فکر اقبال اور سید مظفر حسین برنی کا فہمِ اقبال: تحقیقی جائزہ

ڈاکٹر محمد عامر اقبال
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو، یونیورسٹی آف سیال کوٹ، پاکستان
عبیدہ تسنیم
سینیئر سبجیکٹ سپیشلسٹ، گورنمنٹ گرلزہائر سیکنڈری سکول ، باغ، تحصیل و ضلع جھنگ،پاکستان
Dr Muhammad Amir Iqbal
Assistant Professor, Urdu Department, University Of Sialkot, Sialkot, Pakistan
Ubaida Tasneem
SSS, GGHSS, Bagh, Jhang, Pakistan

Iqbal s Thought and Burni s Understanding of Iqbal: Research Review
ABSTRACT:
Syed Muzaffar Hussain Burni held the highest government posts. Despite his governmental responsibilities, he played a significant role in the promotion of Iqbal Studies. Several editions were published in different languages. He highlighted Iqbal s spirit of patriotism and the aspect of national unity. He extended Iqbal s thought in the form of topics. Iqbal had a keen eye on the situation of India. He had a soft spot for Indian philosophers. He had an in-depth study of Indian thought and philosophy. Burni’s insight also seems to be dominant. This aspect is not admirable. Scholors studied these thoughts in their own way and expressed their impressions. The study of this article will expand Iqbal s thought and enhance the sources of Iqbal Studies.

KEYWORDS: East, India, Patriotism, Philosophy of Self, Western Civilization
تلخیص: سید مظفر حسین برنی اعلیٰ ترین سرکاری عہدوں پر تعینات رہے۔سرکاری ذمہ داریوں کے باوجود اقبالیات کے فروغ میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔آپ نے اپنے لیکچر سے بہت شہرت پائی۔ اس کے کئی ایڈیشن مختلف زبانوں میں شائع ہوئے۔آپ نے اقبال کے جذبۂ حب الوطنی پر روشنی ڈالی قومی یک جہتی کا پہلو اجاگر کیا۔آپ نے موضوعات کی صورت میں فکرِ اقبال کو توسیع فراہم کی۔ اقبال ہندوستان کے حالات پر گہری نگاہ رکھتے تھے۔ہندوستانی مفکرین کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ہندوستانی فکر و فلسفہ کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے۔برنی صاحب نے فکرِ اقبال پر ان تمام پہلوؤں کا تاثر خوبصورت انداز سے بیان کیا ہے۔کہیں کہیں برنی صاحب کی بصیرت بھی غالب دکھائی دیتی ہے۔یہ پہلو قابلِ تحسین نہیں ہے۔اکابرین نے اپنے اپنے انداز سے ان افکار کا مطالعہ کیا اور تاثرات کا اظہار کیا۔ اس مضمون کا مطالعہ فکرِ اقبال کی توسیع اور اقبالیات کے ماخذوں میں اضافہ کا باعث ہو گا۔

کلیدی الفاظ: مشرق،ہندوستان، حب الوطنی، فلسفۂ خودی، مغربی تہذیب

سید مظفر حسین برنی کا تعلق”برن“ (بلند شہر) کے ایک ذی وقار خانو ادے سے تھا۔آپ نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی اس میں خدمتِ علم وادب کی ایک طویل اور مسلسل روایت رہی ہے۔آپ ۱۴، اگست ۱۹۲۳ء کو بلند شہر میں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلیمی سلسلہ بہت عمدہ رہا۔ آپ نے بی۔اے میں انگریزی ادب میں ٹمپل گولڈ میڈل حاصل کیا۔پھر انگریزی ہی میں ایم۔اے بھی کیا۔۱۹۴۷ء میں انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس”آئی اے ایس“ کے مقابلہ کے پہلے امتحان میں کامیاب ہوئے اور ریاست اڑیسہ میں تعینات ہوئے۔مرکزی حکومت نے آپ کی صلاحیتوں سے بھر پور استفادہ کیا۔آپ جوائنٹ سیکرٹری کمیونٹی ڈویلپمنٹ رہے۔محکمہ زراعت میں جوائنٹ سیکرٹری رہے۔ایڈیشنل سیکریٹری وزارتِ پٹرولیم وکیمیکلزکاانتظامی عہدہ سنبھالے رکھا۔وزارتِ اطلاعات و نشریات کے اہم ترین ادارے میں سیکریٹری رہے۔بورڈ آف ریونیو میں رلیف کمشنر رہے۔چیف سیکرٹری اور ڈویلپمنٹ کمشنر کے اعلیٰ ترین عہدوں پر ذمہ داریاں سر انجام دیں۔وزارتِ داخلہ میں سیکرٹری جیسے عہدے پر کام کر کے نیک نامی حاصل کی۔ناگا لینڈ،منی پور،تری پورہ اور ہریانہ کے گورنر رہے۔مرکزی حکومت کے اقلیتی کمیشن کے چیرمین رہے۔پبلک سیکٹر کے تقریباً آٹھ اداروں میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سرانجام دیں۔بہت سی بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی اور تقریباً 24ممالک کی سیر و سیاحت بھی کی۔اتنی مصروفیت کے باوجود آپ کے دل میں فکرِ اقبال کو پروان چڑھانے کا جذبہ کبھی ماند نہ پڑااور کلیاتِ مکاتیبِ اقبال کی چار جلدیں ترتیب دے کر پاک و ہند میں اقبال شناسی کا نیا باب رقم کیا۔
ایسے ہنگامے میں جب کہ مذہبی، لسانی اور علاقائی تعصب بڑھتا جا رہا تھا اس وقت برنی صاحب نے بھوپال میں ایک خطبہ دے کر وقت کی ضرورت اور تقاضوں کے عین مطابق فکرِ اقبال کا شعور بیدار کیا۔ہندوستان کی قومی تہذیب کو اگر کسی زبان کے آئینے میں دیکھا جائے تو اردو زبان کا عکس ہی نظر آئے گا۔ درحقیقت اردو زبان کی حیثیت گلدستے جیسی ہے جس میں ہر زبان کے پھول کھلے ہوئے ہیں۔ یہ زبان اپنے لہجے اور اپنے باطن کے اعتبار سے بھی اپنی انفرادی حیثیت رکھتی ہے۔ محبت، یگانگت، خلوص اور اپنائیت اس کے بنیادی عناصر ہیں۔ہندوستانی ماہرینِ ادب اس زبان کی ترویج و ترقی میں کوشاں ہیں۔ اہلِ ہریانہ کو اس بات پر خاص طور سے ناز ہے کہ اردو کی جنم بھومی ہریانہ کی دھرتی ہے۔ ہریانہ اردو اکادمی نے حب الوطنی اور آپس کی رواداری کا جذبہ پروان چڑھانے کے لیے بہت سی کاوشیں کی ہیں۔ سید مظفر حسین برنی فکرِ اقبال کو پروان چڑھانے کا جذبہ لے کر اٹھے تو ہریانہ کے لوگوں نے ان کی عزت افزائی کی۔ ہریانہ کے سابق وزیرِ اعلیٰ چودھری حُکم سنگھ نے سید مظفر حسین برنی کی پہلی کتاب”محبِ وطن اقبال“ کے حوالہ سے اپنے تاثرات کا اظہار کچھ یوں کیا تھا :
” ْمحبِ وطن اقبال۔ بھی ایک ایسی اشاعت ہے جو بنیادی طور پر قومی جذبے کو استوار کرتی ہے۔ اس کے مصنف سید مظفر حسین برنی ہیں جو ایک ممتاز دانشور ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت کی بھی ذمہ دار شخصیت ہیں۔ آپ ناگالینڈ، منی پور، تری پورہ کے علاوہ ہریانہ کے بھی گورنر رہ چکے ہیں۔ آپ اقلیتی کمیشن کے چیئر مین کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے۔ ہریانہ میں اردو کی فضا کو ہموار کرنے میں برنی کا نمایاں رول ہے۔ ہریانہ ساہتیہ اکادمی نے اس کتاب کو پہلی بار ۱۹۸۴ء میں اور پھر دوسری بار ۱۹۸۵ء میں شائع کیا تھا۔ ادبی حلقوں میں اس کتاب کی مانگ کو دیکھتے ہوئے ۱۹۹۰ءمیں ہریانہ اردو اکادمی نے یہ تیسرا ایڈیشن شائع کیا ہے “ (۱)
یہ تاثرات اس دور کے ہیں جب برنی صاحب ہندوستان کے ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے پہچانے جاتے تھے۔ آپ کی کتاب”محبِ وطن اقبال“ منظرِ عام پر آ چکی تھی۔ اس کتاب کے مطالعہ سے آپ کی اقبال فہمی اورفراست کا وہ دھارا آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے کہ جس میں فکرِ اقبال رواں دواں تھی۔ جب آپ ہریانہ کے گورنر تھے تو آپ نے اردو کی ترویج کے لیے خاطر خواہ کاوشیں کی تھیں۔ اس دوران ہریانہ اردو اکادمی نے اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے جو کتب شائع کی تھیں انہیں ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا تھا۔ اس وقت کے کمشنر محکمہ تعلیمات حکومتِ ہریانہ اور اردو اکادمی ہریانہ کے نائب چیئر مین اے این ماتھر(آئی اے ایس)تھے۔ وہ برنی صاحب کے بارے میں کہتے تھے :
” محترم سید مظفر حسین برنی کی ذات کسی بھی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ آج ہریانہ میں اردو کی جو ہموار فضا ہمارے سامنے ہے اس کے پس منظر میں برنی کا ایک اہم رول ہے۔ ہریانہ اردو اکادمی کی تشکیل بھی ان کی مرہونِ منت ہے۔ اکادمی کا سالانہ ریاستی ایوارڈ بھی برنی کے نام سے منسوب ہے “ (۲)
برنی صاحب کے فکر کو سمجھنے کے لیے اس خطبہ کا ذکر ضروری ہے جو آپ نے بھوپال یونیورسٹی کے زیرِ اہتمام ۱۴، جنوری ۱۹۸۴ء کو پڑھا تھا۔ بھوپال سے اقبال کو خاص لگاؤ بھی رہا تھا۔ اقبال کی زندگی میں بھوپال کو ایک اہم مقام حاصل ہے اس شہر سے اقبال کے روابط بہت قریبی اور خوشگوار رہے تھے۔ برنی صاحب نے اپنے خطبے میں اقبال شناسی کی بجائے اقبال دوستی کا رنگ اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ اچھوتا موضوع برنی صاحب کی انسان دوستی کی علامت ہے۔ آپ نے اپنے خطبہ میں اقبال شناسی کے نئے پہلو بھی اجاگر کیے تھے۔ اقبال کو شاعرِ مشرق اس لیے کہا گیا کہ انہوں نے مشرق کی روحانی اور تہذیبی عظمت کا نعرہ اس وقت بلند کیا تھا جب مغربی سامراج کاتسلط اپنے نقطۂ عروج پر تھا اور سارا مشرق نو آباد یاتی نظام کے جوئے کے نیچے کراہ رہا تھا۔ اقبال نے اس دور میں مشرق کے فکرو فلسفہ کی برتری کے گیت گائے اور مشرق کے نظریہ حیات و کائنات کی عظمت و رفعت کا احساس دلایا۔ اقبال کو اسلام کے سوا ایسا کوئی فلسفہ نظر نہ آتا تھا جو پورے نظامِ زندگی پر حاوی ہو۔ برنی صاحب کے بقول اسلامی فکر کی طرف اقبال کا جھکاؤ اسی باعث تھا کہ وہ ااسلام کو ایسا نظام حیات قرار دیتے تھے جس میں خودی کےبیج کی نشو و نما ہو سکتی ہے۔ اس فکر کی سیادت اس وقت مشرق میں ممکن بھی تھی۔برنی صاحب کے خیال کے مطابق اقبال کی اسلامی فکر میں غیرتِ قومی کا وہ جذبہ بھی شامل تھا جسے نو آبادیاتی نظام کے استعمال نے زیادہ کٹیلا (SHARP) بنا دیا تھا مگر اس فکر کی وضاحت ان ماہرین اور نقادوں نے زیادہ کی جن کی رسائی اسلامی فکر کے سر چشموں تک نہیں تھی۔ اس لیے تنگ نظر انسانوں کی آنکھیں اور بھی خیرہ ہو گئیں۔ برنی صاحب کا خیال تھا کہ اقبال کے آخری زمانے کے بعض خطبات و بیانات کی تشریح اس طرح کی گئی گویا وہ نظریہ پاکستان کے خالق ہیں۔ برنی صاحب اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں :
” اقبال شناسی کے جو خطوط، صحیح یا غلط، متعین کیے جا چکے ہیں ان میں کوئی ایسا موڑ نہیں آتا جو ہمیں ٹکے بندھے نتائج سے بچا کر نیا اور حقیقت پسندانہ زاویۂ نظر دے سکے “ (۳)
ان باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے برنی صاحب نے اپنے خطبہ میں ”اقبال اور قومی یک جہتی“جیسا اچھوتا عنوان منتخب کیا تھا۔ آپ کے خیال میں ہندوستان کے لوگوں نے شاعرِ مشرق اقبال کو مشرق کی وسعتوں سے نکال کر اپنے عقائد و تصوارت کے قید خانے میں ڈال رکھا تھا۔ پاکستانی عوام اقبال کو تصور پاکستان کا خالق مانتے ہیں جبکہ برنی صاحب کی رائے یہ ہے :
” تاریخ کا ایک عجوبہ یہ بھی ہے کہ جو بات جتنی زیادہ مشہور اور عام طور پر تسلیم کی جانے والی ہے تحقیقی کاوش اور تجزیہ و تحلیل کی کسوٹی پر وہ اتنی ہی بے اصل ثابت ہوتی ہے“ (۴)
برنی صاحب نے اپنے خطبہ بھوپال میں خالصتاً اپنے خیالات کو ہندوستانی عوام کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ آپ کا یہ خطبہ ایک کتابچے کی صورت میں ”اقبال اور قومی یک جہتی“ کے نام سے شائع ہوا۔آپ نے ا س کے دوسرے ایڈیشن میں چند اضافوں کے ساتھ ”محبِ وطن اقبال“ کے نام سے دوبارہ شائع کروایا تھا۔ا س اشاعت کے دیباچے میں آپ نے اقبال کے بھوپال سے تعلقات پر روشنی ڈالی تھی۔ اس سے قبل کتابچے میں اقبال کی ان نظموں کا حوالہ بھی دیا تھا جو اقبال نے قیام بھوپال کے مختلف ادوار میں لکھی تھیں۔ جبکہ”محبِ وطن اقبال“ کے دیباچے میں آپ نے ممنون حسن خاں کے حوالہ سے یہ بھی لکھا تھا کہ وہ اقبال کے بھوپال سے روابط کے بارے میں چشم دید واقعات سنا سکتے ہیں۔ اس طرح سوانح اقبال کے کچھ دھندلے گوشے ضرور روشن ہو سکتے ہیں۔ اس وقت ممنون حسن خاں بقیدِ حیات تھے۔ اقبال کی شاعری کے حوالہ سے برنی صاحب نے”محبِ وطن اقبال“ کے دیباچے میں لکھا تھا :
” اقبال کی شاعری سے میرا ادبی ذوق ہمیشہ مانوس رہا ہے۔ لیکن اقبال پر اہلِ علم و خبر نے بہت کچھ لکھا بھی ہے۔ اور ان کے فکر و فلسفہ کی ایسی موشگافیاں کی ہیں کہ ان پر ایک نظرِ بازگشت ڈالنا ہی بہت محنت اور کم فائدے کا کھیل ہے “ (۵)
آزادی کے بعد اقبال کے نام کے ساتھ پاکستان کا تصور وابستہ ہو گیا تھا۔ اس لیے ہندوستان کے لوگوں نے اقبال کو طاقِ نسیاں کی زینت بنا دیا۔ برنی صاحب نے اقبال کو دوبارہ ہندوستان میں زندہ کرنے کی کوشش کی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اقبال تو ہندوستان کو سارے جہاں سے اچھا کہتے تھے۔ ہندوستان کے ماہرینِ ادب اس کوشش میں لگے نظر آتے ہیں کہ اقبال ہندوستان کے نظریہ حیات و کائنات ہی کو نہیں بلکہ پہاڑوں، دریاؤں اور وادیوں کی تعریف کر کے اپنے نغموں میں دیش بھگتی اور حب الوطنی کا رس پیدا کرتے تھے۔ برنی صاحب نے فکرِ اقبال سے جو اثر لیا اس کا اظہار کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :
” بہت غوروفکر کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا کہ اقبال کے فکر و فن کے اسی پہلو کا منصفانہ تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ ان کا نظریہ وطن کیا تھا، وہ ہندوستان اور ہندوستانیت کے بارے میں کس طرح سوچتے تھے، کیا واقعی وہ علیحدگی پسند تھے یا اتحادِ قومی کے علم بردار اور یک جہتی کے طلب گار تھے؟ یہی وہ بنیادی سوالات ہیں جن کا جواب اس خطبہ میں دینے کی کوشش کی گئی ہے “ (۶)
برنی صاحب کے اس خطبہ کو اہلِ نظر نے سراہا اور یہ محسوس کیا کہ برنی صاحب نے پوری غیر جانبداری اور بے تعصبی کے ساتھ موضوع کا جائزہ لیا ہے۔ ادبی رسالوں اور اخباروں میں اس کی تعریف کی گئی اور ایسے تبصرے شائع ہوئے جن سے برنی صاحب کو مزید غوروفکر کرنے کا حوصلہ ملا۔ بعض احباب نے اس کا ترجمہ دیگر ہندوستانی زبانوں میں شائع کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ علاقائی زبان کے تراجم پڑھنے والوں کے لیے محض نظم کے عنوان کاحوالہ یا بعض اشعار کا اقتباس کر دینا ہی کافی نہ ہوتا۔ برنی صاحب نے اپنے افکار کو مختلف ابواب اور پھر ان کے ذیلی عنوانات کی شکل میں پیش کیا تھا۔ وطن پرستی کے باب میں برنی نے لکھا :
” اقبال کی وفات کو تقریباً نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی قومی یک جہتی سے متعلق ان کے پیغام کے بارے میں غلط فہمیاں ہنوز باقی ہیں “ (۷)
برنی صاحب نے اقبال کے حوالہ سے”مادرِ وطن کی محبت“پر روشنی ڈالی ہے اور چند اشعار بھی اخذ کیے ہیں۔”فرقہ وارانہ نااتفاقی پر غم و اندوہ“کے حوالہ سے برنی صاحب نے لکھا کہ مسلسل فرقہ وارانہ اختلافات نے اقبال کے دل و دماغ میں گہرا غم و اندوہ پیداکر دیا۔ برنی صاحب کو اقبال کی نظم”صدائے درد“ میں اس کی جھلک بھی نظر آئی اور تفصیل سے اشعار کے استعمال سے کئی صفحات پر مشتمل اس ذیلی موضوع پر روشنی ڈالی ہے۔ ”نظریہ قوم پرستی سے بیزاری“کے عنوان سے آپ نے اقبال کے یورپ میں قیام ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء کو موضوع بنایا اور اقبال کی قوم پرستی سے بیزاری کے دلائل دیے ہیں۔ اس طرح اقبال قوم پرستی سے بالکل بددل ہو گئے تو وہ ایسے بین الاقوامی نظام کے متلاشی ہوئے جو بلند او رشریفانہ اقدار پر مبنی ہو۔ آپ نے اقبال کے ان نظریات کو”اسلامی وطنیت“ کے حصار میں سمو دیا ہے۔ اقبال اس محدود قوم پرستی کے خلاف تھے جس کی اہلِ مغرب تلقین کرتے تھے۔ اس بات کی وضاحت کے لیے برنی صاحب نے خواجہ غلام السیدین کے ایک مقالے کا ذکر کیا ہے اور”وطن پرستی اور قوم پرستی میں فرق“ کے عنوان سے واضح بھی کیا ہے۔ برنی صاحب کے خیال میں اقبال کو بنیادی طور پر ایک ایسے بین الاقوامی نظام کی تمنا تھی جو اخوت اور اتحادِ بشری، ہم آہنگی اور قوموں کے باہمی امن و آشتی پر استوار ہو اور جس میں عظمتِ انسانی کا بول بالاہو۔ جہاں اخوت کی فراوانی اور محبت کی عالمگیری ہو۔ برنی صاحب نے مختلف اشعار کے حوالہ سے ”بین الاقوامی وطنیت“ کا عنوان دے کر مختصراً روشنی بھی ڈالی ہے۔ برنی صاحب کے خیال میں اگرچہ اقبال نے قومیت کے عقیدہ کو تج دیا تھا مگر اپنے وطن کے لیے ان کی محبت میں کمی نہیں آئی تھی۔ چنانچہ دورِ آخر کے کلام میں بھی حب الوطنی کا گہرا جذبہ جھلک رہا ہے۔ برنی صاحب نے اقبال کے شاہکار”جاوید نامہ“ جو دانتے کی طربیہ خداوندی کے انداز میں لکھا گیا ہے اس میں اقبال کے جذبۂ حب الوطنی کے خوبصورت اظہار کو اور دیگر کئی اشعار کو بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے”جذبۂ حب الوطنی کا اظہار دورِ آخر کے کلام میں“ کے عنوان سے پیش کیا ہے۔اس حوالہ سے برنی صاحب نے کئی خطوط کا حوالہ بھی دیا ہے جن میں اقبال کی حب الوطنی کا جذبہ اور اظہار نمایاں ہے۔
آپ نے اقبال پر ہندوستانی فکرو فلسفہ کا بھی گہرا اثر ثابت کیا ہے اور اس باب کے ذیلی عنوانات میں اس وضاحت کی تصدیق بھی کی ہے اور بتایا ہےکہ اقبال ہندوستانی ادب میں ایک منفرد شخصیت ہیں۔ وہ نہ صرف ایک عظیم شاعر بلکہ ایک عظیم مفکر بھی ہیں۔ ایک مفکر کی حیثیت سے انہوں نے مغربی فلسفیوں کا گہرا مطالعہ کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے مسلمان مفکرین کے خیالات کو بھی جذب کیا۔ مزید برآں وہ ہندوستانی سنتوں اور مفکروں سے بھی بہت متاثر تھے۔ اس حوالہ سے برنی صاحب نے ایک ذیلی عنوان”ہندوستانی فلسفہ اور ایران میں فلسفہ مابعد الطبیعیات کا ارتقاء“کے حوالہ سے تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ برنی صاحب نے اقبال کی شاعری سے اخذ کرتے ہوئے بتایا کہ اقبال نے گوتم بدھ کو پیغمبروں میں شمار کرتے ہوئے تمام مذاہب کی برگزیدہ شخصیتوں کی تعظیم کا ثبوت دیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ گوتم بدھ کی رہبانیت انسانی بنیادوں پر قائم ہے۔ اس سے انسانوں کی غمخواری کا سبق ملتا ہے۔ اس حوالہ سے برنی صاحب نے اقبال کی تصنیف”جاوید نامہ“ کا حوالہ دیا ہے اور وضاحت سے”بدھ مت“ کے نام سے ایک ذیلی باب رقم کیا ہے۔اسی طرح گایتری،”بھگوت گیتا کا فلسفۂ عمل“، ”گیتا کا ترجمہ کرنے کا ارادہ“،”وشوامتر“،”بھرتری ہری،”رامائن کو نظم کرنے کا ارادہ“، ”ہندوستانی اوتاروں اور سنتوں کا احترام“اور”ہندوستان کی تعریف“جیسے موضوعات دے کر ہندوستانی فکر و فلسفہ کو اقبال پر اثر انداز دکھانے کی کوشش کی ہے۔
مظفر حسین برنی نے تحریک آزادی کے عنوان سے ایک باب لکھا جس کے ذیلی عنوان”ہندوستان کی غلامی پر رنج و کرب کا اظہار“ میں کہا کہ اپنی شاعری اور دوسری تحریروں میں اقبال نے ہندستان کے برطانوی سامراج کےغلام ہونے پر مسلسل اپنےرنج و کرب کا اظہار کیا ہے۔ برنی صاحب کے بقول اقبال کی ابتدائی نظم”پرندے کی فریاد“ بھی ہندوستان کی غلامی پر ایک علامتی نظم ہے۔(۸) ایک اور ذیلی عنوان”سودیشی تحریک کی حمایت“ کے حوالہ سے برنی صاحب نے کہا :
” اقبال نے سودیشی تحریک کی بھی حمایت کی تھی۔رسالہ”زمانہ“ (کانپور) کے مئی ۱۹۰۶ء کے شمارے میں شائع ہوئے اقبال کے ایک مضمون نما مراسلے کے چند اقتباسات سے جو کیمبرج یونیورسٹی سے لکھاگیا، یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کے دل میں اپنے وطن سے بے پناہ الفت، اپنے ہموطنوں میں اتفاق و اتحاد پیدا کرنے کا جذبہ صادق اور ملک کو خوشحال دیکھنے کی تڑپ بدرجہ اتم موجود تھی۔ وہ سودیشی تحریک کو ہندوستان کے لیے بے حد ضروری سمجھتے تھے “ (۹)
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کے وقت شیخ الجامعہ کے عہدہ پر تقررکے لیے گاندھی جی کی نظرِ انتخاب بھی اقبال ہی پر پڑی تھی۔ گاندھی جی نے تار بھیج کر اقبال سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ ذمہ داری قبول کر لیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک خط بھی بھیجا تھا جس میں اقبال کی فاضلانہ قیادت سے مستفید ہونے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا۔ یہ قصہ اواخر نومبر ۱۹۲۰ء کا تھا۔ برنی صاحب کا کہنا ہے کہ اقبال نے یہ پیش کش قبول نہ کی۔ برنی صاحب نے اقبال کی اس نظم کا حوالہ بھی دیا جو اقبال نے گاندھی جی کے اوصاف پر لکھی تھی جو ۱۲۔ نومبر ۱۹۲۱ءکے روزنامہ”زمیندار“ میں شائع ہوئی تھی اور اس میں اقبال نے گاندھی جی کو”مردِ پختہ کار و حق اندیش و باصفا“کہا تھا۔
اقبال جلیانوالہ باغ کے سانحہ عظیم سے بہت متاثر ہوئے تھے۔ اس حوالہ سے چند اشعار کو بھی برنی صاحب نے اقبال سے منسوب کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا ہے کہ یہ اشعار ان کے کسی مجموعہ میں شامل نہیں ہوئے ڈاکٹر صابر کلوروی مرحوم نے ”کلیاتِ باقیاتِ شعر اقبال“ میں جلیانوالہ باغ امرتسر کے نام سے اقبال کے متروک قطعات /رباعیات کے حوالہ سے شائع کیے ہیں (۱۰)برنی صاحب کے خیال میں ”چوراچوری“کے تشدد آمیز واقعہ کا بھی اقبال کے دل و دماغ پر گہرا اثر پڑا۔ اس حوالہ سے آپ نے اقبال کے ایک خط کا حوالہ بھی دیا جو اقبال نے پروفیسر محمد اکبر منیر کے نام لکھا تھا۔ برنی صاحب نے صرف خط کا وہ حصہ بیان کیا ہے کہ جس میں مہاتماگاندھی کا ذکر تھا(۱۱)۔برنی صاحب نے ”چوراچوری کا واقعہ“ کے عنوان سے چند سطور لکھی ہیں۔ آپ نے اقبال کے آل انڈیا مسلم لیگ کا خطبہ صدارت کے حوالہ سے خطبہ کا وہ حصہ بیان کیا ہے جس میں اقبال نے کہا تھا کہ ہندوستان کے لیے جس میں ہمارا مرنا جینا مقدر ہے، ہمارا کچھ فرض ہے۔ اس حوالہ سے برنی صاحب نے سال بیلو(Saul Bellow) کی کہانی کے ایک کردار کے جذبات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اقبال نے بھی کچھ ایسا ہی محسوس کیا۔
”میں کبھی اپنا نہیں تھا، میں تو خود کو مستعا ر دے دیا گیاتھا“ (۱۲)
”مغرب کی غلامی پر لعنت“ کا ذکر کرتے ہوئے برنی صاحب نے کہا تھا اقبال شدید ترین الفاظ میں مغربی تعلیم، مغربی فکر، مغربی تہذیب اور مغربی روایات کی مذمت کرنے کے حامی تھے۔ اقبال کے فلسفۂ خودی کو آپ نے اقبال کی دوسری حکمتِ عملی کا نام دیا جسے اقبال نے شعوری یا غیر شعوری طور پر ہندوستان میں برطانوی اقتدار کے خلاف استعمال کیا۔ برنی صاحب کا خیال تھا :
” ممتاز عالموں، نقادوں اور اقبال کے سنجیدہ طالبِ علموں نے ان کے فلسفۂ خودی کی بہت تفسیریں کی ہیں لیکن میری ناقص رائے میں اس زمانے میں یہ نظریہ اس عہد پر چھائے ہوئے حالات کا نتیجہ تھا۔ جس کے اخلاقی اور معاشرتی ماحول اور سیاسی نظام میں اقبال نے آنکھیں کھولی تھیں اور پروان چڑھے تھے۔ ایک غلام قوم کے لیے خود اعتمادی، خود شناسی اور تعمیرِ خودی سے زیادہ مناسب کوئی پیغام ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ اسی طرح ان افراد کے لیے جو ایک ایسی قوم کی تشکیل کرتے ہیں، اپنے وجود کا اثبات کرنے، اپنی عزتِ نفس کو پہچاننے اور فکر کی تعمیر میں لگ جانے سے بہتر کوئی اور نسخہ نہیں ہو سکتا تھا۔ میں اقبال کے فلسفۂ خودی کو ایک نہایت حساس شاعر کی طرف سے اپنے ملک کی سیاسی غلامی کا ردِ عمل سمجھتا ہوں “ (۱۳)
برنی صاحب نے سیاسی میدان میں گاندھی جی کی ستیاگرہ کو بھی ایک طرح سے قومی خودی کے اظہار کا نام دیا۔ آپ کے خیال میں فکری سطح پر اقبال کا خودی پر زور دینا بھی سامراجی قوتوں کے خلاف ایک طرح کا ستیاگرہ ہی تھا۔ آپ کے خیال میں اس نظریۂ خودی کی اتنی ہی سخت ضرورت ہے جتنی اقبال کے زمانے میں تھی۔ برنی صاحب نے اقبال کے اس نظریۂ خودی کو آج کی قومی یک جہتی پر اثر انداز ہونے والا ایک اہم اور موثر وسیلہ قرار دیا۔آپ کے خیال میں اقبال کے نظریہ خودی میں ”آدمِ نو“ کی پیدائش کا پختہ عقیدہ بھی پوشیدہ ہے۔ اقبال کے”سالِ نو۱۹۳۸ء کا پیغام“ کے حوالہ سے برنی صاحب نے ہندوستان کی تحریکِ آزادی پر زور دیا اور کہا کہ ا س میں شک نہیں کہ اس تحریکِ آزادی کی بدولت جو مہاتما گاندھی کی پر جوش قیادت میں چلائی گئی، ملک اپنے خوابِ گراں سے بیدار ہوا۔ لیکن اس تاریخی پس منظر میں اقبال کے پیغامِ یقینِ محکم و عملِ پیہم اور نظریۂ خودی کو بھی ایک نئی ہمت اور نئی جہت حاصل ہو جاتی ہے۔ وقت کی یہ ضرورت آج بھی اسی طرح باقی ہے کہ یقین و اعتماد اور خودی و خود شناسی کی اس روح کو تازہ کیا جائے۔ مگر اس کا حصول تبھی ممکن ہے جب تمام فرقوں میں مکمل اتحاد اور یک جہتی ہو اور وہ سب مل کر اپنے فرقہ، مذہب اور عقیدے کی محدود وفاداریوں سے اوپر اٹھتے ہوئے قومی ترقی کی راہ پر گامزن ہوں۔آپ نے اقبال کی شخصی زندگی کو قومی یک جہتی کی ایک درخشاں مثال کہا اور اقبال کے احباب اور مداحوں کے ایک وسیع حلقہ کا ذکر کیا۔ ہندوؤں اور سکھوں میں مقتدر حضرات سے اقبال کے بہترین دوستانہ تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے آپ نے بہت سی شخصیات کا ذکر”قومی یک جہتی نجی زندگی کے آئینے میں“ کے نام سے ایک باب میں کیا ہے۔ان شخصیات میں ایک نام”ملک راج آنند“ بھی ہے۔ اس حوالہ سے برنی صاحب نے کہا ہے:
” انگریزی کے مشہور ناول نگار ڈاکٹر ملک راج آنند نے ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کیا ہے۔ مگر اس سے اقبال کے کردار کے ایک ایسے پہلو پر روشنی پڑتی ہے جو عام طور پر معلوم نہیں ہے ۱۹۲۲ء میں ملک راج آنند نے جو اس وقت ایک نوجوان طالب علم تھے اور شاعر بننے کی تمنا رکھتے تھے۔ اقبال سے ملاقات کی۔ انہوں نے اقبال سے کہا کہ میری ایک دوست اور میری بھابھی باہر انتظار کر رہی ہیں۔ یہ سن کر اقبال خود اٹھے اور انہیں اندر لے آئے۔ اس اخلاق سے حوصلہ پا کر ملک راج آنند نے عرض کیا ”میں کچھ نظمیں اور طفلانہ محبت کے اشعار لایا ہوں“ یہ کہہ کر انہوں نے اپنی دوست یاسمین کی طرف دیکھا۔ اقبال نے کہا”اگر وہ طفل یہ حسین لڑکی ہے تو تم دونوں کو مبارک ہو“ ملک راج آنند نے کہا”میں ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوا ہوں اور یہ لڑکی مسلمان ہے“ اس پر اقبال نے کہا”اس طرح کا ملاپ تو میں چاہتا ہوں“ جب یاسمین ایک ریلوے گارڈ کی تیسری بیوی کے طور پر بیاہ دی گئی(جس نے آخر کار یاسمین کو قتل کر دیا) تو اقبال نے ملک راج آنند کو سفر خرچ کے لیے کچھ روپے بھی دیے تاکہ وہ لندن جا کر فلسفہ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں “ (۱۴)
برنی صاحب نے اس واقعہ سے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ اقبال کیسا محبت بھرا دل رکھتے تھے اور ہر ایک سے ان کے تعلقات کیسے مخلصانہ تھے۔ خواہ وہ کسی بھی ذات، عقیدے یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔برنی صاحب نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ اقبال برہمن نثراد تھے اور اس پر فخر بھی کرتے تھے اس حوالہ سے برنی صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ اس نظریہ کی تائید میں کسی قابلِ استناد و تاریخی مواد کے موجود نہ ہونے کے باعث اس پر تبصرہ کرنا ممکن نہیں ہے لیکن بہرحال یہ حقیقت اپنی جگہ پر ہے کہ اقبال اپنے کشمیری برہمن ہونے پر نازاں تھے۔ برنی صاحب نے”نظرِ باز گشت“ کے نام سے اپنے افکارو نظریات کو سمیٹا ہے۔ آپ نے مشرق میں بھی ہندوستانی تہذیب کو بعض خصوصیات میں منفرد قرار دیا ہے۔ آپ کے خیال میں ہندوستان کو وہی تہذیبی نظریہ راس آسکتا ہے جو مختلف فکری دھاروں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے تہذیبی جارحیت کی نفی کرتا ہو۔ آپ نے”قومی یک جہتی“ کے حوالہ سے لکھا کہ اس کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ ہم دوسری قومی اور تہذیبی خصوصیات کو فنا کر کے اسے کسی ایک تہذیبی دھارے میں بدل دینا چاہتے ہیں۔ یہ تو ہندوستان کے قومی تشخص کی موت ہو گی۔ہندوستان کی روحانی اور تہذیبی شخصیتوں کا احترام کرنا اور ان کے افکار سے اخذ و استفادہ کرنا ضروری ہے اور اس نکتہ کو اقبال سمجھ گئے تھے۔ ہندوستانی ماہرین کا خیال یہ ہے کہ اقبال نے ہندوستانی قومیت کی وحدتِ فکری کا راز سمجھ لیا تھا۔ اس لیے جب وہ ہندوستانی مفکروں، مصلحوں اور مذہبی شخصیتوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں تو وہ صرف لفاظی اور شاعرانہ بازی گری نہیں ہے۔ اس کی تہ میں ایک سنجیدہ فکر بھی کام کر رہی ہے۔
ہندوستان ایک طویل عرصہ تک مغربی سامراج کا محکوم رہا، اور سامراجیوں نے ہندوستانی ذہنوں میں نفرت اور نفاق کے بیج بونے کے لیے وطنیت پر مبنی نظریہ تہذیب و قومیت کو سب سے زیادہ زرخیز پایا۔ برنی صاحب کا نظریہ ہے کہ اقبال نے مغربی سامراج کے مفاسد کو اچھی طرح محسوس کر لیا تھا اور اس لیے انہوں نے کہا تھا کہ وطن کو ایک بت بنا لیا گیا ہے۔ یہ قومیت کے حق میں ہلا ہل ثابت ہو گا۔ برنی کی رائے یہ ہے کہ:
” اقبال نے جب وطن پرستی کے نظریہ سے اختلاف کیا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ وہ محب وطن نہیں تھے۔ ان کا یہ اختلاف دراصل مغربی سامراج کے ناپاک عزائم کو اچھی طرح سمجھ لینے سے پیدا ہوا تھا کہ وہ عالمِ بشریت کو چھوٹے چھوٹے خانوں میں بانٹ دینا چاہتے ہیں “ (۱۵)
برنی صاحب نے باتوں ہی باتوں میں اسلام کو بھی اپنے مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے کہ کیا اسلام کا کوئی منفرد تہذیبی نظریہ ہے؟ کیا ہم کسی کلچر کو اسلامی کلچر کہہ سکتے ہیں؟ اور خود ہی ان سوالات کا جواب دیتے ہوئے برنی صاحب نے کہا کہ ہمارا میلان اسی طرف ہے کہ اسلام کا دائرہ عمل خالص فکری ہے۔ وہ تمام انسانیت سے خطاب کرتا ہے اور ساری بشریت کو ایک نظریہ حیات و کائنات دیتا ہے تو لازمی بات ہے کہ وہ کسی محدود جغرافیائی تہذیب یا کلچر کو خالص اسلامی کلچر نہیں کہہ سکتا۔اقبال ملتِ اسلامی کی جغرافیائی حد بندی کے دشمن تھے۔
سید مظفر حسین برنی کے نزدیک مغرب کی سامراجیت نے نظریہ وطنیت اور قومیت کو ہندوستان کی سا لمیت اور قومی یک جہتی کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ آپ کی رائے یہ ہے کہ اقبال ہندوستان کی غلامی پر سب سے زیادہ دکھی تھے۔ اقبال نہ صرف اس ملک کو آزاد دیکھنا چاہتے تھے بلکہ ان کی دلی تمنا تھی کہ مشرق، خصوصاً ہندستان اپنی عظمت کا احساس کرے اور تمام عالم انسانیت کی رہنمائی کے لیے اس کے پاس جو صدیوں کا جمع کیا ہوا فکری سرمایہ ہے وہ عام ہو جائے۔ جن کھوکھلے اور پر فریب نعروں میں مغربی سامراج نے قومی ذہن کو الجھایا ہے، ان کی سطحیت کو جتنی جلدی سمجھ لیا جائے اور احساس ہو جائے، اچھا ہے۔ برنی صاحب نے اقبال کے کلام سے جو سبق حاصل کیا ہے وہ سب کی راہنمائی کے لیے راہیں ہموار کرتا ہے۔سبق کچھ یوں ہے:
” ہمیں اپنے ملک کے ہر مذہب اور ہر عقیدے کی بنیادی تعلیمات اور اساسی عقائد کو سمجھنے اور ان کی قدر پہچاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں بہت سی قومیں، بہت سے مذاہب اور بہت سی زبانیں بولنے والے بستے ہیں ہمیں دوسرے فرقوں کے رہنماؤں کا اور ابطال(Heroes) کا بھی احترام کرنا چاہیے اور ان کے بارے میں کچھ واقفیت بھی پیدا کرنی چاہیے “ (۱۶)
سید مظفر حسین برنی نے فکرِ اقبال سے متاثر ہو کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اقبال نے اسلام سے اپنی گہری وابستگی کے باوجود ہندوستانی فکر و فلسفہ کا مطالعہ کیا اور اس کی خوبیوں کو اپنے اندر جذب کیا۔ آپ نے اس بات پر افسوس کا اظہار بھی کیا کہ آج بھی ایک مذہب کے ماننے والے دوسرے مذہب کے بنیادی عقیدوں سے ان جان ہیں۔ سیکولر ازم کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم مذہب کو بالکل ہی خیرباد کہہ دیں۔ آپ نے سیکولرازم کا بنیادی نظریہ واضح کرتے ہوئے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مذہب کو حکومت کے معاملات سے سروکار نہ ہو گا۔ اس لیے ایک سیکولر ملک میں بھی بچوں کو مختلف مذاہب کے بنیادی اصول و عقائد سے واقف کرنا غیر مناسب نہیں ہو گا۔
برنی صاحب کا خطبہ پہلے”اقبال اور قومی یک جہتی“ کے نام سے ایک کتابچے کی صورت میں منظرِ عام پر آیا۔ اس کے دوسرے ایڈیشن میں کچھ اضافے کے بعد”محبِ وطن اقبال“ کے نام سے شائع کیا گیا۔ اس میں آپ کی محنت اور فکرِ اقبال کو ہندوستانی ماہرین کے انداز میں شائع کرنے کو سراہا اور مختلف لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کسی نے برنی صاحب کے وسیع مطالعہ کی تعریف کی تو کسی نے ان کے گہرے فکر وعمل کی عکاسی کا نام دیا۔ کسی نے آپ کو اعلیٰ درجے کا اقبال شناس کہا تو کسی نے آپ کی اس تخلیق کو قابلِ قدر کہا۔ کسی نے آپ کی اس فکر کو نیا پہلو کہا او ر کسی نے اس میں وطن کی خوشبو کا پہلو نمایاں کیا اور کسی نے اسے اقبالیات کے لیے ایک سنگِ میل قرار دیا۔ ہندوستان کے اخبارات میں بھی آپ کی اس کاوش کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اور ملک بھر کے بہت سے اخبارات میں آپ کی اس فکر کو پسند کیا گیا اور اس تخلیق کو ہندوستان کی نوجوان نسل کے لیے مشعلِ راہ قرار دیا۔
سید مضفر حسین برنی نے فکرِ اقبال کی توسیع ، تفسیر اور تبلیغ کے لیے خوب بصیرت سے کام لیا اور اِس کے نئے اُفق روشن کیے۔اقبال کی شخصیت کے درخشاں پہلو اجاگر کیے اور اقبالیات کے دامن میں موثر ماخذ پروان چڑھائے۔ اس مضمون کے مطالعہ سے اقبالیات کا دامن کشادہ ہو گا۔تحقیق کے لیے نئی راہیں استوار ہوں گی اور نئے ماخذوں تک رسائی کا رجحان پروان چڑھے گا۔

حوالہ جات:
(۱)مظفر حسین برنی،سید، محب وطن اقبال،ہریانہ : اردو اکادمی،۹۸۳سیکٹر ۹،پنجکولہ،ہندوستان،۱۹۹۹ء،ص۵
(۲)مظفر حسین برنی،سید، محب وطن اقبال، ص۷
(۳)مظفر حسین برنی،سید، محب وطن اقبال،ص۱۷
(۴)مظفر حسین برنی،سید، محب وطن اقبال،ص۱۷
(۵)مظفر حسین برنی،سید، محب وطن اقبال،ص۱۷
(۶)مظفر حسین برنی،سید، محب وطن اقبال،ص۱۸
(۷)مظفر حسین برنی،سید، محب وطن اقبال،ص۲۲
(۸)مظفر حسین برنی،سید، محب وطن اقبال،ص۱۱۱
(۹)مظفر حسین برنی،سید، محب وطن اقبال،ص۱۱۳
(۱۰)اقبال ،کلیات ِباقیاتِ شعرِ اقبال،مرتبہ،ڈاکٹر صابر کلوروی،لاہور:اقبال اکادمی پاکستان، طبع اول۲۰۰۴ء، ص ۴۳۱
(۱۱)اقبال، کلیاتِ مکاتیبِ اقبال، جلد دوم، مرتبہ سید مظفر حسین برنی،دہلی: اردو اکادمی،طبع دوم ۱۹۹۹ء،ص ۳۵۳
(۱۲)مظفر حسین برنی، محب وطن اقبال،ص۱۱۷
(۱۳)مظفر حسین برنی، محب وطن اقبال، ص ۱۲۴
(۱۴)مظفر حسین برنی، محب وطن اقبال،ص۱۳۴
(۱۵)مظفر حسین برنی، محب وطن اقبال،ص۱۵۲
(۱۶)مظفر حسین برنی، محب وطن اقبال،ص۱۵۴
٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.