تہذیب وثقافت کا تصور اور اردو ادب
شیخ ظہور عالم
ریسرچ اسکالر ،شعبہ اردو، کلکتہ یونیورسٹی
5/H/9، موتی جھیل لین، کولکاتا-15
9163245420
armanalam7@gmail.com
ہماری تہذیب و ثقافت اردو ادب کے دامن میں پروان چڑھی ہیں۔ یہاں ہمارے ذہن کے دریچوں میں ایک سوال سرابھارتا ہے کہ تہذیب و ثقافت اور اردو ادب یہ دونوں الگ الگ اصطلاحیں ہیں باوجود اس کے ان کے مابین کیا ہم آہنگی ہیں؟ان کی باہمی موافقت کو واضح کرنے کے لیے ان کے معنی و مفہوم اور تاریخی پس منظر کی سنگلاخ وادیوں میں خاک چھاننی پڑےگی۔ ہر ایک ملک و قوم کی اپنی ایک تہذیب ہوتی ہے جس کے توسط سے وہ بین الاقوامی شہرت کا حامل ٹھہرایا جاتا ہے۔ چوں کہ ہر اک ملک کا اپنا ایک ادب بھی ہوتا ہے اور یہی ادبی میراث اس ملک کی تہذیب میں ڈھلتی ہے اور پھر اسی تہذیب کا عکس اس کے ادب میں جھلکتا ہے بقول رشید احمد صدیقی :
ۣ” ہماری تہذیب غزل میں اور غزل ہماری تہذیب میں ڈھلی ہے۔”
ظاہر ہے رشید احمد صدیقی ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی بات کر رہے ہیں ۔ اب آئیے ہم یہاں ان تینوں الفاظ کی لغوی اور اصطلاحی معنی و مفہوم پر غور کرتے ہیں۔
تہذیب ، ثقافت اور تمدن یہ تینوں لفظ عموماً ایک دوسرے کے مترادف تصور کیے جاتے ہیں۔ لیکن لغوی اور اصطلاحی اعتبار سے ان کے درمیان تفاوت ہیں۔
کلچر کا لغوی مفہوم ہی کھیتی باڑی ہے۔ To culture کا مطلب ہے زمین کو فصل کے لیے تیار کرنا، اس میں ہل چلانا، جھاڑ جھنکار سے اسے صاف کرنا اور اس میں کھاد ڈال کر اسے زرخیز بنانا ، تاکہ اس میں اگنے والی فصلے توانا ہو۔
انگریزی زبان میں تہذیب کے لیے’کلچر کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ کلچر لاطینی زبان کا لفظ ہے اس کے لغوی معنی ہیں زراعت، شہد کی مکھیوں، ریشم کے کیڑوں، سیپوں اور بیکٹریا کی پرورش یا افزائش کرنا، جسمانی یا ذہنی اصلاح و ترقی ، کھیتی باڑی کرنا۔
اردو، فارسی اور عربی میں کلچر کے لیے تہذیب کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ تہذیب عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے لغوی معنی کسی درخت یا پودے کو کاٹنا، چھانٹنا، تراشنا تاکہ اس میں نئی شاخیں نکلیں اور نئی کونپلیں پھوٹیں۔ فارسی میں تہذیب کے معنی آراستن پیراستین، پاک و درست کردن و اصلاح نمودن ہیں۔
ثقافت اور تمدن میں بڑا ربط ہے۔ تمدن کا معنی ہوتا ہے زندگی گزارنا اور اسی لفظ تمدن سے لفظ ہےمدینہ جس کا معنی ہوتا ہے شہر۔ ثقافت کا مطلب ہوتا ہے زندگی گزارنے کے بنیادی، اساسی اصول و ضوابط ۔ جن اصول و ضوابط کوآپ سامنے رکھ کر انسانی معاشرہ کو تعمیر کرتے ہیں اور انسانی معاشرہ کی تربیت کرتے ہیں گویا ثقافت ان اصولوں کا نام ہے کہ جن اصولوں کی بنیاد پرایک معاشرے کو آپ استوار کرتے ہیں۔ اور وہ معاشرہ جب ترقی کرتے کرتے ایک خوبصورت شکل میں سامنے آئے تو پھر اسے تمدن کہتے ہیں۔ یعنی تمدن کا تعلق شہری زندگی سے ہے۔ اس میں مزید نکھار تہذیب کے وجود میں آنے کا سبب بنتی ہے۔ گویا ثقافت تمد ن کا ابتدائی مرحلہ ہے تو تہذیب اس کی انتہا۔ دوسرے لفظوں میں ثقافت کی ارتقائی سفر کو تہذیب کا نام دیا جا سکتا ہے جسے انگریزی میں سولزیشن (civilization) کہتےہیں۔
ہر ملک اور ہر قوم کی اپنی ایک تہذیب ہوتی ہے جو کسب سے حاصل کیا جاتاہے۔ پھر یہ نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔ جسے بعد کے آنے والے لوگ ورثے کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ یہ ایک ملک اور قوم کا میراث ہوتا ہے جسے سنبھال کر رکھنا انتہائی ضروری ہوتا ہے کیوں کہ اس کے نہ ہونے سے ملک و قوم کی تہذیب خطرے میں پڑ جاتی ہے اور اس کا وجود مٹ جاتا ہے یعنی دوسرے لفظوں میں جس ملک اور قوم کے پاس اپنی تہذیب و ثقافت ہو وہ با ادب کہلاتی ہیں۔
اب آئیے ادب کے معنی و مفہوم پر توجہ دیتے ہیں ۔ادب یعنی تہذیب ، شائستگی اور درستگی کو کہتے ہیں۔ایسی خوبصورت تحریر جو ہم کو متاثر کرے وہ ادبی تحریر کہلائے گی۔ ادب عربی زبان کا لفظ ہے ادب کو انگریزی میں (literature) کہتے ہیں۔ادب مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ عادت، طرزِ عمل، دستور ،حسنِ ترتیب، شائستگی اور خوش خلقی۔
ادب کی تعریف : ایسی تحریریں جو دل و دماغ کو سکون عطا کریں۔ ادب کو دو معنوں میں استعمال کیا جا تا ہے۔
۱- یہ دوسروں کی عزت، تکریم اور احترام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ۪(جیسے با ادب با نصیب(
۲- یہ انسانی زندگی اور اس سے وابستہ ہر شئے کا مطالعہ کرتا ہے۔ ۪ (نثر، شاعری)
تہذیب و ثقافت اور ادب کے لغوی و اصطلاحی معنی و مفہوم کہ بعد اب ہم اس کے تاریخی پس منظر کی سنگلاخ وادیوں کی سفر میں چلتے ہیں۔ادب کو زندگی کا وسیلہ کہا جاتا ہے اور زندگی جینا آسان نہیں ہوتا۔ زندگی اپنی پُر پیچ راہوں سے عبارت ہے۔جہاںمشکلات کے ساتھ آسانی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انسانی زندگی اپنی لامحدود و سعتوں پر محیط ایک جہد مسلسل کا نام ہے۔ جس کے دامن میں خوشی و غم اور رنج و راحت کا احساس بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ زندگی کی اسی بھاگ دوڑ نے انسان کو موجد بنا دیا۔ انسانی زندگی سے نبردآزما ہونے کے لیے اس نے ہمیشہ مسئلوں کا حل تلاشا۔ تکلیفوں کا ازالہ کیا اور ضرورتوں کو ایجاد کی ماں بنایا۔ ادب بھی ضرورت کے تحت تخلیق کیا گیا۔ یہ ایک تخلیقی عمل ہے جس کو بننے اور سنورنے میں صدیاں لگی۔ یہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود انسانی وجود۔ ابتدائے آفرنیش سے جب اس روئے زمین میں انسانوں کا وجود ہوا تو اس نے پہلا کام بولنا سیکھا۔ جس کا بہترین مظہر زبان ہے۔ اس نے اپنے اندر ہونے والے خیالات اور جذبات کی ترجمانی اسی آلہ کی مدد سے کی۔ جیسے جیسے انسانی آبادیوں میں اضافہ ہوتا گیا ویسے ویسے انسانی وسائل بھی بڑھنے لگی۔ اب انسانوں نے مختلف جماعتوں اور ٹولیوں میں رہنا شروع کر دیا جس کی ترقی یافتہ شکل کا نام سماج (society) ہے۔ سماج یعنی مل جل کر زندگی بسر کرنا۔ انسان صحرائوں میں، جنگلوں میںیا پہاڑ کی غاروں میں تنہا زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ اسے زندگی گزارنے کے لیے مادی وسائل اور مختلف حیونات و نباتات پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ جس کے لیے وہ ماحول کی تشکیل کرتا ہے۔ ماحول کی داخلی اور خارجی اثرات اسے متاثر کرتی ہے، وہ سردیوں سے بچنے کے لیے اونی لباس اور گرم کپڑوں کا استعمال کرتا ہے۔ گرمیوں کے زمانے میںسوتی لباس اور باریک کپڑوں سے اپنے آپ کو آراستہ کرتا ہے۔ دھوپ اور برسات سے بچنے کے لیے وہ چھت اور چھتریوں کا استعمال کرتا ہے۔ گویا حفاظتی تدبیر اختیار کرنا اس کےسرشت میں شامل ہے۔
اب یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بنی نوع انسانی وجود میں پہلے ادب آیا یا تہذیب و ثقافت آئی؟ادب اور تہذیب و ثقافت کے مابین کیا رشتہ ہے؟ اس طرح کے سوالوں کا جواب طوالت طلب ہے۔ سب سے پہلے انسانوںکا وجود ہوا ہے روز ازل کا انسان جس کے پاس تہذیب و ثقافت کے نہ ہونے سے وہ بے ادب کہلاتا تھا۔
ہندوستان ایک تہذیب یافتہ ملک ہے۔ جس کی تاریخ بہت پرانی ہے جس وقت دوسرے ممالک میں تہذیبوں کی شروعات ہو رہی تھی اس وقت ہندوستان کی تہذیب بھی پروان چڑھ رہی تھی۔ دوسری تہذیبوں سے مراد میسوپوٹامیہ کی قدیم تہذیب، مصر کی تہذیب، چین کی تہذیب، بابل کی تہذیب، ایران کی تہذیب، یونان کی تہذیب اور روم کی تہذیب وغیرہ شامل ہیں۔ جس زمانے میں میسوپوٹامیہ ، یونان و مصر و روما کی تہذیب پائوں پھیلا رہی تھی۔ اس عہد میں ہندوستان میں وادئ سندھ کی تہذیب کا آغاز ہو رہا تھا۔ ان دنوں دریائے سندھ کی وادی میں ایک متمدن اور تہذیب یافتہ قوم آباد تھی جس کے متعلق دریافتیں بہت بعد میں ہوئیں۔ اس سے پہلے آریائوں کو ہندوستان کا سب سے قدیم تہذیب یافتہ قوم تصور کیا جاتا تھاجو اس دریافت کے بعد یہ مفروضہ غلط ثابت ہوا۔
وادئ سندھ کی تہذیب کی دریافت بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ڈاکٹر راکھیل داس بنرجی ،دیارام ساہنی اور ایک انگریز سر جان مارشل نے لگایا تھا۔ ضلع پنجاب کے مونٹگمری میں ہڑپا کے مقام پر اور ضلع سندھ کے لڑکانہ میں موہن جوداڑو کے مقام پر کھدائی کے دوران اس تہذیب کے بابت دریافت ہوئی۔ جہاں سے ہندوستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کاآغاز ہوتا ہے۔ جس کے متعلق لوگ پہلے ناواقف تھے۔
ہندوستان کی تاریخ میں وادئ سندھ کی تہذیب کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ اس تہذیب کی دریافت نے اس حقیقت کا انکشاف کیا کہ یہ آریائوں کی آمد سے ۧپہلے کی تہذیب ہے۔ جب کہ ایک وقت تک یہ خیال کیا جاتا تھا کہ آریا قوم نے ہندوستان کو سب سے زیادہ مہذب اور متمدن بنایا ہے۔ اور یہاں کے باشندے غیر تہذیب یافتہ تھے۔ لیکن موہن جوداڑو اور ہڑپا کی دریافت نے اس مفروضہ کو غلط ثابت کر دیا اور اس حقیقت کا انکشاف کیا کہ ہندوستان کی تہذیب بھی اتنی ہی قدیم اور اعلی ہے جتنی کہ میسوپوٹامیہ،یونان و مصر و روما کی۔بقول علامہ اقبال کے:
یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
اب ہم اپنے جواب کے دوسرے حصے کی طرف چلتے ہیں کہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور ادب کے درمیان کیا رشتہ ہے؟
جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ زمانہ قدیم سے ہی ہندوستان کی اپنی تہذیب و ثقافت رہی ہے۔ کوئی بھی قوم یا ملک اس وقت تک تہذیب یافتہ نہیں کہلا سکتی جب تک اس میں ادبی شعور اور ادبی معیار قائم نہ ہو۔ اس لیے کہ ادب کو زندگی کا ترجمان کہا جاتا ہے۔ ادب متمدن یا مہذب قوم میں نمائندے کی سی حیثیت رکھتا ہے۔
وادئ سندھ کی تہذیب کے زوال کے بعد سر زمین ہندوستان میں ایک اور تہذیب کافروغ ہوا جسے آریائی تہذیب کہتے ہیں ۔ یہی وہ تہذیب ہے جہاں تہذیب کا رشتہ براہ راست ادب سے جڑتا ہے اس تہذیب کے پروان میں ادب کا ظہور ہوا۔ ہندوستان میں آریائوں کی آمد دلچسپی سے خالی نہیں ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کا ذکر لازمی ہے۔
ہندوستان میں آریائوں کی آمد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے تقریباً۲۵۰۰ سال قبل ہوا۔ وہ ایک خانہ بدوش قوم تھی جو ہجرت کر کے وسط ایشیا سے شمال مغربی راستوں سے ہو کر ہندوستان کے پنجاب میں داخل ہوئی۔ یہاں موجود آبادیوں کو جنوبی ہند ڈھکیل کر خود شمالی ہند پر قابض ہوگئی وہ اپنے ساتھ ایک زبان اور تہذیب لے کر آئی تھی اور ہندوستانیوں کی اپنی زبان اور تہذیب تھی تو ان دونوں کی آمیزش سے ایک نئی تہذیب کا ہیولی بن کر تیار ہوا جو رفتہ رفتہ پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔ جسے مئورخوں نے آریائی تہذیب کا نام دیا۔ آریائوں کی آمد سے قبل ہندوستان میں ڈراویڈ قوم کے لوگ آباد تھے۔ جو بعد میں نقل مکانی کر کے جنوبی ہند کی طرف چلے گئے ۔ جنوبی ہند کے اکثر باشندے ان ہی کی اولاد ہیں۔
آریا ایک طاقتور قوم تھی وہ طبیعاتی طور پر مضبوط، دلیر، بہادر اور جنگجوں تھی۔ ان کا قد لمبا ، رنگ گورا اور ناک لمبی تھی۔ وہ صاحب کتاب تھی۔ ان کی مذہبی اور مقدس کتاب کا نام” ۣوید” ہے۔ یہی اس کا ادبی خزانہ ہے۔ یہی سے تہذیب وا دب کے رشتے کی شروعات ہوتی ہے ۔ ان کے ذریعہ لائے گئے ادب کو قدیم ادب تصور کیا جاتا ہے۔ وید چار ہیں۔ ۫(i) رگ وید (ii) سام وید (iii) یجر وید اور (iv) اتھر وید۔ وید کا شمار دنیا کی قدیم ترین ادبوں میں ہوتا ہے۔ ان میں رگ وید سب سے قدیم ہے۔ ان میں ہر ایک حصے کو تین شقوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔(i) سنگھتا (ii) برہمن (iii) اپنیشد
سنگھتا میں منتر اور دعائیں جمع کی گئی ہیں۔ برہمن میں پوجا پاٹ اور یگیہ کا طریقہ بتایا گیا ہے اور اپنیشد میں علم فلسفہ کی تعلیم دی گئی ہے۔ ہندوئوں کے عقیدے کے مطابق وید کسی انسان کی تخلیقات نہیں بلکہ دیوتائوں کے ذریعے حاصل ہوا ہے۔ جب سے انسانی سماج میں ادب کی پیدائش ہوئی ہے اس وقت سے دو طرح کی بولیاں رائج ہیں۔ ایک عوامی بولی جس میں روز مرہ کی گفتگو شامل ہے اور دوسری ادبی بولی جس میں ادب کی تخلیقات ہوتی ہیں۔ وید جو کہ آریائوں کی ادبی کتاب ہے اور ادب میں زندگی کا عکس صاف دیکھائی دیتا ہے تو اس لحاظ سے اس کے مطالعے سے اس وقت کے سماجی حالت کا علم ہوتا ہے کہ پورے آریائی سماج چار طبقوں میں بٹا ہوا تھا ۔ (i) برہمن (ii) کھتری (iii) ویش (iv) شودر۔ برہمن سماج کا سب سے اعلیٰ طبقہ سمجھا جا تا تھا جس کے ذمے پوجا پاٹ اور یگیہ کرنا تھا۔ کھتری بھی سماج کا باوقار طبقہ تھا جس کے ذمے لڑائیاں لڑنا اور حکمرانی کرنا تھا۔ اس کے بعد ویش کامقا م آتا ہےجس کے ذمے زراعت اور تجارت کرنا تھا اور شودر سماج کا سب سے نچلا طبقہ سمجھا جاتا تھا۔ جس کے ذمے سبھوں کی غلامی کرنا تھا۔ آریائوں نے انسانی زندگی کو بھی چار ادوار میں تقسیم کر رکھا تھا جسے وہ چتر آشرم کہتے تھے۔ (i) برہمہ چاری آشرم،(ii) گرہستی آشرم ،(iii) پان پرست آشرم،(iv)سنیاس آشرم۔ پہلا دور شادی نہ کرنے اور تعلیم حاصل کرنے پر مشتمل تھا۔ دوسرا دور شادی شدہ زندگی پر مشتمل تھا۔ تیسرادور جنگلوں میں جا کر عبادت و ریاضت پر مشتمل تھا اور آخری دو ر رہبانیت کا تھا جس میں دنیاوی جھمیلوں سے الگ ہو کر خدا سے لو لگانے پر مشتمل تھا۔ آریائی سماج میں باپ کا مقام اونچا تھا وہ اپنے خاندان یا کنبہ کا سربراہ ہوتا تھا۔ عورتوں کا مقام بھی بلند تھا۔ لڑکے اور لڑکیوں دونوں کو تعلیم دینے کا رواج تھا۔ البتہ پردے کا رواج نہ تھا اور بیوائوں کو دوسری شادی کرنے کی اجازت تھی۔ وید کے انوسار خدا ایک ہے اور وہی بندگی کے لائق ہے۔ اس کا کوئی عکس نہیں ہے۔ وہ سب کا پالنہار ہے۔ اس جیسا کوئی نہیں ہے۔ ویدبت پرستی کے خلاف ہے۔ لیکن زمانہ گواہ ہے انسان ہمیشہ صحیح عقیدہ کو چھوڑ کر غلط عقیدے کی تبلیغ کرتا ہے۔ جہاں وہ راہِ راست سے ہٹ کر باطل پرستی شروع کر دیتا ہے۔ ایسا ہی کچھ آریائوں کے ساتھ بھی ہوا انہوں نے ایک نا دکھنے والے خدا کو چھوڑ کر عناصر قدرت کی پرستش کرنا شروع کر دیا جو ان کے مذہبی کتاب کے خلاف تھی۔
وید کے علاوہ آریائوں کی دو قدیم رزمیہ نظمیں بھی ہیں۔ مہابھارت اور رامائن کے نام سے اور یہ دونوں کتابیں سنسکرت زبان میں لکھی گئی۔ ان میں مہابھارت کو تقدم حاصل ہے اس کے مصنف رشی ویاس جی تھے۔ اس میں کوروئوں اور پانڈوئوں کی جنگ کا ذکر ہے جن کے درمیان کوروشتر کے میدان میں جنگ ہوئی تھی۔
رامائن آریائوں کی دوسری رزمیہ کتاب ہے۔ اس کے مصنف والمیکی جی تھے اس نظم میں اجودھیا کے راجا رام چندر اور ان کی بیوی سیتا کے حالات زندگی کو مفصل انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس میں رام اور راون کے بیچ جو جنگیں لڑی گئی تھی ۔اس کا ذکر بھی تفصیل سے ہے۔ مغل بادشاہ اکبر کے زمانے میں تلسی داس نے اس کو سنسکرت سے ہندی زبان میں ترجمہ کیا تھا یہ دونوں کتابیں ادب کے دائرے میں رہ کر لکھی گئی تھی اس لیے ادبی کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔ جس کے مطالعے سے ملک کا جغرافیائی حدود آریائوں کی سیاسی، سماجی اور مذہبی حالات کی ترجمانی ہوتی ہے اس پورے آریائی دور کو تین حصوں میں تقسیم کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ (i) قدیم ہند آریائی ۱۵۰۰ ق۔م سے۵۰۰ق-م (ii) وسطی ہند آریائی ۵۰۰ ق۔م سے ۱۰۰۰ عیسوی (iii) جدیدہند آریائی ۱۰۰۰ عیسوی تا حال۔ قدیم ہند آریائی کے اختتام پر اور وسطی ہند آریائی کے ابتدائی دور میں دو نئی مذہبوں کا فروغ ہوا۔ جس نے مذہب کے ساتھ ساتھ ادب کی بھی سر پرستی کی۔ ان میں ایک جین مذہب اور دوسرا بدھ مذہب ہے ۔ جین مذہب کے بانی مہاویر تھے اور بدھ مذیب کے بانی گوتم بدھ تھے۔
جب برہمنوں نے مذہب میں اپنی اجارہ داری شروع کر دی اور بیجا طور پر عوام الناس کو مذہبی جکڑ بندیوں میں قید کر دیا تو اس سے راہِ نجات پانے کے لیے دو نئی مذہبوں کا فروغ ہوا جس نے اہنسا کی تعلیم دے کر سادگی پر زور دیا۔ ان میں اول نام مہاویر کا ہے۔ وہ حضرت عیسیٰ ؑ سے تقریباً 600چھ سو سال قبل بہار کے ویشالی میں ایک خوشحال کھتری خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام وردھمان تھا۔
ایک خاص عمر میں پہنچ کر ان کو گیان حاصل ہوا۔ ان کی بنیادی تعلیم چار اصولوں پر مبنی ہیں (1) اہنسا پر عمل کرنا ، (2) سچ بولنا، (3)چوری نہ کرنا اور (4) تحفہ نہ لینا۔ ان کی تعلیمات ان کی مذہبی اور ادبی کتاب انگ، اوپنگ اور مولاستر میں درج ہیں۔
گوتم بدھ کی پیدائش حضرت عیسیٰؑ سے تقریباً 560 سال قبل کپل وستو کے مقام پر ایک کھتری راجا کے خاندان میں ہوئی۔ ان کا اصل نام سدھارت تھا۔ انہوں نے ایک فلسفیانہ ذہن پایا تھا اور زندگی کی مصائب کو عمیق نگاہوں سے دیکھا تھا۔ انہیں بھی زندگی کے ایک خاص پڑائوں میں آکر گیان حاصل ہوا۔ گیان پراپت ہونے کے بعد انہوں نے بدھ دھرم کی بنیاد ڈالی۔ان کی تعلیمات” تری پٹک ” نامی مقدس کتاب میں درج ہیں۔ جو ادبی اصولوں کو مد نظر رکھ کر ” پالی” زبان میں لکھی گئی ہے ۔ اس لیے اس کتاب کو ادبی حیثیت کا درجہ حاصل ہے اور اس طرح تہذیب و ثقافت میں ادب کی شمولیت ناگزیر ہونے لگی۔مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتاگیا وید، مہابھارت، رامائن اورپران سے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے بہت سارے گوشے وا ہوتے ہیں۔
اس کے بعد ہندوستان میں موریہ سلطنت کا آغاز ہوتا ہے۔ چندر گپت موریہ نے اس سلطنت کی بنیاد ڈالی تھی۔ وہ حضرت عیسیٰؑ سے تقریباً 322 سال قبل مگدھ میں اپنی حکومت کا لوہا منواتا ہے اور اسی راجا کے دربار میں یونانی سفیر میگستھنیز کی تشریف آوری ہوتی ہے جس نے ہندوستانی ماحول اور حالات کا جائزہ لیا اور اپنی رودادِ سفر کو ‘ انڈیکا’ نامی کتاب میں تفصیل کے ساتھ درج کیا ہے جس سے کہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور ادب پر روشنی پڑتی ہے ۔ قدیم زمانے سے ہی ہندوستان علم و ادب اور تہذیب و مذہب کا گہوارہ رہا ہے۔میگستھنیز کی کتاب انڈیکا چندر گپت موریہ کے عہد کا ایک اہم ماخذ تصور کیا جاتا ہے۔ جس کی مدد سے قدیم ہندوستان کی تاریخ مرتب ہوتی ہے۔ ہندوستان پر سکندراعظم کے حملے کی تمام تر تفصیلات اس میں موجود ہے۔
یہ سفر نامہ تیسری صدی قبل مسیح کے ہندوستانی تہذیب و تمدن کا آئینہ ہے۔ میگستھنیز کے بعد ہندوستان آنے والے بیرونی سیاحوں میں فاہیان،ہیون سانگ، ابوریحان البیرونی اور ابن بطوطہ وغیرہ اہم نام ہیں۔ جنہوں نے اپنے رودادِ سفر میں اس عہد کے سیاسی، سماجی، اقتصادی، تہذیبی اور ثقافتی ہندوستان کا نقشہ کھینچا ہے جس سے قدیم ہندوستان کی تاریخ مرتب ہوتی ہے۔
فاہیان ایک چینی سیاح تھا جو پانچویں صدی عیسوی میں بدھ مذہب کی تعلیم کی غرض سے چند رگپت بکرمادتیہ کے زمانے میں ہندوستان آیا تھا۔ وہ یہاں پندرہ برسوں تک رہا اور مختلف مقامات کی سیر کی۔ اس نے اپنے رودادِ سفرکو فاہیان ژوان(Fahein Zuhan)میں درج کیا ہے۔ جس میں ہندوستان سے متعلق بہت سی باتیں ہیں۔ اس نے ہندوستان کے سماجی ڈھانچے پر بھی روشنی ڈالی۔ بقول فاہیان کے:
” ملک میں خوش حالی کا دور دورہ ہے۔ راجا نرم دل، مشفق اور رعایا پر مہربان ہے۔ غریبوں کے علاج کے لیے ہسپتال بنائے گئے ہیں اور عمال سلطنت کو سالانہ مشاہرے دینے کا رواج ہے۔ شراب نوشی اور گوشت خوری کا رواج نظرنہیں آتا۔قانون نرم اور حصول انصاف آسان ہے۔ بدھ مت عام لوگوں کا مذہب ہے لیکن اب اس پر برہمن مت دوبارہ غلبہ حاصل کر رہا ہے۔” (اردو ادب میں سفر نامہ لاہور،ص 1989,79)
چنڈالوں کا ذکر اس انداز سے کرتے ہیں :
” گندے لوگوں، کو ڑھیوں اور اچھوتوں کو چنڈال کہتےہیں۔ یہ لوگ سب سے الگ تھلگ شہر کے باہر رہتے ہیں یا بازار میں داخل ہوتے ہیں تو اپنی آمد کا اعلان کرتے جاتے ہیں تاکہ لوگ راستے سے ہٹ جائیں اور ان کے نزدیک نہ آنے پائیں۔ گوشت کا کاروبار صرف چنڈال لوگ کرتے ہیں اور وہ بھی شہر سے باہر۔”
(ہمارا قدیم سماج سید سخی حسن نقوی، ص 178)
ہیون سانگ ساتویں صدی عیسوی میں ہرش وردھن کے زمانے میں چین سے ہندوستان آیا تھا۔ اس نے راجا ہر ش وردھن کے علاوہ کا مروپ، گاوڑ، مگدھ، چالوکیوں اور پلوئوں کی سلطنتوں کا سفر کیا۔ اس نے اپنے رودادِ سفر کو سیوکی(Sioki) نامی کتاب میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ ہرش وردھن کے دربار میں 8 برسوں تک رہا ۔ اس نے اپنی کتاب میں حکومت ِ ہرش کو خاص جگہ دی ہے۔ ہیون سانگ کے بیان کے مطابق قنوج اس وقت ایک قلعہ بند، خوبصورت شہر تھا۔ ہرش وردھن نے 643ء میں ایک بہت بڑی مذہبی مجلس کا انعقاد کیا تھا جس میں بڑے بڑے راجائوں اور مختلف دھرموں کے عالموں نے شرکت کی تھی۔ اس اجتماع میں ہیون سانگ نے بودھ مت کے فاہیان فرقے کے پیغام کی توضیح کی تھی۔
ہیونگ سانگ نے یہاں تک لکھا ہے کہ راجا ہرش وردھن ہر پانچ سال کے بعد پریاگ کے مقام پر ایک مذہبی میلہ کا انعقاد کرتا تھاجو تین مہینے تک مسلسل لگا رہتا تھا۔ شاہی خزانے کی ساری دولت غریبوں میں تقسیم کر دی جاتی تھی حتیٰ کہ ہرش وردھن اپنے جسم کا لباس بھی تقسیم کر دیتا تھا۔
ہیون سانگ نے اپنی کتاب میں ذات پات کی بھیدبھائو کا ذکر کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ امرا اور برہمن عیش و عشرت کی زندگی گزارتے تھے۔ شودر لوگ زراعت پیشہ تھے۔ معاشرے میں چھوت چھات جیسی لعنت موجود تھی۔ ایک شہر یا گائوں میں داخل ہونے سے قبل اچھوتوں کو بآواز بلند برہمنوں کو اپنی موجودگی سے آگاہ کرنا پڑتا تھا۔
ہیون سانگ کی تحریروں سے ہمیں نالندہ میں واقع ایک بودھ یونیورسٹی سے متعلق بھی تفصیلی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ یہ یونیورسٹی اسی زمانے کا ایک مشہور درس گاہ تھی اس میں تقریباً دس ہزار طلبا زیر تعلیم تھے۔ جس کے اخراجات حکومت ِ وقت اور دوسو گائوں مل کر برداشت کرتی تھی۔
ہرش وردھن خود بھی ایک عالم و ادیب تھا اور اپنے دربار میں عالموں اور ادیبوں کی سر پرستی کرتا تھا۔ اس کے دربار میں کئی نامور عالم تھے۔ جن میں بان بھٹ سب سے زیادہ مشہور تھا۔ اس نے ‘ کادمبری’ اور ” ہرش چرتر’ دو مشہور کتابیں لکھیں۔ ہرش خود بھی ایک مصنف تھا۔ رتنا ولی، پریہ درشی اور ناگ نند ان کے لکھے ہوئے تین مشہور ڈرامے ہیں جو ادب میں اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔
ہیون سانگ نے اپنے سفر نامے میں بطور خاص متنازعہ خطہ وادئ کشمیر کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس نے کشمیر کے متعلق صرف پندرہ صفحات سیاہ کیے ہیں۔ جس میں بڑی قطعیت اور جامعیت پائی جاتی ہیں۔ یہ ہندوستان کی قدیم تاریخ و تمدن کے ساتھ ساتھ کشمیر کی تہذیب و تمدن کو بھی پیش کرتی ہے۔ جو مورخین کی نگاہوں میں دستاویز کی سی حیثیت رکھتی ہے ۔ یہ ہمیں پہلی مرتبہ اس بودھ کونسل کی اطلاع بہم پہنچاتی ہے جس میں بودھ دھرم کے بڑے فرقے (مہایان) فرقے کی مقدس کتاب کو ترتیب دی گئی۔ یہ بودھ مت کی تیسری کونسل تھی جس کی ادبی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ اس کونسل کی تمام ترکارستانی تانبے کی تختیوں پر نقش کروائی گئی ۔ بقول ڈاکٹر مشتاق حیدر کے :
“آج تک یہ شاندار تہذیبی تودہ، مذہبی خزانہ، پرنور صحیفہ اور پُر اسرار امانت کسی جنگل کی گہرائی میں خاموشی سے محو آرام ہے جیسے کسی محرم راز کا انتظار کر رہا ہو جس کی آنکھوں میں بصیرت کا سرمہ اور سینے میں معرفت کے دیے جگمگا رہے ہوں، جس کے سامنے یہ اپنا ساکت وجود کھولے اور ایک سیلاب نور بن کر ابھرے۔ اگر ہیون سانگ ہمیں اس بارے میں اطلاعات فراہم نہیں کرتے تو عالمی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل گمنامی کی نذر ہو جاتا ۔” (اردو سفر ناموں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت از مرتب خواجہ محمد اکرام الدین، ص 314)
بیرونی سفیروں میں ایک اہم نام البیرونی کا آتا ہے جن کا پورا یا اصل نام ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی تھا۔ ان کی پیدائش دسویں صدی عیسوی میںخیوا نامی ایک گائوں میں ہوئی تھی۔ مقامی علاقے سے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ وقت کے عظیم فاتح اور علوم و فنون کی سر پرستی کرنے والے سلطان محمود غزنوی کے دربار سے وابستہ ہوگئے جس نے شہنشاہ کا حکم پا کر ہندوستان جیسے وسیع اور دور دراز ملک کا سفر کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ وہ ہندوستان آئے اور یہاں کی زبان سنسکرت اور یہاں کی تہذیب و تمدن سے گہری واقفیت حاصل کی وہ جتنے برسوں تک ہندوستان میں رہے اپنا علمی اور تحقیقی کام جاری رکھا اور انہی تحقیقاتی کام کا ثمرہ ‘ کتاب الہند’ کی شکل میں منظر عام پر آئی جو ہندوستان کی تہذیبی و ثقافتی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہے۔
البیرونی کی’ کتاب الہند’ یا ‘تحقیق ہند’ ایک ایسی دستاویز ہے جو ہندوستانی سماج، سیاست، مذہب، ادب، فلسفہ، جغرافیہ، تاریخ، سائنس، موسمیات، توہمات، فلکیات، علم نجوم اور ریاضیات پر مشتمل تحریروں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جو قیمتی معلومات بہم پہنچاتا ہے۔ وہ سلطان محمود غزنوی کے ہمراہ ہندوستان وارد ہوا اور ہندومت کا عمیق مطالعہ کرنے لگا۔ انہوں نے تفصیلی طور پر ہندو سماج کی زبوں حالی اور مسلم حملہ آوروں کے مقابلے میں ان کی کمزوری اور ناکامی کی وجوہات بیان کی ہے۔ انہوں نے صراحت کی ہے کہ سماجی اور سیاسی ڈھانچے میں پائی جانے والی کمزوری اور باہمی نااتفاقی ہندوئوں کی شکست خوردگی اور شرمندگی کی وجہ بنی۔
البرونی سے پہلے بھی کئی کتابوں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے آثار ملتے ہیں۔ لیکن البرونی کو ان سب پر مرتبت حاصل ہے وہ اس لیے کہ انہوں نے دس برس تک رہ کر یہاں کی علمی فضاء میں سانس لی اور یہاں کی ادبی و علمی زبان سنسکرت سیکھی اور اس میں لکھے ہوئے کلاسکی کتابوں کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا۔ ان کا خلوص ، بے با کانہ اور غیر جانب دارانہ ریوں نے ‘کتاب الہند’ جیسی دقیق کتاب لکھنے پر معمور کئے رکھا۔
ہندوستانی علوم و فنون پر البیرونی نے مختلف تناظر سے اپنے نظریات کا اظہار کیا ہے۔ وہ ہندوستان کی دیومالائی اور اساطیری قصے کہانیوں میں یونانی، رومی اور ایرانی قصے کہانیوں کو بھی تلاشتے ہیں وہ جہاں اسلامی نقطہ نگاہ سے چیزوں کو دیکھتے ہیں۔ وہی غیر اسلامی تصورات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر اپنے غیر جانب دار ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔
“یہ لوگ اس کا نام ایشفر( ایشور) رکھتے ہیں یعنی مستغنی اور جواد جو دیتا ہے اور لیتا نہیں اس کی وحدت کو خالص وحدت سمجھتے ہیں۔ اس لیے کہ اس کے ماسوا کی وحدت کسی نہ کسی حیثیت سے کثرت رکھتی ہے۔”(باب 2، کتاب الہند)
ان بیرونی سفیروں میں جو سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ ہندوستانی حالات و معاشرت ، تہذیب و تمدن، رسم و رواج ، اخلاق و کردار اور علم و ادب کا ذکر کرتے ہیں وہ ہے ابن بطوطہ۔ ابن بطوطہ نو برس تک ہندوستان میں رہا۔ ہندوستان کو جس رنگ میں دیکھا جس طرزِ معاشرت میں پایا۔ اسی نقطہ نگاہ سے اپنے تجربات، مشاہدات، محسوسات اور خیالات کا اظہار اپنے سفرنامہ ” تحفۃ النظار فی غرائب لامصار و عجائب الاسفار” میں کیا ہے۔ اس کی حیثیت نہ صرف ایک سفر نامہ کی سی ہے بلکہ یہ قدیم ہندوستان کی ایک دستاویز ہے جو ہمیں اس وقت کے حالات سے آگاہ کرتا ہے۔
ہندوستان اپنی بعض خوبیوں کی وجہ سے ہمیشہ جاذب نظر رہا ہے۔ بہت سی قوموں کا یہاں آکر بس جانا یہاں کی معتدل آب و ہوا اور زرخیزی وجہ رہی۔ بہت سے بادشاہ آکر یہیں آباد ہوگئے اور بہت سے سیاح یہاں کی مہمان نوازی ، علم دوستی اور ادب پروری پر فریفتہ ہو کر دنگ رہ گئے۔
ابن بطوطہ جب بادشاہ کے دربار سے وابستہ ہوا تو سلطان نے نہ صرف ان کی باریابی کی بلکہ ان کی تعظیم و تکریم کا بھی خیال رکھا۔ نہ صرف ان کی بلکہ دربار سے جڑے تمام ادبا و شعر اور علما و فضلا کی قدر دانی ہوتی تھی۔ اس کتاب میں درج ہے کہ محمد بن تغلق نے شمس الدین اندگانی کو اس کے قصیدے کے ہر شعر پر ہزار دینار معاوضہ دئیے۔ برہان الدین کو ان کے کمالات پر چالیس ہزار دینار تحفۃً دیئے۔ پردیسیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔ ان کے متعلق ابن بطوطہ لکھتا ہے :
” بادشاہ ہند محمد شاہ تغلق پر دیسیوں کی تعظیم و تکریم بدرجہ غایت کرتا ہے اور ان سے محبت رکھتا ہے اور بڑے بڑے عہدے ان کو دیتا ہے۔ اس کے بڑے بڑے خواص اور حاجب اور وزیر اور قاضی اور داماد غیر ملک کے باشندے ہیں۔ اس کا حکم ہے کہ پردیسی کو ہمیشہ عزیز کے نام سے پکارا کریں۔ چنانچہ باہر کے لوگ بجائے غریب کے سب عزیز کہلاتے ہیں۔ ” (سفر نامہ ابن بطوطہ مترجم محمد حسین، ص6)
1335ء میں 31 سال کی عمر میں ابن بطوطہ ایشیا کے مختلف شہروں سے گھومتا ہوا ہندوستان کے وادئ سندھ میں پہنچا پھر سندھ سے مختلف علاقوں سے ہوتا ہوا وہ دہلی کے مقام پر پہنچا۔ جہاں دہلی کی رنگا رنگی، دولت کی فروانی اور بادشاہوں کی شان و شوکت دیکھ کر متحیر ہوگیا۔ دہلی میں اپنے قیام پذیری کے دوران اس نے ہندوستان کے مختلف شہروں مثلاً گوالیار، چندیری، امرویہ، قنوج، کول، بجنور، اجین، دولت آباد، کھمبایت، ساگر اور کالی کٹ پہنچا۔ جہاں سے اس نے اپنے معلومات میں اضافہ کیا۔ دورانِ سفر ابن بطوطہ کو بہت ساری دشواریوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ایک تو سفر کی سختی مزید جان و مال کا خطرہ اس کے باوجود اس نے ہمت نہیں ہاری۔ جو ارادہ کیا اسے پایئہ تکمیل تک پہنچا کر دم لیا۔ اس نے جغرافیائی حدود کو عبور کرکے تاریخ رقم کی ہے جس کا اجمالاً ذکر وہ اپنی کتاب میں کرتا ہے جب وہ 1335ء میں وادئ سندھ پر پہنچتا ہے۔
” 734ھ کے ماہ محرم الحرام کی پہلی تاریخ تھی کہ ہم دریائے سندھ پہنچے۔ اس دریا کو پنجاب بھی کہتے ہیں۔ یہ دریا دنیا کے بڑے دریائوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ گرمی کے موسم میں اس میں طغیانی ہوتی ہے اور جس طرح مصر کے باشندوں کی زراعت کا مدار نیل کی طغیانی پر ہے اسی طرح اس ملک کے باشندوں کی زندگی بھی اسی دریا کی طغیانی پر منحصر ہے۔ ” (سفر نامہ ابن بطوطہ ، مترجم : محمد حسین ، ناشر : بک لینڈ کراچی، 1961ء، جلد دوم، ص 2)
دہلی کی چاک و چوبند سے متاثر ہو کر ایک جگہ وہ کہتا ہے :
“یہ ایک عظیم الشان شہر ہے اور اس کی عمارات میں خوبصورتی اور مضبوطی دونوں پائی جاتی ہے ۔ اس کی فصیل ایسی مضبوط ہے کہ دنیا بھر میں اس کی نظیر نہیں اور مشرق میں کوئی شہر خواہ اسلامی ہو خواہ غیر اسلامی اس کی عظمت کا نہیں، بڑا فراخ شہر ہے اور سب آباد ہے۔ “
(اردو سفر ناموں میں ہندوستانی تہذیب و معاشرت از خواجہ محمد اکرام الدین، ص 64)
ابن بطوطہ کی کتاب چودہویں صدی کے ہندوستان کو پیش کرتی ہے۔ یہ ایک ایسی تہذیبی تاریخ ہے جس میں شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک کے احوال کو تفصیلاً درج کیا ہے۔ وہ جغرافیائی احوال کے ساتھ یہاں شادی بیاہ کے رسم و رواج اور ستی پرتھا کو بھی تفصیل سے بیان کرتا ہے۔
کسی بھی ملک کی تہذیب و ثقافت کا دارو مدار وہاں کی معاشیت ، سماجی رنگا رنگی، آب و ہوا ، شادی بیاہ کے رسوم، میت کی تجہیز و تکفین اور حکومت کی دستوری قوانین پر انحصار کرتا ہے جس طرح سے ریاستوں کے بدلنے سے زبانیں بدل جاتی ہیں وہیں تہذیب و تمدن میں بھی نمایاں فرق آجاتا ہے۔ کشمیر سے کینا کماری تک اور بنگال سے گجرات تک مختلف زبانیں اور تہذیبیں پروان چڑھی ہیں۔ ان تمام چیزوں کا بیان ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے اور اس قبیل کے دوسرے سفیروں نے اپنے سفر کے حالات کو معلوماتی سطح پر قلم بند کرنے کی کوشش کی ہیں۔ سفر نامہ خیالات پر نہیں بلکہ حقائق پر مبنی ہوتا ہے۔یہاں انسان کی ذاتی تجربات و مشاہدات اور معلومات و تاثرات کو جگہیں دی جاتی ہیں۔ جس کو سفیروں نے صفحئہ قرطاس پر بکھیر کر آنے والی نسل کے لیے بطور تحفہ ورثہ چھوڑا ہے۔ جس سے موجودہ عہدمیں قدیم عہد کی تاریخ مرتب کی جاتی ہے۔
ابن بطوطہ کا سفر نامہ ایک ایسا آئینہ ہے جس کے اوراق میں گذشتہ صدی کے ہندوستان کا عکس صاف دیکھائی دیتا ہے اس نے دہلی کے سلاطین بالخصوص محمد بن تغلق کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا ہے۔ محمد بن تغلق نے اپنے دورِ حکومت میں جب راجدھانی کو بدل کر دہلی سے دولت آباد منتقل کیا تو اس کے نتیجے میں پیدا شدہ مسائل پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔ یہ ایک ایسی دستاویز ہے جس میں اس وقت کے ہندوستان کے سیاسی، سماجی، تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی ، مذہبی، تاریخی اور جغرافیائی معلومات قلم بند ہیں۔ دنیا میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ہر زبان میں اس زبان کا ادب موجود ہے۔ اس زبان کے اس ادب میں اس قوم کی تہذیب و ثقافت جھلکتی ہے۔ اس طرح سے اردو بھی ایک زبان ہے اور اس زبان میں تحریر اس کا ادب ہے اور اس ادب میں موجود اس کی اپنی تہذیب وثقافت ہے۔
&&
Leave a Reply
Be the First to Comment!