جدید اردو غزل :ایک تعارف

محمدماجد علی شاہ

 ریسرچ اسکالر ، شعبہ اردو

بابا غلام شاہ بادشاہ یونیور سیٹی راجوری جموں و کشمیر

اردو شعر و ادب کا جب مطالعہ کرتے ہیں تب یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اردو شاعری کی مربوط اور ارتقا پزیر تاریخ رہی ہے ۔ یہ ارتقائی سفر کا تاریخ کئی صدیوں پر محیط ہے ۔ ہر عہد میں یہ صنف پوری آپ و تاب کے ساتھ اپنی اہمیت و افادیت کا لو ہا منواتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ ترقی پسندی کے بعد جدید یت کا عہد آتا ہے اور عہد جدیدیت کی شاعری غم و الم سے عبارت رہی ہے ۔ جس میں تنہائی کرب ، شکست و ریخت کو خاص مرکزیت حاصل رہی ہے ۔ اس عہد کی شاعری میں رجائیت کا کہیں بھی عمل دخل نہیں رہتاہے ۔ اس طرح حوصلہ شکنی کے بجائے رجائیت شاعری کا اصل مرکز و محور بنا ۔ اس باعث جدیدیت کا زور کم ہوا اور جدیدیت کے بعد کے عوامل سامنے آئے ۔ اس طرح اس عہد میں اردو شاعری نت نئے امکانات سے مزین ہو کر زندگی سے قریب تر ہوگئی اور اردو شعر و ادب کا دامن وسیع ہوا ۔ اس سلسلے سے یہ اقتباس دیکھئے :

’’ جب جدیدیت اپنا رول ادا کر چکی اور تکرار کی فضا قائم ہو گئی تو پھر لوگ اُب سے گئے ۔ سب سے اہم معاملہ یہ ہوا کہ پڑھنے والے کم ہو گئے فکشن کے بھی اور شاعری کے بھی ۔ تو یہ آواز لگائی جانے لگی کہ کوئی اور صورت پیدا ہونی چاہئے اور یہ صورت مغرب میں پیدا ہو چکی تھی ۔ میں یہاں یہ بات بھی صاف کر دوں کہ معا بعد جدیدیت صرف ادب سے وابستہ نہیں ہے بلکہ سماجیت ، نفسیات اور دوسرے علوم سے اس کا اتنا ہی گہرا رشتہ ہے ۔ ان کے نکات کو اگر آپ ذہن میں رکھیں تو ایسا محسوس ہوگا کہ ۱۹۸۰ء کے بعد کے شعرا جدیدت کے بہت سے مضمرات سے دامن کش ہو گئے ہیں۔ انہیں مابعد جدیدت کی کوئی نہ کوئی شق اپنے حدوں میں لیتی ہے ۔ مابعد جدیدیت کے افکاروآرا اس کے ذہن و دماغ میں کسی نہ کسی طرح جا گزیں ہوتے ہیں۔ ‘‘

بہار میں اردو شاعری ۱۹۸۰ء کے بعد ، ڈاکٹر صوفیہ پروین، ص ۸۳،۸۱

لہذا یہ کہا جائے گا کہ اس عہد کے شاعروں نے اردو غزل کو نئی جہت اور نئے میلانات و امکانات بخشنے میں اپنی قلمی معاونت دی ۔ ان شعر ا میں شاہد جمیل کا نام بھی خاصا اہم ہے ۔ ’’ خوابوں کے ہمسائے‘‘ ان کا شعری مجموعہ ہے ۔ آپ نے اپنی غزلوں میں سیکو لرزم کو خاص مرکزیت عطا کی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ملی اتحاد کے حوالے سے بھی ان کے یہاں بیشتر اشعار ہمیں پڑھنے کو مل جائیں گے ۔ اس سلسلے سے ان کا یہ شعر دیکھئے ؎

ہوا کے رخ پہ لویں متحد نہیں ورنہ

ابھی چراغوں میں ایسا نہیں کہ جان نہیں

اس شعر کے حوالے سے شاہد جمیل نے مسلمانوں کا فرقوں میں بٹ جانے پر اپنی افسردگی کا اظہار کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے چراغ کی لو کے حوالے سے مسلمانوں کو متحد ہو نے پر غور و فکر کی دعوت دی ہے ۔

کوثر مظہری کی غزل اپنی معنویت کے اعتبار سے اپنی خاص اہمیت رکھتی ہے ۔ آپ کی غزلیں کچھ بہتر کی تلاش و جستجو اور انسانی نفسیات کی بہترین ترجمانی کرتی ہیں، لیکن یہاں بھی شعری حسن بر قرار رہتا ہے ۔ اس سلسلے سے آپ کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے ؎

کاش میں سنگ سرراہ کہیں کا ہوتا

اور دنیا مجھے ٹھوکر بھی لگاتی جاتی

آبلہ پا ہوں ادھر دور ادھر منزل ہے

میرے اللہ میں ہوں عزم جواں کا طالب

۱۹۸۰ ء کے بعد غزل گو شعرا میں اسلم بدر کا نام بھی خاصا اہم ہے ۔ آپ کی غزلیہ شاعری موضوع اور فن دونوں اعتبار سے اپنی اہمیت رکھتی ہے ۔ آپ نے اپنی غزل میںدنیا کے مسائل کی پیشکش کے ساتھ ساتھ خدا ئے تعالیٰ کی وحدانیت کا بھی بہت خوبصورت اظہار کیا ہے ۔ اس سلسلے سے یہ اشعار ملاحظہ کیجئے ؎

تری دھوپ بھی ہے سویرا بھی تیرا

مگر مجھ میں روشن اندھیرا بھی تیرا

کھلے ہیں ترے ہفت افلاک مجھ پر

مرے چاروں جانب ہے گھیرا بھی تیرا

ارشد کمال کا شعری مجموعہ ’’ دھوپ کے پودے ‘‘ (۲۰۰۸ء ) میں شائع ہو کر داد تحسین حاصل کر چکا ہے ۔ آپ کے یہاں فکری پہلو زیادہ نمایاں ہے اور آپ کی غزلیہ شاعری ہمیں دعوت فکر دیتی ہے ۔ اس سلسلے سے یہ شعر ملاحظہ کیجئے ؎

کہاں سے چھاؤں ملے گی ہماری نسلوں کو

زمیں پہ دھوپ کے پودے جو ہم اگاتے ہیں

اس شعر کے تعلق سے ہم ارشد کمال کے فکری جذبات سے بخوبی واقفیت حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ پوری انسانیت کو بہتر عمل کی دعوت دیتے ہیں تا کہ آنے والی نئی نسل کو خوشگوار اور ساز گار ماحول مل سکے ۔ کانٹوں کی شاہ راہ پر چلنے سے وہ محفوظ ہیں۔

مخمور سعید ی کے نو شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ جن میں آپ کا فنی اختصاص اور نظریہ حیات جلوہ نما ہے ۔ آپ کی غزلیں ہمیں عصری مسائل سے بہرہ ور کرتی ہیں۔ جن میں درد مندی اور دل سوزی بھی ہے جن سے ہم قارئین آپ کے نظرئیہ فکر سے بخوبی واقفیت حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے سے یہ اشعار دیکھئے ؎

تیز بارش گھر کی دیواروں کو ننگا کر گئی

رنگ سارے دھو گئی ہے کیاکہیں کس سے کہیں

راہ کا پیڑ کہیں ابر کا ٹکرا ہو جاؤں

ہو جہاں دھوپ بہت تیز میں سایا ہو جاؤں

ندا فاضلی کا نام بھی غزلیہ شاعری کے منظر نامے پر اپنی منفرد شناخت رکھتا ہے ۔ آپ کی غزلوں میں آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی ۔ انسان کی محرومی اور بے بسی کا اظہار آپ نے بہت ہی بہترین انداز میں کیا ہے جہاں فنی عناصر کو بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے ۔دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خیالات کی پیشکش اور اسلوب بیان دونوں اعتبار سے آپ کی غزلیہ شاعری اپنی مثال آپ کہی جائیں گی ۔ آپ کی غزلیہ شاعری کا جائزہ ان اشعار سے بخوبی لیا جا سکتا ہے ؎

اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں

رخ ہواؤں کا جدھر کا ہے ادھر کے ہم ہیں

چلتے رہتے ہیں کہ چلنا ہے مسافر کا نصیب

سوچتے رہتے ہیں کس راہگذر کے ہم ہیں

اردو شعر و ادب میں کلیم عاجز کا نام بھی خاصا اہم ہے ۔ آپ نے اردو غزل کو نئی معنویت عطا کی ۔ آپ کی غزلیں آپ کے جذبات و احساسات کی بہترین تر جمانی کرتی ہیں۔ آپ کی بیشتر غزلیں طاقت و جبر کے خلاف صدائے احتجاج کو بلند کرتی نظر آتی ہیں۔ اس سلسلے غزل کا یہ بند دیکھئے ؎

اس ناز اس انداز سے تم ہائے چلو ہو

روز ایک غزل ہم سے کہلوائے چلو ہو

رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں

چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو

ہم کچھ نہیں کہتے ہیں کوئی کچھ نہیں کہتا

تم کیا ہو تمہیں سب سے کہلوائے چلو ہو

ظاہری طور پر یہ شعر عام معنی رکھتا ہے ، لیکن کلیم عاجز نے حکمرانہ طبقہ کے جو روستم کی طرف اس غزل میں ہماری توجہ مبذول کرائی ہے ۔ یہ آپ کا فنی اختصاص کہا جائے گا ۔

سلطان اختر کی شاعری میں عصری حسیت صاف طور سے عیاں ہے ۔ ان کی غزلوں میں انسانی زندگی کے پیچ و خم اور ناساز گاری کو خاص مرکزیت حاصل ہے ۔ صنعتی نظام نے انسانی اقدار کو کس طرح پامال کر دیا ہے اس کی ترجمانی انہوں نے کیا خوب کیا ہے ملاحظہ کیجئے ؎

لوگوں سے بے پناہ تعلق تو ہے مگر

میرے سوا کوئی مجھے پہچانتا نہیں

جو بھی ملتا ہے نہ ملنے کی طرح ملتا ہے

کوئی بھی کھل کے کبھی ملنے ملانے آئے

اس طرح شہر یار کی غزلوں کا جب مطالعہ کر تے ہیں تب ان کے یہاں بھی ہمیں انسانی رشتوں کی پامالی کا شدید احساس ہوتا ہے ۔ آپ کی غزلیہ شاعری کو وقت کی آواز بھی کہا گیا ہے ۔ آپ نے اپنی غزلوں کے حوالے سے قارئین کو جہاں دعوت فکر دی ہے وہیں حوصلہ مند زندگی جینے کی طرف بھی ہماری توجہ دلائی ہے ۔ اس سلسلے سے یہ اشعار دیکھئے ؎

سارے چراغ بجھ گئے سب نقش مٹ گئے

پھر بھی سفر حیات کا جاری ہے کیا کروں

دنیا نے ہر مجاز پہ مجھ کو شکست دی

یہ کم نہیں کہ خواب کا پر چم نگوں نہ تھا

سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے

اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے

فرحت احساس ۸۰ کے بعد کے شاعروں میں اپنی خاص شناخت رکھتے ہیں۔ آپ کے دو شعری مجموعے ’’میں رونا چاہتا ہوں ‘‘ اور ’’ شاعری نہیں ہے یہ ’’ منظر عام پر آچکے ہیں۔ آپ کی غزلیہ شاعری میں زندگی کے نئے تقاضوں سے ہم آہنگی اور اپنی تہذیب سے جڑے رہنے کو فوقیت حاصل ہے ۔ جس کا جائزہ ان اشعار سے لے سکتے ہیں ؎

جو لوگ حاد ثات کے ڈر سے گھروں میں بیٹھے ہیں

انہیں کبر ہو کہ گھر میں بھی موت آتی ہے

اندر کے حادثوں پہ کسی کی نظر نہیں

ہمر مر چکے ہیں اور ہمیں اس کی خبر نہیں

عین تابش کی غزل بھی ہمیں زندگی کے پیچ و خم سے آگاہ کر تی ہے ۔ یہ شعر دیکھئے ؎

اسی قدر ہے حیات و اجل کے بیچ کا فرق

یہ ایک دھوپ کا دریا وہ اک کنارہ شام

عین تابش نے دھوپ کا دریا اور کنارہ شام کو حیات اور موت کے اشارے کے لئے استعمال کیا ہے ۔ آپ نے زندگی کو دھوپ کا دریا کہہ کر زندگی کے مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے اور لفظ کنارہ شام کے حوالے سے ہمیں یہ بتانے کی سعی کی ہے کہ زندگی کی کڑی دھوپ سہ لینے کے بعد ایک خوش نما شام بھی ہمارے لئے منتظر ہوتی ہے ۔ یہاں شعری حسن بھی ہے اور سادگی بیان بھی ۔

خور شید اکبر کا دو شعری مجموعہ ’’ سمندر خلاف رہتا ہے ‘‘ اور ’’ بدن کشتی بھنور خواہش ‘‘ منظر عام پر آکر قبولیت حاصل کر چکا ہے ۔ آپ کے یہاں رجائی انداز دیکھنے کو ملتا ہے ۔ آپ نے اپنی غزلوں میں زمانے کی ناہمواریوں کا ذکر بھی کیا ہے ، لیکن اس پیشکش میں حوصلہ مندی ہے قنوطیت نہیں۔ لہذا یہ کہا جائے گا کہ آپ کی غزلیہ شاعری تقاضائے وقت کی شاعری ہے ۔ اس ضمن میں یہ شعر دیکھئے ؎

یہ کیسا شہر ہے میں کس عجائب گھر میں رہتا ہوں

میں کس کی آنکھ کا پانی ہوں کس پتھر میں رہتا ہوں

ان غزل گو شعرا کے علاوہ علیم اللہ حالی ، عطا عابدی ، عالم خور شید ، محبوب راہی ، علیم صبا نویدی ، مہدی پرتاپ گڑھی ، کرشن کمار طور، ملک زادہ جاوید ، سہیل اختر ، عبد الاحد ساز اور ف۔ س۔ اعجاز کا نام بھی خاصا اہم ہے ۔ جن کا قلم اردو غزل کی آبیاری میں مصروف ہے ۔

*************

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.