پروفیسر شاہ مقبول احمد کا تحقیقی و تنقیدی اختصاص 

ڈاکٹر شفیع الرحمٰن  

شعبۂ اردو، مٹیا برج کالج۔کولکاتا 

Mobile No.9831245920 

Prof. Shah Maqbool Ahmad ka Tahqeeqi wa Tanqeedi Ikhtesas by Dr.Shafiur Rahman) 

یہ بات مجھے اکثر و بیشتر پریشان کرتی رہتی ہے کہ کیا تنقید نگار ہمارے دور میں وہ کام کررہے ہیں جو حقیقی معنوں میں تنقید کا حقیقی منصب ہے اور اگر ایسا نہیں کرتے تو انہیں کیا کرنا چاہئے؟ کیا تنقید ادب و فکر کے لئے ضروری ہے اور اگر نہیں تو پھر تنقید کی کیا ضرورت ہے۔ کیا بیکار و بے اثر چیز کو نکا پھینکنا ہی تنقید کا کام ہے۔ لیکن تجزیئے اور غور و فکر کے بعد میں اس نیتجے پر پہنچا ہوں کہ تنقید فکر و ادب کے لئے اتنی ہی ضروری ہے جتنی آنکھ انسانی زندگی کے لئے، تنقید اچھے اور برے سہی اور غلط کو واضح کرتی ہے تخلیق کو جہت دیتی ہے اور فکر کو بنیادیں فراہم کرتی ہے۔ شاہ مقبول احمد کے تنقیدی کارناموں کا جائزہ لینے سے بات واضح ہوتی ہے کہ انہوں نے تنقید کو تنقید ہی کی طرح برتا ہے یعنی انہوں نے جس موضوع پر قلم اٹھایا نہایت ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ اسے منصۂ شہود پر پہونچایا۔ میںاپنی علم کی بنیاد پر یہ بات شاہ مقبول صاحب کے تئیں کہنا مناسب سمجھتا ہوں کہ انہوں نے تنقید ی کام میں کہیں بھی کسی کی جانبداری کرتے ہوئے نظر نہیں آتے، غیر جانب دار ہوکر کے کام کرنا ہی تنقید کی اصل بنیاد ہے۔ 

پروفیسر شاہ مقبول احمد مستند اور بلند پایہ ادیب و نقاد ہیں۔ انہوں نے فنِ تنقید نگاری کا گہرائی اور گیرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ تنقید کے لئے جس ذہانت، وسعت نظری اور وسیع مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں بدرجہ احسن موجود ہیں۔ مقبول صاحب نے کم لکھا لیکن مستند۔ چونکہ تنقید بھی ادب کی ایک صنف ہے جو اپنا مواد جذبہ زندگی سے لیتی ہے۔ اس لئے اپنے رنگ میں وہ بھی تخلیق ہے۔ ایسا ہی نابغۂ روزگار ناقد اس مقالے کا موضوع بحث ہے۔ 

شاہ مقبول احمد کی کتاب ’’چند ادبی مسائل‘‘ ۱۹۶۴ء، ’’تصریحات و اشارات‘‘ ۱۹۸۶ء، میں منظر عام پر آئیں۔ دراصل یہ کتابیں ان کے مقالات کے مجموعے ہیں جو مختلف اوقات میں مختلف جرائد و رسائل میں شائع ہوئے تھے۔ ان کتابوں میں مختلف النوع اقسام کے مضامین ہیں لیکن ان میں چند ایسے مضامین بھی ہیں جن سے مقبول صاحب کی تنقیدی بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ ’’کلکتہ کے ادیب و شاعر‘‘ ، ’’جمیل مظہری کے بعض افکار‘‘، ’’میر تقی میرؔ کی شاعری کے بعض پہلو‘‘، ’’حسرت کی شاعری کے محرکات‘‘، ’’افکار اقبال- اپنی اولین منزل میں ‘‘، ’’اختر اورینوی کی افسانہ نگاری کے بعض پہلو‘‘، ’’اردو ناول میں مصنف کا اظہارِ شخصیت‘‘ ایسے مقالے ہیں جو ان کی نکتہ رسی اور وسعت نظر پر دال ہیں۔ 

’’حسرت کی شاعری کے محرکات‘‘ کے عنوان سے اپنے مقالہ حسرتؔ موہانی کے ذوقِ شعر گوئی پر مفصل و مدلل بحث کی ہے اور ساتھ ہی ان عوامل و واقعات کا جائزہ بھی پیش کیا ہے جو وقتاً فوقتاً حسرت کی شاعری میں بالواسطہ یا بلا واسطہ اثر پذیر رہے ہیں۔ در اصل اصطلاح شعر میں جس شئے کا نام عمل ہے وہ اصل میں کسی عمل کا مخالف ردعمل ہوتا ہے۔ ایسے ہی عمل اور رد عمل کی آمیزش اور جھلک حسرت کی شاعری میں دیکھی جاسکتی ہے۔ 

’’کسی شاعر کے عمل شعر و سخن کا جائزہ لیتے وقت اس محرکات کو ملحوظ خاطررکھنا ضروری ہے جن کے ردعمل ہی کا دوسرا نام اس کی شاعری ہے۔ شاعری اسی وقت ایک ابدی صداقت، حقیقت کا روپ بھرتی ہے جب محرکات اور عمل شعر میں درجۂ کمال کی ہم آہنگی کارفرماہوتی ہے۔ ایسی صورت میں ایک شاعر کے حق میں اس کا قال اس کے عین حال کہلانے کے منصب پر فائز ہوجاتا ہے۔‘‘ 

(تصریحات و اشارات، حسرت کی شاعری کے محرکات، ص: ۳۷) 

حسرت موہانی کی ابتداً حسن و عشق کی باتیں اپنی غزلوں میں نظم کرتے تھے لیکن ایم۔ اے۔ او کالج کی فضا نے جلد ہی حسرتؔ کی طبعی میلان سیاست کی جانب منتقل کردیا اور جہاں کہیں اپنے اشعار میں سیاسی افکار پیش کرنے کی کوشش کی ہے وہاں جذبات کی شدت، عزم محکم اور ان کی حب الوطنی پر ایک دیر پا تاثر چھوڑ جاتی ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہندوستان کی سیاسی فضا میں انتشار دیکھا۔ تنظیموں کو توٹتے بکھرتے دیکھا، نئی نئی تحریکوں کو منصۂ شہود پر جلوہ کرتے دیکھا مثلاً سودیشی تحریک، تحریک خلافت، کمیونزم، بالآخر تحریک آزادی ۔ ان سب نے حسرتؔ کے دل و دماغ پر گہرے نقوش چھوڑے جن کا پرتو ان کے اشعار میں دکھائی دیتا ہے۔ 

’’افکار اقبال اپنی اولین منزل میں‘‘ مقالے میں مقبول صاحب نے علامہ اقبال صاحب کے ابتدائی دور کی شاعری پر ناقدانہ بحث کو موضوع تحریر بنایا ہے۔ ۱۹۰۱ء تا ۱۹۰۵ء تک کا زمانہ عام طور پر اقبال کی شاعری کا دورِ اول تصور کیا جاتاہے۔ اس دور میں ان پر فلسفیانہ خیالات غالب تھے اور ان خیالات کی بنا پر وہ دین و ملت کی قید سے بے نیاز ہندو مسلم اتحاد و جذبہ وطنیت پر نہایت پرجوش اور پردردنظمیں لکھیں۔ انسان اور بزمِ قدرت، عقل و دل، ایک پرندہ اور ایک جگنو، ہمالیہ، گنگا، رام، نیا شوالہ، کنار راوی، رشی منی، ترانۂ ہندی، ہندوستانی بچوں کا قومی گیت اسی دور کی دین ہیں۔ ان نظموںپر مقبول صاحب نے اپنے رائے اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 

’’اہلِ نقد و نظر کے نزدیک ایک ایسا تار ہے جو آشنائے مضراب ہے اور وہ ایک ایسی منحنی و نحیف سی آواز ہے جو اثر و تاثیر سے محروم اور سوزِ دروں کی دولت کی فریاد کناں ہے۔‘‘ 

(تصریحات و اشارات، افکار اقبال اپنی اولین منزل میں، ص: ۳۷) 

اقبالؔ کی پیدائش کا سن ۱۸۷۷ء ہے۔ یہ وہ دورِ ابتلا تھا جب انگریز ہندوستانیوں میں دو قومی نظریئے کے فروغ دینے میں بڑی تگ و دو کررہے تھے۔ یہ اسی جدوجہد کا نتیجہ تھی کہ ہندو اور مسلمان نے اپنی احیا ء کے لئے الگ الگ کھڑے ہونے پر مجبور کردیئے گئے۔۱۸۷۵ء میں آریہ سماج اور تھیو سوئیکل سوسائٹی کا قیام عمل میں آیا جس سے ہندو مذہب کے ایوان قدیم میں نئے قمقمے روشن ہوئے۔ ان حالات سے متاثر ہوکر ۱۸۷۵ء میں مدرسہ علی گڑھ ، ۱۸۷۶ء میں جامعہ دیوبند اور ۱۸۹۶ء میں دارالعلوم ندوۃ العلما کا قیام مسلمانوں میں انقلاب کا پیش خیمہ بنی تو ساتھ ہی ساتھ افکار و خیالات میں تضاد و تصادم کا نتیجہ بھی بنی۔ ان ہی حالات میں اقبالؔ ۱۹۰۱ء میں بحیثیت شاعر جلوہ فگن ہوئے۔ انہوں نے اپنی نظموں میں ہندو مسلم اتحاد کو اپنا موضوع بنایا۔ ساتھ ہی حب الوطنی کو اپنا نصب العین۔ افسوس کہ ان کا ذہنی رجحان قیام انگلستان کے دوران ایک نئی کروٹ لی۔ وطنیت کا غلبہ کم ہوا اور اسلامیت کی نئی راگ چھیڑی۔ اقبالؔ کے متعلق اپنی آراء بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 

’’اقبال کی اس فکری زندگی کی عمر (۱۹۰۱ء تا ۱۹۰۵ء) افسوسناک حد تک مختصر تھی۔ اگر اس کی مدت و میعاد میں مزید کچھ اضافہ ہوجاتا تو ایک نقطۂ نظر اور نیا انداز فکر جو اقبال کی دنیائے افکار میں جنم لے رہا تھا اس کی مناسب نشوونما ہوتی اور وہ جو ابھی نازک سی شاخ نظر آتی ہے بالیدہ و بلندو بالا ہوکر شجر سایہ دار میں تبدیل ہوجاتی۔‘‘ 

(تصریحات و اشارات، افکار اقبال اپنی اولین منزل میں، ص: ۱۲۴) 

’’تصریحات و اشارات‘‘ میں شامل مضمون ’’ڈاکٹر اختراورینوی کی افسانہ نگاری کے بعض پہلو‘‘ میں مقبول صاحب نے اختر اورینوی کی افسانہ نگاری کا تنقیدی زاویہ پیش کرتے ہوئے ان کے افسانوں کے حوالے سے بحث کی ہے۔ اختر اورینوی صاحب صوبۂ بہار کے نمائندہ افسانہ نگار ہیں۔ انہوںنے اپنے افسانوں میں بہاری معاشرہ، تہذیب و روایت کو خاص موضوع بنایا ہے۔ کرداروں کا انتخاب بھی شہر کا نہیں بلکہ گاؤںکی مٹی میں پیدا ہونے والے غریب انسان ہیں۔ اختر صاحب کے افسانے اہلِ بہار کی سچی تصویر کو پیش کرتی ہے۔ ان کا قلم کسی طبقۂ خاص کی مدحت یا ہجو کرتا نظر نہیں آتا بلکہ ان کی ہمدردیاں سب کے لئے عام ہیں۔ ان کے افسانوں کا کردار عام انسان ہے جو خوبیوں اور خامیوں پر مشتمل گوشت پوشت کا انسان ہے۔ کسی بھی کردار سے خیالی یا فرضی انسان کا گمان نہیں گزرتا ہے۔ وہ اپنے افسانوی کردار کے مسائل پر تفصیلی گفتگو بھی کرتے ہیں اور مسائل کا حل بھی تلاشتے نظر آتے ہیں۔  

بقول مقبول صاحب: 

’’اختر کے افسانوں کے مطالعے کے بعدایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس معاشرے کی کوکھ نے اختر جیسے فنکار کو جنم دیا تھا، اسی سماج کی بکھری ہوئی اچھی یا بری حقیقتوں کو اختر صاحب نے افسانوں کا روپ دے دیا ہے اور اس طرح بالفاظ دیگر اپنے ماحول و معاشرے سے جو کچھ ملا تھا اسی کو اختر نے اپنے فن کے ذریعہ خوبصورت اور نادر تحائف کی شکل میں شکریہ کے ساتھ واپس کیا اور جو ہم سب کے لئے افتحار کا باعث ہے۔‘‘ 

(اختراورینوی کی افسانہ نگاری کے چند پہلو، تصریحات و اشارات، ص: ۶۱) 

’’اردو ناول میں مصنف کا اظہار شخصیت‘‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں مقبول صاحب نے فن ناول نگاری کے بعض اہم پہلوؤں پر بے لاگ تبصرہ کیا ہے۔ اردو کے اولین ناول نگاروں کی نگارشات کا ناقدانہ جائزہ پیش کیا ہے اور ساتھ ہی وہ اس دور کے مروجہ اصولوں اور طرز تحریروں پر اپنی رائے مدلل انداز میں پیش کی ہے۔ 

اس مختصر مقالے میں چند تنقیدات کو بطور نمونہ پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے جس کا لب و لباب شاہ مقبول احمد کی تنقید ی بصیرت کو قاری کے روبرو پیش کرنا ہے۔ مقبول صورت میں منظر عام پر آکر داد و تحسین حاصل کرچکے ہیں۔ آپ نے اکثر و بیشتر مقدمات بھی لکھے ہیں جن کو اپنی جگہ پر خود ایک مستقل مضمون کی حیثیت حاصل ہے۔ مقدمات میں بھی آپ کے الفاظ و زبان، نرمی اور روانی کے لحاظ سے دلکشی اور دلچسپی کا سرمایہ ہیں۔ ساتھ ہی ادب کے راز پارینہ بھی کھولتے نظر آتے ہیں۔ جابجاکتابوں پر لکھے گئے تبصروں پر بھی ناقدانہ رنگ کا انداز غالب ہے۔ صحیح و سادہ نثر لکھنا مقبول صاحب کی انفرادیت ہے جو باوجود اپنی سادگی کے نہ تو بے کیف ہوتی ہے اور نہ خشک بلکہ ایک خاص روانی و سلاست پیدا کرتی ہے۔ اول تا آخر آپ کا طرزِ نگارش یکساں و ہموار ہے۔ باوجود ثقیل اور وزنی مسائل پر گفتگو کرنے کے پڑھنے والوں کی دلچسپی کا سامان متواتر فراہم کرتی ہے۔ یہ تمام اوصاف ایک اچھے تنقید نگار کے لئے اشد ضروری ہے۔ 

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.