انگریزی ڈرامہ نگاری کا آغاز وارتقاء
محمد انس
ریسرچ اسکالر ، ہندوستانی زبانوں کا مرکز، جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی، دہلی
Angrezi Drama Nigari ka Aghaz wa Irteqa by Mohammad Anas
ڈرامہ پیش کئے جانے کے لئے لکھا جاتا ہے۔ ڈرامے کا رشتہ اسٹیج سے ہے یا قلم اور ٹیلی ویژن سے ہے۔ اس میں کسی کہانی یا واقعے کو ادا کاروں کے ذریعے ناظرین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔
ابتداء میں ڈرامہ تفریح کے لئے کھیلا جاتا رہا دھیرے دھیرے وقت گزرنے کے ساتھ یہ خوب سے خوب تر ہوتا چلا گیا اس میں سماجی اور معاشی مسائل کو بھی پیش کیا جانے لگا یہ بات صحیح ہے کہ ڈرامے کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن تحریری طور پر ڈرامہ بہت بعد میں وجود میں آیا۔
انگلینڈ میں ڈرامے کی تاریخ بہت واضح نہیں ہے البتہ اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ جب رومن انگلستان میں رہے تو انھوں نے بڑی بڑی تماشا گاہیں اور اسٹیج تعمیر کئے جہاں ڈرامے پیش کئے جاتے ہیں جب رومن واپس گئے تو ان کی سرپرستی میں چلنے والے تھیٹر بھی واپس چلے گئے رابرٹ ہنٹگٹن فلیچر (Robert Huntington Fletcher) اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔
” At the fall of roman empire, which marks the beginning of the middle ages, the corrupt roman drama proscribed by the church had come to an unhonoured end” (A history of english literature R.G. Badger 1919 P-36)
گرجاگھر ڈرامے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے پھر بھی یہ گر جاگھر تھے جو انگلستان میں ڈرامے کی واپسی کا سبب بنے۔ پادریوں کو اس کی مقبولیت کا احساس تھا انھوں نے اسی سے استفادہ کیا اور مذہبی افکار کی ترویج کے لئے لوگوں کو تماشے دکھانے لگے۔
اس طرح غیر شعوری طور پر چرچ نے ڈرامے کو بہت تقویت پہنچائی۔ ساتویں صدی سے لے کر گیارہویں صدی تک جو ادبی سرمایہ ہم تک پہنچاہے وہ عیسائی پادریوں کا کارنامہ ہے یہ دور اینگلو سیکشن ادب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ابتدائی دور کے ڈراموں کو ”Mystry Plays” اور ”Miracle Plays”کہتے ہیں۔
”Mystery Plays” توریت اور انجیل کے واقعات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ”Miracle Plays” اس میں سینٹ اور بزرگ پادری کا ذکر ہوتا ہے۔ اس دور کے چار مشہور مجموعے چسٹر (Chester) کوونٹری (Coventry) یارک (York) اور نائونلے (Townley) بہت اہم ہیں۔ یہ ابتداء سے لے کر قیامت تک کے واقعات پر مشتمل ڈراموں کا سلسلہ ہے۔ اس میں ڈرامائی فنکاری کے ساتھ مذہبی سوزوگداز بھی پایا جاتا ہے اسی دور میں اخلاقی ڈرامے بھی وجود میں آئے اس میں توریت اور انجیل کے کرداروں کی جگہ اخلاقی شخصیتیں لائی گئیں اس طرح سے انفرادی کردار نگاری کی بنیاد پڑی۔اخلاقی ڈراموں میں”The castle of perseverence” اور ”Everyman”ایک شاہکار ہے۔
رفتہ رفتہ مذہبی ڈراموں کی جگہ اخلاقی ڈرامے نے لے لی اور پندرہویں صدی کے آخر تک آتے آتے معجزاتی ڈرامے (Miracle plays) نا پید ہوگئے۔ 1530ء کے بعد نشاۃ الثانیہ (Renaissance) کا دور شروع ہوا۔ مذہبیت کے بعد اب دنیاوی زندگی کو اہمیت دی جانے لگی۔ مذہب اور اخلاق کے بعد زندگی اور سماج موضوع بن گئے۔ اٹلی اس دور کی تحریک کا مرکز تھا یورپ کے دوسرے ممالک ادب، مصوری، سنگ تراشی، موسیقی اور دوسرے فنون میں اس کی نقل کرنے لگے۔ انسانی ذہن کو آزادی دی گئی دوسری طرف علم وفن اور تفریحی مشاغل کو تقویت حاصل ہوئی۔
1550ء کے بعد انگریزی ڈرامے نے بڑی تیزی سے ترقی کی۔ اس وقت ڈرامے کی کمپنیاں اور پیشہ ور ادا کاروں کی ٹولیاں قائم ہوچکی تھیں یہ ایک شہر سے دوسرے شہر ڈرامے دکھاتے پھرتے تھے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کلاسیکی ڈرامے مقبول تھے۔
1561ء میں انگریزی کا پہلا المیہ ڈرامہ ”Gorboduc” پیش ہوا۔ تھامس سیکول (Thomas Sackville) تھامس نارٹن (Thomas Norton) اس کے مصنفین تھے۔ اس دور میں مزاحیہ ڈرامے لکھے گئے جن کو انٹرلیوڈ (Interlude) کہا جاتا ہے۔ جان ہے وڈ (John Heywood) کے انٹر لیوڈ”Witty & witless” اور ”A play of love” بہت دلچسپ ہیں۔ اس کے علاوہ ”The play of weather” اور ”The four P’S” اس دور کے اہم ڈرامے ہیں۔
اس دور میں ڈرامے کو شاہی سرپرستی بھی حاصل ہوئی۔ ادا کاروں کی اتنی اہمیت تھی کہ وہ ملکہ کے دربار سے وابستہ تھے۔ جان لیلی (John Lyly)، جارج پیل (George Peele)، رابرٹ گرین (Robert Green)، تھامس کڈ (Thomas Kyd) اور کرسٹوفر مارلو (Christopher Marlowe) ان کو یونیورسٹی وٹس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
انھوں نے ڈرامے کے فن اور اسلوب میں جو جدتیں پیدا کیں وہ اس دور کا ایک نمونہ ہے، جان لیلی کے خاص ڈراموں میں ’’Saphox Phao‘‘، ’’Endymion‘‘،’’Midas‘‘، ’’Mother Bombie‘‘، اور ’’The woman in the moon‘‘ مشہور ہیں۔ پپل کا پہلا ڈرامہ ’’The arraignment of paris‘‘ ہے جو دیومالا پر مشتمل ہے اس کا سب سے مشہور ڈرامہ ’’The old wive’s tale‘‘ ہے یہ ایک رومانی داستان ہے۔
پپل ایک شاعر تھا لیکن اپنے دور کے رواج کے زیر اثر اس نے ڈرامے لکھے۔ رابرٹ گرین ایلزبتھ دور کا ہر فن مولا ادیب تھا۔ Friar Bacon اس کا مشہور ڈرامہ ہے۔ اس میں جادوگروں کو بادشاہوں اور درباریوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ James IV گرین کا آخری ڈرامہ ہے۔
تھامس کڈ کا ڈرامہ Spanish Tragedy دور ایلزبتھ Elizabeth کے شاہکاروں میں سے ایک ہے جو انگریزی ڈراموں میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ The Jew of Malta، Faustus، Tamburlaine اور Edward 2کرسٹوفر مارلو کے مشہور ڈرامے ہیں۔”Tamburlaine” تیمور لنگ پر مبنی ڈرامہ ہے۔ یہ مارلو کا پہلا شاہکار ہے۔ The jew of maltaایک لالچی اور عیار یہود کے جذبۂ انتقام کی کہانی ہے۔
Edward 2 پہلی دفعہ تاریخ کو ڈرامے میں پیش کیا گیا ہے۔ مارلو اپنے دور کا بڑا فنکار تھا اس نے نشاۃ الثانیہ کے ڈرامے کو اخلاقی اور تمثیلی ڈرامے سے نکال کر نئے موضوعات اور رزمیہ سے روشناس کیا۔ مارلو اور کڈنے سب سے پہلے نشاۃ الثانیہ کے ڈرامہ نگاروں کو المیہ کا شعور دیا۔ انگریزی ڈرامے کی تاریخ میں سب سے منفرد نام شیکسپئر کا ہے۔ حیات اور کائنات کے مطالعہ اور انسانوں کے جذبات واحساسات کی ترجمانی کرنے والوں میں شیکسپئر ایک منفرد اور نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ اس نے تاریخی رومانی اور المیہ ڈرامے لکھے۔ شیکسپئر کا ڈرامہ ”Richard 2”، ”Richard 3”، ”Henry 4”، ”Henry 5” انگریزی تاریخ کا رزمیہ کارنامہ ہے۔
رومانی ڈراموں میں ”A midsummer nights dream” شیکسپئر کا شاہکار مانا جاتا ہے، طربیہ ڈراموں میں ”As you like it” اور ”Twelfth Night” مشہور ہیں۔ ”Love’s Labour Dost” شیکسپئر کا پہلا طربیہ گیا۔ اس کے ڈراموں میں المیہ اور طربیہ عناصر ملے جلے ہوتے ہیں۔سترہویں صدی کے آغاز میں لکھے گئے۔ ”Hamlet”، ”Othello”، ”Macbeth”، ”King Lear”، ”Antony & Cleopatra” اور ”Coriolanus” شیکسپئر کے مشہور المیہ ڈرامے ہیں۔
ڈاکٹر احسن فاروقی شیکسپئر کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
’’شاید ہی دنیا کا کوئی ادیب ہو جس کی تخلیقی قوت شیکسپئر سے زیادہ زبردست ہو اس کا ہر ڈرامہ ایک نئی دنیا بناتا ہے جس کا جغرافیہ، روایت، افراد تاثرات اور زبان بالکل الگ ہے۔ ہر ڈرامہ ایسی مکمل تصویر ہے جس میں ہر طرح کے رنگ نہایت خوبی سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں‘‘۔ (محمد احسن فاروقی ’تاریخ ادب انگریزی‘ مقتدرہ قومی زبان 1986ء، ص:190)
یہ انگریزی ڈرامے کی تاریخ کا ایک زریں دور تھا جس نے دوسرے ادب کو بھی فیض پہنچایا۔
****
Leave a Reply
Be the First to Comment!