مکاتیب بنام راشد کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ 

محمد عثمان بٹ 

پرنسپل، گورنمنٹ ہائی سکول الھڑ، پسرور، سیال کوٹ، پنجاب، پاکستان 

usmanyaseen86@gmail.com 

+923338620307 

Research and Analytical Study of Letters written to Rashid 

  

Abstract: 

The tradition of letter writing can be observed from the BC period. It is evident from the letters of Homer, Plato, Aristotle and many others in ancient era reflect that this tradition is quite old. The pioneers in the field of Urdu letter writing were Ghulam Ghous Be Khabar, Rajab Ali Baig Suroor, Mirza Asad ullah Khan Ghalib and Sir Syed Ahmad Khan. Then, this tradition was carried out by Shibli Naumani, Muhammad Hussain Azad, Muhammad Iqbal, Abul Kalam Azad, Maulvi Abdul Haq, Hafiz Mehmood Sherani and many more in the twentieth century. Editing, despite being a great art, imposes a huge responsibility on the editor. Urdu editing has come from Arabic and Persian editing. In this research article, eighty nine letters written by sixteen different literary figures to Noon Meem Rashid has been evaluated. These letters has been included in the book named ‘‘Makateeb Banam Rashid’’ (2015) edited by Dr. Muhammad Fakhar ul haq Noori. These letters clearly indicate what those sixteen letter writers thought about N.M. Rashid. The editing skills of Dr. Noori and the importance of these letters have been discussed in this article. 

Keywords: 

Letters, Noon Meem Rashid, Editing skills, Sources of transcript, M. Fakhar ul Haq Noori  

اِنسانی تاریخ میں مکتوب نویسی کی روایت بہت قدیم ہے۔ قبلِ مسیح دور میں ہومر، افلاطون اور ارسطو وغیرہ کے علاوہ دیگر کئی اہم شخصیات کے یونانی زبان میں موجود خطوط اِس بات کا ثبوت ہیں کہ مکتوب نویسی کی یہ روایت بہت پرانی ہے۔ اب تو مکتوب نویسی ادب میں باقاعدہ ایک صنف کا درجہ رکھتی ہے۔ جہاں تک اُردو میں مکتوب نویسی کی روایت کا معاملہ ہے تو دیگر کئی اصناف کی طرح یہ صنف بھی عربی اور فارسی کے زیرِ اثر اُردو میں آئی۔ اُردو کے اولین مکتوب نگاروں میں خواجہ غلام غوث بے خبر، رجب علی بیگ سرور، مرزا اسد اللہ خاں غالب اور سرسید احمد خاں وغیرہ کے نام نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ بیسویں صدی میں شبلی نعمانی، محمدحسین آزاد، اقبال، ابوالکلام آزاد، مولوی عبدالحق، حافظ محمود شیرانی اور دیگر اہم ناموں نے مکتوب نگاری کی روایت کو آگے بڑھایا۔ مکاتیب کی اہمیت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ادبی، تاریخی، سماجی، معاشرتی، تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے اپنے دور کی بہت سی خصوصیات کا احاطہ کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ اُردو نثر میں اُسلوب کے شان دار نمونے بھی رکھتے ہیں۔ 

بیسویں صدی کے جدید اُردوشعر و ادب میں ن م راشد کا نام قدآور حیثیت رکھتا ہے۔ زیرِ نظر تحقیقی مقالہ میں“مکاتیب بنام راشد”کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جائے گا۔ اِس کتاب میں نامور علمی و ادبی شخصیات کے نواسی خطوط شامل ہیں جو اُنھوں نے راشد کو مختلف اوقات میں لکھے تھے اور اِسے مرتب کرنے کا سہرا ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری، سابق پرنسپل، اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی، لاہورکے سر ہے۔ اِس میں شامل پہلا خط 9/جون 1951ءکا تحریر کردہ ہے اور مکتوب نگار پطرس بخاری ہیں اور آخری خط 27/اگست 1971ء کا لکھا ہوا ہے جو ڈاکٹر مغنی تبسم کا تحریر کردہ ہے۔ اِس تحقیقی مقالے کو میں نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصے میں ن م راشد اور پروفیسر ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری کے مختصر سوانحی کوائف اور اُن کی نمایاں تصانیف و تالیفات کا ذکر کیا ہے۔ دوسرے حصے میں “مکاتیب بنام راشد” کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔ جب کہ تیسرے حصے میں اِس مقالے کا مجموعی جائزہ پیش کیا ہے۔ پہلا حصہ سرسری نوعیت پر مبنی، دوسرا حصہ ضروری وضاحت  پر مشتمل اور تیسرا حصہ تنقیدی نوعیت کا ہے۔ 

بیسویں صدی کے جدید شعر و ادب کا ایک اہم حوالہ ن م راشد(نذر محمد راشد)ہے جو یکم اگست 1910ء کو اکال گڑھ (علی پور چٹھہ) ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والدکا نام فضل الٰہی چشتی تھا۔ اُنھوں نے 1926ء میں میٹرک،گورنمنٹ ہائی سکول اکال گڑھ سے 1928ء میں ایف اے، گورنمنٹ کالج لائل پور(فیصل آباد) سے، 1930ء میں بی اے اور 1932ء میں ایم اے اکنامکس کے امتحانات گورنمنٹ کالج لاہور سے پاس کیے۔ 1935ء میں اُن کی شادی اپنی ماموں زاد “صفیہ” سے ہوئی اور 1961ء میں پہلی بیوی کی وفات کے دو سال بعد راشد نے لندن میں شیلا انجلینی (شیلا راشد)کے ساتھ دوسری شادی کرلی۔ پہلی بیوی سے راشد کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا جب کہ دوسری بیوی سے ایک بیٹا تھا۔ وہ “بیکن” (فیصل آباد)، “راوی” (لاہور)، “نخلستان” (ملتان)، “شاہ کار” (لاہور) اور   Pakistan Calling  (ریڈیو پاکستان)جیسے رسائل کے مدیر بھی رہے۔ پیشہ وارانہ حوالے سے وہ آل انڈیا ریڈیو، انٹر سروسز پبلک ریلیشنز، ریڈیو پاکستان اور اقوامِ متحدہ کے ساتھ بھی وابستہ رہے۔ 

جدید اُردو شاعری کے میدان میں “ماورا” (1942ء)، “ایران میں اجنبی” (1955ء) “لا= انسان” (1969ء) اور “گمان کا ممکن” (1977ء)اُن کے اہم شعری مجموعے ہیں۔اُن کے خطوط کو نسیم عباس احمر نے “ن م راشد کے خطوط” کے نام سے 2008 ء میں جب کہ اُن کی اُردو نثر کو شیما مجید نے 2012ء میں “مقالاتِ راشد” کے نام سے مرتب کیا۔ راشد لندن میں مقیم تھے جب اُنھیں ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکے اور 19/اکتوبر 1975ء کو وفات پاگئے۔گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں واقع ایک ہال کو راشد کے اعزاز میں “ن م راشد ہال”کا نام دیا گیا ہے۔ راشد کی شاعری کے علاوہ اُن کی نثر بالخصوص تنقیدی مضامین اور خطوط بھی علمی، ادبی اور تہذیبی و ثقافتی حوالے سے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ 

ن م راشد کا ایک معتبر حوالہ پروفیسر ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری ہیں جو اُردو کے بہترین محقق، مدون، شاعر، ادیب اور استاد ہیں۔ وہ 29 جون 1959ء کو لاہور میں پیدا ہوئے اور اُن کےوالد کا نام ریاض الحق قریشی ہے۔ اُنھوں نے لاہور بورڈ سے 1974ء میں میٹرک اور 1976ء میں وہیں سےایف اے کے امتحانات پاس کیے۔ پھر1978ء میں اُنھوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے  بی اےاور 1980ء میں ایم اےاُردو کے امتحانات پاس کیے۔ ایم اےاُردو کے امتحان میں اوّل پوزیشن حاصل کرنے پر اُنھیں پنجاب یونیورسٹی کی جانب سے گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔ 1997ء میں اُنھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ہی اپنی پی ایچ ڈی اُردو کی ڈگری مکمل کی جس میں اُن کے تحقیقی مقالے کا عنوان “ن م راشد: تحقیقی و تنقیدی مطالعہ” تھا۔  

اُنھوں نے اپنی ملازمت کا آغاز اُردو کے لیکچرار کی حیثیت سے گورنمنٹ ڈگری کالج گوجرہ، ٹوبہ ٹیک سنگھ سے 1982ء میں کیا جہاں وہ 1984ء تک خدمات انجام دیتے رہے۔ 1984ء میں وہ گورنمنٹ اسلامیہ کالج سانگلہ ہل، شیخوپورہ چلے گئے جہاں اُنھوں نے پانچ ماہ کا عرصہ تدریسی فرائض انجام دیے۔ نومبر 1984ء میں وہ اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی لاہور میں اُردو کے لیکچرار تعینات ہوئے جہاں سے وہ 28 جون 2019ء کو پرنسپل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کے تحقیقی مجلہ “بازیافت” کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ آج کل وہ منہاج یونیورسٹی لاہور میں بحیثیت ڈین، فیکلٹی آف لینگویجز خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اُن کے شاگردوں کا دائرۂ کار نہایت وسیع ہے۔ مختلف سطح کے ایک سو کے لگ بھگ تحقیقی مقالات اُن کی زیرِ نگرانی تحریر کیے جاچکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ 

راشد پر اُن کی دیگر کتابوں میں “مکتوباتِ راشد” (2009ء)، “ن م راشد(راشد صدی: منتخب مضامین)” (2010ء)،  “مطالعۂ راشد (چند نئے زاویے)” (2010ء)، “میرے بھی ہیں کچھ خواب(بیاضِ راشد بخطِ راشد)” (2010ء)، “جدید فارسی شاعری (ن م راشد کے غیر مدون اُردو تراجم)” (2010ء)، “راشد کی نگارشات بسلسلہ اقبالیات” (2011ء)،  “ن م راشد کی نظموں کے انگریزی تراجم” (2013ء) اور “مکاتیب بنام راشد” (2015ء) شامل ہیں۔ اُن کی دیگر تصنیفات و تالیفات میں “وضاحتیں(سجاد باقر رضوی) ترتیب بہ اشتراک” (1988ء)، “نثری نظم” (1989ء)، “منتخب ادبی اصطلاحیں” (1990ء)، “انتخاب نظم و نثر (جلد اول) ترتیب” (1998ء)، “انتخاب نظم و نثر (جلد دوم) ترتیب” (1999ء)، “خواجہ معین الدین اور تعلیمِ بالغاں” (1999ء)، “دل میں صلوٰۃ و درود لب پہ صلوٰۃ و درود” (1999ء)، “توضیحات” (2000ء)، “مطالعات” (2000ء)، “آزادی کی گونج” (2002ء) اور “تعبیرات” (2002ء) شامل ہیں۔ 

“مکاتیب بنام راشد]چودہ مشاہیر کے ن م راشد کو لکھے گئے نواسی خطوط[” کے عنوان سے پروفیسر ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری کی مرتبہ کتاب پہلی دفعہ کتابی شکل میں 2015ء میں سامنے آئی جسے مثال پبلشرز،فیصل آباد نے شائع کیا۔ دو سو اکاون صفحات پر مشتمل اِس کتاب کو اُنھوں نے پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ سب سے پہلے پیش لفظ، پھر مقدمہ، بعدازاں متن اور حواشی اور آخر میں خطوط کی عکسی نقول پیش کی گئی ہیں۔ اِس کتاب میں شامل مواد اپنی ابتدائی اور بنیادی صورت میں شعبۂ اُردو، اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی لاہور کے تحقیقی مجلہ “بازیافت” کے شمارہ 18 (جنوری تا جون 2011ء) میں ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری کے تحقیقی مقالے کی صورت میں “مکاتیب بنام راشد” کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ سب سے پہلے نوری صاحب کے اُس مقالے اور اِس کتاب کا موازنہ پیش کیا جائے گا اور پھر اِس کتاب کا جائزہ لیا جائے گا۔ 

تحقیقی مجلہ “بازیافت” کا شمارہ 18 بنیادی طور پر میر تقی میراور ن م راشد کی یاد میں نکالا گیا تھا جسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلا حصہ بیادِ میر کے عنوان سے ہے جس میں سات مقالات شامل ہیں۔ دوسرا حصہ بیادِ راشد کے عنوان سے شامل کیا گیا ہے جس میں بیس مقالات شامل ہیں۔ شمارے میں شامل کُل ستائیس تحقیقی مقالات میں پچیسویں نمبر پرڈاکٹر نوری صاحب کا مقالہ “مکاتیب بنام راشد” شامل ہے۔ اب آتے ہیں اِس جانب کہ اُس مقالے اور اِس کتاب میں بنیادی فرق اور مماثلت کیا ہے تاکہ موازنہ درست انداز سے ممکن ہو پائے۔ 

مماثلتیں: 

  • دونوں میں شامل خطوط کے متن سے پہلے والا ابتدائی حصہ ایک جیسا ہے جس میں خطوط حاصل کرنے کے ذرائع، مکتوب نگار شخصیات کے اعتبار سے خطوط کی علیحدہ علیحدہ تعداد، خطوط کی تاریخیں اور تحقیق و تدوین کا طریقہ کار بیان کیا گیا ہے۔
  • چودہ مشاہیر کے ن م راشد کو لکھے گئے تمام نواسی خطوط کے متن نئی کمپوزنگ کے ساتھ دونوں میں شامل کیے گئے ہیں۔
  • حواشی و تعلیقات کا اہتمام دونوں میں احسن انداز سے کیا گیا ہے۔
  • دونوں میں خطوط کے عکسی نمونے شامل کیے گئے ہیں۔

فرق: 

  • مقالے کے صفحات کی تعداد اٹھانوے جب کہ کتاب میں شامل کُل صفحات کی تعداد دو سو اکاون ہے۔
  • تحقیقی مقالے میں مجوزہ طریقہ کار کے مطابق آغاز میں انگریزی زبان میں ملخص دیا گیا ہے جب کہ کتاب میں اِس کی ضرورت نہیں ہوتی۔
  • مقالے میں شامل ابتدائی حصے کو کتاب میں مقدمے کے طور پر شامل کردیا گیا ہے۔
  • کتاب میں مقدمے سے قبل پیش لفظ بھی شامل کیا گیا ہے جب کہ مقالے میں اِس کی ضرورت نہیں ہوتی۔
  • مقالے میں شامل حواشی و تعلیقات کی کُل تعداد ننانوے ہے جب کہ کتاب میں تین اضافوں کے بعد اُن کی تعداد ایک سو دو ہے۔
  • مقالے میں صرف چھ منتخب خطوط کی عکسی نقول شامل کی گئی ہیں جب کہ کتاب میں تمام نواسی خطوط کی عکسی نقول شامل کی گئی ہیں۔

مزید تفصیلی جائزے سے قبل میں ضروری خیال کرتا ہوں کہ پہلے اُن چودہ مشاہیر کی فہرست نقل کردوں جو نوری صاحب نے اپنی کتاب میں درج کی ہے جس سے ایک طرف اُن مشاہیر کے خطوط کی تعداد کا پتہ چل جائے گا اور دوسرا اُن کی تاریخیں بھی واضح ہوجائیں گی کہ کب یہ خطوط راشد کو لکھے گئے۔ خطوط کی ترتیب اُنھوں نے اپنی کتاب میں زمانی اعتبارسے رکھی ہے۔  پہلے آٹھ مکتوب نگار وہ ہیں جن کی طرف سے ایک ایک خط تحریر کیا گیا۔ (1)ملاحظہ ہو: 

احمد شاہ]پطرس[بخاری 9/جون 1951ء 

]میجر[سیدضمیر جعفری 6/فروری 1964ء 

ضیا محی الدین 24/اکتوبر 1967ء 

غلام عباس 26/اگست 1968ء 

محمد صفدر میر 13/جولائی 1970ء 

ساغر نظامی 2/دسمبر 1970ء 

قرۃ العین حیدر]عینی[ 21/جنوری 1971ء 

علی سردار جعفری 2/مارچ 1971ء 

پھر وہ چھ مکتوب نگار دیے گئے ہیں جن کی جانب سے ایک سے زائد خطوط لکھے گئے۔ اِس ضمن میں اُنھوں نے مکتوب نگار کا نام درج کرنے کے ساتھ اُس کے سامنے اُس کے خطوط کی تعداد لکھ دی اور پھر اُس کے نیچے پہلے خط کی تاریخ اور آخری خط کی تاریخ درج کی ہے۔ملاحظہ ہو: 

]ڈاکٹر[آفتاب احمد کل خطوط = 2 

پہلا خط = دسمبر 1967ء دوسرا خط = 10/جنوری 1968ء 

شمس الرحمٰن فاروقی کل خطوط = 20 

پہلا خط = 22/مئی 1968ء بیسواں خط = 30/اگست 1972ء 

منیر ]احمد[نیازی کل خطوط = 24 

پہلا خط = 19/اگست 1968ء چوبیسواں خط = 27/جون 1970ء 

]ڈاکٹرمحمد[جمیل]خان[جالبی کل خطوط = 6 

پہلا خط = 13/اکتوبر 1968ء چھٹا خط = 13/دسمبر 1972ء 

]ڈاکٹراخلاق محمد خان[شہریار کل خطوط = 13 

پہلا خط = اپریل 1970ء تیرھواں خط = 6/ستمبر 1972ء 

]ڈاکٹر [مغنی تبسم کل خطوط = 16 

پہلا خط = 16/جون 1970ء سولھواں خط = 27/اگست 1971ء 

جہاں تک اِن خطوط کے ماخذ کی بات ہے تو فخرالحق نوری کو اِن خطوط کی دو عکسی نقول موصول ہوئیں اور دونوں راشد کی دختر یاسمین راشد حسن کی وساطت سے موصول ہوئیں جو اُس وقت کینیڈا میں قیام پذیر تھیں۔ ایک کاپی اُنھوں نے اپنے شوہر فاروق حسن کی وساطت سے اُن کے دوست ڈاکٹر صدیق جاوید کو اِس تلقین کے ساتھ بجھوائی کہ اِن کی ایک کاپی نوری صاحب کو بجھوا دیں۔ دوسری کاپی اُنھوں نے خود براہِ راست نوری صاحب کو ای میل کردی۔ اِس ضمن میں ڈاکٹرمحمد فخرالحق نوری لکھتے ہیں: 

“چودہ مشاہیرِادب کے مذکورہ نواسی خطوط راشد کی صاحب زادی یاسمین راشد حسن سے دست یاب ہوئے جو مانٹریال]کینیڈا[میں مقیم ہیں۔ اُنھوں نے نومبر 2010ء میں اُن خطوط کی عکسی نقول ڈاکٹر صدیق جاوید جو اُن کے شوہر فاروق حسن کے دیرینہ دوست ہیں، لاہور ارسال کیں اور اُنھیں اُن خطوں کا ایک عکس مجھے بھی فراہم کرنے کی تلقین کی۔ جب تک مجھے یہ عکس ملتا، یاسمین راشد نے کمال مہربانی کرتے ہوئے مجھے یہ تمام خطوط سکین[Scan]کرکے برقی مراسلے[E-mail]کی صورت میں خود بھی بھیج دیے۔”(2) 

راشد کے نام لکھے گئے اُن خطوط کی تدوین کرتے وقت نوری صاحب نے دست یاب ہونے والی اُن دونوں عکسی نقول کو مدنظر رکھا۔ خطوط کی عکسی نقول بعض مقامات سے غیر واضح ہونے کے سبب اُنھیں خطوط کی تدوین میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اِس ضمن میں اُنھیں جہاں کہیں الفاظ یا سطور کے چھوٹ جانے کا احساس ہوا یا صفحات کی ترتیب میں مسئلہ پیش آیا تو اُنھوں نے یاسمین راشد سے کئی بار رابطہ کرکے دوبارہ کچھ خطوط کی عکسی نقول منگوائیں۔ جب تک اُنھیں اِس بات کی تسلی نہ ہوگئی کہ وہ خطوط کے اصل متن کی بازیافت میں کامیاب ہوگئے ہیں، اُنھوں نے متن کی تدوین کے مرحلے کو فائنل نہیں کیا۔ اِسی باعث اُن کا کہنا ہے: 

“الحمدللہ اب یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ مجھے اصل متن کی بازیافت میں اگر سو فی صد نہیں تو ننانوے فی صد کامیابی ضرور حاصل ہو گئی ہے۔”(3) 

اُنھیں خطوط کی تدوین میں ایک اہم مرحلہ لکھائی اور طرزِ املا کی تفہیم کی صورت میں درپیش رہا۔ اِس معاملے کی نزاکت کا اندازہ اِس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ چوں کہ چودہ مختلف شخصیات کے خطوط اِس میں شامل تھے لہٰذا سب کی لکھائی اور طرزِ املا جداگانہ ہونے کے باعث اُنھیں ہر مکتوب نگار کی لکھائی اور اُس کے اندازِ تحریر سے ذہنی مطابقت قائم کرنا پڑی۔ ایک اچھے محقق اور مدون کی طرح اُنھوں نے اِس مرحلے کو نہایت احسن انداز سے مکمل کیا اور خطوط کے اصل متن کی بازیافت میں ممکن حد تک کامیاب رہے۔ 

ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری نے خطوط کا متن مدون کرتے وقت چھ اہم نکات(4) کو مدنظر رکھا ہے جنھیں یہاں بیان کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ اُن کے تدوین کے طریقِ کار کو سمجھنے میں سہولت رہے۔ ملاحظہ ہو: 

  1. اگر کہیں کسی مکتوب نگار نے جملۂ معترضہ یا کسی وضاحت کے لیے قوسین (Round Brackets)استعمال کی ہیں تو اُنھیں برقرار رکھا گیا ہے۔
  2. اگر کسی خط پر تاریخ یا ماہ و سال کا اندراج نہیں ہوسکا تو داخلی شواہد، ہاتھ سے لکھی ہوئی وصولی کی تاریخ یا محکمہ ڈاک کی مہر سے تعین کرکے اُسے مربع خطوط وحدانی [Square Brackets]میں لکھ دیا گیا ہے اور متعلقہ حاشیے میں وضاحت کردی گئی ہے۔ ایسا کرنے سے خطوط کی زمانی ترتیب قائم رکھنے میں مدد ملی ہے۔

iii. جہاں کہیں مکتوب نگار سے نادانستگی میں حروفِ جار میں سے کوئی حرف یا کوئی ایک آدھ لفظ لکھنے سے رہ گیا ہے اور سیاق و سباق سے اُسے بآسانی قیاس کیا جاسکتا ہے تو اُسے بھی مربع خطوط وحدانی [Square Brackets]میں درج کیا گیا ہے۔ 

  1. جس مقام پر کسی مکتوب نگار نے کسی نام، لقب یا کلمے کے اندراج/استعمال میں غلطی کی ہے، وہاں اُسے درست انداز میں تحریر کرنے کے بعد منحنی خطوط وحدانی {Curvy Brackets}میں سوالیہ نشان کے ساتھ مکتوب نگار کی اختیار کردہ صورت بھی درج کی گئی ہے۔
  2. اُن استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر جن کی وضاحت حواشی میں کردی گئی ہے، املا یا طرزِاملا کی چھوٹی موٹی کوتاہیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے درست املا اختیار کی گئی ہے۔
  3. جو خط کسی ادارے کے لیٹر پیڈ پر لکھا گیا تھا۔ اُس پر ادارے سے متعلق چھپی ہوئی عبارت کو متن میں شامل نہیں کیا گیا۔

خطوط کے متن میں جہاں کہیں کوئی بات وضاحت طلب محسوس ہوئی، نوری صاحب نے اُسے نمبر لگا کر حواشی میں اُس کی وضاحت پیش کردی۔ اِس ضمن میں اُنھوں نے کئی جگہوں پر قیاس سے بھی کام لیا ہے جس کی طرف اشارہ وہ مقدمے میں پیش کردہ طریقِ کار میں بھی کرچکے ہیں۔ پطرس بخاری کے تحریر کردہ پہلے ہی خط میں ایک جملہ ہے، شہاب کی کتاب ضرور بھیجیے۔(5) یہاں اُنھوں نے حواشی میں قیاس کرتے ہوئے لکھا ہے کہ غالباً قدرت اللہ شہاب کی کتاب یاخدا مراد ہے جو لاہور اکیڈمی، لاہور سے 1948ء میں شائع ہوئی تھی۔(6) ایسے ہی کئی جگہوں پر اُنھوں نے قیاس کرتے ہوئے حواشی میں کسی امر کی وضاحت پیش کی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ زمان و مکاں اور شخصیات کے معاملات اور حالات و واقعات کا خاص خیال رکھتے ہیں جو اُن کی تحقیقی و تدوینی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ خاص طور سے جو طریقہ اُنھوں نے اُن خطوط کی تاریخ کا تعین کرنے کے لیے استعمال کیا ہے جن پر تاریخ کا اندراج نہیں تھا، یقیناً قابلِ ستائش ہے۔ 

“مکاتیب بنام راشد” کی تدوین کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری نے تدوین کے جدید اُصولوں کو خصوصی طور سے ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ مصادر کا تفصیلی ذکر کرنے سے لے کر خطوط کی عکسی نقول کو کتاب کاحصہ بنانے تک تمام معاملات میں اُنھوں نے حد درجہ احتیاط سے کام لیا ہے۔ اُنھوں نے خطوط کے اصل متن کی بازیافت کو حقیقی معنوں میں ممکن بنایا ہے۔ کتاب کے پیش لفظ میں اُنھوں نے رسالہ “ارژنگ” کی جانب سے بلا اجازت اور بغیر کسی حوالے کے “مکاتیبِ شمس الرحمٰن فاروقی بنام راشد” کو شائع کرنے کے حوالے سے جو جملۂ معترضہ پیش کیا ہے، وہ اِس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے نوری صاحب تحقیق و تدوین کے عمل میں حوالہ جات کو کس قدر اہمیت دیتے ہیں۔ اُن کی یہ خصوصیت بلاشبہ ایک نئے مدون کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ 

اُن کے پیشِ نظر چوں کہ خطوط کے عکسی نسخے تھے لہٰذا جہاں اُنھیں الفاظ کے مدھم ہونے کے باعث قرات میں مسئلہ پیش آیا اُنھوں نے دوبارہ اُن صفحات کی نقول منگوائی۔ اِسی طرح جہاں اُنھوں نے اصل متن کی کمپوزنگ کے بعد اگر اُس میں معمولی سے معمولی تبدیلی بھی کی تو نہ صرف اُس کی نشان دہی کی بلکہ اُس کا سبب بھی بیان کیا۔ حواشی میں کسی پہلو کے بیان یا اُس کی وضاحت کے دوران جہاں اُنھوں نے قیاس سے کام لیا وہاں اُنھوں نے غالباً کا لفظ استعمال کیا۔ ایک مدون کا بنیادی کام اصل متن کی بازیافت ہوتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ متن کو اصل شکل میں قارئین کے سامنے لائے۔ اِس عمل میں وہ متن کا تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ کرنے سے عموماً پرہیز کرتا ہے، چوں کہ مدون کی یہ ذمہ داری نہیں ہے اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو یقیناً اضافی طور پر یہ کام کرتا ہے۔ ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری نے “مکاتیب بنام راشد” کی تدوین کرتے ہوئے مقدمے میں اِس امر کا سرسری اظہار ضرور کیا ہے مگر اُن کی مکمل توجہ خطوط کے اصل متن کو سامنے لانے کی طرف ہی رہی جس میں وہ میرے نزدیک کامیاب رہے ہیں۔ 

حواشی و حوالہ جات 

(1) نوری، محمدفخرالحق، ڈاکٹر، مکاتیب بنام راشد، فیصل آباد: مثال پبلشرز، 2015ءء، ص 1۔2 

(2) ایضاً، ص2 (3) ایضاً،ص3 

(4) ایضاً،ص3۔4 (5) ایضاً، ص7 

(6) ایضاً، ص89  

٭٭٭ 

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.