عبدالغفور نساخ: بنگال کا ایک کثیرالجہات اور جامع الکمالات فنکار  

ڈاکٹر علی عرفان نقوی 

Contact No: 9123079268 

E-mail ID: sainaqvi72@gmail.com 

  

(Abdul Ghafoor Nassakh: Bengal ka … by Dr Ali Irfan Naqvi)  

عبدالغفور نساخ اردو شعر و ادب کا ایک بڑا نام ہے۔ لوگوں نے انہیں اس طرح یاد کیا کہ نام تو یاد رکھا لیکن ان کے کاموں سے کوئی واسطہ نہ رکھا۔ سچ تو یہ ہے کہ انہیں فراموش کرنے والوں میں غیر صوبے کے ادیب و ناقد کم اپنے علاقے کے زیادہ ہیں۔ غیروں کے بھولنے کی ایک وجہ تو یہ سمجھ میں آتی ہے جیسا کہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ڈاکٹر صدر الحق کی کتاب’’نساخ: حیات و تصانیف‘‘ کے صفحہ ۷ پر لکھی ہے: 

’’ان کا تعلق چونکہ برصغیر کے اس پوربی خطے سے تھا جو اس زمانے کے ادبی مراکز مثلاً لکھنو  دلی اور رام پور وغیرہ سے بہت دور واقع تھا اور ان مرکزوں کے اکثر ادباء و شعراء بربنائے معاصرانہ چشمک یا احساسِ برتری دوردراز خطوں کے ادیبوں اور شاعروں کو کچھ زیادہ اہمیت نہ دیتے تھے- اس لئے عبدالغفار نساخ جیسے باکمال شخص کو بھی بروقت وہ شہرت میسر نہ آئی جس کے وہ مستحق تھے۔‘‘ 

لیکن نساخ کے اپنے خطے کے ادباء و ناقدین اور محققین نے ان کی طرف سے کیوں بے اعتنائی برتی، یہ ایک اہم سوال ہے۔ وجہیں تو بالکل رہی ہوں گی- ان میں سے ایک  وجہ تو یہ تھی کہ جس کی طرف پروفیسر یوسف تقی نے  اپنی کتاب ’’بدر کلکتوی: حیات و خدمات‘‘ میں بیان کی ہے کہ بنگال میں ابتک ادبی تاریخ لکھنے والوں میں سنجیدگی نہیں ہے۔ 

خیر حقیقت یہ ہے کہ عبدالغفور نساخ جیسا کثیرالجہات اور کثیرالکمالات فنکار انیسویں صدی میں دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ یہ بات صرف یونہی نہیں کہی جارہی ہے بلکہ نساخ کے عہد کے حوالے سے کہی جارہی ہے کہ جہاں پورے ہندوستاں میں اردو شعر و ادب کے آسمان پر ایک سے بڑھ کر ایک شمس و قمر پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہے تھے۔ مثلا غالب،  محمد حسین آزاد،سرسید، حالی، انیس، دبیر، نذیر احمد اور شبلی کون تھا جو موجود نہیں تھا۔ لیکن ان اکابرین شعروادب کی موجودگی میں نساخ نے اردو زبان و بیان،تصانیف و تالیفات اور ناقدانہ بصیرت سے اپنی موجودگی کا جس انداز سے مظاہرہ کیا ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔ 

بقول ٹی-ایس-ایلیٹ شاعر کی پہچان یہ ہے کہ نظم کے ساتھ ساتھ نثر پر بھی قدرت رکھتا ہو۔ اس لحاظ سے نساخ اپنے عہد کے دوسرے شاعروں کے مقابلے زیادہ بڑے شاعر و ادیب تھے۔ انہوں نے جہاں شاعری کی وہاں نثر بھی لکھی۔ اور یہی نہیں کہ صرف نثر میں دوچار مضامین اور ایک آدھ کتابوں پر اکتفا کیا یا چند خطوط کی شکل میں اپنی جولانیِ طبع کا مظاہرہ کیا بلکہ سوانح عمری’تذکرہ نگاری‘ ادبی معرکہ آرائی اور علم و نجوم سے بھی اپنی واقفیت کا احساس دلایا۔چنانچہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نساخ کے متعلق فرماتے ہیں:  

’’نساخ نے اگرچہ  اپنے معاصرین کے مقابلے میں بہت کم عمر پائی پھر بھی صرف ستاون سال کی عمر میں انہوں نے تالیف و تصنیف کا جو گراں قدر سرمایا یادگار چھوڑا،وہ معیار و مقدار،کسی اعتبار سے بھی دوسروں سے کم نہیں ہے۔‘‘ 

(مشمولہ تعارف،نساخ: حیات و تصانیف، از ڈاکٹر صدرالحق،صفحہ ۷) 

بلاشبہ تصانیف و تالیف اور جدید زبان و علوم کے پیشِ نظر عبدالغفار نساخ اپنے ہمعصروں میں ممتاز تھے۔ اگرچہ نئی زبان یعنی انگریزی زبان کی روشنی میں اپنی تصنیف وتالیف کا کام انجام نہیں دیا لیکن اس نئی زبان نے انہیں جراتِ اظہار کا سلیقہ ضرور بخشا۔ ’’انتخابِ نقص‘‘ اور ’’ترانہ خامہ‘‘ اس کی واضح مثال ہے۔ انہوں نے کلیم الدین احمد سے تقریباً 80 سال پہلے اہلِ زبان کے اس غرور کو توڑا کہ اہلِ زبان ہی زبان صحیح استعمال کرنا جانتے ہیں۔ اور انہی کو صرف شاعری کرنے کا حق حاصل ہے۔ بقول ڈاکٹر فرمان فتح پوری: 

’’ یہ پہلا موقع تھا کہ غیر لکھنوی نے لکھنو کی زبان پر حملہ کیا تھا۔ پورا لکھنو تلملا اٹھا۔ جواب اور جواب الجواب کی نوبت آئی۔’’مشمولہ تعارف، نساخ: حیات و تصانیف از ڈاکٹر صدرالحق،صفحہ ۴) 

یہ اور بات ہے کہ اس رسالے ’’انتخابِ نقص‘‘کی اشاعت سے میر انیس اور مرزا دبیر کی قدروقیمت میں کوئی فرق نہیں آیا لیکن بزرگوں اور اہلِ زبان کی خامیوں کی طرف جو توجہ نہیں تھی اس پر نظر پڑی اور نئی نئی لسانیاتی مبحث کے دروازے وا ہوئے جس کی تاریخ نساخ سے پہلے نہیں ملتی۔ 

علاقائی اور وقتی عصبیت سے باہر آکر ہمیں فن پارے اور فن کار کو سمجھنے اور اس کی ادبی خدمات کو سراہنے کی ضرورت ہے ورنہ اہم فن پارے کی قدروقیمت سے ہم نہ آشنا رہ جائیں گے۔علاقائی عصبیت کا تو یہ عالم ہے کہ نساخ کی تنقیدی بصیرت کا،یہ کہہ کر مذاق اڑایا جاتا ہے کہ انہوں نے ’’انتخابِ نقص‘‘ میں تنقید کہاں کی ہے وہ تو زبان اور عروض پر نکتہ چینی کی ہے۔ حالانکہ نساخ کے ان خود ساختہ ناقدین کے نقد پر ہنسی آتی ہے کہ نساخ کی تنقید کو اپنے دور کے ناقدین کے نقطہ نظر سے چانچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ نساخ کے زمانے میں لکھے جانے والے تنقیدی روئیے سے نابلد تھے جہاں علمِ بیان اور علمِ عروض کی روشنی ہی میں کسی فنکار کے فن پارے کا تجزیہ کیا جاتا تھا- اس موقع پر شاہدساز کا یہ اقتباس قابلِ غور ہے کہ جس سے نساخ کے متعلق ہمارے ناقدین کا کیا مزاج رہا ہے اس کا بخوبی اندازہ ہو سکے: 

’’شمس الرحمن فاروقی،ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور دیگر حضرات امو حان ولی،جعفر علی حسرت لکھنوی، عبدالباری آسی اور مہاراجہ کشن پرشاد کو اردو رباعیات کے دیوان کا موجد قرار دیتے ہیں مگر یہ درست نہیں ہے۔کیونکہ ان شعراء کی رباعیات، ’’ رباعیاتِ شا‘‘  اور ’’امو جان ولی‘‘ کے دیوان سے ۱۶ برس پہلے ۱۳۰۲ ہجری بمطابق ۱۸۸۶ء میں نساخ کا دیوانِ رباعیات شائع ہوچکا تھا لیکن تعجب ہوتا ہے کہ اردو رباعیات کے سلسلے میں ہمارے محققوں اور اربابِ نظر نے جو کام کیا ہے،  اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے عبدالغفور نساخ کو قابلِ توجہ نہیں سمجھا۔‘‘ 

(اردو رباعیات کا اولین دیوان از شاہد ساز، صفحہ 14) 

عبدالغفور نساخ ۱۸۳۴ء میں کلکتہ (کولکاتہ) میں پیدا ہوئے اور ۱۸۸۹ء میں کلکتہ ہی میں انتقال بھی کیا اور یہیں سپردِ خاک بھی ہوئے۔ اس طرح ستاون سال کی عمر میں تعلیم پھر ملازمت وہ بھی ڈپٹی کلکٹر جیسے ذمہ دار عہدے پر فائز ہوئے۔اور ملازمت کی وجہ سے شہر بہ شہر گھومتے پھرتے رہے۔ ایسے میں نساخ نے نہ صرف شاعری کی بلکہ جراتِ اظہار کا مظاہرہ کرتے ہوئے زبان و بیان اور لسانیاتی معرکہ آرائی، وہ بھی اہلِ زبان سے کی ،کثرت سے شاگرد بھی بنائے اور یہی نہیں بلکہ نظم و نثر میں تقریباً ۲ درجن کتابیں بھی تصنیف وتالیف کیں۔نساخ کا طرہ امتیاز یہ تھا کہ وہ اردو کے ایسے شاعر و ادیب تھے کہ جو اپنے عہد کے جملہ ادباء و شعراء سے زیادہ نہ صرف نظم و نثر میں تصنیف وتالیف کرنے والے فنکار تھے بلکہ مختلف النوع موضوعات پر بہ یک وقت طبع آزمائی کی قدرت رکھتے تھے۔ اس لئے بلا شبہ ان کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے فورٹ ولیم کالج نے اگر سرکاری سطح پر اردو زبان و ادب کی خدمت کی ہے تو عبدالغفور نساخ نے اپنے محدود ذرائع کے باوجود تنِ تنہا بڑے ذوق و شوق اور انہماک کے ساتھ اردو زبان و ادب کے شجر کو اپنے خونِ جگر سے سینچا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر عبدالرئوف صاحب کا یہ کہنا اپنی جگہ صد فی صد درست معلوم ہوتا ہے کہ: 

’’ شعر و ادب اور علوم و فنون کی جو خدمات انہوں(نساخ) نے انجام دیں اسے مدِ نظر رکھتے ہوئے انہیں مشرقی ہند کا آزاد بلگرامی یا خان آرزو کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔‘‘ 

(مشمولہ انیسویں صدی میں بنگال کی اردو شاعری،بنگال میں اردو شاعری، صفحہ ۱۱۸) 

نساخ کی شاعری ہو یا نثرنگاری ایسی نہیں ہے کہ اس سے دامن بچا کر انیسویں صدی کی تاریخ مرتب کی جائے  ان کا عہد اردو شعر و ادب کا زریں عہد تھا- میری اس بات کی تائید ڈاکٹر صدرالحق کے اس جملے سے ہوتی ہے کہ: 

’’ بنگال میں شعر و ادب کی ہر دلعزیزی  تصنیف وتالیف کی کثرت اور اردو زبان و ادب کی وسعت کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انیسویں صدی عیسوی اردو کے لئے عہدِ زریں کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘ 

(نساخ: حیات و تصانیف،صفحہ ۳۱) 

نساخ کی شاعری کی بات کی جائے تو ’’دفترِ بے مثال‘‘جو ان کا پہلا اردو دیوان ہے اور ۱۸۷۶ھ میں شائع ہوا جس میں انہوں نے غزلیں لکھنوی طرز میں تخلیق کی ہیں اور اردو دنیا کو یہ بتانا چاہا ہے کہ اردو کے مرکزی خطے سے دور دراز علاقہ میں رہ کر بھی انہیں زبانِ اردو پر اتنی قدرت حاصل ہے کہ وہ اہلِ زبان کی،زبان میں اشعار کہنے کی نہ صرف استعداد رکھتے ہیں بلکہ اہلِ زبان کی فنی خامیوں پر نشاندہی بھی کرسکتے ہیں۔’’دفترِ بے مثال‘‘کی اشاعت پر غالب نے جس طرح کی تعریف و توصیف کی وہ قابلِ بیان ہے۔ غالب فرماتے ہیں: 

’’میں دروغ گو نہیں  خوشامد میری خو نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’دفترِ بے مثال‘‘  اس کا نام بجا ہے۔ الفاظ متین،ی بلند،مضمون عمدہ،بندش دل پسند ہم فقیر لوگ اعلانِ کلمتہ الحق میں بے باک و گستاخ ہیں۔ شیخ امام بخش ناسخ طرزِ جدید کے موجد اور پرانی ناہموار روش کے ناسخ تھے،آپ ان سے بڑھ کر بصیغہ مبالغہ نساخ ہیں۔ تم دانائے اردو زبان ہو۔سرمایۂ نازشِ قلم رو ہندوستان ہو۔‘‘  (زبانِ ریختہ از مرتبہ محمد انصاری اللہ،صفحہ۲۱) 

یا پھر نساخ کی زبانی وہ واقعہ کہ: 

’’ عید کے روز مرزا صاحب (غالب) نے اپنی مثنوی گورنر کے تین سو شعر میرے سامنے پڑھے اس پر اہلِ دہلی کو بڑا تعجب ہوا۔‘‘ (باغِ فکر معروف بہ مقطعاتِ نساخ از محمد خالد عابدی ،صفحہ ۲۱) 

مذکورہ بالا یہ وہ جملے ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اور نساخ کے مرتبے کو سمجھنے اور پہچاننے اور ماننے کی ضرورت ہے۔ غالب کبھی دیوانِ نساخ پر تبصرہ کرتے ہیں اور کبھی ان کے روبرو ہوکر اپنے اشعار پیش کرتے ہوئے اپنے فن کا جائزہ لیتے ہیں،یہ کوئی معمولی بات نہیں۔دراصل غالب نساخ کے فن اور خدمتِ شعر و سخن سے بے حد متاثر تھے۔وہ جانتے تھے کہ نساخ ایک خاندانی بنگالی نژاد ہونے کے باوجود اردو زبان کے فروغ میں بے لوث خدمت انجام دے رہے ہیں اور فن شناس بھی ہیں جب ہی تو غالب کے اس عمل سے شہ پا کر نساخ نے بھی یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کیا: 

مرگئے غالب و آزردہ رہا ہے اک تو 

ذاتِ نساخ بہت اب ہے قیمت تیری 

نساخ کا دوسرا دیوان’’ اشعارِ نساخ‘‘ مطبوعہ۱۲۹۱ھ بمطابق ۱۸۷۴ء بھی اگرچہ لکھنوی طرز کی غزلوں پر مشتمل ہے لیکن اس میں انہوں نے چند رباعیاں بھی شامل کردیں ہیں۔ دوسری بات یہ کہ دیوانِ غزلیاتِ اردو کا آغاز فارسی غزل سے کرکے ایک نیا پن لانے کی کوشش کی ہے۔’’ دفترِ بے مثال‘‘ کی طرح’’ اشعارِ نساخ‘‘بھی دبستانِ لکھنو کے طرز پر ہے تاہم اس میں لکھنوی دبستان کی زبان و کلام پر طنز بھی ہے۔ ان کی شاعری کا یہ موڑ بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ مشکل زمینوں سے نکل کر سادگی اور اثر آفرینی کی طرح مائل ہوتے ہیں۔ 

نساخ کی زود گوئی بلا کی تھی جو انہیں چین لینے دیتی تھی۔ لہٰذا لکھنوی طرز پر مذکورہ بالا دونوں دواوین شائع کرنے کے بعد انہوں نے طرزِ دہلی پر غزلیں لکھنے کا ارادہ کیا اور سو،سوا سو غزلیں کہہ کر’’ارمغان‘‘کے نام سے اپنا تیسرا دیوان ۱۲۹۴ھ میں نظامی پریس آگرہ سے شائع کیا جس میں ان کی مشہور غزل بھی ہے جس کا مطلع ہے: 

نہ دیا دل اسے جو ظلم پہ مائل نہ ہوا 

اس کو چاہا نہ کبھی مجھ سے جو غافل نہ رہا 

نساخ کی زودگوئی کا زمانہ معترف ہے- شعر و ادب سے نہ صرف دلچسپی تھی بلکہ ہمہ وقت اس میں ڈوبے رہنا چاہتے تھے۔ دوسروں پر چاہے شاگرد کا معاملہ ہو یا تخلیق کا’’ہر لمحہ سبقت رکھنے کی خواہش موجزن رہتی تھی۔ اسی وجہ سے نساخ نے یہ بات اپنے لئے نامناسب سمجھی کہ لکھنوی طرز پر تو دو دواوین ہوں اور دہلوی رنگ میں صرف ایک دیوان ہو۔ چنانچہ دہلوی طرز پر ایک اور دیوان’’ارمغانی‘‘کے نام سے ۱۳۰۲ھ میں تیار کرلیا۔ اس دیوان کے سلسلے میں ڈاکٹر جاوید نہال مرحوم لکھتے ہیں کہ: 

’’ ان میں اکثر غزلیں ایسی ہیں جن میں میر تقی میر  مومن اور غالب کا رنگ جھلکتا ہے۔‘‘ 

(بنگال کا اردو ادب ۱۹ویں صدی میں،صفحہ۲۷۳) 

دیوانِ ’’ارمغانی‘‘ کا مطلعِ اول ملاحظہ ہو: 

جلوہِ شمعِ طور نے مارا دلِ خاکی کو نور نے مارا 

’’چشمہ فیض‘‘   بھی نساخ کی تخلیق ہے۔دراصل یہ پند نامہ شیخ فریدالدین عطار کا منظوم ترجمہ ہے جو ۱۲۷۹ھ میں منظرِ عام پر آیا لیکن اسکے متعلق ڈاکٹر جاوید نہال ہاشمی کا خیال ہے کہ یہ میر معین الدین فیض جو نساخ کے ہمعصر تھے،کی مثنوی چشمہ فیض کی کاربن کاپی ہے۔ ڈاکٹر جاوید نہال کا خیال کس حد تک مبنی بر صداقت ہے، اس کا فیصلہ تو دونوں مثنویوں کو آمنے سامنے دکھ کر ہی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا سرِدست اس ترجمے کی مثال کے طور پر نساخ کے دو اشعار بطورِ نمونہ نقل کرتا ہوں: 

جو کہ ہوئے اہلِ ایماں اے عزیز 

پاک رکھ چار شئے سے چار چیز 

پاک کر دل کو حسد سے اے پسر 

پھر سمجھ اپنے کو مومن بے خطر 

لیکن ’’شاہدِ عشرت‘‘ نساخ کی وہ طبع زاد مثنوی ہے جو سراپا کے ضمن میں ۱۲۹۱ھ کے دوران شائع ہوئی جو ۱۸صفحات پر مشتمل ہے جس میں شاعر نے معشوق کے تقریباً بدن کے ہر عضو پر شعر کہے ہیں۔ سید لطیف الرحمن کے بموجب نساخ نے اسے مٹیابرج کے ایک مشاعرے میں پڑھا تھا جو کافی مقبول ہوئی تھی۔ پروفیسر گیان چند نے اپنی کتاب’’ شمالی ہند میں اردو مثنوی‘‘کے صفحہ ۵۸۳  پر بھی اس مثنوی کا ذکر ملتا ہے جہاں پروفیسر گیان چند فرماتے ہیں کہ اس میں ۲۰۰سے کم اشعار ہیں۔ 

نساخ کی ایک اور شعری کاوش بقول شاہد ساز ’’مرغوبِ جان‘‘ ہے اور جس کا تاریخی نام ’’ترانہ خامہ‘‘ہے۔ یہ نساخ کی اردو رباعیوں کا دیوان ہے جو  ۱۳۰۲ھ شائع ہوا جسے اردو کے اولین دیوانِ رباعیوں کہلانے کا شرف بھی حاصل ہے۔ اس کے باوجود سید لطیف الرحمن نے اپنی کتاب ’’نساخ سے وحشت تک‘‘ میں نساخ کی فارسی رباعیوں کے دیوان ’’مرغوبِ دل‘‘ (۱۲۹۱ ھ) کا ذکر تو کیا ہے، لیکن اس اہم دیوان کا صرف نام لے کر چھوڑ دیا ہے جبکہ ڈاکٹر جاوید نہال نے تو اس کا نام تک نہیں لیا۔ بہرحال اس دیوان کی پہلی رباعیوں ذیل میں نقل کی جاتی ہے: 

بے آنکھ کے اللہ ہے تو ہی بینا  

بے کان کے اللہ ہے تو ہی شنوا 

فرمایا جو تو نے قل ہو اللہ احد  

بے شبہہ و شک ہے ذات تیری تکتا 

ان کے علاوہ نساخ کی منظوم ادبی خدمات کے سلسلے میں گنجِ تواریخ(۱۸۷۵ء)  قندِ پارسی(۱۸۷۲ء) اور نصرۃالمسلمین(۱۳۰۳ھ) بھی ہیں۔ 

نثر میں نساخ کا ایک بہت بڑا کارنامہ ان کی تذکرہ نگاری ہے۔’’سخن شعراء‘‘(1291ھ) کے عنوان سے نساخ نے دو ہزار چارسو ستاسی شعراء اور انتالیس شاعرات کے تذکرے کو ایک جگہ جمع کردیا ہے۔ نساخ سے پہلے عموما فارسی شاعروں کے تذکرے میں لکھے جاتے تھے۔میر نے فارسی اور اردو شاعروں کا تذکرہ لکھا اور مرزا علی لطف نے پہلی بار اردو شاعروں کا تذکرہ اردو میں قلمبند کیا جبکہ نساخ نے گویا انہیں کی تقلید کی لیکن اس میں اتنا اضافہ ضرور کیا کہ اس میں اہلِ بنگالہ کے کئی شاعروں کے ساتھ ساتھ شاعرات کا بھی ذکر کر دیا اور ان شعراء کے تذکرے بھی شامل کردیئے جو ابتک پردہ گمنامی میں روپوش تھے- بقول ڈاکٹر عبدالرؤف: 

’’اس تذکرے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں پورب کے ان شعراء کو بھی شامل کیا گیا جن کو شمالی ہند کے تذکرہ نویسوں نے قابلِ توجہ نہیں سمجھا یا کسی اور سبب سے ان کے تذکروں میں شامل نہیں کئے۔‘‘ 

(بنگال میں اردو شاعری،مغربی بنگال اردو اکیڈمی،صفحہ ۱۱۹) 

’’انتخابِ نقص‘‘بھی نساخ کی ایک اہم تصنیف ہے جو ۱۲۹۶ھ میں منظرِ عام پر آئی اور جس کے جواب میں اہلِ لکھنو کے ساتھ جو ادبی معرکہ آرائیاں ہوئیں وہ اپنی جگہ لیکن اس سے ان کی جراتِ اظہار کے ساتھ ساتھ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اگر بنگال میں اردو تنقید کی تاریخ لکھی جائے گی تو میرے خیال میں اس کا نقطۂ آغاز یہی کتاب’’انتخابِ نقص‘‘قرار پائے گی۔ 

خود نوشت سوانح عمریِ نساخ، نساخ کی وہ خود نوشت سوانح حیات ہے جو اگرچہ برسوں شرمندگی اشاعت رہی لیکن بالآخر پروفیسر عبدالسبحان نے اس کا مخطوطہ اشیاٹک سوسائٹی کی لائبریری سے حاصل کرکے اشاعت کے مرحلے سے گزار دیا۔یہ کتاب اس لئے بھی قابلِ ذکر قرار پاتی ہے کہ کم سے کم بنگال کی سطح پر اردو کی پہلی خود نوشت ہے جس میں کئی جگہوں پر رپورتاژ نگاری اور خاکہ نگاری کی بھی جھلکیاں مل جاتی ہیں۔ڈاکٹر عبدالرؤف نے اس کتاب کا موازنہ کرتے ہوئے یہاں تک لکھ دیا کہ: 

انہوں نے اپنی آٹوبیوگرافی اردو زبان میں لکھی جو ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔میر تقی میر نے اپنی سوانح حیات(ذکرِ میر)  فارسی میں لکھی تھی‘‘ 

(مشمولہ انیسویں صدی میں بنگالہ کی اردو شاعری،بنگال میں اردو شاعری صفحہ ۱۱۸) 

نساخ کی نثری کاوشوں میں سے ایک زبان ریختہ بھی ہے جو اس لحاظ سے ان کا تحقیقی کام قرار پاتا ہے کہ اس میں اردو زبان کی عہد بہ عہد ارتقاء پزیری کی تاریخ بیان کی گئی ہے اور شعراء کے نمونے ہائے کلام بھی دستیاب کئے گئے ہیں۔یہ اہم کتاب۱۲۷۵ھ میں شائع ہوئی تھی۔ 

غرض یہ کہ انہی مذکورہ بالا کتابوں،جن میں نثر و نظم دونوں شامل ہیں،کی روشنی میں نساخ کو کثیر الجہات اور جامع الکمالات     فنکار کہنا بالکل درست معلوم ہوتا ہے۔اس میں بھی یہ اختصاص ہے کہ نساخ اردو کے اولین رباعی گو شاعر ہیں جن کا رباعیات پر مشتمل دیوان ہے۔بنگال کی سطح پر تو کئی حیثیتوں سے انہیں اولیت حاصل ہے۔ مثلاً  وہ اردو کے  پہلے خود نوشت حیات نگا،ناقد،خاص بنگال کے شاعروں کے تذکرہ نویس جن میں شاعرات کی تعداد ایک اور دو نہیں ۳۸بلکہ بعض روایات سے ۴۰بتائی جاتی ہیں۔ اور یہی نہیں بلکہ نساخ کا شمار اردو کے مسلم الثبوت استادوں میں ہوتا تھا۔ میں  محمد خالد عابدی کے اس اقتباس پر اپنا مضمون ختم کرنا چاہتا ہوں کہ: 

’’ نساخ اپنے فن،کلام اور اپنی خدمات سے تو ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہیں گے ہی لیکن’’   دبستان ِ نساخ‘‘کے شعراء علامہ عصمت اللہ نسخ،علامہ رضا علی وحشت کلکتوی اور علامہ جمیل مظہری کو پڑھنے اور سمجھانے والا باذوق قاری اپنے اصل ماخذ کو کبھی فراموش نہیں کر سکے گا۔  (باغِ فکر معروف بہ مقطعاتِ نساخ مرتبہ محمد خالد عابدی،صفحہ ۴۰) 

حوالہ جات 

1)  بنگال کا اردو ادب از پروفیسر جاوید نہال 2)  خود نوشت سوانح حیات نساخ از مولفہ عبدالسبحان  

3)  نساخ سے وحشت تک از سید لطیف الرحمن 4)  نساخ حیات و تصانیف از ڈاکٹر محمد صدرالحق 

5)  باغِ فکر معروف بہ مقطعات نساخ از محمد خالد عابدی 6)  اردو مثنوی شمالی ہند میں از پروفیسر گیان چند 

7)  دفترِ بیمثال (دیوان) از عبدالغفور نساخ 8)  اردو رباعیات کا اولین دیوان از شاہد ساز 

9)  عبدالغفور نساخ از محمد حامد علی خاں 10)  بنگال میں اردو شاعری  مغربی بنگال اردو اکیڈمی از عبدالرؤف 11)  زبانِ ریختہ از محمد انصاری اللہ 

٭٭٭ 

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.