دبستانِ امیرؔمینائی کا نمائندہ شاعر: مغلؔ اجمیری
ڈاکٹرمعین الدین شاہینؔ
ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبۂ اردو
سمراٹ پرتھوی راج چوہان گورنمنٹ کالج، اجمیر(راجستھان
Home: 395-A, Azad Nagar Kotra,
Pushkar Road,Ajmer-305001 (Rajasthan)
(Dabistan-e-Ameer Minai ka Mumainda Shayer: Mughal Ajmeri)
شعرائے اجمیرسے متعلق تذکروں، حوالہ جاتی کتابوں اور مضامین ومقالات میں مغل ؔ اجمیری کاذکرناپید ہونا کئی طرح کے سوالات کھڑے کرتا ہے، گوکہ مغلؔ صاحب کی حیات میں اُن کاکلام اکثر معاصر رسائل، جرائد ،اخبارات شعری گلدستوں اور مشاعروں کی روداد وغیرہ میں شائع ہوتارہتاتھا۔ لیکن اس کے باوجود انہیں قصداً نظر انداز کیاگیا ۔جس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مغلؔ اجمیری نہایت خود داراور قناعت پسند انسان تھے۔ وہ اپنے بعض ایسے معاصرین کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتے تھے جو مال ودولت اور سیاسی رسوخ کی بنا پر اپنے ہر قسم کے اقدامات کو حق بجانت کہلوانے کے متمنی ہوتے تھے۔ وہی لوگ ان دونوں میخانۂ شعر وادب کے پیرِ مغاں بن بیٹھے تھے ۔ تاہم اُن کی تحریروں خصوصاً مضامین ومقالات اور حوالہ جاتی کتابوں میں مغلؔ اجمیری کاذکرشامل نہیں کیا جن میں خطۂ اجمیرکے شاعروں او رمتشاعروں پرخامہ فرسائی کی گئی۔
آزادی کے بعدسب سے قبل حافظ قمرآصفؔ مرحوم نے اپنے تذکرے ’’تابشِ سخن‘‘ میں مغل ؔ اجمیری کے حالاتِ زندگی شامل کیے تھے لیکن صد افسوس کہ یہ تذکرہ ہنوز غیرمطبوعہ ہے ۔
بعد ازاں ڈاکٹر شاہین افروز نے اپنے تحقیقی مقالے ’’راجستھان میں جدید اردو غزل (پس منظرِ پیش منظر) ‘‘میں مغل ؔ مرحوم کاتذکرہ کیاتھا۔ اس مقالے پرمہرشی دیانند سرسوتی یونیورسٹی، اجمیرنے انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی تھی۔ یہ مقالہ بھی ہنوز غیرمطبوعہ ہے ۔ چونکہ مغلؔ اجمیری لعل محمدجوہرؔ کوٹوی ثم اجمیری کے پھوپھا اور استادِ سخن دونوں تھے اس لئے انہیں مغلؔ اجمیری کے سوانحی حالات سے بخوبی واقفیت تھی۔ انہوں نے اُن کے وہ حالات اپنے نورنظرانجینئر عبدالعزیز تنویرؔکوٹوی ثم اجمیری کو وقتاً فوقتاً تحریرکروائے جس کے سبب مغلؔ اجمیری کی حیات اور شاعری سے متعلق مستند معلومات یکجاہوگئیں۔ تنویرؔصاحب نے وہ معلومات پہلے ڈاکٹر شاہداحمدجمالی کوفراہم کرائیں جن کی بنیاد پر انہوں نے ’’تذکرہ شعرائے راجپوتانہ‘‘ میں مغلؔ اجمیری کا ذکرکیا۔ چونکہ راقم الحروف کاتنویرؔ صاحب کے ساتھ روزانہ کااٹھنابیٹھنا ہے اس لئے بہت سی ایسی معلومات ہیں جو صرف راقم کے گوش گزار کی ہیں ۔ زیرِنظر مضمون انہیں معلومات اور دستیاب شدہ تخلیقاتِ مغلؔ اجمیری کے حوالے سے ضابطۂ تحریرمیں آرہاہے۔
تنویرؔ کوٹوی ثم اجمیری نے راقم الحروف کویہ بتایا کہ:
’’مغلؔ اجمیری کاپورانام مرز مغل بیگ تھا اور جائے پیدائش کوٹہ (راجستھان ) ہے ۔ بقول جناب جوہرؔاجمیری آپ کا سن پیدائش ۱۸۷۰ء ہے ۔ سن بلوغ تک پہنچنے تک آپ اردو وفارسی کی اعلیٰ تعلیم سے آراستہ وپیراستہ ہوچکے تھے۔ حصولِ علم کے دوران آپ کی فنکارانہ طبیعت شعرگوئی کی طرف مائل ہوچکی تھی۔ مرزا مغلؔ پیشے سے ورق ساز تھے، چنانچہ آپ کو فکرِ معاش نے کوٹہ سے ہجرت کرنے پرمجبور کردیا۔ آپ اپنے اس کاروبار کے سلسلے میں ۱۹۰۱ء میں اجمیرآگئے یہاں آپ کاکاروبار چل نکلا جس کے نتیجے میں آپ نے اجمیر کو مستقل طورپر اپنا وطنِ ثانی بنالیا۔ اجمیرمیں آپ مسلم موچی محلہ گلی تیلیان میں مقیم رہے اور یہیں ۱۹۴۴ء میں آپ کاانتقال ہوا۔ مرزا مغلؔ ۱۹۰۱ء سے ۱۹۴۴ء تک اجمیرمیں اکتسابِ ذوق میں سرگرم عمل رہے …مرزا مغلؔ کے دوستانہ مراسم نواب شمس الدین خاں عاشقؔ ۱ ؎ سے تھے۔ نواب صاحب کی حویلی میں اکثر وبیشتر ادبی محفلیں اور مشاعرے ہوتے رہتے تھے۔ مرزا مغلؔ کی ملاقات یہیں پر سیدافتخارحسین ، مضطرؔخیرآبادی ۲؎ سے ہوئی۔ مرزا مغلؔ ،مضطرؔخیرآبادی کی شخصیت اور علمی وادبی قابلیت سے بے حد متاثرہوئے ۔
(۱۔ عاشقؔ مرزا داغؔ کے شاگرد تھے۔ (راقم)
(۲۔ مضطرؔحضرت امیرؔمینائی کے تلامذہ میں شامل تھے۔ (راقم)
چنانچہ آپ نے مضطرؔ کواپنا راہبرِ سخن بناکر فیض تلمذ حاصل کیا۔ مرز ا مغلؔ کو ایسے اعلیٰ مرتبت استاد کی شاگردی ملنے ، اجمیرکا اعلیٰ ومعیاری ادب وشعری ماحول میسرآنے اور اہلِ فکروفن کی قربت نے ان کی شاعری میں ایسا نکھار پیدا کردیاکہ انہیں استاد نے جلدی ہی فارغ الاصلاح قرار دے دیا۔ اور ’’استاد الشعراء‘‘ کے خطاب سے نواز کر عزت افزائی کی۔ مرزا مغلؔ کوحقیقتاً اپنے دور کے شعراء پر سبقت حاصل تھی۔ مرزا مغلؔ کثیرالتلامذہ استاد شاعر تھے اُن کے مشہور تلامذہ میں خوشترؔاجمیری، ہمسرؔاجمیری، نشترؔاجمیری ، جوہرؔاجمیری، دلگیرؔ اجمیری، بہترؔ اجمیری، برقؔ اجمیری، جگرؔ اجمیری، محشرؔفخری اجمیری وغیرہ کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔‘‘
مغلؔ مرحوم اجمیرکے ہر دلعزیز شاعروں میں شمارہوتے تھے تاہم اکثرلوگ اُن کاکلام ساز وآواز کے ساتھ سننا پسند کرتے تھے۔ تنویرؔصاحب اور اجمیرکے مشہور نان بائی نتھوخاں مرحوم کی زبانی اکثرراقم نے یہ سنا کہ اجمیرکی طوائفیں اور رقاص گان مغلؔ صاحب کی دہلیز پردوزانو بیٹھ کر یہ التماس کرتی تھیں کہ حضور کوئی تازہ ترین تخلیق عنایت فرمادیجئے۔ مغلؔ صاحب ان مہذب ومؤدب خواتین کی فرمائش کے پیش نظران کی پھیلی ہوئی جھولیوں میں اپنا کلام مرحمت فرمادیتے تھے، تب وہ خواتین اظہارتشکر ادا کرتے ہوئے اور مغلؔ صاحب کودعائیں دیتے ہوئے خوشی خوشی لوٹتی تھیں۔ بقول مرحوم نتھوخاں ۱۹۴۷ء میں ملک کے تقاسمے کے بعدمغلؔ صاحب کاکلام اجمیرکی طوائفوں، میلاد خوانوں اور قوال حضرات کے ساتھ پاکستان پہنچ گیا۔
اسی ذیل میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ جب ۱۹۴۴ء میں مغلؔ صاحب نے انتقال فرمایا تو اُن کے چہلم کے بعد ایک ادبی جلسہ اجمیرمیں منعقد ہوا جس میں اُن کے شاگرد عزیز عالم محشرؔ فخری اجمیری کو جانشینِ مغلؔ اجمیری بنائے جانے کااعلان ہوا اور ا ن کی غیرمطبوعہ بیاضیں اور مطبوعہ کلام انہیں اس نیت سے دیاگیا کہ وہ کلامِ مغلؔ اجمیری کی طباعت کی ذمہ داری اٹھائیں گے لیکن افسوس کہ ڈھائی تین سال بعدملک کابٹوارہ ہوگیا اور محشرؔ صاحب وہ کلام اپنے ساتھ پاکستان لے گئے ۔ معلوم نہیں وہ کلام پاکستان میں زیورِ طبع سے آراستہ ہوا یا نہیں۔ مغلؔ مرحوم کے شاگردنورالدین جگرؔاجمیری کے پاس اُن کی پچاس ساٹھ تخلیقات بتائی جاتی ہیں۔ جگرؔ صاحب کبھی بمبئی تو کبھی جے پور میں رہے اور کلام ِمغلؔ کاپتہ نہیں کیاہوا۔ مرز احبیب بیگ پارسؔ مرحوم مغلؔ اجمیری کے رشتے داروں میں سے تھے انہوں نے تنویرؔکوٹوی صاحب کے اعزاز میں مرزا غالبؔ سوسائٹی جے پور کے زیر اہتمام ایک تقریب کا انعقاد کیاتھا۔ اور اسی تقریب میں انہوں نے یہ کہاتھا کہ اُن کے پاس مغلؔ اجمیری کی تیس پینتیس غیرمطبوعہ تخلیقات محفوظ ہیں جومختلف اصناف پر مشتمل ہیں تنویرؔصاحب فرصت نکال کر آئیں اور انہیں لے جائیں تاکہ طباعت میں وہ تخلیقات معاون ثابت ہوں۔ تنویرؔصاحب اپنے عزیزدوست سیدقمرؔعابدی ایڈوکیٹ (کوٹہ، راجستھان) کے ہمراہ اُن تخلیقات کوحاصل کرنے کے لئے جے پورگئے لیکن افسوس کہ اُسی روز مرزا حبیب بیگ پارسؔ مرحومین میں شامل ہوگئے۔ اب لے دے کروہی تخلیقاتِ مغلؔ اجمیری محفوظ ہیں جومرحوم جوہرؔ کوٹوی نے اپنے لختِ جگر تنویرؔ کوٹوی کو بطور امانت پیش کی تھیں۔ مطبوعہ کلام سے کچھ تخلیقات راقم الحروف اور ڈاکٹرشاہد احمدجمالی صاحب کے پاس موجود ہیں لیکن اُن کی بنیادی پر شعری مجموعہ یادیوانِ مغلؔ اجمیری کی اشاعت عمل میں نہیں آسکتی۔ اگر مذکورہ تخلیقات معتبر ذرائع سے موصول ہوجائیں تو ’’بزمِ گنگ وجمن‘‘(اجمیر) کے اشاعتی پروگرام کے تحت انہیںمنظرعام پر لایاجاسکتاہے۔ اس بزم کے صدرتنویرؔصاحب اور جنرل سیکریٹری راقم الحروف ہے ۔
فی الوقت مغلؔ اجمیری کاجوکلام راقم کے پیش نظر ہے اس میں نعت، منقبت، مخمس، غزل او رتضمین کے نمونے شامل ہیں۔ جب اُن کاتما م کلام یکجاہوجائے تو یہ صحیح طورپر فیصلہ ہوگا کہ انہوں نے او رکن کن اصناف میں طبع آزمائی کرکے خدماتِ ادب کافریضہ انجام دیا۔
مذہبی شاعری کوبظاہرسہل اور آسان سمجھنے کی بھول کرتے ہوئے اکثر شعرائے کرام کودیکھاگیاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذہبی شاعری بے حد احتیاط کاتقاضہ کرتی ہے ۔ قرآن ،حدیث اور مذہبی مسائل سے لاعلمی تخلیق کار کوگناہگاروں کی فہرست میں ڈال دیتی ہے ۔ تاہم عربی، فارسی اور اردو کے شاعروں نے اکثر علمائے دین کی نظرثانی کے بعد اپنے کلام کومحافل میں پیش کیا یازیورِ طبع سے آراستہ کروایا۔ مغلؔ اجمیری کی نعتیہ اور منقبتیہ شاعری اس لئے مبالغہ او رتجاوز سے پاک وصاف نظرآتی ہے کہ انہوں نے ایسے موضوعات اپنی مذہبی تخلیقات میں شامل کیے جن کی سندیاجواز موجود ہے۔ اپنی نعتیہ شاعری میں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حفظِ مراتب کو جس انداز میں پیش کیااُس کی مثالیں ذیل کے اشعار میں موجود ہیں۔ ان اشعار میں احترام وعقیدت کے ساتھ احتیاط کاپہلوبھی شامل ہے ۔ مثلاً ؎
یہ دیکھو گردشِ چرخِ ستم گر یا رسول اللہ
کھلاتی ہے مجھے چکّر ہی چکّر یا رسول اللہ
وئے پیدا ہزاروں انبیاء اس دہر میں لیکن
بنے تم ہی حبیبِ ربِّ اکبر یا رسول اللہ
آنکھوں میں لگا لوں با خدا احمدِ مختار
مل جائے جو خاکِ کفِ پا احمدِ مختار
عاصی ہوں، گناہ گار ہوں، لیکن سرِ محشر
رکھ لینا میری شرم وحیا احمدِ مختار
٭
ہوا مجھ کو جس دم خیالِ محمد
تو ہر شے میں دیکھا جمالِ محمد
وہیں پھنس گیا زلف میں طائرِ دل
جو دیکھا مغلؔ رخ پہ خالِ محمد
٭
پلا دے ایسا ساقی بھر کے پیمانہ محمد کا
زمانہ بول اُٹھّے مجھ کو دیوانہ محمد کا
ہمیشہ اے مغل ذکرِ نبی ہے مشغلہ میرا
باں پر رات دن رہتا ہے افسانہ محمد کا
٭
تو جاکے صبا کہہ دیجو میری فریاد مدینے والے سے
اک مانگ رہا ہے درد زدہ امداد مدینے والے سے
اسد کامغلؔ ہے بند دہن، اس سے میں نہ لوں گا دادِ سخن
مل جائے مجھے اس مدح وثناء کی داد مدینے والے سے
(آخری شعر میں مغلؔ اجمیری نے اپنے اُن معاصر شعرائے اجمیرکی طرف اشارہ کیا ہے جو اُن کی قادرالکلامی کے سبب اپنے دل واذہان میںاُن کے تئیں حسد، جلن ،کپٹ اور جذبۂ کدورت رکھتے تھے۔(راقم)
نعت گوئی کی طرح منقبت نگاری میں بھی مغلؔ اجمیری کو یدِ طولیٰ حاصل تھا۔ چنانچہ اس صنف میں بھی جوشِ عقیدت کاوہی جذبہ کارفرما ہے۔ جومذکورہ نعوت میں موجود ہے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کی ستائش میں جو منقبت بہ صورتِ سلام انہوں نے مسدس کی ہیئت میں تخلیق کی تھی اس کے اشعار کی بندش مغلؔ اجمیری کے قادرالکلام شاعر ہونے کی مزید دلیل پیش کرتی ہے ۔ اس منقبت کے مندرجہ ذیل اشعار بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیے :
مقامِ خاص ہے اے مجری مقامِ علی
خدا کے پاس سرِ عرش ہے قیامِ علی
جب ہوگا حشر میں کوثر پہ انتظامِ علی
کہوں گا مستی میں تب ہوکے مست جامِ علی
علی امام منست ومنم غلام علی
ہزار جانِ گرامی فدائے نامِ علی
مجھے جو حضرتِ رضواں نے خلد پر روکا
پکڑ کے ہاتھ بضد ہوکے مجھ سے یوں پوچھا
غلام کس کا ہے اور کون ہے تیرا آقا
و میرے منہ سے مغلؔ اُس گھڑی یہی نکلا
علی امام منست ومنم غلامِ علی
ہزار جانِ گرامی فدائے ناِ علی
تضمین کی صورت میں تخلیق شدہ مذکورہ منقبت کے علاوہ خواجہ معین الدین حسن چشتیؒ کی مدح میں تخلیق ہونے والے منقبت کے حسب ذیل اشعار بھی اولیائے کرام او رصوفیائے عظام کے تئیں مغلؔ اجمیری کی والہانہ عقیدت کوظاہرکرتے ہیں۔ یعنی : ؎
مدینے کی ہوائیں کھا رہا ہوں کوئے خواجہ میں
مجھے بوئے محمد آرہی ہے بوئے خواجہ میں
کسی نے ہم سے پوچھا کیا نظر آیا تو کہہ دیں گے
فضا فردوس کی دیکھی ہے ہم نے کوئے خواجہ میں
یہاں کی موت بھی گویا حیاتِ جاودانی ہے
مغلؔ مر مر کے زندہ ہو رہے ہیں کوئے خواجہ میں
مخمس گوئی میں بھی مغلؔ اجمیری کومہارت حاصل تھی بقول تنویرؔ اجمیری انہوں نے دہلی ولکھنؤ کے اکثر اساتذہ ٔ کرام کے زبان زدِ خاص وعام اشعار پر کثرت سے تضامین کہی تھیں اس بابت اُن کی ایک تضمینی تخلیق سے یہ مثال ملاحظہ فرمائیے جو انہوں نے اپنے استادِ سخن مضطرؔ خیرآبادی کی غزل پر کہی تھی ۔ یہ تخلیق مخمس گوئی کی عمدہ مثال پیش کرتی ہے :
ہوں ایسا چاند جس پر غم کے ہالے پڑتے جاتے ہیں
خطِ قسمت میں گردش کے حوالے پڑتے جاتے ہیں
جگر میں آتشِ فرقت کے چھالے پڑتے جاتے ہیں
مرے ارمان مایوسی کے پالے پڑتے جاتے ہیں
سی کی چاہ میں جینے کے لالے پڑتے جاتے ہیں
مضطرؔخیرآبادی کی غزل پرکہی گئی ایک اور تضمینی مخمس کے درجِ ذیل اشعار بھی مغلؔ اجمیری کی شاعرانہ پختہ کاری کی غمازی کرتے ہیں :
سمجھتا تھا کہ جا پہنچوں گا میں دربار داور میں
کہوں گا اُس سے سب کچھ جو بھرا ہے قلبِ مضطر میں
مشیت نے مگر کچھ اور ہی بھر دی ہوا سر میں
اب اس سے بڑھ کے کیا ناکامیاں ہوں گی مقدر میں
میں جب پہنچا تو کوئی بھی نہ تھا میدانِ محشر میں
جیساکہ معلوم ہے مغلؔ اجمیری کاشاعرانہ رشتہ حضرت امیرؔ مینائی سے جاملتا ہے تاہم اُن کی غزلیات میں موضوع، مفاہیم، اندازِ بیان اور شاعرانہ کمال کی رو سے دیکھا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مغلؔ اجمیری نے ایک طرف مضطرؔ خیرآبادی اور دوسری طرف امیرؔمینائی کی پیروی میں جوغزلیات تخلیق کی ہیں وہ انہیں دبستانِ امیرؔ مینائی کانمائندہ شاعر ثابت کرنے میں معاونت کرتی ہیں ۔ اس نشاندہی کی دلیل میں مندرجہ ذیل اشعار کی سماعت از حد ضروری معلوم ہوتی ہے :؎
رُوئے جاناں پر اُدھر جب زلف بل کھانے لگی
قلبِ وحشی پر اِدھر ناگن سی لہرانے لگی
یاد ہے یوں وصل کی شب کی اُن کا کہنا ناز سے
اب تو سونے دو ہمیں، آنکھوں میں نیند آنے لگی
لے چلی دیوانگی پھر جانبِ صحرا مغلؔ
خود بخود وحشت مری پھر پائوں پھیلانے لگی
گلوں کو یاد دلاتا ہے باغباں میری
ہر ایک برگ پہ لکھتا ہے داستاں میری
زباں تراش سے ، جس دن سے بات کی میں نے
بدل گئی ہے اُسی روز سے زباں میری
وہ کر گئے ہیں مغلؔ جب سے مجھ کو محوِ جمال
کھلی ہوئی ہیں اُسی دن سے پُتلیاں میری
٭
سر اپنا خوشی سے دیتا ہوں، لیکن ہے یہی افسوس مجھے
خود حشر کے روز پکار اٹھے یہ آپ کا خنجر کیں نہ کہیں
یہ آپ کا عاشق زار مغلؔ، گر لائق بابِ حضور نہیں
ے عرض یہی اب بہرِ خدا ہوجائے سلام کہیں نہ کہیں
مذکورہ شعری تخلیقات اجمیر اور قرب وجوار میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں پڑھی جاچکی تھیں اور معاصر شعری گلدستوں میں بھی طبع ہوچکی ہیں۔
مغلؔ اجمیری شعر گوئی ہی میں نہیں بلکہ محفلیں سجانے میں بھی مہارت رکھتے تھے ۔ بقول تنویرؔ اجمیری جب اُن کے دولت کدے پرکسی مشاعرے یاشعری نشست کااہتمام ہوتاتھا تو ایک بڑی سی جازم بچھادی جاتی تھی۔شعراء کی نشست مشاعروں کی روایت کے مطابق اس طرز پر ہوتی تھی کہ استاد شعرائے اجمیراور مہمان سخنوران سب سے اگلی صف میں تشریف فرماہوتے تھے اور ان کے تلامذہ ومبتدی حضرات ان سے پچھلی صف میں بٹھائے جاتے تھے۔ ایک شمع اور ایک حُقّے کا انتظام بھی ہوتاتھا۔ حقے کی نَے اتنی لمبی ہوتی تھی کہ کوئی شاعر حقہ گڑگڑا کر دوسرے تک پہنچادیتاتھا اور نَے چاروں طرف گھوم جاتی تھی۔ محفل کے آداب کا دھیان اساتذہ بھی رکھتے تھے اور تلامذہ وسامعین سے بھی یہی توقع کی جاتی تھی کہ آدابِ محفل کو ملحوظ رکھاجائے کیونکہ مغلؔ صاحب اور ان کے معاصر شعراء مشاعرے اور شعری تقریبات کوتہذیب وتمدن کی علامت قرار دیتے تھے۔ اور خلافِ محفل کسی بھی عمل کو پسند نہیں کرتے تھے ۔ صد افسوس کہ یہ تہذیبی روایات واقدار تیزی سے دم توڑ رہی ہیں لیکن مغلؔ اجمیری اور اُن کے جیسے ہزاروں شعرائے کرام آج بھی تاریخ میں زندہ ہیں۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!