ساحرؔ کی حیات اور ان کی نظم نگاری کا اجمالی جائزہ 

ڈاکٹر زرینہ زریں 

شعبۂ اردو کلکتہ یونیورسٹی، کولکتا 

(Sahir ki Hayat aur un ki Nazm Nigari ka Ijmali Jayeza by Dr.Zarina Zarren) 

اس چمن میں ہوں گے پیدا بلبلِ شیراز بھی 

سیکڑوں ساحر بھی ہوں گے صاحبِ اعجاز بھی 

اس شعر نے عبد الحئی کو ساحرؔ بنادیا۔ سوال اٹھتا ہے یہ کیسے؟ تو جواب یہ ہے کہ ابتدائے شاعری میں ساحرؔ کو ایک دلکش تخلص کی جستجو لگی تھی۔ مطالعہ کے شوقین تھے۔ اسی دوران ان کی نظر سے وہ مرثیہ گزرا جسے علامہ اقبالؔ نے داغؔ کی یاد میں تحریر کیاتھا۔ مذکورہ شعر پر ان کی نگاہ آخر کار ٹھہر گئی اور اس شعر کا ایک لفظ دلنشیں ہوگیا۔ اس لفظ ساحر کا سحر ان پر ایسا طاری ہوا کہ انہوں نے اسے اپنا تخلص بنالیا اور عبدالحئی، ساحرؔ لدھیانوی ہوگئے۔ 

ساحرؔ کی پیدائش دریائے ستلج سے گیارہ کیلو میڑ کی دوری پر آباد شہر لدھیانہ (پنجاب) میں ۸؍ مارچ ۱۹۲۱ء کو ایک جاگیر دار گھرانے میں ہوئی۔ چودھری فضل محمد جاگیر دار کو اپنی گیارہویں اور سب سے چھوٹی بیوی سردار بیگم سے پہلی اولاد نرینہ ہوئی۔ یہ خوشی انتہا سے زیادہ تھی۔ زبردست جشن کا اہتمام ہوا اور پورے ضلع میں دھوم مچ گئی۔ والدین نے اپنی اولاد نرینہ کا نام عبدالحئی رکھ دیا۔ انہیں کیا خبر تھی کہ عبدالحئی ہی وہ ساحرؔ ہوگا جو آنے والے وقت میں دلوں کو مسحور کرلے گا۔ 

ساحرؔ کے آبا و اجداد گوجر قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے دادا فتح محمد لدھیانہ کے نامور امیر ترین جاگیردار تھے۔ ساحرؔ کی والدہ سردار بیگم کشمیری تھیں۔ ان کے دو بڑے بھائی محمد شفیع اور عبد الرشید اور بڑی بہن شاہ بیگم تھیں۔ سردار بیگم سب سے چھوٹی تھیں۔ ان کے  والد عبدالعزیز ایک بڑے ٹھیکے دار تھے۔ 

تاریخ گواہ ہے کہ لودھی خاندان کے شہنشاہوں نے دریائے ستلج کے کنارے جس شہر کو آباد کیا تھا اور اسے صنعتی اور تجارتی مرکز بنایاتھا وہ شہر ہے لودھیانہ۔ جو زبان زدِ خاص و عام ہوتے ہوئے لدھیانہ کہلایا۔ بادشاہت ختم ہوتے ہوتے جاگیردارانہ نظام نے ہندوستان کے دوسرے علاقوں کی طرح اس علاقہ کو بھی اپنی آغوش میں لے لیا۔ جب انگریزی سامراجیت پورے ہندوستان کو اپنے قبضے میں کر رہی تھی تو یہ فرسودہ جاگیردارانہ نظام بھی زوال کی طرف آمادہ تھا۔ ایک طرف صنعتی نظام کی نمود پروان چڑھ رہی تھی تو دوسری طرف یہ زوال یافتہ جاگیر دار، انگریزوں کے فرمانبردار اور وفادار نظر آنے لگے تھے۔ یہ زمیندار جو کبھی بڑی بڑی جاگیر کے مالک ہوا کرتے تھے اپنی شان و شوکت کھو رہے تھے۔ ان کے لالچ نے انہیں انگریزوں کے قریب اور غیریب ہندوستانیوں کا مجرم بنادیاتھا۔ ایک طرف یہ زمیندار تھے جو کسانوں اور مزدوروں کا خون چوس چوس کر اپنے عیش و عشرت کا سامان مہیا کرتے تھے تو دوسری طرف وہ کسان تھے جن کی زمین چھین لی گئی تھی۔ جنہیں بھوک و افلاس نے تھپکیاں دے کر نیند سے سمجھوتہ کرنے کا ہنر سکھا دیا تھا۔ جب کل کارخانے قائم ہونے لگے اور صنعتیں قدم جمانے لگیں تو افلاس کے مارے کسانوں کی وہ اولادیں جنہیں کبھی بھر پیٹ روٹی بھی میسر نہیں ہوتی تھی، انہوں نے کارخانوں میں کام کرنا شروع کردیاکہ شاید اب بھوکے پیٹ نہ سونا پڑے اور اس طرح سے مزدور طبقے کا جنم ہوا، سماج کا یہ نیا طبقہ بھی اسحتصال کا شکا ر تھا۔ ان زمینداروں اور کسانوں، مزدوروں سے الگ ایک اور طبقہ بھی تھا جو اس دور کا متوسط طبقہ تھا۔ اس طبقہ کی نئی نسل نے انگریزی تعلیم حاصل کرکے سماجی اور سیاسی اعتبار سے ایک نیا شعور حاصل کرلیا تھا اور ساحرؔ کا تعلق ایسے ہی باشعور نوجوان طبقے سے تھا۔ 

ساحرؔ کے والد کا مزاج جاگیردارانہ تھا۔ وہ ان تمام عادات و خیالات کے حامل تھے جو اس نظام کا خاصا رہا ہے۔ وہ بھی عیش و عشرت میں مشغول رہتے تھے۔ کسانوں اور رعیتوں پر ظلم کرنا ان کی صفت تھی۔ جب دادِ عیش دینے کے لئے زمینداری کی آمدنی کم پڑنے لگی تو انہوں نے اپنے اجداد کی جائیداد کو فروخت کرنا شروع کردیا۔ چونکہ ساحرؔ کی والدہ سردار بیگم الگ ماحول کی پروردہ تھیں، یہ سب کچھ برداشت کرنے سے قاصر رہیں اور حالات سے مطابقت پیدا نہیں کرسکیں۔ شوہر کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن جاگیردارانہ مزاج اور عیش و عشرت کی زندگی آڑے آگئی۔ آخر کار ساحرؔ کی والدہ نے تنگ آکر اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کرلی اور اپنے بھائی کے ساتھ رہنے لگیں۔ جب والدین میں ترکِ تعلق ہوا اس وقت ساحرؔ کی عمر صرف چھ سال تھی۔ ساحرؔ کے والد موروثی جائیداد کا ایک بڑا حصہ فروخت کرچکے تھے۔ یہ سلسلہ اپنے انداز کے ساتھ جاری تھا کہ ساحرؔ کی والدہ نے ان پر مقدمہ کردیا۔ چونکہ قانونی طور پر کوئی بھی جاگیردار موروثی جائیداد کی آمدنی کا مالک تو تھا لیکن جائیداد فروخت کرنے کا مستحق نہیں تھا۔ اس لئے ساحرؔ کی والدہ نے عدالت میں درخواست دی کہ انہیں جائیداد فروخت کرنے سے روکا جائے اور غیر قانونی طور پر فروخت کی گئی زمین واپس لی جائے۔ بد قسمتی سے یہ مقدمہ عدالت میں اٹھارہ سال تک چلتا رہا۔ ساحرؔ کی والدہ کو رفتہ رفتہ تمام زیورات اور دیگر اثاثہ فروخت کرنا پڑا۔ لیکن انہوں نے امید کا دامن نہیں چھوڑا اور ہمت کرکے مقدمہ لڑتی رہیں۔ ساحرؔ اس وقت پانچویں جماعت کے طالب علم تھے۔ ساحرؔ کے والد نے اپنے بیٹے کو اپنے پاس رکھنے کی بہت کوشش کی تاکہ ساحرؔ کی والدہ جو ولی کی حیثیت سے یہ مقدمہ لڑرہی تھیں، ولی عہد (ساحرؔ) کے والد کے پاس چلے جانے پر بے دست و پا ہوجائیں۔ چنانچہ انہوں نے عدالت سے گزارش کی کہ ان کے بیٹے کو ان کے حوالے کردیا جائے لیکن ساحرؔ نے ماں کے ساتھ کی خواہش ظاہر کی۔ جب ساحرؔ کی آئندہ تعلیم کے متعلق ان کے والد سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ’’پڑھائے وہ اولاد کو جسے نوکری کروانا ہے۔ اللہ کا دیا بہت کچھ ہے وہ بیٹھ کر کھائے گا۔‘‘ ان کے اس بیان کا جج پر ایسا اثر ہوا کہ جج نے بیٹے کو ماں کے سپرد کر نے کا فیصلہ سنایا تاکہ بچہ جاہل نہ رہ جائے بلکہ ماں کی سر پرستی میں رہ کر تعلیم حاصل کرے۔ان کی ماں نے انہیں اردو اور فارسی کی تعلیم مولانا فیض ہریانوی سے دلوائی۔ ساحرؔ پڑھنے میں بہت تیز اور محنتی بھی تھے۔ مولاناکی صحبت نے انہیں اردو اور فارسی میں زبان دانی عطا کی اور شعر و ادب سے بھی شغف پیدا ہوگیا۔ رفتہ رفتہ طبیعت شعر و شاعری کی طرف ایسی مائل ہوئی کہ خود شعر کہنے لگے (جیسا کہ میں نے شروعات میں ذکر کیا) اور تخلص ساحرؔ رکھا۔ 

مالوہ خالصہ ہائی اسکول، لدھیانہ سے انٹرنس پاس کرنے کے بعد ساحرؔ نے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔ اگرچہ ان کے مضامین فلسفہ اور فارسی تھے لیکن انہیں علم معاشیات اور علم سیاسیات سے دلچسپی تھی۔ اپنی دلچسپی کے تحت ان علوم کی کتابوں کا مطالعہ کرتے رہے۔ دورانِ تعلیم ان کا رابطہ کمیونسٹ پارٹی کے زیر اثر قائم کردہ ایک تنظیم ’’آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ کے کارکنان سے ہوا اور ساحرؔ ان کے ساتھ سرگرم عمل ہوگئے۔ وہ مزدوروں کی حمایت میںاکثر تقریریں کرنے لگے۔ سیاسی جلسوں میں شریک ہونے لگے۔ اکثر ان اجتماعوں اور جلسوں میں اپنی سیاسی نظمیں بھی سنایا کرتے تھے۔ یہ نظمیں مزدوروں کی حمایت میں اور ظالموں اور جنگ و تشدد کے خلاف ہوا کرتی تھیں۔ جب ساحرؔ رات دیر سے گھر لوٹتے تو ان کی والدہ تشویش میں رہتی لیکن جلسوں میں جاکر ساحرؔ کی تقریر سنی اور لوگوں سے ان کی حمایت میں نعرے لگاتے پایا تو یہ تشویش، خوشی میں بدل گئی۔ لیکن ان کے والد کو اس بات کا ملال تھا کہ باپ جس نظام کا پروردہ و حامی ہے بیٹا اسی نظام کے خلاف ہے اس لئے وہ ساحرؔ سے خفا تھے۔ لیکن جب ایک بار ڈپٹی کلکٹر نے ان کے سامنے ساحرؔ کی تعریف کی تو وہ بہت خوش ہوگئے اور فخر کرنے لگے کہ ان کا بیٹا بڑا شاعر بن گیا ہے اور وہ ڈپٹی کلکٹر کے گھر بھی جاتا ہے۔ ایک طرف ان کے والد انگریزی حکام کے وفادار تھے تو دوسری طرف ساحرؔ اپنی سیاسی سرگرمیوں کے باعث انگریزوں کی نگاہ میں آگئے تھے۔ چنانچہ ان کی بعض نظمیں ضبط کرلی گئیں۔ مجبوراً ساحرؔ کو لدھیانہ چھوڑ کر لاہور منتقل ہونا پڑا۔ بی۔ اے کی تعلیم نامکمل تھی۔ لاہور آکر دیال سنگھ کالج میں داخلہ لیا۔ اسی روران ’’اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ کے صدر منتخب کئے گئے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اربابِ اقتدار نے بے۔ اے کے امتحان میں بیٹھنے نہیں دیا۔ کالج چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ اس طرح ساحرؔ کی تعلیم کا ایک سال برباد ہوگیا۔ دوسرے سال انہوں نے اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا۔ لیکن تعلیم پوری نہ کرسکے۔ چنانچہ ساحرؔ بددل ہوکر تعلیمی زندگی کو خیر باد کہہ دیا۔ یہی وہ زمانہ ہے جب ساحر نے رسالہ ’’ادب لطیف‘‘کے ادارے کو اپنی خدمات پیش کردیں۔ ’’ادب لطیف‘‘ کے اداریوں، تبصروں اور مضامین میں ساحرؔ کے ترقی پسند نظریات نے اپنا جلوہ دکھایا اور ان کا شمار ترقی پسند تحریک کے رہنما ناقدین میں ہونے لگا۔ اس سے قبل طالب علمی کے زمانے میں ہی ان کا پہلا مجموعۂ کلام ’’تلخیاں‘‘ منظرِ عام پر آچکا تھا اور وہ ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر کے طور پر مشہور ہوچکے تھے۔ ’’ادب لطیف‘‘ کے علاوہ بعض ترقی پسند رسائل سے بھی ساحرؔ وابستہ رہے اور نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی۔ رسالہ ’’شاہکار‘‘ اور ’’سویرا‘‘ کی بھی ادارت کی۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء میں اردو کے ترقی پسند مصنفین کی کل ہند کانفرنس کا انعقاد حیدرآباد میں کیا گیا۔ ساحرؔ کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ انہیں بھی منتظمین نے مقالہ پڑھنے کے لئے مدعو کیا۔ اس زمانے میں ساحرؔ کی عمر تئیس یا چوبیس سال کی تھی۔ جب ساحرؔ کانفرنس میں پہنچے تو اس نوجوان کو دیکھ کر منتظمین اور منسلکین حیرت میں پڑگئے کیونکہ ان کی تحریر سے غائبانہ طور پر ایک پختہ عمر ادیب و شاعر کا خاکہ تیار ہوچکا تھا۔ مقرروں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے سبھوں کو مقالہ کو مختصر کرکے پڑھنے کے لئے کہا گیا۔ ساحرؔ کو یہ بات پسند نہیں آئی اور انہوں نے کہا کہ میں نے بڑی مشقت سے یہ مقالہ تحریر کیا ہے۔ جب ساحرؔ نے مقالہ پڑھنا شروع کیا تو لوگ دلچسپی سے سننے لگے۔ مقالہ بہت پسند کیا گیا۔ جب ساحرؔ نے مقالہ ختم کیا تو سجاد ظہیر نے گلے لگالیا۔ کرشن چند، مجازؔ اور علی سردار جعفری نے بھی مبارکباد پیش کی اور انہیں اپنے ساتھ بمبئی (موجودہ ممبئی) لے آئے۔ بمبئی میں چند روز گزارنے کے بعد ساحرؔ پھر پنجاب چلے گئے۔ 

اب تو ’’ادب لطیف‘‘ کی ملازمت بھی جاچکی تھی۔ ساحرؔ نوکری کی تلاش میں لگ گئے۔ اتفاق سے اسی دوران ساحرؔ کے ایک دوست نے ہندوستان کی تحریکِ آزادی پر ایک فلم بنانے کا ارادہ کیا۔ فلم کا نام ’’آزادی کے نام پر‘‘ رکھا اور ساحرؔ سے اس فلم کے لئے چند نغمے لکھنے کو کہا۔ اب ایک بار ساحرؔ ان کے ساتھ بمبئی آگئے۔ بمبئی میں پہلے سے ہی اچھے شعراء اور ادباء کسی نہ کسی سرگرمی کے باعث مقیم تھے۔ چنانچہ کرشن چند، اختر الایمان، کیفی اعظمی، مدھو سدن، ساغر نظامی، شاہد لطیف، ظ۔ انصاری، رفعت سروش، وشوا متر عادل، مجروح سلطانپوری، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، اوپندر ناتھ اشک، عصمت چغتائی اور دیگر ادیب و شاعر، فلم یا سیاست سے وابستگی کے باعث بمبئی میں مقیم تھے اور مخدوم محی الدین، مجازؔ، معین حسن جذبی، ابراہیم جلیس اور جاں نثار اختر کا بھی بمبئی آنے کا سلسلہ جاری تھا۔ یہاں تک جوش ملیح آبادی نے بھی پونا سے اکثر ممبئی آیا کرتے تھے۔ ان تمام فنکاروں کی وجہ سے ممبئی کے ادبی حلقے میں رونق ہی رونق تھی۔ اردو کے اتنے بڑے بڑے شاعر و ایب اتنی تعداد میں جب ممبئی میں جمع ہوگئے تو انجمن ترقی پسند مصنفین جیسے متحرک ادارے میں اردو کا ایک خاص شعبہ بھی قیام پذیر ہوگیا۔ (انجمن ترقی پسند مصنفین کے خاص جلسے میں گجراتی اور ہندی زبانوں کے ادیب و شاعر بھی شریک ہوتے تھے) اب اکثر صرف اردو ادیبوں کے جلسے بھی منعقد ہونے لگے۔ اردو کے شعبے کا کنوینر حمید اختر کو بنایا گیا۔ ادب و شاعری کا یہ کارواں بڑے ہی پرتپاک انداز میں آگے بڑھتا رہا اور جلسے کا انعقاد ظہیر کے مکان پر لگارتار ہوتا رہا۔ ساحرؔ ان جلسوں میں صرف شریک ہی نہیں ہوتے تھے بلکہ مباحث میں حصہ بھی لیا کرتے تھے، اپنی رائے اور نظریات کا اظہار بھی بڑے ہی سلیقے سے کیا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ترقی پسند تحریک کو استحکام حاصل ہوچکا تھا اور یہ تحریک مقبولیت کا درجہ حاصل کرچکی تھی۔ ممبئی اور اس کے گردونواح میں اس ادارے کے جو جلسے یا مشاعرے منعقد ہوتے ان میں نوجوان شاعر ساحرؔ لدھیانوی کو بھی مدعو کیا جاتا تھا۔ کیفی اعظمی، علی سردار جعفری اور مجازؔ کی نظمیں مقبولِ خاص و عام تو تھیں ہی اب ساحرؔ کی سحر انگیزی بھی لوگوں کو اپنی گرفت میں لے چکی تھی۔ اگست ۱۹۴۷ء میں ملک کو آزادی تو ملی (جو انجمن ترقی پسند مصنفین کا مقصد تھا) لیکن ملک کی تقسیم سے قتل و غارت گری کے وہ سرکش، درد ناک اور ہیبت ناک منظر سامنے آئے کہ انسانیت کانپ اٹھی۔ لدھیانہ میں بھی فساد پھوٹ پڑا۔ اس وقت ساحرؔ ممبئی میں ہی تھے لیکن ان کی والدہ سردار بیگم لدھیانہ میں تھی۔ ساحرؔ کے ہوش اڑے ہوئے تھے۔ وہ حیران و پریشان کسی طرح دہلی پہنچے۔ ساحرؔ نے وحشت ناک رقص کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ انہیں بھی جان بچانے کے لئے اپنے ہندو دوست کے گھر پناہ لینی پڑی۔ لیکن آگ کی لپٹیں بڑھتی ہی چلی جارہی تھیںجس میں روح اور وجود، جل بھن کر راکھ ہورہے تھے۔ ساحرؔ کو حفاظت کے مدنظر اپنے ایک سکھ دوست کے گھر میں پناہ لینی پڑی۔ ان فسادات کے جو اثرات ساحرؔ کے حساس دل و دماغ پر ثبت ہوئے تھے وہ نظم ’’آج‘‘ کے عنوان سے صفحۂ قرطاس پر بکھر چکے تھے۔ یہ نظم ۱۱؍ ستمبر ۱۹۴۸ء کو آل انڈیا ریڈیو دہلی سے نشر ہوئی تھی۔ ایسے خطرناک حالات کے باعث ساحرؔ خود لدھیانہ نہیں جاسکے۔ ان کے سکھ اور ہندو دوستوں نے ان کی والدہ کا پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ وہ مہاجرین کے کیمپ میں بھیج دی گئیں۔ پھر انہیں رفیوجی ریل کے ذریعہ لاہور بھیج دیا گیا۔ حالات کچھ بدلے تو ساحرؔ خود لاہور گئے۔ وہاں ان کی والدہ مجلس احرار کے بلند پایہ لیڈر، مشہور صحافی و ادیب شورش کاشمیری کے گھر میں مقیم تھیں۔ لاہور کے احباب کا اصرار تھا کہ ساحرؔ مستقل طور پر لاہور منتقل ہوجائیں لیکن ساحرؔ ایسے بے درد شہر میں، جہاں انہیں تعلیم تک مکمل کرنے سے روک دیا گیا تھا، خیر باد کہہ کر ہندوستان آگئے۔ ۱۹۴۸ء میں رسالہ حالی پبلشنگ ہاؤس کے مالک بدر صاحب اور محمد یوسف جامعی کے تعاون سے ساحرؔ نے ماہنامہ  ’’شاہراہ‘‘ کا اجرا شہر دہلی میں کیا۔ پرکاش پنڈت اس رسالے کے جوائنٹ ایڈیٹر تھے۔ چنانچہ یہ رسالہ ترقی پسند تحریک کا صرف ترجمان ہی نہیں بنا بلکہ مضامین کے معیار کے باعث اردو رسائل کی دنیا میں سنگِ میل کی حیثیت اختیار کرگیا۔ اسی زمانے میں ساحرؔ نے ایک رسالہ ’’پریت لڑی‘‘ کی بھی ادارت سنبھالی۔ اس رسالہ کے مالک سردار گور بخش تھے۔ رسالہ ’’پریت لڑی‘‘ میں ساحرؔ کے ساتھ پرکاش پنڈت نائب مدیر رہے۔ 

مئی ۱۹۴۹ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی پانچویں کل ہند کانفرنس کا انعقاد ممبئی میں ہی ہوا۔ جس میں آزادی کے بعد کے حالات، ترقی پسند رجحانات، ادیبوں، شاعروں کے تخلیقی اور تحریری نظریات و رویئے کا جائزہ لیا گیا اور کچھ خاص زاویئے متعین کئے گئے کیونکہ کانگریس اقتدار میں آنے کے بعد جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے رویئے اور مفادات کی حفاظت کرنے لگی۔ یہاں تک جمہوریت اور ازشتراکیت کے تمام عہد و پیماں عملی طور پر دست بردار نظر آنے لگے۔ ادھر انجمن ترقی پسند مصنفین کی تحریک میں شامل کثیر تعداد میں شعراء و ادباء اشتراکی نظریئے (مارکسزم) کے حامی تھے (لیکن حالات کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس تحریک کو سیاست سے جوڑ کر حالات کو بہتر بنانے کی سعی کی جائے) چنانچہ بیشتر لوگ پرانے مقاصد اور رویئے پر ہی اڑے رہنا چاہتے تھے۔ چند ارکان اس میں نئے خیالات و نظریات شامل کرنے کے خواہش مند تھے۔ کمیونسٹ پارٹی کے ارکان، کانگریس کے خلاف شدید رویہ اختیار کرتے ہوئے صف آرا ہوگئے۔ چنانچہ مختلف سیاسی نظریات سر اٹھانے لگے۔ ابتدا سے ہی ترقی پسندتحریک کی باگ ڈور اشتراکی ادباء و شعراء کے ہاتھوں میں تھی۔ اب انہوں نے لازم سمجھا کہ ترقی پسند تحریک کو دبے کچلے طبقوں کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے اور ایک غیر طبقاتی اشتراکی نظام کے وجود کو دعوت عمل مل گئی۔ ۱۹۳۹ء کا اعلان نامہ گزشتہ کل کی صورت اختیار کر گیا اور اس کانفرنس میں نیا اعلان نامہ عالمِ وجود میں آیا۔ ساحرؔ لدھیانوی مارکسزم سے دلچسپی رکھتے تھے اور ان نظریات اور عملیات سے وابستہ بھی تھے لیکن کبھی بھی وہ کمیونسٹ پارٹی کے رکن نہیں رہے۔ چنانچہ ساحرؔ نے نئے نظریات کی حمایت میںنہیں آئے بلکہ اپنے خیالات و نظریات کو ہی اولیت دی۔ اب ساحرؔ مستقل طور پر ممبئی میں مقیم ہوگئے۔ فلمی دنیا سے رزشتہ جڑ چکا تھا۔ فلموں میں نغمے لکھنے لگے تھے۔ مالی حالات بہتر ہونے لگے تھے۔ جب کرشن چند کے مکان کی اوپری منزل خالی ہوتی تو ساحرؔ نے اپنی والدہ کو ماموں کے گھر الٰہ آباد سے ممبئی بلا لیا اوروہیں رہنے لگے۔ ساحرؔ نے پہلی بار فلم ’’بازی‘‘ کے لئے گیت لکھے تھے۔ یہ گیت مقبول ہوئے تو ساحرؔ کو لگاتار کام ملنا شروع ہوگیا اور معاوضہ کی رقم بھی پہلے سے زیادہ ہوگئی۔ اس کے بعد تو جیسے ساحرؔ کا ستارہ بلند ہوگیا۔ انہوں نے چال، پیاسا، تاج محل، برسات کی رات، نیادور، گمراہ، داغ اور بہت سی بہترین فلموںکے لئے لاجواب نغمے تحریر کرکے دنیا کی تاریخ میں اپنا نام سنہری حرفوں میں رقم کرادیا۔ 

گیت لکھنا صرف ان کی معاشی ضرورت نہیں تھی بلکہ شاعرانہ ذوق کی تسکین کا بہترین ذریعہ بھی تھی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے فلمی نغموں کا معیار ہمیشہ بلندرہا۔ ساحرؔ کو اپنے فن پر اتنا اعتماد تھا کہ انہوں نے اپنے فلمی نغموں کا مجموعہ ’’گاتا جائے بنجارہ‘‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ اس سے پہلے کسی بھی گیت کار نے فلمی نغموں کا مجموعہ شائع کرنے کی جسارت نہیں کی تھی۔یہ مجموعہ اتنا مقبول ہوا کہ ۱۹۷۴ء تک ’’گاتا جائے بنجارہ‘‘ کے گیارہ ایڈیشن کی اشاعت ہوئی۔ جس طرح ساحرؔ فلمی دنیا میں مقبول تھے اسی طرح ادبی دنیا میں بھی ان کی مقبولیت بڑھتی ہی گئی۔ یہاں تک کہ ان کا اولین مجموعہ ’’تلخیاں‘‘ کے بھی بائیس ایڈیشن ۱۹۴۵ء سے ۱۹۷۴ء تک شائع ہوچکے تھے۔ ساحرؔ ہندی قارئین میںبھی بے حد مقبول تھے۔ تلخیاں کا ہندی میںبھی بارہ ایڈیشن شائع ہوا۔ ساحرؔ کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اسے گومکھی رسم الخط میں بھی شائع کیا گیا۔ 

۱۹۵۵ء میں ساحرؔ کی ایک سو نوے مصرعوں کی طویل نظم ’’پرچھائیاں‘‘ منظر عام پر آئی۔ یہ نظم در اصل معصوم دلوں کی دلگداز داستان ہے۔ جس کی تاثیر دل کو خون کے آنسو رلاتی ہے۔ بعد میں ’’پرچھائیاں‘‘ کو ’’تلخیاں‘‘ کے چودہویں اور پندرہویں ایڈیشن میں شامل کیا گیا۔ لیکن جب ساحرؔ کا تیسرا مجموعہ ’’آؤ کہ کوئی خواب بنیں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تو نظم ’’پرچھائیاں‘‘ اس مجموعہ میں شامل کردی گئی۔ ’’آؤ کہ کوئی خواب بنیں‘‘ کو بھی قارئین کی بے پناہ محبت حاصل ہوئی۔ ۱۹۶۰ء سے ۱۹۷۴ء تک کی تما م تخلیق ’’آؤ کہ خواب بنیں‘‘ میں شامل ہیں۔ ۱۹۷۳ء میں اس مجموعہ کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا۔ اس مجموعے پر ساحرؔ کو سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ، اردو اکیڈمی ایوارڈ اور مہاراسٹر اسٹیٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 

ساحرؔ لدھیانوی وہ خوش نصیب شاعر ہیں جنہیں ان کی زندگی میں ہی بے پناہ شہرت، محبت اور عزت حاصل ہوئی۔ ۱۹۷۱ء میں انہیں پدم شری کا اعزاز عطاکیاگیا۔ ۱۹۷۲ء میں حکومت مہاراسٹر نے ساحرؔ کو جسٹس آف دی پیس (Justice of the peace) اور اس کے بعد ۱۹۷۴ء میں اسپیشل اگزکیوٹیو مجسٹریٹ (Special Executive Majaistrate) کے باوقار منصب سے نوازا۔ ۱۹۷۲ء کی ہند و پاک جنگ میں چند فوجی چوکیوں کو ساحرؔ کے نام سے منسوب کیا گیا اور ۱۹۷۵ء میں آرمی سروس کورپس (Army Service Corps) کی طرف سے ساحرؔ کو اعزازیہ بخشا گیا اور فوجی ترانہ لکھنے کی درخواست کی گئی۔ ساحرؔ نے فوجیوں کی تمنا پوری کردی۔ ترانہ تحریر کیا اور ۴؍ اگست ۱۹۷۵ء کو یہ ترانہ ریکارڈ کیا گیا۔ 

۱۹۷۵ء میں ایک امریکی اسکالر کارلوکوپو (Karlo Kopo) نے اردو شاعری میں ترقی پسند تحریک کے عنوان سے ایک طویل مقالہ لکھا جس کی ضخامت ساڑھے سات سو سفحات پر مشتمل ہے اور انہیں اس مقالہ پر شکاگو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا گیا۔ اس مقالہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں کارلوکوپو نے ہندوستان او ر پاکستان کے پانچ اہم ترقی پسند شعراء کو منتخب کیا جن میں سے ایک ساحرؔ لدھیانوی ہیں۔ساحرؔ کی شاعری کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ انگریزی، چیک، روسی، عربی اور فارسی زبانوں میں ان کی شاعری کے ترجمے کئے جاچکے ہیں۔ ان تمام زبانوں کے باذوق قارئین میں ساحرؔ محبوب کا درجہ رکھتے ہیں۔ یعنی ساحرؔ لدھیانوی عالمی شہرت یافتہ شعراء میں صفِ اول میں مقام رکھتے ہیں۔ ہندوستان کو ساحرؔ پر ناز ہے۔ اہل لدھیانہ نے ساحرؔ سے اتنی محبت کی کہ لدھیانہ میں ایک سڑک ان کے نام موسوم کردیا۔ جب گورنمنٹ کالج، لدھیانہ نے گولڈن جبلی کا جشن منانے کا فیصلہ کیا تو یہ طے پایا کہ جن پرانے طالب علموں نے زندگی کے کسی بھی شعبے میں بلندی حاصل کی ہے، انہیں اعزاز عطا کیا جائے گا تو ان میں ۲۲؍ نومبر ۱۹۷۰ء کو اس جشن میں ساحرؔ کی محبوب تعلیم گاہ گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں انہیں گولڈل میڈل سے نوازا گیا۔ اس کے بعد ۱۱؍ ستمبر ۱۹۷۷ء کو حکومت پنجاب نے جالندھر میں ایک عظیم الشان تقریب کا اہتمام کیا اور اور تقریب میں دیگر ممتاز شعراء کے ساتھ ساتھ اپنے ہونہار سپوت کو بھی گولڈ میڈل، شال اور نقد رقم عطا کیا۔ 

ساحرؔ کی زندگی میں ہمیشہ خلا رہا۔ ان کی محبت کبھی ان کی نہ ہوسکی۔ انہوں نے ساری عمر تنہائی میں گزاردی۔ ان کے کئی عشقیہ قصے مشہور ہوئے لیکن ایک بھی بامراد نہیں ہوئے۔ امرتا پریتم، نے خود ہی ساحرؔ سے اپنے عشق کا کئی تحریروں میں اعتراف کیا ہے۔ 

ساحرؔ کی والدہ کو بھی ہر ماں کی طرح اپنے شہزادے کو دولہا بنادیکھنے کی چاہت تھی۔ اپنے عزیز بیٹے کو کامیاب، محبت کے خانہ آباد دیکھنے کی تمنا ان کے دل میں ہمیشہ مچلتی رہی لیکن یہ تمنا حسرت بن گئی اور آخر کار ساحرؔ کی والدہ کا انتقال ۳۱؍ جولائی ۱۹۷۶ء (1976) کو ہوگیا۔ ساحرؔ ماں کی موت کے بعد دن بہ دن تنہائی پسند اور گوشہ نشیں ہوتے گئے۔ ہر شئے سے ان کا دل اٹھتا گیا۔ ماں کی محبت سے بھی محرومی انہیں حراساں کرتی رہی۔ دل پر یہ ضرب کاری تھی۔ مکمل تنہائی میں زندگی بسر کرنا محال ہوگیا اور آخر کار ساحرؔ ۲۵؍ اکتوبر ۱۹۸۰ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ 

ساحرؔ ایک بلندپایہ شاعر ہی نہیں بلکہ دردمند دل رکھنے والے ایک بہترین انسان بھی ہیں۔ ان کا فن ان کی شخصیت کا آئینہ بن گیا ہے۔ ان کے فن میں جو خلوص ہے وہ دراصل ان کی ذات کا حصہ ہے۔ ساحرؔ کو انسانیت کی اعلیٰ قدروں، احساسات اور تاثرات کی شدت عطا کی۔ ذاتی زندگی کی محرومیاں ساز بن کر ابھریں اور رگ و پے میں پھیل گئیں۔ مظلوموں کے درد نے انہیں پگھلا پگھلا کر کندن بنادیا۔ دل شکن تجربات نے نغموں کے آبشار جاری کر دیئے اور ایک شاعر، ساحرؔ بن گیا۔  

ساحرؔ کی شاعری غنائیت سے لبریز ہے۔ اس کی دلگدازی ساحرؔ کے چہرے کی معصومیت (جو تصویر میں باضابطہ جھلکتی ہے) سے اس طرح مطابقت رکھتی ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دلگدازی ضرور ان کی شخصیت کا خاصا رہی ہوگی۔ ان کے چہرے پر جو سچائی عیاں نظر آتی ہے وہی سچائی ان کی شاعری کا پیکر ہے۔ سچا انسان زندگی کے بیشتر معاملات میں ناکام تو ضرور ہوتا ہے لیکن کوئی بھی الجھن، پریشانی یا شکست کو منتشر نہیں کرسکتی۔ ساحرؔ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ لیکن انسانیت کا قدرداں، انسانیت کی تمام تر اقدار کو اپنی شخصیت میں سمیٹے نظر آتا ہے۔ یہاں تک کہ جب اس کا فن آشکارہ ہوتا ہے تو وہ فنکار می شخصیت، اس کے وجود اور اس کے باطن کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ ساحرؔ ایسی ہی باوقار شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی غزلیں مقبول تو ضرور ہوئیں لیکن ان کی نظموں کو ایک الگ ہی مقام حاصل ہوا۔ ساحرؔ کی نظمیں ہیئت کے اعتبار سے قدیم ہی نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے اس معاملے میں کوئی اجتہاد نہیں کیا۔ انہوں نے زیادہ تر پابند نظمیں لکھی ہیں۔ جو نظمیں آزاد ہیں ان میں بھی قافیہ اور ردیف اکثر موجود ہیں اور ترنم تو ان کی شاعری کی جان ہے۔ ساحرؔ نے شاعری کے موضوعات میں ضرور اجتہاد سے کام لیا ہے جس کا باعث ان کے نظریات ہیں۔ ان کی شاعری کی خصوصیات، شدتِ احساس، اسلوبِ بیان، خوبصورت اور مترنم الفاظ کا انتخاب اور اس کو برتنے کا انداز، متخب تشبیہات اور استعارات کے بہترین مگر کم کم استعمال کا سلیقہ، نغمگی اور پیغامِ بیداری ہے۔ وہ گل و بلبل کی قید سے آزاد ہوکر حالات کے تناظر میں شاعری کرتے ہیں۔ ان کی شاعری زمینی ہے جو ساحرؔ کو آفاقیت عطا کرتی ہے۔ وہ فرار طلب نظر نہیں آتے بلکہ سماجی حقیقت سے نظر ملاتے ہیں، حالات کو آئینہ دکھاتے ہیں اور آنے والے کل کی بہتری کا راستہ دکھاتے ہوئے پیغام بھی دیتے ہیں۔ ان کی شاعری اپنے دور کی نئی اور ولولہ انگیز آواز ہے۔ نام نہاد، شان و شوکت اور عزت و وقار کی دھجیاں اڑاتی ہیں۔ ان کے تجربات اور احساسات نے ایسا فن عطا کیا کہ وہ اپنے خیالات، احساسات اور پیغامات کی ترسیل قارئین کے دل و دماغ تک بخوبی ہوجاتی تھی جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ وہ اپنے دور کے جدید تحریکات اور رجحانات سے بے حد متاثر تھے۔ لیکن اس زمانے میں ہورہے نئے نئے تجربوں کو انہوں نے کبھی بھی اپنی شاعری میں جگہ نہیں دی۔ ایسا اسلوب اپنایا کہ جس کا مجموعی تاثر ایک ماہر فنکار کا پتہ دیتا ہے۔ ان کی نظموں میں کوئی مصرع غیر ضروری نہیں ملتا بلکہ ہر ایک مصرعہ کو بخوبی پڑھنے سے ہی نظم کا مجموعی تاثر اسے منفرد بناتا ہے۔ ساحرؔ نے خطابیہ اور تمہیدی انداز سے پرہیز کیا ہے۔ 

ان کی نظم ’’آج‘‘ اور ’’پرچھائیاں‘‘ ایسی نظمیں ہیں جن میں دو مختلف بحروں کا استعمال کیا گیا ہے اور اس تجربے میں ساحرؔ کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پرنظم ’’پرچھائیاں‘‘ سے دو مختلف بحروں کے چند اشعار پیش ہیں۔ 

اس شام مجھے معلوم ہوا جب باپ کی کھیتی بکتی ہے  

ممتا کے سنہرے خوابوں کی انمول نشانی بکتی ہے 

اس شام مجھے معلوم ہوا جب بھائی جنگ میں کام آئیں 

سرمائے کے قحبہ خانوں میں بہنوں کی جوانی بکتی ہے 

  

گزشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار 

عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں 

گزشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار 

عجب نہیں کہ پرچھائیاں بھی جل جائیں 

ساحرؔ نے اپنی شاعری میں ابہام گوئی سے کام نہیں لیا، نہ اس دور کے مروج طریقے کے مطابق سپاٹ بیانیہ اسلوب کو اپنایا اور نہ ہی کبھی نعرہ بازی اور پروپگنڈہ کو اپنے فن کا حصہ بنایا۔ ساحرؔ کے کلام میں تسلسل اور ترنم کا بہترین امتزاج موجود ہے۔ کچھ نظمیں قصیدے اور مثنوی کے سانچے میں بھی تحریر کیں۔ ساحرؔ کو چار مربوط مصرعوں کے بند زیادہ پسند ہیں۔ ان کی نظم’ ’جاگیر‘‘، ’’تاج محل‘‘ اور’ ’مادام کا سانچہ‘‘ چار مصرعوں کے ایک ایک بند پر مشتمل ہے۔ اس دور کے نوجوان شعراء میں ساحرؔ کا ی انداز کافی مقبول ہوا اور فروغ پاتا رہا۔ ساحرؔ نے مصرعوں کی تعداد میں کمی بیشی کرکے اور قافیہ و ردیف میں تبدیلی کرکے نظموں کو متنوع بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ نظم ’’کل اور آج‘‘ سے مثال پیش ہے۔ 

کل بھی بوندیں برسی تھیں 

کل بھی بادل چھائے تھے 

… اور کوی نے سوچا تھا 

بادل پہ آکاش کے سپنے ان زلفوں کے سائے ہیں 

دوشِ ہوا پر میخانے ہی میخانے گھر آئے ہیں 

رُت بدلے گی پھول کھلیں گے جھونکے مدھو برسائیں گے 

اُجلے اُجلے کھیتوں میں رنگیں آنچل لہرائیں گے 

ساحرؔ کی شاعری کا خاصا یہ ہے کہ انہوں نے تجربات، مشاہدات، احساسات، جذبات نگاری اور آپ بیتی کی آمیزش سے کام لیتے ہوئے اپنے کلام میں بے پناہ تسلسل اور ربط پیدا کردیا ہے۔ ایسی نظموں میں ’’آوازِ آدم‘‘، ’’کچھ باتیں‘‘، ’’چکلے‘‘اور ’’نذرِ کالج‘‘ اہم ہیں۔ مثالیں پیش ہیں۔نظم ’’آوازِ آدم‘‘ سے مثال: 

یہ ہنگامِ وداع شب ہے، اے ظلمت کے فرزندوں 

سحر کے دوش پہ گلنار پرچم، ہم بھی دیکھیں گے 

تمہیں بھی دیکھنا ہوگا یہ عالم ہم بھی دیکھیں گے 

نظم ’’کچھ باتیں‘‘ سے مثال: 

دیس کے ادبار کی باتیں کریں 

اجنبی سرکار کی باتیں کریں 

اگلی دنیا کے فسانے چھوڑ کر 

اس جہنم زار کی باتیں کریں 

ہوچکے اوصاف پردے کے بیاں 

شاہدِ بازار کی باتیں کریں 

دہر کے حالات کی باتیں کریں 

اس مسلسل رات کی باتیںکریں 

من و سلویٰ کا زمانہ جاچکا 

بھوک اور آفات کی باتیں کریں 

نظم ’’چکلے‘‘ سے مثالیں: 

مدد چاہتی ہے یہ ہوا کی بیٹی 

یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی 

پیمبر کی امت، زلیخا کی بیٹی 

ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں 

بلاؤ خدایانِ دیں کو بلاؤ 

یہ کوچے، یہ گلیاں، یہ منظر دکھا 

ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کو لاؤ 

ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں 

نظم ’’نذرِ کالج‘‘ سے مثال: 

تو آج بھی ہے میرے لئے جنتِ خیال 

ہے تجھ میں دفن میری جوانی کے چار سال 

کمہلائے ہیں یہاں پہ مری زندگی کے پھول 

ان راستوں میں دفن ہیں میری خوشی کے پھول 

تیری نوازشوں کو بھلایا نہ جائے گا 

ماضی کا نقش دل سے مٹایا نہ جائے گا 

تیری نشاط خیز فضائے جواں کی خیر 

گل ہائے رنگ و بو کے حسیں کارواں کی خیر 

ساحرؔ کی چار چار مصرعوں پر مشتمل بندوں والی نظموں کے ہر بند میں دوسرا اور چوتھا مصرع ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتا ہے جو ترنم اور ربط کے ساتھ خوشگوار تاثر پیش کرتا ہے۔ ذہن پر اس کا اثر دیر پا ہوتا ہے۔ نور جہاں کے مزار پر، اسی دوراہے پر، ایک تصویرِ رنگ، ہراس، نیاسفر، جاگیر، شعاعِ فردا، مادام، نیا سفرہے، پرانے چراغ گل کردو، متاعِ خیر، مفاہمت، تیری آواز وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جن کا بنیادی پیکر ایک جیسا ہی ہے لیکن تھوڑی سی تبدیلی کے ذریعہ ساحرؔ نے ان کے پیرہن میں تنوع پیدا کردیا ہے۔ نظم ’’جاگیر‘‘ کے دو بند ملاحظہ کریں: 

پھر اسی وادیِ شاداب میں لوٹ آیا ہوں 

جس میں پنہاں مرے خوابوں کی طرب گاہیں ہیں 

میرے احباب کے سامانِ تعیش کے لئے 

شوخ سینے، جوں جسم، حسیں بانہیں ہیں 

  

سبز کھیتوں میں یہ دبکی ہوئی دوشیزائیں 

ان کی شریانوں میں کس کس کا لہو جاری ہے 

کس میں جرأت ہے کہ ان راز کی تشہیر کرے 

سب لے لب پر مری ہیبت کا فسوں طاری ہے 

نظم ’’میرے گیت تمہارے ہیں‘‘ کا ہر ایک بند چار مصرعوں پر ہی مشتمل ہے لیکن فرق یہ ہے کہ اس میں قوافی کی ترتیب یکساں نہیں ہے۔ ملاحظہ کریں: 

اب تک میرے گیتوں میں امید بھی تھی پسپائی بھی 

موت کے قدموں کی آہٹ بھی جیون کی انگڑائی بھی 

مستقبل کی کرنیں بھی تھیں حال کی بوجھل ظلمت میں 

طوفاں کا شور بھی تھا اور خوابوں کی شہنائی بھی 

  

آج سے میں اپنے گیتوں میں آتش پارے بھردوں گا 

مدھم، لچیلی تانوں میں جیوٹ دھارے بھردوں گا 

جیورن کے اندھیارے پتھ پر مشعل لے کر نکلوں گا 

دھرتی کے پھیلے آنچل میں سرخ ستارے بھردوں گا 

لیکن ساحرؔ نے نظم ’’انتظار‘‘کی ابتداایک شعر سے کی ہے۔ مگر بعد کے تین بند چار مصرعوں والے ہی ہیں اور خاتمہ پر پہلے شعر کی تکرار پیش کردیا ہے۔ نظم ’’انتظار‘‘ سے مثال ملاحظہ کریں: 

چاند مدھم ہے آسماں چپ ہے 

نیند کی گود میں جہاں چپ ہے 

دور وادی میں دودھیا بادل 

جھک کے پربت کو پیار کرتے ہیں 

دل میں ناکام حسرتیں لے کر 

ہم ترا انتظار کرتے ہیں 

ساحرؔ نے ایسی بھی نظمیں لکھی ہیں جن میں قوافی کی ترتیب غزل یا قصیدے جیسی ہے۔ نظم ’’طرحِ نو‘‘ اس کی اچھی مثال ہے۔ اس نظم کو مسلسل غزل کہا جاسکتا ہے۔ مثال ملاحظہ کریں: 

سعیٔ بقائے شوکتِ اسکندری کی خیر 

ماحولِ خشتِ بار میں شیشہ گری کی خیر 

بیزار ہے کنشت و کلیسا سے اک جہاں 

سوداگرانِ دین کی سوداگری کی خیر 

فاقہ کشوں کے خون میں ہے جوشِ انتقام 

سرمایہ کے فریبِ جہاں پروری کی خیر 

نظم ’’ایک منظر‘‘ معذوری اور گریز میں ساحرؔ نے قطع کے سانچوں کا استعمال کیا ہے۔ اسی طرح کچھ نظمیں مثنوی کی ہیئت میں ہیںں مثلاً ’’سرزمینِ یاس‘‘ ایک واقعہ، طلوعِ اشتراکیت۔ نظم ’’گریز‘‘ سے پہلے سانچے کی مثال دیکھیں۔ 

حقیقتوں نے حوادث سے پھر جلا پائی 

سکون و خواب کے پردے سرکتے جاتے ہیں 

دل و دماغ میں وحشت کی کارفرمائی  

دوسرے سانچے کی مثال پیش ہے۔ 

جینے سے دل بیزار ہے 

ہر سانس اک آزار ہے 

کتنی حزیں ہے زندگی 

اندوہ گیں ہے زندگی 

نظم ’’چکلے‘‘ میں تین تین مصرعوں کے بند مرتب کئے گئے ہیں اور ہر بند کے بعد ایک طنزیہ مصرع کی تکرار موجود ہے۔ 

’’ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں‘‘ 

نظم ’’پرچھائیاں‘‘ میں انہوں نے آزاد ہیئت کا استعمال کیا ہے لیکن اس نظم کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ساحرؔ نے دو مختلف بحروں کا استعمال کیا ہے (اس کی مثال پہلے دے چکی ہوں) ایک اور نظم ’’یہ کس کا لہو ہے‘‘ میں نظم کی ابتداء ایک مربع سے ہوتی ہے۔ پھر بحر کے ارکان کو دگنا کردیا گیا ہے اور تین قوافی والے مصرعوں کا بند ساحرؔ نے پیش کیا ہے۔ پھر مربع والے ہی وزن میں تین مصرعے آئے ہیں اور ان کے آگے پہلے اور چوتھے مصرعے دہرائے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ نظم اسی طرح اختتام کو پہنچتی ہے۔ مثال ملاحظہ کریں۔ 

اے رہبرِ ملک و قوم ذرا 

آنکھیں تو اٹھا نظریں تو ملا 

کچھ ہم بھی سنیں، ہم کو بھی بتا 

یہ کس کا لہو ہے کو ن مَرا 

دھرتی کی سلگتی چھاتی کے بے چین شرارے پوچھتے ہیں 

تم لوگ جنہیں اپنا نہ سکے وہ خون کے دھارے پوچھتے ہیں 

سڑکوں کی زباں چلاتی ہے ساگر کے کنارے پوچھتے ہیں 

یہ کس کا لہو ہے کون مَرا  

اے رہبرِ ملک و قوم ذرا 

یہ کس کا لہو ہے کون مَرا 

ساحرؔ نے نظم معریٰ تو لکھی ہے لیکن صرف ایک۔ جس کا عنوان ہے ’’لمحہ غنیمت‘‘ جو ان کی مجموعۂ کلام ’’تلخیاں‘‘ میں شامل ہے۔ ہاں، آزاد نظمیں کئی تحریر کی ہیں لیکن آزاد نظموں میں بھی ہم وزن مصرعوں کی کثرت، ردیف و قافیہ کی ترتیب کا خیال رکھتے ہیں۔ لَے یا ترنم کا التزام کیا گیا ہے۔ نظم معریٰ کی مثال کے لئے نظم ’’لمحۂ غنیمت‘‘ کا چند ٹکڑا ملاحظہ کریں۔ 

مسکرا اے زمین تیرہ و تار 

سر اٹھائے دبی ہوئی مخلوق 

دیکھ وہ مغربی افق کے قریب 

آندھیاں پیچ و تاب کھانے لگیں 

اور پرانے قمار خانے میں 

کہنہ شاطر باہم الجھنے لگے 

ساحرؔ کی شاعری کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ ان کا سیاسی کلام بھی ایک حد تک سنبھلا ہوا ہے۔ جس کے باعث پروپگنڈہ اور اوچھے پن سے ان کا کلام صاف ستھرا نظر آتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ سیاسی شاعری میں طنز کا عنصر بے حد نمایاں ہے۔ نظم ’’مادام‘‘ سے مثال ملاحظہ کریں۔ 

آپ بے وجہ پریشاں سی کیوں ہیں مادام 

لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے 

میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی 

میرے ماحول میں انسان نہ رہتے ہوں گے 

نورِ سرمایہ سے ہے روئے تمدن کی جلا 

ہم جہاں ہیں وہاں تہذیب نہیں مل سکتی 

مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے 

بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی 

نظم ’’طلوعِ اشتراکیت‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ کریں۔ 

جشن بپا ہے کٹیاؤں میں، اونچے ایواں کانپ رہے ہیں 

مزدوروں کے بگڑے تیور دیکھ کے سلطاں کانپ رہے ہیں 

جاگے ہیں افلاس کے مارے، اٹھے ہیں بے بس 

سینوں میں طوفاں کاتلاطم، آنکھوں میںبجلی کے شرارے 

ساحرؔ کی نظمیں ’’یکسوئی‘‘، ’’کسی کو اداس دیکھ کر‘‘، ’’سوچتا ہوں‘‘ اور’’ شکست‘‘ ان تخلیقات کے زمرے میں آتی ہیں جو ہمارے معاشرے میں عورتوں کی بے بسی اور مجبوری کوبے نقاب کرتی ہیں۔ ہندوستانی معاشرے میں عورتوں کا محبت کرنا ایک گناہِ کبیرہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس معاشرے کی عورتیں اپنی زندگی کا فیصلہ نہیں کرسکتیں۔ اپنے خاندان کی مرضی کے خلاف قدم نہیں اٹھاسکتیں۔ چنانچہ ساحرؔ کے دور کے معاشرے میں (کم و بیش آج کے معاشرے میں بھی)  یہ مسئلہ درپیش آرہا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا انجام محرومی اور جدائی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ ساحرؔ کی مذکورہ نظمیں انہیں مجبوری، ناکامی، محرومی اور بے بسی کے کیفیات اور احساسات کی آئینہ دار ہیں۔ مثالیں پیش ہیں۔ 

نظم ’’یکسوئی‘‘ کے چند اشعار: 

کون کہتا ہے کہ آہیں ہیں مصائب کا علاج 

جان کو اپنی عبث روگ لگاتی کیوں ہو 

ایک سرکش سے محبت کی تمنا رکھ کر! 

خود کو آئین کے پھندوں میں پھنساتی کیوں ہو 

میں سمجھتا ہوں تقدس کو تمدن کا فریب 

تم رسومات کو ایمان بتاتی کیوں ہو 

جب تمہیں مجھ سے زیادہ ہے زمانے کا خیال 

پھر مری یاد میں یوں اشک بہاتی کیوں ہو 

نظم ’’کسی کو اداس دیکھ کر‘‘ سے چند اشعار ملاحظہ کریں۔ 

تمہیں اداس ہی پاتاہوں میں کئی دن سے 

نہ جانے کون سے صدمے اٹھارہی ہو تم 

وہ شوخیاں و تبسم وہ قہقہے نہ رہے 

ہر ایک چیز کو حسرت سے دیکھتی ہو تم 

چھپا چھپا کے خموشی میںاپنی بے چینی 

خود اپنے راز کی تشہیر بن گئی ہو تم 

میں جانتا ہوں کہ دنیا کا خوف ہے تم کو 

مجھے خبر ہے یہ دنیا عجیب دنیا ہے 

یہ تم نے ٹھیک کہا ہے تمہیں ملا نہ کروں 

ہوا ہی کیا جو زمانے نے تم کو چھین لیا 

مگر مجھے یہ بتادو کہ کیوں اداس ہو تم 

یہاں پہ کون ہوا ہے کسی کا سوچو تم 

اس معاشرے میں اعلیٰ معاشرت اور ادنیٰ معاشرے کا وہ تلخ ردِ عمل پیش کرتا ہے۔ اگر عاشق اور معشوق کے درمیان ساحرؔ کے کلام میں جو تلخی ہے وہ اس سنگ دل سماج اور استحصالی معاشرہ کے خلاف ہے۔ یہ امتیاز ہوتا ہے تو یقیناً انجام تلخ ہی ہوتا ہے۔ ساحرؔ کی نظم ’’شہکار‘‘ اسی کشمکش، تفاوت اور حقیقت کو پیش کرتی ہے۔ 

مصور! میں ترا شہکار واپس کرنے آیا ہوں 

اب ان رنگین رخساروں میں تھوڑی زردیاں بھردے 

حجاب آلود نظروں میں ذرا بے باکیاں بھردے 

مگر ہاں بنچ کے بدلے اسے صوفے پہ بٹھلادے 

یہاں میری بجائے ایک چمکتی کار دکھلادے 

ساحرؔ کے یہاں استعاروں اور علامتوں کا استعمال بے حد کم ہوا ہے۔ یہاں یہ ضرور ہے کہ بعض سیاسی نظموں میں استعاراتی اور علامتی زبان ساحرؔ نے استعمال کی ہے۔ مثال کے طور پر ’’مفاہمت‘‘ کو پیش کیا جاسکتا ہے جو انہوں نے ہندوستان کی آزادی پر تحریر کی تھی۔ نظم کا آغاز اس بند سے ہوتا ہے۔ 

تشبیبِ ارض پہ ذروں کو مشتعل پاکر 

بلندیوں پہ سفید اور سیاہ مل ہی گئے 

جو یادگار تھے باہم ستیزہ کاری کے 

یہ فیضِ وقت وہ دامن کے چاک سل ہی گئے 

اس نظم کے آخر تک ساحرؔ کا یہ انداز قائم رہا ہے۔ انہوں نے اپنے د ل میں اٹھتے ہوئے جذبات، ان سے وابستہ امنگیں، شبہات اور مخصوص مارکسی نظریات کا اظہار نظر آتا ہے۔ ساحرؔ کی نظم ’’بہت گھٹن ہے‘‘ اس دور کے سیاسی حالات، غیر مطمئن صورتِ حال اور افراط و تفریط کو پیش کرتی ہے جس میں انہوں نے موقع پرست لوگوں پر طنز کیا ہے۔ مثال کے طور پر اس نظم کا یہ شعر: 

وہ فلسفے جو ہر اک آستاں کے دشمن تھے 

عمل میں آئے تو خود وقفِ آستاں نکلے 

یہ وہ دور تھا جب ترقی پسند تحریک اور مارکسی نظریات کے حامل لوگوں سے برسرِ اقتدار سیاسی جماعت کا زبردست اختلاف سامنے آنے لگا تھا۔ مارکسی نظریات رکھنے والے بھی برسر اقتدار جماعت کی ہمنوائی کرنے لگے تھے۔ چنانچہ ساحرؔ نے ایسے ہی لوگوں پر طنز کیا ہے۔ کہتے ہیں: 

اپنی غیرت بیچ ڈالیں اپنا مسلک چھوڑ دیں 

رہنماؤں میں بھی کچھ لوگوں کا یہ منشا تو ہے 

ہے جنہیں سب سے زیادہ دعوائے حبِ وطن 

آج ان کی وجہ سے حبِ وطن رسوا تو ہے 

لیکن ساحرؔ کی فنکاری اور شاعرانہ خصوصیت ہمیشہ برقرار رہی۔ ان جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بھی انہوں نے اپنی انقلابی اور سیاسی شاعری میں نعرہ بازی اور بے اعتدالی سے ہمشہ گریز کیا ہے۔ ان کا بیباک اور دو ٹوک اندازِ بیان ان کے شاعرانہ اسلوب کو کہیں بھی مجروح نہیں کرتا۔ 

**** 

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.