراء ملٹن اور لارڈ میکالے سے اور بھی زیادہ استفادہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی،حالیؔ کے شاعر کے بارے میں تصور کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: 

”حالیؔ نے مقدمہ شعر وشاعری میں جن بنیادی باتوں کو بڑی وضاحت سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے، ان میں ایک اہم اور بنیادی بات یہ بھی ہے کہ ان کے خیال میں شاعری کرنے کے لیے شاعر میں ایسی خصوصیات ہونی چاہئیں جو اسے غیرشاعر سے تمیز کر سکیں۔ حالیؔ کہتے ہیں کہ یہ تین خصوصیات تخیل، کائنات کا مطالعہ اور تفحص الفاظ ہیں …… تخیل پر بحث کرتے ہوئے بعض نقادوں نے بجا طور پر یہ کہا ہے کہ حالیؔ نے تخیل کی تعریف میں کولرج کی کتاب BIOGRAPHIA LITERARIA سے استفادہ کیا ہے مگر یہ بات بھی غلط نہیں کہ تخیل کے یونانی تصور تک حالیؔ کی رسائی عہد عباسی کے عرب نقادوں کی کتابوں کے توسط سے ہوئی تھی…… اس کا ثبوت تخیل کے ساتھ تفحص الفاظ اور مطالعہ کائنات جیسی شرطوں کے اضافے سے بھی ملتا ہے۔ حالیؔ تخیل کی تعریف کرتے ہوئے فینسی اور امیجنیشن کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔ وہ کبھی یہ کہتے ہیں کہ ”یہ وہ طاقت ہے جو شاعر کو وقت اور زمانے کی قید سے آزاد کرتی ہے اور ماضی ومستقبل کو اس کے لیے زمانہ حال میں کھینچ لاتی ہے۔“(۶) 

حالیؔ نے مقدمہ شعر وشاعری میں شاعر اور اس کی خصوصیات کی وضاحت کی ہے کہ شاعر میں تخیل، کائنات کا مطالعہ اور تفحص الفاظ کا موجو دہونا ضروری ہے۔ تخیل کے بارے میں حالیؔ نے مغربی اور مشرقی عہد عباسی کے نقادوں کے خیالات اور تصورات سے متاثر ہوتے ہیں۔ حالیؔ کے نزدیک شاعر میں تخیل اور تفحص الفاظ کا بہترین استعمال اسے بلند معیار کی چوٹیوں پر لے جائے گا اگر خیال اور الفاظ میں میں ہم آہنگی نہیں ہے تو وہ شاعری بے کار اور غیرمعنی ہو گی۔ حالیؔ آمد کی بجائے آورد کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ شعر میں دو چیزیں ہوتی ہیں خیال اور الفاظ، ہو سکتا ہے کہ خیال تو شاعر کے ذہن میں جلدی آ جائے مگر اس کے لیے مناسب الفاظ کو ترتیب دینا ایک ضروری امر ہے۔حالیؔ کے نزدیک آمد سے زیادہ آورد شعر کی بے ساختگی اور برجستگی میں اضافہ کرتی ہے۔ کیوں کہ آورد میں الفاظ پر غوروخوض اور اصلاحی معاملات کو پیش نظر رکھ کر کلام تخلیق کیا جاتا ہے اور اس میں اصلاحی مفہوم زیادہ کارفرما ہوتا ہے۔ حالیؔ مشرقی عرب قائدین سے کافی متاثر ہیں اور عرب ناقدین میں ابن رشیق کے تنقیدی خیالات سے متاثر ہیں۔ عرب ناقدین بھی آمد کی بجائے آورد کوزیادہ ترجیح دیتے ہیں اور غوروخوض کو اہمیت دیتے ہیں۔ حالیؔ عرب کے پرانے ناقدین کے خیالات سے خوب آشنا ہیں اور تفحص الفاظ کے معاملے میں ان کے تصورات سے استفادہ کرتے ہیں۔عرب ناقدین میں حالیؔ ابن رشیق اور ابن خلدون دونوں کے خیالات و تصورات سے متاثر ہیں اور وہ شعر میں الفاظ کے اچھے استعمال کے ساتھ ساتھ اس کے بہترین معنی ومفہوم پر بھی زو ردیتے ہیں۔ وہ لفظ کی خرابی معنی کی خرابی اور معنی کی خرابی لفظ کی خرابی کے نقص کی وضاحت کرتے ہیں۔ وہ اصل حسن الفاظ اور معانی کے خوبصورت مفاہیم میں سمجھتے ہیں۔ حالیؔ ابن خلدون، ابن رشیق اور جاحظ جیسے عرب نقادوں کی کتابوں سے الفاظ اور معانی کے مناسب استعمال کو شاعری کی بہتری اور عمدگی کی مثالیں قرار دیتے ہیں۔ 

حالیؔ شاعری میں مبالغہ انگیزی اور جھوٹی باتوں کے استعمال کرنے کی تردید کرتے ہیں۔ وہ شعر میں اصلیت اور حقیقت نگاری کے قائل ہیں۔ وہ شاعری کے ذریعے اصلاحی کام کرنے، تزکیہ نفس اور اخلاقی عادات کو بروئے کار لانے کی تلقین کرتے ہیں۔ حالیؔ کے مقدمہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے قدیم عربی تنقید کے بارے میں حالیؔ نے سب سے زیادہ استفادہ ابن رشیق کی کتاب ”العمدہ“ سے کیا ہے۔ ابن رشیق نے اپنی اس کتاب میں قرآن، احادیث اور خلفائے راشدین کے تصورات کو بڑی حد تک بیان کیا ہے۔ حالیؔ پر ابن رشیق کے خیالات ونظریات کا کافی حد تک اثر ہے کیوں کہ وہ شعری محاسن میں مبالغہ، غلو اور جھوٹ کی نسبت اصلیت، اخلاقیات اور اصلاحی شاعری پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ عرب دور میں بھی مبالغہ پذیر شاعری ہوتی تھی لیکن حالیؔ کا رجحان اس کی طرف کم ہوا ہے۔ مذکورہ مباحثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حالیؔ شاعری میں سماجی قدروں کی اصلاح اور معاشرتی ترویج کے لیے حقیقت پسند شاعری کو پسند کرتے ہیں اور شاعری میں تنقید کے منفرد اصول وضوابط کو قائم کرتے ہیں۔ 

مولانا شبلیؔ نعمانی اردو وادب کے بیک وقت ادیب، شاعر، محقق اور نقاد تھے۔ انھوں نے اردو ادب پر گہرے اثرات تنقیدی نظریات و تصورات کے زیراثر مرتب کیے۔ شبلیؔ نے شعر وشاعری، نثر میں جہاں اعلیٰ کام سرانجام دیا ہے وہاں اردو تنقید میں بھی ایک منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ جس طرح حالیؔ نے سر سید احمد خاں کی شخصیت سے اثر قبول کیا تھا۔ شبلیؔ بھی ان کی شخصیت سے متاثر تھے۔ شبلیؔ حالیؔ کے بعد اردو تنقید پر جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ انھوں نے کئی دلکش اور اہم تنقیدی تصانیف مرتب کیں ہیں۔ شبلیؔ ایک قدآور محقق، مورخ، ادیب، شاعر اور تنقید نگار تھے۔ شبلیؔ نے اردو ادب میں مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ انھوں نے شاعری، نثر اور تنقیدی پہلوؤں کو زیادہ اجاگر کیاہے۔ ان کی ادبی کارناموں میں مذہب، تاریخ اور سماجی عناصر موجود ہیں۔ ان کی تنقیدی تصانیف میں ادب اور زندگی کے پہلوؤں کو نمایاں اندا زمیں پیش کیا گیا ہے۔تنقیدی تصانیف میں شعر العجم شبلیؔ کی اہم تصنیف ہے۔ اس کی تمام جلدوں میں تنقیدی تصورات و خیالات کو بیان کیا گیا ہے، لیکن تنقید کے لحاظ سے جو مقام چوتھی جلد کو حاصل ہے وہ بڑی ا ہمیت کا حامل ہے۔ اس کے علاوہ ”موازنہ انیس و دبیر“، ”سوانح مولانا روم“ اور ان کے مقالات جو انھوں نے مختلف رسائل میں لکھے ان میں بھی تنقیدی تصورات اور خیالات کی جھلک موجود ہے۔ 

’’شعرالعجم‘‘ مولانا شبلیؔ کی ایک شہرہ آفاق تصنیف ہے۔ اس میں انھوں نے فارسی شاعری کی تاریخ اور اس کے ارتقاء کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ اس میں شاعری کے اصلی عناصر، محاکات، تخیل اور حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل کتاب ہے۔ اس کے پہلے اور چوتھے باب میں شعر و شاعری اور شاعری کے تنقیدی تصورات و خیالات کو پیش کیا گیا ہے۔ شعر العجم میں شبلیؔ نے شعری عناصر کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں تشبیہ، استعارے، حسن الفاظ، معنی آفرینی، جدت اور لطف ادا، سادگی و سلاست، فصیح اور مانوس الفاظ اور جملوں کے اجزاء کو پیش کیا ہے۔ اس میں اشعار کا حسین چناؤ اور فارسی شاعری کی بہترین پیش کش کا انداز ہے۔ 

”موازنہ انیس و دبیر“ مولانا شبلیؔ نعمانی کی ایک منفرد تصنیف ہے۔اس میں انھوں نے اردو کے دو عظیم و معروف مرثیہ نگار شاعر میر انیسؔ اور میرزا دبیرؔ کے امتیاز کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ شبلی ؔ ان دونوں شعراء کے شعری امتیازات کو اپنے شعری اصنا ف کی ممد و معاون پیش کرتے ہیں۔ اس کتاب کے مطالعہ سے انیس و دبیر دونوں شاعروں کے کلام کے محاسن و معائب قاری کے سامنے آ جاتے ہیں اور زبان و بیان کی خصوصیات و اہمیت بھی واضح ہو جاتی ہے۔ اس تصنیف کے ذریعے تنقید کے مشرقی افکا ر و نظریات کی عکاسی ہوتی ہے اور تنقید کے لیے ایک خاص نقطہ نظر کی پیش گوئی بھی ہوتی ہے۔مولانا شبلیؔ نعمانی نے ایک اور ادبی شاہکار مولانا روم کی سوانح پر تصنیف کیا ہے۔ ان کی یہ تصنیف مولانا روم کی سوانح پر مشتمل ہے۔ اس میں شبلیؔ نے مولانا روم کی زندگی اور ان کی تصانیف کو زیربحث پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں شبلیؔ نے زیادہ تر تصوف اور فلسفہ کو موضو ع بحث پیش کیا ہے اور ان عوامل کے مسائل کو زیرغور رکھا ہے لیکن پھر بھی ان کی اس تصنیف میں تنقیدی تصورات اور خیالات منظرعام پر آتے ہیں۔ تنقیدی نظریات تو کم ملتے ہیں لیکن ان کی قدر وقیمت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ مولانا شبلیؔ کے مقالات اور تبصروں کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ان کے یہ مقالات اور تبصرے ”الندوہ“ اور مختلف رسالوں میں گاہے بگاہے چھپتے رہے ہیں۔ ان تبصروں اور مقالات میں بھی تنقیدی تصورات اور خیالات کی وضاحت ہوتی ہے۔ ان میں عربی اور فارسی دونوں زبانوں کے امتیازات اور ان زبانوں کی فنی نوعیت اور شعر وشاعری میں محاسن و معائب کی نشاندہی کی گئی ہے۔ زبان کے فن وبلاغت، معنی آفرینی، صنائع بدائع اور تبصرہ نگاری کے اہم فرائض کی پاسداری کی گئی ہے۔ 

شبلیؔ کے تنقیدی تصورات اور نظریات کو ابھارنے میں خارجی پہلوؤں کو بڑا عمل دخل ہے۔ جہاں وہ خارجی حالات سے متاثر ہوتے ہیں وہاں ان کی ذاتی صلاحیتیں بھی اجاگر ہوتی ہیں۔ جس طرح حالیؔ نے سر سید کی تحریک اور ان کے خیالات سے استفادہ کیا ویسے شبلیؔ پر بھی ان کے اثرات مرتب ہوئے۔ شبلیؔ نے اپنے ذہنی میلان کو خارجی حالات کے ساتھ موازنہ کیا اور جو اسے بہتر لگا، اس کے مطابق اپنے تنقیدی شعور کو پروان چڑھایا۔ شبلیؔ سے مختلف علوم کی تعلیم حاصل کی جس نے ان کے تنقیدی مطالعہ کو جلا بخشی۔ عربی علوم کے دلدادہ تھے وہ شعرالعجم لکھنے سے پہلے شعرالعرب لکھنا چاہتے تھے۔ شبلیؔ شعراء العرب تو نہ لکھ سکے مگر انھوں نے عربی نقادوں کے تنقیدی علوم کو بغور مطالعہ کیا اور ان سے اس کے تنقیدی شعور میں اضافہ ہوا۔عربی اور فارسی علوم کے علاوہ ان کا مطالعہ مغربی علوم پر بھی تھا لیکن جس طرح حالیؔ نے مغربی نظریات و تصورات کو اپنے اوپر سوار کیا ہے۔ شبلیؔ کے ہاں یہ تاثر کم نظر آتا ہے لیکن پھر بھی ان کے تنقیدی تصورات میں مغربی ادبیات و تنقید کا اثر ہے۔ ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی، شبلیؔ کے تنقیدی اثر کو مشرقی علوم کے زیرغور پیش کرتے ہیں: 

”شبلیؔ نعمانی کی تعلیم و تربیت مشرقی تہذیب اور مشرقی علوم کے زیرسایہ ہوئی۔ ادبی تنقید سے متعلق شبلیؔ نے جو کارنامے انجام دیئے ان میں بیشتر فارسی شعر و ادب سے تعلق رکھتے ہیں۔ شبلیؔ کی نظری اور عملی تنقید کے نمونے یوں تو شعر العجم، مقالات شبلی، موازنہ انیس و دبیر اور ضمنی طور پر ان کی بعض دوسری کتابوں میں بھی ملتے ہیں مگر شبلیؔ کی تنقیدنگاری کا لب لباب اور ان کے بنیادی افکار ”شعرالعجم“ میں جمع ہو گئے ہیں۔ عربی زبان و ادب، فن و بلاغت اور عربی شاعری کے چند دوسرے مسائل پر شبلیؔ کے مقالات میں تفصیلی بحث ملتی ہے۔“(۷) 

مولانا شبلیؔ نعمانی کے تنقیدی تصورات ان کی شہرہ آفاق تصنیف شعرالعجم میں نمایاں ہوتے ہیں اور شبلیؔ اس کتاب کو عربی اور فارسی ادب کے زیرسایہ لکھتے ہیں۔ عربی کی نسبت انھوں نے فارسی شعر و ادب سے زیادہ استفادہ کیا اور شعر العجم جیسی تنقیدی کتاب تخلیق کی۔ شعرالعجم کی تخلیق میں شبلیؔ نے فارسی کی تاریخ اور عربی ان دونوں کتابوں کے تنقیدی تصورات اور نقادوں کے خیالات و نظریات کو پیش نظر رکھ کر اس عظیم کاوش کو بروئے کار لائے۔ شبلیؔ نے اپنی تنقیدی اصولوں کی ترویج میں عربی اور فارسی دونوں مکتب فکر کے نقادوں کے تنقیدی مباحث سے استفادہ کیا ہے اور بنیادی مسائل تنقید مباحث سے استفادہ کیا ہے اور بنیادی مسائل تنقید کو حل کرنے کے لیے انھوں نے عرب کے قدیم نقاد کے حوالے دیے ہیں اور تنقیدی اصول کے لیے فارسی کی تنقیدی کتابوں کو بنیادی حوالے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ شبلیؔ پر حالیؔ کی کتاب ”مقدمہ شعر وشاعری“ کا بھی اثر ہے کیوں کہ یہ کتاب ان سے پہلے شائع ہو چکی تھی مگر ان دونوں کا تنقیدی رجحان مختلف ہے مگر کچھ اصلاحات اور اصول وضوابط دونوں میں مشترک ہیں اور کچھ میں تضاد بھی پایا جاتا ہے۔ حالیؔ اور شبلیؔ دونوں میں اخلاقی نقطہ نظر ایک نوعیت کا ہے۔ اخلاقی اور سماجی نقطہ نظر سے ناپسندیدہ عناصر کو تنقید کے معیار سے پرکھا گیا ہے۔ حالیؔ اور شبلیؔ کے اخلاقی نقطہ نظر کو جاننے کے لیے ان دونوں کے اخلاقی زاویہ نگاہ کو زیرغور لانا ضروری ہے لیکن دونوں نے اخلاقیات کے پہلو کو سماجی پس منظر میں شعری نوعیت سے اجاگر کیا ہے۔ حالیؔ مبالغہ کو شعری صنف میں اچھا نہیں سمجھتے ہیں وہ زیادہ حقیقت پسندی کے قائل ہیں۔ شبلیؔ مبالغہ میں عربی اور فارسی شعراء کے دلائل سے ہم آہنگی ظاہر کرتے ہیں۔ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی ایک جگہ شبلیؔ اور عرب نقادوں کے بارے مبالغہ انگیزی کے تناظر کی وضاحت کرتے ہیں: 

”شبلیؔ مبالغہ کے حق میں عربی اور فارسی کے ایک ایک شاعر کا قول نقل کرتے ہیں اور واقعیت کے حق میں عربی کے ایک نقاد اور ایک شاعر کی رائے کا حوالہ دیتے ہیں۔ نابغہ ذبیانی سے کسی نے پوچھا کہ اشعر الناس کون ہے۔ اس نے کہا کہ ”من استجید کذبہ“ (۔جس کا جھوٹ پسندیدہ ہو) نظامی کا شعر ہے کہ: 

درشعر ھیچ و در فن او 

چوں کذب اوست احسن او 

  

شبلیؔ کہتے ہیں کہ ان باتوں کی اہمیت اپنی جگہ مگر زیادہ تر ائمہ فن اس (مبالغہ) کے مخالف ہیں۔ حسان ابن ثابت کہتے ہیں کہ ”اچھا شعر وہ ہے کہ جب پڑھا جائے تو لوگ بول اٹھیں کہ سچ کہا ہے“ شبلیؔ مزید کہتے ہیں کہ ابن رشیق نے کتاب العمدہ میں اساتذہ کے بہت سے اقوال اس کے (واقعت) موافق نقل کیے ہیں۔ شبلیؔ نے ”العمدہ“ کے بارے میں جو بات کہی ہے وہ صرف پچاس فیصد درست ہے جن لوگوں کی نگاہ سے ابن رشیق کی ”العمدہ“ گزر ی ہے وہ جانتے ہیں کہ ابن رشیق نے جہاں مبالغہ کی مخالفت میں علمائے شعر کے اقوال نقل کیے ہیں وہیں اس کی تائید میں بھی بہت سی رائیں جمع کر دی ہیں۔ البتہ یہ بات اہم ہے کہ خود ابن رشیق حسان ابن ثابت کے ہم خیال ہیں اور شعر کے لیے صداقت یا واقعیت پر زور دیتے ہیں۔ شبلیؔ نعمانی واقعیت اور مبالغہ کے حق میں مختلف آراء پیش کرنے کے بعد ان پر محاکمہ کرتے ہیں اور اس طرح معاشرتی معاملات سے اس مسئلے کو ہم آہنگ کر کے دیکھتے ہیں۔ ”قدما کے اولین کلام میں بالکل مبالغہ نہیں جب عباسیہ کا دور آیا اور عیش پرستی کی ہوا چلی تو مبالغہ کا زو رہوا۔“(۸) 

شبلیؔ زیادہ تر عربی اور فارسی نقادوں کے مشرقی تنقیدی تصورات کے قائل تھے اور وہ مبالغہ کاشعری صنف میں استعمال شعر کے بنیادی عناصر میں سے تصور نہیں کرتے ہیں بلکہ اسے تمدنی حالات کے زیراثر شاعری میں شامل کرنے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ شبلیؔ مبالغہ کو شاعر کا جھوٹ کہتے ہیں اور مبالغہ کو شاعرانہ حسن سے محروم ایک شعری صنف بتاتے ہیں۔ وہ مبالغہ کو تخیل کے حسن کے لیے استعمال کرنے کے حق میں اور جھوٹ کے لیے ہرگز نہیں۔شبلیؔ، حالیؔ کی طرح مغرب سے مستعار لیے ہوئے تصورات کا اپنے مفروضات کی فصاحت کے لیے پیش نہیں کرتے ہیں۔ شبلیؔ ارسطو کے خیالات تک رسائی عربی زبان کے نقادوں کی مرہون منت کرتے ہیں۔ ارسطو نے شاعری پر ایک کتاب لکھی جس کا عربی نقادوں نے ابن رشد، ابن رشیق قیروانی اور ابن خلدون نے بحثیں اور تراجم کیے۔ شبلیؔ عربی نقادوں کے حوالے دیتے ہیں جب کہ ابن رشد وغیرہ نے ارسطو کی کتاب ”بوطیقا“ کاترجمہ کیا۔ اس نے اپنی تخلیص میں عربی زبان و ادب کے تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔شبلیؔ، حالیؔ کی طرح شاعری کے بنیادی مسائل پر توجہ کم دیتے ہیں اور شعر کی حقیقت بیان کرتے ہوئے اسے تخیل کے ہم معنی قرار دیتے ہیں۔ کیوں کہ ایرانیوں اور عربوں میں شعر کی بنیادی صفت تخیل کو ہی قرار دیا جاتا ہے۔ شبلیؔ شعر کے مسائل کو سمجھنے کے لیے پہلے عربی اور فارسی علماء کے تصورات سے استفادہ کرتے ہیں۔اگر ان کو ان کے تصورات میں کوئی غیرمبہم بات نظر آتی ہے تو وہ ارسطو کے خیالات و نظریات کو بھی دیکھتے ہیں۔ ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی،شبلیؔ کے بلاغت کے تصورات کے ضمن میں رقم طراز ہیں: 

”شبلیؔ کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ وہ بلاغت پر بہت زیادہ زو ردیتے ہیں۔ یہ خیال کچھ غلط بھی نہیں۔ انھوں نے بلاغت اور لوازم بلاغت کا ذکر شعر العجم کے اصولی مباحث میں بھی چھیڑا ہے اور فن بلاغت پر ’الندوہ‘ کے ایک شمارے میں اس موضوع پر ان کا مضمون بھی ملتا ہے۔ موازنہ انیس و دبیر میں تو انھوں نے انیس و دبیر کے مرثیوں کی قدروقیمت کے تعین کے لیے جس پیمانے کو تمام تنقیدی پیمانوں پر اہمیت دی وہ فصاحت اور بلاغت کا ہی پیمانہ ہے۔ اس سلسلے میں کہنے کی بات یہ ہے کہ بلاغت پر شبلیؔ کی ساری بحث عربی اور فارسی تنقید کی مرہون منت ہے۔“(۹) 

شبلیؔ اپنے تنقیدی تصورات میں زیادہ تر فارسی اور عربی نقادوں کے تنقیدی تصورات سے استفادہ کرتے ہیں۔ شبلیؔ فن بلاغت میں اپنے مضمون میں سب سے پہلے فصاحت کو بیان کرنے کے قائل ہیں۔ وہ فصاحت کی ان تعریفوں کو زیرغور لاتے ہیں کہ لفظ نامانوس نہ ہو، قواعد حرفی کے خلاف نہ ہو اور متنا فر الحروف نہ ہو۔ شبلیؔ کے خیال میں الفاظ کو فصیح اور غیرفصیح ہی تصور نہیں کیا جا سکتا تو فصیح الفاظ کو مختلف مدارج میں تقسیم کرتے ہیں اور بعد میں کہتے ہیں کہ الفاظ فصیح کو بلاغت سے چنداں تعلق نہیں محض مضامین کو بھی بلیغ یا غیربلیغ کہا جا سکتا ہے۔شبلیؔ اپنے تنقیدی نظریات و تصورات میں مشرقی علوم اور ان کے تنقیدی خیالات سے کافی متاثر نظر آتے ہیں۔ ان کے نزدیک فصاحت و بلاغت ہو، شعر کی ماہیت، صنائع بدائع، بلاغت و فصاحت، روزمرہ، محاور ہ، تشبیہ، استعارہ، منظرنگاری، واقعہ نگاری اور جذبات نگاری کی کوئی بھی اصلاحات ہو، ان تمام عناصر کو شبلیؔ قدیم مشرقی تنقید کے زیراثر اپنے تصورات کو ترویج دیتے ہیں۔اگر ان کو کوئی بات پھر بھی ناکارہ محسوس ہو، وہ پھر مغربی ناقدین کی طرف رجوع کرتے ہیں، لیکن حالیؔ کی طرح شبلی ؔ میں مرعوبیت کا عنصر کم ہے۔مولانا محمد حسین آزاد اردو ادب کے قدآور ادیب ونقاد ہیں۔ اردو میں ادبی تاریخ انھوں نے شروع کی اور تذکرہ نویسی کو نئے انداز فکر سے پیش کیا۔ آزاد نے ”آب حیات“ لکھ کر اردو شاعری کی تاریخ کو بیان کیا ہے اور ان کا یہ کام اردو ادب میں عظیم نوعیت کا ہے جہاں آزاد نے اردو شاعری کے رجحانات کو بیان کیا ہے۔ وہاں ان کے ہاں تنقیدی شعور بھی کارفرما نظر آتا ہے۔ مورخین نے آزاد کی ”آب حیات“ کو حالیؔ کی ”مقدمہ شعروشاعری“ اور شبلیؔ کی ”شعرالعجم“ سے کم درجہ دیا ہے کیوں کہ ان کی تصنیف ”آب حیات“ میں تنقیدی مضامین کم ہیں اور تاریخ زیادہ ہے اور حالیؔ اور شبلیؔ کی تصانیف کو مستقل تصانیف کی حیثیت حاصل ہے۔ 

ادیب یا شاعر کے مقام ومرتبہ کا تعین ان کی تصانیف کی ادبی نوعیت سے اعلیٰ معیاری یا گھٹیا اور ادنیٰ درجے پر کیا جاتا ہے اگرکسی ادیب یا شاعر نے ادبی دنیا میں معیاری اور اعلیٰ درجہ کا کام کیا ہے، تو اسے اس کے اس کام کی بدولت اعلیٰ و ارفعی مقام حاصل ہوتا ہے اور اگران کا کام معیاری اور درست مقام حاصل نہیں کرتا ہے تو اس ادیب اور شاعر کی ادبی ماحول میں وہی درجہ و مقام ملے گا جس کا وہ مستحق ہے ادبی ناقدین نے آزاد کو حالیؔ اور شبلیؔ سے کم درجہ کا ادیب قرار دیا ہے اور ان کو صرف تذکرہ نگار کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ بہرحال آزاد کو صرف تذکرہ نگار سمجھ لینا اور ان کو تذکرہ نگاروں کی فہرست میں شامل کر لینا ان کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔ ”آب حیات“ ایک تاریخی نوعیت کی کتاب ہے جس میں شاعری اور شعراء کے بارے میں تبصرے کیے گئے ہیں۔ اس کتاب کو صرف تذکرہ نویسی ہی کہہ دینا، اس کے ساتھ انصاف نہ ہو گا بلکہ اس میں تنقیدی نوعیت کے خیالات و تصورات کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ تاریخی اعتبار سے تو اس کی اہمیت و قدر و قیمت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال آزاد نے اپنے تنقیدی خیالات کو حالیؔ اور شبلیؔ کی طرح وسیع انداز میں بیان نہیں کیا ہے۔ ان کے خیالات مختصر ضرور ہیں مگر اپنے ہم عصر ادیبوں کے خیالات سے ملتے جلتے ہیں۔ آزاد بھی سر سید اور حالیؔ کے ہم عصر ہیں اور اس دور کے اثرات و تصورات ان کے یہاں بھی ملتے ہیں۔ 

آزاد بھی اردو ادب میں تبدیلی اور جدت کے خواہاں تھے اور وہ بھی ادب کو معاشرے کے لیے فلاحی انداز میں پیش کرنے اور جدید اصولوں کو قائم کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ آزاد نے ۱۸۵۷ء کے حالات کو بغو ردیکھا اور آزاد ی کی جدجہد میں عوامی پس منظر اور سامراجی ماحول نے ان کے تصورات و خیالات کو ابھارا۔ آزاد نے حالیؔ کے ساتھ مل کر انجمن پنجاب کی بنیاد ڈالی۔آزاد نے اردو ادب میں مختلف تصانیف تحریر کیں ہیں۔ جن میں انھوں نے شعر وشاعری کے متعلق اپنے تنقیدی خیالات کو پیش کیا ہے۔ ان کی تصانیف میں شعروشاعری پر تنقیدی تصورات کے علاوہ شاعروں پر تذکرے، نثرپر اسلوبی انداز فکر اور اردو ادب کے تاریخی پس منظر کی عکاسی ہوتی ہے۔ ان تنقیدی کتابوں میں تنقیدی شعور کو اجاگرکیا گیا ہے۔ نگارستان فارس، سخندان فارس، شاعری پر لکچرز اور مقدمہ دیوان ذوق میں بھی کہیں کہیں تنقیدی تصورات کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ان کے علاوہ ”آب حیات“ مولانا آزاد کی ایک عظیم شاہکار ہے اس کتاب میں بھی تنقیدی خیالات کی روشنی اپنی چمک پیش کرتی ہے۔آزاد بھی حالیؔ، شبلیؔ اور سر سید کے ہم عصر اور اس زمانے کے سماجی حالات و واقعات سے آشنا تھے۔ آزاد بھی حالیؔ اور شبلیؔ کی طرح اسی معاشرے میں پرورش پاتے ہیں جس میں شبلیؔ اور حالیؔ کے خیالات ونظریات نے پرورش پائی تھی۔ آزاد بھی سر سید کی علمی و ادبی تحریک سے متاثر ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے گردونواح کے ماحول کو محسوس کیا ہے جس کا اثر ان کے تنقیدی شعور پر پڑا ہے۔ 

آزاد نے اردو ادب میں تنقید کے نئے اور منفرد اندازفکر کو ترویج دیا۔ سر سید نے ہندوستان میں علم وادب کے لیے نئے ماحول اور نئی سوچ کی ترویج میں اہم کردار اداکیا ہے۔ آزاد، سرسید کی اس ادبی تحریک سے بہت متاثر ہوئے اور انھوں نے بھی اس تحریک کے جدت پسند افکار ونظریات کو سماجی فلاح وبہبود کی عظمت کے لیے اپنے خیالات و نظریات سے ہم آہنگ کیا اور ان ترقی پسند اصولوں کی آبیاری کے لیے نئے تصورات کو پیش کرنا شروع کر دیا۔ ہندوستان میں جہاں آزاد کے تنقیدی تصورات کو سر سید کی تحریک نے ترویج بخشی وہاں دہلی کالج نے بھی ان پر کافی اثر کیا۔ کیوں کہ آزاد نے دہلی کالج سے تعلیم حاصل کی تھی اور وہاں مشر ق و مغرب دونوں مکتب فکر کے علوم میں تعلیم حاصل کی جاتی تھی۔ جس سے آزاد کے مشرقی اور مغربی دونوں علوم ادب کے تصورات کو سمجھنے اور پرکھنے کا موقع ملا۔ دہلی کالج میں مشرقی ادب اور مغربی ادب کے علوم کے اساتذہ کی محفلوں نے آزاد پر دونوں مکتب فکر کے اثر مرتب کیے۔ ان اساتذہ کی مجالس سے آزاد کو اردو ادب میں تنقیدی شعور کو اجاگر کرنے میں کافی مدد ملی۔دہلی کالج میں مغربی علوم کی تعلیم سے ان کے مغربی تصورات کو پروان چڑھے اور مغربی اساتذہ کی صحبتوں نے ان کے تنقیدی خیالات کو روشنی دی۔ دہلی کالج کے بعد جب آپ لاہور آئے تو یہاں بھی آپ نے کرنل ہالرائڈ اور میجر فلر جسے مغربی اساتذہ سے اثر قبول کیا اور ان کی صحبتوں نے آزاد کی مغربی ادبیات سے لگن اور شوق کو مزید تقویت دی۔ مغربی ادبیات کے مطالعہ نے ان کے تخیل میں اعلیٰ سوچ پیدا کی اور ان کے خیالات کو وسعت اور گہرائی عطا کی۔ آزاد بھی حالی، سر سید اور شبلیؔ کی طرح ترقی پسند خیالات کے پروردہ تھے اور وہ بھی عوام کے لیے مفید اور کارآمد تصورات و خیالات کو اپنانے کے حق میں تھے۔ آزاد مغربی ادبیات کو ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے مفید تصور کرتے تھے اور ان سے اثرات قبول کیے اور جس سے ان کے تنقیدی معیار میں بلندپروازی نے پر نکال لیے۔ 

آزاد کے تنقیدی خیالات و تصورات کو پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں انھوں نے مغربی ادبیات سے استفادہ کیا ہے وہاں ان کامطالعہ مشرقی ادب، عربی اور فارسی سے بھی ضرور رہا ہو گا کیوں کہ ان کے تنقیدی نظریات میں مشرقی تصور بھی نمایاں ہے۔ عربی نقطہ نظر سے وہ معانی وبیان کے سلسلے میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کو بھی اپنے نظریات میں جابجا پیش کرتے ہیں پس ثابت ہوا کہ آزاد کے تنقیدی خیالات کو اجاگرکرنے میں عربی، فارسی، انگریزی اور اردو ان تمام ادبیات کا گہرا مطالعہ ہے جس نے ان کے تنقیدی افکار کو خوب تقویت بخشی ہے۔آزاد نے تنقیدی نظریات کے نام سے کوئی مستقل کتاب تصنیف نہ کی ہے بلکہ ان کی تصانیف، سخندان فارس، نگارستان فارس، مقدمہ دیوان ذوق اور آب حیات ان تمام میں کہیں نہ کہیں تنقیدی نظریات کی جھلک ملتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے تنقیدی نظریات کا پتہ ان کا وہ لیکچر دیتا ہے جو انھوں نے نظم اور کلام موزوں کے بارے میں تنقیدی نوعیت سے پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر انور سدید، آزاد کے مشرقی اور مغربی انداز فکر کے ضمن میں تحریر کرتے ہیں: 

”محمد حسین آزاد ؔ نے بھی زیادہ تر انگریزی مضامین ہی سے استفادہ کیا لیکن انھوں نے اپنی مشرقیت کو بہرحال قائم رکھنے کی کوشش کی۔ گلشنِ امید کی بہار، سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ، سیر زندگی، علوم کی بدنصیبی اور خوش طبعی جیسے مضامین میں آزادؔ نے اپنی شگفتہ انشاء سے خوبصورت لفظی مرقعے بنائے ہیں اور انشاء نگاری میں اپنی انفرادیت کا پختہ نقش قائم کیا۔“(۱۰)  

ڈاکٹر انور سدید کےنزدیک آزاد کے تصورات و نظریات میں جہاں انگریزی مضامین نے تقویت دی وہاں مشرقی نظریات نے بھی ان کے تنقیدی شعور کو اجاگر کیا ہے۔ آزاد کے کچھ مضامین جیسے گلشن امید کی بہار، سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ، سیر زندگی اور علوم کی بدنصیبی اور خوش طبعی جیسے مضامین نے آزاد کے انشاء نگاری کے اسلوب کو خوب جلا بخشی ہے۔ یہاں آزاد کے انشاپردازی کے تصور کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ انھوں نے جہاں شاعری، سوانح، نثرنگاری میں منفرد خیالات کا اظہار کیا ہے وہیں انشاء نگاری کو بھی منفردانداز فکر سے پیش کیا ہے۔ انشاء پردازی میں وہ خوبصورت لفظیات کو بڑے منفرد انداز میں مرقع کشی کرتے ہیں۔ اردو ادب میں تنقیدی لحاظ سے ”آب حیات“ آزاد کی ایک منفرد تصنیف ہے۔ ڈاکٹر انور سدید ”آب حیات“ کے ضمن میں رقم طراز ہیں: 

”محمد حسین آزاد نے آب حیات ۰۸۸۱ء میں مکمل کی اور یہ اسی سال لاہور سے شائع ہوئی۔ آب حیات ایک ایسی تصنیف ہے جس میں آزاد نے لسانی تحقیق، شعری تنقید، ادبی سوانح نگاری خاکہ اور مرقع نگاری کے جوہر پورے کمال فن سے دکھائے ہیں اور انھیں ایک مشتاق اہل زبان کی حیثیت میں خوش نظر اسلوب اور تمثیلی انداز میں پیش کر دیا ہے چناں چہ یہ کتاب آزاد کے فن کا اعلیٰ نمونہ شمار ہوتی ہے اور اس کی کمزوریوں کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی”آب حیات“ میں آزاد نے اپنے بیشتر ماخذات کے حوالے نہیں دیے۔ انھوں نے نکات الشعراء سے لے کر تذکرہ خوش معرکہ زیبا تک بیشتر تذکروں سے استفادہ کیا اور بہت سے واقعات مجموعہ نغز، طبقات الشعرائے ہند اور یادگار شعراء سے حاصل کیے۔ آزاد نے حروف تہجی کے اعتبار سے شعراء کو جمع کرنے کے بجائے شاعری کے ادوار مقرر کیے اور ہر عہد کی منفرد خصوصیات کا تعین کیا۔ انھوں نے اردو زبان کے مولد و ماخذ کی دریافت میں بھی دلچسپی لی۔ اگرچہ ان کے نظریات کے بعد میں اختلاف کیا گیا لیکن اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے لسانیات کو ایک اہم موضوع کی حیثیت دی، اس کتاب میں آزاد ایک نقاد کی صورت میں سامنے آئے، انھوں نے ”آہ“ اور ”واہ“ کا تاثر پیش کرنے کی بجائے معنوی تنقید کے ابتدائی نمونے پیش کیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آب حیات میں واقعاتی غلطیوں کو راہ مل گئی اور آزاد نے بعض شعراء مثلاً ذوق کے سلسلے میں جانبداری سے بھی کام لیا لیکن آب حیات ایک ایسی تصنیف ہے جس نے اردو تذکرہ نگاری کو ایک نیا رخ عطا کیا چناں چہ اس کتاب کو قدیم تذکرہ نگاری اور شاعری کی جدید تنقید و سوانح کا سنگم تسلیم کیا گیا ہے۔“(۱۱) 

ڈاکٹر انور سدید”آب حیات“ کی افادیت اور اس میں موجود ادبی مضامین کے حوالے سے آگہی ہوتی ہے۔ اس کتاب میں آزاد نے لسانی تحقیق، شعری تنقید، ادبی سوانح نگاری، خاکہ نگاری اور مرقع نگاری کو بڑے منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔ اس تصنیف کی ایک اور اہم بات شعراء کے تذکرے ہیں جس میں آزاد نے تذکرہ نگاری کو ایک نئے انداز سے پیش کیا ہے۔ یہاں آزاد کی حیثیت ایک نقاد کے طور پر سامنے آتی ہے وہ ”آہ“ اور ”واہ“ کے تاثر کو پیش کرنے کی بجائے معنویت پر زور دیتے ہیں۔ آزاد کی اس تنقیدی کتاب میں کچھ واقعاتی غلطیاں بھی ہیں اور جانبداری کا پہلو بھی عیاں ہوتاہے۔جیسے آزادؔ نے ذوقؔ کی طرف جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے مگر ان تمام کمزوریوں کے باوجود ”آب حیات“ اردو تذکرہ نگاری کی ایک عمدہ کتاب ہے یہ شاعری کی جدید تنقید اور سوانح نگاری کی منفردیت کو واضح کرتی ہے۔ ”آب حیات“ ایک ایسی کتاب ہے جس نے اردو ادب میں آج بھی مولانا محمد حسین آزاد کو زندہ وجاوید کیے رکھا ہے۔ 

محمد حسین آزاد عربی اور فارسی کی ادبی روایت کو بھی اپنے نظریات میں بروئے کار رکھتے ہیں اور سر سید کی تحریک کے زیرسایہ مغربی شعر و ادب سے بھی مانوس ہوتے ہیں۔ مشرق اور مغرب دونوں مکتب فکر کے علوم سے آزاد استفادہ کرتے ہیں لیکن ان کے تنقیدی خیالات کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی ہے جو حالیؔ اور شبلیؔ کو ملی ہے یا تو انھیں ادب کا مورخ یا پھر ادیبوں کے سوانح نگاری کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ نقادوں نے ان کو زیادہ تر انشاپرداز کی حیثیت سے پیش کیا ہے اور ان کے تنقیدی خیالات کو کم اہمیت دی جاتی ہے۔ یہاں میں ان کہ ایک لیکچر کے حوالے سے بات کرنا چاہوں گا جو انھوں نے انجمن پنجاب کے پلیٹ فارم سے پیش کیا تھا۔ اس لیکچر کا عنوان ”نظم اور کلام موزوں کے باب میں خیالات“ تھا۔ اس لیکچر میں آزاد نے شعر کی ماہیت، شاعر کی حیثیت، نظم جدید کی تحریک اور شاعر کے تخلیقی عمل ان تمام چیزوں کو ترویج دینے کی کوشش کی گئی ہے۔اس لیکچر میں انھوں نے انشاپردازی سے کام کم لیا ہے اور اپنے تنقیدی خیالات کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آزاد شعر کے معنی و مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے عرب نقادوں کے انداز بیان کو اپناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ا ن کے درمیان بھی شعر کی تعریف اور کلام موزوں کی اہمیت پر زور دینے کا رجحان رہا ہے اور کچھ نے شاعر کے ارادہ کو موثر قرار دیا ہے۔ آزاد کے نزدیک شاعری کے لیے شاعر کے ارادے یا شاعری کے بامعنی ہونے سے زیادہ شعر کی اثرپذیری کو ترجیح دیتے ہیں۔ آزاد اپنے لیکچر کے آخر میں شعر کی تعریف کرنے کے بعد شعر کے دوسرے لوازمات کو مشرقی شعری تناظر میں پیش کرتے ہیں۔ شعر کی اثرپذیری کے ساتھ ساتھ کلام موزوں و مقفیٰ کے موثر ہونے کو بامعنی کا مترادف بھی تصور کرتے ہیں۔ڈاکٹر عبادت بریلوی آزاد کے مشرقی تناظر اور شعر کی کیفیات کے ضمن میں تحریر کرتے ہیں: 

”جہاں تک آزاد کی افتاد طبع کا تعلق ہے،وہ پوری طرح مشرقی ہیں۔ ماحو ل کے تقاضوں سے انھوں نے بہت زیادہ جدید بننے کی کوشش کی ہے لیکن اکثر جگہ وہ پیچھے کی طرف لوٹتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں مثلاً وہ شعر کو ایک الہامی چیز سمجھتے ہیں۔ انھوں نے صاف صاف اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ ”فی الحقیقت شعر ایک پرتوروح القدس کا اور فیضان رحمت الٰہی کا ہے کہ اہل دل کی طبیعت پر نزول کرتا ہے“ آزاد پر مشرقی نظریات تنقید کا اثر گہرا ہے چناں چہ وہ جگہ جگہ معانی و بیان کی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہیں۔ شعر ان کے خیال میں ”گلزار فصاحت کا پھول ہے“ انھیں اثرات کا نتیجہ یہ ہے کہ اندازبیان اور اسلوب کی اہمیت کو وہ بار بار ذہن نشین کراتے ہیں لیکن معنوی پہلو سے بھی قطع نظر نہیں کرتے۔ وہ ان دونوں کی اہمیت کے قائل ہیں۔“(۱۲) 

آزادمشرقی نقطہء نظر سے متاثر ہیں اور اپنے خیالات کو اسی پس منظر میں پیش کرتے ہیں۔ وہ شعر کو الہامی چیز تصور کرتے ہیں اور شعر کے مابعد الطبیعیاتی نظریے کے قائل ہیں۔ آزاد کے ہاں شاعری کو وہبی سمجھنا ہوتا ہے اور وہ شاعر کو ماحول کے مرہون منت تصور نہیں کرتے ہیں بلکہ غیبی طاقتوں کے تابع تخلیقات کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں شعر کی سماجی اہمیت بھی کارفرما ہے وہ شعر کو الہامی چیز سمجھنے کے باوجود حالات و واقعات میں تغیر وتبدل کے توازن میں شعر میں بھی تبدیلی کے قائل ہیں۔ آزاد یونانیوں کے خیالات سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ شعر خیالی باتیں ہیں اور شاعر ان خیالات کے زیر سایہ اشعار کو ترتیب دیتا ہے۔ ارسطو نے شعر کو نقالی کہا ہے۔ آزاد بھی اسی تصور سے مانوس لگتے ہیں۔بہرحال آزاد کے تنقیدی نظریات میں ہم آہنگی کی صورت نظر نہیں آتی ہے بلکہ ان کے خیالات منتشر نوعیت کے لگتے ہیں وہ حالیؔ اور شبلیؔ کی طرح منطقی اور مدلل دلائل کے ساتھ باتیں نہیں کرتے ہیں بلکہ لکیر کے فقیر کی نوعیت جیسا سماں لگتا ہے۔ کہیں کہیں وہ حالیؔ اور شبلیؔ کے نظریات سے اتفاق کرتے ہیں مگر ان کی طرح جامعیت اور جاذبیت آزادؔ کے یہاں موجود نہ ہے۔اس لیے لگتاہے اردو ادب کے ناقدین نے ان کو حالیؔ اور شبلیؔ سے کم درجہ کا ادیب تصور کیا ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی ایک جگہ آزاد کے تذکرہ نویسی کے ضمن میں رقم طراز ہیں: 

”آزاد پہلے شخص ہیں جنھوں نے اردو تذکرے کو ادبی تاریخ کا روپ دیا جس میں تنقید کابھی خیال رکھا ہے اور مختلف شعرا پر قائم کی ہے رائیں اگرچہ مختصر ہیں، ان میں بعض جگہ اصولوں کو سامنے نہیں رکھا گیا ہے اگرچہ اس میں اکثر جگہ جذباتیت ملتی ہے لیکن یہ رائیں صحیح ہیں۔ آج تک ان کا اثر ہے۔ آج بھی نقاد قدیم شاعروں کے متعلق رائے قائم کرنے کے سلسلے میں ان سے مدد لیتے ہیں۔“(۱۳) 

آزاد کی تذکرہ نگاری کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور نقاد ان کی اس کاوش سے آج بھی استفادہ کرتے ہیں اس میں شعراء سے متعلق جو آراء پیش کی گئی ہیں۔ وہ مختصر نوعیت کی ہیں اور ان میں کہیں کہیں جانبداری اور جذباتیت کے پہلوؤں سے بھی کام لیا گیا ہے لیکن ان خامیوں کے باوجود ان کے اس کارنامے کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے کیوں کہ چند ایک جگہ پر تنقیدی خیالات بھی ملتے ہیں جو ان کی اہمیت کو بڑھا دیتے ہیں۔ شعر و شاعری پر آزاد کے لیکچر کو بڑی اہمیت حاصل ہے جس میں انھوں نے شاعری سے متعلق تنقیدی پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔محمد حسین آزاد حالیؔ اور شبلیؔ کے نظریات سے ہم آہنگی بھی رکھتے ہیں۔ وہ شاعری کو مابعد الطبعیاتی چیز سمجھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ باقی پہلوؤں سے کنارہ کشی کرتے ہیں۔ وہ حالیؔ اور شبلیؔ کی طرح اخلاقیات سے بھی شاعری کا رشتہ جوڑتے ہیں اور وہ فحش اور ناشائستہ خیالات کو شاعری کے لیے بہتر تصور نہیں کرتے ہیں۔ وہ ان نقادوں کے طرفدار ہیں جو شاعری کو اخلاقی اور اصلاحی قدروں کے مطابق پرکھنے کا شوق رکھتے ہیں۔ وہ ناپسندیدہ خیالات سے ممبرا شاعری کو دائرہ شاعری سے باہر سمجھتے ہیں۔ آزاد شاعری میں پاکیزہ خیال کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنی تنقید میں زبان و بیان، برجستگی، فصاحت و بلاغت، روانی، صفات کلام اور اثرپذیری کو شاعری کا اعلیٰ معیار کہتے ہیں۔ آزاد شاعری میں جوش و خروش کے ساتھ سنجیدہ رویے کو بھی فراموش نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ اخلاقی رویے کو بھی قائم کرتے ہوئے شاعر کے آزادہ روی کو بھی پیش کرنے کے قائل ہیں۔ ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی، آزاد کے مشرقی و مغربی تصورات کے ضمن میں لکھتے ہیں: 

”آزاد اپنی تمام جدت پسندی ا ورمغرب کی تقلید کے باوجود مشرقی تنقید کے پیمانوں سے اثرپذیری کا شعوری یا غیرشعوری اظہار کر جاتے ہیں۔ آب حیات کے صفحات میں مختلف شاعروں پر محاکمہ کرتے ہوئے، آزاد، عربی اور فارسی کی تنقیدی روایت کے اسیر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی تنقید کا ڈھانچہ، ان کی لفظیات،ان کے نزدیک شاعری کے محاسن اور معائب اور سب سے اہم چیز یہ کہ ان کی تنقید کا پورا ایڈم، عربی اور عربی سے بھی کچھ زیادہ فارسی کی تنقیدی روایت کے زیراثر مرتب ہوتا ہے۔“(۱۴)  

آزاد کے تنقیدی تصورات پر زیادہ اثر عربی اور فارسی تنقیدی خیالات کا ہے۔ وہ مغرب کے خیالات کو جدت پسندی کے لیے استعمال ضرور کرتے ہیں مگر زیادہ شعری نظریات ہیں۔ ان کے خیالات مشرقی تصورات کے ہم آہنگ دکھائی دیتے ہیں۔ وہ عربی ا ور فارسی کے علمائے نقد سے بہت سے پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں جیسے لطف انگیزی، صفائی، بے تکلفی، تشبیہات و استعارات، نازک خیالی، لفظیات کی معنویت، خیالات اور مشاہدات ان سب میں مشرقی انداز فکر کی لہر دوڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ایک جگہ اور ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی آزاد کی تصانیف کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہیں: 

”نظم اور کلام موزوں کے باب میں خیالات اور اپنی کتاب ’آب حیات‘ کے علاوہ محمد حسین آزاد نے اپنی تنقیدی رایوں کا اظہار نگارستان فارس اور ’سخن دان فارس‘ میں بھی کیا ہے۔ اوّل الذکر کتاب (نگارستان فارس) قریب قریب اسی پیٹرن پر لکھی گئی ہے جس پیٹرن پر شبلیؔ کی کتاب ”شعر العجم“ لکھی گئی۔ نگارستان فارس لکھی بہت پہلے گئی اور شائع ’شعرالعجم‘ کی اشاعت کے بہت عرصہ بعد ہوئی…… اس کتاب کے بعد ازوقت اشاعت نے اس کی تنقیدی اہمیت کو پورے طور پر سامنے نہ آنے دیا اور اسے بالعموم شعرا لعجم جیسی ایک کتاب کا نام دے کر نظرانداز کر دیا گیا۔ نگارستان فارس میں آزادنے فارسی شعراء کی شاعرانہ قدروقیمت کا جائزہ لیا ہے مگر اس میں شعرالعجم جیسی وضاحت اور تفصیل نہیں ملتی مگر اپنی تاریخی اہمیت کے اعتبار سے نگارستان فارس، فارسی شاعری پر اردو میں سب سے پہلی اہم تنقیدی کاوش قرار دی جا سکتی ہے۔ آزاد اپنی شاعرانہ نثر کو تنقیدی زبان کے طور پر استعمال کر کے بہت سے تنقیدی نکات پر گویا پردہ ڈال دیتے ہیں مگر ساتھ ہی بعض بنیادی خصوصیات کی طرف اشارہ بھی کر جاتے ہیں۔“(۱۵) 

آزاد کی تنقیدی حیثیت کو اس کی مختلف تصانیف کی روشنی میں اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تنقیدی نوعیت سے آزاد کا لیکچر جو ”نظم اور کلام موزوں کے باب میں خیالات“ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں شعر کی تعریف، ماہیت اور افادیت پر آزاد نے تنقیدی انداز میں عکاسی کی ہے۔ ”آب حیات“ کی اہمیت بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔ اس میں شاعروں کے تذکرے ان کی شاعری افادیت کے مطابق پیش کیے گئے ہیں اور تنقیدی اندازفکر کو روشناس کروایا گیا ہے مگر اس میں کہیں کہیں آزاد جذباتیت اور جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہیں جو ان کی خامی کے زمرے میں آتی ہے ہاں مگر ان چند ایک کمزوریوں کے باوجود ”آب حیات“ کو آج بھی بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے۔ اسی طرح ”سخن دان فارس“ اور ”نگارستان فارس“ کو بھی تنقیدی اہمیت حاصل ہے لیکن ان میں تنقیدی خیالات کم نوعیت کے ملتے ہیں۔ ”نگارستان فارس“ شبلیؔ کی ”شعرالعجم“ کے پیڑن کے قریب قریب لکھی گئی ہے یہ کتاب لکھی پہلے گئی تھی مگر شائع شعرالعجم کے بعد ہوتی ہے جس سے ”نگارستان فارس“ کے تنقیدی خیالات کو نقادوں نے کم اہمیت دی ہے اور ”شعرالعجم“ کی نوعیت جیسی کتاب کہا ہے شاید پہلے اشاعت ہوتی تو اس کی معنویت میں شعر العجم سے زیادہ دلچسپی کے مواقع حاصل ہو سکتے تھے۔ ”سخن دان فارس“ کو تقابلی لسانیات کی کتاب کے طور پر متعارف کروایا جاتا ہے مگر اس کے پہلے حصے میں زبان و بیان اور زبان دانی کے حوالے سے مباحث ہیں، لیکن اس کتاب کے دوسرے حصے میں آزاد کے لیکچرز ہیں جو تنقیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہاں پر آزاد نے جو تقاریر کیں ہیں ان میں فارسی موضوعات کے حوالے ملتے ہیں جو ان کی مشقیت کے خیالات کو نمایاں کرتے ہیں۔ جہاں تک آزاد کو مشرقی علوم کے زیرسایہ پرورش پانے کا تصور ہے تو یہ بات درست ہے۔آزاد کے خیالات و تصورات میں نظم و ضبط قائم نہ ہے بلکہ وہ اپنے تنقیدی خیالات میں انتشار کا شکار نظر آتے ہیں۔ انھوں نے حالیؔ کی طرح مسبوط بحثیں نہیں کی ہیں۔ان کے یہاں مشقی تنقید معیار کی کارفرمائی ہے اور اردو تنقید کو تذکروں کی دنیا سے کئی قدم آگے لے جاتی ہے۔ ان تمام کمزوریوں کے باوجود آزاد کی تنقیدی حیثیت کو اردو ادب میں فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ 

حالیؔ، شبلیؔ اور آزاد نے اردو ادب میں تنقیدی خیالات و تصورات کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے اور ان کے تنقیدی رجحان کی اثرات دوسرے ادبی ناقدین نے بھی قبول کیے۔ ان کی تنقید سے اردو ادب میں تنقید سے دلچسپی کا معیار تیز ہو گیا اور علم و ادب سے لگاؤ رکھنے والے ناقدین تنقیدی رجحان کی طرف راغب ہونے لگے۔ سر سید احمد خاں کی ادبی تحریک نے تنقیدی ادب کے رجحان کو بڑھنے میں تقویت بخشی اور دوسرے لکھنے والے اس طرف کھینچنے لگے اور دوسرے علوم پر لکھنے کی بجائے تنقیدی پہلوؤں کو روشناس کرانا شروع کر دیا۔ سب سے پہلے تنقیدی کام کو رسالوں میں شائع کیا گیا پھر آہستہ آہستہ ان کو کتابی صورت میں شائع کرنے کا رجحان بڑھنے لگا۔حالیؔ شبلیؔ اور آزاد کے تنقیدی رویوں سے دوسرے لکھنے والوں نے شغف حاصل کیا اور وہ ان تینوں کے تنقیدی کام سے بہت متاثر ہوئے۔ ان لکھنے والوں میں کچھ نقادوں کا میں یہاں ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ 

وحیدالدین سلیم سر سید تحریک کے متاثر کن رکن ہیں اور حالیؔ اور سر سید سے متاثر ان کی ادبی تحریک میں سرگرم رہے ہیں اور انھوں نے جو تنقیدی کام کیا وہ بھی ان ادیبوں سے متاثر ہو کر ہی کیا ہو گا۔ تنقید پر کوئی ان کی مکمل اور بھرپور تنقیدی نوعیت کی کتاب منظرعام پر تونہ آئی ہے۔ البتہ ان کے تنقیدی مضامین افادات سلیم میں ملتے ہیں۔ ڈاکٹر انور سدید تنقید ادب میں وحیدالدین سلیم کے حوالے سے رقم طراز ہیں: 

”وحیدالدین سلیم کی تنقید پر سر سید اور حالیؔ نے گہرا اثر ڈالا ہے۔ انھوں نے مضامین سلیم اور افادات سلیم میں معنی کی ترسیل کو اہمیت دی اور قافیہ کو خیال کی فطری پرواز میں رکاوٹ تصور کیا۔ افادی زاویے سے سلیم بھی شاعری کو قومی تقاضوں کا ترجمان بنانے کے حامی تھے ان کے مزاج میں اصول سازی کا رجحان نمایاں حیثیت رکھتا ہے اور اس کا عملی ثبوت ان کی کتاب ”وضع اصطلاحات“ میں ملتا ہے جو اس موضوع پر ایک لاجواب کتاب ہے۔“(۱۶) 

مشرقی مطالعہ تنقید سے وحیدالدین سلیم کے مزاج کے بارے میں آگاہی ہوتی ہے کہ وہ کس طرح تنقیدی ادب کی طرف راغب ہوئے اور ان کے تنقیدی خیالات میں کس قسم کا رجحان پایا جاتا ہے۔ وحیدالدین سلیم بنیادی طور پر ادبی لحاظ سے مشرقی ادب و روایت کو پسند کرتے تھے۔ حالیؔ اور شبلیؔ کی طرح ان کو بھی عربی اور فارسی کی تنقیدی رجحان سے لگاؤ تھا، لیکن ادب میں جو مقام حالیؔ اور شبلیؔ کو حاصل ہے وہ یہ مقام حاصل نہ کر سکے، لیکن قابل توجہ اس لیے سمجھ لیں کہ انھوں نے جو کچھ ادبی تنقید پر لکھا ہے، اس میں شاعری کے مثبت پہلوؤں پر مشرقی طرزفکر میں روشنی ڈالی ہے۔ وہ سرسید کے لٹریری اسسٹنٹ رہے، عثمانیہ یونیورسٹی میں اردو کے استاد رہے اور حیدرآباد میں ”درالترجمہ“ سے بھی وابستہ رہے۔ ان تمام مقامات پر فرائض منصبی دینے سے بھی ان کی ذہنی طبیعت پر اثر ضرور پڑا ہو گا۔ وہ ادب میں اصلاح، اخلاقی اور سماجی اقدار و روایا ت کو پیش کرنے کے قائل تھے۔ 

وحیدالدین سلیم محمد حسین آزادؔ اور حالیؔ کی طرح یورپی شاعری کی تقلید کا مشورہ نہیں دیتے بلکہ وہ ہمارے اور ان کے شعراء کی نفسیاتی رجحان کو منفرد نوعیت سے دیکھنے میں وہ اردو شاعری کو داخلی ا ور خارجی دونوں پہلوؤں کے تناظر میں پرکھنے کے قائل ہیں۔ ان کے ایک مضمون اردو شاعری کا مطالعہ کے عنوان سے ’افادات سلیم‘ میں شامل ہے۔ اس میں انھوں نے داخلی اور خارجی پہلوؤں کو تنقیدی لحاظ سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ اردو شاعری میں زبان وبیان، اسلوب اور ہیئت کے معاملے میں عربی اور فارسی نقطہ نظر سے تنقید کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان پر مشرقی علم و ادب کا اثر مغربی ادب کے مقابلہ میں زیادہ تھا۔وحیدالدین سلیم شاعری میں قافیہ پیمائی کو ترجیح نہیں دیتے ہیں بلکہ وہ حقیقت اور اصلیت کو بیان کرنے کے قائل ہیں۔ اس کا مطلب ہے وہ الفاظ کی نسبت معنی کو زیادہ فوقیت دیتے ہیں۔ وہ شاعری کو ملک و قوم کی خدمت کرنے کے حق میں دلائل دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک شاعری کو معاشرتی، تہذیبی، تمدنی، تاریخی اور جغرافیائی خصوصیات کا حامل ہونا چاہیے۔ ہر ملک کا ادب اس ملک کی قومی وملکی اقدار و روایات کا آئینہ دار ہوتا ہے، اگر ایسا نہیں ہے تو وہ ادب اس ملک کے لیے اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ وحیدالدین سلیم میں ملکی و قومی جذبے کا رجحان بھی عرب کے ادبی مطالعہ کا اثر لگتا ہے کیوں کہ وہ اپنے ادبی مضامین اور شاعری میں ان پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر ادب تخلیق کرنے کے حامی ہیں۔ 

وحیدالدین سلیم بھی حالیؔ، شبلیؔ کی طرح مشرقی علم وادب سے مانوس نظر آتے ہیں مگر ان لوگوں نے جس محنت اور لگن سے کام اردو ادب میں کیا ہے، وہ سلیم کے یہاں دیکھنے میں نہیں آتا ہے۔ ان کے ہاں بھی حالیؔ کی طرح ابن رشیق کے نقطہ نظر کو اپنانے والے تنقیدی شعور کے لوازمات کارفرما نظر آتے ہیں۔ وہ شاعری میں قافیہ پیمائی کے پہلو کی نسبت خیال اور واقعات پر ترجیح دیتے ہیں۔ لفظیات کی لفاظی کو بے معنی سمجھتے ہیں اور اصل حالات و واقعات کو شاعری کے ذریعے بیان کرنے کے قائل ہیں۔ وحیدالدین سلیم بھی شبلی ؔ، حالیؔ اور سر سید کی تحریک سے وابستہ رہے ہیں اور اردو ادب کے لیے جوکچھ لکھا ہے وہ حالیؔ اور شبلیؔ کے مشرقی نظریات کے زیرسایہ حقیقت پسند پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔امداد امام اثرؔ نے کوئی الگ تنقیدی نظریات پر مشتمل کتاب تو مرتب نہیں کی ہے لیکن ان کی کتاب ”کاشف الحقائق“ پر نظر ڈالی جائے تو انھوں نے مختلف اصناف سخن اور شعر و ادب پر مختلف شاعروں کے کلام پر تنقیدی نظریات پیش کیے ہیں۔ امداد امام اثرؔ بھی شاعری کو ملکی مفاد اور قومی اور مقامی روایات کو برقرار رکھنے کے لیے پیش کرنے کے حق میں ہیں۔ وہ شاعری میں اپنے گردونواح کے حالات و واقعات کو پیش کرنا لازمی سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر انور سدید، امداد امام اثرؔ کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں: 

”امداد امام اثرؔ (متوفی ۱۹۳۴ء) کی تنقیدی کتاب ”کاشف الحقائق“ بیک وقت تذکرہ بھی ہے اور شاعری کی بوطیقا بھی۔ امداد امام کے تنقیدی تصورات میں حالیؔ کے نظریات کی بازگشت موجود ہے۔ انھوں نے اعلیٰ خیال کی پیش کش کے لیے اعلیٰ ظرف کا تقاضا کیا اور تشبیہات اور استعارات کے لیے گردوپیش کے مناظر و مظاہر اور اشیاء کو ترجیح دینے کی طرح ڈالی، انھوں نے فنی بحث میں غیرذاتی رویے کی وکالت کی تاکہ تنقید جانب داری کے الزام سے بچ جائے۔ امداد امام اثرؔ کی تنقیدی آراء کو اب بھی قدرکی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ اس تنقید کا مزاج عام طور  سے تہذیبی ہے۔“(۱۷) 

امداد امام اثرؔ نے اپنی کتاب ”کاشف الحقائق“ میں شاعری، تذکرہ نگاری اور تنقیدی تصورات کو پیش کیا ہے اور حالیؔ اور شبلیؔ کے نظریات سے بھی متاثر نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے تنقیدی خیالات کو اعلیٰ تصورات، تشبیہات اور استعاروں کی روشنی میں خارجی معاملات کو اجاگر کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ وہ تنقید میں جانبداری کے پہلو سے اجتناب کرتے ہیں اور اپنے جذباتیت کے عکس کو تنقیدی نظریات پر حاوی نہیں ہونے دیتے ہیں۔امداد امام اثرؔ مشرقی تصور ادب سے بھی ہم آہنگ ہیں۔ ان کے تنقیدی خیالات میں عربی اور فارسی کے شعری نظریات کو عمل دخل ہے۔ مشرقی تصورات کے ساتھ ساتھ وہ مغربی ادبیات سے بھی آشنائی رکھتے ہیں۔ ان کی کتاب ”کاشف الحقائق“ سے پہلے حالیؔ اور شبلیؔ کی تنقیدی تصانیف منظرعام پر آ چکی تھی۔ اس لیے ان کے ادبی مذاق کی تشکیل میں سر سید، حالیؔ اور شبلیؔ کے ادبی رجحانات کی تصویرکشی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ وہ مغربی ادبیات سے آشنا ہونے کے باوجود زیادہ رجحان مشرقی ادبی تصورات پر دیتے ہیں۔ ’’کاشف الحقائق‘‘ ان کی عملی تنقید کی تصنیف میں اور تنقیدی نظریات کم نوعیت کے ہیں۔ یعنی قلیل مقدار میں پیش کیے گئے ہیں، وہ تنقیدی مراحل سے گزرتے ہوئے مغربی اور مشرقی تصورات کو بنیادی عناصر بناتے ہوئے اپنے اصول تنقید کے پہلو کو ممتاز کرتے ہیں۔ اب ان پہلوؤں پر روشنی ڈالنی ضروری ہے، جن کا اثر امداد امام اثرؔ کے تنقیدی نظریات پر پڑا ہے۔امداد امام اثرؔ تنقیدی تصورات میں اخلاقی نقطہ نظر کو اہمیت دیتے ہیں۔ وہ شاعری میں لفظ کی نسبت معنی پر زیادہ زور دیتے ہیں اور اخلاقیات کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کے معنوی نوعیت کو دیکھا جاتا ہے، اگر خیالات و تصورات میں معنویت کا عنصر نہیں ہے تو وہ لفاظی اور الفاظ کی دل کشی بے کار ہے، اگر الفاظ معنوی نوعیت سے خوش خیال اور دلکش ہیں تو ان کی نظر میں وہ شاعری دلکش اور بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ وہ خوش خیالی کو شاعری کی بنیاد تصور کرتے ہیں۔ خوش خیالی، ان کے نزدیک پاکیزہ اور عمدہ خیالات ہیں۔ اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں: 

”شاعری کا مدار خوش خیالی پر ہے نہ شوکت لفظی پر۔ شاعری کی جان خوش خیالی ہے۔ شوکت لفظی شاعری کا جزو بدن نہیں البتہ شوکت لفظی خلعت فاخرہ کا حکم رکھتی ہے اور تب ہی خوشنما معلوم ہوتی ہے کہ قطع وبرید سے درست ہو اور جس مضمون کو پہنائیں وہ جامہ زیب بھی ہو ورنہ شعر سعدی صادق آئے گا: 

گربود بر عروس نازیبا 

بدنما یددبیقی و دیبا 

  

جاننا چاہیے کہ مسائل محققہ اور امور فطری کبھی محتاج شوکت لفظی کے نہیں ہیں، وہی شعر اس سے کام لیتے ہیں جو اپنے غیرفطری اقوال کو پراز شان وشوکت دکھاناچاہتے ہیں، فطرت کا تقاضا سادگی ہے اور جب بھی کلام ثبعیت فطرت کے ساتھ ہو گا،ضرور اس میں سادگی ہو گی۔“(۱۸) 

امداد امام اثؔر لفظی شان وشوکت کے قائل نہیں ہیں بلکہ وہ الفاظ کے معانی کی اہمیت اور فضیلت پر زور دیتے ہیں۔ لگتا ہے ان پر عہدالقاہر جرجانی اور ابن قیتیہ کے خیالا ت کا اثر ہے۔ وہ بھی معنی کی افادیت واہمیت کے قائل ہیں، وہ بھی الفاظ کی ظاہری خوبصورتی سے زیادہ اس کے معنوی پہلو کو فوقیت دیتے ہیں۔ یہاں پر اثرؔ کے مشرقی نقادوں سے ہم خیال ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ ’’کاشف الحقائق‘‘ میں وہ شاعرتصنع اور صنائع بدائع کی نسبت خوش خیالی اور سادگی کو تقویت دیتے ہیں۔ اثرؔ نے یہ خیال عربی اور فارسی کے نقادوں سے اخذ کیا ہے۔ وہ بھی صنائع و بدائع کے استعمال سے پرہیز کرتے تھے اور رعایت لفظی کو سچی شاعری کے لیے غلط تصور کرتے تھے۔امداد امام اثرؔ کے تنقیدی تصورات کا بنیادی پہلو اخلاقیات پر مبنی ہے۔ وہ اخلاقیات کے پہلو کو شاعری میں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اثرؔ بھی حالیؔ اور شبلیؔ کی طرح ابن رشیق کے بلند اخلاق کے اقدار و روایات کو اپنے خیالات و تصورات میں ہم آہنگ قرار دیتے ہیں۔ وہ ابن رشیق کے اس خیال سے متاثر ہیں کہ کلام، خد اکی مرضی اور اس کی رضا کی تقلید کا نام ہے۔ امداد امام اثرؔ بھی ابن رشیق کے خیالات و تصورات سے متاثر دکھائی دیتے ہیں جس طرح حالیؔ اور شبلیؔ بھی ابن رشیق کے نظریات سے ہم آہنگی رکھتے تھے۔ وہ حالیؔ کی طرح کذب اور شبلیؔ کی طرح مبالغہ پردازی کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ مذکورہ بالابحثوں سے پتہ چلتا ہے کہ امداد امام اثرؔ سر سید، حالیؔ اور شبلیؔ کی تحریک سے اثرات قبول کرتے ہیں اور جس طرح حالیؔ اور شبلیؔ عربی اور فارسی علوم سے اپنے تنقیدی تصورات کو اردو ادب میں ترویج دیتے ہیں۔ وہ بھی اس اندازفکر سے ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہیں اور شاعری میں زیادہ زور اخلاقی، ملکی، قومی پہلوؤں پر دیتے ہیں اور الفاظ کی نسبت معانی اور سادگی کی لہر کو اپنے تنقیدی خیالات کی روشنی میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

ڈاکٹر مولوی عبدالحق کو ایک محقق کی حیثیت سے زیادہ اور نقاد کی حیثیت سے کم جانا جاتا ہے، لیکن ان کی تنقیدی تحریریں بھی ان کی مختلف کتابوں میں مقدموں اور تبصروں کی صورت میں نظر آتی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالحق نے اپنے تنقیدی کام کی بنیادیں تحقیقی نتائج پر قائم کیں۔ اگرچہ انھوں نے تحقیقی کام زیادہ کیا ہے مگر ان کے تنقیدی کام کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ وہ عملی تنقید کو زیاہ واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے ہاں تنقید کو جانچنے کا منفرد انداز ہے۔ وہ ادب پارے کی تنقید کرتے ہوئے، اس کی تفہیم اور تقویم کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور عملی تنقید میں موازنہ کرتے ہوئے، اس کی قدروقیمت کا تعین کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ مولوی عبدالحق عربی اور فارسی شعری روایات سے خوب واقف ہیں اور وہ مغربی ادبیات سے بھی شغف رکھتے ہیں، لیکن وہ مغربی تنقیدی اصولوں کو اپنی تنقید میں کم شامل کرتے ہیں۔ حالیؔ اور شبلیؔ کی طرح ڈاکٹر عبدالحق بھی مشرقی اور مغربی ادبیات کو کسی نہ کسی صورت میں اپنے تنقیدی تصورات کو تقویت دینے کے لیے استعمال ضرور کرتے ہیں۔ڈاکٹر عبدالحق کے تنقیدی خیالات پر زیادہ مشرقی شعری ادبیات کا اثر ہے۔ شعر و ادب میں وہ مشرقی اندازفکر کے سیاق و سباق میں اپنے تنقیدی تصورات کو ترویج دیتے ہیں۔ وہ عربی اور فارسی شعر و ادب اور ان کے نقد معیار کو قائم کرتے ہوئے اردو ادب میں تنقیدی روش کو تقویت دیتے ہیں اور جہاں وہ محسوس کرتے ہیں کہ مغربی ادبیات کے تصور نقد کی ضرورت ہے تو وہ مغربی ادبیات سے بھی استفادہ کرتے ہیں۔جس طرح عربی اور فارسی نقادوں نے الفاظ کے معانی کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے، اسی طرح عبدالحق بھی لفظ کے صحیح استعمال، سادگی، جدت اور تاثیر کو اپنی تنقید میں بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ وہ الفاظ اور زبان کی ترتیب میں عربی سے زیادہ فارسی تنقید سے زیادہ تاثر حاصل کرتے ہیں۔ وہ فارسی زبان کے نقادوں میں شمس فیس رازی اور امیر کیکاؤس سے بھی ہم آہنگی کا تصور پیش کرتے ہیں۔ ان دونوں نے سخن عامض سے پرہیز اور سادگی بیان، تراکیب سہل اور موسیقی کے پہلوؤں کو اپنانے کی کوشش کی ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو فارسی سے اردو ادب میں شامل ہوتی ہیں۔ 

ڈاکٹر عبدالحق کے تنقیدی خیالات پر عربی اور فارسی کے تنقیدی تصورات کا اثر مغربی تنقید کی ادبیات کی نسبت زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ وہ فصاحت اور سادگی کے ساتھ شوخی، ظرافت اور بانکپن کو بھی ترجیح دیتے ہیں۔ وہ شاعری میں جہاں سادگی کو ضروری سمجھتے ہیں تو شوخی وظرافت کو بھی پیش کرنے کے قائل ہیں۔ وہ شعر و ادب میں محاوروں اور روزمرہ کے استعمال کو بھی فوقیت دیتے ہیں اور اس ضمن میں وہ داغؔ کی شاعری کے بارے میں رقم طراز ہیں: 

”داغؔ زبان کے بادشاہ ہیں۔ اردو زبان پر جو قدرت انھیں حاصل تھی وہ کسی دوسرے کو نصیب نہ ہوئی۔ علاوہ فصاحت وسادگی کے ان کے کلام میں شوخی ظرافت اور خاص بانکپن پایا جاتا ہے۔ ان کا کلام اردو زبان کے محاوروں اور روزمرہ اور بول چال کا خزانہ ہے۔ محاورے دوسروں نے بھی استعمال کیے ہیں لیکن داغؔ کا سا بے ساختہ پن نہیں پایا جاتا۔“(۱۹) 

ڈاکٹر عبدالحق، داغ کی شاعری سے متاثر نظر آتے ہیں اور ان کی عظمت و برتری کو ظاہر کرتے ہیں کہ انھوں نے زبان وبیان کو بڑی عمدگی سے پیش کیا ہے اور فصاحت و سادگی کے ساتھ شوخی اور ظرافت کے پہلوؤں کو اپنی شاعری میں تقویت بخشی ہے۔ ان کے ہاں زبان دانی میں مہارت کا پہلو سمویا ہوا ہے، وہ محاوروں، روزمرہ اور بول چال کو خوب اپنی شاعری میں بیان کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ڈاکٹر عبدالحق نے شاعری، دواوین پر مقدمات، مقالات اور تنقیدی مضامین جس پر بھی لکھا ہے۔ اس میں مشرقی تنقید کے پہلوؤں کو مدنظر رکھا ہے، اگر وہ شاعری میں میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ کی شاعری پر تنقیدی نظر ڈالتے ہیں تو وہ تخیل، تشبیہات، استعارات، فصاحت و بلاغت اور صنائع بدائع ان تمام عناصر میں مشرقی نقطہ نظر کی روشنی میں تجزیہ اور جائزہ لیتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالحق کسی بھی زبان کے ادب کو پرکھنے کے لیے اس کے کھرے کھوٹے کی تمیز کرنے کے لیے اس زبان کی روایت، تہذیب اور اس کی لسانی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کو حالیؔ کی نسبت مغربی ادبیات تک رسائی میں کافی آسانی تھی مگر انھوں نے ادب کی ترویج کے لیے زیادہ مشرقی اقدار کو اپنانے کو زیادہ تقویت دی ہے۔ 

اردو ادب میں پروفیسر محمود شیرانی کا نام بھی قابل ذکر ہے، لیکن ان کا کام نقاد کی حیثیت سے کم ہے اور محقق کے طور پر زیادہ کاوشیں نظر آتی ہیں۔ ان کی تحریروں میں تحقیقی کام بہت زیادہ ہے اور تنقیدی رجحان قلیل نوعیت کی حیثیت رکھتا ہے۔ لگتا ہے شیرانی صاحب کو تحقیق سے تنقید کی نسبت زیادہ لگاؤ رہا ہے، لیکن پھر بھی ان کے تنقیدی کام کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان کی تحقیقی تصانیف میں’’پنجاب میں اردو‘‘، تنقید شعر العجم، خالق باری، فردوسی پرچار مقالے، پرتھی راج راسا اور تنقید آب حیات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان تمام تصانیف میں کہیں کہیں تنقیدی تصورات اور خیالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔پروفیسر محمود شیرانی شاعری میں دوسرے نقادوں کی طرح ملتے جلتے خیالات رکھتے ہیں۔ وہ شعر و ادب کو اہمیت دیتے ہیں اورایک بے کار چیز نہیں سمجھتے ہیں۔ وہ شعر و ادب میں شعور و ادراک، حکیمانہ خیالات کا اظہار، شعر و ادب میں فنی اور جمالیاتی پہلوؤں کو بھی پیش کرنے کے قائل ہیں وہ اپنے تنقیدی خیالات میں مشرقی انداز فکر کے تصورات کو زیرغور لاتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مغربی خیالات کو بالکل نظرانداز کر دیتے ہیں، جہاں کہیں ان کو مغربی خیالات و تصورات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے وہ اپنے تنقیدی نظریات کو فروغ دینے کے لیے ان سے بھی استفادہ کرتے ہیں۔ ان کے تنقیدی تصورات میں مشرقی اصطلاحات کا استعمال جابجا ملتا ہے وہ ادیب کی شخصیت، ماحول کے اثرات، ذہنی رجحانات اور کیفیات کو مشرقی انداز فکر سے پیش کرنے کے قائل ہیں۔ حافظ محمود شیرانی نے اپنے تنقیدی خیالات کو اپنے تحقیقی خیالات میں شاذونادر ہی پیش کیا ہے، ایسا نہیں ہے کہ انھوں نے اپنے تنقیدی کی نظریات کو کھل کر بیان کیا ہو، ایک مبہم سی تصویر اپنے تنقیدی تصورات کی پیش کی ہے۔ پروفیسر محمود شیرانی کا زیادہ رجحان تحقیقی کام کی طرف رہا ہے اور تنقید کی طرف پوری توجہ نہ کر سکے، لیکن ان کی تحریروں میں کچھ نہ کچھ تنقیدی خیالات ضرور مل جاتے ہیں۔ دوسرے محققین اور ناقدین کی طرح انھوں نے بھی اپنے خیالات و نظریات کو مشرقی اور مغربی دونوں مکتب فکر کے نقادوں کے خیالات کو اپنی تحقیقی اور تنقیدی کاوشوں میں محسوس ضرور کیا ہے۔ 

پروفیسر حامد حسن قادری نے اردو ادب میں تنقیدی خیالات کو پیش کیا ہے اور ان کے تنقیدی خیالات کا انداز ان کی تنقیدی تصانیف کے مطالعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کس قسم کے تنقیدی تصورات و خیالات کے حامل ہیں۔ ان کی تصانیف ہیں۔ ”تاریخ داستان اردو“ تاریخ و تنقید ادبیات اردو، نقد و نظر، ماثر عجم اور کمال داغ (داغ و داغ کے دواوین کا انتخاب مع ایک طویل مقدمہ) بہت قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ مضامین بھی ہیں جو انھوں نے رسائل میں لکھے ہیں۔ یہ وہ تصانیف ہیں جن کو پڑھ کر قاری اور نقاد ان کے تنقیدی خیالات سے آشنا ہوسکتے ہیں۔ ان تصانیف میں انھوں نے اردو زبان و ادب اور ان کے مختلف مسائل پر تحقیقی انداز فکر سے نظر ڈالی ہے۔ ان کی کتاب تاریخ داستان اردو، نثر کی ایک بہترین کتاب ہے۔ اس تصنیف میں انھوں نے اردو زبان کی تاریخ کے ساتھ ساتھ نثرنگاروں کے متعلق اپنے تنقیدی خیالات کا اظہار کیا ہے جس کے ذریعے ان کا محقیقانہ انداز واضح ہوتا ہے۔پروفیسر قادری کے تنقیدی تصورات میں قدامت پسندی کا عنصر عیاں ہے اور ان کی تنقید میں قدامت پسندی اور روایت پرستی کے اثرات غالب ہیں۔ وہ زندگی میں اور شعر و ادب میں روایت پرستی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک شعر و ادب کی ظاہری قدر و قیمت زیادہ ہے اور وہ شعر و ادب میں ظاہری حسن کو اجاگر کرنے کے قائل ہیں۔ ان کے خیال میں زبان و بیان، ذہن و فکر اور شعر و ادب میں اعلیٰ معیار قائم کرنا ہی شاعری کی عظمت، حسن و بیان، لطافت تخیل اور زبان دانی کو اعلیٰ نہج پر پہنچاتی ہے۔ اگر شاعری میں غلط لفظ اور غلظ تلفظ کو پیش کیا گیا ہے تو وہ شاعری بے مزہ اور بے مقصد ہوگی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پروفیسر حامد حسن قادری شعرو ادب میں ظاہری حسن اور لطافت کو قائم کرنے کے لیے الفاظ کے معنی اور تلفظ کے درست ہونے پر زور دیتے ہیں اور اپنے تنقیدی خیالات میں شاعری سے متعلقہ ایسے تصورات کو ترجیح دیتے ہیں جس میں زبان و بیان کی درستی بہت ضروری امر ہے۔ پروفیسر حامد حسن قادری ادب برائے ادب اور ”ادب برائے زندگی“ ان دونوں نظریوں کے قائل ہیں۔ وہ شاعری کے مقصدی پہلوؤں کے طور پر بھی استعمال کرنے کے قائل ہیں اور خوشی و مسرت کے لیے بھی۔ ان کے تنقیدی خیالات میں مشرقیت اور مغربیت دونوں مکتب فکر کے نظریات و خیالات کی آبیاری ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ایک جگہ وہ مشرقی نقطہ نظر کو بڑے کٹر انداز میں قبول کرتے ہیں اور قدامت پسندی اور روایت پرستی کو تہہ دامنی سے ہرگز جدا کرنے کے حق میں نہیں ہیں اور دوسری طرف وہ مغربی انداز کو بھی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ”نقد و نظر“ میں میتھیو آرنلڈ کے مضمون ”مطالعہ شاعری“ کے ایک ایک لفظ کا ترجمہ کرتے ہیں اور بڑے عمیق انداز سے اس کے پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ 

پروفیسر قادری شاعری میں مقصدیت کو ترجیح دیتے ہیں اور سماجیاتی پہلو کی طرف کم رجحان ہے۔ وہ شاعری میں بے مقصدی کو بھی بیان کرنے کو برا نہیں سمجھتے مگر شاعری کے رموز و اوقاف اور خصوصیات کا ہونا لازمی جزو ہے۔ ان کے نزدیک قدیم اصناف میں تغیر و تبدیلی ہونی چاہیے، لیکن مشرقیت کی قدیم روایت قائم رہنی چاہیے۔ وہ شعر و ادب میں موضوعات میں تبدیلی کے قائل ہیں اور مشرقی انداز میں اپنے تنقیدی خیالات کو ترویج دینے کی کوشش کرتے ہیں اور مغربی انداز فکر ان کے تنقیدی خیالات میں زیادہ واضح نہیں ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں اندا زبیان اور طرز ادا میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہونی چاہیے اور موضوعات اور خیالات میں تغیر ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ ان کا یہ نظریہ ادب برائے ادب کی طرف مائل ہے اور موضوعات اور خیالات میں تبدیلی جو زندگی سے مربوط پہلوؤں کی عکاسی کرے، وہ ادب برائے زندگی کے نظریے کی طرف اقدا م ہے۔ وہ شاعری میں صوری اور جمالیاتی پہلوؤں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور ادب برائے ادب کی طرف ان کا رجحان زیادہ ہے۔پروفیسر حامد حسن قادری مشرقی انداز میں تنقید کرتے ہیں، وہ انداز بیان اور طرز ادا پر زیادہ زور دیتے ہیں وہ ادب میں کسی فن پارے کی تخلیق میں سماجی اور عمرانی پہلوؤں پر بہت کم روشنی ڈالتے ہیں۔ ان کا زیادہ خیال زبان کی صحت، بندشوں، صنائع بدائع اور تراکیب کا مناسب استعمال کی طرف زیادہ رہتا ہے۔ وہ ان عناصر کے ساتھ ساتھ جذبات و احساسات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اصلیت اور واقعیت کی کھوج لگانے میں محو رہتے ہیں۔ وہ غزل میں سچے معاملات، صحیح جذبات، اصلی واردات، الفاظ شیریں، بندش بیان کا درست ہونا، صحیح محاورات کا استعمال، صنائع بدائع کا مناسب ہونا، تخیل کا رنگ نیچرل ہو اور لفظی معنویت کے درست استعمال کو پیش کرتے ہیں۔ وہ ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اصلیت اور واقعیت کے پہلوؤں کو بھی غزل میں اجاگر کرتے ہیں۔ مذکورہ بالا تمام معاملات کو اپنے تنقیدی خیالات میں موضوع بحث بناتے ہیں اور ان کی اصل معنویت کی طرف زیادہ رجحان کا اظہار کرتے ہیں۔ اردو تنقید میں ان کا مزاج مشرقی ہے وہ مشرق و مغرب دونوں کو سمجھتے ہیں مگر ان کی تنقید میں مشرقی رنگ نمایاں ہے۔  

مولانا سیّد سلیمان ندوی کو اردو ادب میں ایک محقق اور نقاد کی حیثیت حاصل ہے۔ ادبی تحقیقی علوم کے ساتھ ان کو مذہبیات سے بھی گہرا لگاؤ ہے۔ ان کی ایک مشہور کتاب ”خیام“ ہے، لیکن اس میں تحقیقی کام پر زیادہ توجہ دی گئی ہے اور تنقیدی کام پر نگاہ کم ڈالی گئی ہے۔ ان کا اصل موضوع تحقیق ہی رہا ہے اور تنقید پر چند ایک مقدمات اور مضامین انھوں نے ضرور متعارف کروائے ہیں، جن سے ان کے تنقیدی خیالات کی آبیاری ہوتی ہے۔ ان کے تنقیدی مضامین میں ”معارف“ اور ہندوستانی رسالوں میں گاہے بگاہے شائع ہوتے رہے ہیں جن کو بعد میں دارالمصنفین اعظم گڑھ نے ۱۹۳۹ء میں ”نقوش سلیمان“ کے نام سے شائع کیا۔ ان مضامین اور مقدمات میں درج ذیل پہلوؤں پر تنقیدی خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔ مسدس حالی، مکاتیب شبلی، مکاتیب مہدی، خیابان، عطر و سخن، کلام شاذ، کلیات عشق، شعلہ طور، خمستان، اکبر کا ظریفانہ کلام اور ہاشم علی کا مجموعہ مراثی قابل ذکر ہیں۔ تنقید کی نسبت سلیمان ندوی کی زیادہ کاوش تحقیقی نوعیت کی چند ایک مقامات پر وہ تنقیدی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تنقید میں وہ اپنے استاد شبلیؔ کی پیرو کرتے ہیں اور اپنے تنقیدی نظریات میں شبلیؔ کے اثرات کو قائم کیے ہوئے ہیں۔سید سلیمان ندوی کے نزدیک شاعری شاعر کے جذبات اور تاثرات کی تصویر ہے اور تاثرات اور جذبات کو وہ شاعر کے ذاتی واردات کو قرار دیتے ہیں اور نقالی کو شاعری کی کم ترین نوعیت تصور کرتے ہیں۔ وہ شاعری کو سچے موتیوں کی مانند سمجھتے ہیں اور جھوٹ اور نقالی سے اجتناب کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک شاعری اصلیت اور حقیقت پر مبنی خیالات و تصورات پر ہونی چاہیے۔ ان کے تنقیدی خیالات میں تغیر و تبدیلی کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ وہ شاعری کو زمانے کے حالات سے مربوط کرتے ہیں اور زندگی کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ شاعری میں تبدیلی کے قائل ہیں۔ وہ شاعری کو سماجی اور معاشرتی انداز فکر میں پروان چڑھانے کے حق میں ہیں اور ملک و قوم کی بہتری کے لیے اور مقصدی انداز فکر کو قائم کرنے کے قائل ہیں۔ وہ شعر و ادب کو ملک و قوم کی خدمت ان کے اندر شعور و ادراک پیدا کرنے کے اصولوں کے تحت پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ خیال حدّت پسند اور ترقی پسند ادب کی طرف مثبت قدم ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی مولانا سلیمان ندوی کے شعر و ادب پر مختلف کیفیات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 

”مولانا سلیمان ندوی شعر و ادب میں ماحول کے اثرات کی اہمیت سے واقف ہیں۔ انھیں اس بات کا احساس ہے کہ ہر زمانے کے حالات ہی اس زمانے کے ادب کی تشکیل کرتے ہیں۔ سماجی زندگی میں جو کیفیت ہوتی ہے حالات جو کروٹ لیتے ہیں۔ اس کی جھلک براہ راست یا بالواسطہ طور پر ادب اور شعر میں نمایاں ہوتی ہے لکھتے ہیں ”یہ عجیب بدنصیبی ہے کہ ہماری شاعری کی پیدائش اس وقت ہوئی جب قوم پر مرونی چھائی ہوئی تھی اس کی ساری قوتیں ٹھنڈی تھیں اور یاس اور ناامیدی اس کو ہر طرف گھیرے تھی۔ ایسی قوم کے دل و دماغ میں قویٰ کا اشتعال، واقعیت کی قوت، مقصد کی بلندی اور عزم و ہمت کا جوہر کبھی پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ فردوسی نے محمود کو پیدا کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ محمود نے فردوسی کو پیدا کیا۔ اگر محمود کی تلوار یہ ہنگامہ آفر آفریں عہد پیدا نہ کرتی تو رستم و سہراب اور کیکاؤس و افراسیاب کے بوسیدہ ڈھانچوں میں یہ جان نہیں پڑسکتی تھی اور نہ رزم و جنگ کی یہ رجز و نہب تلواروں کی یہ جھنکار اور داد شجاعت کے یہ افسانے فردوسی کی زبان و قلم سے ادا ہو سکتے تھے۔“(۲۰) 

سیّد سلمان ندوی شعر و ادب پر حالات و واقعات اور ماحول کے رونما ہونے والے تغیر کو پیش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک شاعر اپنے فن پارے میں جن احساسات و جذبات کا اظہار کرتا ہے وہ سب ماحول اور حالات سے متاثر ہو کر بیان کرتا ہے۔ حالات و واقعات اس کے ذہن پر اثرات مرتب کرتے ہیں جن سے شاعر کے جذبات و احساسات عیاں ہوتے ہیں۔ یہ جذبات ماحول اور واقعات کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں۔ اردو ادب پر ماحول و واقعات کا کافی حد تک اثر ہے اور زیادہ تر سماجی اور معاشرتی حالات نے اردو ادب پر اثرات مرتب کیے ہیں۔ سیّد سلمان ندوی شعر و ادب میں مواد اور ہیئت میں توازن برقرار رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ ”مسدس“ پر اپنے ایسے ہی تنقیدی خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے نزدیک یہی بہتر ہے کہ جو حالات و واقعات حالیؔ نے مسدس میں بیان کیے ہیں۔ وہی درست اور ہم آہنگ ہیں۔ وہ ادبی فن پاروں کی خصوصیت کو تو بیان کرتے ہیں مگر ان کے محرکات کی طرف کم پیش قدمی کرتے ہیں جو ان کے تنقیدی تصورات کی خامی کو ظاہر کرتی ہے۔ جس طرح وہ حالیؔ کی مسدس کی خصوصیات کو تو بیان کرتے ہیں مگر ان کی محرکات کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ اسی طرح اکبر کی ظریفانہ شاعری کی افادیت و اہمیت پر تو زور دیتے ہیں اور اس کے پس منظر کے حالات و واقعات کو نظرانداز کردیتے ہیں، اگر فن پارے اور شاعر کے بارے میں تمام معاملات کو بیان نہ کیا جائے تو یہ تنقید ادھوری اور نامکمل کے زمرے میں آتی ہے۔سیّد سلمان ندوی کے تنقیدی خیالات میں آمد، آورد، جدت ادا، لطافت روانی، بے ساختگی، تشبیہات و استعارات اور فصاحت و بلاغت یہ تمام اصطلاحات شامل ہیں اور ان میں حالیؔ اور شبلیؔ کی طرح مشرقی طرز عمل کو دخل ہے۔ وہ ان تمام اصطلاحات میں مشرقی انداز فکر کے تصورات و نظریات سے متاثر نظر آتے ہیں اور حالیؔ اور شبلیؔ کی طرح شعر و ادب میں تغیر اور تبدیلی کی روش کو تقویت دیتے ہیں۔ 

مسعود حسن رضوی بھی اُن نقادوں میں سے ہیں جنھوں نے مغرب کے ادبی تصورات کے ساتھ مشرقی ادبی تصورات کو اردو شعر و ادب کے لیے ضروری تصور کیا ہے۔ انھوں نے اپنی ایک کتاب ”ہماری شاعری“ میں اپنے تنقیدی تصورات کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے تنقیدی خیالات و نظریات کے مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے تنقیدی خیالات پر زیادہ اثر فارسی ادب کے تصورات و خیالات کا ہے۔ وہ مغربی ادبی اصولوں کو بھی بالکل نظرانداز نہیں کرتے ہیں، لیکن ایران اور ہندوستان کی فارسی کی شعری اقدار و روایات سے متاثر ہوکر اردو ادب میں شعری اصناف سخن پر تنقیدی تاثرات کو پیش کیا ہے۔ وہ اپنے تنقیدی خیالات میں صرف مغربی انداز فکر کو نامکمل اور ناپائیدار قرار دیتے ہیں بلکہ مشرقی تنقیدی اصولوں کو اپنا کر تنقیدی خیالات کو ترجیح دیتے ہیں۔ مسعود حسن رضوی ادیب حالیؔ کی ”مقدمہ شعر و شاعری“ سے متاثر نظر آتے ہیں اور ان کی کتاب ”ہماری شاعری“ بھی انھی اثرات کی بنا پر لکھی گئی ہو۔ ڈاکٹر ابو الکلام قاسمی، حالیؔ اور مشرقی خیالات پر ادیب کے تاثرات کو بیان کرتے ہیں: 

”مسعود حسن رضوی ادیب حالی ؔ کے مقدمہ شعر و شاعری کا اصل مقصد یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے ذریعہ اردو کی پوری شاعری کے نقائص کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان کی اصلاح کے لیے تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ ادیبؔ چاہتے ہیں کہ ایک ایسی کوشش بھی سامنے آنی چاہیے جس کے نتیجے میں اردو کی شعری سرمایے کے محاسن کو پورے طور پر منظرعام پر لایا جاسکے۔ ہماری شاعری، اسی کوشش کا ایک حصہ ہے۔ ادیبؔ اردو شاعری کے محاسن کی نشاندہی کی بنیاد مشرقی تنقید کے بعض اصولی مباحث پر استوار کرتے ہیں۔ وہ سب سے پہلے شعر کی عروضی اور منطقی تعریف کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ شعر کی عروضی تعریف صرف موزونیت اور آہنگ تک محدود ہے اور منطقی تعریف تاثیر تک۔ اس لیے وہ شعر کی صحیح تعریف یہ متعین کرتے ہیں کہ ”موزوں اور بااثر کلام کو شعر کہتے ہیں۔“ اگر اس سلسلے میں عربی کی تنقیدی روایت سے استفادہ کیا جاتا تو یہ تعریف صرف موزونیت اور تاثیر سے مخصوص نہ ہوتی۔ اس لیے کہ عرب علماء نے بالعموم لفظ، معنی، وزن اور قافیہ کو شعر کے ضروری عناصر قرار دیا ہے۔“(۲۱) 

مسعود حسن رضوی ادیبؔ، حالیؔ اور شبلیؔ کے تنقیدی خیالات سے متاثر ہوتے ہیں اور ان کے تاثر سے اپنے ادبی خیالات کو تقویت دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ وہ عربی اور فارسی نقادوں کے تنقیدی تصورات سے بھی آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ ان کی ان تمام معاملات میں مشرقی علوم سے دل چسپی نظر آتی ہے۔ وہ عربی میں شعر کی تعریف اور ماہیت کے بارے میں لفظ، معنی، وزن اور قافیہ کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ فارسی کی تنقید میں وہ شعر کی تعریف اور ماہیت کا مطالعہ کرتے ہیں اور فارسی میں شعر کی مختلف ماہیتوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ وہ فارسی کی تنقید میں شعر کی اثرانگیزی کے ساتھ، شعر کی موزونیت اور قافیہ بندی کی روایت سے استفادہ کرتے ہیں اور اپنے تنقیدی خیالات کو ترویج دیتے ہیں۔ وہ حالیؔ کی تنقیدی انداز میں اصلیت، سادگی اور جوش کی فنی محاسن کو صحیح طرح سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی طرح شبلیؔ کی فصاحت و بلاغت کے موضوع کو اپنی تصنیف ”ہماری شاعری“ میں مختلف انداز سے وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔سید مسعود حسن رضوی ادیب نے ”ہماری شاعری“ تصنیف کے علاوہ دبستان اردو، روح انیس، امتحان وفا، فرہنگ امثال، فیض میر، مجالس رنگین، نظام اردو، شاہکار انیس، جواہر سخن جلد دوم، اندر سبھا اور کلیات فائز پر بھی کچھ کام کیا ہے۔ ان کے علاوہ ان کے کچھ تحقیقی اور تنقیدی مضامین مختلف رسالوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ ادیبؔ کا یہ کام اردو ادب میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ 

ادیبؔ شاعری کے حوالے سے مختلف تنقیدی نظریات و تصورات سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ شاعری کو کوئی بے کار چیز تصور نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کے مقصدی ہونے کے قائل ہیں۔ وہ شاعری میں جمالیاتی پہلوؤں کے ساتھ سماجی و عمرانی دونوں کی افادیت و اہمیت پر زور دیتے ہیں۔وہ شعر کی معنوی خوبیوں اصلیت، سادگی، بلندی، باریکی اور لفظی خوبیوں میں سادگی، اختصار اور مناسب الفاظ پر اپنے تنقیدی خیالات کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کے تنقیدی تصورات میں مشرقی رنگ غالب نظر آتا ہے۔ ان کا انداز فکر مشرقی ہے اور وہ مشرقی ادب کی روشنی میں اپنے تنقیدی خیالات کو تقویت بخشتے ہیں۔ ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی اس ضمن میں لکھتے ہیں: 

”مسعود حسن رضوی ادیبؔ نے استعارہ، تشبیہہ، تمثیل، کنایہ اور دوسری صنعتوں کی حقیقت اور خصوصیات کی طرف توجہ دی ہے۔ وہ صنائع و بدائع کے سلسلے میں وہی باتیں لکھتے ہیں جو عربی اور فارسی کے نقادوں کے درمیان عام رہی ہیں۔ استعارہ اور تشبیہ کے استعمال کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”مختصر یہ کہ استعارے اور تشبیہ، کنارے اور تمثیل کے استعمال سے دل کے خیالوں اور طبیعت کے احوالوں کی سچی تصویریں کھینچ جاتی ہیں اور ادائے مطلب کے نئے نئے اسلوب نکل آتے ہیں۔ ان کے استعمال سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ تھوڑے سے لفظ بہت سا مطلب ادا کرتے ہیں“ مشرقی تنقید میں صنائع کا فائدہ یہی بتایا جاتا رہا ہے کہ ان کے استعمال سے بیان میں شدت، اسلوب میں تازگی اور طول بیانی سے احتراز کی صورتیں نکلتی ہیں۔“(۲۲) 

سید مسعود رضوی ادیبؔ شاعری کے فنی محاسن میں اس قدر مشرقی نظریات سے متاثر ہیں اور اپنے تنقیدی خیالات میں انھیں تاثرات کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ادیبؔ اپنے تنقیدی تصورات کو پیش کرنے میں حالیؔ اور شبلیؔ کے تنقیدی نظریات سے متاثر نظر آتے ہیں۔ جس طرح ان دونوں فاضلوں نے مشرقی اور مغربی نقادوں کے ادبی تاثرات کو قبول کیا ہے۔ اسی طرح ادیبؔ بھی ان سے متاثر ہوتے ہیں اور اردو ادب میں شاعری کی مختلف شعری فنی محاسن کو ان کے پس منظر میں بیان کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ وہ شعر میں بلند خیالی، باریک بیانی اور کلام کی موزونیت پر زور دیتے ہیں۔ لہٰذا ادیبؔ کی ان تمام شعری خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے اردو ادبی تنقید میں ان کی عظمت اور حیثیت کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ 

حوالہ جات 

۱۔ ممتاز حسین ،پروفیسر،نئے تنقیدی گوشے،آزاد کتاب گھرکلاں محل،دلی،بار اول۱۹۶۴ء،ص۲۳۷۔۲۳۸ 

۲۔ عبادت بریلوی،ڈاکٹر،اردو تنقید کا ارتقاء،انجمن ترقی اردو پاکستان،کراچی،۲۰۰۱ء،ص۱۶۱ 

۳۔ ایضاً،ص۱۶۶ 

۴۔ ایضاً،ص۱۷۰۔۱۷۱ 

۵۔ ابوالکلام قاسمی،ڈاکٹر،مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی روایت،مغربی پاکستان اردو اکیڈمی،لاہور،۲۰۰۰ءص۲۱۱۔۲۱۲ 

۶۔ ایضاً،ص۲۱۴ ۷۔ ایضاً،ص۲۲۷ 

۸۔ ایضاً،ص۲۲۹ ۹۔ ایضاً،ص۲۳۸ 

۱۰۔ انور سدید،ڈاکٹر،اردو ادب کی مختصر تاریخ،عزیز بک ڈپو،لاہور،طبع پنجم۲۰۰۶ء،ص۳۰۳ 

۱۱۔ ایضاً،ص۳۱۳۔۳۱۴ 

۱۲۔ عبادت بریلوی،ڈاکٹر،اردو تنقید کا ارتقاء،ص۱۸۹ 

۱۳۔ ایضاً،ص۱۹۵ ۱۴۔ ابوالکلام قاسمی،ڈاکٹر،مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی رویت،ص۲۰۳ 

۱۵۔ ایضاٍ،ص۲۰۵ 

۱۶۔ انور سدید،ڈاکٹر،اردو ادب کی مختصر تاریخ،ص۳۸۰۔۳۸۱ 

۱۷۔ ایضاً،ص۳۸۱ 

۱۸۔ امداد امام اثر،بحوالہ نمبر۵۵،مشرقی شعریات اردو تنقید کی روایت۔ص۲۴۵۔۲۴۶ 

۱۹۔ عبدالحق،ڈاکٹر،بحوالہ۶۹،مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی روایت،ص۲۶۲ 

۲۰۔ عبادت  بریلوی،ڈاکٹر،اردو تنقید کا ارتقاء،انجمن ترقی اردو پاکستان،کراچی،۲۰۰۱ء،ص۲۴۹۔۲۵۰ 

۲۱۔ ابوالکلام قاسمی،ڈاکٹر،مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی روایت،مغربی پاکستان اردو اکیڈمی،لاہور،۲۰۰۰ء،ص۲۷۱ 

۲۲۔ ایضاً،۲۷۲۔۲۷۳ 

٭٭٭ 

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.