اردو تنقید کا ایک معتبر نام : کلیم الدین احمد

محمد غفران انظر

لونگین، گڈا، جھارکھنڈ

Urdu Tanqeed ka ek Mutabar Nam …. by MD GHUFRAN ANZAR

اردو ادب میں کلیم الدین احمد کی شناخت کئی پہلو سے قائم ہے ۔ ایک ناقد ، ایک شاعر اور سوانح نگار کی حیثیت سے انہوں نے کئی قیمتی تخلیقات سے قارئین ادب کو مالا مال کیا ہے ۔ اردو ادب میں انہوں نے اپنا ادبی آغاز ’’گل نغمہ‘‘ سے کیا ۔ ’’ گل نغمہ‘‘ ان کے والد ڈاکٹر عظیم الدین احمد کا مجموعہ کلام ہے جس کا مقد مہ کلیم الدین احمد نے لکھا اور ۱۹۳۹ ء میں یہ شائع ہو کر ادبی حلقے میں داد تحسین حاصل کر چکا ہے۔ اسی مقدمے میں کلیم صاحب نے یہ جملہ ’’ غزل نیم وحشی صنف سخن ہے ‘‘ رقم کیا تھا ۔ ان کی تنقیدی کتابوں میں اردو شاعری پر ایک نظر( ۱۹۴۰) ، اردو تنقید پر ایک نظر (۱۹۴۲)، اردو زبان اور فن داستان گوئی (۱۹۴۴ء) سخن ہائے گفتنی (۱۹۵۵ء) ، اقبال ایک مطالعہ، تحلیل نفسی اور ادبی تنقید کے اصول ( ۱۹۴۸ء)سخن ہائے ایک نظر ( ۱۹۴۰ء) اور عملی تنقید (۱۹۶۳ء) ہیں۔ یہ تمام کتابیں ان کے تنقیدی شعور کا پتہ دیتی ہیں۔ کلیم الدین احمد کا تنقید کے میدان میں یہ اختصاص رہا کہ انہوں نے خواہ اصناف سخن ہو یا شعرائے ادب سبھوں کے متعلق اپنے نظریہ نقد سے قارئین ادب کو رو برو کرایا ہے ۔ جس کا مثبت اثر یہ ہوا کہ اردو تنقید کو ایک نیا رنگ و آہنگ اور نئی شاہ راہ ملی ۔ جہاں جانبداری اور تعصب پسندی کو کوئی دخل حاصل نہیںتھا ۔ بلکہ وضاحت اور صفائی کے ساتھ نظرئیہ فکر اور تنقیدی نقطہ نظر کی پیشکش پر زور تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تنقید نگاری کی اہمیت کا اعتراف جس طرح پہلے کیا گیا تھا وہ سلسلہ آج بھی قائم ہے ۔ مختصر یہ کہ کلیم الدین احمد نے اردو تنقید کو معروضی اور تجزیاتی شعور سے ہمکنار کیا ۔ اس کی خاص وجہ ہے کہ کلیم الدین احمد نے اپنی تنقیدی نگارشات کے حوالے سے اس پہلو کا انکشاف کیا کہ ’’ قاری کو تنقید کے اہم اور ذمہ دار اغراض کی طرف متوجہ کیا جائے۔‘‘ اردو تنقید کے حوالے سے کلیم الدین احمد کا نظریہ خاصا معیاری اور جامع ہے ۔ تنقید کے سلسلے سے وہ فرماتے ہیں کہ :

’’ تنقید کوئی کھیل نہیں ہے جسے ہر شخص بہ آسانی کھیل سکے ۔ یہ ایک فن ہے ، ایک صناعی ہے ، فن تو ہر طرح کے ہوتے ہیں ، مشکل بھی اور آسان بھی ، تنقید مشکل ترین فن ہے ۔ ہر فن کی طرح اس کے بھی اصول و ضوابطہ اور اغراض و مقاصد ہیں۔ ‘‘

اردو تنقید پر ایک نظر ، کلیم الدین احمد ، ص۔ ۱۶

ادبی حلقے میں جب کلیم الدین احمد کے نظریہ تنقید سے لوگ رو برو ہو ئے تو یہ بات بلا تامل تسلیم کیا جانے لگا کہ تنقید کا اصل مقصد ادبی تخلیقات کو سمجھنا ، پرکھنا اور معروضی انداز میں سمجھا نا ہے ۔ تنقید کا مطلب یہ نہیں کہ تنقید نگار اپنی پسندیدہ شخصیت کی ادبی تخلیق کا یا نظریے کا تحسین و تشہیر کر ے ۔ تنقید کے علاوہ غزل کے حوالے سے بھی کلیم الدین احمد نے اپنے نظریہ نقد سے قارئین ادب اور مکتبہ فکر کو رو برو کرایا ، اس ضمن میں انہیں مغرب زدہ بھی قرار دیا گیا ، لیکن ان سب سے الگ ہٹ کر ان کے تنقیدی نقطہ نظر کے ہم معترف ہیں کیوں کہ یہاں کسی طرح کا ابہام نہیں ملتا بلکہ کلیم الدین احمد کا اختصاص یہ رہا ہے کہ انہوں نے اردو تنقید کو ادب کے عالمی معیار وں سے روشناس کرایا ۔ انہوں نے اپنی تنقید کے حوالے سے ادبی خوبیوں ، تجربات کی اہمیت ، اسلوب کی تاثیر اور دلکشی پر مزید روشنی ڈالی ۔ کلیم الدین احمد غزل کے تعلق سے رقم طراز ہیں :

’’ غزلوں کے ناموزوں سیلاب کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی نئی دنیا میں جا پہنچے ہیں جہاں کا ائین ، جہاں کا نظام بالکل علاحدہ ہے ۔ بے ربطی اور پرا گندگی کا نام و نشان نہیں۔ پراگندگی اور انتشار کے بدلے تعمیری یکسانی ہے ۔ ہر شعر ایک دوسرے سے بے نیاز نہیں ۔ بہ اعتبار معنی ایک دوسرے کا محتاج ہے اور خیالات کی تکمیل اختتام قطع سے پہلے ممکن نہیں ۔‘‘

اردو شاعری پر ایک نظر حصہ اول ، کلیم الدین احمد ، ص۔ ۹۰

اس اقتباس کی روشنی میں یہ کہا جا ئے گا کہ کلیم الدین احمد غزل میں نظم و ربط پر خصوصی توجہ چاہتے ہیں۔ مختصر یہ کہ کلیم الدین احمد کے لئے خیال اور ارتقائے خیال غزل کے لئے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ اپنی تنقیدی تصنیف ’’ اردو شاعری پر ایک نظر ‘‘ میں جہاں غزل کے حوالے سے کلیم الدین احمد نے اپنا تنقیدی نظریہ پیش کیا ہے وہیں قصیدہ ، مرثیہ اور مثنوی کے تعلق سے بھی اپنے خیالات اور نظریات سے قارئین کو رو برو کیا ہے ۔ قصیدہ کے تعلق سے فرماتے ہیں :

’’ پہلی بات تو یہ ہے کہ قصیدہ کی غرض و غایت کسی کی تعریف ہوتی ہے اور وہ بھی نہایت مبالغہ آمیز کسی بادشاہ یا کسی امیر کی تحسین مد نظر ہوتی ہے اور یہ تحسین اس بادشاہ یا اس امیر کے عدل یا جودو سخاوت سے متاثر ہو کے نہیں بلکہ نفع کی امید میں کی جاتی ہے ۔ کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ شاعر قصیدہ کو اظہار عقیدت کا ذریعہ ہوبناتا ہے ۔ اس طرح قصیدہ میں مذہب اور مذہبی عقائد کی رنگ آمیزی ہوتی ہے ، لیکن یہ رنگ آمیزی کسی گہرے پر جوش مذہبی جذبہ سے متاثر و مجبور ہر کر نہیں ہوتی اس قسم کے قصیدوں میں عقیدت کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ قصیدے مذہبی رنگ میں رنگ ہو ئے ہوں یا دنیا وی آلا یشوں سے ملوث ہوں غرض وہ کسی قسم کے کیوں نہ ہوں ان میں تمام آورد ہوتی ہے ۔ ‘‘

اردو شاعری پر ایک نظر حصہ اول ، کلیم الدین احمد ، ص۔ ۴۲۔۲۴۱

اس اقتباس کی روشنی میں یہ کہا جائے گا کہ کلیم الدین احمد نے قصیدے کی جن کمزوریوں کا تذکرہ کیا ہے ان کی نشاندہی دوسرے تنقید نگاروں نے بھی کی ہے ۔اس کے علاوہ قصیدے کے تعلق سے اس بات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ اس کے شعروں میں خوب گہرا ربط و تسلسل نہیں ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس وہ اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ قصیدہ نگار کے زور ادراک کا مرکز الفاظ ہوتے ہیں۔ وہ نئے نئے الفاظ ڈھونڈ نکالتا ہے اور نئی بندشیں اور ترکیبیں ایجاد کرتا ہے ۔ مطلب یہ کہ قصیدہ گوئی بنیادی طور پر اسلوبی طمطراق کی شاعری ہے جسے کلیم الدین احمد نے قابل اعتراف کہا ہے ۔

اصناف سخن کے بعد کلیم الدین احمد نے ادیب و شاعروں آزاد ، حالی ، شبلی ، اقبال ، اکبر ، شوق چکبست ، جوش ، مجاز ، فیض اور اختر شیرانی کی ادبی و شعری خدمات کے سلسلے بھی اپنی قیمتی رائے سے قارئین کو نواز ا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کلیم الدین احمد اپنی تنقیدی نگارشات کے حوالے سے تنقید کی مروجہ روایتوں کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اردو تنقید کے اغراض و مقاصد پر بھر ور روشنی بھی ڈالی ہے ۔ ان کے تنقیدی اسلوب میں کسی طرح کی پیچید گی نہیں بلکہ سادگی اور صفائی موجود ہے ۔ ان کی تنقید اور تنقید کے لئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ کلیم الدین احمد کی تنقید نگاری کے تعلق سے پروفیسر آل احمد سرور رقم طراز ہیں :

’’ پروفیسر کلیم الدین احمد ہمارے چوٹی کے نقادوں میں سے ہیں۔ میں انہیں ایک بہت اہم نقاد ہی نہیں ، تنقید کا ایک بہت اچھا معلم بھی سمجھتا ہوں۔ نقاد کا کام صرف بت گری نہیں بت شکنی بھی ہے اور کلیم الدین احمد نے بہت سے بت توڑے ہیں۔ ان کی کتابوں میں اردو شاعری پر ایک نظر فن داستان گوئی اور تنقید پر ایک نظر اور عملی تنقید بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ وہ تنقید کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں اور سانس لینے کی طرح اسے ضروری سمجھتے ہیں۔ کلیم الدین احمد کی تنقید ہمارے افق ذہنی کو وسیع کرتی ہے ہمیں طرف داری کے بجائے سخن فہمی کے آداب سکھاتی ہے اور ادب کی مخصوص بصیرت اس کی تنظیم اس کے حسن اس کی اعلیٰ سنجید گی اس کی قدروں کی تلاش اور زندگی میں اس کی اہمیت اور معنویت کی طرف اشارہ کر کے اس کی ایک ضروری تہذیب اور سماجی فرض انجا دیتی ہے۔‘‘

کلیم الدین احمد کی ادبی خدمات، ڈاکٹر عبد المالک ، ص۱۹۔ ۲۱۸

تمام باتوں کی روشنی میں ہم یہ کہیں گے کہ تمام نکتہ چینیوں اور اعتراضات کے باوجود کلیم الدین احمد کے ناقدانہ مزاج و اسلوب نے اپنا گہرا اثر چھوڑا ہے ۔ یہ بھی کہا جائے گا کہ موجودہ تنقیدی مزاج و اسلوب کی سمت نمائی انہوں نے جس غیر جانبدارانہ شعور اور ہمت و استقلال کے ساتھ کی ہے وہ قابل ستائش ہے ۔

MD GHUFRAN ANZAR

S/O HAJI KAREEM SB, AT& POST. LOUGAIN

P.S MAHAGAMA

DISTT. GODDA

JHARKHAND . PIN 814154

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.