اردو افسانے کا “حیرت فروش” : غضنفر
ڈاکٹر عُزیر اسرائیل
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو، اسلام پور کالج، اسلام پور
مغربی بنگال
(Urdu Afsane Ka Hairat Farosh: Ghzanfar by Dr. Uzair Israeel)
غضنفر کا اصل میدان ناول ہے ۔ لیکن انہوں نے افسانے بھی لکھے ہیں اور خوب لکھے ہیں۔ان کے نزدیک پوری دنیا ایک اکائی ہے ۔ استحصال خواہ کسی کا بھی ہو شہر میں غریب کا یا گاؤں میں کسان کا دونوں جگہ ان کا قلم اس کے خلاف اپنا احتجاج درج کراتا ہے ۔ غضنفر کے افسانوں کی خاص بات یہ ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے واقعات سے اپنے افسانے کا خمیر تیار کرتے ہیں۔ جنہیں ہم عام زندگی میں نظر انداز کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں وہاں سے وہ اپنے افسانے کا مواد تلاش لیتے ہیں۔
’کڑوا تیل ‘میں بیل ، کولہو، کولہو کا مالک اور خود راوی سبھی سماج کے اس محور کا حصہ ہیں جہاں استحصال کرنے والے ، استحصال سہنے والے اور اس کے خلاف ممکنہ آواز بلند کرنے والے سبھی موجود ہیں۔ سب کے اپنے مفادات ہیں۔ مظلوم نے حالات سے ہار مان کر ظلم کو اپنا مقدر مان لیا ہے ۔ ظالم بھی ایک لحاظ سے لاچار ہے کہ اس کو بھی اپنے پیٹ کی آگ بجھانی ہے ۔ راوی کو ہمدردی تو ہے لیکن ساتھ ہی اس کو اپنے نقصان کا خوف بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموش رہتا ہے۔
’’میری آنکھوں میں بچھڑا آ کر کھڑا ہو گیا ۔ لمبا چوڑا ڈیل ڈول ، بھرا بھراپھر یرابدن ،اٹھا ہوا پٹھا ،اونچا قد تنی ہوئی چکنی کھال ، چمکتے ہوئے صاف ستھرے بال ، پھر تیلے پاؤں ۔ بچھڑے کا کساہوا پرکشش جسم مجھے اپنی طرف کھینچنے لگا۔ میری نگاہیں اس کے ایک ایک انگ پرٹھہر نے لگیں ۔اچانک بچھڑے کا ڈیل ڈول بگڑ گیا ۔ قد دب گیا ۔ پیٹ دھنس گیا۔ پٹھا پچک گیا۔ پیٹھ بیٹھ گئی ۔ ہڈیاں نکل آ ئیں ۔ کھال داغ دار ہوگئی ۔ پیروں کی چمڑی مچل گئی ۔ بالوں کی چمک کھوگئی ۔ بدن گو بر میں سن گیا ۔ میرے جی میں آیا کہ میں کمرے سے باہر جاؤں اور بچھڑے کی رسی کھول دوں ۔ یہ بھی جی میں آیا کہ اورنہیں تو آگے بڑھ کر بیل کی آنکھوں کی پٹی ہی نوچ دوں مگر میں اپنی گھانی کا تیل نکلنے کے انتظار میں اپنی جگہ پر چپ چاپ بیٹا میں کبھی بیل ،کبھی کولھو کے سوراخ سے نکلتے ہوئے تیل کود یکھتار ہا۔ اور بیچ بیچ میں سڑاک سڑاک کی گونج سنتا رہا۔”(کڑوا تیل، مجموعہ حیرت فروش)
یہ صرف ایک بچھڑے کی روداد نہیں ہے۔ اس کے ذریعہ غضنفر پورے سماج کو آئینہ دکھایا ہے۔ بچھڑے کی جگہ مظلوم طبقات، پچھڑے کے مالک کو سسٹم کی جگہ رکھ کر ہم اس افسانے کا تجزیہ موجودہ تناظر میں کر سکتے ہیں۔
افسانہ “سانڈ” بھی ظلم کی ایسی حقیقت سے روشناس کراتا ہے جہاں مذہب کی آمیزش سے جواز فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یہاں “سانڈ” علامت ہے ان غیر قانونی عناصر کا جنہیں مذہب اور سیاست نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ ان کے خلاف آپ کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔ حکومتی ادارے جوکہ کمزوروں کے لیے ہی بنے ہیں ان سانڈوں کے معاملے میں بے بس ہیں۔
” افسر کا جواب سن کر گاؤں والے گڑ گڑ اکر بولے
’’ صاحب! کچھ کیجیے ۔’’ورنہ تو ہماراستیاناس ہو جائے گا ۔ ہم کنگال ہو جائیں گے ۔‘‘
افسر نے انہیں سمجھاتے ہوئے پھر کہا۔ ’’ہم مجبور ہیں ۔ ہم ایسے جانوروکا نجی ہاؤس میں بالکل نہیں رکھتے ۔ آپ لوگوں کو میری شاید یقین نہیں آرہا ہے ۔آیئے میرے ساتھ ۔‘‘
افسر گاؤں والوں کو اپنے ساتھ لے کر کا نجی ہاؤس میں داخل ہوا۔ گاؤں والوں کی نگاہیں وہاں پر بند ھے ہوئے جانوروں کو گھور نے لگیں ۔ انہیں کہیں بھی کوئی سانڈنہیں ملا ۔ وہاں تو ایسے جانور بند ھے تھے جو بہت ہی کمزوراورد بلے پتلے تھے جن کے پیٹ اند رکو دھنسے ہوئے تھے اور پسلیاں با ہرکونکلی ہوئی تھیں ۔” (سانڈ، حیرت فروش)
یہاں سوال وجوا ب کے انداز میںجو بھی کہا جارہا ہے وہ معنی خیز ہے ۔ کانجی ہاؤس میں وہی جانور ہیں جو ہڈی کے پنجڑے بنے ہوئے ہیں۔ ان میں کوئی بھی سانڈ نہیں ہے ۔ اسی طرح سرکاری سسٹم کا شکار صرف کمزور اور لاچار ہی ہوتے ہیں۔ جیلوں میں گناہ گاروں کے بجائے وہ لوگ بند کیے جاتے ہیں جن کی پیروی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ یہ آج کے زمانے کی ایک تلخ سچائی ہے ۔
غنڈے پالنا اور مذہب کے نام پر اس کو جواز فراہم کرنا ایک عام سی بات ہے ۔ یہاں بھی مذہب کے نام پر ایک غنڈہ چھوڑا گیا جس کی سرپرستی ایک پورا سماج کررہا تھا۔ انہیں اس کی فکر نہیں کہ دوسرے لوگوں کو اس سے تکلیف پہنچ رہی ہے ان کا نقصان ہورہا ہے ۔ یہ اقتباس ملاحظہ کریں:
“گاؤں کے مضبوط اور پھر تیلے نو جوان ہر طرح سے تیار ہو کر سانڈ کا انتظار کر نے لگے ۔ جلد ہی موقع ہاتھ آگیا۔ سانڈ کے گاؤں میں گھستے ہی نو جوانوں کی ٹولی اپنے ہاتھوں میں لاٹھی اور رسی لے کر اس کے پیچھے دوڑ پڑی۔
نو جوانوں نے سانڈ کوگھیر نے اور اسے گرا کر پکڑنے میں بڑی ہوشیاری دکھائی ۔ان تھک محنت کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے ۔ سانڈان کے نرغے سے نکل بھا گا۔ اس کوشش میں بہت سے نو جوان رخمی بھی ہوگئے ۔مگر نو جوانوں نے بھی ہارنہیں ہاری۔ وہ اس کا پیچھا کر تے رہے ۔ وہ سانڈ سورج پور گاؤں سے نکل کر اپنے گاؤں یعنی دھام پور کی طرف بھا گا۔ نو جوان بھی اس کے پیچھے دوڑے ۔ دھام پور والوں نے جب یہ دیکھا کہ کچھ لوگ ان کے سانڈ کو دوڑار ہے ہیں اور دوڑانے والوں کے ہاتھوں میں اٹھیاں اور رسیاں بھی ہیں تو وہ اپنے سانڈ کو بچانے کے لیے اپنے گھروں سے لاٹھی ، بھالے اور بندوقیں لیے باہر نکل آئے اور پیچھا کر نے والوں کوللکارتے ہوئے چلائے ۔ خبر دار !و میں رک جاؤ! آ گے مت بڑھو۔اگرتم نے ہمارے سانڈ کو ہاتھ بھی لگایا تو ہم تمہارے ہاتھ تو ڑ ڈالیں گے تمھیں گولیوں سے بھون دیں گے ۔ یہیں زمین پر ڈھیر کر کے رکھ دیں گے ۔ جانتے نہیں ، یہ سانڈ ہمارے دیوتا پر چڑھایا گیا پرساد ہے ۔ سانڈ کا پیچھا کر نے والے سورج پور کے نو جوانوں نے جب دھام پور والوں کی دھمکی سنی اوران کے ہاتھوں میں لہراتے ہوئے بھالوں ، لاٹھیوں اورتنی ہوئی بندوقوں کو د یکھا تو ان کے پاؤں تھرا کر تھم گئے اور وہ آگے بڑھنے کے بجائے منھ لٹکائے ہوئے پیچھے پلٹ آئے ۔ اس حادثے کے بعد دھام پور والے اور شیر ہو گئے ۔اوراب وہ اپنے سانڈ کو آئے دن جان بوجھ کر سورج پور گاؤں کی طرف ہانکنے لگے ۔” (سانڈ)
ہر طرف سے ہار کر سورج پور گاؤں کے بڑے بزرگوں کو یہی ایک تدبیر سوجھتی ہے کہ وہ بھی سانڈ کی شکل میں ایک غنڈہ پال کر پوجا پاٹھ کرکے بھگوان کے نام پر چھوڑ دیں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ سورج پور کا سانڈ دھام پور اور دھام پور کا سانڈ سورج پور پر یلغار کرتا رہا۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ دونوں سانڈوں میں دوستی ہوگئی۔ دونوں ایک ساتھ مل کر پہلے سورج پور پر حملہ آور ہوئے اس کے بعد دونوں دھام پور پر حملہ آور ہوئے ۔ انہوں نے اپنے پالنے والوں کو ہی نقصان پہنچانا شروع کردیا۔ اب یہ دونوں سانڈبے قابو ہوگئے ۔ دونوں گاؤں سے آگے بڑھ کر انہوں نے پورے علاقے میں تباہی مچانا شروع کردیا۔ جب سبھی لوگوں نے ان کو پکڑنا اور مارنا چاہا تو ان سانڈوں کو حکومت کی سرپرستی مل گئی انہوں نے اپنا ٹھپہ لگا دیا۔
یہ ٹھپہ کیا ہے ، سرپرستی کی علامت ہے ۔ مذہب کے ٹھیکیداروں کی سرپرستی انہیں ہر قسم کے ظلم کی کھلی چھوٹ دیتا ہے ۔ اسی طرح جب اسے حکومت کی سرپرستی مل جاتی ہے تو اس مزید طاقت مل جاتی ہے ۔
اس افسانے کی قرات اگر موجودہ منظرنامے کو سامنے رکھ کر کی جائے موجودہ سیاست کو بہت اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے ۔ سماج کی ہر طرح کی ناانصافی اور ظلم کی سرپرستی سیاسی لیڈران یا مذہبی لیڈران اپنے اپنے مقاصد کے لیے کرتے ہیں۔ یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ غنڈہ پالا جاسکتا ہے مگر اس کی ضمانت کوئی نہیں دے سکتا کہ جو آگ دوسروں کو جلا سکتی ہے اس کا شکار خود بھی ہوسکتا ہے ۔
جانوروں کی زبانی تمثیلی پیرایہ میں بیان کیے گئے افسانہ “بھیڑ چال” میں جمہوری سماج میں بسنے والی اقلیتیں بھیڑوں کی شکل میں خود کو اور شیر، بھیڑیا، بھالو کی شکل میں سیاست دانوں کی عیاریوں اور مکاریوں کو واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ راوی کی یہ بات بہت ہی معنی خیز ہے کہ دوسرے جانور بھیڑوں سے نفرت اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے اجداد چونکہ باہر سے آئے تھے اس وجہ سے وہ “باہری” ہیں۔ ان کا رہن سہن الگ ہے ، ان کی نسل تیزی سے بڑھ رہی ہے وغیرہ وغیرہ یہ سبھی الزامات ہندوستانی سیاست میں ایک خاص مذہب کے ماننے والوں پر لگاکر ان کو بھیڑوں کی طرح ستایا جارہا ہے ۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ حاکم وقت کو ان بھیڑوں کا حمایتی تصور کیا جاتا ہے ۔ اس الزام کو ہندوستانی پس منظر میں دیکھیں تو ایک خاص ذہنیت رکھنے والی پارٹی ہر قسم کی مظلومیت کے باوجود دوسری سیاسی پارٹیوں پر مسلم اقلیتوں کے “ٹستی کرن”کا الزام رکھتی ہیں۔ یہاں ووٹ بینک کی سیاست ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان بھیڑوں کو ہوتا ہے ۔ شیر جب دیکھتا ہے کہ عدم تحفظ کا شکار بھیڑیں دوسری پارٹی سے ہاتھ ملا رہی ہیں تو ان پر رات میں حملہ کراکر خود ان کی حالت پر آنسو بہانے چلا آتا ہے ۔
غضنفر نے اس افسانے میں ایک خاص پیغام دیا ہے کہ جب تک ہم اپنی طاقت نہیں پہچانیں گے دوسروں کے دست نگر بنے رہیں گے ۔ اپنی حفاظت کے لئے دوسروں کی طرف دیکھتے رہیں گے ہم اسی طرح فسادات میں مارے جائیں گے ۔ ایک دن ان بھیڑوں کو احساس ہوتا ہے کہ ان کے پاس بھی تو سینگ ہے جس سے اپنی حفاظت کرسکتی ہیں پھر کیوں دوسروں سے اپنی حفاظت کی بھیک مانگی جائے ۔ چنانچہ دوسرے الیکشن میں وہ کسی کی حمایت کے بجائے خود کی حکومت اپنے بل پر حکومت کی دعوے داری پورے اعتماد کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔ اس موقع پر ایک بھیڑ نے آگے بڑھ کر جو کہا وہ ملک کی اقلیتوں کے لیے نمونہ ہے :
“جنگل میں راجا کو ہٹانے کی ہوا ایک بار پھر چل پڑی ۔ جانور پھر سے ایک وادی میں جمع ہوئے ۔امید وار کناروں پر کھڑے ہوگئے۔
ڈھنڈ ور چی کا اعلان سنتے ہی جانو راپنے اپنے جھنڈ سے نکل کر امید واروں کی طرف بڑھنے لگے ۔ زیادہ سفید اور گھنے بالوں والی بھیٹر یں اپنے ریوڑ کی اگلی صف سے نکل کر آگے بڑھیںمگر کوئی بھی بھیٹر ان کے پیچھے نہیں گئی ۔
یہ دیکھ کر تمام جانور بھونچکا رہ گئے ۔ وادی پرسٹا ٹا چھا گیا۔ ایک ایک جانور بھیٹروں کوآنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگا۔
تب اگلی صف سے ایک نو جوان بھیٹر آگے نکل کر خاموشی کے سینے کو چیرتی ہوئی بولی: ہمیں اس طرح آپ حیرت سے کیوں دیکھ ر ہے ہیں۔ ہم کوئی نئی نہیں ہیں بلکہ وہی بھیٹر میں ہیں جو برسوں سے اس جنگل میں آپ کے ساتھ رہ رہی ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ اب ہم نے اپنی چال بدل لی ہے ۔اور ہمیں یہ ا حساس ہو گیا ہے کہ ہمارے سروں میں بہت کچھ ہے ۔’ یہ سنتے ہی جنگل کے تمام جانوروں کی نگا ہیں بھیٹروں کے پیروں ور سروں کی طرف مرکوز ہوگئیں ۔ دور دور تک بھیٹر یں فوجیوں کی طرح پاؤں سے پاؤں ملائے اور سراٹھائے کھڑی تھیں ۔اوران کی آنکھیں بھی آ ج چمک رہی تھیں ۔” (بھیڑ چال، حیرت فروش)
غضنفر کا شمار آٹھویں دہائی کے بعد افسانوی ادب میں اپنی پہچان بنانے والے افسانہ نگاروں میں ہوتی ہے ۔ اس عہد کے دیگر افسانہ نگاروں کی طرح ان کی جڑیں بھی عصری حسیت سے جڑی ہوئی ہیں۔ غضنفر کا کمال یہ ہے کہ وہ چیخوف کی طرح بظاہر معمولی نظر آنے والے واقعہ سے اپنے افسانہ کا خمیر تیار کرتے ہیں۔ ان کا بیانہ قاری کو آخر تک افسانے سے باندھے رکھتا ہے جو ان کے افسانوں کی کامیابی کی دلیل ہے ۔
موجودہ زمانے کی بے رحم اور عیار سیاست، بے حس سماج، اپنے ذاتی فائدے کے لیے کسی بھی حد تک گر جانے والے عناصر کی جس طرح نقاب کشائی غضنفر نے اپنے افسانوں میں کی ہے وہ انہی کا کام ہے ۔ صلاحیتوں کے بے قدری پر مبنی افسانہ “حیرت فروش ” جان بچانے کے لیے اپنی شناخت کھودینے کے کرب پر مبنی افسانہ “پہچان” ،عدم تحفظ کے احساس پر مبنی افسانہ “ڈوبرمین” جس میں مکان کے باہر لگے ایک نشان نے دہشت کی شکل اختیار کرلی تھی، جس کے نتیجہ میں انہیں مکان تک بیچنے کے لیے سوچنا پڑا تھا۔ پھر ڈوبرمین رکھ لیے جانے پر راوی کو اگرچہ کچھ راحت محسوس ہوئی لیکن اس کے ٹائم ٹیبل کے فریم میں راوی خود جکڑا ہوا محسوس کرنے لگا۔ یہاں تک کہ وہ خود رات کے بارہ بج جانے کی وجہ سے اپنے گھر میں جانے کے بجائے اسٹیشن پر رات گزارنے پر مجبور ہوگیا۔
خالد کا ختنہ” بھی عدم تحفظ کے احساس پر مبنی افسانہ ہے ۔ خالد جو اپنے پھوپھی زاد بھائی کے ختنے کی رسم میں اپنے ختنہ کے لیے بضد تھا آج ختنہ کا نام سن کر چھپا بیٹھا تھا، کسی طرح راضی نہ ہورہا تھا۔ امی کے پوچھنے پر اس نے جو وجہ بتائی اس کو سن کر سب سے چہروں پر اداسی چھاگئی:
’’امی ! میں ختنہ کرانے سے نہیں ڈرتا ۔‘
“ابو! آپ ہی نے تو ایک دن کہا تھا کہ جن کا ختنہ ہوتا ہے بدمعاش انہیں جان سے ماردیے ہیں ۔ خالد کا جملہ ابو کے ساتھ ساتھ سب کے سروں پر فالج کی طرح گر پڑا۔ سب کی زبانیں اینٹھ گئیں ۔ چہکتا ہوا ماحول چپ ہوگیا ۔ جگمکاہٹیں بجھ گئیں ۔ مسکراہٹیں مرجھا گئیں ۔ بچوں کی انگلیاں اپنے پاجاموں میں پہنچ گئیں۔ تلاشیوں کا گھناؤنامنظرا بھر گیا ۔ جسم ننگے ہو گئے ۔ چاقو سینے میں اترنے لگے ۔ ماحول کا رنگ اڑ گیا۔نور پر دھند کا غبار چڑھ گیا ۔خوشبوبکھر گئی ۔نائی کا استرابھی کند پڑ گیا۔ راکھ پر پانی پھر گیا۔ پاکستان والے خالو نے ماحول کے بوجھل پن کوتوڑتے ہوئے خالد کومخاطب کیا ۔
’’ خالد بیٹے !اگرتم ختنہ نہیں کراؤ گے تو جانتے ہو کیا ہوگا ؟ تمہارا ختنہ نہ دیکھ کر تھیں ختنہ والے بد معاش مار ڈالیں گے ۔‘‘
’’سچ ابو؟‘‘خالد سر سے پاؤں تک لرز گیا ۔
ہاں ، بیٹے ! تمہارے خالوسچ کہہ رہے ہیں ۔ تو ٹھیک ہے میرا ختنہ کر دیجیے ۔
“جھٹ اس کے ہاتھوں سے کھلی ہوئی پیٹ کے سرے چھوٹ گئے ۔ پنٹ کو لھے سے نیچ سرک آئی ۔ خالد ختنے کے لیے تیارتھا۔ مگر اس کی رضامندی کے باوجودکسی نے بھی اس کے سر پر سہرانہیں باندھا۔ کوئی بھی ہاتھ کرتا پہنانے آگے نہیں بڑھا۔ اذیت ناک سکوت جب نا قابل برداشت ہو گیا تو پاکستان والے خالو نے آگے بڑھ کر خالد کو اسی حلیے میں اوکھلی کے اوپر بٹھادیا۔‘‘ (خالد کا ختنہ)
تقریب کا آغاز ہو گیا مگرنائی کے تھال میں پیسے نہیں گرے ۔ نائی نے مطالبہ بھی نہیں کیا۔ خاموشی سے اس نے مسلمانی میں را کھ بھری۔ کمانی فٹ کی ۔ چٹے میں چمڑے کو کسا اور اس پرلرزتا ہوا استرار کھ دیا۔ جیسے ختنہ نہیں ،گردن کاٹنے جار ہا ہو۔”
یہ مذہب کے نام پر ہونی والی درندگی کے پس منظر میں ابھرنے والے خوف کی بہترین عکاسی ہے ۔ اس درندگی میں سبھی شریک ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ کسی کا پلڑا بھاری ہوتا ہے کسی کا ہلکا۔
غضنفر کے افسانوں میں داخلی کیفیت، ذہنی اضطراب، سب کچھ پانے کے بعد کچھ کھودینے کا رنج کئی افسانوں میں دکھائی دیتا ہے ۔ ان کا افسانہ”مسنگ مین” بچوں کی خوشی کے آگے اپنی خوشی کو تج دینے کے رویہ کو راوی اس طرح دیکھتا ہے کہ یہ بچوں کی خوشی اور ان کی ضد کے پیچھے ہماری اپنی مرضی اور خوشی نہیں رہ گئی۔ گویا کہ راوی ایک مسنگ مین بن کر رہ گیا ہے جس کا کوئی وجود نہیں۔ “پرزہ” ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارا سماج بھی ایک مشین کی طرح ہے جس کے کسی ایک پرزہ کے ادھر ہوجانے پر مشین کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے ۔ “ہون کنڈ” میں اسطور کے سہارے بنی گئی ایسی کہانی ہے جو سماج کو ذات پات میں تقسیم کرنے کے لیے مذہب کا سہارا لے کر گھناؤنے کھیل کا پردہ فاش کرتی ہے ۔
” ہون کنڈ کے اونچے چبوترے پر چنتن منن کے مدرا میں بیٹھے رشی منیوں کے منتر نے بہت سے دو پایوں کو چوپایا بنادیا۔ منتر نے محض رنگ وروپ ہی نہیں بد لے ،ان کے کردار واطوار بھی بدل دیے ۔ کچھ کواتنا اہم بنادیا کہ ان کے پیروں پر پھول چڑھنے لگے اور کچھ کوا تنا بے وقعت کر دیا کہ ان کے سروں پر بو جھ لد نے لگے ۔بوجھ ڈھو نے والے چو پایوں میں وہ بھی شامل تھے جن کی کہانی آج بیان کی جارہی ہے ۔ منتر نے انہیں اتنا بھولا بھالا اورمعصوم بنادیا کہ وہ بھاری سے بھاری بوجھ بھی بے چوں چر اکیے چپ چاپ ڈھونے لگے ۔ کمزوری دکھانے اورلڑکھڑانے پر لات اور چابکیں بھی کھانے لگے ۔
مسلسل بھاری بوجھ ڈھوتے رہنے سے ان کی کمر ٹیڑھی ہوگئی ۔گردن جھک گئی ۔ چا بکوں کی چوٹ سے کھال جگہ جگہ سے ادھڑ گئی ۔ پیٹھ کی چمڑی داغدار ہوگئی ۔مگرکسی کوان کی حالت پر ترس نہیں آیا۔”(ہون کنڈ، حیرت فروش)
دلتوں کا استحصال مذہبی سماج اور سرمایہ دار سماج دونوں یکساں طور پر کرتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ سرمایہ دار اپنے انداز میں اور مذہبی سماج اپنے انداز میں کرتا ہے ۔ ایک کو چھوڑ کر جب دوسرے کا سہارا لیتے ہیں تو وہاں ان کو اس سے زیادہ استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ پھر وہ اسی ہون کنڈ پر بیٹھنے کو تیار ہوجاتے ہیں جس کے منتر کے نتیجہ میں ان کی حالت جانوروں جیسی ہوگئی تھی۔
” کیاتم چاہتے ہو کہ اس جنجال اور سنکٹ سے تمھیں مکتی مل جائے ؟’’ رشی نے ان کا جواب سن کر بڑے ہی نرم لہجے میں پوچھا۔
ہاں ،مہاراج! چاہتے ہیں ۔ جی جان سے چاہتے ہیں ۔ بھگوان کے لیے ہمیں اس سے مکتی دلایئے ’’وہ رشی پتر سے التجا کر نے لگے ۔
“و ہ مکتی تو تمھیں مل سکتی ہے پرنتو”رشی پتر کچھ سوچ کر چپ ہو گیا ۔ ‘‘ پرنتو کیا مہاراج؟’’ وہ پوری بات سننے کے لیے بے چین ہوا ٹھے ” تھوڑا بہت تمھیں کشٹ اٹھانا پڑے گا ۔”
’’اٹھالیں گے مہاراج ! کشٹ بھی اٹھالیں گے ۔او پائے تو بتایئے ۔ رشی پتر دیر تک چپ رہا۔ پھران کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے گمبیھر لہجے میں بولا ۔
تمھیں کچھ دنوں تک ہون کے پاس بیٹھنا ہوگا ۔اگنی دیوتا کو آہوتی دینی ہوگی ۔ ہون کی گرمی ہی سینگوں کو گلاسکتی ہے ۔ آرمبھ میں تمھیں پیڑ اویشیہ ہوگی پرنتو بعد میں تم کو سدا کے لیے اس سنکٹ سے مکتی مل جائے گی ۔تمہاری اوستھا پہلے جیسی ہو جائے گی ۔تم پر بوجھ لادنے والے تمھیں پورا پورا چارہ پانی دینے لگیں گے ۔ جنھوں نے تم سے منہ موڑ لیا ہے وہ تمھیں پھر سے اپنالیں گے ۔ ان کی سہان بھوتی پھر سے تمھیں ملنے لگے گی اور رشیوں منیوں کا کرودھ بھی شانت ہو جائے گا ۔’’
رشی پتر کی بات سن کر وہ مسیحا کی طرف سے منہ پھیر کر ہون کنڈ کے پاس بیٹھ گئے ۔‘‘ (ہون کنڈ)
دوبارہ ہون کنڈ میں بیٹھنا اس لاچاری کو دکھاتا ہے کہ زمانہ بدلنے کے باوجود اب بھی مذہبی اور سرمایہ دارانہ استحصال کی جڑیں کمزور نہیں ہوئی ہیں۔ دلتوں اور ستائے ہوئے لوگوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا بھی دشوار ہوجاتا ہے کہ کس کا ظلم کم ہے ۔ ان کے پاس نجات کا راستہ نہیں ہے ۔ ان کے پاس صرف یہی راستہ بچا ہے کہ تلاش کریں کہ کون کم ظلم کرنے والا ہے ۔
تیشہ” شہری زندگی سے دور پہاڑی علاقوں میں پتھر کاٹنے والے ایک عام مزدور کے خوابوں کی کہانی ہے اس کی آرزو صرف یہ ہے کہ وہ اپنے پیٹے کو اسی طرح کی کار لاکر دے جو راجا بابو کے پاس ہے ۔ وہ اپنی ساری جمع پونجی سے ایک کار والا کھلونا خرید بھی لیتا ہے لیکن جب وہ گھر جاکر دیکھتا ہے کہ اس کا بیٹا بھی تیشہ اٹھا کر مزدوری کرنے گیا ہے تو اس کی ساری خوشی دھر ی کی دھری رہ جاتی ہے ۔
“دوسرے دن شام کے وقت وہ گھر پہنچا۔ منہ ہاتھ دھونے کے بعد اس نے پیٹی کھولی اور اس میں سے کاروالا پیکٹ نکال کر برآمدے میں آ گیا۔ رامو کی ماں !ارے اورامو کی ماں ،ادھر آ ؤ تو آ’’ اس نے اپنی پتنی کو پکارا۔ ‘‘ کیا ہے جی؟’ پتنی لپکتی ہوئی اس کے پاس آ گئی ۔
‘‘ایک چیج دکھا تا ہوں ۔ دیکھے گی تو تیری جوانی لوٹ آئے گی ۔’’
‘‘ای کیا چیج لائے ہو کہ ۔۔۔
‘‘ابھی دکھا تا ہوں ۔’’ اس نے جھٹ سے پیکٹ کھول کر کا رکو باہر نکال لیا۔ چمچاتی ہوئی کارکوپتنی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگی۔
“یہ ا پنے رامو کے لیے ہے ؟ ٹھیک و یسی ہی ہے جیسی کہ را جابا بو کے پاس ہے ۔ بلکہ یہ اس سے بھی اچھی ہے ۔ کیونکہ یہ بالکل نئی اوراے ون ہے ۔ان کی تو پرانی ہوکر کھٹارا ہوگئی ہے ۔ یہ بھی چلتی ہے ۔ بلکہ دوڑ تی ہے ۔اس میں اس طرح چابی بھر تے ہیں ۔
“راموکہاں ہے ؟ دکھائی نہیں دیتا۔ “چابی گھماتے ہوئے اس نے پوچھا۔
“وہ تو کام پر گیا ہے ۔ پتھر تو ڑ نے ۔ آ تا ہی ہوگا۔ لو، وہ ـ آ گیا ۔ “اس کی نگاہیں برآمدے سے با ہر دوڑ پڑیں ۔
ایک میلا کچیلا سالڑ کا تھکا ہارابوجھل قدموں سے ان کی طرف آرہاتھا۔لڑ کے کے ہاتھ میں تیشہ د کھ کر اس کی ہتھیلی سے کارلڑھک پڑی اور بھر بھرا کر ساری چابی نکل گئی ۔” (تیشہ، حیرت فروش)
یوکلپٹس ” افسانے کی تھیم وہی ہے جو سریندر پرکاش کے “بجوکا” کی ہے ۔ کھیت کو جانوروں سے محفوظ رکھنے کے لیے لگائے گئے یہ پیڑ ہی کھیتوں کی بربادی کا باعث بن گئے ۔ کھیت کی ساری نمی چوس لینے کی وجہ سے منڈیروں پر اصل کھیت سے دور ہونے کے باوجود کھیت فصل اگانے کے قابل نہیں رہ گیا۔ جھگرو کے لیے اب یہ بھی ممکن نہ رہا کہ وہ اسے کاٹ دے اس لیے کہ محکمہ جنگلات کے حکم کے مطابق کوئی پیڑ نہیں کاٹا جاسکتا۔ کا کا کے مشورے پر جھگرو اور اس کے بیٹے اور پوتے اندھی کا انتظار کرتے رہے کہ وہی ان درختوں سے کھیتوں کو آزاد کرسکتے ہیں۔ لیکن آندھی نہیں آئی۔ پوتوں نے ہمت کرکے پیڑوں پر کلہاڑی چلائی تو ان کو تھانے میں بند کردیا گیا۔ وہاں ان میں اور تھانے دار میں جو گفتگو ہوتی ہے اس سے کسان مخالف حکومتی قانون کی چکی میں پس رہے کسانوں کی بے بسی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے :
” پیڑوں پر ابھی کچھ ہی وار پڑے ہوں گے کہ گاؤں کے چوکیدار کی اطلاع پر محکمہ جنگلات کے کچھ سپاہی و ہاں آدھمکے اور انہیں پکڑ کر تھانے لے گئے ۔
’’ کیاتم لوگوں نے پیڑ کاٹنے کی کوشش کی تھی؟’’ تھانے دار نے کرخت لہجے میں سوال کیا۔
جی ہاں ہجو رکی تھی ۔’’ بڑے بیٹے منگرو نے جواب دیا۔ “کیا تمھیں معلوم نہیں کہ پیڑوں کا کاٹنا جرم ہے ؟”
لیکن وہ پیڑ تو ہماری جمین میں ہیں۔ ہم انہیں کاٹ کیوں نہیں سکتے ؟‘‘
بے شک پیڑ تمہاری زمین میں ہیں لیکن وہ ہماری حفاظت میں ہیں ۔ ہماری اجازت کے بغیر تم انہیں ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے ‘‘
’’لیکن ایسا ہم کیوں نہیں کر سکتے ہجور؟‘‘
’’بے وقوف! اتنے بڑے ہو گئے اور تمھیں یہ بھی پتا نہیں کہ پیڑ ہمارے محافظ ہیں ۔ان سے ہماری دھرتی کا سنتولن قائم ہے ۔انہیں کے دم سے بارش ہوتی ہے اور اس بارش سے ہی ہماری د نیا ہری بھری نظر آتی ہے ۔‘‘
۔۔۔۔’’تو میں جو کہہ رہاہوں وہ سچ ہے یا تمہارے دیہاتی ان پڑھ باپ جو کہتے ہیں وہ۔۔؟‘‘
’’میں کیا کہ سکتا ہوں ہجور! ہم تو بس اتنا چاہتے ہیں کہ ہمارا کھیت کچھ اگلے -اس میں سے کچھ پیدا ہو کہ ہم جند ہ رہ سکیں۔ ہم اپنی طرف سے ہر طرح کی محنت مسکت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ آپ ہی کوئی راستہ بتاد یے نا۔۔! ہم اس پر عمل کر یں گے ۔‘‘ (یوکلپٹس)
اس افسانے میں یوکلپٹس دراصل وہ قوانین ہیں جو بظاہر کسانوں کی بھلائی کے لیے بنائے گئے ہیں لیکن وہ حقیقت میں کسانوں کا خون چوسنے کے کام آتے ہیں۔ کھیت جھگڑو کا ہے ۔ وہ اپنے کھیت میں جو چاہے بوئے اور کاٹے کسی دوسرے کو مداخلت کا حق نہیں ہونا چاہئے لیکن وہ اپنی مرضی سے پیڑ لگا تو سکتا ہے اسے کاٹ نہیں سکتا ۔ ملک کے آدی باسی اور کسان برسوں سے اس اندھے قانون کی مخالفت کرتے آرہے ہیں لیکن حکومت چند لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے ماحولیات کی حفاظت کا نام دے کر برقرارکھے ہوئے ہے ۔
آندھی کا انتظار اس طرف اشارہ ہے کہ کسان آج بھی ہاتھ ہاتھ رکھ کر قدرتی مدد کا محتاج ہے ۔ انسان اور انسانی اداروں سے وہ مایوس ہے ۔ آسمان سے بھی اس کو مدد نہیں مل پاتی ہے ۔
ملبے پر کھڑی عمارت” نظام تعلیم پر طنز ہے ۔ بچوں پر ضرورت سے زیادہ بوجھ لادنے کی وجہ سے ان کی حالت بھی اس عمارت کی طرح ہوگئی ہے جو ملبے پر کھڑی ہے کسی وقت بھی زمین بوس ہوسکتی ہے ۔افسانہ ’حیرت فروش‘ باصلاحیت افراد کی بے قدری پر ایک گہرا طنز ہے۔ آج کے زمانے میں سب سے بڑی حیرت کی بات یہی ہے کہ کسی کو اس کی قابلیت کے مطابق مقام مل جائے۔
عمارت” داستانوی رنگ میں بیان کیا گیا افسانہ ہے ۔ قدرت کے خلاف انسانوں کی بے لگام خواہشوں نے اسے خود ہی خطرات سے دو چار کردیا ہے ۔فیکٹریوں اور گاڑیوں کے دھوئیں سے شہری زندگی کی کھلی فضا میں سانس لینا مشکل ہوگیا ہے۔ کاربن ڈائی اکسائیڈ کی مقدار فضا میں زیادہ ہونے سے وہ ایک عمارت میں پناہ لیتے ہیں پھر دوسرے اور تیسرے اس طرح اعلان ہوتا ہے کہ یہ آخری عمارت ہے اس کے بعد معمار اعلا کوئی نئی عمارت نہیں بنائے گا۔ مگر یہاں بھی کچھ دنوں کے بعد لوگوں کا دم گھٹنے لگا۔ لوگوں نے محسوس کیا کہ ان کے بدن لمبے اور سر بڑے ہوگئے ہیں۔ لیکن اب ان کے لیے باہر جانے کا بھی راستہ نہیں رہا۔ افسانے کی ابتدا اس منظر سے ہوتی ہے :
“شہر بے امان کی بے چینی جب بہت زیادہ بڑھ گئی اور لوگ چھٹپٹانے لگے تو شہر کے ایک گوشے سے ایک معمر آدمی ، جس کی آنکھوں میں تاب، ماتھے پر متانت اور داڑھی میں نو رتھا، اٹھا اور اس نے شہر والوں کو پر وقار لہجے میں مخاطب کیا۔ ‘‘لوگو!تمہارے لیے ایک عمارت تیار کر دی گئی ہے ۔ایسی عمارت جوآ کسیجن سے بھری ہوئی ہے ۔اس میں داخل ہو جاؤ! تمہارے پھیپھڑے کاربن سے محفوظ ہو جائیں گے اور تم ابد تک سکون کی سانس لے سکوگے ۔
کار بنی فضا میں گھٹے ہوئے عاجز و پریشان لوگ یہ اعلان سنتے ہی اس عمارت میں دوڑ کر داخل ہو گئے ۔ کچھ عر صے تک ان کے پھیپھڑے کاربن ڈائی آکسائڈ سے محفوظ رہے مگر دھیرے دھیرے اس عمارت کی آکسیجن کم ہوتی گئی اور ایک وقت ایسا آیا کہ وہ کاربن ڈائی آ کسائڈ سے بھر گئی۔
واقعی وہ عمارت کار بن سے بھر گئی یالوگوں کو ایسا محسوس ہوایہ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ سچ ضرور ہے کہ لوگوں کی سانسیں پھولنے لگیں اوران کا دم گھٹنے لگا۔ ان کی بے چینی اتنی بڑھ گئی کہ اہل شہراس عمارت کو چھوڑ نے پر مجبور ہو گئے لیکن ایسا نہیں ہوا کہ باہرآ کر انہیں آکسیجن حاصل ہوئی ۔ باہران کی گھٹن اور بڑھ گئی اور وہ آکسیجن کی طلب اور تلاش میں تڑپنے لگے ۔”(عمارت)
جو لوگ دہلی کی زہریلی ہوا اور اس کے نتیجے میں بعض تجارتی گھرانوں کی طرف سے آکسیجن کیفوں کے کھولنے کی خبر سے واقف ہوں گے ان کو اس افسانے کی معنویت سمجھ میں آجائے گی۔ قدرت کے ساتھ کھلواڑ کا کتنا بھیانک انجام ہوسکتا ہے اس کو انہوں نے اس افسانے میں دکھانے کی کوشش کی ہے ۔
سائبر اسپیس” دراصل شہروں اور دیہات کے پیچ کی دوری کو بیان کرتا ہے ۔ جہاں کی زندگی پر لکھنے کے لیے راوی ان کے رنگ میں رنگ جاتا ہے ۔ وہاں کی بے رحم زندگی کو جیتا ہے ۔ لیکن اس کی کہانی اس لیے شائع نہیں ہوتی کہ وہ “سائبر اسپیس” کے دور میں فٹ نہیں بیٹھتی۔ یہ افسانہ حقیقت میں ہمیں دو ہندوستان سے روشناس کراتا ہے ۔ ایک انڈیا ہے شہری زندگی والا ہے جہاں ہر قسم کی سہولیات مہیا ہیں دوسری طرف بھارت ہے جہاں اب بھی پینے کو پانی اور کھانے کے لیے کھانا نہیں۔ جہاں گوشت کے نام پر مرے جانور کا گوشت کھایا جاتا ہے ۔ زخمی ہونے پر مٹی کا لیپ لگایا جاتا ہے ۔ گندے تالاب میں مردو عورت اور جانور سب ننگے نہاتے ہیں۔ کسی کے چہرے پر کسی قسم کا کوئی تاثر نہیں ابھرتا۔ مچھر اور کھٹمل کی یلغار کا سامنا ننگی پیٹھ سے کرنا پڑتا ہے ۔ جہاں کی محنت اور مشقت سے جسم کالا بدنما اور چہرہ پچک جاتا ہے ۔ افسانہ کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔
“اچھا یہ بتا ؤتم لوگ کس طرح زندگی گزارتے ہو؟’’
چورسیا اس سوال پر کچھ دیرسوچتا رہا۔ پیچ بیچ میں ادھر ادھر دیکھتار ہا۔ پھرایک طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
“اس طرح ’’
اس کی نظر یں اشارے کی طرف مڑگئیں ۔
کچھ فاصلے پر کنکر یلی زمین کے اوپر ایک مر یل بچہ جس کا پیٹ ڈھول کی طرح پھولا ہواتھا۔ چھاتی کی ہڈیاں باہر نکلی ہوئی تھیں ۔ بے سدھ پڑا تھا اوراس کے پاس ہی ایک خارش زدہ پلا لیٹا تھا۔ دونوں کے اوپر مکھیاں بھن بھنارہی تھیں ۔
اس کی نگاہیں بچے اور پلے کے پاس سے لوٹ کر دوبارہ چورسیا کے چہرے پرمرکوز ہوگئیں۔ چورسیا کی آنکھیں دیالونگا ہوں کی گرمی سے پگھل کر موم کی طرح ٹپکنے لگیں ۔ ایک کی آنکھیں خاموشی سے اپنادرد بیان کرتی رہیں اور دوسری کی آنکھیں اسے دیر تک تکتی رہیں ۔
‘‘ تمہاری اچھائیں کیا ہیں؟’’ اس نے کافی دیر بعد چور سیا سے دوسرا سوال کیا۔
“وقت پر دو جون کی روٹی ۔ صاف پانی ۔موسم سے بچانے والا کپڑا اور بچھاون والابستر ’’
“بس “
صاحب آپ نے ‘‘بس’’ کیوں کہا؟” (سائبر اسپیس)
شہرکی پر تعیش زندگی سے پرے گاؤں میں لوگوں کی آرزوئیں بھی مختصر ہوتی ہیں۔ اس کو روٹی کپڑا اور مکان چاہئے جو بنیادی ضروریات کا حصہ ہے لیکن پوری زندگی کی تگ ودو کے بعد بھی اس کو یہ بھی مل پاتا ہے ۔ وہ اسی کو اپنی زندگی کا مقصد قرار دیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ راوی کے اس سوال پر کہ “بس” اور کو حیرت ہوتی ہے کہ بھلا اس سے بھی آگے کسی چیز کی خواہش ہوسکتی ہے ؟ یہ انڈیا اور بھارت کے درمیان کی ایسی دوری ہے جس کو شہروں کی پر تعیش زندگی گرارنے والا مدیر پہچاننے سے انکار کردیتا ہے ۔
غضنفر کے افسانوں کی دنیا سے ہم سب مانوس ہیں۔ یہ وہی دنیا ہے جہاں ہم سب سانس لیتے ہیں۔ فن کار کا دل بہت حساس ہوتا ہے ۔ یہی حساسیت اس کو تخلیق پر آمادہ کرتی ہے اوروہ سماج کو بدلنے کے لیے قلم کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے ۔
Dr. Uzair Israeel
Assistant Professor
Department of Urdu
Islampur College, Islampur, West Bengal
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!