خوشیوں کا باغ کی ہیئت پر ایک نظر 

محمد نور الحق 

شعبۂ اردو بریلی کالج ،بریلی 

    

خوشیوں کا باغ اردو ناول کا ایک ایسا تجربہ ہے جسے سمجھنا تو دور پڑھ پانا بھی مشکل ہے۔حیرت و استعجاب تو اس کی خصوصیت ہے لیکن تکرار و تقریر دماغ کومائوف اور مفلوج کردیتے ہیں ۔اور شاید جدیدیت کی یہی سب سے بڑی خصوصیت ہے جس کا قلم کار نہ یہ سمجھا پاتا ہے کہ وہ کیا لکھ رہا ہے اور نہ قاری ہی سمجھ پاتا ہے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے۔ 

جوزف وارن بیچ(Joseph Warren Beach) نے صحیح لکھا ہے۔   ۱؎ 

“Instead of concentration around a limited issue, they show an accentrice tendency, a tendency to fly of in many different directions.” 

خوشیوں کے باغ میں جدید دنیا کا کوئی بھی ایسا موضوع نہیں جو نہ ملتا ہو خواہ وہ علامتوں اور استعاروں کی صورت میں ہو یا تلمیحو اور تشبیہوں کے پردے میں۔لیکن اس کو پڑھتے ہوئے احساس ضرور ہوتا ہے انسان زمینی خوشیوں کا باغ حاصل کرنے کے لئے کن کن منزلوں سے گزر سکتا ہے۔ تاہم وجودیت اور تجریدیت کے فلسفے میںا سے اتنا گنجلک کردیا ہے کہ سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں بچتا کہ ہم اسے جدیدیت کا شاہکار آنکھیں بند کرکے تسلیم کرلیں۔اس کی ہیئت پر غورکرنے سے قبل مصنف کے اس بیان کو بھی دیکھتے چلیں جو اس نے اپنے اس ناول کو سمجھنے کے لائق بنانے کے لئے دیے ہیں۔ 

ناول کی کہانی بقول مصنف استعاراتی ہے اور استعارہ بھی پندرھویں صدی کی وہ پینٹنگس ہیں جو ہائرا نیمس بوش  نے بتائی تھیں جن کا نام اس نے ’’خوشیوں کا باغ‘‘ (Garden of Delights)رکھا تھا۔ اس پینٹنگ کے تیسرے پینل کا نام ’’موسیقی کا جہنم‘‘ (Musical Hell) ہے اس پینٹنگ اور موسیقی سے کہانی کا کیا تعلق ہے خود مصنف کی زبانی سنئے۔ 

’’بوش میرے لئے کیا معنی رکھتا ہے؟ 

میرے ناول کا موسیقی کے جہنم کے ساتھ کیا رشتہ ہے؟ 

عمومی طور پر بوش سے ناواقف پڑھنے والا زیر نظر ناول میں بوش کی یا اس کی پینٹنگ کو محض ایک مفروضہ یا میرے تخیل کی ایجاد سمجھ کر ، اسے اس کی ظاہری سطح پر یا بہت مغز ماری کرے تو اس کی باطنی سطح پر بھی اس کا ادارک کرکے میری جان بخشی کرسکتا ہے۔ 

لیکن یہ مسائل کہ تیسرا پینل واقعاتی لحاظ سے ناول کے سیاق و سباق میں کس طرح جذب ہوا ہے؟ اس کی استعاراتی سطح کیا بنتی ہے؟ وسیع استعاراتی تناظر میں یہ استعارا کتنی وسعت اختیار کرسکا ہے؟ ناول کے مئے کی معروضی صورت حال کو (بعض حالتوں میں داخلی صورت حال کو بھی جس سے میں شعوری ، غیر شعوری طور پر دامن بچانے کی کوشش کرتا رہتا ہے)  پینٹنک کے حوالے سے کتنی کامیابی سے تھا یا گیا ہے ؟ پھر روایت ، زبان ، اسلوب اور ابلاغ کے مسائل اور ایسے ہی بے شمار مسئلوں کے مسائل صاحبانِ علم و ادب فہم و ادراک کے ذہن میں نلجان پیدا کرسکتے ہیں۔خود اپنی کڑی تنقیدی نگاہ کی شہرت کے بل پر پرکھ اور محاکمے کے حقدار سمجھ جاتے ہیں۔ ‘‘  ۲؎ 

اس چیلنج کے بعد مصنف اپنا ذاتی مسئلہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ  

’’ میرا مسئلہ بالکل ذاتی نوعیت کا ہے کہ بدلتی ہوئی حقیقتوں کے ادراک کی کوشش میں نئی صورت حال کے توسط سے نفسِ مضمون (زندگی کے بارے میں نقطہ نظر ) اور ہیئت کے درمیان جمالیاتی اعتبار سے وہ عمیق لیکن نازک جدلیاتی توازن کیسے قائم رکھا جائے کہ جس کا ایک پلڑا شمہ کے برابر بھی جھلک جائے تو فن کا سارا نظام دھرم بھرم ہوجاتا ہے میں اپنی کہانیوں میںاس مسئلہ سے نبردآزماں ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہ ناول بھی اس نبرد آزمائی سے مستشنیٰ نہیں ۔‘‘  ۳؎ 

مصنف کے اس دعوے کے ساتھ ساتھ بوش کی پینٹنگ کو بھی دیکھ لیں مصنف نے لکھا ہے کہ 

’’عصری سیاق و سباق میں بوش کی پر اسراریت اور عجیب الخلقتی کو سمجھنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔تصاویر بیحد سمبالک ہیں۔‘‘۴؎ 

تیسرے پینل کی خصوصیت پر غور کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ : 

’’ بوش اپنی عظیم فنیتسی تصاویر میں دنیا کو اپنے زاویۂ نظرسے دکھتاہے جس میں فطرت کا قدرتی نظام درہم برہم ہوچکا ہے اور اس کی جگہ سراسیمگی پھیلانے والے شیطانوں ، عفریتوں نے لی ہے۔ تباہی کی قوتیں کھلی چھٹی پڑی ہیں کہ جس طرف منھ اٹھتا ہے چل دیتی ہیں۔‘‘   ۵؎ 

بوش کی تصویر پر تبصرہ کرتے ہوئے مصنف جن نکات کو سامنے لاتا ہے ہم اس پر نظر ڈال لیں کیونکہ انہیں نکات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مصنف اپنا ناول لکھتا ہے۔ 

’’عام نقطۂ نظر یہ ہے کہ بوش کی تصاویر انسان کی جدوجہد اور تگ و دو کے باوجود انسانی مقدر کے بارے میں یاس اور نا امیدی کا درس دیتی ہیں۔۔۔۔میں سمجھتا ہوں کہ اس کی اذیت خیز ، ہجان انگیز، خوف زدہ کردینے والی صورت حال میں کہیں نہ کہیں ایک چہر ہ طلسماتی تباہ کاریوں کی مزاحمت کی نشاندہی کرتا ضرور نظر آجاتا ہے۔مکمل طور پرانسانی چہرہ مکمل انسان جو تباہی اور بربادی کی فضا میں مدافعت کی نشانی بن جاتا ہے اس ساری صورت حال میں پرسکون(یا متحیر) تشویش ، خوف، یاس، اذیت کی نفی ، امید کا امکان، جو شاید بوش کی پینٹنگ کے سارے سیاق و سباق کی کایا کلپ کردیتا ہے کہ یہ انسان کے تباہ کن مقدر کے بارے میں پیش گوئی کرنے کے بجائے اس امکان کے بارے میں خبردار کرتا ہے اور ہمیں (کم از کم مجھے) اس صورت حال کا سامنا کرنے ، اس کے مقابلے میں ڈٹ کر اس سے نمٹنے پر اکساتا ہے۔‘‘ ۶؎ 

مندرجہ بالا تمام تفصیلات ناول کی بنیاد کی بنیاد بوش کی پینٹنگ اور خود مصنف کے منشا و مقصد اور نقطہ نظر کو واضح کرتے ہیں لیکن ایک بارت اور ضمن میں کہنی ضروری ہے وہ بھی مصنف کی زبان میں ہی کیونکہ اس کا تعلق ناول سے بہت گہرا ہے ۔تیسرا پینل پر بحث کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے: 

’’تیسرا پینل۔۔۔۔ایک حقیقی جہنم جہاں انسان اپنی روح کو عارضی ، جسمانی ،جنسی لذتوں پر قربان کردینے کے باعث دائمی عذاب میں مبتلا ہے۔موسیقی جیسے عموماً اعصابی سکون اور راحت کا وسیلہ سمجھا جاتا ہے پچھتا وے کا عذاب بن جاتی ہے ایک مسلسل بے حد ڈراؤنہ خواب۔‘‘   ۷؎ 

مصنف نے اپنے منصوبے اور نظریے اور بوش کی تصویر کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ناول خوشیوں کا باغ کو سولہ چھوٹے چھوٹے حصوں میں منقسم کرکے پیش کیا ہے۔ پندرھواں حصہ قدرِ طویل ہے کیونکہ اس میں پچھلے تمام بکھرے ہوئے تفصیلات کو پھر سے ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس سے تکرار در تکرار کی صورت نقطہ عروج پر پہنچ کر مسخ ہونے لگتی ہے اور آخری حصہ میں ناچتے ناچتے دم توڑنے ہی کو ہوتی ہے کہ مصنف پہلو بدل کر گویا ہوتا ہے۔ 

’’میں خواب میں جاگتا ہوں یا جاگتے میں خواب دیکھتا ہوں، میری سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘  ۸؎ 

مصنف کی یہ صاف گوئی سارا سحر توڑ دیتی ہے اور قاری کتاب بند کرکے کچھ دیر کے لئے سوچتا ضرور ہے۔ 

اس ناول کی ہیئت میں مختلف تکنیکوں کا سہارا لیا گیا ہے کہیں سادہ بیانیہ ہے تو کہیں داستانوی راوی کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ مکالمہ اور مکالماتی انداز میں میں،تم، ہم اور وہ چاروں ملتے ہیں۔ میں کبھی مؤنث میں تو کبھی مذکر میں تبدیل ہوتا رہتا ہے اور کہیں کہیں خطوط کا بھی سہارا لیا گیا ہے۔ داخلی خود کلامی تو اس کی جان ہے ۔ 

چونکہ پلاٹ ندارد ہے اور محض (Theme) اور نقطۂ نظر کے سہارے ناول کو علامتی اور استعاراتی لبادہ اُوڑھایا گیا ہے۔اس لئے کوئی واضح پیٹرن بھی نہیں ابھر پاتا ۔اور جیسا کہ جوزف وارن بیچ نے لکھا ہے :۹؎ 

“Want of continuity, yes…but not of a sort of rhythm, a sence of movement, of wave lite progress. this rhythm constituted by repeatition by occurrence of themes by a kind of  lyrical agitation of the stream of  consciousness.”  

جدید ناول کی یہ خصوصیت خوشیوںکا باغ میں پندرھویں حصہ میں ضرور نظر آنے لگتی ہے لیکن تکرار کے باوجود Wave Like ارتقا نظر نہیںآتا ۔ 

خوشیوں کا باغ کی ابتداء تیسری دنیا (Third World) مصوری کی کوشش نظر آتی ہے اور اس مصوری کو گوشت کی تصویر کی تشبیہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے۔ سب سے پہلے گوشت کی تصویر کو کھولا جاتا ہے اور اس کا استعارہ اس طرح کیا جاتا ہے۔ 

’’دورِ افق پر اترتے دن کی لپٹیں آسمان سے امڈتی رات کو چاٹتی ہیں۔ گھروں کی کھڑکیاں دروازے بند ہیں آگ کی لپتیں چھتو ں سے اٹھتی معلوم ہوتی ہیں ۔‘‘  ۱۰؎ 

صبح کا یہ منظر ان گھروں کو سلاخوںکی صورت میںاپنے حصار میں لے لیتا ہے تو شام دھندلی شام شہر کو سناٹے میں ڈال دیتی ہے ۔اور ہر شے دم سادھے اس لمحے کا انتظار کرنے لگتی ہے جو قیامت کا لمحہ ہے۔اس منظر نامے کے بعد بوش کی تصویر کا ایک حصہ آتا ہے اور پھر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور پھر اس سلسلے کو توڑنے کے لئے یہ جملہ ملتا ہے ۔ 

’’ یوں تو نہیں کہ یہ کیفیت انتظار کی نہ ہو تحیر کی ہو۔‘‘  ۱۱؎ 

یہ استخامیہ انداز ناول میں ہر جگہ بکھرا پڑا ہے۔ کہیں کہیں استخام کی تشریح بھی ملتی ہے کہیں کہیں مصنف جس مسئلہ پر تقریر کرتا ہے اس کا حل بھی سامنے رکھتا ہے۔جس سے کہانی کہانی نہیں رہتی بلکہ ایک تبلیغ بنا جاتی ہے۔جیل کے ایک منظر کو پیش کرتے ہوئے مجرموں کی مختلف قسموں کو بھی گنایاجاتا ہے اور مجرم بنانے والوں کی گرفت کی جاتی ہے تو جرم کو اکھاڑنے کا یہ حل بھی نظر آتا ہے۔ 

’’ ہر قسم کے جرائم کو ختم کرنے کا صرف ایک طریقہ یہ ہے کہ بڑے کی بڑائی اور چھوٹے کی چھوٹائی بیک وقت ختم کردیا جائے۔ ‘‘ ۱۲؎ 

ناول میں علامتی انداز سب سے زیادہ ہے کہیں بجلی کا کھمبا ہے تو کہیں ٹرافک کی بتی اورکہیں ایسے الفاظ لائے جاتے ہیں جن کے مفہوم تو سمجھ میںآتے ہیں لیکن سیاق و سباق کی دوریاں ان تک پہنچنے نہیں دیتیں۔مثال کے طور پر چھٹا حصہ مصنف اس جملے سے شروع کرتا ہے۔ 

’’ٹریفک کو کسی بھی معاشرے کے مزاج کا آئینہ سمجھا جاسکتاہے۔‘‘  ۱۳؎  

فوراً بعد مکالماتی انداز میں یہ چار جملے ملتے ہیں ۔ 

’’ چاند کتنا خوبصورت ہے 

ہماری کمینگیوں ، بے وفائیوں سے روشن! 

تم بے وفا ہو؟  کمینے ہو؟ 

تم بے وفا ہو؟ کمینی ہو ؟ ‘‘   ۱۴؎ 

فوراًمونث واحد متکلم اپنی عمر بتاتے ہوئے کہ ’’ میں چودہ برس کی ہوں‘‘ اپنے احساسات و خیالات کا اظہار جنگ، تعصب، موت اور زندگی کے متعلق کرتی ہے پھر ایک جیل کا منظر آتا ہے جو بیانیہ انداز میں پوری آب و تاب کے ساتھ موجودہ جیل کی حالتوں کو بیان کرتاہے۔ 

اسی حصہ میں چاند کا طلوع ہونا دو علامتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔’’ چاند طلوع ہوتا ہے‘‘ تو ایک شخص خواب میں شیخ سنتا ہے ننگی خون میں گچ ران دیکھتا ہے۔ پھر چاندطلوع ہوتا ہے ایک شخص ایسی عورت کی جنسی بھوک مٹاتا ہے جو چار بچے جنے کے بعد بھی نہیں مٹ پائی تھی ۔اسی مناسبت سے پھر ایک زانیہ کو سنگ سار کرنے کے لئے پکڑ کر لایا جاتا اور جب ایک مجذوب اس شخص کو پتھر اٹھانے کے لئے کہتا ہے جس نے کوئی پاپ نہ کیا ہو تو زانیہ کے ساتھ مجذو ب بھی سنگ سار کردیا جاتا ہے۔تو کیا ٹرافک کی بتی چاند کے طلوع ہونے کا اشاریہ ہے ؟ ۔۔۔چودہ برس والی لڑکی بالکل آخر میںسترہ برس کی ہوکر نظر آتی ہے’’ میں‘‘ کو خط لکھتی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ’میں ‘کی بھانجی ہے اور وہ علامہ اقبال کے حوالے سے اپنے ماموں سے سوالات کرتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ پاکستان میں کمیونزم سے ڈری سہمی ہوئی ہے۔ 

پورے ناول میں دو چھوٹی چھوٹی کہانیاں ابھرتی ہیں ۔ایک خود ’میں‘کی اور دوسرے اس کی معشوقہ کی ۔میں کے تعلق سے ’میں ‘کی تعلیمی حیثیت والدین، بیوی بچے، نوکری کے ساتھ اس کے ارمانوں کی وابستگی اور نوکری چھوٹنے کے بعد ان کی حالت لیکن نوکری چھوٹنے کی معقول وجہ سمجھ میں نہں آتی۔اسی طرح اس کی معشوقہ کی پچھلی زندگی میں صرف اس کا جنسی جذبہ ہی نظر آتا ہے جس میں عملی طور پر تو اس کی شمولیت ہوتی تھی لیکن واردات سے نابلو تھی۔’میں‘ سے دوستی کے بعد اس کے جذباتی واردات جنم لیتے ہیں۔ اور وہ اپنے شوہر کو پانچ ہزار روپے ادا کرکے طلاق لے لیتی ہے اور ’میں‘ کے ساتھ اس کی شادی شدہ زندگی میں مخل ہوئے بغیر اپنے کو ’میں‘ کی تکمیل کا لازمی جز سمجھتی ہے۔ ان کے علاوہ کہانی میں جو کچھ ہے وہ بوش کی تصویر ہے اور اس کی مناسبت سے خوشیوں کا باغ زمینی دنیا کی سیاسی، سماجی ، تہذیبی، ثقافتی، مذہبی تصویریں پیش کرتا ہے اور ان پر مصنف کا ردِ عمل کہیں تصویروں میںظاہرہوجاتا ہے تو کہیں الگ سے تقریریں ہوتی ہیں کہیں استعارے اور تشبیہں لائی جاتی ہیں۔عتیق اللہ نے خوشیوں کا باغ کی ایڈیم پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے۔ 

’’ ایک چیز جو ہر مقام ہر جگہ ایک بڑی قوت بن گئی ہے وہ ہے انور سجاد کی اپنے ایڈیم پر مضبوط گرفت۔انور سجاد کی تخلیق شدت اورتنائو سے معمورہو،اس کی زبان کا تنائو ناول کی مصنوعی حرکت میںتندی اور شدت پیدا کرتا ہے ورنہ محض ایک معروضی تلازمے کی بنیاد پر سو ڈیڑ سو صفحے کا ناول رقم کردینا کارے دارد ہے ۔‘‘    ۱۵؎ 

ڈاکٹر قمر رئیس نے خوشیوں کے باغ سے متعلق بالکل صحیح کہا ہے کہ  

ـ’’ انور سجاد نے اپنے ناول خوشیوں کا باغ ۔۔۔میںبیانیہ روایت سے انحراف کرکے ناول کو شاعری اورمصوری کے عناصر سے قریب لانے کی سعی کی ہے ۔۔۔۔زمان و مکان اور قصہ کی شکست و ریخت ان کے افسانوں کی طرح ان کے ناولوں میںبھی دیکھی جاسکتی ہے۔۔۔۔لیکن افسوس کہ نہایت پیچیدہ اور تجرباتی تکنیک اپنا کروہ اس منصب میں کامیاب نہیںہوتے اور ایک عام قاری تو کجا ایک گریجویٹ قاری بھی صرف جزوی طور پر ان کے ناولوں کو سمجھ پاتا ہے۔اوراکثر مرعوب ہوکر رہ جاتاہے۔ ‘‘   ۱۶؎ 

ظاہر ہے خوشیوں کا باغ ایک تجربانی ناول ہے جو ہمارے مزاج سے ہم آہنگی نہیںرکھتا قاری کی مرعوبیت اس کی مقبولیت کو بھی مشکوک کرتی دکھائی دیتی ہے۔حالانکہ مصنف نے کوئی ایسا واقعہ پیش نہیںکیا ہے جو ہمارے لئے نیا ہولیکن بوش کی تصویر اور پیکش کا انداز بہت زیادہ ایہام پیداکردیتے ہیں 

  

حواشی 

۱ Page No.335 The twentieth centuary novel 

۲۔ ص ۱۳ ،خوشیوں کا باغ ۳۔ ص ۱۴ ایضاً 

۴۔ ص ۱۱ ایضاً ۵۔        ایضاً 

۶۔ ص ۱۲ ایضاً ۷۔ ص ۱۳ ایضاً 

۸۔ ص ۱۲۶ ایضاً 

۹۔ Page No.335 The twentieth centuary novel 

۱۰۔ ص ۱۷، خوشیوں کا باغ 

۱۱۔ ص ۱۸، ایضاً 

۱۲۔ ص ۲۲، ایضاً 

۱۳۔ ص ۳۳، ایضاً 

۱۴۔     ایضاً 

۱۵۔ ص ۳۷۱، فکشن کی تنقید 

٭٭٭٭ 

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.