علی باقر کے افسانوں میں جدیدیت کا رجحان (تہذیبی ثقافتی پس منظر)
ڈاکٹرشاہ جہاں بیگم گوہرؔ کرنولی
گیسٹ لیکچرر، ڈاکٹر عبدالحق اردو یونی ورسٹی، کرنول، آندھراپردیش،انڈیا۔
9347321587
(Ali Baqar ke Afsanon mein Jadeediyat ka Rujhan by Dr. Shah Jahan Begum)
رجحان کا کوئی مقصد نہیں ہوتا عموماً یہ تو ایک طرح کی ذہنی یا فکری ترنگ ہوتی ہے جو مواد و موضوع اور طرزواسلوب میں اپنی راہ الگ بنالیتی ہے۔ رجحان عموماً انحراف، تبدیلی اور ترقی کی سمت میں بڑھتا ہے اگر اس کو کوئی خاص رخ نہ دیا جائے تو تخریب کی طرف بھی بڑھنے لگتا ہے۔ رجحان کسی خاص، فکر ہی کے سبب نہیں پیدا ہوتا حالات کے تقاضے کے طور پر بھی جنم لیتا ہے۔ ادب میں ایسی کسی کیفیت کو رجحان کا نام دیا جائے گا۔
-بیسویں صدی کے اہم رجحانات میں جدیدیت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ جدیدیت کا یہ رجحان کافی متنازعہ بھی رہا ہے۔ ترقی پسند تحریک کے زوال کے بعد اردو میں ایک جدیدیت ہمہ گیر تحریک کی صورت ابھری یہ ترقی پسند تحریک کی سرمایہ دارانہ جبرواستحصال کے خلاف ایک اجتماعی بغاوت تھی جس میں خارجیت سے داخلیت کی طرف رسائی، شوروغل سے خاموشی۔ بھیڑ سے تنہائی کی طرف سفر تھا۔
جدیدیت کا ایک تاریخی، فلسفیانہ اور ادبی تصور بھی ہے۔جدیدیت کے مسائل مقامی و ملکی بھی ہیں اور عالمی بھی جدید ادب کی تشکیل مقامی روایات اور ہمارے اپنے معاشرے کی حقیقت کی صورت گری سے ہوتی ہے لیکن آج دنیا اتنا سکڑ چکی ہے کہ ہم دوسرے ملکوں اور قوموں کے مسائل سے بیگانہ اور غیر متاثر نہیں رہ سکتے۔ یہی سبب ہے کہ جدیدیت کے عناصر اور عوامل مغرب و مشرق کے ہم عصر حقیقت پسندانہ ادب میں ایک ہی نظر آتے ہیں۔ سائنس، فلسفہ اور ادب ناقابل تقسیم ہیں۔ یہ نہ مشرق کی ملکیت ہیں نہ مغرب کی، سچائی اور انفرادی احساس بھی کسی ایک کی میراث نہیں۔ تمام انسانوں کی مشترکہ وراثت ہے ۔ہم اپنی تہذیب کے وارث ہیں اور عالمی تہذیب کے بھی۔ دنیا کے مسائل ہمارے اپنے مسائل سے الگ نہیں ا ن ہی میں شامل ہیں۔ علی باقر کے افسانوں میں عہد جدیدیت کے رجحانات کا احساس واضح ہے۔
علی باقر اردو ادب کے خاموش خدمت گزار ہیں۔ سجاد ظہیر اور رضیہ ظہیر کے داماد اور نجمہ ظہیر کے شوہر تھے، جو اپنے زمانے میں جانی مانی شخصیتیں تھیں۔ علی باقر اردو ادب میں ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ان کے افسانوں کے کل پانچ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ جن کے نام ہیں: خوشی کے موسم (1978ء)، جھوٹے دلاسے سچے دلاسے(1984ء)، بے نام رشتے(1987ء) ، مٹھی بھر دل (1993ء) اور لندن کے رات دن (2004ء)۔ سیما پبلی کیشنز نئی دہلی سے چھپ کر منظر عام پر آچکے ہیں۔
علی باقر ایک افسانہ نگار کے علاوہ ایک دانشور بھی تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی ایک خاص نصب العین کے تحت گزاری۔ انہوں نے کبھی اپنے آپ کو مادیت کا غلام نہ بننے دیا بلکہ اپنی زندگی کا مقصدی بنایا اور سماج کے دبے کچلے اور بے سہارا لوگوں کے لیے عملی طور پر کام کرتے رہے انہوں نے معذوروں کی مدد کے لیے غیر سرکاری تنظیم ’’Convert Action Now‘‘ کے نام سے قائم کی جس کے ذریعہ ملک گیر سطح پر ذہنی و جسمانی طور پر معذوروں کے لیے فلاحی کام کیے۔ علی باقر کے انتقال کے بعد ان کی بیٹی سیما باقر اس تنظیم کی ایک اہم رکن علی باقر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ علی باقر کو ان کی علمی و ادبی خدمات کے صلے میں کئی انعامات و اعزازات سے نوازا بھی گیا۔
جدید افسانے میں چوں کہ ہمارے معاشرے ثقافتی اور تہذیبی اقدار کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے بلکہ ادیب زندگی سے فرار حاصل کرکے تنہائی محرومی و ناکامی کا شکار ہوجاتا ہے جب کہ ہمارے بعض جدید افسانہ نگاروں نے مغربی ادب کے زیر اثر ہماری مٹتی ہوئی تہذیب رسم و رواج اور طور طریقوں کو اپنے افسانوں میں جگہ دے کر افسانے کے موضوعات میں تبدیلی لانے کی سعی کی ہے وقار عظیم نے مغربی ممالک میں ان موضوعات کی طرف لوٹنے کی جو تحریک چلی اس پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
مغرب کے ملکوں میں انگلستان، جرمنی اور فرانس اس تحریک کے آغاز اور مرکز رہے ہیں اور انھیں ملکوں میں بعض چیزوں کے رد عمل نے اس سے (یعنی رومانیت سے) تعلق رکھنے والے تصورات کو جنم دیا ہے۔ انگلستان میں رومانیت کی تحریکیں بعض نعرے اپنے ساتھ لے کر آئی فطرت کی طرف لوٹو سادہ فطری جذبات کی طرف رخ کرو۔ آبا و اجداد کی تاریخ ان کی تہذیب ان کے رسوم اور ان کے طور طریقے میں پناہ تلاش کرو۔
(علی باقر بغیر کسی احساس ندامت، سیما پبلی کیشنز، ص:231)
علی باقر جدید افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں لیکن انہوں نے انسان کی۸ جلا وطنی، محرومی و ناکامی سے زیادہ انسانی اقدار اور معاشرتی، ثقافتی و تہذیبی اقدار کی پیش کشی پر زیادہ توجہ صرف کی ہے۔ انہوں نے اپنی کہانیوں کو کبھی نہیں بنایا مگر وہا پنی تحریروں میں ہر جگہ موجود رہتے ہیں ان کی کہانیاں بڑی حد تک ان کے احساسات اور مشاہدات اور تجربات کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان میں اس مغربی تہذیب کا تذکرہ ہے جو ان سے برسوں تک طرح طرح کے روپ اختیار کرکے ان کے سامنے آتی رہی اور ایسی موقع پر انہوں نے پلٹ کر مشرقی تہذیب کی طرف دیکھا کبھی اسے اپنا ہم سفر بانے کے لیے تو کبھی اپنا رہنما وہ مغرب اور مشرق سے اپنی اس لین دین کو پوری ایمانداری کے ساتھ اپنے قارئین تک پہنچادیتے ہیں اپنی کہانیوں کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے علی باقر لکھتے ہیں:
میرے قارئین نے دیس پر دیس میں مجھے یہ یقین دلایا ہے کہ میری کہایوں سے وہ متاثر ہوئے ہیں کسی کو غم جاناں پسند آیا تو کسی کو غم دوراں کسی کو بدلتے ہوئے موسم اچھے لگے تو کسی کو نئے نئے پھولوں کے رنگ، کبھی میرے جملے پڑھ کر وہ حیران ہوتے تو کبھی زیر لب مسکرائے۔ کبھی ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئی تو کبھی پلکیں نم ہوگئی کسی نے مغربی زندگی کے زیرو بم کا اندازہ کیا تو کسی نے ہندوستانی تہذیب اقدار کو پھر سے دریافت کیا اپنی تحریر میں اپنی زبان پر بہت دھیان دیا ہے چوں کہ زبان کو میں نے سمجھا ہے پر کھا ہے۔ چاہا ہے ایک کھٹا میٹھا ذائقہ زبان پر تیر نے لگتا ہے چوں کہ میرے کردار وقت زندگی اور مقام سے ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ میری کہانیوں میں ایک عالمگیریت ہے کچھ ایسی قدروں کا اظہار ہے جو رنگ و نسل مذہب اور جغرافیہ معاشرہ اور تاریخ کے حدود سے بالا تر ہیں۔
(علی باقر بغیر کسی احساس ندامت، سیما پبلی کیشنز، ص:239)
علی باقر کی تحریروں میں مشرقی اور مغربی معاشعروں کی گہری چھاپ ہے ان دونوں سے انہوں نے دور رہنے کی کوشش نہیں کی ہے اور نہ ہی ان دونوں کی اندھا دھند تقلید اکثر کہانیوں میں ان دونوں کا قابل قبول امتزاج ملتا ہے۔
افسانہ ’’ پہلے عشق کی لذت‘‘ میں چینی کھانے کی تعریف کرتے ہوئے اپنے کردار شیام اور پریم کے درمیان گفتگو کے ذریعہ چینی تہذیب بیان کررہے ہیں:
میں دیکھتا ہوں پریم تم نے اگر اہم گرین کی سب ہی کتابیں خرید ڈالی ہیں شیام نے کہا اور پریم نے بغیر دودھ کی کافی بناتے ہوئے جواب دیا۔ ہاں شیام وہ واقعی بہت بڑا فن کار ہے مجھے لندن آکر پتہ چلا کہ تم ان کتابوں کو اتنا کیوں پسند کرتے تھے ہم لوگ سو ہو میں ایک چینی ریستوران میں رات کے کھانے کے لیے گئے شیام اپنی نئی نویلی دلہن کو سمجھا رہے تھے کہ چینی کھانے سے بہتر کوئی کھانا نہیں۔‘‘
(خوشی کے موسم، علی باقر سیما پبلی کیشنز، ص:210)
افسانہ’’ نیند‘‘ میں ہندوستانی تہذیب کی ایک خصوصیت پردہ داری بھی ہے یعنی یہاں کے لوگ اپنے محبوب سے محبت کا اظہار اپنے بڑوں کے سامنے نہیں کرسکتے کیوں کہ یہاں کی تہذیب میں یہ چیز معیوب سمجھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے وقت وہ تنہائی میں ہی محبوب سے باتیں کر پاتے ہیں علی باقر کے افسانے ’’نیند‘‘ میں روشنی جو بنگلور کی رہنے والی ائیر ہوسٹس ہے وہ شروع شروع میں اپنے محبوب سے ملتی تھی تو اس وقت اپنی ماں سے شرم محسوس کرتی تھیں اس لیے اسے نیند کی گولیا دے دیا کرتی تھی تاکہ وہ سوجائے لیکن آہستہ آہستہ اتنی بے باکی ہوگئی کہ جب اس کے دوسرے دوست گھر آنے لگے تو سب سے بے جھجھک ہو کر محبت بھری باتیں کرنے لگی اور ان کو نیند کی گولیاں دینا بند کردیا اس کی ماں کو اس کی اتنی بے باکی مناسب نہیں لگی کیوں کہ ہندوستانی تہذیب میں پردہ داری کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور پردہ داری ایک اچھی تہذیب کی نشانی بھی ہے یہی وجہ ہے کہ روشنی کی ماں جب مصنف اس سے ملنے آتا ہے تو اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے روشنی کی شکایت کرتی ہے:ـ
’’مجھے رنج تو اس وقت سے ہونا شروع ہوا جب تمہارے جرمنی جانے کے کچھ مہینے بعد روشنی کے اور دوست آنے لگے ان دنوں وہ مجھے نیند کی گولیاں کھلانے کی بھی ضرورت محسوس نہ کی محبت لوگ ہر زمانے میں کرتے رہے ہیں اور ہمیشہ کرتے رہیں گے مگر اتنی بے باکی مناسب نہیں پردہ داری اچھی تہذیب کی نشانی ہے۔‘‘
(خاموشی، علی باقر ، سیما پبلی کیشنز، ص:113)
افسانہ ’’خاموشی‘‘ میں ندیم اور جل دونوں محبت کرتے تھے۔ اور ندیم انگلستان سے اپنی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہندوستان لوٹ جانا چاہتا تھا اور جل جو کہ اپنے خاوند جیک طلاق دے کر نہیں جانا چاہتی حالاں کہ جیک اس سے محبت نہیں کرتا باوجود اس کے ندیم کی فرمائش کو ٹھکرا دیتی ہے ندیم جل کو تہا چھوڑ ہندوستان لوٹ جاتا ہے مثلا:
وہ محبت جس کی بنیاد امید پر ہوتی ہے عارضی اور خطر ناک ہوتی ہے تم نے مجھے اپنے قریب کھینچ کر پیار کرتے ہوئے سمجھایا تھا جیسے بغیر کس امید کے تم سے محبت کرنا میرے لیے خطروں سے خالی تھا۔ جل تم حالات کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتی ہو۔ میں تمھارے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گیا تھا۔ اور مجھے لگا صوفے پر تمہارا جسم نہ تھا مکھن سے بناہوا کوئی مجسمہ تھا جو ہمارے جذبات کی گرمی سے پگھلنے لگا تھا۔ اسی لیے کہ اگر میں نے حالات کو سمجھ لیا تو بالکل تنہا ہو جاؤں گی اور ندیم مجھے تنہائی سے بے حد ڈر لگتا ہے۔
(جھوٹے وعدے سچے وعدے، علی باقر، سیما پبلی کیشنز، ص:113)
تنہائی کا یہ کرب دونوں کا مقدر بن جاتا ہے۔ دراصل علی باقر کی افسانہ نگاری کے دور کا آغاز اس وقت ہوا جب ان کے آگے ماحول کے تقاضے ابھی بے نسب تھے۔ اور مغرب کی داخلی اور خارجی کشمکش کے راز بھی سربستہ تھے۔ لیکن ایک بات جوان کے تمام افسانوں میں بہت واضح دکھائی دیتی ہے وہ عورت کا نفسیاتی مشاہدہ اور مطلعہ ہے جو اکثر ان کے افسانوں کا محور ہے۔
مشہور افسانہ نگار عصمت چغتائی نے ان کی کہانیوں کے نسوانی کرداروں کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’میں نے اور منٹو نے جو باتیں کونین میں ڈبو کر کہی ہیں ان کو علی باقر نے شکر میں لپیٹ کر کہا ہے جو ان کے فنکارانہ کمال کی غمازی کرتا ہے۔ مغرب والے جس قسم کا لٹریچر لکھ رہے ہیں ان میں کھری عورت نظر نہیں آتی۔ علی باقر نے یوروپ کی عورتوں کو اصل روپ میں دیکھا ہے اور یہ کہانیاں لکھ کر مغرب کی عورت پر احسان کیا ہے۔‘‘
(ڈاکٹر علاؤ الدین، عصمت چغتائی، خوشی کے موسم کی اجرائی، کائنات، سیما پبلی کیشنز۔2008، ص:16)
علی باقرکے افسانوں کی زبان سادہ اور سلیس ہے جو ایک عام قاری کو بھی آسانی سے سمجھ میں آتی ہے ان کے افسانوں میں ادق اور مشکل زبان نہیں ہے۔ روزمرہ کی باتوں کو عام فہم زبان میں نہایت سلیقہ سے پیش کیا ہے۔ ان کی کہانیوں میں شہری زندگی کی بڑی دلچسپ منظر نگاری کی گئی ہے۔
سیمہ تراب الحسن ان کے افسانوں کا مجموعی حیثیت سے جائزہ لیتے ہوئے اس کی تمام خصوصیت پر روشنی ڈالتی ہیں:
’’وہ پردیس میں بیٹھ کر اپنے ملک اپنے شہر کی کہانیاں سناتے ہیں اور اپنے دیس میں رہ کر لندن کی فضاؤں کا حال کہنے لگتے ہیں ایک تخلیقی نگاہ کے حامل ہیں زندگی کو انسانی رشتوں کے روپ میں دیکھتے ہیں ان کی محبت کا تصور انوکھا ہے جو ان کا اپنا ہے۔ افسانوں کی فضا طلسماتی ہوتے ہوئے بھی الف لیلوی نہیں بلکہ ان میں جیتی جاگتی دنیا دکھائی دیتی ہے۔ جزئیات اسلوب منظر نگاری اچھوتے جملے انداز بیان نہایت سلیس اردو پھر بھلا یہ دل دماغ پر اثر نہ کریں۔ ان میں دکھ درد کی داستان نہیں کردار کی پختگی کی اہمیت نمایاں ہوتی ہے۔ زندگی کی حقیقتوں پر روشنی ڈالنا علی باقر کا خاص وصف ہے۔‘‘
(سیمہ تراب الحسن، علی بھائی، کائنات، سیما پبلی کیشنز، 2008، ص:29)
علی باقر نے اپنے افسانوں میں عمدہ کردار نگاری سے کام لیا ہے۔ وہ کرداروں کی نفسیات ان کے جذبات و احساسات کا بھرپور علم رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں ہندوستانی اور مغربی ممالک کے ہر طرح کے کردار ملتے ہیں۔ ان کے یہ تمام کردار اس سماج میں جیتے جاگتے اور چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔
علی باقر کے افسانوں کے نسوانی کرداروں میں چاہے وہ مغرب کی عورت ہو یا مشرق کی وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کی حامل ہیں۔ اس حقیقت کو علی باقر نے اپنے افسانوں میں کئی جگہ پیش کیا ہے۔ علی باقر کے افسانے ’’آرزو‘‘ میں ایک ایسی عورت کا بیان ہے جسے تنہائی ڈس رہی ہے اس کا محبوب اسے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ وہ اس کی یادوں کے سہارے زندگی گزاررہی ہے۔ یہاں تک کہ وہ بوڑھی ہوچکی ہے۔ لیکن محبوب کی آرزو میں اس کی یادوں کے سہارے جینے کا حوصلہ رکھتی ہے۔
’’دیواریں‘‘ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جس کی ہندوستانی محبوب سے شادی اپنی ماں کی نسلی تعصب کی وجہ سے نہ ہوسکی اور وہ اب ایک نیگرو مرد کی دوست بن کر اپنی ادھیڑ عمر گزار رہی ہے۔
’’فاصلے‘‘ افسانے میں یوروپ کی باوفا عورت کھل کر سامنے آتی ہے۔ وہ ایک نوجوان کے ساتھ دوستی تو کرتی ہے مگر شادی کی خواہش وہ اپنے بچپن اور جوانی کے محبوب کے لیے رکھتی ہے اور وہ اس حقیقت سے بے نیاز نہیں ہے اس کی وفائیں اپنے محبوب کے لیے ہیں۔
تنہائی کا کرب ہو یا انسان کی بے بسی و مجبوری یا اداسی علی باقر اپنے افسانوں میں ان کی بہترین عکاسی کی ہے۔ علی باقر کے تقریباً تمام افسانوں میں ہجرت کا مسئلہ ہو یا تنہائی کا کرب یا بے وطنی کا کرب یا جنگ سے پریشان حال لوگوں کی تکالیف و دکھ درد یا معذوروں و ضعیفوں اور بزرگوں کے مسائل اور اخلاقی قدروں کی پامالی احساس ہر طرح کے مسائل کو انہوں نے اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ جس وقت ہندوستان میں ان کی کہانیاں منظر عام پر آئیں وہ عہد اردو افسانے میں جدیدیت کے رجحان کے زیر اثر تجریدی کہانیوں کی تخلیق کا عہد تھا۔ وہ یوروپ میں قیام پذیر ہونے کی وجہ سے ان رجحانات سے زیادہ باخبر تھے۔ لیکن بنیادی طور پر ان کا مزاح کسی بھی تحریک یا رجحان کی پابندیوں سے آزاد رہ کر ادب تخلیق کرنے کا رہا ہے۔
غرض ان کے افسانوں کی جملہ خصوصیات سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ان کے افسانے اردو ادب میں یقینا اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں اور وہ اردو کے عصر حاضر کے افسانہ نگاروں میں منفرد مقام کے حق دار ہیں۔٭
کتابیات:
1۔
خوشی کے موسم
:
علی باقر
1978ء
سیما پبلی کیشنز نئی دہلی
2۔
جھوٹے وعدے سچے وعدے
:
علی باقر
1984ء
سیما پبلی کیشنز نئی دہلی
3۔
بے نام
:
علی باقر
1987ء
سیما پبلی کیشنز نئی دہلی
4۔
مٹھی بھر دل
:
علی باقر
1993ء
سیما پبلی کیشنز نئی دہلی
5۔
لندن کے رات دن
:
علی باقر
2004ء
سیما پبلی کیشنز نئی دہلی
6۔
فن افسانہ نگاری
:
سنبل نگار
1997ء
ایجوکینل بک ہاؤس، علی گڑھ
***
Leave a Reply
Be the First to Comment!