جے پورمیں۔۔۔۱۹۴۴ء کا ایک’’ ممتاز مشاعرہ‘‘ 

ڈاکٹر شاہد احمد جمالی 

مکان نمبر629؍محلّہ بساطیان۔رام گنج بازار۔جے پور۔302003(راج) 

e.mail-shahidahmd.sa@gmail.com 

9664310287 

(Jaipur mein 1944 ka ek mumtaz Mushaira by Dr. Shahid Ahmad Jamali) 

صوبۂ راجستھان ابتدا سے ہی اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے،خاص طور پر ریاست جے پور اس نیک کام میں پیش پیش رہی۔ریاست جے پور ہی ملک کی وہ واحد ریاست تھی، جس نے۱۸۳۵ء میں سب سے پہلے اردو کو دفاتر کی زبان مقرر کیا گیاتھااور پانچ سال کے عرصہ میں ہر محکمہ کی زبان اردو کردی گئی تھی ۔۱۸۴۴ء میں جو کالج قائم کیا گیا اس میں بھی عربی اور فارسی کے ساتھ اردو کی تعلیم دی جاتی تھی۔ 

ریاست جے پور میں کئی یاد گار مشاعرے منعقد کئے گئے،جن میں دو مشاعرے بہت اہم ہیں۔ایک ۱۹۳۵ء میں آل انڈیا مشاعرہ منعقد ہوا تھا جو تین روز تک چلا تھا۔جس میں ملک کے نامور شعراء شریک ہوئے تھے،فانی بدایونی،جگر مراد آبادی،آرزو لکھنوی،سیماب اکبر آبادی وغیرہ جیسے شعراء کے نام اس سلسلے میں لئے جا سکتے ہیں۔سراجؔ لکھنوی کا یہ شعر آج بھی لوگوں کے ذہن میں تازہ ہے، 

کچھ اور مانگنا میرے مسلک میں کفر ہے 

لا اپنا ہاتھ دے مرے دستِ سوال میں 

سیماب اکبر آبادی کا شعر تھا، 

دل کی بساط کیا تھی نگاہِ جمال میں 

اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں 

دوسرا مشاعرہ ’’متاز مشاعرہ،۱۹۴۴ء ہے،جس کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے۔ 

۱۹۳۵ء میں ہی ایک تنظیم بزم ادب جے پور قائم کی گئی تھی،جس میں مرزا غالب مکتبہ فکر کے شعراء شامل تھے،یعنی حضرت آگاہ دہلوی اور راقم دہلوی کے تلامذہ ہی اس تنظیم کے روح رواں تھے،اس تنظیم نے کئی مشاعرے منعقد بھی کئے اور ان کی روداد بھی شائع کی۔ایک روداد ’’بہترین تذکرہ‘‘کے عنوان سے راقم الحروف کی نظر سے بھی گزری ہے۔ جو ۱۹۳۶ء میں شائع ہوئی تھی۔اس کے چند سال بعد ایک نئی تنظیم ’’موڈرن پوئٹس سوسائٹی‘‘کے نام سے منظر عام پر آئی۔اس کے روح رواں عبد الرشید احمر جے پوری تھے،جو جدید شاعری اور انقلابی نظموں کے لئے جانے جاتے تھے۔اس تنظیم نے جے پور میں جدید شاعری کو فروغ دینے میں اہم کردارتو نبھایاہی ساتھ ہی ایک اہم مشاعرے کا انعقاد بھی کیا۔جس میں پہلی بار خواتین( شاعرات) نے پردے کے پیچھے سے اپنا کلام پیش کیا اور سامعین سے داد حاصل کی۔اس مشاعرے میں شریک ہونے والے شعراء میں اس زمانے کے اساتذہ س کے ساتھ نئی نسل کے شاعر بھی تھے۔یوسف علی خاں عزیز،منصور علی خاں بسملؔ(دونوں آگاہ دہلوی کے شاگرد) مولانا اطہر ہاپوڑی،مہرؔ تقوی،شمیم جے پوری،ناظم سنبھلی،محمد رفیق عارفؔ،امین الدین اثرؔ،چاند بہاری لال صباؔ(شاگرد مائل دہلوی)بسمل بھرتپوری،لکشمی نرائن سخاؔ،عطاء اللہ خاں عطاؔ،حکیم قادر علی ماہرؔ،چاند نراین ٹکو مہرؔ،پروفیسر الیاس عشقی،یوسف علی انجمؔ،رسواؔرامپوری،ؔمشکور علی برقؔ،صابر دہلوی،کے علاوہ اور بھی کئی اہم شعراء نے اس مشاعرے میں شرکت کی تھی۔جن مستورات نے اپنا کلام پیش کیا،ان میں عصمتؔ عزیزی،نعیمہ سلطانہ نعیمہؔ،اقبال جہاں بیگم اقبالؔ،اختر جہاں اختر،حمیدہ بیگم،اور نجم النساء بیگم کے نام شامل ہیں۔ 

یہ مشاعرہ،۱۷؍جون ۱۹۴۴ء کو مسلم اسکول،جے پور میں منعقد کیا گیا تھا۔اس کے پیچھے کئی مقاصد چھپے ہوئے تھے۔پہلا مقصد تو یہی تھا کہ مولانا حالی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بہترین اشعار تخلیق کئے جائیں۔دوسرا مقصد مسلم اسکول کی عمارت کی توسیع کرنا اور اس میں ایک ہال تعمیر کر کے اس کا نام’’اردو محل‘‘یا ’’ایوانِ اردو‘‘رکھنا۔تاکہ اس میں مرحوم شعراء کی تصاویر بھی آویزاں کی جا سکیں اور اس ہال میں آئے دن ادبی محافل کا انعقاد بھی کیا جا سکے۔نیز جے پور کی وہ مستورات جو شاعری کا ذوق رکھتی ہیں لیکن بسبب شرم و حیا کے یا دیگر مجبوریوں کے تحت اپنے جوہر نہیں دکھا پا تی ہوں،ان کے شاعرانہ جوہر بھی سامنے لائے جائیںتا کہ مستورات میں بھی اردو شعر و سخن کا ذوق و شوق پیدا ہو۔ 

مذکورہ مشاعرہ ریاست جے پور کا واحد مشاعرہ ہے جس میں داخلے کے لئے ٹکٹ لگایا گیا تھا۔ٹکٹ کی شرط ہونے کے با وجود بے شمار لوگ اس مشاعرے کو سننے پہنچے۔ٹکٹ اس لئے لگایا گیا تھا کہ جن مقاصد کو لے کر ’’موڈرن پوئٹس سوسائٹی‘‘نے اس مشاعرے کا انعقاد کیا تھا ان کے لئے رقم کی ضرورت ناگزیر تھی۔عبد الرشید احمرؔ جو اس مشاعرے کے روح رواں تھے،انھوں نے اس مشاعرے کی روداد شائع کی تھی، وہ اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں، 

’’جے پور میں نئی شاعری کا دور ۱۹۳۵ء سے شروع ہوا ہے،اس میں موڈرن پوئٹس سوسائٹی کا کیا حصہ ہے ،یہ یہاں کے اربابِ علم و ادب سے پوشیدہ نہیں ہے۔آج جے پور میں جہاں انورؔ،غالبؔ اور داغؔ کا رنگ پایا جاتا ہے وہاں عصر حاضر کی بجلیاں بھی ایسی نظر آتی ہیں کہ جن سے نظریں خیرہ ہو کر رہ جاتی ہیں۔لیکن یہاں سب سے بڑی کمی اس چیز کی ہے کہ علاوہ نجی صحبتوں کے پبلک مشاعرے اور ادبی اجتما عات کے لئے کوئی ہال یا ایسی جگہ نہیں ہے کہ جہاں آسانی سے اس قسم کے جلسے منعقد ہوا کریں۔جب کبھی ایسا موقع آتا ہے تو ہماری انجمنوںکے کارکن ادھر ادھر مارے مارے پھرتے ہیں۔اس خیال کو مد نظر رکھتے ہوئے اس مبارک موقع پر مسلم مڈل اسکول کو ہائی اسکول تک ترقی دینے کی منظوری صادر ہوئی ۔موڈرن پوئٹس سوسائٹی نے طے کیا کہ ایک ایسا شعر کہنے کی فکر کی جائے کہ جو منجمد ترانوں اور تعمیراتی بہاروں کی صورت میں ہو اور جس کے زیر سایہ آئندہ نسلوں کی فکر ِ شعر و ادب پروان چڑھتی رہے۔یہ قرار پایا کہ سوسائٹی کی طرف سے ٹکٹ لگا کر ایک مشاعرہ منعقد کر کے مسلم اسکول میں ایک ایوان ِ ادب،قصر الادب یا اردو محل کی بنیاد قائم کی جائے۔چنانچہ کچھ پوسٹر اور دعوت نامے چھپواکر کام شروع کردیا گیا۔جس کا نتیجہ یہ مشاعرہ ہے۔اس سلسلے میں تقریباً سوا پانچ سو روپیہ کے ٹکٹ فروخت ہوئے ،جن میں سے مشاعرے کے خرچ کے علاوہ مبلغ چارسو روپیہ سرِ مشاعرہ بدست صدر مشاعرہ جناب منشی امیر الدین خاں صاحب شوخؔ سکریٹری مسلم اسکول کو دیدئے گئے کہ اسلامی پنچایت میں اردو محل کے فنڈ میں جمع کردیں ۔‘‘(ص۔۲۔۳) 

مندرجہ بالا سطور سے موڈرن پوئٹس سوسائٹی کے اغراض و مقاصد کا تو پتہ چلتا ہی ہے ساتھ ہی ان کی مخلصانہ کاوشات کا بھی اظہار ہوتا ہے۔نواب مکرم علی خاں بہ نفس نفیس تو شریک نہ ہو سکے لیکن ان کا خطبہ صدارت اور غزل مشاعرے میں پڑھے گئے،خطبہ کی چند سطور ذیل میں پیش کر نا چاہوں گا، 

’’جے پور میں یہ مشاعرہ اپنی مثال آپ اور اپنا جواب خود ہے۔میری یہ خواہش ہے کہ کاش سب شعرائے ملک اپنی اپنی توجہ ملک کی اخلاقی حالت کی جانب مبذول کریں اور آج ضرورت ہے کہ اشعار کے ذریعہ برادرانِ وطن اور ابنائے ملک کو خودداری ،خود شناسی،عمل،محنت، اور مشقت سے روشناس کیا جائے۔آخر میں دعا کرتا ہوں کہ ہمارا مسلم اسکول مسلسل ترقی کرتا ہوا سر زمینِ راجپوتانہ میں نمو نۂ جامعہ ازہر بن جائے اور اس کی تعلیم سے گھر گھر نئی روشنی کے قمقمے جگمگا اٹھیں۔برادران وطن اور قوم کے لئے یہ ادارہ صحیح رنگ میں مادرِ درسگاہ ثابت ہو۔‘‘(ص۔۶) 

یہ مشاعرہ ممتاز الدولہ نواب آف پہاسو، نواب مکرم علی خاں رئیس اعظم جے پور کی صدارت میں منعقد ہونا تھا۔جس کے لئے انھوں نے اپنی منظوری بھی عنایت کردی تھی،لیکن عین وقت پر دردِ گردہ کے سبب وہ تشریف نہیں لا سکے اور اپنا خطبہ صدارت ارسال کردیا۔اپنی جگہ نواب صاحب نے احمد علی شاہ جعفری(ڈپٹی کنٹرولرسول سپلائی)کو صدر نامزد کیا ۔یہ ایک طرحی مشاعرہ تھاجس کی ردیف،’’جہاں میں ہوں‘‘ تھی۔موڈرن پوئٹس سوسائٹی کی جانب سے شائع شدہ اس روداد میں چند قطعات اور رباعیات بھی ہیں جو غیر طرحی ہیں۔پوری روداد میں مصرع طرح کہیں درج نہیں ہے،غالباً چھپنے سے رہ گیا۔ہر شاعر نے قافیہ مختلف استعمال کیا ہے۔ 

ذیل میں شعراء کرام کے ایک ایک دو اشعار بطور نمو نہ پیش کئے جا رہے ہیںتاکہ شعراء کے فکر و نظریات کا اندازہ کیا جا سکے۔ملاحظہ کیجئے، 

نواب مکرم علی خاں مکرمؔ: 

ستارے ٹوٹ کر گرتے ہیں سیارے لرز تے ہیں 

ہر اک ذرّہ مجھے شعلہ بداماں ہے جہاں میں ہوں 

خزاں سے کھیلتی ہے ہر روش میرے گلستاں کی 

جوانی سر بسر خوابِ پریشاں ہے جہاں میں ہوں 

مظہر حسین ناظمؔ سنبھلی: 

یزید و شمر کا رنگِ شقاوت ہے جہاں میں ہوں 

جفا ہے جور ہے اور بربریت ہے جہاں میں ہوں 

وہاں ہونے کو یوں تو آدمی ہی آدمی ہیں سب 

مگر فقدانِ حسن و آدمیت ہے جہاں میں ہوں 

سید معشوق حسین اطہرؔ ہاپوڑی: 

تصور بھی عجب شے ہے نگاہِ مست ساقی کا 

وہیں مے ہے وہیں ساغر وہیں خم ہے جہاں میں ہوں 

نہیں الزام اک مجھ پر ہی فریادِ محبت کا 

وہاں ہر شخص مصروفِ تظلم ہے جہاں میں ہوں 

یوسف علی خاں عزیزؔ(جانشین آگاہ دہلوی) 

محبت اک مسلسل وجہ عرفاں ہے جہاں تو ہے 

عبادت اک مکمل نقصِ ایماں ہے جہاں میں ہوں 

ندامت کی ادائیں دیکھ کر شرما کے رحمت نے 

کہا،کیا ہولِ محشر، خوفِ عصیاں ہے جہاں میں ہوں 

چند بہاری لال صباؔ(جانشین مرزا مائلؔ دہلوی)  

ہزاروں دفن ہیں،کیا ایک ارماں ہے جہاں میں ہوں 

بڑا آباد وہ شہرِ خموشاں ہے جہاں میں ہوں 

جگہ قسمت سے ایسی مل گئی شہرِ خموشاں میں 

بہت نزدیک مجھ سے باغِ رضواں ہے جہاں میں ہوں 

لکشمی نراین سخاؔ، 

یہ دلکش دینِ عشق اور دلکشا کوئے بتاں دنیا 

غرض یاں کوئی کافر ہے کوئی مسلماں ہے جہاں میں ہوں 

یہ عالم بے خودی کا بھی حقیقت میں ہے کیا عالم 

میسر رات دن اب دید جاناں ہے جہاں میں ہوں 

سید عابد علی ہلالؔ(شاگرد آگاہ دہلوی) 

زمیں کے ذرّے ذرّے سے فلک کے چاند تاروں تک 

مرا حسنِ نظر ہر شے میں رقصاں ہے جہاں میں ہوں 

منصور علی خاں بسملؔ(شاگرد آگاہ دہلوی) 

مجھے تاریکیوں کا خوف اور ظلمت کا کیا ڈر ہو 

دلِ سوزاں چراغِ زیرِ داماں ہے جہاں میں ہوں 

من مو ہن لال بسملؔ بھرت پوری(شاگرد وزیر ؔپہر سری) 

مجھے لینا ہی کیا ہے دوزخ و اعراف و جنت سے 

بقید زندگی ہوں تیری رحمت ہے جہاں میں ہوں 

خورشید علی مہرؔ(شاگرد یوسف علی خاں عزیز) 

بصارت ہو، بصیرت ہو، تصور ہو، تخیّل ہو 

سبھی کو اعترافِ نا رسائی ہے جہاں میں ہوں 

پنڈت چاند نراین ٹکو مہرؔ: 

مرا کیا حال پوچھتے ہو پوچھنے والو 

وہاں آسانیوں کا نام مشکل ہے جہاں میں ہوں 

رفیق احمد عارفؔ(شاگرد یوسف علی خاں عزیزؔ) 

وہاں ہر موڑ پر الجھی ہوئی راہوں کے مرکز ہیں 

وہاں رہبر بھی منزل بھول جاتا ہے جہاں میں ہوں 

مظہر حسین ناظم سنبھلی: 

بہت برہم نظامِ بزمِ امکاں ہے جہاں میں ہوں 

وہاں شیرازہ ٔ ہر شے پریشاں ہے جہاں میں ہوں 

اٹھائے جائے ناز انساں ہمیشہ بے نیازی کے 

وہاں یہ مقصدِ تخلیقِ انساں ہے جہاں میں ہوں 

شاعرات کے کلام کے نمو نے ملاحظہ فرمائیں،کس قدر نازک اور پاکیزہ خیالات کا اظہار کیا گیا ہے، 

عصمتؔ عزیزی(شاگرد یوسف علی خاں عزیز) 

جہانِ آرزو کا ذکر ہی کیا ہے جہاں میں ہوں 

زمانے سے الگ کچھ اور دنیا ہے جہاں میں ہوں 

نہ دنیا کا تخیّل ہے نہ عقبیٰ کا تصور ہے 

عجب بے خوف سے عالم کا نقشہ ہے جہاں میں ہوں 

نعیمہ سلطانہ نعیمہ,(متعلّمہ،مسلم گرلس اسکول) 

وہاں ان کی یہ شانِ امتیازی ہے جہاں میں ہوں 

کہ ہر نازِ محبت بے نیازی ہے جہاں میں ہوں 

وہ سر تا پا حقیقت ہیںمگر اب کیا علاج اس کا 

نگاہوں میں وہاں خوئے مجازی ہے جہاں میں ہوں 

اقبال جہاں بیگم اقبال(متعلّمہ،مسلم گرلس اسکول) 

میں نازک صنف ہوں اور نشتر ستاں ہے جہاں میں ہوں 

یہاں مجروح فکرِ نوعِ انساں ہے جہاں میں ہوں 

کہیں رہبانیت کی گدڑیوں سے لال نکلتے ہیں 

اسی منزل میں بس انسان انساں ہے جہاں میں ہوں 

اختر جہاں اخترؔ(متعلّمہ،مسلم گرلس اسکول) 

محبت کا مقولہ ہے کہ انساں ہے جہاں میں ہوں 

یہ دنیا عرصہ گاہِ لطف  یزداں ہے جہاں میں ہوں 

خدا کی حمد، نعتِ مصطفیٰ کا ورد ہر دم ہو 

یہی خواہش یہی بس دل کا ارماں ہے جہاں میں ہوں 

نجم النساء(متعلمہ،مسلم گرلس اسکول) 

نہ محفل ہے نہ مطرب ہے نہ نغمہ ہے جہاں میں ہوں 

تصور ہی تصور کار فرما ہے جہاں میں ہوں 

نہ بجلی ہے نہ جلوہ ہے نہ پردا ہے جہاں میں ہوں 

مگر دل خود بخود محوِ تماشا ہے جہاں میں ہوں 

نواب ممتاز بیگم صاحبہ ممتازؔ(پہاسو،علی گڑھ۔اہلیہ نواب مکرم علی خاں) 

محبت کی بلندی نے مری فطرت بدل ڈالی 

نہ لیلیٰ ہے یہاں کوئی نہ محمل ہے جہاں میں ہوں 

معاذ اللہ یہ دشواریاں راہِ محبت میں 

مجھے ا ک اک قدم ایک ایک منزل ہے جہاں میں ہوں 

حمیدہ بیگم۔(متعلمہ،مسلم گرلس اسکول) 

(ان کا کلام طرحی نہیں ہے) 

دیکھو نہ حشر میں کہیں رونا پڑے تمہیں 

منھ اپنے آنسوئوں سے نہ دھونا پڑے تمہیں 

اولاد کے حقوق کی پرسش ہو جس گھڑی 

شرمندہ بی بیوں سے نہ ہونا پڑے تمہیں 

ملاحظہ کیجئے،اسکول کی طالبات نے اپنی استعداد کے مطابق کلام کہا ہے اور پاکیزہ خیالات پیش کئے ہیں۔اس مشاعرے کا نام’’متاز مشاعرہ‘‘دراصل نواب مکرم علی خاں کی اہلیہ ممتاز بیگم کے نام پر رکھا گیا تھا۔کیوں کہ انھوں نے اس مشاعرے کے انعقادمیں نہ صرف حوصلہ افزائی فرمائی تھی بلکہ اس کو انجام دینے میں پیش قدمی بھی کی تھی۔اس مشاعرے کی روداد موڈرن پوئٹس سوسائٹی ،جے پور نے شائع کی تھی۔اس میں پچاس شعراء و شاعرات کا کلام شامل ہے،یہ مشاعرہ دس بجے صبح سے شام چار بجے تک چلاتھا۔   

٭٭٭ 

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.